Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیا حمام

ذاکر فیضی

نیا حمام

ذاکر فیضی

MORE BYذاکر فیضی

    تین سال کی اندھی، گونگی اور بہری بچّی کو کیسے مارا جاناہے۔ اس کا فیصلہ آج کی آخری میٹنگ میں ہونا تھا، جس کے لیے میٹنگ ہال میں موجود تمام لوگ نیوز چینل کے مالک وا یڈیٹر کے منتظر تھے۔

    ایک ہفتہ قبل چینل کے ایڈیٹر کاپی۔ آر۔ او (پبلک رلیشن آفیسر) ایک چھوٹے شہر کے مقامی اخباری رپورٹر کو چینل کے دفتر میں لے کر آیا تھا۔ پی۔ آر۔ او نے ایڈیٹر سے تعارف کرایا تھا۔ ”سر! یہ اپنے شہر کی سنسنی خیز خبروں کی اطلاع ہمیں دیتے رہتے ہیں۔ کسی کسی اسٹوری پر ہماری ٹیم ورک بھی کرتی ہے۔ بٹ سر۔۔۔ اس بار جو یہ اسٹوری لائے ہیں، اس میں آپ کی اجازت لازمی ہے۔“

    وہ مقامی اخبارکا رپورٹر جو خبریں کم اور اشتہارات زیادہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ سیدھے سادے اور معمولی لوگوں کو بلیک میل کرنا بھی اس کا ذریعہ ء آمد نی تھا۔ جیسے کسی جوڑے کو پبلک پارک میں عشق کرتے دیکھ لیا تو خبر چھاپنے کی دھمکی دے کرروپے وصول کر لیے۔

    اِدھر سال بھر سے اس نے ایک نیا پیشہ اپنایا تھا۔ مشہور خبر یا چینلوں کے لیے خبروں کی ”دلالی“ کرنا۔ وہ کچّے مال کی طرح چینل کو خبر دیتا تھا، جس کو چینل کی ٹیم اپنی ”فیکٹری“ میں شاندار ”پروڈکٹ“ بنا کر مارکیٹ میں اتارتی تھی اور ٹی۔ آر۔ پی وصول کرتی تھی۔

    اس بار اخباری رپورٹر جو ”کچّا مال“ لایا تھا، اس پر ٹیم کے ساتھ خود ایڈیٹر بھی حیران تھا۔ لیکن چینل کی گرتی ٹی۔ آر۔ پی کو دیکھتے ہوئے ایڈیٹر نے یہ کہتے ہوئے ٹیم کو اجازت دے دی کہ کچھ فیصلے دل سے نہیں دماغ سے کرنے چاہئیں کیونکہ اوپروالے نے بھی دماغ کو دل سے ایک فٹ اوپر ہی رکھا ہے۔

    اخباری رپورٹر نے ایڈیٹر کو بتایا تھا۔۔۔ ”میرے شہر میں پچےّس سال کی ایک حسین عورت بیوہ ہوگئی ہے، جس کی ایک تین سال کی اندھی، گونگی اور بہری لڑکی ہے۔ وہ عورت اپنے پرانے عاشق سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ عاشق بھی اس پر جان دیتا ہے۔ ہر محبت کی کہانی میں عاشق ومعشوق کے درمیان کوئی نہ کوئی دیوار ضرور حائل ہوتی ہے۔ امیری، غریبی، ذات پات، خاندانی دشمنی وغیرہ۔ لیکن یہاں مسئلہ اس اندھی بچّی کا تھا۔ عاشق کا کہنا تھا کہ میں اندھی بچّی کو نہیں رکھوں گا۔ ان دونوں نے کوشش کی کہ کوئی رشتے دار دوست بچّی کو گود لے لے، مگر نا کام رہے۔ سرکاری یا غیر سرکاری لاوارث و یتیم بچّوں کی تنظیموں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب ماں زندا ہے تو ہم بچّی کو نہیں لیں گے۔۔۔ تب ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ بچّی کو مار دیا جائے۔ وہ عاشق میرے دوستوں میں سے ہے میں نے انھیں مشورہ دیا”اگر تم اس بچّی کو مارنا ہی چاہتے ہو تو کیوں نا اس کی موت سے فائدہ اٹھاؤ۔“

    ”مطلب؟“ عاشق نے جلدی سے پوچھا۔

    ”دیکھو، جب تم بچّی کو ختم کر رہے ہوگے تو کوئی مشہور نیوز چینل اپنے چھپے کیمرے میں قید کرکے ٹی وی پر دکھائے گا۔۔۔ کوئی کمپنی اس پر وگرام کو اسپانسر کرے گی تب کمپنی کا بزنس بڑھے گا، چینل کی ٹی۔ آر۔ پی بڑھے گی اور تمہارا بینک بیلنس بڑھے گا۔“

    ”مگر اس طرح تو ہم سماج اور قانون کے مجرم ہو جائیں گے۔ ہمیں سزا سے کون بچائے گا۔“ بچّی کی ماں نے خوف ظاہر کیا۔

    ”اس کی فکر تم مت کرو۔ اس طرح کی اسکرپٹ تیار کی جائے گی کہ تم پر آنچ نہ آئے۔۔۔ اور ویسے بھی پبلک کو چاہیے سنسنی خیز خبریں، جس کو وہ بعد میں کسی نئی خبر کی وجہ سے بھول جاتی ہے۔“

    پھر ایک میٹنگ میں بچّی کے ماں باپ کی ایڈیٹر سے ساری باتیں طے ہوگئی تھیں۔۔۔ لیکن یہ طے نہیں ہو پارہا تھا کہ بچّی کو کیسے مارا جائے۔ اس لیے چینل کے ایڈیٹر نے، چینل کے تینوں اسکرپٹ رائٹرز کو بلاکر ہدایت دی تھی کہ اس اسٹوری پر ایسی اسکرپٹ تیاّر کریں، جس سے یہ لوگ بچ جائیں۔

    اور آج کی آخری میٹنگ میں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ کس رائٹر کی اسکرپٹ پر ٹیم کام کرے گی، یعنی بچّی کو کیسے مارا جانا ہے اور بچّی کے ماں باپ کو کیسے بچایا جانا ہے۔

    اس میٹنگ میں وہ سب بہت بے چینی سے ایڈیٹر کا انتظار کر رہے تھے۔ اس وقت میٹنگ میں بچّوں کے لیے کھلونے بنانے والی کمپنی کے ایم۔ ڈی بیٹھے ہوئے تھے۔ جن کی کمپنی اس پروگرام کو پیش کرے گی۔ یتیم، بے سہارہ بچّوں کے لیے فلاح و بہبود کا کام کرنے والی تنظیم ”معصوم کی آواز“ کی صدر موجود تھیں، جو پروگرام ٹیلی کاسٹ ہونے کے بعد ”مظاہرہ“ کر کے یہ مانگ کریں گی کہ مجرموں کو جلد سے جلد گرفتار کر کے سخت سے سخت سزا دی جائے۔ بال سماج کلیان سمیتی کے صدر بھی موجود تھے، جو بعد میں چینل پر اعتراض کریں گے، جس کے لیے ان کو ایک اسپیشل ٹاک شو (Specail Talk Show) میں ڈسکشن کے لیے بلایا جائے گا۔ اس بحث میں ماہرِ سماجیات، ماہر نفسیات اور ماہر قانون وغیرہ بھی موجود ہوں گے۔ اس ٹاک شو میں کو ن کون سے مدعے اٹھائے جائیں گے اور کیا کیا سوال وجواب ہوں گے، یہ بھی ابھی طے ہونا تھا۔۔۔ لیکن اس سے بھی پہلے یہ طے ہونا تھا کہ بچّی کو کیسے مارا جائے۔۔۔ میٹنگ میں ایڈیٹر کے علاوہ تینوں اسکرپٹ رائٹرز، اخباری رپورٹر، بچّی کے ماں باپ، چینل کا کیمرہ اور چینل کے ایڈیٹر کاپی۔ آر۔ او۔ بھی موجود تھے۔

    چینل کے ایڈیٹر کے میٹنگ ہال میں داخل ہوتے ہی وہاں موجود سب لوگ ادب سے کھڑے ہوگئے۔

    ”گڈمارننگ ایوری بڈی“ ایڈیٹر نے ایک پیشہ وارانہ مسکراہٹ تمام لوگوں پر اچھالتے ہوئے اپنا لیپ ٹاپ میز پر رکھا۔ ایڈیٹر کے اشارے پر سب لوگ بیٹھ گئے۔ ایڈیٹر نے بچّی کی طرف نگاہ ڈالی، جو اپنی ماں کی گود میں بیٹھی جانے کیا دیکھ رہی تھی؟ نہ جانے کیا سن رہی تھی؟ کچھ سوچ کر ایڈیٹرنے بچّی کی ماں سے کہا”میڈم! آپ ذرا ویٹنگ روم میں بیٹھے، ہم ابھی آتے ہیں۔“ ماں بچّی کو لے کر باہر چلی گئی۔

    پہلے رائٹر نے بناوقت گنوائے کہا، ”سر! میری رائے میں بچّی کی موت جتنی درد ناک ہوگی، ہمیں اتنی ہی اچھی ٹی۔ آر۔ پی ملے گی۔ اس لیے میں نے اس طرح کی اسکرپٹ تےّار کی ہے سر کہ بچّی کے ماں باپ اس کے پیدائشی اندھے، گونگے اور بہرے پن سے عاجز و پریشان ہیں۔ ایک دن باپ جھنجھلا کر بے پناہ غصّے میں بچّی کی آنکھیں نکال لیتا ہے۔ ماں بھی اس کے بہرے پن سے عاجز ہوکر سوئٹر بننے والی سلائیاں اس کے کان میں گھسیڑ دیتی ہے، جس سے بچّی مر جاتی ہے۔“

    ”آپ کا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا مسٹر رائٹر!“ یتیم وبے سہارا بچّوں کی تنظیم ”معصوم آواز“ کی صدر چیخ پڑیں۔

    ”آپ بالکل وحشی ہوگئے ہیں۔ آپ تین سالہ پیدائشی اندھی بچّی کے ساتھ ایسا سلوک کیسے کر سکتے ہیں۔“ چینل کے ایڈیٹر نے صدرِ محترمہ کی تائیدکی”آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ آخر ہم انسان ہیں، کوئی وحشی نہیں۔“

    اس طرح اسکرپٹ نمبر ایک ردکردی گئی۔

    دوسرے رائٹر نے کہا، ”سر! میری اسکرپٹ کے مطابق جس وقت میاں بیوی ہم بستری کر رہے ہوتے ہیں تو عین اسی وقت بچّی رونے لگتی ہے۔ بس بچّی کے بے وقت رونے پر باپ بے قابو ہو کر غصّے میں بچّی کو اٹھاکر دیوار پر دے مارتا ہے۔ بچّی وہیں تڑپ تڑپ کر، سسک سسک کر مرجاتی ہے۔“

    ”لیکن آپ کے کیمرہ مین صاحب ان کے بیڈروم میں کیسے پہنچ گئے؟کیا یہ کوئی مشہور نیتا یا ابھی نیتا ہیں۔“ کھلو نے بنانے والی کمپنی کے ایم ڈی نے اعتر اض کیا۔۔۔ ”اور پھر پبلک یہ سوال نہیں کرے گی کہ آخر چینل کو کیسے پتہ چلا کہ بچّی کو مارا جانا ہے۔“

    ”آپ ٹھیک کہتے ہیں۔“ بچّی کے باپ نے کہا۔۔۔ ”پبلک سوال کر سکتی ہے۔ اگر چینل کو پہلے سے ہی پتہ تھا، بچّی کو مارا جانا ہے تو اس نے پولیس کو اطلاع دے کر بچّی کی جان کیوں نہیں بچائی۔“

    ایڈیٹر کے اشارے پر اسکرپٹ نمبردو بھی رد کردی گئی۔

    اب سب کی نگاہیں امید کے ساتھ اسکرپٹ رائٹر نمبر تین پر تھیں۔

    رائٹرنے کہا۔۔۔ ”سر! میں نے اس طرح لکھا ہے کہ ہمارے چینل کی ٹیم ریلوے پر ڈاکومینٹری فلم بنا رہی ہے۔ جس کے لیے چینل کا رپورٹر اور کیمرہ مین اپنے چھپے کیمرے کے ساتھ ایک ٹرین کے فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کمپارٹمنٹ میں ایک جوڑا اپنی اندھی بچّی کے ساتھ موجود ہے۔ ہم چھپے کیمرے سے ان کی حرکتیں قید کریں گے۔ سر! واضح رہے کہ ہم کیمرے کو ایسے اینگل سے رکھیں گے کہ بچّی کے ماں باپ کی صرف ٹانگیں ہی دکھیں، چہرے نہیں۔۔۔ اچانک ہم دیکھتے ہیں۔ وہ شخص جو بچّی کا باپ معلوم ہوتا ہے وہ بچّی کو اٹھاکر دروازے سے باہر پھینک دیتا ہے۔ ٹرین اس وقت ایک پُل سے گزرہی ہے۔ ان لوگوں کا ارادہ شاید بچّی کو ندی میں پھینکنے کا ہوتا ہے۔ لیکن بچّی پُل ایک کھمبے سے ٹکراکر پُل کے اندر ہی گرجاتی ہے۔

    پُل پار کرتے ہی ایک چھوٹے اسٹیشن پر ٹرین رکتی ہے۔۔۔ اس سے پہلے کہ ہم ان کو پکڑیں وہ پستول کی نوک پر ہماری پہنچ سے دور ہوجاتے ہیں۔ کیمرہ مین دوڑ کر اُس مقام پر پہنچتا ہے، جہاں بچّی کو پھینکا گیا ہے، بچّی مر چکی ہے۔۔۔ سر! ہم یہاں سے لائیو (Live) ٹیلی کاسٹ کریں گے اور سر بریکنگ نیوز میں بچّی کا کلوز اپ لیا جائے گا۔ تب ہم فخر سے کہیں گے یہ نیوز صرف ہمارے پاس ہے کسی دوسرے چینل کے پاس نہیں۔“

    اس اسکرپٹ پر سب خاموش تھے۔ لگتا تھا، سب راضی ہیں۔

    بچّی کے باپ کے چہرے پر اس اسکرپٹ سے خوف تو تھا مگر بالکل ایسے ہی جیسے کسی نئے اداکار کی پہلے دن کی شوٹنگ یا پہلی فلم کی ریلیز کے وقت ہوتا ہے۔

    ایڈیٹر کے پی۔ آر۔ او۔ نے تجویز رکھی۔۔۔ ”اگر ہم یہ نیوز چلدُرن ڈے یعنی ۴۱/ نومبر کو دکھائیں تو زیادہ سنسنی پھیلے گی۔ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟“

    ایڈیٹر اور دیگر ماہرِین نے اس تجویز پربھی غور و فکر کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اسے بھی قبول کر لیا جائے۔ ساری باتیں طے ہو چکی تھیں۔ ایڈیٹر نے میٹنگ کو اختتام کی طرف لے جاتے ہوئے، تمام لوگوں کی جانب باری باری ایسے دیکھا جیسے جنگی محاذپر جارہی فوج ٹکڑی کے کمانڈر نے پوچھا ہو۔۔۔ ”کوئی شک۔۔۔؟ کوئی سوال؟“

    سب لوگوں کی خاموشی نو سر(No Sir) کی صدابلند کررہی تھی۔

    مأخذ:

    نیا حمام (Pg. 20)

    • مصنف: ذاکر فیضی
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2020

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے