Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ممی

MORE BYمہندر ناتھ

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ ایک ایسی بوڑھی انگریز عورت کی کہانی ہے، جو ہندوستان میں رہتے ہوئے لڑکیاں سپلائی کرنے کا کاروبار کرتی ہے۔ ساتھ ہی اسے ہندوستانیوں سے سخت نفرت بھی ہے۔ اس کے گاہکوں میں ایک نوجوان بھی شامل ہے جو اسے ممی کہتا ہے۔ ممی بھی اسے بہت چاہتی ہے۔ نوجوان کے لیے ممی کی یہ چاہت پلک جھپکتے ہی جنسی ہوس میں بدل جاتی ہے اور وہ اس کی بانہوں میں سما جاتی ہے۔‘‘

    ’’ممی، یو آر گریٹ ممی۔ میرے پاس آؤ۔ وسکی کا ایک اور پیگ لونا۔‘‘

    ’’ڈونٹ بی سیلی مائی سن۔‘‘ ممیّ چلاّئی۔

    ’’بی اےگڈ مدر۔ صرف ایک پیگ اور۔‘‘ ممی وسکی کی بوتل سے ایک پیگ ڈالتی ہے اور پینے والے ہاتھ میں گلاس دیتی ہے۔ ’’یو آرگریٹ ڈارلنگ۔ تھوڑی برف۔ یہ برف کہاں سے لائی ہو، صبح میں نے نوکر کو بھیجا لیکن اسے برف نہ ملی۔ ممیّ یو آر سویٹ۔ میرے پاس آؤ۔ میرے قریب۔‘‘

    ’’ڈونٹ بی سیلی مائی سن۔ ممی پھر چلائی۔“

    ’’اگر میرے پاس نہ آؤگی تو میں چلا آؤں گا، میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں، میں تمھیں کتنا پسند کرتا ہوں ممی۔ تمھاری قسم مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں تم کو کیوں پسند کرتا ہوں، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میں تمھیں پسند کرتا ہوں ممی، میرے پا س آؤ میرے قریب، تمھارا ہاتھ کدھر ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’تم نے بہت پی ہے مائی سن۔‘‘

    ’’نہیں ممی ابھی میں اور پیوں گا، جی بھر کے پیوں گا، تم شراب پلاتی جاؤ میں پیتا جاؤں، شراب کتنی اچھی چیز ہے، شراب پی کر میں بہت باتیں کرتا ہوں، ادھر ادھر کی باتیں، عشق اور محبت کی باتیں، تمھاری باتیں، غلامی کی باتیں، ممی تمھارے ہاتھ بہت ہی خوبصورت اور ملائم ہیں، نرم و نازک۔‘‘ ممیّ زور سے قہقہہ لگاتی ہیں۔

    ’’زور سے مت ہنسو ممیّ، اس قہقہے سے بڑھاپے کی بو آتی ہے، تم ذرا لطیف انداز سے ہنسو، دبی دبی سی ہنسی، خوش گوار ہنسی، پیاری اور میٹھی ہنسی، یو آر واقعی گریٹ، ایک اور پیگ۔‘‘

    ’’بالکل نہیں۔‘‘

    ’’میں تمھارے قریب آؤں گا، تمھارے ساتھ بیٹھوں گا۔‘‘

    ’’آ جاؤ۔۔۔‘‘

    ’’کیا تمھیں کسی بات کا ڈر نہیں۔‘‘

    ’’ممی! میں تمھارا کن الفاظ سے شکریہ ادا کروں، تم نے جس لڑکی کا پتہ دیا تھا، میں اسی سے ملنے گیا تھا۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’بمبئی میں ڈارلنگ۔‘‘

    ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

    ’’ممی وہ لڑکی مجھے بالکل پسند نہیں آئی، دیکھتے ہی مجھے اس سے نفرت ہوگئی، مجھے وہ بالکل پسند نہیں آئی، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ مجھے اجنبی سمجھ رہی ہے، ممی میں تو تمھاری سفارش لے کر گیا تھا، پھر بھی اس نے سیدھی طرح بات نہ کی۔ مجھے کیا غرض تھی کہ اسے مناتا۔ بہت مغرور تھی وہ، اپنے آپ کو معلوم نہیں کیا سمجھتی تھی۔ اس کے سلوک، اس کے برتاؤ، اس کی باتوں سے عیاں تھاکہ وہ ہر ہندوستانیوں کو پسند نہیں کرتی اور میری جیب میں سفارش کے علاوہ روپے بھی تھے، مفت کا مال تو نہیں تھا ممی۔‘‘

    ’’مجھے امید نہ تھی کہ وہ اس طرح Behave کرےگی۔‘‘ ممیّ نے شراب کے گلاس کو ختم کرتے ہوئے کہا۔

    ’’ممیّ میرے قریب آؤ۔۔۔ مرے نزدیک، میرے پاس آؤ، ذرا، ذرا ادھر سرک آؤ، ہاں اتنی جلدی بوڑھی کیوں ہو گئی ہو؟‘‘

    ’’ایک دن تم بھی بوڑھے ہو جاؤگے، بالکل میری طرح صرف dad بن کر رہ جاؤگے۔ لیکن ہاں عورتیں بہت جلد بوڑھی ہو جاتی ہیں۔‘‘

    ’’ممی تم مجھے پسند کیوں کرتی ہو۔‘‘

    ’’کیوں کہ تم اچھے ہو، کیوں کہ تم خوبصورت ہو، جوان ہو، تم اتنے زور سے قہقہے لگاتے ہو کہ میرے بوڑھے جسم میں توانائی سی آ جاتی ہے، میں جوان لڑکوں کی صحبت میں بیٹھ کر خوش رہتی ہوں، مجھے ہنسی اور قہقہوں سے انتہائی محبت ہے اور تم۔‘‘ رک جاتی ہے۔

    ’’جو کچھ کہنا چاہتی ہو کہہ ڈالو۔‘‘

    ’’یہی کہ تم کمینے نہیں ہو۔‘‘ یہ کہہ کر ممی مسکرائی۔

    ’’ممیّ ایک پیگ اور تمھارے ہاتھوں کی قسم جو اتنے نرم اور ٹھنڈے ہیں، مجھے تمھارے ہر سانس سے محبت ہے۔‘‘

    ’’تم نے بہت پی لی ہے اور اگر تم نے ایک اور پیگ پی لیا تو قے کرنے لگوگے۔‘‘

    ’’نہیں ممی نہیں۔‘‘ تمھاری قسم نہیں، قے نہیں کروں گا، میں کبھی قے نہیں کروں گا، صرف ایک پیگ اور، لو تم بھی ایک پیگ اور جب تم شراب پی لیتی ہو تو تم کافی حسین ہو جاتی ہو، تمھاری دھنسی ہوئی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں اور تمھارے مرجھائے ہوئے چہرہ پر رعنائی سی آ جاتی ہے، ممی تمھاری۔‘‘

    ’’انگلو انڈین۔‘‘

    ’’کیا تمھیں ہندوستانیوں سے نفرت ہے؟‘‘

    ’’بالکل نہیں میرے بیٹے، مجھے صرف اس شخص سے نفرت ہے جو کمینہ ہو اور وہ تمھارا دوست جو اپنے آپ کو شاعر کہتا ہے، وہ تو بہت ہی کمینہ ہے۔‘‘

    ’’کون سا شاعر ممیّ؟‘‘

    ’’وہ کالا سیاہ سا، جس کی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی ہیں، جو نہایت ہی بدصورت اور بےحیا ہے، اس کا دل بھی اس کے رنگ کی طرح سیاہ ہے، مجھے اس سے بےانتہا نفرت ہے۔‘‘

    ’’کس بات پر جھگڑا ہوا تھا؟‘‘

    ’’ایک دن کہنے لگا، مجھے لڑکی لا دو، کم بخت اپنی صورت نہیں دیکھتا اور جس انداز سے اس نے مجھے یہ الفاظ کہے وہ انداز میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں اسے لڑکیاں لاکر کیوں نہیں دیتی، میں اسے شراب کیوں نہیں پلاتی، بھلا میں اس کالے سیاہ آدمی کو کس طرح اپنے گھر میں بلاؤں، میں بدصورتی سے نفرت کرتی ہوں، میں بدصورت آدمی کے ساتھ شراب نہیں پی سکتی۔ کیا ہواکہ میں لڑکیاں سپلائی کرتی ہوں، یہ میرا پیشہ ہے کیا تم مجھ سے نفرت کرنے لگوگے، اسی وجہ سے۔۔۔!‘‘

    ’’نہیں ممی، بلکہ میں اس بے باک پن کی وجہ سے تم سے محبت کرتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ تم لڑکیاں سپلائی کرتی ہو، مجھے اس سے کیا غرض، لوگ اس سے برے کام کرتے ہیں اور پھر میں تم سے کیوں نفرت کروں، میں کون سے اچھے کام کرتا ہوں۔‘‘

    ’’نہیں میرے بچے، تم کمینے نہیں ہو۔ تم دیانت دار ہو، تم میرا مذاق نہیں اڑاتے۔‘‘

    ’’ممی نو مور ٹاک، میرے قریب آؤ۔ آؤ۔ آؤ۔ آؤنا۔‘‘

    ’’ڈونٹ بی سیلی مائی سن۔۔۔ مجھے اس شاعر سے نفرت ہے، میں چاہتی ہوں کہ اسے ماروں پیٹوں، اس کی مسکراہٹ کو نوچ ڈالوں، وہ مجھے ولالہ سمجھتا ہے، کافر کہیں کا۔۔۔ وہ مجھے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، کیوں کہ طوائف ہوں، یا طوائف رہ چکی ہوں، جیسے جسم اس کے باپ کا ہے۔‘‘

    ’’چیخو مت ممی۔‘‘

    ’’مجھے کہنے دو۔۔۔‘‘

    ’’ممیّ میرے قریب آؤ اور قریب۔۔۔ ناراض نہ ہو، یو آر سویٹ۔‘‘

    ’’وہ مجھے سمجھتا کیا ہے، اس نے میرا مذاق کیوں اڑایا، وہ مجھے نفرت کی نگاہ سے کیوں دیکھتا ہے شالا کہیں کا، کیا تم یہ جانتے ہوکہ پیشہ مجھے کیوں اختیار کرنا پڑا۔۔۔؟‘‘

    کیوں کہ تم یہ پیشہ اختیار کرنا چاہتی تھیں۔‘‘

    ’’بکو مت، شاید تم نے ضرورت سے زیادہ پی لی ہے، میں طوائف کبھی نہیں بننا چاہتی تھی۔‘‘

    ’’تمہیں طوائف کون کہتا ہے؟‘‘

    ’’تمھارا شاعر۔‘‘

    ’’شاعر نہیں گدھا ہے، اسے کچھ پتہ نہیں۔۔۔ وہ بےوقوف ہے۔‘‘

    ’’اب آؤ میرے قریب، اب تو خوش ہونا، وہ لڑکی بہت اچھی تھی۔‘‘

    ’’چند دن ہوئے تم نے میرے پاس بھیجی تھی، وہ بہت اچھی تھی، کم بخت روپے بہت مانگتی تھی، ڈیڑھ سو روپے۔‘‘

    ’’کسی شریف گھرانے کی لڑکی تھی۔‘‘

    ’’تو پھر کیا ہوا۔۔۔ مجھے اس کی شرافت سے کوئی سروکار نہیں۔ کہنے لگی تم میرے رسیلے ہونٹوں سے رس چرا سکتے ہو، بس بس زیادہ کچھ نہیں، تمھیں عصمت اور کنوارے پن کی عزت کرنی چاہیے، رات بھیگتی رہی اور میں اس کے شاداب لبوں سے تازگی حاصل کرتا رہا، شب بھر ہم نے ایک جان ہوکر ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو جوانی کے خواب دیکھے، میں حسن و جوانی اور عصمت کی عزت کرنا جانتا ہوں، خوب جانتا ہوں۔‘‘

    ’’ہوں۔۔۔ اور تمھارا شاعر۔۔۔ کالا اور سیاہ۔۔۔ چمنی کے دھوئیں کی طرح سیاہ، آنکھوں میں آوارگی۔۔۔ اور سینے میں بچھو کا ڈنک، مجھ پر ہنستا تھا، کمینہ، مجھے طوائف سمجھ کر نفرت کرتا تھا جانتے ہو میرے بیٹے، میری عمر چودہ سال کی تھی، جب میری ماں ہیضہ سے مر گئی، اس وقت میں جوان تھی۔ بہت سے گورے سپاہی ہمارے گھر آتے تھے، ماں کے مرنے کے بعد میں اکیلی رہ گئی بالکل اکیلی تنہا اور ایک رات ایک گورے نے مجھے پلا دی اور اس رات حسن فروشی کی طرف میرا پہلا قدم اٹھا۔ کہنے لگا میں تمھارے ساتھ شادی کروں گا، میں تم سے محبت کرتا ہوں لوسی، ان دنوں لوگ مجھے لوسی پکارتے تھے، لوسی نادان تھی، جوان تھی، گورے کی باتوں میں آ گئی اور جب صبح ہوئی تو گورا کہیں بھاگ گیا تھا اور لوسی پھر اکیلی تھی، میرے بچے تم اس وقت کہاں تھے، تمھاری قسم میں اس وقت جوان تھی، جسم میں پتھر کی سختی تھی، اتنی سختی کہ چٹکی لو تو پوریں چھل جائیں، جسم میں سورج کی سی گرمی تھی، معلوم نہیں تم اس وقت کہاں تھے؟ اور اب، اب تو بوڑھی ہو چکی ہوں۔‘‘

    ’’ممی یو آر گریٹ سوویٹ عورت۔‘‘

    ’’میں ان حالات میں کیا کرتی، کیا راہبہ بن سکتی تھی، کیا میں کسی ہسپتال میں نرس بھرتی ہو سکتی بھی؟ بالکل نہیں مجھے دونوں پیشوں سے نفرت ہے۔ جب جسم میں آگ ہو، گوشت میں پتھر کی سی سختی ہو، اس وقت عورت راہبہ نہیں بن سکتی، نرس نہیں بن سکتی اور پھر میں نے یہ پیشہ اختیار کر لیا۔ لوگ جوق در جوق آنے لگے، میں نے ہمیشہ ان لوگوں سے محبت کی جو مجھے پسند آئے، میں نے یوں ہی اپنے آپ کو غیروں کے حوالے نہیں کیا بلکہ آہستہ آہستہ سوچ سمجھ کر میں نے اس جسم کا استعمال کیا ہے۔ دیکھ لو اس عمر میں بھی لوگ میرے پاس آتے ہیں، میرے جسم کو خریدنا چاہتے ہیں، لیکن میں ان کو گھر سے باہر نکال دیتی ہوں، صرف جوان لڑکوں کے ساتھ بیٹھتی ہوں، کیوں میرے بچے؟‘‘

    ’’تم اسے پیشہ کہتی ہو؟‘‘

    ’’ہاں میرے بچے تم اپنا دماغ بیچتے ہو، میں اپنا جسم بیچتی ہوں، تجارت کرنے والے ۴۲۰ کر کے محل تیار کراتے ہیں اور میں جسم کی نمائش کر کے اپنا پیٹ بھرتی ہوں، یہ دیکھو یہ چھوٹا سا گھراسی جسم کی بدولت تیار ہوا ہے اور اگر تمھیں ان تجارت کرنے والوں سے نفرت نہیں تو مجھ سے نہیں ہونی چاہیے۔‘‘

    ’’ممی شٹ اپ۔ یوآر اسپوائلنگ مائی موڈ۔ کیا میں نے تمھیں نہیں بتایا کہ میں بمبئی گیا تھا اور پھر اس لڑکی کے گھر بھی گیا تھا، لڑکی نہایت ہی بدتمیز تھی، تمھاری قسم اس سے بالکل نفرت ہو گئی، اس نے مجھ سے اس طرح باتیں کیں، جیسے وہ ایک اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتی ہے اور میں محض ایک حقیر انسان تھا۔‘‘

    ’’مجھے اس کالے ہندوستانی سے نفرت ہے۔‘‘

    ’’اور میں اس لڑکی کے گھر سے نکل کر بازار میں چلا گیا، مجھے معلوم تھا کہ بازار میں ایک ہنگامہ برپا ہے، دوکانیں بند ہو رہی تھیں، لوگ جوق در جوق اکٹھے ہورہے تھے کہ انڈین نیوی نے بغاوت کردی ہے، بیس جہازوں پر قبضہ کر لیا، ہندوستانی نیوی زندہ باد، ہندوستانی فوج زندہ باد۔ کہو ممی ’’جے ہند۔‘‘

    ’’نہیں کہتی۔‘‘

    ’’تمھیں کہنا ہی پڑے گا۔ نہیں تو میں تمھارا سر پھوڑ دوں گا۔‘‘

    ’’مجھے جے ہند کا نعرہ پسند نہیں۔‘‘

    ’’لیکن ممی اس نعرے نے ہندوستان کو پھر سے بیدار کیا، ممی ایک گلاس اور م، میّ میرے قریب آؤ، میرے پاس آؤ، میں تم سے باتیں کرنا چاہتا ہوں، راز کی باتیں، ارے تم بمبئی نہیں گئیں، اگر تم نے آزادی کی جنگ دیکھی ہوتی، تو ہندوستانی کی بہادری کی قائل ہو جاتیں، کہو انڈین نیوی زندہ باد۔‘‘

    ’’ہندوستانی بزدل ہیں اور روپے کے لالچ میں آکر دوسروں کے لئے لڑتے ہیں۔‘‘

    ’’نہیں ممی اب یقین نہیں کرتا، جو کچھ دیکھ کر میں آیا ہوں، اس کے بعد میں نہایت فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہم آزادی کے لئے لڑ سکتے ہیں، مر سکتے ہیں، ممی چھوٹے چھوٹے بچے جے ہند کا نعرہ لگا رہے تھے۔ بچوں کے ہاتھ میں پتھر لاٹھیاں تھیں، لیکن گوروں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں، مشین گنیں تھیں، مقابلہ بہت سخت تھا، بچّوں نے بوڑھوں نے عورتوں نے گولیاں سینے پر کھائیں اور جے ہند کا نعرہ بلند کرتے رہے۔ کانگریس اور مسلم کے جھنڈے اکھٹے لہرا رہے تھے اور اگر ان لوگوں کے پاس بھی بندوقیں ہوتیں۔۔۔ تو۔۔۔‘‘

    ’’مائی گاڈ ڈونٹ ٹاک راٹ، مائی سن۔۔۔‘‘

    ’’کون۔۔۔؟‘‘

    ’’وہی تمھارا شاعر۔۔۔ میں اسے جان سے مار دوں گی۔‘‘

    ’’ممی شٹ اپ، کہو جے ہند۔۔۔‘‘

    ’’نہیں کہتی۔‘‘

    ’’صرف Navy ہی نہیں، ایر فورس، مسلح فوج، یعنی ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں پہلی بار سب ہندوستانیوں نے مل کر آزادی کا نعرہ بلند کیا، اب طوفان کو کوئی نہیں روک سکتا، بندوقیں، گولیاں، ہم ہندوستانیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ ظلم اور یہ تشدد ہمارے آہنی عزم کو متزلزل نہیں کر سکتا، اب ہندوستان آزاد ہوکر رہےگا اور جے ہند کا نعرہ صرف بمبئی سے بلند نہیں ہوا کراچی سے کولمبو تک، دلی سے لے کر پشاور تک ہر شہر، ہر گاؤں سے نعرہ بلند ہو رہا ہے، اب ہمارا وطن آزاد ہو کر رہےگا۔‘‘

    ’’تم نے بہت پی لی ہے۔‘‘

    ’’جب میں زیادہ پی لیتا ہوں، تو نہایت صاف اور واضح باتیں کرتا ہوں، نہایت کھری کھری باتیں، ممی میں تمھیں پسند کرتا ہوں، مجھے تمھاری قوم سے نفرت ہے۔‘‘

    ’’وہ کیوں؟‘‘

    ’’وہ اس ملک کو اپنا وطن نہیں سمجھتے۔ وہ اس طرح باتیں کرتے ہیں جیسے وہ لندن سےآ رہے ہیں، ان کی حرکات، عادات سب انگریزوں کی طرح ہیں۔ مجھے ان کے رہنے سہنے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن ان کے چپرے مہرے سے تمکنت برستی ہے، غرور کا بےباک سایہ، حکومت کا رعب۔ مجھے یہ بالکل پسند نہیں، ہندوستانی ہوکر ہندوستانیوں سے نفرت کرنا کہاں کی عقلمندی ہے، لیکن ایک بات کے لئے انھیں پسند بھی کرتا ہوں، وہ نہایت صاف اور ستھرے رہتے ہیں، اگر وہ اس ملک کو اپنا وطن سمجھنے لگیں۔‘‘

    ’’مجھے اس پالٹکس سے نفرت ہے، پر ماتما کے لئے چپ ہو جاؤ۔۔۔!‘‘

    ’’کیا تمھیں خدا پر یقین نہیں؟‘‘

    ’’بالکل نہیں۔‘‘

    ’’پھر بھی تم زندہ ہو۔‘‘

    ’’کیا مذہب سے نفرت ہے؟‘‘

    ’’شاید اسی لئے تم خوش و خرم رہتی ہو۔ ممی! انہیں باتوں کی وجہ سے میں تم کو پسند کرتا ہوں، ممیّ تم اس دفعہ بمبئی نہیں گئیں، ہندوستانیوں میں اب نئی تڑپ آ چکی ہے، وہ ایک نئے عزم کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں، اب اس ملک کو کوئی غلام نہیں رکھ سکتا، ممیّ جے ہند کہو، نہیں تو سر پھوڑ دوں گا۔‘‘

    ’’میں نہیں کہتی۔‘‘

    ’’ممیّ تمھیں کہنا ہی پڑےگا، کہو۔۔۔‘‘ وہ ایک شراب کی خالی بوتل اٹھاتا ہے اور بوتل مارنے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے۔

    ’’کہو جے ہند۔‘‘

    ’’جے ہند مائی سن۔‘‘

    ’’اچھا یہ بوتل رکھ دو، ممیّ سورج کی طرف دیکھو، اس آگ کی طرف دیکھو جو سورج اگل رہا ہے۔ یہ سارا کرہ ارض اس سرخ روشنی سے جگمگا اٹھا ہے، یہ لانبے لانبے درخت، یہ آسمان، یہ شفق، یہ پہاڑ، یہ دریا، سب اس روشنی سے جگمگا اٹھے ہیں، کتنا حسین منظر ہے، یہ ایک نئی صبح ہے، نئی لے، نیا گیت، یہ آگ اب رک نہیں سکتی اور پھیلےگی، اس سرے سے لے کر اس سرے تک۔‘‘

    ’’دیکھتے نہیں سورج غروب ہو رہا ہے۔‘‘

    ’’اور دوسرا ابھر رہا ہے، ایک تہذیب مٹ رہی ہے اور دوسری بن رہی ہے، ایک قوم مٹ رہی ہے، دوسری بن رہی ہے، کیا تمھیں یہ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

    ’’تم نے بہت پی لی ہے مائی سن۔‘‘

    ’’ممی یو آر گریٹ۔ میں جانتا ہوں، تم میرے قریب ہو، آؤ، میرے قریب آؤ، اس ٹھنڈے لمس سے مجھے سیراب کردو، جب کبھی تمھارے جسم سے ہمکنار ہوتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی گرم چشمے میں نہا رہا ہوں، ممی یوآر واقعی گریٹ، آؤ، میرے پاس آؤ۔‘‘

    ’’میں تمھارے پاس ہوں۔‘‘

    ’’لیکن اس وقت کے دھارے کو کوئی نہیں مٹا سکتا، یہ وقت جو میرے اور تمھارے درمیان ہے، یہ وقت کی خلیج، یہ بڑھاپے کی لہر جو مجھے تم سے جدا کرتی ہے۔‘‘

    ’’اسی لئے میں تمھاری ممی ہوں، یو آر مائی سن، لیکن جب شراب پی لیتی ہوں، تو تم میرے بیٹے نہیں بلکہ صرف ایک مرد اور میں صرف ایک عورت اور میری ہولناک نگاہیں، اندھیرے میں تمھارا مضبوط اور توانا جسم ڈھونڈتی ہیں، ادھر ادھر چمگادڑوں کی طرح بھٹکتی ہیں اور راستہ ڈھونڈتی ہیں اور پھر رشتہ ختم ہو جاتا ہے اور تم میری آغوش میں ہوتے ہو مائی سن، یور ممی از گریٹ دس رسپکٹ۔‘‘

    ’’ممی شراب کا ایک اور پیگ لاؤ، نہیں تو میں پاگل ہو جاؤں گا، میں مرنا چاہتا ہوں ان لوگوں کے ساتھ، ان بچّوں کے ساتھ، ان عورتوں کے ساتھ جو اس جنگ آزادی میں مارے گئے ہیں، میں واقعی مرنا چاہتا ہوں، لیکن میں بزدل ہوں، میں نے صرف جے ہند کا نعرہ سنا اور واپس آ گیا۔ لوگ مر رہے تھے، آزادی کے لئے، ملک کے لئے اور میں دن بھر شراب پیتا رہا۔۔۔ اور تمھارے جسم کی گرمی سے لذت حاصل کرتا رہا، ممی تم میرے لئے افیون ہو، ایک نشہ ہو، میں مرنا چاہتا ہوں، میں واقعی مرنا چاہتا ہوں، اپنی قوم کے لئے، اپنے ہندوستان کے لئے۔‘‘

    ’’یہ لو شراب کا پیگ۔۔۔‘‘

    ’’شکریہ۔‘‘

    (شراب پی کر)

    ’’ممی یو آر گریٹ، گریٹ۔‘‘

    ’’شٹ اپ مائی سن، مت بولو خاموش ہو جاؤ، اندھیرا بڑھ رہا ہے، شراب جسم کی نس نس میں سما رہی ہے، مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا، ہر طرف اندھیرا اور کچھ نہیں، آؤ، آؤ، میرے پاس آؤ۔ تمھارے بالوں کو چوم لوں، تمھارے جوان سڈول بازؤوں کو دیکھ لوں، اب میں بوڑھی ہو چکی ہوں بالکل بوڑھی، لیکن امنگیں ابھی تک جوان ہیں۔۔۔ بوڑھے جسم میں خون آہستہ آہستہ دوڑ رہا ہے، لیکن یہ شراب، یہ شراب، یہ تیز و تند شراب، کچھ نہیں آزادی اور غلامی سب کچھ اس میں غرق ہو جاتا ہے۔ مجھے نزدیک آنے دو، یو آر سویٹ، یو آر ونڈرفل مائی سن مائی ڈارلنگ۔‘‘

    ’’ممیّ کہو جے ہند۔‘‘

    ’’جے ہند مائی سن۔‘‘

    (دونوں لڑکھڑاتے ہوئے ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں اور اندھیرا دونوں کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔)

    مأخذ:

    مہندر ناتھ کے بہترین افسانے (Pg. 127)

    • مصنف: مہندر ناتھ
      • ناشر: اوپندر ناتھ
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے