Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نشان والے

عبدالصمد

نشان والے

عبدالصمد

MORE BYعبدالصمد

    کہانی کی کہانی

    ’’افسانہ ایک ایسے شادی شدہ جوڑے کی کہانی بیان کرتا ہے، جو ایک مخصوص نشان والوں سے بچنے کے لیے ساری دنیا میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ پھر وہ ایک نئے مکان میں آکر رہنے لگتے ہیں۔ انہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ اس مخصوص نشان والوں کے پڑوس میں ہی آکر بس گئے ہیں۔ بیوی کے کہنے پر وہ پڑوسیوں سے میل جول بھی کرتا ہے۔ ملنے پر وہ پڑوسی اسے اچھے لگتے ہیں۔ ایک روز وہ پڑوسی انہیں اپنے گھر میں چھپانے کے لیے ایک ایسی چیز دے کر جاتا ہے جس کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔‘‘

    بیوی نے کہا۔۔۔

    ’’اور سب تو ٹھیک ہی ہے، مکان بھی اچھا ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ آپ کا پڑوسی کون ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’بھئی ہم کل ہی تو آئے ہیں، ابھی تو ہمیں یہاں کی آب و ہوا کا بھی نہیں پتہ، ابھی پڑوسی کے بارے میں مجھے کیسے معلوم ہو سکتا ہے۔‘‘

    میں قدرے چڑھ کر بولا۔ ابھی ابھی میں سامان کی آخری کھیپ لے کر نئے مکان میں پہنچا تھا۔

    ’’جلدہی معلوم کر لیجئے تو بہتر ہے۔‘‘

    بیوی کا لہجہ بے حد معنیٰ خیز تھا، میں نے اس کی بات پر زیادہ دھیان نہیں دیا اور سامان کو مناسب جگہوں پر لگانے میں لگا رہا۔ فارغ ہونے کے بعد میں نے اپنے نئے گھر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ پہلی نگاہ میں جو گھر بس ٹھیک ہی لگا تھا، وہ اب اس حد تک اچھا لگ رہا تھا کہ اس میں کچھ عرصہ بڑے شوق سے رہا جا سکتا تھا۔ کچھ دیر مسحور رہنے کے بعد میں نے غسل کیا اور تازہ دم ہوکر چائے پی رہا تھا کہ اچانک بیوی کا لہجہ آرام دہ کرسی کا ایک کیل بن گیا۔

    ’’یہ پڑوسی کا کیا معاملہ ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’میں نے کہا تھا، پڑوسی کے بارے میں پتہ کر لیجئے تو بہتر ہے۔۔۔‘‘ بیوی پھر اپنے رنگ میں آ گئی۔

    ’’آپ نے اگر پتہ کر لیا ہو تو بتا دیجئے۔۔۔‘‘

    میں نے اپنی جھنجھلاہٹ کو بڑی مشکل سے دباکر ایک طنزیہ مسکراہٹ میں تبدیل کیا۔

    ’’بیٹی تو کہہ رہی ہے کہ وہ وہی ہیں، نشان والے۔۔۔‘‘

    بیوی نے خلافِ توقع بڑی آسانی سے جواب دیا۔

    ’’نشان والے۔۔۔‘‘

    میں کانپ گیا، میری آنکھوں کے سامنے وہ سارے منظر پھر گئے، جنہیں بچپن سے میں دیکھتا رہا تھا، میرے کانوں میں وہ سارے قصے تازہ ہو گئے جو۔۔۔

    ’’اس کو کیا معلوم، بچی کی بات پر آنکھیں موند کر کیسے یقین کر لیا جائے؟‘‘ میں نے یقین پر بے یقین کی ضرب لگانے کی کوشش کی۔

    ’’واہ، یہ خوب کہی آپ نے۔۔۔؟ وہ اس نشان کو نہیں پہچانتی کیا۔۔۔؟ سڑکوں پر، اسکول میں، پاس پڑوس میں، اپنے دوستوں میں۔۔۔ وہ کہاں اس نشان کونہیں دیکھتی اور آپ کہتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

    بیوی نے میری لاعلمی کا دل کھول کے مذاق اڑایا۔

    ’’پھر بھی بچی تو بچی ہی ہے نا۔۔۔؟‘‘

    میرے اندر ایک موہوم سی امید اب بھی باقی تھی۔

    ’’تو آپ خود پتہ کرلیجئے۔۔۔‘‘

    اس نے جیسے سارے یقین، بے یقینی، امید، ناامیدی وغیرہ وغیرہ کا سلسلہ ہی ختم کر دیا اور میرے لئے ’ٹھیک ہے‘ کے سوا اور کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ رات بھر مجھے چیخ و پکار، دوڑ بھاگ، آگ و خوں، قتل و غارت گری اور ان تمام بربادیوں پر قسم قسم کے نشانات۔۔۔ نظر آتے رہے، نشان والوں کا خوف بچپن ہی سے میرے ذہن پر طاری تھا، ان کے مخصوص لباس، خاص قسم کی ٹوپی اور عجیب و غریب قسم کے نعرے پر جہاں میری نگاہیں پڑتیں، میں بھاگ نکلتا۔۔۔ بھاگتا جاتا۔۔۔ بھاگتا جاتا، اس بھاگنے کے چکر میں میں نے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا، یا شاید یوں صحیح ہوگا کہ سب کچھ برباد کر دیا، میرے ہم درد، بہی خواہ مجھے بھاگتے ہوئے دیکھتے تو میری حالت پر افسوس کرتے اور مجھے صالح مشورے دیتے لیکن میرے ذہن میں خوف کی جو مشین لگ گئی تھی وہ بند ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔

    اپنےطور پر میں نے جو بھی ٹھکانہ ڈھونڈا، وہ ان نشان والوں کے سائے سے بھی دور، لیکن میری بدنصیبی کہ چند ہی دنوں کے بعد مجھ پر انکشاف ہوتا کہ میرے ٹھکانہ کے دائیں یا بائیں یا آگے یا پیچھے، دور و نزدیک، کہیں بھی کوئی نشان والا ضرور موجود ہوتا اور پھر میں ہوتا اورمیرے ذہن میں چالو مشین، اگر سامنے سے مجھے کوئی نشان والا آتا دکھائی دیتا تو میں فوراً اپنا راستہ کاٹ جاتا، جس میدان میں مجھے نشان والوں کے جمع ہونے کی بو لگتی، اس راستے کو استعمال کرنا بھی میں گناہ تصور کرتا۔ سب کچھ کرنے کے بعد بھی میری زندگی کے کسی نامعلوم گوشے سے کوئی نہ کوئی ایسا فرد ضرور آ کودتا جو نشان۔۔۔

    میرے ہمدرد اور بہی خواہ مجھے سمجھاتے۔

    ’’کیا فائدہ ہے اس طرح بھاگتے رہنے کا، اس طرح بھاگتے بھاگتے تو تم زندگی سے ہی بھاگ جاؤگے، اب کیا کرنا ہے، نشان والے تو تمہیں ہر جگہ ملیں گے، کہاں تک ان سے بھاگوگے۔۔۔‘‘

    بات معقول تھی اور میری سمجھ میں بھی اچھی طرح آئی تھی لیکن بہت کم وقت کے لئے کیوں کہ جہاں میری نگاہ پھر کسی نشان والے پر پڑتی، وہ بات پھنس جاتی اور پھر میرے پاؤں اور ذہن میں لگی مشین۔۔۔

    اور یہ مکان بھی تو میں نے ایک جائے امان سمجھ کر ہی ڈھونڈ نکالا تھا۔ میرے کچھ ہمدردوں نے کسی نہ کسی طرح یہ بات میرے ذہن میں بیٹھا دی تھی کہ ایک ہی شہر کو لاتعداد جزیروں میں منقسم نہیں کرو، اس سے پہچان بنتی ہے اور صاف دکھائی دیتی ہے۔ اس سےبہتر ہے کہ آدمی بھیڑ میں اتنا کھو جائے کہ اس کی اپنی پہچان ہی ختم ہو جائے، میں نے سنا تھا کہ یہاں جو لوگ ہیں، ان کے پاس کوئی نشان نہیں ہے اس لئے ان کے ساتھ رہنے میں کوئی پریشانی نہیں۔۔۔اب۔۔۔

    صبح کے سورج کی پہلی کرن نے مجھے اطلاع دی کہ میں رات بھر نہیں سویا تھا اور جو کچھ میری آنکھوں کے پردے پر نظر آتا رہا تھا وہ کوئی خواب نہیں تھا اور جن آنکھوں نے رات بھر یہ تصویریں دیکھی تھیں، ان آنکھوں میں خون بھرے ہوئے تھے۔ میری بیوی نے اس خون کو پڑھ لیا اور بولی۔

    ’’میں نے غلطی کی جو تمہیں ایسی اطلاع دی، میں نے تو سوچا تھا کہ اب تم میں صبر آ جائےگا۔ آخر ہم کب تک یوں بھاگتے پھریں گے، اب تو یہ بہت پھیل گئے ہیں اور جب ہمیں ان ہی کے ساتھ زندگی گزارنی ہی ہے تو پھر کیوں نہ صبر و شکر کے ساتھ رہیں۔‘‘

    میں ٹکر ٹکر اس کی صورت کو دیکھتا رہا۔ بات وہ سچ ہی کہہ رہی تھی۔ میری ساری کشتیاں دھیرے دھیرے جل چکی تھیں اور اب مجھے پتہ نہیں تھا کہ میرے پاس اب کوئی کوشش باقی بھی بچی ہے یا نہیں۔

    ’’میری مانو تو میں ایک رائے دوں؟‘‘

    بیوی نے بڑی پرامید نظروں سے میری طرف دیکھا، مجھے خاموش دیکھ کر اس کا حوصلہ بلند ہوا اور اس نے اپنی قیمتی رائے دے ہی دی۔

    ’’تم پڑوسی سے مل آؤ۔۔۔‘‘

    ’’میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، اس کے چہرے پر پرامید اور حوصلہ کی کرنیں چمک رہی تھیں۔

    ’’تم ہوش و حواس میں تو ہو؟‘‘

    میں نے اپنے ہوش و حواس پر قابو پاکے بہت تیکھے پن سے پوچھا۔

    ’’بالکل۔۔۔ اور یہ میری مخلصانہ رائے ہے، اب مجھ سے تمہاری بے بسی دیکھی نہیں جاتی۔۔۔‘‘

    میری بیوی دکھی تھی لیکن اس کی آنکھوں میں تحیر اور بےیقینی موجزن تھیں اور میں اپنی بیوی کو اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے اس میں میں نے کسی نشان کو دیکھ لیا ہو۔

    ’’دیکھو وہ ہمارے پڑوسی ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان پر شک کریں۔ پھر ہمارے پالنے والے کا بھی حکم ہے کہ پڑوسی سے محبت کرو۔ یہ چیز تمہیں پالنے والے کے قریب کر دےگی، آخر ہم خواہ مخواہ کے شک و شبہات میں کیوں مبتلا ہوں۔۔۔‘‘

    میری بیوی کے اندر اس وقت بالکل کوئی دوسری عورت بول رہی تھی جو شاید میرے ساتھ بھاگتے بھاگتے اب تھک چکی تھی۔

    ’’تم جانتی ہو ان کی ہسٹری۔۔۔؟ انہوں نے ہمارے گھر اجاڑے، ہماری بہنوں کی عصمتیں لوٹیں، ہمیں جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی، وہ دن رات ہمیں نیست و نابود کرنے کی ترکبییں سوچتے رہتے ہیں اور تم ان کی یوں وکالت کر رہی ہو۔۔۔‘‘

    ’’انہوں نے نہیں، ان کے جیسے کچھ گمراہ لوگوں نے، دوسروں کی سزا ہم انہیں کیوں دیں، یہ تو بالکل وہی بات ہوئی کہ ہزاروں سال پہلے کی۔۔۔‘‘

    ’’ڈیڈی۔۔ڈیڈی، پڑوسی انکل کی بیٹی ہمیں اپنے ساتھ کھیلنے کو بلاتی ہے ہم جائیں؟‘‘

    میری ننھی سی بیٹی ڈرتے ڈرتے مجھ سے پوچھ رہی تھی۔ نشان و شان کی بات کچھ اس کے کان اور کچھ ذہن کے صحراؤں میں بھٹک رہی تھی۔

    ’’نہیں۔۔۔‘‘

    میں کچھ اتنے زور سے چیخا کہ میری چیخ میرے حلق میں ہی قید ہو گئی، اس کے نتیجے میں میرے چہرے اور آنکھوں میں جو لالی اتری، اس سے بیٹی سمجھ گئی کہ میرا کیا منشا ہے۔

    ’’کیوں بچوں کے ذہن میں اس قسم کی باتیں ڈال رہے ہو، کیا ان کے مقدر میں بھی زندگی بھر بھاگنا ہی۔۔۔‘‘

    ’’اور وہ جو اسے اپنے گھر میں مار ڈالیں، اسے زہر دے دیں، اسے غائب کر دیں۔۔۔‘‘

    ’’نہیں وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے، ایسا اگر ہوا بھی تو ان کی بیٹی جو ہماری بیٹی ہی جیسی ہے، اسے ضرور بچا لےگی۔۔۔‘‘

    بیوی کے لہجے میں کوٹ کوٹ کے اعتماد بھرا ہوا تھا۔

    ’’اچھا تو آپ وہ سارے منظر بھول گئیں، ساری داستانیں، ساری کہانیاں۔۔۔‘‘

    ’’نہیں بھولی کیونکہ وہ سب تو ہسٹری ہے، لیکن میں ہ بات بھی جانتی ہوں کہ ذاتی تجربے ہسٹری میں جگہ نہیں پاتے۔‘‘

    ’’تم چاہتی کیا ہو۔۔۔؟‘‘ میں اس کی بحث سے عاجز آ گیا۔

    ’’تم پڑوسی سے جاکر مل لو۔۔۔‘‘

    وہ جیسے ایک پڑاؤ پر ٹھہر سی گئی تھی۔

    ’’ نہ جان نہ پہچان۔۔۔ اور پھر وہ بھی تو آ سکتے تھے ہم سے ملنے، یہ فرض کیا صرف ہم ہی پر عائد ہوتا ہے۔۔۔؟‘‘

    میں نے اسی کی رن بھومی میں اس سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔

    ’’کوئی حرج کی بات نہیں، وہ ہمارے پرانے پڑوسی ہیں، ہم سے بہت قبل سے یہاں رہ رہے ہیں، اس طرح وہ ہم سے سینئر ہوئے، سینئر کے سامنے۔۔۔‘‘

    اب اس سے بحث بیکار تھی۔ لیکن جب میں نے اپنے آپ کو پڑوسی کے دروازے پر بیل بجاتے پایا تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس میں اس کا کوئی دخل نہیں تھا۔ میرے پاؤں خود یہاں تک آئے تھے، اس میں کوٹ کوٹ کر میرا ہی ارادہ بھرا ہوا تھا۔

    دروازہ کھلا، ایک سر باہر نکلا لیکن پھر فوراً ہی اندر ہو گیا۔

    ’’شاید وہ لوگ ملنا نہیں چاہتے، خواہ مخواہ میں۔۔۔‘‘

    میں اپنے اَپ سے مخاطب ہوا، لیکن دروازہ کھلا اور ایک مسکراتا ہوا چہرہ باہر نکلا۔ معاف کیجئےگا، میں ذرا اوپر والے کا نام لینے میں مصروف تھا، آپ اندر تو آئیے۔۔۔‘‘

    میں جھجھکتے ہوئے اندر داخل ہوا۔۔۔

    ’’میں تمہارے چہرے پر کم ہوتی ہوئی شکنوں کو گن کر بتا دوں۔۔۔؟‘‘

    میری بیوی بہت خوش تھی، میں چپ چاپ چائے کی چسکیاں لیتا رہا، چائے ختم کر کے میں نے سگریٹ کے ڈبہ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے لپک کر ڈبہ اٹھا لیا۔

    ’’ابھی نہیں۔۔۔ پہلے پوری تفصیل، پھر۔۔۔‘‘

    ’’کوی خاص بات نہیں، وہ یوں ملے جیسے برسوں کے بچھڑے ملے ہوں، ان کی بیوی بچوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا۔۔۔‘‘

    ’’اچھا، پھر تو تم ڈر ہی گئے ہوگے۔۔۔‘‘

    بیوی بڑی شوخی سے مسکرائی، میں جھینپ گیا لیکن اس کے سامنے۔۔۔

    ’’نہیں ڈرنے کی کیا بات ہے، وہ بھی تو ہماری طرح آدمی ہی ہیں نا۔۔۔‘‘

    ’’ہاں جی آدمی تو ہیں اور آدمی سے کیا ڈرنا، ڈر تو اس جانور سے لگتا ہے جو آدمی کے اندر چھپا رہتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’اچھا تو آپ اب میری زبان بولنے لگیں۔۔۔‘‘

    مجھے بھی اس پر طنز کرنے کا یک نادر موقع ہاتھ آیا۔

    ’’ابھی تو تم نے میری پوری بات سنی ہی نہیں، میں کہہ رہی تھی کہ اس جانور کی زنجیر اکثر ہم لوگو ں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے بالکل انجانے طور پر۔۔۔‘‘ وہ پھر اپنی راہ پر آ لگی۔

    ’’خیر، تو انہوں نے مجھے بہت مزیدار پکوان کھلوائے، مٹھائیاں کھلائیں اور تو اور مجھے انہو ں نے ایک ایسی چیز بھی کھلا دی جو۔۔۔‘‘

    جیسے کوئی انجانی سی روک میری زبان پر لگ گئی۔

    ’’آخر کیا۔۔۔؟‘‘

    تجسس کا رنگ گہرایا۔

    ’’وہ شاید چڑھاوے کے پیڑے تھے، وہ بھی انہوں نے مجھے کھلا دیے۔۔۔‘‘

    ’’تو تم نے کھالئے۔۔۔؟‘‘

    ’’بیوی کا انداز چھیڑنے والا تھا۔

    ’’تو اور کیا کرتا، انہو ں نے تو۔۔۔‘‘

    ’’کوئی فرق نہیں پڑا، میں پوچھتی ہوں تمہارے لئے اس پیڑے میں اور جو حلوائی کی الماری میں بند ہیں، اس میں کیا فرق ہے۔۔۔؟‘‘

    اس کا انداز دلاسہ دینے والا تھا۔

    ’’چڑھاوے کا۔۔۔‘‘

    ’’یہ تو اپنے اپنے عقیدے کی بات ہے، وہ اسے چڑھاوا سمجھتے ہیں اور تم صرف پیڑا۔ چلو تمہارا ایمان بھی سلامت رہا اور ان کا عقیدہ بھی محفوظ۔۔۔‘‘

    لگتا تھا میری بیوی میری غیر موجودگی میں کافی سوچ بچار کرتی ہے۔

    ’’لیکن ا ن کے گھر میں تو جگہ جگہ نشانات لگے ہوئے ہیں، میں ان سے دوستی کیسے کر سکتا ہوں۔ایک آدھ بار جانے کی بات اور ہے۔۔۔‘‘ میں نے فکر مندی سے کہا۔

    ’’وہ تو اس لیے ہے کہ تم نے ان چیزوں کو صرف دور سے دیکھا ہے، جب کئی بار دیکھ لوگے نا تو پھر تمہارے دل سے ان کا ڈر نکل جائےگا۔۔۔‘‘

    بیوی نے مجھے یوں سمجھایا جیسے یہ کوئی اہم بات ہی نہیں۔

    ’’بار، بار۔۔۔؟ اب میں ا ن کے ہاں نہیں جاؤں گا، ایک بار چلا گیا تمہارے کہنے پر، اب میں تھوڑا ہی جانے والا ہوں۔۔۔‘‘

    میں نے تیز لہجے سے بیوی کے سکون کو چھیدنے کی کوشش کی۔

    ’’لیکن تمہارے جانے کے جواب میں اب وہ جو آئیں گے، پھر اس کے جواب میں تمہیں جانا پڑےگا، پھر وہ آئیں گے، پھر تم، پھر وہ۔۔۔ پھر تو یہ سلسلہ چل پڑےگا۔‘‘

    اس کے سکون میں کوئی فرق نہیں پڑا، اس کے ہونٹوں پر وہ مسکراہٹ ناچ رہی تھی جو شاید اسے مجھے اندر سے ٹوٹتے دیکھ کر پھوٹی تھی۔ لیکن میں باہر سےبالکل نہیں ٹوٹا تھا اور میں اپنے مستحکم ارادے سے اس کو باخبر کرنے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ میری چھوٹی سی بیٹی اپنی ہی جیسی ایک دوسری لڑکی کی گردن میں ہاتھ ڈالے ہنستی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔

    ’’پاپا، یہ پڑوسی انکل کی بیٹی ہے، اس کے پاپا نے کہا کہ جاؤ میرے ساتھ کھیلو۔‘‘

    میری بیٹی نے بڑی معصومیت کے ساتھ مجھے اطلاع دی۔ شاید اسے بھی حالات کی تبدیلی کا علم ہو گیا تھا کیونکہ ابھی کتنے دنوں کی بات ہے جب میں نے ان سے کہا تھا۔۔۔

    ’’کیوں کیا خیال ہے۔۔۔؟‘‘

    بیوی نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔

    ’’تو ٹھیک ہے کھیلو۔۔۔‘‘

    میں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو جواب دیا۔

    ’’چلو اب کچھ دن چین سے ہم یہاں رہ تو سکیں گے، پاؤں سے لگی ہماری غریب الوطنی تو ختم ہوئی۔‘‘

    بیوی نے جیسے مجھے اطمینان دلایا۔ بچیاں چلی گئیں تو میں نے طنز بھرے لہجے میں اسے کاٹا۔

    ’’لیکن جب کہیں دور سے کوئی پٹاخہ چھٹےگا نا تب دیکھنا۔۔۔ یہ وقتی دوستی کس طرح دشمنی میں تبدیل ہوتی ہے۔۔۔‘‘

    ’’ہو سکتا ہے کہ شک و شبہات کے دبیز پردے جب چاک چاک ہو جائیں تو دوستی دوستی ہی رہے، دشمنی میں نہ بدلے۔۔۔‘‘

    میری بیوی پتہ نہیں کیا سوچ کر اس قدر امید افزا بن رہی تھی، لاعلاج ہونے کی حد تک۔۔۔ اچانک انہیں اپنے دروازے پر دیکھ کر میں بوکھلا گیا، وہ اکیلے نہیں آئے تھے، اپنی مسکراتی ہوئی بیوی کو بھی ساتھ لائے تھے۔

    ’’کیوں۔۔۔ آپ کو خوشی نہیں ہوئی کیا۔۔۔؟‘‘

    شاید انہو ں نے میری بوکھلاہٹ بھانپ لی، میں جھینپ گیا اور میں اس وقت جیسا بھی تھا، میرا گھر اس وقت جیسا بھی تھا، میں نے ان کے لئے کھول دیا۔

    ’’نہیں، نہیں آئیے۔۔۔ بہت خوشی ہوئی، یقین مانئے، بہت خوشی ہوئی۔‘‘

    میرے الفاظ شاید پورے خلوص کے ساتھ میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ دراصل میرا ڈرائنگ روم اس وقت قابل ِ دید حد تک بےترتیب تھا، بچوں کے کپڑے فرش پر بکھرے ہوئے تھے، ان کے جوتے صوفے پر پڑے تھے، صوفے کے ہتھے پر بیوی کے کچھ خفیہ کپڑے رکھے ہوئے تھے، میں خود ایک اٹنگ پاجامہ اور گنجی پہنے ہوئے تھا اور اس لئے بے دھڑک باہر نکل پڑا کہ اس وقت دودھ والا اپنا حساب کرنے و آنے والا تھا، غنیمت تھا کہ بیوی غسل خانے میں تھی اور بچے اسکول سے آکر کھیلنے نکل گئے تھے۔ میں نے جلدی جلدی کپڑوں اور جوتوں کو ادھر ادھر پھینک پھانک کے ان کے بیٹھنے کی جگہ بنائی اور تولیے صاف کرتے ہوئے ان سے بیٹھنے کی درخواست کی۔ انہوں نے ایک لمحہ کا توقف کیا، اس سے پہلے بھی وہ چند لمحوں کے لئے کھڑے رہے تھے، لیکن بالآخر وہ بیٹھ ہی گئے۔

    ’’بھابھی جی کہاں ہیں۔۔۔؟‘‘ انہو ں نے چاروں طرف بڑی چوکنی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے دریافت کیا۔

    ’’جی، وہ غسل خانے میں ہیں، بس اب آچلیں۔۔۔‘‘ میں نے بڑی لجاجت سے جواب دیا، وہ تھوڑا مسکرائے۔

    ’’آپ اس قدر گھبرائے ہوئے کیوں ہیں۔۔۔؟ آپ بھی بیٹھئے نا۔۔۔‘‘

    ان کی بیوی نے شاید میری کیفیت پڑھ لی اور مجھے بھی اپنی سطح پر لانے کی پیشکش کی۔

    ’’نہیں نہیں میں گھبرا نہیں رہا ہوں، گھبرانے کی کیا بات ہے، آپ ہمارے گھر میں آئے، یہ ہماری خوش قسمتی ہے، اصل میں۔۔۔دیکھئے نا، گھر کچھ بے ترتیب سا ہے۔ میں ابھی باہر سے آیا ہوں۔

    ’’بیوی بچے۔۔۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں، چلتا ہے، سب گھر میں یہی ہوتا ہے بھائی۔۔۔‘‘

    انہو ں نے جیسے میری ڈھارس بندھائی، اتنے میں میری بیوی نے غسل خانے کا دروازہ ذرا سا کھول کے باہر منھ نکالتے ہوئے پوچھا۔

    ’’کون ہے۔۔۔؟‘‘

    میں ڈور کے اس کے پاس گیا اور تیز لہجے میں دھیمے سے کہا۔

    ’’جلد نکلو۔۔۔ پڑوس سے آئے ہیں، ان کی بیوی بھی ساتھ ہیں۔۔۔‘‘

    ’’پڑوس سے۔۔۔؟ اچھا میں ابھی آتی ہوں، تم ذرا جلدی سے میرے کپڑے دےدو، الماری میں رکھے ہیں۔۔۔‘‘

    میں نے جیسے تیسے اس کے کپڑے چن کے اس کے نکلے ہوئے ہاتھ پر رکھ دئے اور وہ سچ میں ایک آدھ مٹ میں ملبوس ہوکے نکل بھی آئی۔ پھر تو جو دونوں عورتیں ایک دوسرے سے ملی ہیں تو شاید انہو ں نے اپنے آپ ہی کو نہیں، ہمیں بھی بھلا دیا۔ گھر کی، باہر کی، آس پڑوس کی، بچوں کی، دنیا بھر کی باتیں۔۔۔‘‘

    ’’ارے بھائی، آپ باتیں ہی کرتی رہیں گی یا کچھ مہمان کی خاطر بھی کریں گی۔۔۔؟‘‘

    ہم بھی خاموش نہیں بیٹھے تھے، پھر بھی ان کے مقابلے میں تو پیچھے ہی تھے، بیوی فوراً اٹھ گئی۔

    ’’ارے نہیں، خاطر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، آج تو ہمارا اپواس بھی ہے۔ ہم تو یونہی چلے آئے تھے۔۔۔‘‘ انہوں نے معذرت کی۔

    ’’ارے نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے، آپ پہلی بار ہمارے یہاں آئے ہیں، کم سے کم ایک گلاس پانی تو۔۔۔‘‘

    ’’نہیں، کچھ نہیں، آئندہ۔۔۔‘‘ وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور ہمیں اپنے یہاں آنے کانیوتہ دے کر چلے گئے۔

    ’’دیکھا، وہ ہمیں طمانچے لگاکے چلے گئے نا۔۔۔‘‘

    میں جیسے تمتما اٹھا۔

    ’’کمال کرتے ہو تم بھی۔۔۔ ارے بھائی، ان کا اپواس تھا تو پھر کیسے ہماری خاطر قبول کر لیتے۔۔۔‘‘

    میری بیوی پر ان طمانچوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

    ’’اپواس تھا تو آئے کیوں۔۔۔؟ آخر آپ کسی کے ہاں جائیں گے تو وہ کم سے کم پانی تو آفر کرےگا ہی اور اگر آپ اسے قبول نہیں کرتے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے۔۔۔‘‘

    میں چوٹ سے بلبلا رہا تھا، میری بیوی نے میر ے زخموں پر ٹھنڈا ٹھنڈا مرہم رکھنے کی کوشش کی۔

    ’’پہلی بار تو وہ ہمارے یہاں آئے تھے، تم خود سوچو کہ نشان والے ہوتے ہوئے بھی وہ ہمارے یہاں آئے، ہو سکتا ہے یہ کام انہوں نے تجربے کے طور پر کیا ہو، ابھی ہمارے پاس وقت ہے نا انتظار کرنے کو، سو ہم پھر ان کا انتظار کریں گے۔۔۔‘‘

    ’’جب ہم پھر ان کے یہاں جائیں گے تب ہی پھر وہ آ سکتے ہیں نا اور ہم تو سب کچھ کھالیں گے، ان کے ہاں، چاہے وہ چڑھاوا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔‘‘

    میرے طنز بھرے لہجے پر بیوی کھلکھلا کے ہنس پڑی۔

    ’’بھئی ایک با رتم بھی ان کے یہاں مت کھانا، کہہ دینا کہ تمہار ا بھی فاسٹ ہے۔۔۔‘‘

    ’’آپ جن باتوں کو اتنا آسان سمجھ رہی ہیں نا، وہ سچ مچ اتنی آسان نہیں، اگر کہیں دوستی ہوتی ہے تو یہ ہمیشہ برابری کی سطح پر ہوگی، اسے سدا یاد رکھنا۔۔۔‘‘

    میں خاصا سنجیدہ ہو گیا تھا، بلکہ اندر سے دکھی بھی، پتہ نہیں مجھے بار بار ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ انہوں نے میرے گھر پر آکے مجھے ذلیل کیا، اب مجھے ایک ایک کر کے ان کی حرکتیں یاد آ رہی تھیں۔ ان کا جھجھکتے ہوئے انداز میں میرے دروازے پر آنا، اندر آنے میں ہلکا سا توقف، پھر میرے گھر کی بے ترتیبیوں پر ان کی وہ تنقیدی نگاہیں جو صرف مجھے دکھائی دیں، ان کا کسی خاطر تواضع سے انکار کرنا اور پھر بہت ہی سرسری انداز میں واپس چلے جانا۔

    واہ، کس خوبصورتی سے انہو ں نے میرے گھر پر آکے مجھے جوتے لگائے اور ہمیں چوٹ بھی نہیں لگنے دی، خاص کے میری بیوی کو۔۔۔ بےچاری کس قدر سمٹی سمٹائی سی مخلوق ہے۔ اس کے ہاتھ پاؤں جب بھی حرکت میں آتے ہیں تو بس اپنی ہی دنیا میں گھوم پھر کے واپس آ جاتے ہیں، اس کی سوچ کی اڑان جب بھی پرواز بھرتی ہے تو اس کے گھر کی گنبد سے ٹکراکر اسی کے پاس لوٹ جاتی ہے۔ اس کی ساری کوشش بس یہ ہے کہ اب اس کا گھر اجڑنے نہ پائے۔ اب اسے کسی دوسرے گھر کی تلاش میں مارے مارے نہ پھرنا پڑے کسی طرح اس کا گھر بس جائے وغیرہ وغیرہ۔

    جب کہ میرے سامنے ان چھوٹی باتوں کے علاوہ اور بھی بہت سی باتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً تواریخ، سیاسیات، جغرافیہ، ادب، صحافت۔۔۔ میں زندگی کو سامنے سے بھی دیکھتا ہوں، پیچھے سے بھی، اوپر اور نیچے سے بھی، روز مرہ کے واقعات اور حالات، پل پل گزرتے ہوئے لمحات میرے سامنے ہوتے ہیں اور میں ان سے چشم پوشی نہیں کر سکتا اور یہ جو میری بیوی ہے نا اس کے سامنے جو کچھ ہے، وہ بس اس کا گھر ہے، اس کی ساری دنیا اس مخدوش، غیر محفوظ اور کرایے کے چھوٹے سے مکان تک ہی محدود ہے اور محض اس دنیا کو قائم و دائم رکھنے کے لئے اس نے مجھے بھی توڑ مروڑ کے رکھ دیا۔ مجھے خود میری نگاہوں میں ذلیل کر دیا۔ اس نشان والے کے یہاں جاکر اس سے مل کے مجھے کیا ملا۔۔۔؟

    آج مجھے جو سبق ملا اس کے نتیجے میں اب میں تو وہاں نہیں جانے والا، رہ گئے وہ، تو وہ آج میرے جس بے ترتیب، گندے گھر کو دیکھ کر گئے ہیں، وہاں وہ آنے کی کبھی جرأت نہیں کریں گے، کبھی سوچیں گے بھی نہیں، چلو چھٹی ہوئی۔

    دن گزرے، راتیں گزریں، ماحول بھی سرد رہا، کبھی گرم، اچانک سردی اور گرمی کی ہم آہنگی میں جو بے ترتیبی رونما ہوئی تو سردی دب گئی اور گرمی اس پر حاوی ہو گئی۔ میرے کرائے کے مکان کے چاروں طرف اس قدر گرمی ہو گئی تھی کہ دروازے، کھڑکیاں اور دریچے بند کرنے کے باوجود اس کی لہر اندر اندر تک پہنچ رہی تھی اور ہم اس میں جھلس رہے تھے۔ کوئی طریقہ بھی کار گر ثابت نہیں ہو رہا تھا، گرمی سے بچنے کے لئے کوئی تدبیر بھی فائدہ مند نہیں رہی تھی۔ ہماری آنکھوں کی نیند اڑ گئی تھیں۔ بھوک پیاس ختم ہو گئی تھی۔ ہمارے چہروں کی سرخیاں سفیدی میں تبدیل ہو چکی تھیں، باہر سے سردی کی ایک رمق بھی اندر نہیں آتی تھی۔ اب باہر کی کوئی کرن بھی ایسی باقی نہیں رہی تھی جو میرے زخم پر پھاہے کا کام کر سکے، ایسے میں ضروری ہو گیا تھا کہ میں اس گرمی سے دور بھاگنے کی کوئی تدبیر سوچوں اور یہ چیز تو میرے لئے نئی نہیں تھی، ہاں وقتی طور پر اس میں کمی ضرور آ گئی تھی۔ میں نے مجبور ہوکے ارادہ کر لیا، ایک مضبوط ارادہ۔

    اندر، باہر گرمی کی ایک بے پناہ رات میں دروازے پر دستک ہوئی، میری بیٹی کھولنے کے لئے دوڑ پڑی۔

    ’’ٹھہرو۔۔۔‘‘ میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا۔۔۔‘‘ کیا اس طرح بے دھڑک دروازہ کھولا جاتا ہے۔۔۔؟ ابھی تک عقل نہیں آئی تمہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’بچی پر کیوں گرم ہو رہے ہو۔۔۔؟ اسے کیا پتہ کہ کہاں پر۔۔۔ اب جلدی سے پتہ بھی لگاؤ کہ آخر اس وقت کون آیا ہے۔۔۔؟‘‘

    میری بیوی جو بہت دلیر بنتی تھی اور جو مجھ سے ہمیشہ سبقت لے جانے کی کوشش کرتی۔ اس وقت بڑی خوبصورتی سے مجھے سولی پر چڑھ جانے کی ترغیب دے رہی تھی۔ دستک کے انداز میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ دستک بار بار ہو رہی تھی۔ کھولنا اور نہیں کھولنا دونوں خطرے سے خالی نہیں تھا۔ لیکن اس وقت نہیں کھولنا زیادہ خطرناک تھا۔ ویسے کھولنا تو تھا ہی۔ میں نے ذرا سا دروازہ کھول کر باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ دروازہ جیسے کھلا، ایک تیز و تند ہاتھ اندر آیا جس سے ادھ کھلا دروازہ پوری طرح کھل گیا، ہمارا پڑوسی بہت پریشان اور گھبرایا سا اندر آ گیا۔

    ’’ارے صاحب، آپ بھی کمال کرتے ہیں، اتنی دیر کردی آپ نے دروازہ کھولنے میں، کب سے کھڑا ہوں۔۔۔‘‘

    وہ گھبراہٹ میں بولتا گیا، اس کے ہاتھوں میں کپڑے میں لپٹی ہوئی کوئی پوٹلی سی تھی، باتیں سن کر میری بیوی بھی وہاں پر آ گئی تھی اور پتہ نہیں کون سے مشترکہ جذبے کے تحت نہ میں نے اس سے اندر آکر بیٹھنے کو کہا اورنہ روایتی طور پر میری بیو ی نے۔

    ’’کوئی خاص بات۔۔۔؟‘‘

    میرے مجھ سے غیرارادی طور پر نکلا۔

    ’’دیکھئے صاحب، اس وقت میں، آپ سے ایک ایسی بات کہنے آیا ہوں جو صرف آپ ہی سے کہہ سکتا ہوں کسی دوسرے سے نہیں کہہ سکتا اور وہ بھی اس لئے کہ آپ میرے پڑوس میں (حالانکہ ہم میں ایک دوسرے کے گھر پر صرف ایک ایک بار ملاقات ہوئی ہے!) ہم میں بھائی چارہ ہو گیا ہے۔ (اسی شخص نے میرے گھر پر ایک گلاس پانی تک پینے سے انکار کر دیا تھا!) اس وقت آپ سے زیادہ میری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔‘‘ (وقت پڑا ہے تو گھگھیا رہے ہو بیٹا!)

    میری اور بیوی کی آنکھوں میں لاتعداد سوالات کوند اٹھے۔

    ’’کیسے آپ سے بتاؤں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا، لیکن بتانا تو پڑےگا ہی، نہیں بتاؤں گا تو پھر کروں گا کیا، آپ کے سوا کسی اور کو بتا بھی تو نہیں سکتا، بہت سوچا، بہت وچار کیا اور آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ آپ سے جو۔۔۔ میرا مطلب ہے، پڑوسی کا جو ناتہ ہے وہ بہت مضبوط ہوتا ہے نا، اس ناتے آپ پر میرا حق بھی ہوا۔۔۔‘‘

    پتہ نہیں وہ کون سی سانس تھی جو اس کے دل کے اندر سے نکل رہی تھی اور ہم پریشان ہو رہے تھے، صبح سے بند بند دروازہ ابھی بھی کھلا تھا اور ابھی تک کھلا ہی ہوا تھا۔

    ’’آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، اطمینان سے کہئے، آپ نے ہمیں اپنا سمجھا تب تو آپ آئے اور وہ بھی اس وقت۔۔۔‘‘ میں نے بڑی حلیمی سے کہا، حالانکہ ہم نے انہیں بیٹھنے کو اب بھی نہیں کہا تھا۔

    ’’وہ دیکھئے ایسا ہے۔۔۔‘‘ وہ اگل نہیں پا رہے تھے، جی تو چاہ رہا تھا کہ انہیں باہر کر کے دروازہ بند ہی کر دیں، خواہ مخواہ دروازہ ان کے سبب کھلا ہوا تھا اور وہ بھی اتنی دیر تک اچانک باہر سے کچھ مانوس سی آواز آئی اور انہو ں نے جلدی سے پوٹلی ہماری طرف بڑھائی۔

    ’’اسے آپ رکھ لیجئے، ہو سکتا ہے ہمارے یہاں ریڈ ہوجائے، ہو سکتا ہے وہ اب تک ابھی گئے ہوں، یہ آپ کے یہاں زیادہ محفوظ رہےگا، آپ پر کسی کو شک بھی نہیں ہوگا، پڑوسی ہونے کے ناتے آپ پر۔۔۔ میں چلتا ہوں، بعدمیں آپ سے لے لوں گا۔۔۔‘‘

    جلدی جلدی انہوں نے اپنی بات پوری کی اور چلتے بنے، ان کی تھمائی ہوئی پوٹلی ہمارے ہاتھوں میں رہ گئی، میں نے دوڑ کر دروازہ بند کیا اور پوٹلی ٹیبل پر رکھ دی۔

    ’’پتہ نہیں اس میں کیا ہے۔۔۔؟‘‘ میری بیوی نے تشویش بھری نظرو سے پوٹلی کو دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’ہوگا کچھ، ہمیں کیا۔‘‘ میں نے قدرے لاپرواہی سے کہا۔‘‘

    ’’آخر وہ کون سی ایسی چیز ہوسکتی ہے جو ہمارے یہاں محفوظ ہے اور ان کے یہاں غیر محفوظ یہ بات تو سوچنے کی ہے نا، ہو سکتا ہے، ممکن ہے۔۔۔‘‘

    میری بیوی جیسے اپنے آپ سے بول رہی تھی، لگتا تھا اسے اب بھی اپنے گھر ہی کی فکر تھی۔ اسے اپنا گھر غیرمحفوظ نظر آ رہا تھا اس لئے، ورنہ یہ وہی عورت ہے نا جو۔۔۔

    ’’ہوگی کچھ ایسی ویسی چیز۔۔۔‘‘

    میں واقعی اکتا گیا۔

    ’’کوئی بم۔۔۔ کوئی ایسی چیز جو۔۔۔‘‘

    جملہ ادا ہوا تو اس کی زبان سے لیکن جیسے میرے دماغ میں وہی بم پھٹ پڑا، میں نے خوف زدہ نظروں سے پوٹلی کی طرف دیکھا، چھوٹی سی، سیدھی سادی سی سفید پوٹلی تھی۔ بظاہر بڑی بےضرور لیکن کون جانے۔۔۔ کیا پتہ۔۔۔

    ’’اسی لیے میں کہتا تھا۔۔۔ خواہ مخواہ ان کے یہاں چلا گیا اور ایک ہی بار کی ملاقات میں انہوں نے پتہ نہیں کیا چیز ہمارے یہاں لاکر ڈال دی۔‘‘

    پوٹلی ٹیبل پر رکھی تھی اور ہم سبھی بے یقینی اور خوف بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے، اسی وقت میری بیٹی کو ایک بات سوجھی۔

    ’’پچھلی بار جب دلی میں بم کے دھماکے ہوئے تھے تو ٹی وی پر بتایا گیا تھا کہ کوئی اجنبی چیز جہاں دیکھو، فوراً پولیس کو خبر کرو، کسی بھی اجنبی سے کوئی چیز قبول نہ کرو، ابا، انکل نے یہ تو نہیں بتایا نا کہ اس میں کیا ہے، اس لئے ہمیں فوراً پولیس کو خبر کرنی چاہئے۔۔۔‘‘

    ’’ہاں یہ ٹھیک ہے، ہمیں پولیس ہی کی مدد لینی چاہئے۔۔۔‘‘

    میری بیوی کے چہرے اور آنکھوں پر اطمینان کی لہریں دوڑ گئیں اور شاید اس کے لئے سارے مسئلوں کا حل بھی ہو گیا۔

    ’’اور ہم پولیس کو کیا بتائیں گے کہ ہمارے پاس یہ چیز کہاں سے آئی۔ ظاہر ہے کہ پڑوسی تو صاف انکار کر دیں گے، پھر کون پھنسےگا۔۔۔؟ ہم یا وہ۔۔۔؟‘‘

    میرے ایک ہی جملے نے ان لوگوں کی ساری امیدوں پر پانی بھیر دیا، اچانک میری بیوی کو یاد آیا۔

    ’’وہ خود بھی تو شاید پولیس ریڈ ہی کے ڈر سے اسے یہاں ڈال گئے ہیں، ضرور اس میں کوئی ایسی چیز ہے جو۔۔۔ کیوں نہ ہم اسے کھول کر دیکھ ہی لیں۔۔۔‘‘

    ’’کبھی ایسی غلطی مت کیجئےگا ممی! کہیں اس میں ٹائم بم ہوا تو۔۔۔؟‘‘

    میری بیٹی اتنی سی عمر میں ہی بم وغیرہ کا پورا شعور رکھتی تھی۔

    ’’تب تو اور بھی ضرور ہے کہ دیکھ ہی لیا جائے تاکہ اس کا ٹائم ہونے سے پہلے۔۔۔‘‘

    میں نے بولتے بولتے پوٹلی کھول دی۔ کپڑے کی تین تہوں کے بعد ایک کاغذ میں بہت سلیقے سے لپٹی ہوئی ایک اینٹ برآمد ہوئی، بہت پرانی لیکن اس میں کہیں سے بھی خستہ حالی نہیں جھلک رہی تھی۔ ایسی اینٹ غالباً پرانی عمارتوں کی تعمیر میں استعمال کی جاتی تھی۔

    ’’اسے کہتے ہیں کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔۔۔‘‘

    میری بیوی اینٹ دیکھ کر ہنس پڑی لیکن میری گمبھیرتا دیکھ کر وہ چپ ہو گئی۔

    ’’کیا بات ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’یہ وہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہی ہیں، آپ نے کھود کے چوہا نہیں نکالا بلکہ۔۔۔‘‘ میری آواز اور انداز میں ضرور ایسی کوئی بات تھی جس نے سب کو چپ کر دیا۔ پہلے سے گم صم فضا میں یہ چپّی ایک عجیب معنی خیز سچویشن پیدا کر رہی تھی۔

    ’’جانتی ہو یہ کیا چیز ہے۔۔۔؟‘‘ میری آنکھوں میں جلن سی پیدا ہونے لگی۔

    ’’یہ وہی اینٹ ہے جس کے کارن اچانک گرم ہوائیں چلنے لگی ہیں اور ہم سب اپنے گھروں میں بند رہنے پر مجبور ہوئے ہیں، یہ اسی عمارت کی اینٹ ہے جس نے۔۔۔‘‘

    ’’کیا کہہ رہے ہو، تو۔۔۔؟‘‘ میری بیوی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔۔۔ ‘‘اور یہ اینٹ وہ ہمارے یہاں رکھ گئے، یعنی جس سانپ نے ایک پورے دور کو ڈس لیا، اسے وہ ہمارے یہاں ڈال گئے۔۔۔؟‘‘

    ’’ہمارے گھر سے زیادہ محفوظ جگہ ان کے لئے اور کون سی ہو سکتی تھی۔۔۔؟‘‘

    میں نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا، اس وقت ہم ایک عجیب سچویشن میں پھنس گئے تھے۔ پڑوسی نے بڑے اعتماد کے ساتھ یہ چیز ہمارے یہاں رکھوائی تھی اور ہمیں اس کے بارے میں کچھ بتایا بھی نہیں تھا، اب اگر ان کے یہاں پولیس جاتی ہے اور ممکن ہے کہ اب تک چلی بھی گئی ہو تو اسے کیا ہاتھ آئےگا اور ہم پر شک تو شاید اس کا ساتھ جنموں میں بھی نہیں جا سکتا۔ کس قدر عقل مندی اور دور اندیشی سے کام لیا ہے پڑوسی نے۔۔۔ میں اس کی دانش مندی پر عش عش کر اٹھا۔

    ’’سوچ کیا رہے ہو، جلدی سے اس بلا کو دفع کرو، اس پڑوسی نے تو ہماری محبت اور نیکی کا خوب صلہ دیا، واقعی تم ٹھیک کہتے تھے۔۔۔‘‘

    میری بیوی کی آنکھوں اور لہجے میں کیا نہیں تھا۔ پشیمانی، شرمندگی، اعتماد کی ٹھیس، خوف کی لہریں۔۔۔

    ’’دفع کر دیں، یعنی پھینک دیں، یعنی۔۔۔ نیک دل عورت، یہ چیز ہمارے گھر سے نکلےگی نا تو چاروں طرف لگی ہوئی آگ کو اور بھڑکا دےگی جس میں اور کچھ نہ ہو لیکن ہمارا یہ چھوٹا سا گھر ضرور جل جائےگا۔۔۔‘‘

    ’’کون سا ہمیں یہاں بیٹھے رہنا ہے، اب تو میں بھی تمہارے بھاگتے ہوئے پاؤں کے ساتھ خود کو باندھ لوں گی۔‘‘

    میری بیوی کی شکست دیکھنے کے لائق تھی، مجھے ہر گز یہ امید نہیں تھی کہ وہ کبھی اس قدر ہار جائےگی اور وہ بھی میرے سامنے۔۔۔ میں اس کی بات پر ہنس پڑا۔

    ’’اس وقت ہم اور ہمارے پاؤں اس لائق رہیں گے تب نا۔۔۔ میری مانو تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کربس یہ سوچو کہ اب کیا کرنا ہے۔۔۔‘‘

    ’’اسے گھر میں رکھنا ہو تب تو کچھ سوچیں۔۔۔؟ یہ گھر میں رہےگا تو۔۔۔ اسے ضائع کرنا ہی ہوگا۔۔۔‘‘

    وہ جیسے ایک فیصلے پر آکر اڑ سی گئی تھی۔

    ’’لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ اسے اب اسی گھر میں رہنا چاہئے، اتفاق سے یہ اپنی صحیح جگہ پر آ پہنچا ہے۔‘‘

    میری بیوی میرے لہجے کی سنجیدگی پر چونک پڑی اور مجھے یوں دیکھنے لگی جیسے اس کو میری صحیح الدماغی پر شک ہو گیا ہو۔

    ’’اس گھر میں۔۔۔ یہ چیز۔۔۔ تم کیا کہہ رہے ہو، میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا۔‘‘ وہ ہکلا ہکلا کر بولی۔

    ’’ہاں، اس گھر میں ذرا سوچو کہ یہ اس عمارت کی ایک اینٹ ہے جو عمارت ہمارے لئے کیا تھی اور کیا ہے اور ان کے لئے بھی۔۔۔‘‘

    میں نے اسے سمجھایا، لیکن بد اعتمادی اب بھی اس کی آنکھوں میں جھلک رہی تھی۔

    ’’لیکن یہ ہمارے کس کام آ سکتا ہے؟‘‘ اس نے محض اپنی تشفی کے لئے پوچھا۔

    ’’بہت سے مثلاً تیمم کے۔‘‘

    ’’اور جو انہو ں نے واپس مانگا۔۔۔؟‘‘

    ’’زیادہ ضد کریں گے تو آدھا دے دیں گے لیکن پورا تو ہرگز نہیں دیں گے۔‘‘

    میرے فیصلہ کن لہجے پر بیوی چپ ہو گئی اور کرائے کے اس چھوٹے سے مکان کو یوں دیکھنے لگی جیسے اب اسے اسی گھر میں اپنی زندگی بتانی ہوگی۔

    مأخذ:

    سیاہ کاغذ کی دھجّیاں (Pg. 97)

    • مصنف: عبدالصمد
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1996

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے