Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیا وکیل

فرانز کافکا

نیا وکیل

فرانز کافکا

MORE BYفرانز کافکا

    ہمارے یہاں ایک نیا وکیل آیا ہے، ڈاکٹر بُسفیلس۔ اس کے حلیے میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے آپ کو یہ خیال آسکے کہ وہ کسی زمانے میں سکندر مقدونی کا گھوڑا تھا۔ ہاں، اگر آپ اس کی کہانی سے واقف ہوں تو البتہ آپ کو کچھ کچھ ایسا محسوس ہوسکتا ہے۔ لیکن ابھی ایک دن جب وہ کچہری کے اگلے سنگی زینوں پر اتنے زور زور سے چڑھ رہا تھا کہ زینے اس کے پیروں تلے گونج رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ایک معمولی سا اردلی جو ریس میں پابندی کے ساتھ چھوٹی موٹی بازیاں لگا لگا کر گھوڑوں کو آنکنے میں خوب مشاق ہوگیاہے، وہ بھی اس کا تعریفی نگاہوں سے جائزہ لے رہا تھا۔

    مجموعی حیثیت سے وکیلوں کو اپنی جماعت میں بسفیلس کا داخل ہونا اچھالگا ہے۔ لوگ حیرت خیز بصیرت سے کام لے کر خود سے کہتے ہیں کہ موجودہ معاشرے کا جو حال ہے، اس کو دیکھتے ہوئے بسفیلس خاصی مشکل میں پڑا ہوا ہے، اس لیے، اور تاریخ عالم میں اس کی اہمیت کے لحاظ سے بھی، بسفیلس کم از کم اس کا حق ضرور رکھتا ہے کہ اس کا دوستانہ خیرمقدم کیا جائے۔ کون انکار کرسکتا ہے کہ اس زمانے میں کوئی سکندراعظم نہیں ہے۔ ایسے لوگ تو بہتیرے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ لوگوں کو کس طرح ہلاک کیا جائے، دعوت کی میز پر جاکر کسی دوست کو نیزے سے چھید دینے میں جو مہارت درکار ہوتی ہے اس کی کمی نہیں ہے، اور بہتوں کے نزدیک مقدونیہ بہت تنگ جگہ ہے، چنانچہ وہ فیلقوس کو، جو باپ تھا، کوستے ہیں۔

    لیکن ہندوستان تک کا راستہ کوئی نہیں بناسکتا، کوئی بھی نہیں۔ خود شہنشاہ کے زمانے میں بھی ہندوستان کے دروازے دسترس سے باہر تھے، پھر بھی اس کی تلوار نے ان تک پہنچنے کا راستہ دکھاہی دیا۔ آج اس سے زیادہ دور دست اور بلند مقامات کے دروازے اترچکے ہیں لیکن کوئی راستہ نہیں دکھاتا۔ تلواریں لے کر چلتے تو بہتیرے ہیں لیکن ان کو صرف ہوا میں چلانے کے لیے، اور جو آنکھ ان کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتی ہے وہ چوندھیا کر رہ جاتی ہے۔

    اس لیے شاید واقعی سب سے بہتر یہ ہے کہ وہی کیا جائے جو بسفیلس نے کیا ہے اور خود کو قانون کی کتابوں میں غرق کردیا جائے۔ اب، کہ اس کی کمرپر کسی سوار کی رانوں کا دباؤ نہیں ہے، جنگ کے شورو غوغا سے دور لیمپ کی پرسکون روشنی میں وہ ہمارے قدیم مجلدات کے اوراق دیکھتا اور پلٹتا رہتا ہے۔

    مأخذ:

    کافکا کے افسانے (Pg. 67)

    • مصنف: فرانز کافکا
      • ناشر: نیر مسعود
      • سن اشاعت: 1978

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے