Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نتھ اترائی

واجدہ تبسم

نتھ اترائی

واجدہ تبسم

MORE BYواجدہ تبسم

    رمضان شریف کی آمد آمد تھی۔۔۔ جہاں آرام، جودراصل جہاں آرا بیگم بلکہ دراصل ’’جینوں‘‘ تھیں، رمضان شریف میں بے حد پاک باز بی بی بن جاتی تھیں۔ ڈھولک اور ہارمونیم پر غلاف چڑھادیتی تھیں۔۔۔ بھلے روزے نہ رکھتیں، مجرے بھی نہ کرتیں۔۔۔ اپنے خیالوں کی جنت میں ایک شان دار محل کی تعمیر میں منہمک ہوجاتیں۔۔۔ اکلوتی بیٹی چمن آرا بیگم کو بھی ان کی سختی سے یہی تاکید اور تعلیم تھی کہ بی بی اعمال جیسے کچھ بھی ہوں۔۔۔ مذہب اپنی جگہ ہے۔۔۔ ویسے دلداروں کا آنا جانا سال کے اور گیارہ مہینوں کی طرح اس مبارک مہینے میں بھی لگا لپٹا ہی رہتا۔ لیکن بس دور دور سے صاحب سلامت رہتی۔۔۔ نزدیک آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ چوما چاٹی کا کیا ہے وہ تو چلتی رہتی ہے۔۔۔ ہاں، ’’حرام کام‘‘ سختی سے ممنوع قرار پاتے۔۔۔ ویسے چمن آرا بیگم ان باتوں سے ابھی دور ہی تھیں۔۔۔

    چاند رات کو چمن آرا نے بڑی لگن سے پوچھا، ’’امی جان۔۔۔ کل کا پہلا روزہ ہے۔۔۔ رکھ نہ لوں۔۔۔‘‘ جہاں آرا سے پہلے کلے خاں بول اٹھے، ’’ہاں ہاں رکھ لو۔۔۔ کیا مضائقہ ہے۔‘‘

    ’’ہاں ہاں رکھ لو۔۔۔ کیا مضائقہ ہے۔‘‘ جہاں آرا شیرنی کی سی گرج کے ساتھ ہاتھ نچاکر کلے خاں کو گھور کے بولیں، ’’اور جو تیرے باپ آئیں گے ان کے ساتھ ہنسے گا بولے گا کون۔۔۔؟ تیری ماں۔۔۔؟ یا میں؟‘‘

    چمن آرا بلی کی طرح سہم کر دبک گئی۔ کلے خاں اس توتڑاق کے، آج کل سے نہیں، مدتوں سے عادی تھے، جب سے جینوں کو بھگاکر لائے تھے۔۔۔ پہلے ایسا بھی پتلا حال نہیں تھا کہ جو بھی وہ کہے یہ سن لیا کریں۔ پہلے تو یہ برابری کا معاملہ تھا، بلکہ خود جینوں کی ہی ان سے کور دبتی تھی۔۔۔ پہلے پہل گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کا یہی حال ہوتا ہے، سو جنیوں کا بھی یہی تھا۔ ڈر تو گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔۔۔ سوتیلی ماں کی مارپیٹ، کوسنوں سے ڈر ڈر کے یہ حال ہوگیا تھا کہ کسی نے پکارا تو نظر اٹھاکے دیکھنا بھی قیامت! لیکن جیسا کہ ہر لڑکی بہرحال ایک قیامت ہوتی ہے، جینوں بھی اگر قیامت کبریٰ نہیں تو قیامتِ صغریٰ ضرور تھی۔۔۔

    میراثنوں کے دھندے میں یہی ایک خوبی ہے کہ لڑکی گھر سے بھاگ بھی جائے تو برادری میں چوں چوں نہیں ہوتی۔۔۔ چڑیوں کا تو وطیرہ ہی ہوتا ہے آج اس ڈال تو کل اُس ڈال۔ ڈر سہتے سہتے ایسی معصوم ہرنی جیسی بن گئی تھی کہ اگر کسی کو نظربھر کر دیکھ لیتی تو وہ وہیں گھائل ہوجاتا۔ محلے میں ایک بار ماں کے ساتھ پیٹی بجانے کسی رئیس کی محفل میں گئی۔ ہارمونیم بجاتے بجاتے دو ایک بار کسی سے آنکھیں ملا بیٹھی۔ ملاقاتیں بڑھتی گئیں، پتہ چلا موٹر چلانے پر نوکر ہیں۔ اتنی اُتنی نہیں پورے ڈیڑھ سو تنخواہ پاتے ہیں۔۔۔ ہنر ہاتھ میں ہو تو انسان کہیں بھی ہاتھ پاؤں چلا سکتا ہے۔ آگرہ کیا اور بمبئی کیا۔ ویسے تو دنیا جانتی ہے کہ سارے دنیا بھر کے بھگوڑوں کو پناہ دینے کا باقاعدہ ٹھیکہ بمبئی نے لے رکھا ہے۔ پھر کلے خاں اور جینوں کیا دو آدمیوں کی جگہ اتنی بڑی بمبئی میں نہیں نکل سکتی تھی؟

    قدرت بھی بڑی فیاض ہے۔ کم سے کم غریبوں کو حسن بخشنے کے معاملے میں۔ ورنہ حسن بھی اگر بازار میں دکان پر بکنے والی شے ہوتی تو یہ کم بخت امیر تو پیسے والے ہونے کے ساتھ ساتھ حسین بھی بن کر بیٹھ جاتے، مگر یہ بھی تو خدا کی بڑائی کا ایک بین ثبوت ہے کہ جسے چاہے حسن کی دولت سے نوازے!

    تھی تو ایک میراثن بچی۔۔۔ جس کی ساری زندگی لوگوں کی شادیوں کی جھوٹن کھاتے، دلہن کی اُترن پہنتے اور بیل اور صدقے کے پیسے چنتے گزری۔ لیکن کوئی صورت دیکھتا تو دیکھتا ہی رہ جاتا۔ شاہزادیوں جیسا تمکنت بھرا حسن پایا تھا کم بخت نے اور سوتیلی ماں کاظلم بھی یہاں سونے پر سہاگے کا کام کرگیا۔ آنکھوں میں ایسی مظلومیت اور سہماپن مقام کر گیا کہ جو بھی دیکھتا اس کا جی چاہتا کہ ایسی معصوم اور مظلوم ہستی کو اپنے کلیجے میں بھرلے۔۔۔ مردوں کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ ہر دکھی لڑکی کو کلیجے سے لگاکر اس کا غم بھلا دینا چاہتے ہیں۔

    آگرہ سے بھاگ کر آئی تو جینوں کے دل میں ہزار وسوسے تھے، ’’اللہ جانے بمبئی اور بمبئی والے کیا سلوک کریں۔۔۔‘‘ لیکن جان پہچان کے کسی دور دراز کے دوست نے سہارا دیا تو اسے لگا کہ دنیا اتنی بری بھی نہیں جتنی لوگ بتاتے ہیں۔ کلے خاں نے اس سے باقاعدہ عقد تو کبھی نہیں کیا لیکن تھا بڑا عقل مند۔ چارآنے والی سیاہ باریک موتیوں کا پچ لڑا پہلے ہی اس کے گلے میں باندھ لایا تھا کہ سہاگن سمجھی جائے اور بمبئی کے چلن کے مطابق ’’منگل سوتر‘‘ گلے میں پڑا دیکھا تو کسی نے پوچھنے یا سوچنے کی بھی زحمت نہ کی کہ اصل معاملہ کیا ہے۔۔۔ حالانکہ کلے خاں بے حد رعب داب سے سمجھاتا آیا تھا، ’’شادی ہم نے کی ہے نہ کریں گے۔ مگر کوئی بھی پوچھے مہر کتنا ہے تو کہہ د ینا گیارہ ہزار ہے۔۔۔‘‘ ویسے وہ گیارہ ہزار چھوڑ گیارہ لاکھ بھی کہہ دیتی تو کلے خاں کا کون سا دیوالہ پٹ جاتا۔ یوں بھی آج کل تو فیشن کے طو رپر مہر باندھتے ہیں۔ ادا کون کرتا ہے۔۔۔ اس نے سرہلاکر معصومیت سے کہہ دیا، ’’اچھا۔۔۔‘‘

    ’’اور کوئی پوچھے جہیز کا سامان کہاں ہے تو کہہ دینا کہ ابھی نئے نئے آئے ہیں کہاں سامان بٹورتے پھرتے۔ اس لیے میکے ہی میں دھرا ہے۔‘‘

    ’’کہہ دوں گی۔۔۔‘‘ وہ بے حد فرماں برداری سے بولی،‘‘ اور اگر کسی نے زیورات کے بارے میں پوچھا تو؟‘‘ اس معاملے میں خود کلے خاں بھی پریشان تھے۔۔۔ کیوں کہ زیور تو ایسی چیز ہے بھئی کہ عورت جسم پر لادے رہتی ہے۔۔۔ نہیں سو پچاس تولے تو دوچار تولے ہی سہی۔ میں بول دوں گی ابھی ماں کے پاس ہی دھرا ہے۔ کلے خاں نے جزبز ہوکر اسے ٹوکا، ’’ماں نہیں، پڑھے لکھوں کی طرح امی جان کہو بھئی۔۔۔ کلے خاں چھ کلاس پاس تھے۔ اور بڑے گھر میں ڈرائیور تھے۔ اس لیے زبان دانی کا خاص خیال تھا۔

    جینوں نے مسکراکر دیکھا۔ یہ مسکراہٹ بڑی ہی معنی خیز، بڑی ہی حوصلہ خیز، بڑی ہی خاموش کٹاری جیسی تھی۔۔۔ جیسے کہتی ہو۔۔۔ سب سمجھتی ہوں۔۔۔ تم چھ کلاس پڑھے ہو۔۔۔ دیکھنے دکھانے میں بھی اچھے ہو۔۔۔ عزت کا خیال رکھتے ہو۔ نہیں چاہتے کہ کوئی سمجھے کہ یہ بیوی بیوی نہیں بھگوڑی ہے۔۔۔ تمہیں عزت چاہیے نا۔۔۔؟ ٹھیک ہے میں تمہاری عزت کو اپنے ہاتھ میں رکھ رہی ہوں۔۔۔

    وہ دوسرا ہی دن تھا۔۔۔ نہادھوکر جینوں جب گیلری میں آئی تو پاس پڑوسنیں حیرت سے اسے دیکھنے لگیں۔ کلے خاں بھگاکر لایا تھا تو کیا ہوا۔۔۔ اس کی جوانی کا میٹھا میٹھا رس پیا تھا تو کیا ہوا، اس کے بدلے میں پیار بھی تو دیا تھا۔ اور کپڑے لتے بھی سلیقے کے۔۔۔ اس وقت وہ پھول دار جارجٹ کی ساڑی پہنے ہوئے تھی۔۔۔ کاجل بھری کالی کالی آنکھیں اور لپ اسٹک سے سجے سجے سرخ سرخ ہونٹ۔۔۔ پڑوسنوں کی ہمت نہ ہوئی کہ اسے بہن یا آپا کے نام سے مخاطب کریں۔۔۔ ایک نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ’’بیگم صاحبہ آپ کہاں سے آئی ہیں۔۔۔‘‘ دیوالی کے پٹاخوں میں ایک چیز ہوتی ہے انار۔۔۔ اس کم بخت کو آگ لگاکر چھوڑدو تو بس پھر اوپر ہی اوپر چلا جاتا ہے نیچے آتا ہی نہیں۔۔۔‘‘ ’’بیگم صاحبہ کا فلیتہ ایسا لگا کہ جینوں اوپر ہی اوپر چڑھتی گئی۔۔۔ اب نیچے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔۔۔

    ’’آگرہ سے۔۔۔‘‘ اس نے تمکنت سے جواب دیا جیسے پورا آگرہ اس کی تحویل میں تھا۔

    ’’آپ جتنی خوب صورت ہیں، آپ کا نام بھی اتنا ہی خوب صورت ہوگا۔‘‘ کسی اسکول کی لڑکی نے مسکراکر پوچھا۔

    بس یہی ایک لمحہ تھا جب وہ پاتال میں گر سکتی تھی لیکن وہ بروقت سنبھل گئی۔ اس نے نزاکت سے پلو سرکے گرد لپیٹا۔۔۔ ایک بیگماتی شان اس کے چہرے سے چھلکنے لگی۔۔۔ وہ ذرا مسکراکر بولی، ’’جہاں آرابیگم۔۔۔‘‘ پچھلی بار، بھاگنے سے کچھ دن پہلے جس گھرانے میں ماں کے ساتھ ہارمونیم بجایا تھا، وہاں دلہن کا نام جہاں آرا بیگم ہی تو تھا۔ اور اسے اچھی طرح یاد تھا، پیار سے اس کی سہیلیاں جب اسے دولہا کا نام لے لے کر چھڑ رہی تھیں تو بجائے پورا نام لینے کے جینوں۔۔۔ جینوں کہتی تھیں۔۔۔ تو کیا وہ جینوں سے جہاں آرابیگم نہیں بن سکتی۔ نام بدل لینے میں کون سے ہاتھی گھوڑے اور طمطراق لگتا ہے؟

    یہ ضرور ہے کہ اب تک کی زندگی بڑی بدمزگی، بے کیفی اور بے عزتی میں گزری تھی۔ اب اپنے گھر میں تو جو عزت تھی سو تھی، لیکن شادی کے گھروں میں ڈومنیوں اور میراثنوں کی کیا عزت ہوتی ہے؟ گھروالے ساتھ بٹھانا تو دور رہا کھانا تک زمین پر کھلاتے۔۔۔ سب کے بعد میں دسترخوان لگادیا جاتا ہے کہ اپنے کنبے کے ساتھ لچڑ پچڑ کھاتے رہو۔۔۔ اور پھر پیسے والوں کا برتاؤ۔۔۔؟ کتنی بار ایسا ہوا کہ اندھیرے اجالے کسی نہ کسی نے موٹر کے ہارن کی طرح سینہ پکڑ کر دبادیا۔۔۔ اس میں بوڑھوں اور جوانوں کی بھی قید نہ تھی۔ بس موقع ملنے کا سوال تھا۔۔۔ اور وہ رازوں کے اسرار سے پردے اٹھاتی ہوئی ایک عجیب و غریب رات۔۔۔

    گرمی کے مارے جب وہ شادی کے گھر کے باغ والے برآمدے میں اکیلی سوئی پڑی تھی تو کسی نے اندھیرے میں اس کاازاربند کھول دیاتھا اور جب تک کہ وہ حالات کی پیچیدگی کا جائزہ لیتی یا کچھ سوچ ہی پاتی۔۔۔ سب کچھ برابر ہوچکا تھا اور کڑکڑاتے کاغذ کی ایک چھوٹی سی تہہ اس کی ہتھیلی میں پڑی فریاد کیے جارہی تھی۔۔۔ اجالے میں چلو اور مجھے دیکھو۔۔۔ تمہیں پتہ تو چلے تمہاری قیمت کیا ہے۔۔۔ تمہارا مول کیا ہے۔ بڑی مشکل سے وہ اٹھی تھی۔۔۔ باہر جاکر ملگجے اجالے میں نوٹ کی تہہ کھولی اور بس دیکھتی ہی رہ گئی۔۔۔ وہ ایک روپے کا نوٹ تھا! اسے ہنسی آگئی۔ اگر وہ جواں مرد یہ ایک روپیہ بھی نہ دیتا تو میں اس کا کیا بگاڑ لیتی۔۔۔؟ لیکن چلو اچھا ہے اس نے راستہ تو بتادیا کہ یہ بھی ایک دکان ہے جو چلائی جاسکتی ہے؟

    گویہ دکان ابھی زیادہ دنوں نہیں چلی تھی کہ اس کے دل پر محبت کا وار چل گیا اور وہ اپنے پیچھے ایک سڑی ماری دنیا چھوڑ کر کلے خاں کے ساتھ چلی آئی۔ اور دراصل اسے آگے چلتے ہوئے، پیچھے چھوٹ آنے والی دنیا کارتی بھر بھی ملال نہ تھا! نہ ہی ڈر۔۔۔ ڈر ہوتا بھی کا ہے کا۔۔۔؟ دنیا میں سب سے زیادہ ڈر کسی بھی عورت کو اپنی عزت لٹنے کا ہوتا ہے۔۔۔ جب عزت ہی نہیں رہی تو پھر ڈر کاہے کا۔۔۔؟ جو دکان آگرہ میں چار لوگ مل کر چلاتے تھے یہاں اکیلا کلے خاں چلائے گا۔ بات بالکل ایک ہی تھی۔۔۔ بہرحال پیسے کی ضرورت تھی جو پہلے بھی تھی اب بھی تھی۔ پہلے بھی وہی طریقہ تھا اب بھی وہی طریقہ تھا۔ اور ویسے دیکھا جائے تو، اس نے ٹھنڈے دل سے سوچا۔ یہ مولوی کی موجودگی میں، وکیلوں کی گواہی میں جو نکاح پڑھائے جاتے ہیں اور عورت کو کسی ایک مرد کی قید میں زندگی بھر کے لیے دے دیا جاتا ہے تو بالکل وہی سلسلہ ہے عورت سے رات کو ’’کچھ‘‘ لیتے رہو اور دن بھر اس کے معاوضے میں کپڑا لتا، کھانا دانہ دیتے رہو۔۔۔!

    ایک لفظ ’’بیگم صاحبہ‘‘ نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔۔۔ اس کا رکھ رکھاؤ دیکھ کرکسی کو اس سے زیادہ باتیں بگھارنے کی ہمت نہ پڑی۔

    کلے خاں کے دوست نے اپنے دوست اور بھابی کی آمد کی خوشی میں محلے ہی میں ایک پارٹی کا انتظام کرڈالا۔۔۔ ایک گھر میں ہارمونیم بھی تھا۔۔۔ چائے پارٹی کے بعد گانے بجانے کی محفل جمی اور کسی نے یونہی سرراہ بھابی جہاں آرا بیگم سے گانے کی فرمائش کرڈالی تو وہ تمکنت سے اپنا پلو سنبھالتی ہارمونیم پر جابیٹھیں۔ نازک انگلیوں سے ایسے سر نکالے اور ایسا اچھا گیت گایا کہ محفل دنگ رہ گئی۔ اور پھر تعریف و توصیف کا ایسا سلسلہ اور شور اٹھا کہ کلے خاں کی، جو ایکساں جہاں آرا کو گھر چلنے کو کہہ رہا تھا، آواز ہی دب کر رہ گئی۔ اور پھر یوں ہوا کہ ہمیشہ کے لیے کلے خاں کی آواز ہی دب کر رہ گئی۔ کیوں کہ پھر یوں ہوا کہ جہاں آرا بیگم نے توڑ جوڑ کرکے اپنا ایک ہارمونیم خریدلیا اور رات کو گانے بجانے کا سلسلہ شروع کرلیا۔

    پہلے پہل تو محلے والے آتے، خوش ہوکر داد دیتے اور اپنی خوشی کا اظہار روپے دو روپے دے کر کرتے۔ پھر ذرا بڑے پیمانے پر یہ محفلیں جمنے لگیں۔ جب عورت کمانے لگتی ہے تو عورت کے منہ میں زبان کی جگہ ایک دھاردار چھری آجاتی ہے۔۔۔ اور یہ کمائی جب اپنی ہی دکان کی ہو تو چھری دو دھاری ہوجاتی ہے۔ اور مرد جب دیکھتا ہے کہ عورت کی دکان خوب چل نکلی ہے، گراہکی بہت بڑھ گئی ہے تو وہ اپنی زبان بند کرلیتا ہے۔ کیونکہ بہرحال دوچیزیں ساتھ نہیں چل سکتیں۔ یا تو دکان چلے یا زبان چلے۔۔۔ پہلے پہل کلے خاں کی زبان زیادہ چلنے لگی تو اسے اپنی محفلوں کی بدمزگی جان کر جہاں آرا نے اسے افیم دینی شروع کردی۔۔۔ پھر وہ افیم کا اس قدر عادی ہوگیا کہ ہر بات سے بے فکر ہوگیا۔۔۔ بے فکری نے زبان بالکل ہی بند کردی اور یوں جہاں آرابیگم کی دکان خوب چل اٹھی۔

    وقت نے ہر طرح کا سلیقہ اور قرینہ سکھادیا۔ سب سے پہلے جہاں آرابیگم نے اس گندے محلے کو چھوڑ کر ایک اعلیٰ سوسائٹی میں شاندار فلیٹ کرایہ پر لیا۔ نئے فیشن کے رنگ ڈھنگ سے فلیٹ کو آراستہ کیا لیکن ایک کمرہ اپنے پرانے پن کی تہذیب کی یادگار بناکر رکھا۔ بڑا سا نرم گدیلا۔۔۔ اس پر شفاف سی چاندنی بچھی ہوئی۔ بڑے بڑے گاؤتکیے۔۔۔ ملائم گال تکیے، بازو تکیے۔ ایک کونے پر چاندنی کا بڑا سا پاندان دھرا ہوا۔ پان کی وضع کا ناگردان، جس میں سلیقے سے لگے ہوئے پان رکھے ہوئے۔ کونے میں اگالدان، ایک کونے میں قالین پر طبلے، ہارمونیم، ڈھولکی اور کچھ ساز محض سجاوٹ اور رعب داب کے لیے۔ اور پھر اسی کمرے میں قالین اور گدیلے کو چھوڑ کر چکنا بڑا سا فرشی حصہ یونہی چھوڑ دیا گیا تھا کہ ناچنے کے کام آئے۔

    اس کے ساتھ ہی ایک اور کمرہ لگا ہوا تھا، جوہر چہار طرف سے آئینوں سے گھرا ہوا تھا۔ یہاں ایک ڈبل بیڈ مسہری نما لگا ہوا تھا۔۔۔ کاروبار بڑھ گیا تھا نا۔۔۔ کئی بار ایسے مواقع آجاتے کہ کسی نہ کسی کو یہیں فلیٹ ہی میں ’’سنبھالنا‘‘ پڑجاتا۔۔۔ یہ کمرہ ایسے ہی موقعوں کے لیے بطورِخاص بنایا اور سجایا گیا تھا۔ اندر اور بھی کئی کمرے تھے جن میں نوکر، نوکرانیاں رہتیں۔۔۔ ایک کمرے میں کلے خاں نشہ کیے پڑے رہتے۔۔۔ ان کے کمرے پر ہمیشہ پردے جھولتے رہتے۔۔۔ عورت جب تک پردے میں رہتی ہے اسے قدم قدم پر مرد کے سہارے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن جب وہ پردے سے باہر آتی ہے تو مرد اس کے لیے بے مصرف چیز بن کر رہ جاتا ہے۔ اور کلے خاں تو اس کے لیے بہت ہی جلد بے مصرف بن کر رہ گئے تھے۔۔۔ بھگوڑی عورت کے لیے دنیا اپنے دروازے کھول د یتی ہے مگر مرد بھگوڑا ہوکر نکھٹو بن جاتا ہے۔۔۔

    ڈرائیوری مل تو ضرور جاتی اگر کوشش کرتے مگر جس مرد کو گاڑی کی بجائے عورت چلانے کی عادت پڑجائے، اسے پھر نوکری کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ پہلے پہل گانے بجانے کے پیسے آئے تو کلے خاں کو بڑا برا لگا تھا لیکن جب کوئی اور بھی آمدنی گھر کی رونق بڑھانے لگی تو وہ مارپیٹ پر اترآیا۔ لیکن یہ سلسلہ بہت ہی کم دنوں چلا۔ کیوں کہ ایک دن لڑائی لڑائی میں جہاں آرا نے ایسی کم ظرفی کی بات کی کہ وہ سن ہوکر رہ گیا۔۔۔ اس کے پرس میں پانچ سو کے نوٹ د یکھ کر کلے خاں نے بدچلنی کا الزام لگایاتو وہ بڑی رعونت کے ساتھ بولی، ’’تم تو اپنا ہنر آگرہ ہی میں گروی رکھ کر آگئے تھے۔۔۔ یہاں آکر ایک دن بھی نوکری کی؟ اگر میں ہی حالات کو نہ سنبھالتی تو پتہ چلتا؟‘‘ وہ چلایا، ’’حالات ایسے سنبھالے جاتے ہیں کمینی؟‘‘ وہ تڑاخے کے ساتھ بولی، ’’روپے روپے میں ازاربند کھلوانے والی اگر ایک ایک رات کے پانچ پانچ سو کمانے لگے تو کیا پھر بھی وہ تجھ جیسے ڈھیلے نامردے کو اپنا شوہر مانے گی۔۔۔؟‘‘

    ’’کمینی۔۔۔ گندی۔۔۔ چڑیل۔۔۔ اپنی زبان سے خود اپنے کرتوت مجھے سنا رہی ہے۔۔۔‘‘ وہ ہاتھ بڑھاکر لپکا۔ لیکن اس نے اپنا سونے کے کنگنوں سے جھم جھماتا ہاتھ بڑھاکر مرد کا ہاتھ مروڑ کر نیچے گرادیا۔

    ’’آئندہ سے مارنے کی ہمت بھی نہ کرنا کلے خاں۔ تم کو پتہ نہ ہو تو سنادوں، میرا نام جہاں آرام ہے، میں دنیا بھر کو آرام دینے کے لیے پیدا کی گئی ہوں صرف تم اکیلے کو نہیں۔۔۔ سمجھے۔۔۔؟ اور ویسے دنیا والے مجھے جہاں آرا بیگم کے نام سے جانتے ہیں۔۔۔ میرا مہر گیارہ ہزار روپے ہے۔۔۔ اور میرا سارا جہیز اور زیور ابھی تک میکے میں رکھا ہوا ہے۔ کسی بھی دن یہاں سے غائب ہوجاؤں تو کوئی یہ نہیں پوچھے گا کہاں گئی۔ سب سمجھیں گے اپنے میکے چلی گئی۔۔۔ لیکن ڈھیلے خاں میں تمہیں چھوڑ گئی تو تمہارا کیا ہوگا۔۔۔؟ نشہ پانی کہاں سے کروگے؟‘‘

    یہاں آکر کلے خاں مجبور محض ہوکر رہ جاتا تھا۔۔۔ اور اسی لیے اس نے ہونٹوں پر قفل ڈال لیا تھا۔۔۔ اور اسی خاموشی سے خوش ہوکر جہاں آرا نے کلے خاں کو مستقل ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب دے دیا تھا، جس میں تعریف اور عزت کم اور ذلت زیادہ نمایاں تھی۔

    انہی سالوں میں پتہ نہیں کس دل والے کی دین تھی، ایک بیٹی جہاں آرا کی پیدا ہوگئی تھی۔۔۔ جسے خان صاحب خوش ہو ہو کر اپنی بیٹی کہہ کر پال رہے تھے۔۔۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ مدتوں سے جہاں آرا نے کلے خاں کے ساتھ بھائی بہن کا سا رشتہ باندھ رکھا تھا۔ لیکن وہ سوچتی برا بھی کیا ہے۔ دنیا میں رہنا ہے تو اپنے لیے نہیں، بیٹی کے مستقبل کے لیے ایک نام نہاد باپ کا وجود بھی تو ضروری ہے ہی۔۔۔ کیا برا ہے اگر یہ پاپڑ ہی آڑ بن جائے؟ ویسے یہ بات اپنی جگہ صحیح تھی کہ اسے بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کا اصلی باپ ہے کون۔۔۔؟

    لیکن کلے خاں نے چمن آرا کو واقعی بیٹی کی طرح چاہا۔۔۔ نشے کی ٹوٹ ہوتی تو اسے اردو سے لے کر نماز، روزہ، قرآن شریف تک سمجھاتا پڑھاتا۔۔۔ زمانے کا رنگ دیکھتے ہوئے خود جہاں آرا نے ہی اسے انگریزی اسکول میں ڈالنا چاہا لیکن ہوا یہ تھا کہ چند سالوں سے اس نے خود کو ڈیرے دار طوائف کی حیثیت سے منوالیا تھا۔۔۔ سارا زمانہ جاننے لگا تھا کہ آگرہ کے نامی گرامی گھرانے کی تہذیب یافتہ مغنیہ، گلوکارہ بمبئی میں آبراجی ہیں۔۔۔ پتہ نہیں کتنی چونی اٹھنی میں رات بتانے والی بمبئی آکر آگرہ غریب کی شان بڑھا رہی ہیں، بہرحال جہاں آرا نے تو خود کو اس حیثیت سے منوا چھوڑا تھا کہ نوابوں کے صاحب زادے میرے گھر تہذیب اور رکھ رکھاؤ سیکھنے آیا کرتے تھے۔۔۔ اور یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہ تھی۔۔۔

    تو بھئی اب ایسی ڈیرے دار بیگم صاحبہ کی بٹیا کو انگلش تعلیم زیبا نہیں دیتی۔۔۔ اسی مارے انہوں نے گھر ہی پر بٹیا کو ہر ہر قسم کی تعلیم دلوانی شروع کی۔۔۔ اس میں پڑھائی لکھائی سے لے کر ناچ گانا بجانا سب ہی کچھ شامل تھا۔ نازو انداز سیکھنے اور دکھانے کی خاطر جہاں آرا اپنی محفلوں میں جان بوجھ کر بٹیا کو بھی بلاکر بٹھاتیں۔۔۔ ہر چند کہ چڑیا کے بچے کو اڑنا اور مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھانا نہیں پڑتا لیکن اپنی طرف سے کسر کیوں چھوڑی جائے؟ ایک طرف میک اپ کی تہیں دبیز سے دبیز تر ہورہی تھیں اور دوسری طرف آگ برساتی جوانی بہار پر آرہی تھی۔۔۔ اور اس دن جہاں آرابیگم نے زمانے کے آگے ہتھیار ڈال دیے، جب ان کے ایک ملنے والے صاحب زادے قمرالزماں صاحب جو کہ عمر میں چمن آرا سے تگنے چوگنے ہوں گے، ترچھی نظروں سے، ہوس خیز نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا، ’’بیگم صاحب۔۔۔ اتنی تیکھی ناک میں یہ سونے کی حقیر نتھنی کچھ زیب نہیں دیتی۔۔۔‘‘

    ’’جی ہاں۔۔۔‘‘ وہ سینے میں ابھرتے ہوئے ابال کو دبانے کی ناکام کوشش کرتی ہوئی بولیں، ’’میں نے ایک نتھ صرافے میں دیکھی ہے، ہمت نہیں پڑتی۔۔۔ ہیں تو چھوٹے چھوٹے پندرہ ہیرے۔۔۔ لیکن کم بخت سوالاکھ قیمت بتارہا تھا۔۔۔‘‘

    ’’آپ بھی کمال کرتی ہیں۔۔۔ سوا لاکھ بھی کوئی چیز ہے؟‘‘ انہوں نے ہاتھ بڑھایا، ’’لیکن وعدہ رہا کہ یہ سعادت بس ہمیں ہی حاصل ہوگی۔۔۔‘‘

    جہاں آرا بیگم نے ان کی ہتھیلی پر اپنی ہتھیلی رکھ دی۔۔۔ یہی وہ ہاتھ تھا جو آج تک ان کے اپنے ہاتھ کے لیے بے قرار رہتا تھا۔۔۔ گو تعلقات جسمانی حدود تک کبھی نہیں آپائے۔ کیوں کہ جہاں آرابیگم عمر کے اس دور میں تھیں جب کہ لاکھ بندھے کسے رہنے کے باوجود بھی جسم میں ڈھلک آجاتی ہے اور کپڑوں سے بے نیاز جسم یہاں وہاں سے اوجھڑی کی طرح لٹکا لٹکا نظر آتا ہے، اور ایک رنڈی جب اپنے جسم کی اس بے وفائی سے آگاہ ہوجاتی ہے تو محض بات چیت، اداؤں اور لگاوٹ سے گاہکوں کو رجھانا اور ٹرخانا شروع کردیتی ہے۔

    جہاں آرا نے بچپن سے غریبی کا منہ دیکھا تھا۔۔۔ پیسے کے لیے بے آبرو ہوئیں تھیں۔۔۔ روٹی کے جھوٹے ٹکڑوں کے لیے شادیوں میں بدھائیاں گائی تھیں۔ اور اندھیرے اجالے اپنی کو مل جوانی کے کچے پکے پھل نچوائے تھے۔ وہ خوب سمجھتی تھیں پیسہ کیا ہوتا ہے۔ پیسے کی کیا قدر ہوتی ہے۔۔۔ جو سبق انہوں نے زندگی میں سیکھا تھا، اپنی بیٹی کو پڑھانے میں ذرا بھی شرم انہیں آئی تھی، نہ آتی تھی۔۔۔ پیسہ ہی ایمان۔۔۔ پیسے کے آگے ہر چیز ہیچ تھی، لیکن اس وقت ایک عجیب سی کشمکش انہیں مروڑے ڈال رہی تھی۔۔۔ ایک شخص جو مدتوں سے صرف ان کے دیدار کا پیاسا تھا۔۔۔ ان پر رو پے زیور کی بارش کرتا رہا، اب اچانک کیسے بدل گیا۔۔۔ لیکن ٹھیک ہے سب کچھ ٹھیک ہے۔۔۔ پیسہ ہی سب سے بڑی چیز ہے۔۔۔ پیسہ ملنا چاہیے۔ ہر طریقے سے، ہر راستے سے۔۔۔‘‘

    انہوں نے اپنے اتھل پتھل کرتے دل کو قابو میں کرکے مسکراتے ہوئے کہا، ’’یہ سعادت یوں سمجھیے آپ کو حاصل ہوچکی۔۔۔ شریفوں میں زبان کا ہی خیال رکھا جاتا ہے، ورنہ اور دنیا میں رکھا کیا ہے۔۔۔‘‘ صاحب زادہ قمرالزماں اٹھنے لگے تو جہاں آرا بیگم نے جھجکتے ہوئے پوچھا، ’’بیگم صاحبہ کیا خیال کریں گی۔۔۔‘‘

    قمرالزماں صاحب جاگیرداروں کی اس کل سے تھے جہاں بیوی کو بیاہ کر لاتے ہیں اور پھر دو ایک راتوں کے بعد بھول جاتے ہیں کہ محل میں کوئی ذی نفس موجود بھی ہے۔۔۔ بھئی آخر تھان پر جانور بندھتے ہی ہیں، ایک آدھ کا اضافہ ہوجانے سے صاحب خانہ کی صحت پر کیا اثر پڑسکتا ہے۔۔۔؟

    قہقہہ لگاکر بولے، ’’اس کی آپ فکر نہ کیجیے۔۔۔ ہم الگ کوٹھی میں بھجوادیں گے انہیں۔۔۔!‘‘

    ’’اور موجودہ کوٹھی۔۔۔؟‘‘ انہوں نے رکتے رکتے پوچھا، ’’آپ کہیں گی۔ تو منہ دکھائی یا نتھ اترائی کی خوشی میں چمن آرا کو دے دیں گے۔۔۔‘‘ جہاں آرا نے بے اختیار جھک کر ان کے ہاتھ چوم لیے۔

    رات کو تنہائی میں جہاں آرا بیگم بیٹی سے بولیں، ’’بیٹی مجھے تمہارا بُرا بھلا خوب سمجھنا ہے۔ لیکن پھر بھی میں نے تمہارے لیے ایک بات سوچی ہے۔۔۔‘‘

    نئے زمانے کی پڑھی لکھی سمجھ دار لڑکی جس ماحول میں جی رہی تھی، اس میں کچھ زیادہ کھول کر سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔۔۔ اور پھر ماں بھی ایسی تھی جس نے جوان ہوتے ہی بیٹی کو تمام اونچ نیچ سے آگاہ کردیا تھا۔۔۔ مرد کتنا بھی پرچائے لبھائے، دور ہی دور سے گھاس ڈالو۔۔۔ اپنے جال میں ایسا پھانسو کہ تڑپے مگر نکلنے نہ پائے۔۔۔ کبھی اپنا آپ اسے سونپنے کی کوشش مت کرو۔ ایک حماقت جس کا نام محبت ہے، اس میں بھول کر مت پڑو۔۔۔ ہم جس زندگی اور پیشے میں جی رہے ہیں، اس میں صرف جسم ہی سب کچھ ہے، اس کی قدر کرو کہ اس کا بھاؤ بڑھے۔۔۔ جسم کو صابن سمجھو جو گھس بھی سکتا ہے، ویسے اس صا بن کو استعمال نہ کریں تو سدا جوں کا توں رہ بھی سکتا ہے۔

    لیکن یہ سارے وعظ اور نصیحتیں اس دن بے اثر ہوکر رہ گئے تھے، جس دن بدقسمتی یا خوش قسمتی سے جہاں آرا بیگم گھر سے باہر گئی ہوئی تھیں۔ سہ پہر کا سہانا وقت تھا۔ چمن آرا چاندنی پر نہاکر بال سکھارہی تھی کہ کسی آیا نے آکر بتایا کہ کوئی صاحب ملنے آئے ہیں۔ امی جان تھیں نہیں، مجبوراً اسی کو آنا پڑا۔ بڑے ہال میں آئی تو دونوں ہی اپنی جگہ ٹھٹک کر رہ گئے۔۔۔ نیلے رنگ کی شرٹ اور نیوی بلو پتلون میں الجھے بالوں والا ایک بے فکرا سا لڑکا لاپروائی سے کھڑا ہوا تھا۔

    ’’آپ۔۔۔؟‘‘ وہ آگے کچھ بول ہی نہ سکی۔

    وہ مسکرایا، ’’جی۔۔۔ میں۔۔۔‘‘

    ’’لیکن امی جان باہر گئی ہوئی ہیں۔۔۔‘‘

    ’’اجی امی جان کو ماریے گولی۔۔۔‘‘ اک دم وہ ٹھٹکا، ’’معاف کیجیے میرا مطلب یہ نہیں تھا کہ سچ مچ آپ اپنی امی جان کو گولی ماردیں۔ کچھ عادت سی ہوگئی ہے گولی چلانے کی۔۔۔‘‘ وہ سادگی سے ہنس پڑا، ’’محض عادتاً۔۔۔ ویسے مجھے کام تو آپ ہی سے تھا۔۔۔‘‘

    ’’مجھ سے۔۔۔!‘‘ وہ بے حد حیرت سے اپنے سینے پر انگلی ٹکاکر بولی، ’’میں تو آپ سے کبھی ملی تک نہیں۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے نہیں ملیں۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘ وہ رکا، ’’دیکھیے وہ ہمارا باورچی ہے نا۔۔۔ اپنے کچن میں بیٹھ کر زعفران پیستا ہے تو پورے محلے میں خوشبو اڑجاتی ہے۔۔۔‘‘ وہ ذرا شریر سی ہنسی ہنسا۔۔۔ ’’چیز اچھی ہونا تو آپی آپ شہرت ہوجاتی ہے۔ کسی تعارف و عارف کی ضرورت نہیں پڑتی۔۔۔ آپ گانا گاتی ہیں نا۔۔۔؟‘‘

    اب تک اس کے حواس ذرا بجاہوچکے تھے۔۔۔ مسکراکر بولی، ’’آپ کو غلط اطلاع ملی ہے۔ گانا گانا تو دور کی بات ہے، مجھے تو یہ تک نہیں معلوم کہ گانا کسے کہتے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’آپ چمن آرا نہیں ہیں۔۔۔‘‘ وہ اس کے قریب آکر بولا۔

    ’’ہوں تو سہی۔۔۔‘‘

    ’’تو میں آپ کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہو ں کہ اس وقت شہر میں سب سے بہترین غزل گانے والی ہستی آپ ہیں۔۔۔ اور میں۔۔۔‘‘ وہ اچانک گھٹنے ٹیک کر ہاتھ جوڑ کر اس کے سامنے کھڑا ہوگیا، ’’میں آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ ہم چند لڑکے ایک بہت ہی اچھے مقصد کے لیے ایک محفل منعقد کر رہے ہیں تاکہ کچھ روپیہ جوڑ سکیں۔ اگر آپ اس میں دو تین غزلیں گاسکیں تو شاید میں آپ کایہ احسان زندگی بھر نہ بھول سکوں گا۔۔۔‘‘

    چمن آرا نہ ہاں کہہ سکی نہ ناں کہہ سکی۔۔۔ وہ یوں ہی تصویر حیرت بنی کھڑی رہی اور وہ گھٹنے ٹیکے اسے ہاتھ جوڑے دیکھا کیا۔۔۔ اچانک چمن آرا نے محسوس کیا کہ امی جان کی ساری تعلیمات دھری کی دھری رہ گئی ہیں اور وہ ایسے جال میں کبھی نہ نکلنے کے لیے پھنس چکی ہے جسے شاید لوگ محبت کہتے ہیں۔۔۔

    ’’آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔‘‘ بڑی دیر بعد شاید ہزاروں سال کی خاموشی کے بعد وہ لڑکا بولا تھا۔

    ’’جی۔۔۔‘‘ وہ ہڑبڑاکر بولی، ’’اس وقت امی جان گھر پر نہیں ہیں اور میں بغیر ان کی اجازت کے کوئی کام نہیں کرتی۔۔۔ آپ مہربانی فرماکر پھر کبھی تشریف لائیے۔۔۔‘‘ اور جیسے اپنے آپ کو بچانے کی خاطر، اس نے پھر پلٹ کر اس کو دیکھا تک نہیں اور اپنے کمرے کو بھاگ آئی۔

    اور اب امی جان کہہ رہی ہیں کہ بیٹی مجھے تمہارا برا بھلا خوب سمجھنا ہے۔۔۔ پھر بھی میں نے تمہارے لیے ایک بات سوچی ہے۔۔۔؟ کیا بات ہوسکتی ہے۔۔۔؟ صرف ایک ہی بات۔۔۔ ایک ہی بات۔۔۔ پوچھنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ لیکن میں۔۔۔؟ میں تو آگے ہی بک چکی ہوں۔۔۔ اس نے ذرا شرماکر سوچا۔۔۔ امی جان تو یہی کہیں گی نا کہ میں نے تمہارے لیے ایک اچھا سا لڑکا دیکھ لیا ہے۔۔۔ اور وہ شرم سے اور بھی جھک گئی۔

    ’’لیکن امی جان۔۔۔ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ہے۔۔۔‘‘

    ’’بے وقوف لڑکی۔۔۔ شادی کی تجھے کیا سوجھی۔۔۔؟ اور ہمارے خاندانوں میں کہیں شادیاں ہوا کرتی ہیں۔۔۔ میں تو تجھے سنا رہی تھی کہ ہمارے خان۔۔۔‘‘

    ’’امی جان مجھے معلوم ہے، ہمارے خاندان کی ساری تاریخ، ابا جان نے مجھے سب بتادیا ہے۔۔۔‘‘ وہ طنز سے بولی۔

    ’’اے ہے ابا جان کی سگی۔۔۔ اور وہ حرام زادہ نکٹا کہاں سے تیرا باپ بن کر آگیا۔۔۔ سن لے حرام زادی۔۔۔ میں جو کچھ کہوں سن اور عمل کر، ورنہ تیری کھال اور میری جوتی۔۔۔ اور یہ شادی بیاہ کے چونچلے چھوڑ۔۔۔ یہاں تو روز دکان لگتی ہے اور روز پیسہ ملتا ہے۔ بیاہتا بن کر کبھی تجھے کیا ملنے والا ہے، وہی پابندی اور مجبوری کی زندگی نا۔۔۔؟‘‘

    ’’لیکن امی جان۔۔۔‘‘ وہ ہمت باندھ کر بولی، ’’آپ ہی نے مجھے تعلیم دلوائی اور سوچنے سمجھنے کا حوصلہ دیا ہے۔۔۔ میں گناہ کی زندگی نہیں گزارنا چاہتی۔‘‘ اس کے تیور کسی سے دبنے والے نظر نہ آتے تھے۔ وہ چاپلوسی سے بولیں، ’’اے ہے بیٹی گناہ کو میں کب کہہ رہی ہوں۔ ثواب کمانے کو بھی میں کب منع کر رہی ہوں۔۔۔ اب دیکھ روزے تو تو رکھتی ہی ہے، اپنے مذہب پر چلتی بھی ہے۔ کیا میں منع کرتی ہوں۔۔۔‘‘ اپنے ہی سامنے کی اولاد جوان ہوجائے تو اس کے سامنے بھی تھوڑا بہت تو جھکنا ہی پڑتا ہے۔۔۔!

    ’’امی جان۔۔۔ روزوں ا ور عید کے بارے میں میں نہیں کہہ رہی ہوں۔۔۔‘‘ وہ تن کر بولی، ’’آپ جس راستے پر مجھے چلانا چاہ رہی ہیں وہ میں اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ میں ایسا کوئی کام نہیں کروں گی جسے میرا جی نہ کرنا چاہے۔۔۔‘‘

    ’’تو سن اے ضدی لڑکی۔۔۔ شریف زادیوں اور اونچے خاندان کی طوائفوں کی طرح میں نے جاگیردار صاحب سے تیری نتھ اتارنے کی بات پکی کرلی ہے۔ روز روز ایسے لوگ نہیں جڑتے۔۔۔ اور پھر یہ تھوڑی ہے کہ نتھ اُترائی کے بعد تو ان کی منکوحہ بیوی ہوجائے گی، وہ تو نئے راستے پر چلنے کی ایک شروعات ہوگی بس، اور جس پر تیرا دل آیا ہے ایسوں کو میں خوب پہچانتی ہوں۔۔۔ رنڈی کے لیے آنکھیں تو سب ہی بچھاتے ہیں لیکن اپنے گھر کے دروازے کی کنڈی کوئی نہیں کھولتا۔۔۔ تو پھر زندگی بھر جھک مارتی رہ، مجھے پروا نہیں۔۔۔ لیکن مجھے بھی تو اپنا بڑھاپادیکھنا ہے۔۔۔ میرے دن تو گئے۔۔۔ تیرے ہی سہارے تو اب زندگی کا جوا کھیلنا ہے۔ تو بھی پتی ورتا بن کر بیٹھ گئی تو میں کیا بڑھاپے میں فاقے کروں گی۔۔۔؟

    آج سے دوتین دن بعد عید ہے۔ عید پر جاگیردار صاحب آنے کو کہہ گئے ہیں، اسی دن تاریخ پکی ہوجائے گی۔۔۔ ابھی تک تو نے میری محبت ہی محبت دیکھی ہے۔۔۔ نفرت اور غصہ نہیں دیکھا۔۔۔ دیکھنا ہے تو اس مرگھلے کو دیکھ لے۔۔۔ اس چتاؤنی پر بھی تو نہ مانی تو اپنا انجام سوچ سکتی ہے۔۔۔ میں جیل میں خوشی خوشی چکی پیس لوں گی لیکن چھنال تجھے زندہ نہیں چھوڑں گی۔۔۔‘‘

    کیسی پرسکون زندگی گزر رہی تھی۔۔۔ نہ وہ نیلی شرٹ والا آتا نہ نامراد زندگی تیرا یہ حشر ہوتا۔۔۔ اس کے بعد ایک بار وہ آیا بھی تو ایسے موقع پر جب امی جان موجود تھیں۔۔۔ شکر ہے اس نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا کہ وہ پہلے بھی آچکا ہے۔ بس کسی جگہ گانے کی فرمائش امی جان کے سامنے کی اور انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ’’بیٹا ہم لوگ رمضان شریف میں گاتے بجاتے نہیں ہیں۔۔۔‘‘ مایوسی سے چلا گیا مگر کہہ گیا تھا۔۔۔ پھر کبھی آؤں گا۔۔۔ اور ظاہر ہے وہ امی جان کے لیے تو آنے سے رہا۔۔۔ جاتے وقت کیسی بھولی اور معصوم نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ محبت کی وہ منزلیں جو لوگ برسوں میں نہیں پار کرسکتے، ہم نے محض دو ملاقاتوں میں الانگھ لیں۔ میں تمہاری نہیں ہوسکوں گی۔۔۔ شاید کبھی نہیں۔۔۔ مگر کاش قسمت تم سے یہ کہنے کا موقع ہی عطا کرسکے کہ میں نے اب تک سوائے تمہارے کسی کو نہیں چاہا اور نہ شاید چاہ ہی سکوں گی۔۔۔

    اور شاید قسمت اس پر مہربان تھی اور یہ سب کچھ عین عید ہی کے دن تو ہوا۔ عید صحیح معنوں میں اس کے لیے عید ثابت ہوئی۔ عید کے دن تو گھر آنے والوں سے، عید ملنے والوں سے بھرا رہتا۔ بڑے ہال کمرے میں سب ہی آآکر بیٹھتے رہے۔۔۔ قہقہوں اور باتوں کی آواز سے چمن آرا کے کان پکتے رہے۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں اداس بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک خادم جھجکتے ہوئے آیا اور بولا، ’’چھوٹی بیگم صاحب۔۔۔ آپ سے کوئی ملنے آئے ہیں۔۔۔‘‘ فلیٹ کے تین دروازے تھے، ہر دروازے پر کوئی بڑی بیگم صاحب پہرہ تو دیتی نہیں رہتی تھیں۔ ایک دم چمن آرا کے دل میں امیدوں کا چاند سا روشن ہوگیا، ’’وہی تو نہیں۔۔۔‘‘ اس نے گھبراہٹ اور خوشی کے جذبات کو چھپاکر کہا، ’’کون ہے۔‘‘

    ’’وہ اپنا نام انوار بتاتے ہیں۔۔۔‘‘

    نام تو اس دن اور دوسرے دن بھی اس نے پوچھا ہی نہیں تھا۔۔۔ وہی ہوگا، ورنہ مجھ سے ملنے تو خاص طور پر کوئی آتا نہیں۔۔۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھ کر ذرا دھیرے سے بولی، ’’دیکھو، پچھلے دروازے سے لے آؤ۔۔۔‘‘ تھوڑی ہی دیر میں دروازہ کھلا۔۔۔ اور وہی۔۔۔ ہاں وہی کھڑا ہوا تھا۔۔۔ جانے کہاں سے اتنی بے باکی چمن آرا میں آگئی۔۔۔ مسکراکر بولی، ’’کل اَبر تھا۔۔۔ میں نے عید کا چاند دیکھنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن دیکھ نہ پائی تھی۔۔۔!‘‘

    اس نے اندر ہوکر دروازہ بند کیا۔۔۔ چٹخنی چڑھائی اور بے تابی سے تقریباً دَوڑتا ہوا آیا اور چمن آرا سے یوں لپٹ گیا جیسے برسوں کے بچھڑے محبوب ملتے ہیں۔ وہ دونوں مدتوں یوں ہی لپٹے کھڑے رہے۔ بڑی مشکل سے وہ خود کو الگ کرپایا۔

    ’’چمن۔۔۔ میں۔۔۔ میں شاید تمہارے بغیر زندہ نہ رہ پاؤں گا۔۔۔ میں مرجاؤں گا چمن۔۔۔ میں مرجاؤں گا۔۔۔‘‘

    ’’مگر شاید میں تمہاری نہیں ہوپاؤں گی انور۔۔۔ میرا سودا ہوچکا ہے۔۔۔‘‘

    ’’سودا۔۔۔؟‘‘ وہ پیچھے ہٹا۔۔۔ ’’سودا۔۔۔؟ لڑکیوں کا کہیں سودا ہوا کرتا ہے؟ لڑکیاں تو بیاہی جاتی ہیں بیچی نہیں جاتیں۔۔۔‘‘

    ’’پاگل۔۔۔‘‘ وہ ہنسی، ’’تم اس کوٹھے پر تین بار آچکے ہو۔۔۔ یہاں تم نے گدیلوں پر بچھی چاندنیاں نہیں دیکھیں۔۔۔ چاندی کے پاندان، ناگردان اور اگالدان نہیں دیکھے۔۔۔ قالینوں پر سجے ہوئے ساز نہیں دیکھے۔۔۔ اور کچھ دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو، مگر کارنس پر رکھی گھونگھرؤں کی جوڑیاں تو ضرور دیکھی ہوں گی۔۔۔ اب بتاؤ پھر بھی کچھ سمجھے یا نہیں؟ سودے ایسی ہی جگہ پر طے ہوتے ہیں، تم بھولے ہو بہت بھولے۔۔۔‘‘

    انور دھیرے سے مسہری کی پائنتی سے ٹک گیا۔ دونوں ہاتھوں میں سر تھامے ہوئے۔۔۔ چمن آرا اس کے پاس آبیٹھی۔

    ’’تم نے غلط جگہ دل لگایا ہے۔۔۔‘‘

    ’’میرا باپ کروڑپتی ہے۔۔۔‘‘ وہ شدت جذبات سے بپھر گیا، ’’وہ مجھے چاہتا بھی بے حد ہے۔۔۔ تمہاری ماں پیسہ چاہتی ہے، تو میں تمہیں خریدنے کو بھی تیار ہوں۔۔۔ میں تمہیں دنیا دکھاوے کو خریدلوں گامگر پھر شادی کرکے باقاعدہ دلہن بناکر اپنی بیوی بناکر گھر بساؤں گا۔۔۔ لیکن تم خدا کے لیے ہاں کردو۔‘‘

    ’’میں کچھ نہیں کرسکتی انوار۔۔۔ میں اتنی ہی بے بس ہوں جتنی دنیا کی کوئی بھی مظلوم لڑکی اپنی ظالم ماں کے ہاتھوں ہوسکتی ہے۔۔۔ میں تمہارے لیے کچھ کرسکتی ہوں یانہیں، یہ بعد کی بات ہے لیکن ایک تحفہ تمہیں ضرور دے سکتی ہوں۔ اور اس نے دیوانگی کے جذبات کے ساتھ اپنے اَن چھوئے اور کنوارے ہونٹ انوار کے کانپتے ہوئے گرم گرم ہونٹوں سے چپکادیے۔۔۔ ایک دم انوار پر پاگل پن سا چھا گیا۔۔۔ اس نے تسلی کی خاطر ایک بار بند چٹخنی کی طرف دیکھا اور پھر بند قبا جوانی کے ہاتھوں بے بس ہوتا چلاگیا۔

    کچھ دیر بعد کسی کام سے جہاں آرا بیگم کو بیٹی کی یاد آئی تو وہ لپکی ہوئی اس کے کمرے کو چلیں۔۔۔ مسہری سے لگی آرام کرسی پر نادم نادم سا انوار بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ اور پٹی سے لگی چمن آرا اپنی خوشیوں کے بوجھ سے نڈھال جھکی جھکائی۔۔۔ ان کی تجربہ کار آنکھوں نے ایک لمحے میں سب کچھ پڑھ لیا۔۔۔ ثبوت کے طور پر وہ کچھ اور دیکھنا چاہتی تھیں۔۔۔ سو پکارا، ’’چمن۔۔۔ اِدھر آنا ذرا۔۔۔‘‘

    چمن آرا اٹھی۔۔۔ چلی تو یوں ڈگمگاتی ہوئی جیسے اب گری کہ تب گری۔ یہ چال اسی وقت بگڑتی ہے جب ہتھیلی پر مڑا تڑا نوٹ کڑکڑاتا ہے۔۔۔ انہوں نے اس کی مٹھی کھول کر دیکھی۔۔۔ خالی تھی!

    مٹھی خالی تھی اور حرام زادی ’’بھری‘‘ بیٹھی تھی!

    انہوں نے بہت۔۔۔ بہت، بہت ہی بھلمنساہٹ کا مظاہرہ کیا۔۔۔ یعنی ہاتھ پکڑ کر انوار کو اٹھاکر کھڑا کیا اور رسان سے بولیں، ’’خالی بندوق داغنے والے تو میں زندگی بھر سے دیکھتی آرہی ہوں۔۔۔ جیب میں مال پانی ہو تبھی پتلون ڈھیلی کرنی چاہیے۔۔۔ سمجھے۔۔۔ اب نکل جاؤ یہاں سے۔۔۔‘‘ چمن بید مجنوں کی طرح تھر تھر کانپے جارہی تھی۔ داماد سے نپٹ کر وہ بیٹی کی طرف مخاطب ہوئیں، ’’کتیا۔۔۔ آج پتہ چلا چھنال کی اولاد چھنال ہی ہوتی ہے۔۔۔ تو کون سی سہرے توروں کی بیاہی پیداوار تھی کہ سہروں توروں کا انتظار کرتی۔۔۔ اب جو میں کہوں اس پر عمل کرتی جا، ورنہ تیری بوٹیاں نوچ نوچ کر چیلوں کووں کو کھلادوں گی۔۔۔ سن۔۔۔ وہ اس کی ٹھوڑی پکڑ کر اونچی کرتی ہوئی بولیں، ’’جاگیردار صاحب آج بھی پئے ہوئے ہیں۔ بھرپور نشے میں ہیں۔۔۔ میں انہیں یہاں بھجواتی ہوں، آدمی پیا ہوا ہو اور بند کمرے میں جوان لڑکی ساتھ ہو تو پھر وہ کوئی وظیفہ نہیں کرتا، وہی کرتا ہے جو مرد عورت ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔۔۔ تو انہیں سب کچھ کر گزرنے دینا۔۔۔ آگے میں نپٹ لوں گی۔۔۔‘‘

    مہندی لگے ہاتھوں میں نازک انگوٹھیاں۔۔۔ جوانی کے خمار سے تپتا چہرہ۔۔۔ او رچہرے کو ڈھانپنے کے لیے مہندی لگے ہاتھ۔۔۔ مہندی جس کی خوشبو خود ایمان متزلزل کردیتی ہے۔۔۔ اور ان کا پاس جانا اور مارے نفرت کے اس کا دور دور ہٹنا۔۔۔ جسے یہ ادائے دلبری سمجھے۔۔۔ اور پھر وہی گناہ۔۔۔ جو ازل سے اب تک ہوتا رہا ہے، ہوتا رہے گا۔۔۔ رات کے اندھیرے سے صبح کے اجالے تک اور صبح کے اجالے سے رات کی سیاہیوں تک۔۔۔ ہزاروں بار کا دہرایا ہوا۔۔۔ مگر ہر بار نیا۔۔۔ مگر اتنا ہی پرانا۔۔۔

    دروازہ کھلنے پر صاحب زادہ قمرالزماں صاحب جاگیردار نے توقع کے برخلاف منظر دیکھا۔ دیکھتے کیا ہیں کہ جہاں آرا بیگم رو مال سے منہ ڈھانپے رو رہی ہیں۔

    ’’بات کیا ہے آخر۔۔۔؟‘‘ وہ سراسیمہ سے ہوکر بولے۔

    ’’بات کیا ہوتی حضور۔۔۔ میری عمر بھر کی کمائی لٹ گئی۔۔۔ پہلی ’’بوہنی‘‘ آپ کے ہاتھوں ہونی تھی سوالاکھ میں۔۔۔ اور اب آپ نے تو آج یوں ہی۔۔۔‘‘

    وہ پرسکون ہوکر ہنسے، ’’افوہ بس اتنی سی بات۔۔۔ بھئی دھوم دھڑاکے سے تو نتھ اترے گی ہی۔۔۔ یقین نہ ہو تو اس وقت یہ ساری انگوٹھیاں رکھ لیجیے۔۔۔‘‘ اور انہوں نے اپنی موٹی موٹی انگلیوں میں سے کھینچ کھینچ کر سچے ہیروں والی قیمتی انگوٹھیاں ان کے قدموں میں ڈھیر کرنی شروع کردیں۔ نہیں نہیں کرکے بھی لاکھ سے کم کیا رہی ہو گی یہ ساری انگوٹھیاں۔۔۔ اب نتھ اُترائی نہ بھی ہو تو کیا فرق پڑجائے گا۔۔۔ جہاں آرا نے خوش ہوکر دل میں سوچا۔

    ڈیڑھ ماہ صاف نکل گیا۔۔۔ اور دنوں باتیں ساتھ ہی ہوئیں۔۔۔ اس دن صبح پہلی بار منہ دھوتے میں چمن آرا کو ابکائیاں آکر قے ہوئی اور اسی دن شام کو جاگیردار صاحب اپنی لمبی سی گاڑی میں بیٹھ کر آئے اور سناگئے کہ ’’بھئی کاروباری مصروفیت میں بات پیچھے پڑگئی تھی۔۔۔ اگلے ہفتے نتھ اُترائی کی تقریب ہوگی۔۔۔‘‘ اور انہوں نے پیشگی سوالاکھ جہاں آرا کے قدموں میں ڈال دیے اور ساتھ یہ بھی سنادیا، ’’یہ تو سمجھیے چمن کا صدقہ ہے۔۔۔ ہیروں کی نتھنی تو ہم خود پہنائیں گے، وہ سونے کی نتھنی بھلے ہی ہم اتاردیں۔۔۔ ناک سونی کیسے رکھیں گے۔۔۔ جس ناک میں ہیرے کی نتھنی یا لونگ نہ ہو اس ناک کے نخرے ہی کیا۔۔۔؟‘‘

    مقررہ تاریخ پر ایک ایسی یادگار تقریب جڑی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔۔۔ کیا کسی کی برات اتنی شان دار ہوگی۔۔۔ جاگیردار صاحب کئی موٹروں کی برات لے آئے۔۔۔ چمن آرا کو اپنی لمبی سی گاڑی میں اپنے ساتھ ہی بٹھایا۔۔۔ جہاں آرا بیگم کو بھی اس خاص تقریب کے لیے اپنے ہی ساتھ مدعو کیا۔۔۔ اور پورے کروفر کے ساتھ اپنی جگمگاتی کوٹھی پر پہنچ گئے۔

    جہاں آرابیگم کو خوشی یوں تھی کہ جوانی کااولین تروتازہ اور میٹھا میٹھا رس جو وہ حرام زادہ پہلے ہی پی گیا تھا، جاگیردار صاحب پر ایک راز ہی رہا، اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ اس کنوارے کھیت میں پہلی پہل کاشت میں نے ہی کی۔۔۔ اور دوسری اس سے بھی زیادہ اہم خوشی یہ تھی کہ بٹیارانی حمل سے بھی تھیں۔۔۔ مگر اب یہ کس کو پتہ کہ ایک ہی گھنٹے کے وقفہ سے جو دو دو ہل چلائے گئے ہیں تو سہرا کس کے سر بندھے گا کہ کس کا بیج ہے، اچھا ہوا جاگیردار صاحب کے سر ہی بلا جائے گی۔۔۔ ویسے تو ہاتھ کی بات ہے جی چاہے رکھوں گی، جی چاہے ٹھنڈا گرم پلاکر پیٹ صاف کرادوں گی۔۔۔

    صبح کا انتظار امی جان کو اصل میں یوں تھا کہ دیکھیں بٹیا رانی کو جاگیردار صاحب کیا تحفہ دیتے ہیں؟ شان دار کوٹھی کے شان دار ترین بیڈروم سے ملحق گارڈن میں صبح سویرے جب اماں جان بیٹی سے بات کرنے پہنچی تو یہ دیکھ کر ان کا جی جل گیا کہ بیٹی تو گہنے پاتوں سے لدی ہوئی ہے مگر سامنے وہی نامراد کھڑا دانتوں میں برش کر رہا ہے۔

    ’’تم۔۔۔ تم یہاں کیسے۔۔۔؟‘‘ وہ ذرا تیزی سے بولیں اب چمن آرا نے بھی گھونگھٹ ہٹاکر اسے دیکھا اور چکراگئی۔۔۔ بالکل ہی چکراگئی۔۔۔ وہ تو انوار تھا۔۔۔ سوفی صد انوار۔۔۔

    ’’میاں میں پوچھتی ہوں تم یہاں کیسے آئے۔۔۔‘‘

    وہ ہنسا، ’’میں اپنے گھر میں ہوں بھائی۔۔۔ اپنے باپ کے گھر میں۔ اپنے گھر میں ہونا گناہ ہے کیا؟‘‘ کالج کے ٹور پہ گیا ہوا تھا۔۔۔ رات ہی تو واپس آیا ہوں۔۔۔‘‘ اور اسی لمحے اس کی نظر چمن پر پڑی۔۔۔ وہ چکرا اٹھا۔

    سودا۔۔۔؟ سودا۔۔۔؟ سودا۔۔۔!

    چمن نے اسے دیکھا اور پاگلوں کے سے انداز سے چلا چلاکر ہنسنے لگی۔

    ’’امی جان۔۔۔ ذرا ایک رشتہ مجھے سمجھا دیجیے۔ یہ بچہ جو میرے پیٹ میں ہے، میرا بیٹا بھی ہوسکتا ہے۔۔۔ اور شاید میرا پوتا بھی۔۔۔ ہے نا امی جان۔ ہو سکتا ہے اور بھی کئی رشتے، رشتوں سے نکل آئیں تو میں امی جان۔۔۔ میں خود اپنی بہو بھی ہوئی اور اپنی ساس بھی۔۔۔ کیوں کہ امی جان آپ کی عنایت کی وجہ سے باپ بیٹے ایک ہی تھالی میں کھاکر گئے ہیں۔۔۔ امی جان ذرا رشتہ تو سمجھ لیجیے۔۔۔ پھر مجھے سمجھا۔۔۔‘‘ اور اِک دم وہ چیختے چیختے بے ہوش ہوگئی۔۔۔

    ہڑبونگ سن کر جاگیردار صاحب باہر نکل آئے۔

    ’’ارے بھئی کیا ہو رہا ہے۔۔۔‘‘ وہ چلائے۔۔۔ ماں کے ہاتھوں میں بیٹی کو یوں دیکھا تو حیران ہوکر بولے، ’’اسے کیا ہوا۔۔۔ ارے میں پوچھتا ہوں چمن کو کیا ہوا۔۔۔‘‘

    جہاں آرابیگم نے بڑی ادا سے سراٹھاکر جواب دیا، ’’اے حضور مجھ سے کیا پوچھتے ہیں۔۔۔ ایسی بھی کیا جوانی کہ پھول سی بچی کو رات بھر میں جھولا جھولا بنادیا، اور اوپر سے یہ سوال کہ کیا ہوا۔۔۔؟‘‘

    اپنی لنگڑی جوانی کے سَر ایسا شان دار سہرا بندھتے دیکھ وہ کھل کھلا اٹھے اور مسکرا مسکراکر سو سو کے مٹھی بھر بھر نوٹ اپنی جیبوں سے نکال کر جہاں آرا کے سامنے ڈھیر کرتے گئے۔

    مأخذ:

    نتھ اترائی (Pg. 14)

    • مصنف: واجدہ تبسم
      • ناشر: شمع بک ڈپو، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1981

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے