Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مقابلہ

محمد شہزاد

مقابلہ

محمد شہزاد

MORE BYمحمد شہزاد

    دونوں ایک غیر ملکی ادارے میں ایک ہی گریڈ میں نوکر تھے۔ تنخواہ اچھی تھی۔ عورت پچیس مرد تیس برس کے قریب۔ ادارے میں میاں بیوی بوجہ پالیسی اکھٹے کام نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن دوران ملازمت اگر میاں بیوی بن جائیں تو کوئی دقت نہ تھی۔ یہ سوچ کر کہ وہ جوان، حسین، تعلیمیافتہ اور ہم آہنگ ہیں، عورت اور مرد نے شادی کر لی۔

    عورت اس سوچ کی حامل تھی کہ عورت مرد سے افضل ہے۔ مرد عورت سے پیار کیا کرتا تھا۔ بحث نہ کرتا۔ اس کی خاموشی نے عورت کی سوچ کو مزید جلا بخشی۔

    ادارے میں جب کوئی اسامی خالی ہوتی تو اندر سے ہی پر کی جاتی۔ اگر اندر سے مناسب امیدوار نہ ملتا تو تشہیر کی جاتی۔ جس گریڈ میں یہ دونوں تھے اس سے ایک گریڈ اوپر کی ایک اسامی خالی ہوئی۔ دونوں نے درخواست دی یہ سوچ کر کہ ایک کو نہ ملے تو شاید دوسرے کو مل جائے۔ نوکری عورت کو ملی۔ مرد اس فتح پر خوش ہوا۔ عورت کی طبعیت میں گھمنڈ پیدا ہو گیا۔ وہ اب اپنے مرد کو کچھ حقیر سمجھنے لگی۔ مرد یہ فرق محسوس نہ کر سکا۔

    سال گذرا۔ مرد بچہ چاہتا تھا اور عورت کیرئیر۔ وہ پانچ سال تک اس جھمیلے میں پڑنا نہ چاہتی تھی۔ مرد عورت کی خوشی میں خوش۔ چھ ماہ اور بیتے تو ایک اور اسامی خالی ہوئی جو مرد کے گریڈ سے دو گریڈ اور عورت کے گریڈ سے ایک گریڈ اوپر تھی۔ لیکن سینئر لیول کی نہ تھی۔ اس بار پھر دونوں نے پرانی حکمت عملی کے تحت درخواست دی۔ عورت دوبارہ کامیاب ہوئی۔ اس نے جشن منایا۔ اس بار تو دعوی بھی کیا کہ عورتیں مردوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہیں۔ اس نئے گریڈ میں کافی فارن ٹورز بھی تھے جو عورت نے کیے۔ امریکہ، کینیڈا اور پورا یورپ۔ عورت نے مرد کو جتایا کہ اگر بچہ کر لیا ہوتا تو نہ اس گریڈ پر جاب ملتی نہ فارن ٹورز ہوتے۔

    ڈھائی سال بیتے۔ اس بار ٹاپ گریڈ کی اسامی خالی ہوئی جسکی تنخواہ عورت کے موجودہ گریڈ سے دس گنا زیادہ تھی۔ یہ نوکری جسے مل جائے اسے پانچ سال بعد کچھ کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ دونوں نے پھر درخواست دی۔ نوکری عورت کو ہی ملی۔ اس بار عورت نے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں جشن منایا۔ اپنے باس کو گیسٹ آف آنر بنایا۔ تقریر میں کئی مرتبہ اس کا شکریہ ادا کیا یہ کہہ کر کہ اگر وہ نہ ہوتا تو یہ ہائی لیول جاب اسے کبھی نہ ملتی۔ مرد بھی بہت خوش تھا۔ اس نئی جاب میں فارن ٹورز مزید بڑھ گئے۔ مرد عورت کے ساتھ بھرپور تعاون کرتا۔ کئی کئی ہفتے شب تنہا گذرتی۔ مگر بیوی کی محبت میں سب جھیل لیتا۔ اک ایسی ہی اکیلی شام تھی کہ ایک دوست کا فون آ گیا۔ بچپن کا۔ پھر لڑکپن اور جوانی کا۔ پچھلے پانچ برس سے امریکہ میں مقیم تھا۔ کامیاب بزنس مین تھا۔ ملنا چاہتا تھا۔ شہر کے چوٹی کے فائیو سٹار ہوٹل میں ایک عالیشان سوئیٹ میں ٹہرا ہوا تھا۔ ایک بزنس ڈیل کی وجہ سے عجلت میں آیا تھا اور اسی جلدی میں واپس بھی جانا تھا۔ اس کا ہوٹل بھی ائرپورٹ کے نزدیک تھا۔ تو طے یہ پایا کہ مرد ہی اپنے دوست سے ہوٹل میں مل لے۔ اسکی عورت ملک سے باہر تھی۔

    قریب دو گھنٹے مرد اپنے دوست کے ساتھ رہا۔ اعلی شراب اور کھانے کا انتظام سوئیٹ میں ہی تھا۔ کچھ دیر بعد دوست نے مرد کو کہا کہ ہوٹل کے خاص ڈسکوٹیک میں جایا جائے۔ شراب کے بعد شباب بھی ہو جائے۔ مرد نے کہا کہ وہ شادی شدہ ہے۔ شراب تو پی سکتا ہے مگر اپنی عورت سے بے وفائی نہیں کر سکتا۔ اس پر دوست نے کہا کہ وہ نہ کرے مگر ہال تک تو ساتھ دے۔

    دونوں ہال میں آ چکے تھے۔ عورتیں اور مرد تیز مغربی موسیقی پر دیوانہ وار رقص کر رہے تھے۔ زیادہ تر عورتیں اپنے چھاتیوں کو کپڑوں سے آزاد کر چکی تھیں۔ مرد بار ٹینڈر کے طرف منہ کئے شراب پی رہا تھا۔ اسے اپنی بیوی کے علاوہ کسی اور عورت میں دلچسپی نہ تھی۔

    ’’دیکھو سامنے ایک عورت نے سب کپڑے اتار دیے ہیں۔ یہ ہے بولڈ اینڈ بیوٹی فل۔ ٹنٹو براس کی ہیروئین لگتی ہے۔ کیا جسم ہے! میرا تو اس پر دل آ گیا ہے۔ میں اسے لیکر آتا ہوں۔ تم سے متعارف کروا کے اپنے سوئیٹ میں لے جاوں گا۔ بس گھنٹہ لگاوں گا اور پھر واپس آ جاونگا۔‘‘ دوست نے مرد سے کہا۔ مرد بدستور شیلف میں لگی بوتلوں کو گھورتے شراب پیتا رہا۔ اس کا دوست اس برہنہ عورت کو لبھانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔

    ’’سوئیٹ ہارٹ ان سے ملوں۔ میرا جگری یار۔ لیکن مجھے لگتا ہے یہ نامرد ہے۔ ہے تو شادی شدہ پر غیر عورتوں سے دور بھاگتا ہے۔‘‘ دوست نے کہا۔

    ’’مجھے دیکھ کر ان کی نامردی مردانگی میں بدل جائے گی۔‘‘ اس برہنہ عورت نے کہا۔ مرد آواز سے اچھی طرح مانوس تھا۔ مڑ کر دیکھا تو صورت بھی آشنا پائی۔ عورت کا سر شرم سے جھکا ہوا تھا۔ مرد بھی عجب آدمی تھا۔ محض اتنا کہہ کر دوبارہ لاپروائی سے شراب پینے لگ گیا، ’’آپ کی شکل ہو بہو میری بیوی جیسی ہے۔ اب تو میری رہی سہی مردانگی بھی گئی!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے