Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ناپاک

ابن منیب

ناپاک

ابن منیب

MORE BYابن منیب

    “آسمان والے کا واسطہ حاجی صاحب۔۔۔ آسمان والے کا واسطہ۔۔۔ ہمارے بچوں کو بچا لیں!”

    دروازہ کھلتے ہی یوحنا حاجی سلیم کے قدموں میں گر پڑا اور بلبلا کر رونے لگا۔ پیچھے اس کی بیوی گھٹنوں کے بل بیٹھی اپنے دو بچوں کو کسی پاگل دیوانے کی طرح پیار کئے جا رہی تھی۔ وہ انہیں سینے سے لگاتی، پھر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے سینے سے ہٹاتی اور گال چُومتی۔ پھر یکایک دوبارہ سینے سے لگاتی اور ایسے بھینچتی جیسے آغوش میں مار ہی ڈالےگی۔ پھر کھوئی کھوئی نگاہوں سے انہیں تکتی، اپنے چِھدے ہوئے مَیلے پلو سے ان کے آنسو پونچھتی اور ان کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی۔ اس کی حرکات و سکنات سے یوں لگتا تھا جیسے اسے دو باتوں کا یقین ہو چکا ہے۔ ایک یہ کہ گاؤں کے شفیق بزرگ، حاجی صاحب، اُس کے بچوں کو پناہ دے دیں گے اور دوسرے یہ کہ وہ آج کے بعد اپنے بچوں کو کبھی نہیں دیکھےگی۔ حاجی سلیم اپنی آنکھوں کے سامنے بکھرے ہوئے منظر کو ابھی سمجھ بھی نہ پایا تھا کہ گاؤں کی مسجد کا اِسپیکر ایک گستاخ چیخ کے ساتھ جاگ اٹھا۔ کسی نے اسپیکر میں زہر آلود پھونک ماری اور براہ راست سزائے موت سنا دی۔ اعلان مختصر تھا۔ مگر بات واضح تھی۔ بھٹے کے مالک ملک سہیل نے یوحنا کی بیوی کو قرآن کے جلے ہوئے کاغذ کوڑے کے ساتھ پھینکتے ہوئے دیکھا تھا۔

    “جلائے تُو نے؟”، حاجی سلیم کی کھوجتی نگاہ یوحنا کی بیوی پر پڑی۔

    بدنصیب ماں کی سوجی ہوئی آنکھیں اور شکستہ چہرہ رحم کی بھیک مانگ رہے تھے۔

    “نہیں پتا حاجی صاحب، نہیں پتا۔ ان پڑھ بندی۔۔۔“، مگر اب اس کی آواز ساتھ چھوڑ گئی، تازہ موٹے آنسو آنکھوں سے ٹپکنے لگے اور وہ ہچکیاں لیتی ہوئی اپنے بچوں سے لپٹ گئی۔

    بیوی کی حالت دیکھ کر یوحنا گڑگڑایا، “آسمان والے کا واسطہ حاجی صاحب، آسمان والے کا واسطہ، ہمارا یقین کریں۔ ملک سہیل سے لڑائی ہوئی۔ تنخواہ مارتا تھا۔ یہ کمینی صحن میں جو پتہ کاغذ دیکھے، جمع کر کے جلا دیتی۔۔۔ نہیں پتا ہم سے غلطی ہوئی یا وہ بدلہ لیتا ہے۔۔۔“، اب وہ ایک لمحے کے لئے رکا اور پھر بچوں کی طرف دیکھ کر مانگنے لگا

    ”اپنی پرواہ نہیں حاجی صاحب، بوٹی بوٹی کر دیں، پر ان معصوموں کو بچا لیں۔ آسمان والے کا واسطہ حاجی صاحب! آسمان والے کا واسطہ!۔۔۔”

    بولتے بولتے اچانک یوحنا اُٹھ کھڑا ہوا اور اِس سے پہلے کہ حاجی سلیم کچھ کہتا، اس نے دونوں بچوں کو پکڑ کر دروازے سے اندر دھکیلا اور بجلی کی سی تیزی سے دروازہ باہر سے بند کر دیا۔ پھر دونوں میاں بیوی گلی کی نکڑ کی طرف بھاگنے لگے۔ اندر حاجی سلیم کچھ دیر بوکھلایا کھڑا رہا۔ پھر ایک انجان سے خوف کی گرفت میں آ کر اس نے دروازے کو کنڈی لگا دی، اور صحن میں کھڑا باہر سے آنے والی آوازوں کو غور سے سننے لگا۔ یوحنا اور اُس کی بیوی کے بھاگتے ہوئے قدموں کی چاپ مدھم پڑتے پڑتے غائب ہو گئی اور کچھ دیر کے لئے ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ دور کہیں ایک کوّا اپنی کرخت آواز میں چِلایا اور پھر دو تین گلیوں کے فاصلے سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔

    “وہ رہے۔۔۔ وہ رہے ناپاک۔۔۔ پکڑ لو۔۔۔ پکڑ لو۔۔۔ بھاگنے نہ پائیں خبیث۔۔۔ مارو خنزیروں کو۔۔۔ سر پہ۔۔۔ سر پہ۔۔۔ ٹانگوں میں۔۔۔ کمر توڑ دو۔۔۔ کیسے بچا رہا ہے خنزیر اپنی مادہ کو۔۔۔ بوٹی بوٹی کر دو دونوں کی۔۔۔ دشمن خدا کے۔۔۔

    یوں لاٹھیوں، گالیوں، اور نعروں کے طوفان کے بیچ یوحنا اور اُس کی بیوی کی دلخراش چیخیں، قَسمیں اور واسطے گاؤں کی مقدس ہوا کو گندہ کرنے لگے۔ اور اب پہلی بار حاجی سلیم کو یاد آیا کہ ان کے بچے اس کے پیچھے سہمے کھڑے ہیں۔ کسی حیوانی جبلت کے تحت اس نے دونوں کو ایک ایک بازو سے پکڑا اور تقریباً گھسیٹتا ہوا اندرونی کمرے میں لے گیا۔ وہاں ایک ٹین کی بڑی پیٹی کے نیچے دونوں کو دھکیلا اور پیٹی کو ڈھکنے والی چادر فرش تک لٹکا دی

    “ایک آواز بھی نکالی تو ٹانگیں توڑ دُوں گا دونوں کی!”

    نیچے کسی نے ایک سِسکی کا گلا گھونٹا۔ حاجی سلیم سُنے بغیر دوبارہ صحن میں آ گیا۔ باہر روشنی پہلے سے کم ہو چُکی تھی۔ صبح کے بعد اندھیرا؟ شاید یہ خون آلود صبح روشن ہو کر دن میں بدلنے کی بجائے واپس رات کی تاریکی کی طرف ہانپتی کانپتی بھاگ رہی تھی۔ حاجی سلیم نے آسمان میں تیزی سے پھیلتے ہوئے سیاہ بادلوں کا جائزہ لیا اور ایک بار پھر غور سے باہر کا شور سننے لگا۔

    “مرے نہیں ابھی ناپاک۔۔۔ تیل لاؤ!۔۔۔ تیل لاؤ!۔۔۔ چھڑکو اِن کے خبیث جسموں پر۔۔۔ تِیلی!۔۔۔ تِیلی!۔۔۔ لگا دو آگ۔۔۔ جلو خبیثو جلو!۔۔۔”

    خونی کھیل کے دوران اچانک کسی کو یاد آیا، “پلے کہاں ہیں ان کے؟”۔ سوال سن کر حاجی سلیم کانپ اٹھا۔ پورا مجمع چِلانے لگا، “پِلے کہاں ہیں ان کے؟۔۔۔ پِلے کہاں ہیں ان کے؟”

    اب گلی کے ارد گرد ہر طرف مکانوں کے دروازے زور زور سے بجنے لگے۔ حاجی سلیم صحن میں ساکت کھڑا انتظار کرتا رہا۔ دھیرے دھیرے خوفناک دستک قریب آتی گئی اور اس کے ساتھ حاجی سلیم کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی گئی، یہاں تک کہ جب اس کے گھر کا دروازہ دھاڑ دھاڑ بجا تو اس کا دل اس کی نس نس میں تڑپ رہا تھا۔ چار و ناچار اس نے دروازہ کھول دیا۔

    “حاجی صاحب، اعلان سُنا آپ نے؟ ان کے پِلے ادھر تو نہیں آئے؟ خنزیروں کے بچے!”

    “نہیں، ادھر نہیں آئے خنزیروں کے بچے!”

    (ساتھ دل کو قابو کرتے ہوئے، زیرِ لب، “اندر جو چھپے ہیں وہ تو انسانوں کے بچے ہیں”)

    جواب سن کر مشتعل ہجوم آگے کو چل دیا۔ حاجی سلیم نے دروازہ بند کیا اور ایک بار پھر اندر سے کنڈی لگا دی۔ لمحات کی شدت سے اس کی آنکھوں میں پانی اتر آیا تھا اور اس کے بوڑھے بدن میں ارتعاش ناچ رہا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی، مگر یہ ناچ بےقابو ہوتا جا رہا تھا۔ اب وہ کمرے کی طرف بڑھا۔ اچانک لاؤڈ اسپیکر جاگ اٹھا

    “کس ناپاک جہنمی نے یوحنا کے پِلوں کو چھپا رکھا ہے؟”

    اعلان سنتے ہی حاجی سلیم کے وجود میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اس کی کپکپاہٹ غائب ہو گئی، جسم تن گیا، اور وہ غراتا ہوا دروازے پر جھپٹا۔ قریب تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چیخ چیخ کر کہہ دیتا، “میں ہوں وہ ناپاک، ہاں میں ہوں وہ ناپاک، آؤ جلاؤ مجھے!!!۔۔۔“۔ مگر اندر چھپے معصوموں کے خیال نے اُسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ اُس کا جسم ایک بار پھر ڈھیلا پڑا اور لرزہ لوٹ آیا۔ وہ دروازے سے ہٹا اور تقریباً بے جان حالت میں صحن میں پڑی چارپائی پر ڈھیر ہو گیا۔ ایک تیز ہوا کا جھونکا صحن میں داخل ہوا، خاک اور پتوں کو سمیٹ کر چارپائی کا طواف کیا اور پھر سب کو بکھیرتا ہوا بلند ہو کر باہر چلا گیا۔ بادل جِھلا کر گرجے، بجلیاں تڑپیں، اور اندھا دھند بارش ہونے لگی۔ حاجی سلیم ہمت کر کے چارپائی سے اٹھا اور کمرے میں آکر پیٹی کے سہارے فرش پر بیٹھ گیا۔ ایک معصوم بھرائی ہوئی آواز نے کچھ پوچھنا چاہا، “حاجی صاحب۔۔۔ باہر۔۔۔ کیا۔۔۔”

    “چپ کر خبیثا!”، حاجی سلیم پورے زور سے چلایا۔

    اس کے بوڑھے وجود میں اب اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ ان معصوموں کو بتا سکے کہ باہر ان کے والدین کی جلی ہوئی لاشوں پر فرشتے دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے