Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

محدب شیشہ

مسعود مفتی

محدب شیشہ

مسعود مفتی

MORE BYمسعود مفتی

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسےسادہ لوح اسکول ماسٹر کی کہانی ہے، جو مسجد میں امام صاحب کی وعظ سے متاثر ہو کر ایک بیوہ عورت کی مدد کرنےلگتا ہے۔ بستی کے کچھ لوگ اس کی اس مدد کو دوسری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسکول ماسٹر کو جب اس بات کا پتہ چلتا ہے تو وہ ہر کسی کو اپنی صفائی دیتا ہے،لیکن کوئی اس کی بات پر یقین نہیں کرتا۔ پڑوسی عورتیں بیوہ کے ساتھ برا برتاؤ کرنے لگتی ہیں۔ اس سے افسردہ ہوکر وہ بستی چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ جانے سے قبل وہ ماسٹر صاحب سے مل لینا چاہتی ہے۔ جب وہ ان کے گھر پہنچتی ہے تو ماسٹر صاحب اپنی چارپائی پر مرے پڑے ملتے ہیں۔

    زکوۃ کا مہینہ تھا۔ قصبے کی مسجد میں مولوی صاحب جمعہ کاوعظ کر رہے تھے۔

    ’’یتیم، مسکین اور بیوائیں عرش کا سہارا ہیں۔ ان کے سر پر ہاتھ دھرو۔ اپنی کمائی میں سے ان کو حصہ دو۔۔۔‘‘

    سامنے نمازیوں کی قطاریں خاموشی میں غرق تھیں۔ کچھ دیوار یا کھمبے کے سہارے اونگھتے ہوئے، کچھ پنکھے کی ڈنڈی یا کھڑے گھٹنے پر نیند بھرا سر ٹکائے ہوئے۔ کچھ کھلی آنکھوں سے سوئے ہوئے۔ حافظ عمر دراز کی آنکھیں بند تھیں۔ دماغ سویا ہوا تھا۔ ہونٹ باہم چپکے ہوئے تھے۔ لیکن ہاتھ جاگ رہے تھے۔ جو بڑی تیزی سے تسبیح کر رہے تھے۔ مکمل جاگنے والوں میں بشیر سبزی فروش کے دماغ میں منڈی کے بھائو کھد بد مچارہے تھے۔ ڈاک خانے کے بابو کے ذہن میں تنخواہ اور اخراجات باہم کشتی لڑ رہے تھے۔ اور لاریوں کے اڈے والے منشی کے دماغ میں صبح آٹھ بجے کی لاری میں گزرنے والی عورت کا خوبصورت چہرہ گھوم رہا تھا۔ مگر ماسٹر برکت علی گردن اٹھائے وعظ کا ایک ایک حرف غور سے سن رہا تھا اور جب مولوی صاحب نے منبر سے کچھ آگے جھک کر کہا،

    ’’بیوہ کی ایک آہ سات آسمانوں میں سوراخ کر دیتی ہے۔ ایسی بیوہ کی ایک دفعہ مدد کرنے والے کو ستر ہزار نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ او روہ سیدھا جنت میں جاتا ہے۔‘‘ تو ماسٹر برکت علی کا سارا جسم ایک دم کانپ اٹھا اور پکڑی سر پر جماتے ہوئے وہ بلند آواز میں پکارا، ’’بخشنا مجھے میرے مولا۔‘‘

    ماسٹر برکت علی قصبے کے ان چند لوگوں میں سے تھا۔ جو خواہش سے نہیں بلکہ محض اتفاق سے میٹرک پاس کر لیتے ہیں۔ اس قصبے میں سرکار کی تعلیمی سرگرمیاں چار جماعتوں کے بعد ختم ہو جاتی تھیں اور چیچک زدہ چہرے کی طرح اپلے تھپا پرائمری سکول اپنی بوسیدہ چھتوں کے نیچے سے دن بھر پہاڑوں کے الاپ براڈکاسٹ کیا کرتا۔ اس سکول میں چند سال زبردستی گزارنے کے بعد گاؤں کے بچے یا تو ڈھیلی دھوتیا ں اور گومڑ سی پگڑیاں باندھ کر لٹھ لیے مویشی ہنکارتے رہتے یا گھر کے دروازے کی چوکھٹ پر تھالی میں چھوٹی سی دوکان سجا کر قسمت آزمائی کرنے کے بعد کھیتوں میں دھکیل دئیے جاتے اور یا کوئی بھولا بھٹکا انگریزی کا قاعدہ اٹھا کر فالتووقت میں ماسٹر برکت علی کے پاس آن بیٹھتا۔ پہلے قاعدے کے کونے مڑتے پھر اوپر والا صفحہ رنگ بدلتے بدلتے حروف چھپا لیتا اور جب ایک روز وہ غائب ہو جاتا تو طالب علم کو اگلی جماعت میں چڑھا دیا جاتا تھا۔ جہاں پھر ایک موٹا قاعدہ خریدا جاتا۔ چارپانچ قاعدوں پر طبع آزمائی کرنے کے بعد طالب علم چونگی کا محرر یا ڈپو کا ملازم، یا عرضی نویس بننے کے قابل ہو جاتا۔ ماسٹر برکت علی کے مکان کے باہر والے کمرے کے دروازے پر پہلے چاک سے اور پھر کوئلے سے ’’انگریزی کالج‘‘ لکھاہوا تھا۔ حالانکہ یہاں الف آم، بے بلی بھی اتنی ہی شدت سے پڑھایا جاتا تھا جتنا سی اے ٹی۔ کیٹ۔ درجن بھر کے قریب طالب علم یہاں ہمیشہ رہتے تھے اور جب چھٹیوں میں شہر جا کر پڑھنے والے طالب علم گاؤں آتے تو والدین ان کو بھی عارضی طور پر ماسٹر برکت علی کا شاگرد بنا دیتے تھے۔ تا کہ ان کی کمزور انگلش درست ہو سکے۔ فیس اور شاگردانہ خدمات سے اس کا گزارہ اچھا چل جاتا تھا۔

    ماسٹر برکت علی چھریرے جسم کا لمبا آدمی تھا۔ عمر چھتیس سال۔ لمبوترا سا دبلا چہرہ، جس کے رخساروں کی جگہ دو نمایاں گڑھے قبل از وقت آنے والی جھریوں کو ہضم کر رہے تھے۔ اونچی شفاف پیشانی کے نیچے دو ذہین آنکھیں شفقت بھری مسکراہٹ سے لبریز رہتی تھیں۔ آنکھوں کے باہر کونوں میں سورج کی شعاعوں کی مانند باریک سلوٹیں تھیں جو ہنستے وقت بڑی نمایاں ہو جاتی تھیں۔ سیدھی ستواں ناک، پتلے ہونٹ، اور بشاش چہرہ، سر پر خاکی کلاہ کے گرد سفید ململ کی پگڑی جس کا شملہ کلف کی مقدار کے مطابق رکوع وسجود کرتا رہتا۔ دھاری دار قمیص اور ڈھیلی سی شلوار کے نیچے دھول سے اٹے ہوئے بوٹ جن کے کھلے ہوئے جبڑوں کو تہوار کے موقع پر تسمے سمیٹ لیتے۔ جو چند دنوں کے بعد اپنی موت آپ مرجاتے اور پھر برساتی مینڈکوں کی طرح اگلے تہوار کو دوبارہ جنم لے لیتے۔

    ماسٹر برکت علی لائق تو اتنا ہی تھا جتنا الماری میں گرد جمی کتابوں کے ڈھیر والا آدمی ہو سکتا ہے لیکن اس کی شرافت اور نیکی کا قصبہ بھر مداح تھا۔ وہ زندگی کی سیدھی سڑک پر چلتا آیا تھا۔ جس میں نہ کبھی موڑ آیا تھا، نہ کھڈ۔ جس کے قریب نہ کبھی رومان کے چشمے پھوٹے، نہ جذبات کی دھوپ چھائوں نے آنکھ مچولی کھیلی۔ نہ کبھی حالات کی کنکریاں چبھیں۔ نہ قسمت نے روڑے اٹکائے۔ ایک دفعہ شادی ہوئی تھی تو سات سے زندگی کی ڈگر پر چل پڑا تھا۔ جب سے اس نے قصص الانبیاء میں پڑھا تھا کہ قیامت کے روز بخشش کا سب سے آسان طریقہ خدا کے بندوں کی خدمت کرنا ہے۔ اس روز سے اس نے عہد کرلیا تھا کہ اپنی زندگی سکول کے لیے خصوصاً اور خدمت خلق کے لیے عموماً وقف کر دےگا۔ تاکہ لوگوں کو سدھار سکے۔ اسی لیے بیوی کی وفات کے سات سال بعد بھی اپنے آپ کو دوبارہ شادی پرآمادہ نہ کر سکا تھا۔ کیونکہ بیوی اس کے اس عہد میں حائل ہوتی۔ اس کے بعد تو وہ گھڑی کا پرزہ بنگیا تھا۔ زندگی یکایک معمول کے مطابق گزر رہی تھی۔ جیسے گاڑی اپنی پٹڑی سے بال برابر بھی ادھر ادھر نہیں ہٹتی۔ روزانہ صبح نماز مسجد میں جاتے وہ پہلی صف میں منبر کے قریب بیٹھا گنگناتے ہوئے درود شریف پڑھ رہا ہوتا۔ کوشش سے مولوی صاحب کے پیچھے نماز میں جگہ لیتا تاکہ تکبیر پڑھنے کا موقعہ مل سکے۔ دعامیں سب سے بلند ’’آمین‘‘ پکارتا۔ نمازی چلے جاتے تو وہ ایک سو مرتبہ آیت کریمہ کا ورد کرتا۔ محراب کی خاک ماتھے پر لگاتا اور باہر نکلنے کے لیے جوتا جھاڑتے ہوئے پکا ر اٹھتا، ’’بخشنا مجھے میرے مولا۔‘‘ بعد ازاں ادھر ادھر تھوکتا ہوا درود تاج پڑھے ہوئے گھر لوٹتا۔ اور کھڑکی میں بیٹھ کر کشمیری لکڑی کے رسل اور ساٹن کے نیلے جزدان کو چوم کر ماتھے پر لگاتا اور کلام پاک کھول کر سورہ یٰسین اور ایک رکوع کی قراء ت نہایت انہماک سے کرتا۔ اس کے بعد کیکر کی تازہ مسواک لے کر دروازے پر بیٹھ جاتا۔ اور آخ تھو، کا شور کرتے ہوئے ہر آنے جانے والے کو جھکی نظروں سے یا آنکھوں کے کونوں سے جھانکا کرتا۔

    ’’کدھر چلی ہو، ماسی سویرے سویرے‘‘ وہ ہر گزرنے والی بوڑھی سے سوال کرتا۔ بوڑھیاں بھرے سرسوں کے کھیت کی مانند کھل اٹھتیں۔ دعائوں کی قطار بکھیر دیتیں اور فوری مقصد کے ساتھ ساتھ اس کے متعلقہ سب حالات کا کچا چٹھا بیان کرتے کرتے گلی کا موڑ مڑ جاتیں۔

    کوئی جوان لڑکا ادھر سے آنکھیں ملتا گزرتا تو ماسٹر برکت علی پیار سے فہمائش کرتا ’’میاں اور نہیں تو کم ازکم صبح نماز ہی پڑھ لیا کرو۔ دن کو نیکی سے شروع ہو۔‘‘ اور لڑکے عجیب عجیب بہانے تراشتے گلیوں کی بغلوں میں گھسنے کی کوشش کرتے غائب ہو جاتے۔

    مسواک کرتے کرتے سورج کی سنہری دھوپ روشن دان تک اتر آتی۔ تووہ تولیہ سر پر ڈال پیپل کے پتے میں صابن کی ٹکیہ اٹھائے کنوئیں کی طرف چلتا۔ راستے میں لوگ اسے نہایت تپاک سے ملتے۔ بعض تعظیماً کھڑے ہو جاتے۔ کنوئیں پر عورتیں احترام سے صرف چند لمحوں کے لیے دوپٹے چہرے پر کھینچ لیتیں اور ماسٹر برکت علی منڈیر پر بیٹھ کر سب کا خیر صلا پوچھتا۔ بغیر تسموں کے بوٹ اتار کر شلوار گھٹنوں تک اٹھا لیتا اور خدمت خلق کے جذبے سے مجبور ہو کر کنوئیں کی چرخی پکڑ کر گھڑے بھرنے لگتا۔ گاؤں کی عورتوں کو ماسٹر کی شرافت پر پورا بھروسہ تھا۔ اسی لیے وہ بغیر کسی تکلف کے پانی بھروالیتیں۔ وہ ڈول انڈیلتے وقت سوال جواب بھی کرتا جاتا۔

    ’’کیوں جیناں، اب تو تمہارا گھر والا اس کلموہی کے گھر نہیں جاتا، میں نے سمجھایا تو بہت تھا۔‘‘

    ’’نہیں بھائی اللہ تیرا بھلا کرے۔ میر تو تونے گھر بچا لیا۔‘‘ جیناں گھڑا جماتے مجسم انکسار بن جاتی۔

    ’’اب خرچہ نہ دے تو مجھے بتانا۔ لے اٹھا اپنا گھڑا‘‘ اور وہ ڈول کا باقی پانی اپنے پاؤں جوڑ کر ان پر ڈال دیتا۔

    ’’ماسی! شیرو نے شہر سے کوئی خط لکھا یا نہیں۔‘‘ وہ ایک پاؤں سے دوسرے کی میل رگڑتا ہوا پوچھتا۔ اور ماسی گھڑا جھولتا چھوڑ کر ہاتھ ملنے لگتی۔

    ’’نہ بچہ کوئی نہیں۔‘‘

    ’’فکر نہ کر۔ میں اگلے مہینے شہر جاؤں گا۔ تو اچھی طرح خبر لوں گا اس کی۔‘‘

    ’’اے بھلا ہو تیرا میرے لال۔ ضرور جانا اور اس سے کہنا۔۔۔‘‘ اور گھڑا بھر جاتا لیکن ماسی کے پیغامات جاری رہتے۔ حتیٰ کہ شادو اس کا گھڑا ہٹا کر اپنی گاگر جما دیتی۔ ماسٹر برکت علی خاموشی سے پانی بھر دیتا۔ وہ جوان لڑکیوں سے زیادہ بات چیت کا قائل نہ تھا۔ لیکن جب گاگر اٹھا کر اس کے سر پہ رکھتا تو اجنبیت مٹانے کے لیے ایک آدھ بات کر لیتا۔

    ’’شادو بہن اب تو شرفوکانا سیٹیاں نہیں بجاتا؟‘‘

    اور شادو گاگر کے گلے میں ہاتھ ڈالتی ہوئی پلومنہ پر رکھ لیتی۔ ’’نہیں ویر جی تم نے تو اسے بالکل سیدھا کر دیا ہے۔‘‘

    اور ماسٹر برکت علی ان لوگوں کو بے نقط سنا ڈالتا جو گاؤں کی عورتوں کو ماں بہن نہیں سمجھتے اور پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر پکار اٹھتا، ’’بخشنا مجھے میرے مولا، سب کی حیا قائم رکھ۔‘‘ عورتیں پانی لے جاتیں تو وہ لنگوٹ پہن کر نہانے لگتا۔ اور صابن ملتے ملتے گنگناتا، ’’میرے مولا بلالو مدینے مجھے۔‘‘ آٹے کی چکی پر بیٹھ کر سارا دن گپ لگانے والے چند مفت خورے بھی عین اسی وقت نہانے آن ٹپکتے تا کہ ماسٹر برکت علی کے صابن اور تیل سے فائدہ اٹھا سکیں۔ نہانے کے بعد ماسٹر برکت علی گڑھے کو صاف کر کے پانی سے بھر دیتا ہے۔ تاکہ پرندے پانی پی سکیں اور خود واپس چلا جاتا۔

    واپسی پر ماسٹر برکت علی راستے میں گھروں کو کبھی نہ بھولتا۔ بابا جلال سے اس کی بواسیر کے علاج کے بارے میں ضرور پوچھتا۔ تیسرے چوتھے روز جیواں دتی کو اس کے لڑکوں کے نام چٹھی لکھ کر دیتا۔ منگنی شدہ لڑکیوں کے والدین سے گاہے بگاہے پوچھتا کہ لڑکی کے جہیز کے سلسلے میں اگر مدد کی ضرورت ہو تو اسے بتائیں۔ کنواری لڑکیوں کے والدین کو وہ تسلیاں دیتا کہ وہ اس کے ہوتے ہوئے رشتوں کا فکر نہ کریں۔ سردیوں میں رنگو کے دادا کے لیے کبھی کبھار چائے کا بنڈل ہی لے جاتا۔ تاکہ اس کی گرمی کا سامان رہے۔ کبھی کسی جگہ سر پھٹول ہو جاتا تو اپنا فرض سمجھ کر صلح کرا دیتا۔ چونکہ گزشتہ سات برسوں میں اکثر گھروں کا ایک آدھ بچہ اس کا شاگرد رہ چکا تھا اس لیے استاد کا روایتی احترام اس کی دخل اندازی کو ہمیشہ خوش آمدید میں تبدیل کر دیتا۔

    اپنے سکول میں ماسٹر برکت علی شاگردوں کا بہت خیال رکھتا۔ ہر ماہ فیس دینے کا وقت آتا تو دو ایک شاگردوں کو خاموشی سے روپے واپس دے دیتا۔ ’’جا بیٹا لے جا مجھ سے کیا پردہ، میں جانتا ہوں پچھلے مہینے تمہارا خرچ تنگ رہا ہے۔‘‘ بچیوں سے البتہ فیس کبھی نہیں لی جاتی تھی کیونکہ لڑکی کسی ایک کی نہیں سارے گاؤں کی لڑکی ہوتی ہے۔

    جمعہ کے روز بیوائوں کے متعلق مولوی صاحب کا واعظ سن کر جب ماسٹر برکت علی باہر نکلا تو وہ اپنی غفلت پر استغفار پڑھ رہا تھا کہ زندگی کے اتنے سال ہاتھ سے نکل گئے لیکن وہ کسی دکھیا بیوہ کا مداوا نہ بن سکا۔ برخلاف اس کے نامعلوم اس نے کتنی بیوہ عورتوں کادل دکھایا۔ اس نے دل کو تسلی دینے کے لیے سوچا کہ پیشتر ازیں اسے خدا کے نزدیک بیوہ کے درجہ کا علم بھی تو نہ تھا اور وہ سرجھٹک کر پکار اٹھا، ’’توبہ میرے اللہ توبہ، مجھے بخشنا۔‘‘ اور پھر تھکی چال سے آگے چلتا گیا۔

    گلی کی موڑ پر چند آوارہ بچے ایک کتے کی دم میں رسی باندھے تالیاں پیٹ رہے تھے۔ ماسٹر برکت علی نے انہیں ڈانٹا۔ کتے کو چھڑایا۔ اور جس لڑکے کے ہاتھ میں رسی تھی اسے کا ن سے پکڑ کر ساتھ چلانے لگا۔ لڑکا ایک ہاتھ سے کان چھڑانے کی کوشش میں ساتھ ساتھ اچکتا ہوا چلا آرہا تھا۔

    ’’کیوں بےکس کا لڑکا ہے تو؟‘‘

    ’’سی۔۔۔ اوئی۔۔۔ جی نوراں کا۔‘‘ لڑکا کان کے درد میں مبالغہ کرتا بولا۔

    ’’نوراں۔۔۔؟‘‘ کون سی نوراں۔۔۔؟ کہاں رہتے ہو؟

    ’’اوئی مرگیا۔۔۔ جی۔۔۔ اوئی۔۔۔ وہ ٹیلے پر‘‘ اس کی ایک آنکھ بند ہوئی جا رہی تھی۔

    اور ماسٹر برکت علی کو خیال آیا کہ یہ وہی نوراں ہے جس کا خاوند پچھلے سال ہیضہ سے مرگیا تھا۔ ماسٹر برکت علی اس کے حالات سے بےخبر تھا۔ پھر بھی اسے اتنا معلوم تھا کہ موت کے وقت متوفی کے جاننے والے نوراں کی غربت کا ذکر بڑے ہمدردانہ انداز میں کیا کرتے تھے۔

    ’’کیا نام ہے تیرا؟‘‘

    ’’جی! غفور!‘‘ ماسٹر برکت علی نے اس کا کان چھوڑ دیا اور سوال کرنے لگا۔ اسے معلوم ہوا کہ غفور کوئی کام نہیں کرتا۔ بلکہ گلیوں میں آوارہ پھرتا رہتا ہے اور اس کی ماں محنت مزدوری کرکے گزارہ چلاتی ہے۔ ماسٹر برکت علی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ گھنٹہ بھر پہلے کا سنا ہوا وعظ اس کے کانوں میں گونجنے لگا۔ بیوہ کی مددکرنے کا بہترین طریقہ اس کے آوارہ بچے کو سدھارنا تھا۔ اس نے بڑے پیار سے بچے کو ساتھ آنے کو کہا اور گھر چلا۔

    ’’لے غفورے پڑھ تو بھلا کیا لکھا ہے میرے دروازے پر؟‘‘

    غفور نے شرما کر سرجھکا لیا ’’جی میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔‘‘

    ’’اچھا۔ اچھا کوئی بات نہیں۔‘‘ ماسٹر برکت علی خندہ پیشانی سے درگزر کرتا ہوا بولا۔

    کمرے میں لاکر اس نے بلیک بورڈ کی طرف اشارہ کیا جس پر اردو کے ابجد لکھے ہوئے تھے لیکن غفورا وہ بھی نہ پڑھ سکتا تھا۔ ماسٹر نے ہنس کر ایک ہلکی سی چپت اس کے گال پر لگائی ار سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا، ’’نالائق دس برس کی عمرمیں اتنا بھی نہیں پڑھ سکتا۔‘‘ پھر اس نے چاولوں کی میٹھی پٹی اسے کھانے کو دی۔ اور جب لڑکا کچھ گھل مل گیا تو ماسٹر برکت علی نے اپنے باورچی خانے میں جاکر مونگ کی دال کا لفافہ خالی کیا اور پھاڑ کر ایک نئے قاعدے کا جزدان بنا ڈالا۔

    ’’آغفور بچے تجھے تصویریں دکھائوں۔‘‘ غفورا اب کافی بے تکلف ہو گیا تھا۔ وہ شوق سے ماسٹر کے قریب آن بیٹھا۔ اور ماسٹر برکت علی اسے آم، بلی، گدھے اور لنگورکی تصویریں دکھانے لگا۔

    ’’یہ تصویریں لوگے؟اس نے پیار سے پوچھا۔ غفورے کی شرمائی ہنسی میں خواہش کروٹیں لے رہی تھی۔

    ’’یہ لو۔۔۔ شاباش؟ وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا، ’’یہ گھر لے جاؤ۔ کل پھرآنا۔ یہاں سکول میں تمہیں پڑھائوں گا۔ جب یہ قاعدہ پڑھ چکو گے تو تمہیں او ر قاعدہ دوں گا۔ جس میں اس سے بھی اچھی تصویریں ہوں گی۔ شاباش اب سیدھے گھر جاؤ۔ کل پھر آنا؟

    غفورے نے شیشے کے آئینے کی طرح قاعدہ دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ کر سینے سے چپکا لیا اور باہر نکل کر بگٹٹ بھاگ اٹھا۔ ماسٹر برکت علی دروازے میں کھڑا ہوکر مسکراکر دیکھتا رہا۔ اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تو واپس مڑتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگاکر بولا، ’’بخشنا مجھے میرے مولا، میری یہ خدمت قبول کر۔‘‘

    دوسرے روز ماسٹر برکت علی لڑکوں کو پڑھا رہا تھا تو غفورنے گلی میں ادھر ادھر گھومتے ہوئے تین چار مرتبہ خواہش مندانہ انداز میں اندر جھانکا لیکن جب ماسٹر برکت علی نے پیار سے بلایا تو بھاگ گیا۔

    اس کے بعد دو دن تک غفورا نظر نہ آیا۔ ماسٹر برکت علی کو ایسا معلوم ہوا جیسے پل صراط پر سے گزرتے گزرتے اس سے جنت کا پاسپورٹ چھین کرایک دم دوزخ میں دھکا دے دیا گیا ہو۔

    ’’ارے بشیرے، جا ذرا غفورے ٹیلے والے کو بلالا۔‘‘ سکول بند ہونے پراس نے کہا۔ تھوڑی دیر بعد بشیرا غفورے کو ہاتھ سے پکڑ کر تقریباً گھسیٹتا ہوا وہاں لایا۔ اور جب ماسٹر نے اسے چمکارا تو وہ شرماتا، لجاتا، جھجکتااندر آگیا۔ ماسٹر برکت علی نے اسے اپنے داہنے بازو میں سمیٹ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور ٹھوڑی انگلی سے اٹھاتے ہوئے بولا۔

    ’’غفورے بچے تو آیا نہیں میرے پاس۔‘‘

    غفورا شرماکر ادھر ادھر منہ پھیرنے لگا۔ مگر جب ماسٹر نے بہت اصرار کیا تو کہنے لگا’’بے بے کہتی تھی مت جایا کر وہاں۔ ہمارے پاس فیسوں اور کتابوں کے لیے پیسے نہیں ہیں۔‘‘

    ماسٹر نے بڑے ترس سے لڑکے کو دیکھا اور پھر ایک دم گلے سے لگا کر پیار کرنے لگا۔

    ’’توبہ اللہ توبہ!‘‘ پگڑی کے پلو سے آنکھیں پونچھ کروہ روندھے ہوئے گلے سے بولا اور دروازے میں جا کر زور سے ناک صاف کرنے لگا۔

    ایک رومال میں تھوڑے ستو اور گڑ لے کر ماسٹر برکت علی نے غفورے کو انگلی سے لگایا اور نوراں کے گھر کی طرف چل دیا۔ ماسٹر کو گھر میں آتا دیکھ کر نوراں کا منہ ایک دم کھلا رہ گیا۔ جیسے چیونٹی کے گھر ہاتھی آ جائے۔ ماسٹر برکت علی کہتا ہی رہا کہ کھڑے کھڑے بات کرلوں گا۔ لیکن نوراں نے جھپا جھپ چارپائی پرسے سرسوں کا ساگ جھاڑ دیا۔ اور دھوبی کا دھلا ہوا کھیس بچھا کر خود ذرا فاصلے پر پیڑھی پر بیٹھ گئی۔ دوپٹے کا پلو منہ میں پکڑ کر آدھا چہرہ اور ایک آنکھ ڈھک لی۔

    ’’دیکھو بہن جی۔‘‘ ماسٹر برکت علی نے گلا صاف کرکے کہنا شروع کیا، ’’میں یہ نہیں پوچھنے آیا کہ غفورے کو سکول کیوں نہیں بھیجا بلکہ یہ کہنے آیا ہوں کہ غفورا میرے سگے بھانجے کی طرح ہے۔ فیس، کتابوں اور ہر ضرورت کا میں خود ذمہ دار ہوں۔ اس کا ابا ہوتا تو اور بات تھی لیکن۔۔۔‘‘

    ابا کا نام آتے ہی نوراں کے نتھنے پھڑک اٹھے۔ آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ آنسو پونچھنے میں وہ پردہ ختم ہوگیا۔ اور وہ پہلو بدلتے ہوئے بولی، ’’ویر جی۔ میرا تو نصیبا ہی جل گیا۔ وہ خود تو چلا گیا۔ مجھے ان مصیبتوں کے لیے چھوڑ گیا۔‘‘ اس کی آنکھوں سے جھڑی بندھ گئی۔

    اللہ کی حکمت تو سمجھ میں نہیں آتی بی بی، لیکن تم کیوں فکر کرتی ہو۔ لڑکی کا تو سارا گاؤں ہی میکہ ہوتا ہے۔ ہم کس لیے بیٹھے ہیں۔ غفورے کا ابا اللہ بخشے میرا بھی جاننے والا تھا۔‘‘

    اور پھر نوراں خاوند کی موت، موت کے بعد عزیزوں کا برتائو اور موت سے چندروز پہلے کی باتیں آنسوئوں کے تار اور ہچکیوں کے گھونٹ لے لے کر سناتی رہی اور ماسٹر برکت علی خدا، رسولؐ، حدیث، حکایتوں اور کہاوتوں سے اس کو تسلیاں دیتا رہا۔ بالآخر جب وہ اٹھا تو نوراں مسرور تھی، کہ خدا نے ایک فرشتہ اس کی مدد کو بھیج دیا ہے۔ اور ماسٹر برکت علی مسرور تھا کہ اس بیوہ کی مدد کرنے سے اس کی عاقبت سدھر جائےگی۔ غفورے کے سر پر ہاتھ پھیر تے ہوئے اس نے اسے ایک ٹکہ دیا اور پھر سیدھا مسجد میں جا کر سجدہ میں گر پڑا اور رو رو کر خدا سے التجا کرتا رہا کہ وہ اسے ان کی سرپرستی میں ثابت قدم رکھے اور ا س کے عوض روز قیامت کو بخش دے۔

    چندماہ کے عرصہ میں غفورا ماسٹر برکت علی کا شاگرد خا ص بن گیا۔ چاک کا ڈبہ اور جھاڑن اس کی تحویل میں رہتا۔ ٹاٹ بچھانے، گننے، لپیٹنے اور بورڈ صاف کرنے کا وہ ذمہ دار تھا۔ طالب علموں کے لیے پانی کا گھڑا بھرنا اس کا فرض تھا۔ ماسٹر برکت علی کو پیاس لگتی تو وہ غفورے کو آواز دیتا۔ کنوئیں کے ٹھنڈے پانی سے حقہ تازہ کرنے اور چلم بھرنے کا حق صرف غفورے کو حاصل تھا۔ وہ خود بھی بہت سمجھدار اور باتمیز بچہ بن گیا تھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ الف آم۔ بے بلی سے بڑھ کر وہ ’’روٹی لائی ہے، کس نے کھائی ہے‘‘ تک پہنچ چکا تھا۔ سیاہی میں لتھٹری ہوئی انگلیوں سے تختی پر سو تک گنتی بھی لکھ لیتا تھا۔ ٹین کی چیچک زدہ سلیٹ پر کئی بار تھوک رگڑنے کے بعد بڑی بڑی رقوم جمع بھی کر لیتا تھا۔ ماسٹر کے گھر کے اندر والے آلے میں مٹی کے پیالے میں اس کے لیے چاولوں کی پٹی ہمیشہ پڑی رہتی تھی۔ دوپہر کا کھانا وہ ماسٹر کے ساتھ کھاتا اور جب ماسٹر بال کٹواتا تو عفورے کے سرپر بھی چٹیل میدان بن جاتا۔ جس پر وہ آم کی گھٹلی رگڑ کر خوب چمکا لیتا۔

    اپنے گھر میں بھی غفورا کافی سکھی تھا۔ کیونکہ ہر مہینے ماسٹر برکت علی فیس اکٹھے ہوتے ہی شام کو چپکے سے جاکر نوراں کو کچھ روپے دے آتا۔ فصل کے موقع پر جب شاگرد اسے دانے وغیرہ لا کر دیتے تو کئی روز تک غفورا چھوٹے چھوٹے تھیلے بھر کر لے جاتا رہتا۔ تہوار کے موقعہ پر غفورے کو نئے کپڑے ملتے اور نوراں کے ہاں گڑ شکر، چنے اوردالوں کی پوٹلیاں پہنچ جاتیں۔ ماسٹر برکت علی بھی گاہے گاہے نوراں کے گھر جاکر روز مرہ کے حالات سنوارتا رہتا۔ اور نوراں پرنم آنکھوں سے دعائیں دیتی دیتی بچھ جاتی۔ ماسٹر برکت علی اس کے گھر سے نکلتا تو اکثر پکار اٹھتا، ’’بخشنا میرے مولا۔‘‘

    اب ماسٹر برکت علی کو نماز میں زیادہ مزہ آنے لگا تھا۔ صبح کھڑکی میں بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتا تو جھوم جھوم جاتا۔ وعظ میں مولوی صاحب اگر روز محشر اور اگلے جہان کا ذکر کرتے یا سزا اور جزاء کے متعلق خدا اور بندے کا خود ساختہ مکالمہ پیش کرتے تو ایک اطمینان بخش مسکراہٹ ماسٹر کے ہونٹوں پر کھیلتی رہتی۔ جیسے کوئی غریب بیوپاری مال کی قیمت پیشگی ادا کرنے کے بعد مطمئن سا نظر آئے۔ اس نے پکا فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ شادی بالکل نہیں کرےگا۔ بلکہ اپنے اخراجات میں سے چار پانچ سال بچت کرنے کے بعد وہ حج کو جائےگا اور اس عزم کو تازہ رکھنے کے لیے اس نے اپنے کمرے میں رسول کریمؓ کے روضہ پاک کی خوبصورت رنگین تصویر لگا دی جسے دیکھ کر وہ اپنے پروگرام کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگا کرتا۔ ساتھ ہی ساتھ بچت کر نے کے لیے وہ اپنے رہن سہن میں بھی انتہائی کفایت شعار ہو گیا۔

    ایک روز ماسٹر برکت علی شام کے وقت نوراں کے گھر سے نکلا تو گلی میں کوئی زور سے کھنکارا۔ ماسٹر نے مڑ کر دیکھا تو شرفو کانا سامنے بیری کے درخت کے نیچے کھڑا مسکرا رہا تھا۔

    ’’سلاما لیکم ماسٹر جی‘‘ اس کی آواز میں شرارت ہمک رہی تھی۔

    ’’وعلیکم اسلام‘‘ سنا بھئی شرفو کیا ہو رہا ہے؟‘‘ ماسٹر صاحب نے فطری خوش خلقی سے کام لیا۔

    ’’بس بادشاہو۔ مولا کی دنیا کے رنگ دیکھ رہا ہوں۔‘‘ اس نے طنزآمیز لہجے میں کہا اور ماسٹر برکت علی کچھ نہ سمجھتے ہوئے دل ہی دل میں اس کی چلبلی طبیعت سے لطف اندوز ہوتا چلا آیا۔

    چندروز بعد ماسٹر برکت علی شہر جانے کے لیے لاری اڈے پر پہنچا تو وہاں منشی کے پاس شرفو کانا اور بلوجلاھا بیٹھے تھے۔ دور سے ماسٹر کو آتے دیکھ کر انہوں نے ایک دوسرے کو کہنیاں ماریں اور شرفو کانا تالی بجا کر گانے لگا، ’’یاریاں لایاں نیں۔ اسی توڑ نبھاواں گے۔‘‘ ماسٹر برکت کے پہنچتے پہنچتے بس آ گئی اور وہ جلدی سے ٹکٹ خریدتے ہوئے اس کی طرف لپکا۔ عجلت میں اسے ایسا محسوس ہوا جیسے منشی نے کوئی بات زیر لب کہی اور باقی سب قہقہہ لگاکر ہنسنے لگے۔ وہ مڑا لیکن کنڈکٹر بولا،

    ’’شتابی شتابی آؤ، ماسٹر جی دیر ہو رہی ہے!‘‘

    او روہ لپک کر بس پر جا چڑھا۔

    اگلے دن شہر سے واپس آتے ہوئے جب وہ بازار سے گزرا تو بشیر سبزی فروش کی دوکان پر بلو جلاھا کھڑا مولیاں کھار ہا تھا۔ اس نے آہستہ سے کوئی بات بشیر کے کان میں کہی اور وہ دونوں غور سے ماسٹر کی طرف دیکھنے لگے!

    جمعہ کے روز ماسٹر برکت علی نہا دھو کر مسجد کی طرف چلا۔ راستے میں آٹے کی چکی پر شرفو کانا اپنے بے فکرے دوستوں کے چکر میں لہک لہک کر گا رہا تھا اور باقی سب تالیاں بجا رہے تھے۔ ماسٹر کو دیکھ کر بالکل خاموشی چھاگئی۔ وہ اسے معمول کے مطابق احترام سمجھتا ہوا تمکنت سے آگے گزر گیا۔ لیکن ابھی دس قدم ہی گیا ہوگا کہ شرفو کانا سینے پر ہاتھ رکھ کر چلایا، ’’ہائے ہائے میرا دل گیا۔‘‘ کسی نے منہ میں انگلی ڈال کر زور سے سیٹی بجائی، کوئی زبردستی مصنوعی کھانسی کھانسا اورکوئی پکارا، ’’ہائے میرے رانجھے‘‘ اور پھر ایک طویل قہقہہ برس پڑا۔ ماسٹر برکت علی اسے لڑکوں کا باہمی مذاق اور پھکڑ پن سمجھتے آگے نکل گیا۔

    دوتین روز گزر گئے۔ ماسٹر برکت علی چارپائی پرلیٹا حقے کے کش لگا رہا تھا کہ اتنے میں غفورا روتاروتا سکول واپس آن پہنچا۔

    ’’کیا ہوا بچے؟‘‘

    ’’مجھے شرفو نے مارا ہے۔‘‘ وہ ہچکیاں لیتا ہوا بولا۔

    ’’ارے‘‘ ماسٹر برکت علی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ’’کیوں مارا، میرے بچے کو اس نے۔‘‘ وہ اسے پاس بٹھاتے ہوئے پوچھنے لگا۔

    ’’وہ کہتا تھا۔۔۔ اوں۔۔۔ اوں۔۔۔ تلاشی دو۔‘‘

    ’’تلاشی؟‘‘ ماسٹر حیران رہ گیا۔ ’’کیسی تلاشی؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ کھوں کھوں۔۔۔ وہ کہتا تھا۔۔۔ تیرے ماسٹر نے۔۔۔ اوں اوں۔۔۔ تیری ماں کے نام پیار کا رقعہ بھیجا ہوگا۔‘‘

    ماسٹر برکت علی ایسے تڑپا گویا اس کا ہاتھ بجلی پر جا پڑا ہے اور پھر وہ ایک دم سن سا ہو کر رہ گیا۔ پتھر کے بت کی طرح وہ چارپائی پر سیدھا بیٹھ گیا۔ پھٹی پھٹی آنکھیں ایسے پھیل گئیں جیسے جنگل کا ایک وحشی شیش محل میں آن پہنچا ہو اور ان آنکھوں سے اس نے شرفو کانے کی گزشتہ دنوں کی مسکراہٹ کو ایک نئے انداز میں دیکھا اور پھر اس مسکراہٹ کے پیچھے چھپا ہوا ذلت اور بدنامی کا ایک سیلاب پھنکارا۔ وہ غفورے کو گھسیٹتا ہوا بازار کی طرف لپکا جہاں شرفو کانا دہی والے کی دوکان پر لسی پی رہا تھا۔

    ’’کیوں شرفو تو نے اس بچے سے کیا کہا ہے؟‘‘ بڑی مشکل سے اس نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

    شرفو کی کانی آنکھ پھڑک اٹھی۔ اس نے معنی خیز نظروں سے دوکاندار کی طرف دیکھا اور پھر بے شرمی سے ہنس پڑا۔ ’’ہی ہی ہی ماسٹر جی کیوں فکر کرتے ہوتم۔ وہ تو ذرا شغل کیا تھا۔ تم اپنا کام جاری رکھو۔ مولا نے مال دیا ہے۔۔۔ خوب عیش کرو ہاہاہا!!‘‘

    وہ ہنسنے لگا لیکن قہقہہ ختم ہونے سے پہلے ہی ماسٹر برکت علی گھونسوں اور تھپڑوں سے اس پر ٹوٹ پڑا۔ ’’حرامزادے، جھوٹے، کذاب، کمینے، لفنگے، بے ایمان۔‘‘ وہ بارود کی طرح پھٹ پڑا۔ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔

    دہی والا دوکاندار شڑاپ سے نیچے کود آیا۔ دوسرے دوکاندار ترازو ہاتھوں میں لیے گردنیں کھینچ کر دیکھنے لگے۔ راہگیر اور گاہک ادھر ادھر سے بھاگ کر اکٹھے ہونے لگے اور دونوں کو کھینچ کر علیحدہ کیا۔ شرفو کانا نہایت غلیظ گالیاں بکتا ہوا بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ماسٹر برکت علی ہمک ہمک کر آگے بڑھنا چاہتا تھا اور باربار کہہ رہا تھا کہ، ’’مجھے اس فتنہ پرداز کو مزاچکھانے دو۔‘‘

    ماسٹر برکت علی کااحترام لوگوں کے دلو ں میں گھسا ہوا تھا۔ لڑائی کی وجہ معلوم کیے بغیر انہوں نے شرفو کانے پر لعن طعن شروع کر دی، جس نے ماسٹر برکت علی جیسے شریف اور نیک انسان پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ کسی نے پوچھا، ’’بات کیا ہوئی؟‘‘ تو ماسٹر پھر آپے سے باہر ہوگیا۔ ’’یہ کمینہ مجھ پر بہتان تراشتا ہے۔ میں اسے ٹھیک کر دوں گا۔‘‘

    ’’منہ دھو کرآؤ ماسٹر۔‘‘ شرفو ڈھیلے لہجے میں بولا، ’’آیا مجھے ٹھیک کرنے والا۔ میں بہتان باندھتا ہوں۔۔۔ یاتیری قلعی کھولتا ہوں۔‘‘ اور پھر شرفو نے گندی گندی گالیاں دیتے ہوئے اپنی ایک آنکھ نچا نچا کر بلند آواز میں لوگوں کو بتایا کہ ماسٹر برکت علی نے چھپ کر نوراں سے ناجائز تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور شرفو کو دبانا چاہتا ہے کہ بات باہر نہ نکلے۔

    لوگ ایک دم خاموش ہو گئے۔ چند ایک نے فوراً یقین کر لیا۔ چند ایک ماسٹر برکت علی کے متعلق اس قسم کی چیز سوچنے تک کو گناہ سمجھتے تھے۔ بعض ایسے بھی نکلے جو اس کی تائید یا تردید کیے بغیر اس الزام میں دلچسپی لینے لگے۔

    ’’یہ سب بکواس ہے‘‘ ماسٹر برکت علی چلایا۔ مجمع جیسے ایک دم ہوش میں آ گیا۔ بھنبھناہٹ کی ایک لہر اٹھنے لگی۔

    ’’ماسٹر برکت علی ایسا آدمی نہیں شرفو۔‘‘ ڈاک خانے کے بابو نے کہا، ’’جیسا تمہارا اپنا دماغ ہے ویسا ہی دوسروں کے متعلق سوچتے ہو۔‘‘

    ’’حد ہو گئی بابوجی۔‘‘ شرفو تڑپ کر بولا، ’’میرے ساتھ ابھی چلو مسجد میں، میں قرآن اٹھانے کو تیار ہوں کہ میں نے نوراں اور ماسٹر برکت علی کو بغل گیر ہوتے دیکھا ہے۔‘‘

    و ہ اپنی بات رکھنے کو جھوٹی قسم پر اتر آیا۔

    قسم کا دعویٰ سن کر کئی اور لوگ شرفو کی بات پر ایمان لے آئے۔ ماسٹر برکت علی گولی کی طرح لپکا۔ لیکن لوگوں نے اسے ہٹالیا اور پھر دو چار آدمی پکڑ کر اسے گھر کی طرف لے چلے۔ سارا راستہ ماسٹر برکت علی انہیں یقین دلاتا رہا کہ شرفو بالکل جھوٹ بولتا ہے اور وہ بھی ماسٹر کے ساتھ متفق تھے۔ گھر جا کر ماسٹر چارپائی پر لیٹے ہوئے سوچ رہا تھا کہ شام تک شرفو کو ہرطرف سے لعن طعن ہو جائےگی اور لوگ ماسٹر کی نیت جانتے ہوئے اس پر شبہ نہیں کریں گے کیونکہ شرفو کانا تین سال جیل میں کاٹ آیا تھا اور ایسے آدمی کی بات ماسٹر برکت علی کے مقابلے میں کہاں مانی جائےگی۔۔۔ اس نے کروٹ بدل کر بظاہر بڑے اطمینان سے سونے کی کوشش کی۔

    ماسٹر برکت علی تو واپس آ گیا تھا۔ لیکن اس انکشاف کی نوعیت نے ایک گوند کی طرح لوگوں کو بازار کے فرش پر چپکائے رکھا۔ اکثر لوگ ماسٹر کی نیت پر شبہ نہیں کرتے تھے۔ چند ایک کہتے تھے کہ شرفو کو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے۔ بعض کا خیال تھا کہ شرفو نے محض ایک بات کی ہے۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔ کسی نے کہا ماسٹر برکت علی فصل کے موقع پر نوراں کو دانے بھجواتا ہے۔ تو آخری گروہ کے چند لوگ شرفوکی بات پرایمان لے آئے۔ کوئی بولا، ’’سناہے ماسٹر برکت علی نوراں کو ماہوار بھی کچھ دیتا ہے۔‘‘ تو چند اور لوگ بھی ماسٹر کو شرفو کے زاویے سے دیکھنے لگے۔

    ہر گھڑی گزرنے پر ماسٹر کے حامیوں میں کمی ہوتی گئی۔ کیونکہ باہم تبادلہ خیال سے یہ ثابت ہوگیا تھا کہ ماسٹر برکت علی دانے فیس اور دوسری چیزیں نوراں کو بھجواتا ہے۔ ماہوار روپے دیتا ہے اوراس کے بچے کو سکول میں لاڈ سے رکھتا ہے۔ رائے عامہ یا تو ہلتی ہی نہیں لیکن جب ہلتی ہے تو چھلانگیں مارتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ یہ ثبوت مضبوط سیڑھیاں تھیں جن پر چڑھ کر کئی لوگوں کے تخیل نے نوراں کے گھر میں سارے کمروں کو ماسٹر برکت علی کے دیے ہوئے دانوں سے بھرے دیکھا۔ کئی ایک کو الہامی انداز میں پتہ چل گیا کہ فلاں وقت ماسٹر برکت علی فلاں سمت کس مقصد کے لیے جا رہا تھا۔ اکثر لوگوں پر فوراً واضح ہو گیا کہ برکت علی کی کفایت شعاری کی اصل وجہ کیا ہے۔ ماسٹر کے شادی نہ کرنے کا راز بھی سمجھ میں آ گیا۔ کیونکہ بشیر گھوسی کا خیال تھا کہ جس آدمی کو پینے کو دودھ مل جائے اسے بھینس پالنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہماری منفی جنسی اقدار کے محدب شیشے میں سے جب لوگوں نے عادتاً جھانکا تو یہ ثبوت ہر لحظہ بڑے ہی بڑے ہوتے گئے۔ حتیٰ کہ اصل ماسٹر برکت علی ان کے نیچے چھپ گیا۔

    شام تک بازار میں یہ موضوع زیر بحث رہا۔ لاریوں کے اڈے پر، چکی والے کے ترازو کے پاس، دہی والے کی دوکان کے سامنے ٹوٹے ہوئے بنچوں پر چورا ہے میں، بوہڑ کے درخت تلے بھوسے والے کی دکان پر سہ پہر کو دانوں کی بھٹی پر۔۔۔ شام کو تنور پر۔۔۔ راہ چلتے ملاقاتیوں نے تازہ ترین اطلاعات کا تبادلہ کیا۔۔۔ خاوندوں نے بچوں کی غیر موجودگی میں اپنی بیویوں کو بتایا۔۔۔ بیویوں نے ساگ چیرتے ہوئے اپنی سہیلیوں سے کہا۔۔۔۔ دوسرے دن بھنگنیں ایک گھروالوں کی رائے دوسرے گھر لے گئیں۔۔۔ کنواری لڑکیوں نے دبی گٹھی ہنسی اور آنکھوں کے اشاروں سے تبصرے کیے۔۔۔ جوان لڑکوں نے ماسٹر اور نوراں کے تعلقات کی تخیل کے پردے پر پوری فلم دیکھ ڈالی۔۔۔ بوڑھوں نے توبہ اور استغفار کے ساتھ اس قصہ میں قرب قیامت کے آثار دیکھے۔۔۔ اور گھر جا کر اپنی جوان اولاد کو کڑی نظروں سے گھورا۔

    ماسٹر برکت علی اپنے کمرے کا دروازہ کھولے چارپائی پر لیٹا حقہ پیتا رہا۔ اکا دکا لوگ ادھر سے گزرتے تو رک کر لڑائی کا تذکرہ ضرور کرتے۔ ماسٹر برکت علی الف سے یے تک سارا قصہ سنا کر اپنی معصومیت ثابت کرنے کی کوشش کرتا۔ لوگ کوئی فیصلہ دیئے بغیر کھسکنے کی کوشش کرتے۔

    دوسرے دن مدرسہ میں چھٹی تھی۔ ماسٹر برکت علی بازار میں نکلا اور لوگوں کے پاس جا جا کر اپنی بے گناہی کا یقین دلاتا۔ لوگ خاموشی سے سنتے رہتے۔ کوئی ہوں ہاں کر دیتا لیکن زیادہ تسلی نہ دیتے۔ ماسٹر زیادہ جوشیلا ہوتا گیا۔ اس کے دلائل میں سرگرمی پیدا ہوتی گئی۔ آواز بلندہوتی گئی۔ وہ ایک گروہ سے ہٹ کر د وسرے گروہ کے پاس جاتا لیکن وہ بات کرتا تو لوگ زیر لب مسکرانے لگتے۔ ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھتے اور لاتعلق سے ہو کر ادھر ادھر کھسکنے کی کوشش کرتے۔

    ماسٹر برکت علی بڑا حیران ہوا۔ بالآخر کسی نے اسے بتایا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جھوٹا ہے۔ تبھی اتنی شدت سے اپنے آپ کو معصوم ظاہر کر رہا ہے۔ ماسٹر برکت علی کا خون کھولنے لگا۔ لیکن ماتھے پر ٹھنڈے پسینے آ گئے۔ چکی کے پاس لوگوں کا گروہ کھڑا تھا۔ اس نے وہاں جا کر نہایت جوش سے کہنا شروع کیا کہ شرفو افترا پرداز ہے۔ وہ خود بالکل معصوم ہے، نوراں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ کبھی کبھار اسے بیوہ سمجھ کر او ر خدا کا حکم جان کروہ اس کی مدد کرتا ہے۔ لیکن لوگ اس دلیل پر ہنسنے لگے۔ انہوں نے آپس میں ٹھوکے دیے اور معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو د یکھا۔

    ماسٹر برکت علی کی رگ رگ صدمے سے نڈھال ہو گئی۔ وہ جانتا تھا کہ گاؤں کی فضا میں اس قسم کی بدنامی اس کی قطرہ قطرہ جوڑی ہوئی عزت کو ایک ہی دفعہ مٹا دےگی۔ گھر جا کر وہ چادر میں منہ لپیٹ کر باقی سارا دن اور ساری رات بھنتے کباب کی طرح کروٹیں لیتا رہا۔

    صبح مسجد میں جب جماعت کھڑی ہونے لگی تو امام نے ماسٹر برکت علی کی بجائے ایک دوسرے آدمی سے کہا ’’چلو شاہ جی تکبیر پڑھو‘‘ اور وہ تکبیر پڑھنے لگا۔ ماسٹر کا نماز میں بھی دل نہ لگا۔ وہ جلدی لوٹ آیا۔ واپسی پرجب وہ قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگا تو حروف اس کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتے، پھر غائب ہو جاتے۔ آواز ٹوٹ ٹوٹ جاتی اور پڑھتے پڑھتے اسے یک لخت محسوس ہوتا کہ اس کا دھیان قرآن کی سطروں کی بجائے پرسوں والے واقعہ میں جکڑا ہوا ہے۔

    تھوڑی دیر بعد جب سکول کھلا تو صرف لڑکے حاضر تھے۔ بچیاں سب غائب تھیں۔ وہ اسے اتفاق سمجھ کر خاموش رہا۔

    رات کو عشاء کی نماز میں سنت پڑھتے وقت اس نے دیکھا کہ اس کے دونوں طرف دو دو گز جگہ خالی ہے اور لوگ پڑے ہٹ کر نماز پڑھ رہے ہیں۔

    صبح مسواک کرتے وقت اس نے گزرنے والی ایک بوڑھی سے پوچھا، ’’ماسی کدھرچلی سویرے سویرے۔‘‘ تو ماسی جواب دئے بغیر کندھا دباتی آگے چلی گئی۔ وہ کنوئیں پر گیا تو ماسی داراں آدھا بھرا گھڑا اٹھا کر کھسک گئی۔ شادو اپنی گاگر وہیں چھوڑ کر کہیں ٹل گئی۔ لیکن جب ماسٹر زبردستی جیناں کا گھڑا بھرنے لگا توہ آنکھیں نیچی کیے خاموشی سے ایک طرف کھڑی رہی۔ پھر گھڑا اٹھا کر چپکے سے چل دی اور ماسٹر برکت علی نے دیکھا کہ تھوڑی دور جاکر بوہڑ کے درخت کی اوٹ میں اس نے پانی زمین پر انڈیل دیاا ورخالی گھڑا اٹھائے واپس چلی گئی۔

    گھر کی طرف واپسی پر ماسٹر نے دور سے دیکھا کہ رنگوکا دادا دہلیز پر بیٹھا سوٹی پی رہا ہے لیکن جب وہ قدرے نزدیک پہنچا تو بوڑھا انجان بن کر اندر چلا گیا۔

    راستے میں اس نے دوایک راہ گیروں سے بات کی تو وہ گفتگوبڑھانے کی بجائے ختم کرنے کی کوشش کرتے اور پھر جلدی سے کھسک جاتے۔ دن چڑھا تو سکول میں صرف دو شاگرد آئے اور انہوں نے بتایا کہ باقی سب کو والدین نے سکول جانے سے منع کر دیا ہے۔ ماسٹر برکت علی کمرے کے دروازے بند کرکے چارپائی پر منہ لپیٹ کر پڑا رہا۔ اس کے کان جلتے رہے۔ دماغ میں چکیاں چلتی رہیں، پپوٹے پھڑکتے رہے، دل ڈوبتا رہا، ماتھا کبھی بھٹی بن جاتا کبھی برف کی سل۔ ظہر کی نمازکے بعداس نے مولوی صاحب سے فریاد کی اور بتایا کہ وہ بالکل نیک نیتی سے انکے فرمان کے مطابق ایک بیوہ سمجھ کر نوراں کی مدد کرتا رہا ہے۔ وہ بار بار کہتا، ’’مولوی صاحب میں بالکل بے قصور ہوں۔‘‘ مولوی صاحب لاتعلق ہو کر داڑھی پر ہاتھ پھیرتے رہے اور پھر واپس مڑتے ہوئے کہنے لگے، ’’نیت کا حال تو قادر مطلق ہی جانتا ہے۔ لیکن جب سب ایک ہی بات کہہ رہے ہیں تو کچھ بات تو ہوگی۔‘‘

    اور ماسٹر برکت علی کو ایسے محسوس ہوا جیسے اس کے رگ و پے سے آنسوئوں کا سیلاب پھوٹ پڑے گا۔ لیکن اس کی آنکھیں خشک ہی رہیں اور بجائے آنسوئوں کے ان میں انگارے دہکنے لگے۔ کنپٹیوں پرجیسے کسی نے دھما دھم ہتھوڑے مارنے شروع کر دئیے۔ بڑی آہستگی سے اس نے اپنے جسم کو گھسیٹ کر اٹھایا۔ ہاتھوں سے ٹٹول کر جوتی اٹھائی اور ہارے ہوئے جواری کی طرح تھکے تھکے قدموں سے واپس چلا آیا۔ اس کے جسم کا سارا رس جیسے نچڑ سا گیا تھا۔

    ماسٹر برکت علی بند کمرے میں چارپائی پر لوٹتا رہا۔ کبھی پاؤں اٹھاکر دھمادھم ادوئن پر مارنے لگتا۔ کبھی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا۔ پھر اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگتا۔ کھڑکی میں کھڑا ہو جاتا لیکن گلی میں کسی کے آنے کی آواز سن کر منہ چھپانے کو واپس بھاگتا۔ وہ کافی دیر رسول اکرمؓ کے روضہ مبارک کی تصویر کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ حتیٰ کہ وہ آہستہ آہستہ کانپنے لگی۔ کمرے کی دیواریں ہولے ہولے گھوم سی گئیں اور پھر ماسٹر برکت علی ایک دم بلک بلک کر رو دیا۔

    شام کے وقت ماسٹر برکت علی کو بڑے زور کا بخار آنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس پر ہذیان کی کیفیت طاری ہونے لگی۔

    اس شام نوراں نے فیصلہ کیا کہ وہ گاؤں چھوڑ کر چلی جائے۔ کیونکہ اسے مزدوری ملنا بند ہو گئی تھی۔ اور تمام گھروں نے اس کے داخلے کی ممانعت کر دی تھی۔ وہ جہاں جاتی عورتیں ایک دوسری سے اشاروں میں باتیں کرتیں اور ان کی چبھتی ہوئی نظریں اس کے جسم کو چھید ڈالتیں۔ دوسرے دن صبح سویرے جب وہ گاؤں سے نکلنے لگی تو اس نے سوچا ماسٹر برکت علی سے ملتی جائے۔ اس کے مکان پر پہنچ کر غفورے نے دروازے کو ہاتھ لگایا تو وہ کتاب کے ورق کی طرح آسانی سے کھل گیا۔ نوراں اور غفورا اندر چلے گئے۔

    اندر کمرے میں صبح کا دھندلکا چھایا ہوا تھا۔ اس روشن اندھیرے میں نوراں نے دیکھا کہ چارپائی پر ماسٹر برکت علی پڑا تھا۔

    چند ماہ بعد زکوٰۃ کا مہینہ پھر آ گیا۔ مولوی صاحب مسجد میں کھڑے وعظ کر رہے تھے، ’’ دکھیا اور بےسہارا بیوہ کی ایک آہ سات آسمانوں میں سوراخ کر دیتی ہے۔ ایسی بیوہ کی مدد کرنے والا سیدھا جنت میں جاتا ہے۔ اگر دین و دنیا کی عزت چاہتے ہو تو بیوائوں کی مدد کرو۔‘‘

    مأخذ:

    لوح (Pg. 585)

    • مصنف: ممتاز احمد شیخ
      • اشاعت: Jun-December
      • ناشر: رہبر پبلشر، اردو بازار، کراچی
      • سن اشاعت: 2017

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے