Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مجھے جانے دو

اختر حسین رائے پوری

مجھے جانے دو

اختر حسین رائے پوری

MORE BYاختر حسین رائے پوری

    ’’مجھے جانے دو‘‘ اس نے کہا اور جب تک میں اسے روکوں وہ ہاتھ چھڑا کر جا چکی تھی۔ اندھیرے میں اس کی آنکھوں کی ایک جھپک اور دہلیز پر پاؤں کے بچھوے کی ایک جھنک سنائی دی۔ وہ چلی گئی اور میں کوٹھڑی میں اکیلا رہ گیا۔

    میں وہاں جانا نہ چاہتا تھا۔ میں اکثر اس مکان کے آگے سے گزرا تھا اور شام کے وقت کچھ جوان لڑکیوں کو اس کے پھاتک کے آگے کھڑا پایا تھا۔ جاڑے کی راتوں میں نیم آستین جمپر پہنے ہوئے یہ چھوکریاں راہ چلتوں کو لبھانے کی تدبیر کیا کرتی تھیں۔ کوئی بھی آنکھوں والا غازے کی سرخی میں عصمت کے خون کی جھلک دیکھ سکتا تھا۔ ان کے جسم کا ہر رواں تھرتھرا کر کہہ رہا تھا۔ ہمیں لے لو۔ ایک روپیہ کے بدلے۔

    ان میں سے بعض سگریٹ کا دھواں نہایت نزاکت سے کسی رنگیلے کے منہ پر پھونک دیتی تھیں اور کوئی منچلی کسی بدنما ماڑواڑی کے جوتے پر پان کی پیک تھوک دیتی تھی۔ جب وہ پلیٹ کر دیکھتا تو لڑکیاں آنکھ مار کر کھل کھلا پڑتی تھیں۔ ان کی ہر ادا زبان حال سے کہتی تھی۔ ہمیں لے لو۔ ایک روپیہ کے بدلے۔

    ٹرام پر شریف زادیوں اور موٹروں پر امیرزادیوں کے کھیپ کے کھیپ گذرا کرتے تھے۔ ان سستی طوائفوں پر نظر پڑتے ہی وہ توبہ و استغفار کے ساتھ دوسری طرف دیکھنے لگتی تھیں۔ یہ بدبخت، نسوانیت کی کلنگ۔ خدا انہیں غارت کرے۔ چند ٹکوں کے لئے، شراب کی ایک بوتل یا سگریٹ کی ایک ڈبیہ کیلئے یہ اپنا تن ہر ایرے غیرے کے سپرد کر دیتی ہیں اور ہم؟ پھر وہ اپنے شوہروں کو یاد کرنے لگتی تھیں جنہوں نے انہیں اونچی حویلیاں، ریشمی ساریاں اور چھ چھ بچے عطا کئے تھے۔

    اس مکان سے لگ کر کالی دیوی کا ایک چھوٹا سا مندر تھا۔ یہ کالی کلوٹی اور ننگ دھڑنگ دیوی اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے لیل و نہار کا تماشہ دیکھا کرتی تھی۔ شام کو جب آرتی شروع ہوتی اور کم سن لڑکیاں اس کے سامنے ناچنے لگتیں تو مٹی کے چراغوں کی دھندلی جوت میں اس کی شکل زیادہ پراسرار ہو جاتی۔ معلوم ہوتا کہ عورت کی روح ایک سیاہ کفن اوڑھے ہوئے اپنی قبر سے اٹھی ہے اور ایک آن میں مرد کو فنا کر دےگی۔ جو لوگ درشن کے لئے آتے، وہ ہاتھ باندھے ہوئے للچائی ہوئی نظروں سے ان رقاصاؤں کا تاکا کرتے تھے اور جب وہ التفات نہ کرتیں تو یہ زیادہ بیباکی سے ان طوائفوں کو گھورنے لگتے۔ جو پجاری کے ڈر کے مارے سیڑھی کے نیچے سر جھکائے کھڑی رہتی تھیں۔

    ان میں سے ایک کا انداز سب سے نرالا تھا۔ اس کے دل میں پوجا کی عظمت کا احساس مطلق نہ تھا۔ وہ سگریٹ پیتے ہوئے نہایت اطمینان سے آرتی کا تماشہ دیکھتی اور وقتا فوقتاً کیرتن کی لے پر پیروں سے ٹیک دینے لگتی۔ جب کوئی بوڑھا اپنی پھٹی ہوئی آواز سے تال کو بیتال کر دیتا تو وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑتی اور پنواڑی کو پکار کر کہتی، ’’ارے ذرا سی سرتی تو بنانا۔‘‘

    اور کیرتن کا نغمہ کسی مجروح پرندے کی طرح دیر تک تڑپتا رہتا۔

    جب میں نے پہلی مرتبہ اسے دیکھا تو میرا دل آپ ہی آپ مبہوت ہوکر اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ میں وہاں سے بھاگتے بھاگتے بھی اس کے قریب پہنچ گیا۔

    لیکن اس نے بےپروائی سے مجھے دیکھا اور اپنی ایک سہیلی سے پوچھنے لگی، ’’اری اس حرام زادے سے کتنے اینٹھے؟‘‘

    اس میں ہر شام کو اس فٹ پاتھ پر سے گزرنے لگا۔ جب وہ اس مقام پر ہوتی تو ذرا حیرانی سے میری طرف دیکھتی اور پھر کچھ مسکراکر اپنی ہم چشموں سے باتیں کرنے لگتی تھی۔ کبھی وہ وہاں نہیں بھی ہوتی تھی اور میں سمجھ جاتا تھا کہ وہ کہاں رہے۔ میرے دل پر چوٹ سی لگتی، خون کی روانی تیز ہو جاتی اور ماتھے پر پسینے کی بوندیں آ جاتیں۔ دور ہٹ کر لیمپ کے کھمبے کا سہارا لئے میں گھنٹوں کھڑا رہتا تھا۔ حتی کہ پیرشل ہو جاتے تھے۔ میں یونہی ٹکٹکی باندھے اس پھاٹک کو تاکتا رہتا تھا۔ بہتیرے شریف اس کے اندر سے نکلتے اور دائیں بائیں دیکھ کر لپکتے ہوئے بھیڑ میں گم ہو جاتے تھے۔ لمبی لمبی چوٹیوں اور کھنیری ڈاڑھیوں والے بیسیوں بدمعاش اس چکلہ گھر سے برآمد ہو کر بھیگی بلیوں کی طرح پنجے دبائے بھاگتے نظر آتے تھے۔

    مجھے یاد ہے کہ میں نے اس سے کیوں کر ہم کلام ہونے کی جرأت کی تھی۔

    اس روز میں اپنے سب سے پیارے دوست کو قبر میں لٹا کر لوٹا تھا۔ اب دنیا میں کوئی اپنا نہ تھا۔ وہ دق میں گھل گھل کر مر گیا اور میں اس کے علاج کا کوئی انتظام نہ کر سکا۔ جب وہ مر گیا تو ہم نے اسے مٹی کے تودوں کے نیچے دبا دیا۔ جب وہ قبر میں سلا دیا گیا تو میں نے کلیجہ تھام کر آخری مرتبہ اس کے چہرے کو دیکھا۔ اس پر اب بھی وہی بھولاپن تھا۔ گویا انسان سماج کی قبر میں چاندی کے ڈھیلوں کے نیچے دب گیا اور اس نے مرتے مرتے کہا، ’’میری پیپ تمہارے جسم کو سڑائےگی، میرا خون تمہارے بند کو تپائےگا، میرے آنسو تمہارے گوشت کو گلائیں گے۔‘‘

    میں قبرستان سے لوٹا تو میرے جسم کے اندر کچھ نہ تھا۔ ضمیر کی جگہ کوئی چیز بھائیں بھائیں کر رہی تھی۔ ایک خلا جس میں کاہش کے سوا کچھ نہ تھا۔

    شام کے وقت بلا ارادہ میں اسی مکان کے آگے موجود تھا۔ میں نے بنا کچھ کہے ہاتھ پکڑ کر اسے اندر گھسیٹ لیا۔

    اس نے مجھے ایک روپیہ دے کر کہا، ’’اس مندر کے پیچھے کی گلی میں ایک کلال کی دوکان ہے، وہاں سے ایک ادھا خرید لاؤ۔‘‘

    میں نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا، لیکن اس وقت نہ جانے کیا ہو گیا میں نے تہیہ کر لیا کہ ہر وہ کام اچھا رہے جسے دنیا برا کہتی ہے۔ پھر میں اس کلال کی دکان میں گھس گیا۔

    مٹی کے بڑے بڑے مٹکے جن پر جھاگ کے بادل سمٹ آئے تھے۔ جیسے بھینس کے تھن سے دودھ ٹپک رہا ہو۔ ان میں مکھیاں اور مکوڑے تیرتے ہوئے اندر متوالے مل کر گا رہے تھے۔

    ’’ایکشا نمبر ون کا آآآآآ۔۔۔ بہا آآآآ۔۔۔ دے نالا۔۔۔‘‘

    میں جلدی سے ایک ادھا خریدا اور دو انی کی چاٹ۔ چٹپٹی مسالے دار۔

    اس نے منہ لگا کر دیکھتے دیکھتے آدھی بوتل ختم کر دی۔ پھر چپ چاپ ایک سگریٹ سلگایا اور میری گود میں اپنے پاؤں پھیلا کر ٹوٹی ہوئی آرام کر سی پر دراز ہو گئی۔

    یک بیک وہ زور سے ہنسی اور مجھے غور سے دیکھ کر پوچھا، ’’تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘

    ہوا بند تھی۔ کھڑکی سے آسمان کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نظر آ رہا تھا جس میں دو تین ستارے چمیلی کے پھولوں کی طرح کھلے ہوئے تھے۔

    میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اس سوال کا جواب کیا ہو سکتا تھا۔

    ’’بولتے نہیں۔ میں پوچھ رہی ہوں کہ تم یہاں کس غرض سے آئے ہو۔ مجھے اس مرد سے نفرت ہوتی ہے جو عورت کے پاس بیٹھ کر اپنا مدعا زبان سے نہیں بلکہ نگاہ سے ظاہر کیا کرتا ہے اور اس گھڑی کا منتظر رہتا ہے، جب عورت خود اس سے پوچھےگی، تم کیا چاہتے ہو؟‘‘

    اس نے بوتل کی بچی ہوئی شراب اپنے گلے کے نیچے اتار لی اور سگریٹ کا ایک گہرا کش لے کر باہر دیکھنے لگی۔ میں بدستور چپ تھا۔ خود مجھے بھی نہیں معلوم تھا کہ میں کیوں آیا ہوں اور کیا چاہتا ہوں۔

    پھر وہ اٹھ کر کوٹھڑی میں ٹہلنے لگی۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ آئینہ کے سامنے کھڑی ہو گئی اور اس میں اپنی صورت دیکھنے لگی۔ جب وہ دوبارہ ہنسی تو مجھے ایسا لگا کہ کوئی مردہ ہنس رہا ہے۔

    ’’یہ میری ہی صورت ہے ے۔ اگر میں کاجل غازہ اور لاکھے کو دھوڈالوں تو کیا رہ جائے۔ دھندلی آنکھیں، پچکے ہوئے گال، سوکھے ہوئے ہونٹ۔ تین سال کے اندر کیا سے کیا ہو گیا۔ میرے جسم کو گھن لگ چکا ہے میں اندر سے کھوکھلی ہو گئی ہوں۔ مجھے ایسی ایسی بیماریاں لگ گئی ہیں جن کے تصور سے تمہیں وحشت ہوگئی اور تم یہاں سے بھاگ جاؤگے!‘‘

    دیر تک وہ کچھ سوچتی رہی۔ اس کا منہ غصہ سے تمتما رہا تھا۔ مجھ پر آنکھیں گاڑ کر وہ کہنے لگی، ’’اور یہ بیماریاں مجھے کہاں سے لگیں؟ یہ تم جیسے چاہنے والوں کا ہی عطیہ ہے۔ مرد۔ سوزاک اور آتشک کے جراثیم کا باپ!‘‘

    تم ابھی اس کوچے سے ناواقف ہو۔ نہیں جانتے کہ عورت کیا ہے۔ اگر تمہیں اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح معلوم ہوگا کہ وہ مٹی کا ایک کھلونا ہی اور بس۔ تو تم آتے ہی اسے توڑ دیتے۔ یوں حیرت اور ہیبت سے مجھے نہ نہ تاکا کرتے۔ مگر تم ان لوگوں سے اچھے ہو جو وحشی درندوں کی طرح دیکھتے ہی ہمارے سینوں پر آتے ہیں۔ ہمیں کتوں کی طرح بھنبھوڑتے ہیں اور جب ہڈیوں میں گودا نہیں رہتا تو ہمارے پلو میں دو چار ٹکلیاں باندھ کر چلے جاتے ہیں۔

    پھر گھر والی آتی ہے۔ ہماری گرہ سے ایک ایک چھدام نکال کر لے جاتی ہے اور اس کے بدلے ہمیں کھانے کے لئے روٹیاں اور سنگار کے لئے کاجل کی سلائی دے جاتی ہے۔

    دن کے اجالے میں جب تم لوگ ادھر سے آتے جاتے ہو تو حقارت سے منہ پھیر کر اپنے ساتھیوں سے کہتے ہو یہاں چھنالا ہے۔ ان ٹکیٹی طوائفوں کو عصمت یا عزت کا ذرا پاس نہیں۔ انہیں شہر سے نکال دینا چاہئے۔

    مگر رات کے اندھیرے میں تم کشاں کشاں آتے ہو اور ان خرابوں کو آباد کرتے ہو۔ تم اپنا منہ کالا کر کے اپنی حرام کمائی کے چند درم ہمیں دیتی ہو اور پھر اس تجسس میں اپنی حرم سرا کو بھاگتے ہو کہ بیوی تو خیریت سے ہے۔‘‘

    وہ ہانپنے اور کھانسنے لگی۔ اس کا سانس پھول گیا اور چارپائی پر گر پڑی۔ اس نے درودیوار کو دیکھا اور آپ ہی آپ کہنے لگی، ’’زیادہ دن نہیں۔ یہ مصائب بہت جلد ختم ہو جائیں گے۔ اب سب کچھ خواب معلوم ہوتا ہے۔

    جب میں مرجاؤں اور میری لاش لاوارثوں کے قبرستان میں پھینک دی جائے تو تم علی گری کے مولانا نور الاسلام سے ملنا۔ اس وقت ان کے پاس جانا جب وہ منبر پر بیٹھے جمعہ کا خطبہ سنا رہے ہوں اور تمہیں شرافت کی قسم کہ جب وہ اخلاق کی تفسیر بیان کرنے لگیں تو اپنی صف سے نکل کر کہنا۔ مولانا! میں ایک پردیسی ہوں اور آپ کو یہ پیغام سنا نے کلکتہ سے آیا ہوں کہ بد اخلاقی اس دنیا سے چل بسی۔ اب آپ ناحق نہ بسوریئے۔

    اور جب سب بڈھے اپنی عینکیں کھسکا کر تمہیں گھوریں اور پوچھیں کہ یہ کیا بکتا ہے، تو تم کہنا۔ میں آپ کی بیٹی کے جنازے کا تماشہ دیکھ کر آ رہا ہوں۔ وہ جسے ایک حرامی بچہ پیدا کرنے کے جرم میں آپ نے گھر سے نکال دیا تھا۔ اسے ایک مرد مومن نے کچھ دنوں کے لئے اپنے گھر ڈال لیا اور اسی طرح ہاتھوں ہاتھ وہ کلکتہ پہنچ کر طوائف کا پیشہ کرنے لگی۔ آپ کے ہم جنسوں نے تحفہ میں اسے گھناؤنی بیماریاں دیں اور جب وہ مر گئی تو ایک حافظ نے اس کی قبر پر فاتحہ خوانی کی۔ جب تم یہ کہہ چکو گے تو لوگ تمہیں بہت پییں گے لیکن اپنی محبت کے صدقے میں اتنی تکلیف اٹھا لینا۔‘‘

    میرا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہاں سے بھاگ جاؤں مگر پیروں میں جیسے زنجیر پڑ گئی تھی۔

    وہ پھر کھانسنے لگی۔ جب اس کا جی کچھ سنبھلا تو میں نے دیکھا کہ وہ چپکے چپکے رو رہی ہے۔ ’’تم لوگ جانوروں پر رحم کھاتے ہو۔ ان پر کوئی تشد کرتا ہے تو سزائیں دیتے ہو۔ میں نے سیٹھوں کو دیکھا ہے کہ چیونٹیوں کو شکر اور سانڈوں کو پوریاں کھلاتے ہیں۔ مگر عورت! آہ عورت پر اتنا ظلم کیوں کرتے ہو؟

    مگر عورتیں بیویاں بن کر طوائفوں سے مردوں کی بہ نسبت زیادہ نفرت کرتی ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ ہمارا وجود ان کے حق میں کتنی بڑی نعمت ہے۔ ہم انہیں زنا بالجبر، اغوا اور علانیہ عصمت دری سے بچاتی ہیں۔

    اور خدا! وہ ہماری کیوں نہیں سنتا۔ اگر اس کی جنت میں حوروں کے لئے جگہ ہے تو دنیا میں ایک کونہ ہمیں کیوں نہیں مل سکتا؟‘‘

    اب ہوا چل رہی تھی اور تاڑ کے پتے غم نام آواز میں کراہ رہے تھے۔ سڑک پر ٹریموں اور موٹروں کا شور بہت کم ہو گیا تھا۔ البتہ اکے دکے رکشا کی گھنٹی بج اٹھتی تھی۔ بادلوں نے آسمان کے اس ٹکڑے کو گھیر لیا تھا اور ان میں کبھی کبھی بجلی چمک جاتی تھی۔

    وہ پھر بولنے لگی، ’’میں نے صرف ایک مرتبہ محبت کی ہے اور اب بھی اس فریب میں مبتلا ہوں کہ وہ سچی محبت تھی۔ یہ فریب کبھی نہ ٹوٹے گا۔ کیونکہ قبل اس کے کہ میں اس کا امتحان لوں وہ مر چکا تھا۔

    وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں اٹھاکر کس التجا سے مجھے دیکھتا تھا۔ وہی تصور مجھے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ میں نے اپنا مایۂ حیات اسے سونپ دیا اور اس سے پہلے کہ وہ اس امانت کو لوٹائے وہ پلیگ میں مر گیا۔

    اس نے مجھے جو بچہ دیا وہ حرامی تھا۔ کاش ہماری محبت کا اخلاقی کی مہر مل جاتی اور میرا بچہ مل جاتا۔‘‘

    ان بھولی ہوئی باتوں کی یاد سے اس کا دل بھر آیااور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کس طرح دلاسا دوں جس ماں کے آگے اس کے بچے کی لاش پڑی ہوئی ہو اور جس عورت کے آگے اس کے محبوب کا جنازہ، اسے تسلی دینے کا اسلوب کوئی زبان پیدا نہیں کر سکتی۔

    جیسے وہ عدالت کے آگے بیان دے رہی ہو۔ میری سوتیلی ماں نے اندھیری رات میں اس بچے کی لاش آنگن میں گاڑ دی۔ اپنے بستر پر لیٹے لیٹے بجلی کی روشنی میں میں نے وہ نظارہ دیکھا اور پھر بیہوش ہو گئی۔

    دو تین روز بعد میرے سوتیلے ماموں نے مجھے گاڑی میں بٹھا کرالہ آباد کا ٹکٹ ہاتھ میں تھما دیا۔ یہیں سے میری مصیبت کا آغاز ہوتا ہے۔

    الہ آباد۔ میرے نسبتی خالوکا مکان۔ میری مرضی کے خلاف عصمت دری، بدنامی کاڈر، کلکتہ۔ یہ چکلہ گھر۔‘‘

    زیر لب وہ یہ ٹوٹے پھوٹے جملے دوہراتی رہی اور چند لمحوں کے لئے اس کی آنکھ لگ گئی۔

    میں دبے پاؤں اٹھا اور نکل بھاگنے کی نیت سے جوتے پہننے لگا۔ اتنے میں وہ چونک کر اٹھ بیٹھی، ’’کیا تم جا رہے ہو؟‘‘ اس نے اداسی سے پوچھا۔ اب اس کی آواز نرم و نحیف ہو گئی تھی۔

    میں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ اب بھی کچھ نہ کہہ سکا۔

    ’’اچھا تو جاؤ خدا حافظ۔ اب نہ آنا۔ میں تم سے انتقام نہیں لینا چاہتی اور کوئی ہوتا تو میں بصد شکر سوزاک اور آتشک کے چند جراثیم نذر کرتی۔ وہ کسی اور کو دیتا اور یہ اس کے بچوں کو ورثہ میں ملتے۔ غرض ساری انسانیت ان امراض میں مبتلا ہو جاتی۔ تب شاید سماج کے ٹھیکہ داروں کو ہوش آتا کہ اس بلا کی جڑ کہاں رہے۔

    مگر کبھی کبھی آ کر پوچھ لینا کہ میرے مرنے میں کتنی دیر ہے۔ کوئی کانوں میں کہہ رہا ہے کہ زیادہ دیر نہیں۔

    کوئی بھری جوانی میں مرتا ہے تو لوگ افسوس کرتے ہیں کہ کیسا نامراد چلا۔ لیکن مجھے دیکھو کہ زندگی سے موت کے سوا کچھ نہیں مانگتی۔ تم نہیں جانتے کہ ہم آپ اپنی نظر میں کتنی ذلیل ہیں۔ ہمارا ہر لمحہ دوسروں کی خوشنودی میں بسر ہوتا ہے۔ ہم ایسی لونڈیاں ہیں جن کے آقا ہر روز بدلتے ہیں، کیوں۔ کس خیال میں گم ہو گئے۔ جاؤ خدا کے لئے چلے جاؤ۔‘‘

    لیکن میں نہ جا سکا۔ مجھے اس سے کچھ نہیں لینا تھا۔ پھر بھی میں گرفتار نظر پرندے کی طرح اپنی جگہ سے ٹل نہ سکا۔

    ’’میں نہیں جاؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے اپنا سراس کے آغوش میں رکھ دیا۔ وہ ایک بےجان لاش کی طرح یونہی پڑی رہی۔ اس کے دل کی دھڑکن کو میں صاف سن سکتا تھا۔ اس کی روح کا نوحہ میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔

    ’’تو پھر مجھے جانے دو۔‘‘ اس نے کہا اور وہ چلی گئی۔

    مأخذ:

    محبت اور نفرت (Pg. 156)

    • مصنف: اختر حسین رائے پوری
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے