Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نور و نار

علی عباس حسینی

نور و نار

علی عباس حسینی

MORE BYعلی عباس حسینی

    کہانی کی کہانی

    خیر و شر کی کشاکش اور باطنی تبدیلی اس کی کہانی کا موضوع ہے۔ مولانا اجتبی اپنے داروغہ داماد کا جنازہ پڑھانے سے صرف اس لئے منع کر دیتے ہیں کہ وہ شرابی، زانی، تھا اور ان کی بیٹی ذکیہ کے زیور تک بیچ کھائے تھے۔ اسی غصہ کے عالم میں اتفاق سے ان کے ہاتھ ذکیہ کی ڈائری لگ جاتی ہے، جس میں اس نے انتہائی سادہ لوحی سے اپنے شوہر سے تعلقات کی نوعیت کو بیان کیا تھا اور ہر موقع پر شوہر کی طرف داری اور حمایت کی تھی۔ اس میں اس زیور چرانے کے واقعہ کا بھی ذکر تھا جس کے بعد سے اظہر ایک دم سے بدل گیا تھا، معافی تلافی کے بعد وہ ہر وقت ذکیہ کا خیال رکھتا، تپ دق کی وجہ سے ذکیہ چاہتی تھی کہ وہ اس کے قریب نہ آئے لیکن اظہر نہیں مانتا تھا۔ مولانا یہ پڑھ کر ڈائری بند کر دیتے ہیں اور جا کر نماز جنازہ پڑھا دیتے ہیں۔

    ’’آپ جو جی چاہے سمجھیں! گاؤں والے جو دل میں آئے کہیں! مگر میں اس پاجی کی نماز جنازہ نہ پڑھاؤں گا! ہرگز ہز نہ پڑھاؤں گا! میرا داماد سہی، مگر تھا تو وہ زانی، شرابی اور جواری!‘‘ مولانا اجتبیٰ نے سمدھی کو ڈیوڑھی میں کھڑے کھڑے جواب دیا اور گھر کا دروازہ دھڑاک سے بند کر لیا۔ اس دھڑاک نے گویا مولانا کے جواب پر مہر لگا دی۔ اب اس پر نظر ثانی کی کوئی امید نہیں رہ گئی۔ سمدھی نے حسرت سے بند دروازے کو دیکھا اور آنکھوں میں آنسو بھرے گردن جھکائے نکل گئے۔

    مولانا اجتبیٰ کے لئے بھی یہ فیصلہ کوئی آسان امر نہ تھا۔ اپنے ہی داماد کے جنازہ پر نماز پڑھانے سے انکار اور وہ بھی ایسی حالت میں جبکہ آس پاس کے کسی گاؤں میں نماز پڑھانے والا نہ ہو، اخلاق، مروت، انسانیت، عزیزداری، برادری کی تمام روایتوں کے خلاف تھا۔ مگر کیا کریں، خدا کے سامنے کھڑے ہو کر کیسے کہیں کہ اس مردے کے بارے میں اچھائیوں کے علاوہ ہم کچھ نہیں جانتے۔ وہ اپنے داماد کے کرتوتوں سے واقف تھے، وہ گاؤں والوں کو گواہ بنا کر ایسا سفید جھوٹ تو نہیں بول سکتے تھے۔

    سب ہی تو جانتے تھے اظہر کو۔ پولیس کا داروغہ، رشوت، بے ایمانی، جھوٹ، شراب، جوا، عیاشی۔ کون سا عیب تھا جو اس میں نہ تھا اور پھر سمدھی صاحب کی یہ خواہش کہ اسی پاجی اظہرکی نماز جنازہ پڑھا دو! گویا اس کی ساری برائیوں سے مکر اور محض اچھائیوں کا اقرار کرو! خدا کے سامنے دیدہ دلیری سے جھوٹ بولو! ہونہہ! مولانا کا لمبوترا چہرا سرخ تھا۔ ان کی داڑھی کے سفید بال کھڑے تھے اور ان کا چھریرا جسم، جو ایک چھڑی کی موٹھ کی طرح آگے سے جھکا تھا، اس وقت کانپ رہا تھا۔ وہ سمدھی کو مایوس جاتے دیکھ کر دروازے کی کنڈی بند کر کے پاؤں پٹکتے اندر چلے آئے۔

    ان کا گھر بہت بڑا نہ تھا۔ چھوٹا سا کچا صحن، اتررخ کے دالان اندر دالان، پچھم طرف باورچی خانہ، اور پورب جانب دو کوٹھریاں۔ دکن کی طرف کوئی عمارت نہ تھی۔ دیوار سے ملی ہوئی زمین کو دوفٹ کی لمبان چوڑان میں گوڑ کر دھنیا اور پودینہ لگا رکھا تھا۔ اسی مزروعہ کے پاس کاٹھ کی گھڑونچی دو مٹی کے گھڑے کٹوروں سے ڈھکے رہتے تھے اور ایک چھوٹی سی چوکی پر دو تانبے کے بدقلعی جگہ جگہ سے پچکے ہوئے لوٹے۔ باہری دالان میں تختوں کے چوکے پر چھپا ہوا فرش بچھا تھا، جس پر دیوار سے لگا ہوا ایک گاؤ تھا۔ میلا چکٹ، دونوں پہلوؤں سے روئی کے پھونسڑے جھانکتے ہوئے۔ گاؤ کی بغل میں دری کی ایک جانماز تھی اور اوراد وظائف کی کچھ کتابیں۔ اورایک کاٹھ کا فیض آبادی قلمدان۔

    اندر والے دالان میں ایک پلنگ بچھا تھا۔ اس کا باندھ جگہ جگہ سے مجروح تھا اور اس کی ادوائن ہر بالشت پر گرہ دار۔ اسی کے سرہانے پرانی دری میں لپٹا ہوا مولانا کا بستر رکھا تھا۔ وہیں ایک کونے میں الگنی پر ایک تہمد لٹکتی تھی، ایک پیوند لگی قبا اور ایک بڑی مہری کا مارکین کا پائجامہ۔ پلنگ سے ملی ہوئی ایک تپائی پر ایک فیض آبادی زیور رکھنے والا صندوق رکھا تھا، جس پر جز دان میں لپٹی چند کتابیں تھیں اورسب سے اوپر قرآن!

    مولانا دالان والے تخت پر اس طرح آکر بیٹھے کہ اس کا جوڑ جوڑ بولنے لگا، مگر انہوں نے اس کی فریاد پر دھیان نہ دیا۔ انہیں اس وقت غصے میں کچھ نہ سنائی دیتا تھا۔ مرنے والا، ان کی اکلوتی لڑکی ذکیہ کا شوہر تھا۔ وہ کوئی غیر نہ تھا۔ وہ اپنا ہی تھا، اسی لئے توانہیں اس کی ساری حرکتوں کی خبر تھی۔ رحیمن نے انہیں ایک ایک بات بتا دی تھی۔ وہ کبھی بھی اس بدمعاش اظہرکو معاف نہیں کر سکتے تھے۔ اس نے ان کی ذکیہ کو طرح طرح کے دکھ پہنچائے۔ اس کے سینے پر مونگ دلی۔ اس کے ہوتے رنڈی گھر میں بٹھائی۔ شراب پی، جوا کھیلا اور اپنی ہی پونجی نہیں بلکہ ذکیہ کے سارے زیور بھی چوروں کی طرح چراکر جوے میں ہار دیے۔ انہیں ظلموں نے تو ذکیہ کو بیمار ڈال کرعین جوانی میں دق کا شکار بنا دیا، اور ذکیہ کے مرنے نے مولانا کو قبل از وقت بوڑھا کر دیا، جھکا دیا، بالوں سے سیاہی، آنکھوں سے نور چھین لیا۔

    ذکیہ ہی توان کی سب کچھ تھی۔ ساری پونجی، ساری خوشی، ساری امیدیں، فقیر کے گھر کا دیا، اس کی زندگی کا اجالا۔ ذکیہ کے بعدان کی زندگی کیا تھی، بالکل ایک بھول بھلیاں کہ بھٹکتے پھر و، نہ سرے کا پتہ، نہ منزل کی خبر۔ راستے میں نہ جلتا چراغ نہ روشن مشعل، نہ چھٹکی چاندنی، نہ جگمگاتی کرن! بس ایک ہڈیاں ٹھٹھرانے والی ٹھنڈک اور گھور اندھیرا!

    اورمولانا اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ ان کا خون کھول رہا تھا، ان کے دل میں نہ جانے کتنی مرتبہ یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ وہ اس مردود اظہر سے اپنی ذکیہ کا بدلہ ضرور لیں، اسے کسی موقع پر پورے گاؤں کے سامنے ذلیل و رسوا کریں۔ افسوس کہ اس کی بیماری اور موت نے اس کا موقع نہ دیا۔ لیکن آج جبکہ یہ کانٹا ٹوٹ کر ہمیشہ کے لئے پہلو میں کھٹکتا رہ گیا، سمدھی صاحب اصرار کر رہے ہیں کہ اسی اظہر کی نماز جنازہ پڑھاؤ، اور سب کے سامنے جھوٹ بولو کہ یہ نیک تھا، اچھا تھا اور اس نے زندگی بھر نیکی اور بھلائی ہی کی ہے۔ اس کی صفائی خدا کے سامنے پیش کرو جو اپنی ذکیہ کا قاتل تھا۔ اوران کی آنکھوں میں ذکیہ کی صورت پھرنے لگی۔

    وہ اس کا بوٹا سا قد، وہ اس کا دبلا پتلا جسم، وہ اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں اور وہ اس کا مسکراتا چہرہ! عجب دل پایا تھا اس بچی نے۔ نہ اسے کھانے کی فکر نہ پہننے کی۔ پیسے ہوں یا نہ ہوں، ہر حالت میں خوش۔ ترکاری گوشت نہ پکا ہو، روٹی چٹنی ہی سہی۔ ایک ہی وقت کھانا ملے کوئی عذر نہیں۔ نوکرانی گھر میں ہوئی تو اس کا ہر کام میں ہاٹھ بٹاتی رہی، نہ ہوئی سارا کام خود کر ڈالا۔ جب باپ کے سامنے دسترخوان لگاتی تو اس انداز سے کھلاتی اور کھاتی کہ معلوم ہوتا صرف دال روٹی ہی سامنے نہیں ہے بلکہ انواع اقسام کی نعمتیں دسترخوان پر چنی ہیں۔ اور مولانا کے لئے ہر نوالہ لذیذ سے لذیذ تر بن جاتا۔ وہ خوش ہو کر کہتے، ’’ذکیہ تو یقینی جنتی حور ہے۔‘‘ اور وہ بڑی سادگی سے کہتی، ’’ابا جان، میں ایسی خوش قسمت کہاں۔ پر خدا کا شکر ضرور ادا کرتی ہوں کہ آپ کو میری پکائی ہوئی ہر چیز پسند آتی ہے۔‘‘

    اور مولانا اپنی تربیت و تعلیم پر خود عش عش کرنے لگتے۔ وہ سوچتے تھے دماغ اور دل میں فرق ضرور ہے۔ انہوں نے مذہب کو دماغ کے ذریعہ سمجھا تھا۔ ان کی کتابوں میں یہی لکھا تھا، ان کو تعلیم بھی دی گئی تھی اور ان کی فکر بھی یہی کہتی تھی، اس لئے مجبورا ًمذہبی احکام مانو۔ مگر دل نے ہمیشہ بغاوت کی۔ جوکی روٹی میں وہ مزہ کیسے ہو سکتا ہے جو شیرمالوں میں ہے۔ سادے چاول اتنے خوش ذائقہ کیسے ہو سکتے ہیں جیسی کہ بریانی ہوتی ہے۔ مارکین اور گاڑھے کے پہننے میں جسم کو وہ آرام کہاں مل سکتا ہے جو مخمل اور ریشم میں ہے۔ خود اپنے ہاتھ سے گھر کی صفائی کرنے اور کھانا پکانے میں وہ راحت کہاں جو ماما دائیوں سے کام لینے میں ہے۔ لیکن ذکیہ نے مولانا ہی کی زبانی سنی سنائی باتوں کودل میں گرہ کر رکھا تھا، اس نے مذہبی احکام کو اس طرح اپنایا تھا کہ وہ اس کی طبیعت، اس کا مزاج بن گئے تھے۔ وہ انہیں کے سانچے میں ڈھل گئی تھی۔ محسوس ہوتا کہ مذہب کی روح نے ذکیہ کی صورت میں جنم لیا ہے۔

    اس طرح کی بچی اور بیاہ دی گئی اظہر جیسے رند لامذہب سے۔ عزیزوں نے اصرار کیا تھا کھاتا پیتا گھر ہے، لڑکا کماتا ہے۔ پولس کا داروغہ ہے، خوش مزاج ہے، جانا بوجھا ہے، ذکیہ کو خوش رکھے گا۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر۔۔۔! اور مولانا پنجرے میں بند شیر کی طرح ٹہلنے لگے۔ ان کی نظریں اپنے غصہ کا شکار ڈھونڈ رہی تھیں۔ کوئی ایسی چیز جسے توڑ پھوڑ کر، جسے پھاڑ کر، جلا کر اپنے دل کا بخار نکال سکیں اور ان کی نظر ان چیزوں پر جا کر رکی جو اظہر نے اپنی زندگی سے مایوس ہونے پر ذکیہ کی یادگار کے طور پر ان کے پاس بھیج دی تھیں۔ کاٹھ کا صندوق، جہیزمیں دی ہوئی وظائف کی کتابیں اور جزدان میں لپٹا ہوا قرآن۔ جب سے یہ چیزیں آئی تھیں مولانا نے انہیں کھول کر نہ دیکھا تھا کہ ان میں کیا رکھا ہے۔

    وہ تیز قدم رکھتے ہوئے ان چیزوں کے قریب گئے اور انہوں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے قرآن اٹھا کر بستر پر رکھا۔ پھر انہوں نے اوراد و وظائف کی کتابیں اٹھا کر ایک ایک کو دیکھنا شروع کیا۔ ایک کتاب کے آخر میں چند صفحے سادے لگے تھے۔ ان پر ذکیہ کے ہاتھ کی تحریر دکھائی دی۔ معلوم ہوا کہ آنکھوں میں سوئیاں سی چبھنے لگیں۔ مولانا نے تکلیف سے آنکھیں بند کر لیں، لیکن ان کی سوکھی انگلیاں مڑے ہوئے کاغذ کے کونے اسی طرح درست کرتی رہیں جس طرح ماں سوتے ہوئے بچے کی زلفیں سنوارتی ہے اور خود ان کا جسم اس طرح ہلتا رہا جیسے وہ پالنے میں کسی کو جھولا جھلا رہے ہیں۔ پھر انہوں نے سینے میں کھٹکتی ایک سانس لے کر آنکھیں کھولیں اور وہ ذکیہ کی تحریریں پڑھنے لگے۔

    میرے نکاح کو آج تیسرا دن ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی کو جسمانی اذیت پہنچانے میں اپنے کو خوشی کیسے محسوس ہوتی ہے اور لوگ اس تقریب کو شادی کیوں کہتے ہیں؟

    میرے سرتاج نوکری پر گئے۔ مجھے معلوم نہ ہو سکا، انہیں کیا پسند ہے، کیا ناپسند۔ میں پہلے ہی دن سے برابر دعا کر رہی ہوں کہ خدا مجھے انہیں کی پسند کا بنا دے! خواہ اس میں مجھے کتنی ہی اذیت پہنچے۔

    لوگ ساس نندوں کو برا کہتے ہیں۔ میری ساس نندیں تو مجھ سے اس قدر محبت کرتی ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی وہ مجھ ہی سے لینا چاہتی ہیں۔

    ابا جان کو آج کل کھانا کون کھلاتا ہوگا؟ کلو شام ہی کو چلی جاتی ہوگی اور وہ کھاتے ہیں رات گئے۔ انہیں گرم روٹیاں کیسے ملتی ہوں گی؟ کچھ نہیں، انہیں چاہئے کہ وہ اپنا دوسرا نکاح کر لیں۔ بیٹی نہ ہوتو بیوی ضرور ہونا چاہئے!

    مولانا نے رک کر ایک لمبی سانس پھر لی۔ وہ تھوڑی دیر فضا میں گھورتے رہے۔ پھر انہوں نے ڈائری کے کئی ورق سرسری نظر ڈال کر پلٹ دیے۔ شروع شروع میں دو دو چار چار چار جملوں میں بات کہہ دی جاتی تھی۔ اب پورے پورے صفحے رنگے ملنے لگے۔ گویا ابتدا میں زندگی کے کنارے پر پیراکی کی مشق کی جاتی تھی۔ پیر نے والی دو چار ہاتھ مارتی اور تھک کر پلٹ آتی۔ مگر اب وہ زندگی کی گنگا میں بھرپور اتر گئی تھی۔ دھارے کے خلاف بہت دور تک پیرتی ہوئی جاتی مگر ہمت کے بازو شل نہ ہوتے۔ مولانا کی نظر دفعتاً ٹھٹکی۔ اس نے لکھا تھا،

    ’’رحیمن کو اور مجھے چچا جان تھانے پر پہنچا گئے۔ میرے سرتاج نے ہماری بالکل اسی طرح پذیرائی کی جس طرح کوئی امیر کسی بڑی دعوت میں پلاؤ قورمہ کھانے کے بعد کسی غریب عزیز کے ہاں سے ٹھنڈی پوریوں کا حصہ اتارتا ہے۔ واپس بھی نہیں کی جاتی ہیں، کھائی بھی نہیں جاتی ہیں بس کسی چھینکے پر ڈال دی جاتی ہیں کہ پڑی سوکھیں۔ عمو جان چند گھنٹے بعد چلے گئے۔ وہ بھلا بھتیجی کی سسرال میں کیسے ٹک سکتے تھے۔ ان کو میری خوشی سے زیادہ اپنے دیہات کے رواج کا خیال تھا۔ اب یہ جو چچا جان کو اسٹیشن بھیجنے گئے تو دس بجے رات تک نہ پلٹے۔ نہ جانے کون سا کام نکل آیا۔ رحیمن سفر کے تکان سے چور تھی۔ میں نے اسے کھلا پلا کر سلا دیا۔ مگر خود انگیٹھیوں پر پتیلیاں رکھے بیٹھی رہی۔ جب ساڑھے دس بجے اندر آئے تو مجھے پتیلیوں کے پاس اکیلے بیٹھے دیکھا مگر کچھ بولے نہیں۔ میں نے گرم گرم کھانا سامنے رکھا تو پوچھا، ’’تم نے کھایا؟‘‘ میں نے کہا، ’’میں آپ کے پہلے کیسے کھا لیتی؟‘‘ جواب میں انہوں نے عجیب بات کہی، میں خاک نہ سمجھی۔ وہ بولے، ’’اچھا، یہ رنگ ہیں بھئی۔ یہ رنگ!‘‘

    رحیمن دین ایمان کی باتوں سے بہت کم واقف ہے۔ آج مجھے اسے ٹوک کر کئی باتیں بتانا پڑیں۔۔۔ باہر کچھ شور سا ہو رہا تھا، وہ جھٹ باورچی خانے سے نکل دروازہ کھول کر جھانکنے لگی۔ میں نے کہا، ’’رحیمن باہر نہ جھانکو، جھانکنے تاکنے کو برا کہا گیا ہے۔‘‘ وہ بولی ’’بیٹا، تم نے تو آنکھیں ہوتے انہیں بند کر رکھا ہے۔ اب کیا میں بھی تمہاری جیسی ہو جاؤں، کچھ نہ دیکھوں۔‘‘ میں نے کہا، ’’بوا میری آنکھیں جو کچھ دیکھنے کے لئے بنی ہیں وہ میں سب دیکھتی ہوں۔ خود بنانے والے نے حکم دیا ہے ان چیزوں کو مت دیکھو جو دوسرا چھپانا چاہتا ہے۔ جھانکنے والا کبھی اچھی چیز نہیں دیکھتا۔ نیکی ڈنکے کی چوٹ کی جاتی ہے، بدی ہمیشہ اوٹ میں کی جاتی ہے۔ تم جھانک کر دیکھوگی تو کبھی خوش نہ ہوگی!‘‘

    رحیمن میری باتیں تو پی گئی اور اس نے اپنی مشک کا دہانہ کھول دیا، ’’بی بی، تم نہ جھانکو نہ تاکو، نہ دیکھو نہ سنو، نہ ٹوکو نہ بولو اور میاں ہیں کہ الٹ کر پوچھتے بھی نہیں!‘‘ مجھے رحیمن کا یہ طعنہ بہت برا لگا۔ مرد اگر ہر وقت بیوی ہی کا منہ دیکھے گا تو وہ دنیا میں کام کر چکا۔ میں ان کو اس طرح کا ’بےکار‘ آدمی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ ان کو دس کوس کے حلقے میں مجرموں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی، مقدموں، فوجدار یوں، چوریوں، ڈاکوؤں میں تفتیش کرنا پڑتی۔ بارہ گھنٹے، سولہ گھنٹے وردی پہنے، پیٹی کسے ڈیوٹی دینا پڑتی۔ بھلا ایسے میں وہ ہر وقت میرے پاس کہاں بیٹھے رہتے، اس لئے میں نے ذرا تیکھے پن سے کہا، ’’بوا، مجھے معلوم نہیں کہ دوسرے شوہر اپنی بیوی کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ میں تو جانتی ہوں کہ جیسا ایک میاں کو ہونا چاہئے ویسے ہی وہ بھی ہیں۔ میں نے اس کے پہلے کوئی بیاہ نہیں کیا کہ مجھے شوہر کے برتاؤ کے متعلق کوئی تجربہ ہو۔‘‘

    میں یہ بھول گئی تھی کہ رحیمن اس وقت تک چار نکاح کر چکی تھی اور اب چونڈا پکنے پر بھی پانچویں کی تاک میں تھی۔ میں نے سادہ دلی سے ایک حقیقت بیان کر دی تھی، لیکن ایسا معلوم ہوا کہ جیسے رحیمن کے مرچیں سی لگ گئیں۔ وہ تلملاکر بولی، ’’اے ہے بھولی بی بی! اتنا تو آپ بھی جانتی ہی ہوں گی کہ بیوی کے رہتے سہتے رنڈی نہیں رکھی جاتی، جوآپ کے میاں چھمی جان کو گلے کار ہار بنائے جگہ جگہ لئے پھرتے ہیں۔‘‘ نہ جانے وہ کیا سمجھتی تھی کہ چھمی جان کا نام لے کروہ مجھے آپے سے باہر کر دے گی، یامیں سوکن کے ذکر سے بدحواس ہو جاؤں گی، بے ہوش ہوکر گر پڑوں گی۔ اس لئے کہ اس نے یہ فقرہ کہہ کرمجھے اس طرح گھور کر دیکھا جیسے اس نے بڑا تیر مارا۔ میں سچ کہوں مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ میں نے کہا، ’’ایک تو سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کرنا چاہئے۔ صحیح وہی چیز ہے جو اپنی آنکھ سے دیکھی جائے۔ سو نہ تم نے دیکھا نہ میں۔۔۔‘‘

    وہ بھوچکی ہو کر میرا منہ دیکھنے لگی۔ میں نے کہا، ’’بوا اس میں تعجب کی کون سی بات ہے۔ خدا و رسول کا حکم بھی ہے کہ اگر کسی پر تہمت دھری جائے تو اس پر یقین نہ کرو۔ پھر میں کہتی ہوں اگر یہ سچ بھی ہے تو انہوں نے چھمی جان سے نکاح کر لیا ہوگا۔ اختیار ہوتے وہ گناہ کیوں کرنے لگے!‘‘ رحیمن سر ہلاتی باورچی خانہ میں چلی گئی۔ وہاں بیٹھ کر ماتھے پر ہاتھ مار کر بولی، ’’بیوی میں تم سے ہار گئی!‘‘ میں کچھ نہ سمجھی کہ میں نے اس میں ہار جیت والی بات کون سی کہی۔ میں نے وہی کہا جو مذہب کا حکم ہے۔ خیر، مجھے خوشی ہوئی کہ میں نے رحیمن کو آج کچھ دین و ایمان کی باتیں بتا دیں۔

    آج عجیب واقعہ ہوا۔ کوئی گیارہ بجے رات کو دو سپاہی انہیں سنبھالے ہوئے ڈیوڑھی پر لائے۔ رحیمن کو آواز دی پردہ کرواؤ، داروغہ جی کو اندر لائیں۔ دل دھڑکنے لگا۔ یا اللہ کیا بات ہوئی جو آج سپاہی ان کو اندر لا رہے ہیں، کہیں چوٹ کھائی، کسی بیماری سے بےہوش ہیں، کیا بات ہے۔ کس سے پچھواؤں کیا کروں۔ رحیمن ’’ٹانگ پسارے‘‘ خراٹے لے رہی تھی۔ اس کے سر پر کوئی ڈھول بھی پیٹتا تو اس کو خبر نہ ہوتی۔ مجبوراً خود اٹھی، برقعہ اوڑھ کر خود کنڈی کھول دی۔ وہ لوگ جب انہیں پلنگ پر لٹا کر چلے گئے تو میں نے آکر دیکھا۔ سارے کپڑے پہنے بے ہوش سے پڑے ہیں۔ یہ حالت دیکھتے ہی کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ میں نے چاہا جھک کر ان کی اچکن کے بٹن کھول کر اسے اتار دوں تو ان کے کھلے منہ سے ایسی بو آئی کہ سر چکرانے لگا۔ میں نے سانس روک کر اچکن اتاری اور جوتا موزہ اتارا، پنڈا چھو کر دیکھا گرم نہ تھا، دل کی حرکت بھی ٹھیک تھی، ہاں نبض البتہ کچھ تیز چل رہی تھی۔

    کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کون سی بیماری ہے۔ پھر خود ہی خیال آیا کہ اگر کوئی خدشے خطرے کی بات ہوتی تو سپاہی ضرور ڈاکٹر حکیم کو بلاتے۔ پھر بھی میں رحل پر سے اپنا قرآن اٹھا لائی اور میں نے اس کے پاک ورقوں کی انہیں ہوا دی۔ اور تحفۃ العوام میں جتنی دعائیں بیماریوں کی لکھی ہیں، وہ سب پڑھ کر ان پر دم کر ڈالیں۔ لیکن بدبو سے میرا سر پھٹنے لگا۔ میں نے سوچا ان بیچارے کی کیا حالت ہوگی جو اس وقت بیمار بھی ہیں۔ اس لئے میں نے ان کے سر میں بہت سا ریڈی کلون لگا دیا اور ان کے کپڑوں میں، تکیوں میں، چادروں میں پوری شیشی عطر پوت ڈالا۔ رات بھر میں جاگتی رہی۔ آنکھوں سے نیند اڑ گئی تھی۔ نہ جانے کیسے کیسے برے خیالات آتے تھے۔ بار بار دل کو ڈھارس بندھاتی رہی کہ اللہ موجود ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں ہل سکتا۔ وہ جو کچھ کرےگا بہتر ہی ہوگا۔

    صبح کو جب وہ اٹھے تو بڑی دیر تک انگڑائی لے لے کر جسم توڑتے رہے۔ میں نے چاہا ہاتھ پاؤں دبا دوں، کسل دور ہو جائے۔ مگر انہوں نے ہاتھ رکھتے ہی اسے الگ کر کے کہا، ’’کیا درد اور بڑھانا چاہتی ہو؟‘‘ میں بھوچکا سی ہو گئی۔ میری ساس نے ہر شام پنڈلیاں دبواتے وقت کہا، ’’جیتی رہو بیٹی، جہاں تم ہاتھ لگاتی ہو جسم کا درد کافور ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ اور جٹھانیاں، نندیں سب ہی تو میرے ہاتھ کی نرمی، سبکی اور صفائی کی تعریفیں کرتی ہیں۔ مگر ان سب کی پسند بیکار۔ جس کی خدمت کے لئے یہ ہاتھ بنے ہیں ان کو تو نہیں بھاتے۔ ان کے جسم کا درد توان سے بڑھتا ہے! مگر قبل اس کے کہ میں کچھ کہہ سکوں وہ اٹھ کر باہر چل دیے۔

    جاتے وقت جب وہ رحیمن کے پاس سے گزرے تو اس نے ان کی طرف گھور کر کہا، ’’دولہا میاں شرم تو نہیں آتی!‘‘ اور انہوں نے اس کی بدتمیزی پر نہ اسے ڈانٹا، نہ پھٹکارا بلکہ سر اور نہوڑا لیا۔ میرا جی چاہا میں رحیمن سے پوچھوں کہ یہ کاہے کی شرم دلائی جا رہی ہے۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے! خود تو رات بھر پڑی سوتی رہیں۔ ان کے دشمنوں کی کیسی تو حالت تھی، کیسے بے سدھ پڑے رہے، نہ دین کی خبر، نہ دنیا کی۔ اور اس وقت اپنی بے پروائی پر شرمانے کی جگہ ان کو شرم دلانے لگیں۔ لیکن فوراً خیال آیا، ہوگا ان دونوں کے درمیان کوئی معاملہ، نہیں تو وہ یوں چپ سادھے کیوں چلے جاتے۔ اس لئے میں نے زبان روک لی۔ مجھے کسی کے بیچ میں بولنے کا کیا حق تھا؟

    آج دیوالی کی رات ہے۔ شام سے چاروں طرف مکانوں پر دیے جل رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تھانے پر بھی چراغاں ہے۔ مردانے میں بہت سے لوگ آئے ہیں۔ سنتی ہوں کہ آس پاس کے بڑے بڑے زمیندار بھی اکٹھا ہیں۔ آج بڑے کھیل تماشے ہوں گے۔

    مجھے صبح ہی حکم ملا تھا۔ آج دعوت کے کھانے پکیں گے۔ میں نے رحیمن کے ساتھ مل کر کوئی بیسیوں طرح کی چیزیں تیار کر دی ہیں۔ مرغ مسلم، شامی کباب، گولے، سیخ، پلاؤ، زردہ، قورمہ، قلیا، مچھلی کا قورمہ، مچھلی کے کباب، جھلی ہوئی روٹیاں، پوریاں، پراٹھے، باقر خانی، بادام کا حلوہ، پستے کی لوزیں، شاہی ٹکڑے، شکرقند کی کھیر، ترکاریوں میں آلو، گوبھی، بھنڈی، شلجم، ٹماٹر، پلول جو اس دیہات میں مل سکا ہے یا شہر سے آسکا ہے، سب کچھ پکا ڈالا ہے۔ کیا معلوم کہ ان کے دوستوں کو کیا پسند ہے۔ اب فکر ہے تو یہی کہ ان تمام نعمتوں میں ان کوبھی کوئی چیز پسند آتی ہے یا نہیں۔ ابا جان کو میری پکائی ہوئی دال روٹی میں بھی مزہ آتا تھا۔ خدا محنت سوارت کرے اور وہ بھی ایک آدھ چیزیں چٹخارے لے کر کھائیں!

    میں یہ لکھ رہی رہی تھی کہ رحیمن چیخی۔ میں دوڑی کہ کیا آفت آئی۔ وہ صحن میں کھڑی کوس رہی تھی، ’’موؤں کا ہیاؤ تو دیکھو، پولس والوں کا تھانہ ہے، سیکڑوں آدمی باہر کا بھی موجود ہے، رات کے ابھی گیارہ بجے ہیں اور ابھی سے لگے ڈھیلے پھینکنے۔‘‘ میں نے کہا، ’’کون ڈھیلا پھینک رہا ہے؟‘‘ وہ بولی، ’’چور!‘‘

    مجھے ہنسی آ گئی۔ اس بڑھیا کی بھی کیسی مت ماری گئی ہے۔ بھلا ہمارے ہاں تھانے میں چوروں کا کیا گزر؟ مانا کہ میں جس مکان میں رہتی ہوں اس کے پیچھے کھیت ہی کھیت ہیں اور ادھر کی دیوار بھی کچی اور نیچی ہے مگر سب جانتے ہیں کہ یہ مکان تھانے ہی کا حصہ ہے اور وہاں چور پکڑنے والے رہتے ہیں، چوری کرانے والے نہیں رہتے۔ بھلا کیسے کسی چور کی ہمت پڑ سکتی ہے کہ ڈھیلے پھینکے یا ہمارے ہاں سیند لگائے۔ مگر رحیمن کا اصرار ہے کہ ڈھیلے چوروں ہی نے پھینکے ہیں۔

    اس نے کہا، ’’ارے بی بی، تم کیا جانو، دیوالی میں چور بھی اپنے اپنے دیوتا جگاتے ہیں۔ اگر آج کی رات وہ چوری کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر سال بھر جس جس کو چاہیں موس لیں، کوئی ان کا بال بانکا نہیں کر سکتا۔‘‘ مجھے یقین نہیں آتا کہ چور بھی دیوی دیوتا کو مانتا ہوگا۔ اگر اسے ان پر یقین ہوتا تو وہ چوری ہی کیوں کرتا۔ ارے جس نے پیدا کیا ہے وہ تو ہر جگہ ہے اور سب کچھ دیکھتا ہے۔ پھر اس سے کوئی چھپ کر کہا ں چوری کرےگا اور چوری کر کے جائےگا کہاں؟ کسی اور نے کوئی جگہ بنا رکھی ہے جہاں اسے پناہ ملےگی؟ میں جب ان باتوں کو سوچتی ہوں تو مجھے ہنسی آ جاتی ہے۔ دنیا کے چونڈے پک گئے مگر اس میں رہنے بسنے والے اب بھی بچے ہی ہیں اور بچوں ہی جیسی حرکتیں کرتے ہیں۔

    ان کی بھی عجیب باتیں ہوتی ہیں۔ جیسے میں ان سے بھی اپنے روپے، پیسے گہنے پاتے عزیز رکھتی ہوں۔ جو کچھ ہے وہ انہیں کا تو ہے۔ میرے بکس میں رکھے ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ جب میں ان کی، میری جان ان کی، میرا رویاں رویاں ان کا تو پھر میری چیزیں میری کیسے رہ سکتی ہیں۔ سب کچھ ان کا ہے۔ لیکن بعض اوقات وہ ایسا تکلف برتتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انہیں شک ہے کہ میں یا میری چیزیں بالکل ان کی نہیں ہیں۔ رات ہی کی باتیں دیکھئے۔ ایک مرتبہ تو سو روپے خود مانگ کر لے گئے، دوسری بار گہنوں کا صندوقچہ مجھ سے چھپا کر جو لے جانے لگے تو ایسے گھبرائے کہ گر پڑے۔ مجھے اب بھی ان کی حرکت پر ہنسی آتی ہے۔

    ہوا یہ کہ رات کوئی گیارہ بجے جب سب لوگ کھانا وانا کھا چکے تو وہ باہر ہی اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے رہے۔ میں نے عشا نوافل کے ساتھ پڑھی اور سو رہی۔ کوئی تین بجے ہوں گے کہ وہ دبے پاؤں اندر آئے۔ مگر میں آہٹ سے جاگ گئی۔ ان کے چہرے پر عجیب گھبراہٹ سی تھی۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے۔ کوئی جواب نہ دیا بلکہ میرے پلنگ کی پٹی پر آکر بیٹھ گئے۔ میں اٹھنے لگی تو بولے، ’’نہیں، تم لیٹی رہو۔‘‘ پھر خود ہی میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولے، ’’تمہارے پاس کچھ روپے ہیں؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہیں کیوں نہیں۔‘‘ بولے، ’’کتنے؟‘‘ میں نے کہا، ’’پورے ایک سو!‘‘ کہنے لگے، ’’کہاں ہیں؟‘‘ میں نے کہا، ’’بکس میں ہیں۔ نکال دوں؟‘‘ بولے، ’’نہیں، کنجی دے دو، میں نکال لوں گا۔‘‘

    میں نے سرہانے سے کنجی اٹھا کر دے دی۔ انہوں نے بکس کھولا۔ روپے نکالے اور کنجی لئے ہوئے چلے گئے۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ مجھے اس وقت کیسی خوشی ہوئی۔ ابا جان نے جو ہاتھ روک کر خرچ کرنے کا سلیقہ سکھایا تھا اور کچھ نہ کچھ بچا کر رکھ چھوڑنے کی تاکید کی تھی وہ کیسے موقع پر کام آئی۔ میں نے تھانے پر آنے کے بعد گھر کے خرچ سے دس دس پندرہ پندرہ روپیہ مہینہ کر کے جو بچایا تھا، وہ آج ان کے کام آیا۔ ان کو دے کر انہیں خوش کیا، اس سے بہتر میری اور کیا خوش نصیبی ہو سکتی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا، صبح اٹھتے ہی دو رکعت نماز شکر ادا کرنا طے کیا اور میں سو رہی۔

    ایک گھنٹہ بعد پھر آہٹ سے آنکھ کھل گئی۔ مرغ بول رہے تھے، جھٹ پٹے سے پہلے کا دھندلکا تھا، ان کا چہرہ اچھی طرح سے دکھائی نہ دیتا تھا، مجھ پربھی نیندکی کسل تھی، بولا نہ گیا، میں چپکی لیٹی رہی۔ وہ آہستہ آہستہ قدم رکھتے ہوئے اس کمرے کی طرف گئے جہاں گہنوں کا صندوقچہ تھا۔ اور اسے اٹھا کر میرے پلنگ کی طرف پلٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے چلے۔ مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئی۔ ہنسی کی بات ہی تھی۔ چھ فٹ کا مردوا، جب اپنے ہی گھر میں بلی کی چال چلے اور اپنی ہی چیز لے جانے میں اس طرح کی حرکت کرے کہ معلوم ہو کہ کسی کی چوری کر رہا ہے تو ہنسی آئے یا نہ آئے لیکن میری ہنسی بے موقع ثابت ہوئی۔

    وہ ایسا گھبرائے کہ سامنے ہی رکھی ہوئی میز انہیں نہ دکھائی دی۔ وہ اس کے پائے سے الجھے اور صندوقچہ سمیت فرش پرگر پڑے۔ میرا دل دھک سے ہو گیا۔ میری بے ساختہ ہنسی سے ان کو چوٹ لگی۔ لیکن جب تک میں یہ کہتی پلنگ سے اٹھوں اٹھوں کہ کہیں چوٹ تو نہیں آئی، وہ جلدی سے صندوقچہ اٹھا کر باہر بھاگ گئے۔ میں بڑی دیر تک ان کے اس بھاگنے پر ہنستی رہی۔ اس بھاگنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا کوئی شخص اپنی ہی چیز چرا سکتا ہے؟

    آج مجھے یقین ہو گیا کہ رحیمن جوان کو طرح طرح سے بدنام کرتی ہے وہ سراسر جھوٹ اور غلط ہے۔ وہ واقعی بڑے سیدھے سادے شریف انسان ہیں، کوئی بدطینت آدمی اپنے کئے پر پچھتاتا نہیں۔ پھر کوئی کتناہی بڑا قصور کرے اگر اس نے توبہ کر لی تو پھر تو وہ اتنا ہی گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے جتنا کہ دودھ پیتا گود کا بچہ۔

    آج ہی کی بات کو لے لیجئے۔ صبح جو وہ گہنوں کا صندوقچہ لے کر بھاگے تو دس بجے دن تک گھرمیں نہ آئے۔ باہر کی آوازوں سے معلوم ہوتا تھا جیسے رات کے ساتھی ایک ایک کرکے چلے گئے مگر وہ پھر بھی اندر نہ آئے۔ میں نے سمجھا کسی کام میں ہوں گے۔ رحیمن سے کہا، ’’پچھوا لو، ناشتہ باہر ہی بھیج دیا جائے یا اندر آکر کریں گے۔‘‘ مگر وہ تو سیدھی بات کرنا جانتی ہی نہیں۔ اپنے مالک کو بھی ڈانٹنے اور نصیحت کرنے کا اپنے کو حقدار سمجھتی ہے۔ بڑبڑاتی ہوئی اٹھی اور ڈیوڑھی پر جا کر اس نے باہر جھانک کر دیکھا۔ شاید وہ اکیلے ہی تھے۔ اس نے وہیں سے کھڑے کھڑے ڈانٹا، ’’واہ دولہ میاں واہ! آپ یہاں اکیلے بیٹھے مکھی مار رہے ہیں اور وہاں بٹیا ناشتہ لئے بیٹھی ہیں۔‘‘

    مجھے رحیمن کا یہ اندازہ بہت برا لگا۔ وہ نوکرانی تھی اور وہ اس کے آقا۔ میں بیوی تھی اور وہ میرے سرتاج۔ ہمارا تو کام ہی تھا کہ ہم ان کی خوشی دیکھیں۔ ان کی فرصت کا انتظار کریں۔ یہی ہماری عین راحت ہے، یہی ہماری جنت! مگر قبل اس کے کہ میں رحیمن کو ٹوکوں وہ خود ہی سر جھکائے اندر چلے آئے۔ ان کی چال اتنی سست تھی کہ جان پڑتا تھا کوسوں کا چکر لگا کر آ رہے ہیں۔ میں نے لوٹے، منجن، صابون، بیسن کی طرف اشارہ کیا، ’’ذرا منہ ہاتھ دھو ڈالئے۔ رات بھر جاگے ہیں، کچھ کھا کر آرام کیجئے۔‘‘

    مگر وہ کچھ بولے نہیں، مجھے بڑی حسرت سے دیکھا اور اپنے پلنگ پر جا کر گر پڑے۔ میں گھبرا کر جلدی سے پاس پہنچی۔ انہوں نے کروٹ لے کر منہ پھیر لیا۔ میرا کلیجہ منہ کو آ گیا۔ ہو نہ ہو، مجھ سے کسی بات پر ناراض ہیں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پنڈلی دبانے کے لئے ہاتھ بڑھائے۔ انہوں نے ٹانگیں کھینچ لیں اور مجھے زبردستی پلنگ پر بٹھا کر میری گود میں سر رکھ کر بولے، ’’میں تمہارا قصوروار ہوں، میں نے تمہارے سارے گہنے کھو دیے! مجھے سچے دل سے معاف کر دو!‘‘

    مجھے ہنسی آ گئی۔ میرا مرد بھی کتنا بھولا ہے۔ جیسے وہ گہنے میرے ہی تو تھے! انہوں نے گھبرا کر مجھے دیکھا۔ میں نے زبردستی متین بن کر کہا، ’’وہ گہنے پہنتی میں ضرور تھی، مگر تھے وہ آپ ہی کے! گر آپ نے انہیں کسی کو دے دیا تو آپ کی خوشی۔ میں آپ کے سرعزیز کی قسم کھاتی ہوں میں اس حالت میں بھی اتنی ہی خوش ہوں جتنی کہ پہلے تھی۔‘‘

    میرے اس کہنے پر بھی ان کے چہرے پر افسردگی کے آثار موجود پائے بلکہ اب ان میں شرمندگی کی جھلک بھی تھی۔ میں سوچنے لگی کہ میں کون سی بات ایسی کہوں یا کروں جس سے ان کے چہرے پررنج کی جگہ خوشی کی لہر دوڑنے لگی۔ انہوں نے جو معافی کی لفظ استعمال کی تھی، اس نے مجھے ایک ایسی بات یاد دلا دی جس کی ہر مرد کو اپنی بیوی کی طرف سے فکر ہوتی ہے اور جن کے متعلق میں پہلے ہی دن سے دل میں ٹھانے بیٹھی تھی کہ میں ان سے ضرور کہوں گی۔ آج تک کہنے کا موقع ہی نہ ملا تھا۔ آج ان کو اس طرح اپنی گود میں سر رکھے دیکھ کر وہ بات یاد آ گئی۔ میں نے ان کے سر کے بالوں سے کھیلتے ہوئے کہا، ’’میں نے سچے دل سے اپنا مہر آپ کو معاف کیا۔‘‘

    وہ اس طرح اچھل پڑے جیسے میری بات ان کے دل پر گھونسا بن کر لگی۔ وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے مجھے دیکھ کر بولے، ’’ذکو، مولانا جو تمہیں کہتے ہیں اس کا مجھے بھی آج یقین ہو گیا۔ تم واقعی جنتی حور ہو!‘‘ اور وہ میری گود میں منہ چھپا کر سسکنے لگے۔

    رحیمن کہتی ہے تم نے اپنے میاں پر جادو کر دیا ہے اور چھمی جان نے تم پر۔ پہلے الزام کی وجہ وہ یہ بتاتی ہے کہ دیوالی کے دن والی گفتگو کے بعد ہی چھمی جان نکال دی گئیں۔ باہرکا بیٹھنا، آدھی آدھی رات تک گھومنا ترک کر دیا گیا۔ اب جب بھی سرکاری کاموں سے فرصت ملتی ہے وہ میرے ہی پاس بیٹھے رہتے ہیں اور مجھے اس طرح گھورتے ہیں کہ مجھے ہنسی آ جاتی ہے، کبھی میں شرم سے پسینے پسینے ہو جاتی ہوں۔ سچ مچ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ مجھے آنکھوں کے ذریعہ کھا جانا چاہتے ہیں، سینے میں رکھ لینا چاہتے ہیں۔ خود کہتے ہیں میں اندھا تھا اب آنکھیں کھلی ہیں۔ تمہیں نے ان نینوں میں نور ڈالا ہے، تمہیں سے آنکھیں لڑاتا ہوں، تمہارے ہی حسن سے آنکھیں سینکتا ہوں، تمہیں کو دیکھ کر آنکھوں میں روشنی بڑھتی ہے، جی ہی نہیں بھرتا۔۔۔ نہ جانے اور کیا کیا کہتے ہیں۔ مجھ کوان کی چلتی ہوئی زبان روکنے کے لئے ان کے لبوں پر ہاتھ رکھ دینا پڑتا ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔ اللہ سب کو ایسا ہی چاہنے والا میاں دے۔

    دوسرے الزام کی وجہ رحیمن یہ بتاتی ہے کہ چھمی جان کے جانے کے ساتویں دن میرے ہاں اسقاط ہوا اوراس وقت سے جو طبیعت بگڑی ہے، تو سنبھلنے ہی کو نہیں آئی۔ گاؤں کی چمارن نے خوب خوب پیٹ ملا، شہر سے دائی بھی آئی اور ہفتوں رہ کر اور اپنی ساری ترکیبیں کر کے ہار کر چلی گئی۔ حکیم، وید، ڈاکٹر سب ہی آگئے مگر نہ کھانسی جاتی ہے، نہ حرارت۔ کل ڈاکٹرنی آئی تھی۔ کہتی تھی تم کو نسوانی خرابی سے دق ہو گئی ہے۔ بھوالی جانا پڑےگا۔ میں نے کہہ دیا میں نہ جاؤں گی۔ مجھے یقین ہے موت مقررہ وقت پر آئےگی، نہ ایک لمحہ بعد نہ ایک لمحہ پہلے۔ پھر میں اس کے قدم کیوں چھوڑوں جس کی وجہ سے زندگی جنت ہے۔ مرنے کے بعد وہ ملنے کی نہیں۔ میری جیسی گنہگاروں کا وہاں کیا گزر۔ پھر میں آدھی چھوڑ کر ساری کے پیچھے کیوں دوڑوں؟

    ہاں، ایک سوہان روح ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ موئی بیماری ایک سے دوسرے کو ہو جاتی ہے۔ میں لاکھ چاہتی ہوں وہ مجھ سے الگ رہیں۔ اپنے کھانے کے برتن، گلاس، کٹورا، چائے کی پیالی، بستر، تولیہ ہرچیز الگ کر لی ہے۔ رحیمن پر تاکید رکھتی ہوں کہ میری استعمال کی ہوئی چیزیں ان کے پاس نہ پہنچنے پائیں۔ لیکن وہ ہیں کہ ہروقت لئے ہی رہتے ہیں۔ میری ہر چیز اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے مجھے کوئی بیماری ہی نہیں۔ اندر آئیں گے تو جھٹ میرے پلنگ پر بیٹھ جائیں گے۔ رات کو سوئیں گے تومجھے گودی میں لے کر سوئیں گے۔ کھانستے کھانستے اٹھ جاؤں گی تو برابر پیٹھ سہلائیں گے، تولیہ سے منہ پونچھتے رہیں گے اور کھانسی رکے گی تو منہ چوم لیں گے۔ بس خدا سے ہر وقت دعا ہے کہ وہ ہر طرح کی بیماری، آزاری سے محفوظ رہیں۔ اے میرے اللہ اپنی گنہگار بندی کی اتنی سی بات سن لے۔

    مولانا کے آنسوؤں نے ان کا پڑھنا بند کر دیا۔ اور اب پڑھنا ہی کیا تھا۔ مصنف نے کتاب کی آخری سطریں لکھ دی تھیں۔ اور آج اظہر نے مر کر تمت بالخیر کا فقرہ بھی بڑھا دیا تھا۔۔۔! ساحل پر کھیلنے والے دونوں پیراک آج دریا پار کر چکے تھے! زندگی کی آنکھوں سے گرے ہوئے آنسوؤں کے دو قطرے سر چشمے میں جا کر مل گئے تھے، اور ذکو کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعا کیوں قبول نہ ہوئی، اس کا مولانا کے پاس کوئی جواب نہ تھا اور مولانا کو ایسا محسوس ہوا جیسے ذکو اپنے دل نشیں انداز میں ان سے کہہ رہی ہے، ’’ابا جان! ابا جان، ملاقات کی بھوکی روح اپنے ہمدم کو پاس بلا لینے میں کامیاب ہوئی۔ ہم جدائی کے زخم کو ناسور میں بدلنا نہ چاہتے تھے۔ ہماری جنت ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہنے میں ہے۔۔۔ اور ابا جان جسے میں اچھا سمجھتی تھی اسے آپ برا سمجھنے والے کون؟ اور جسے آپ نے گناہ کرتے نہیں دیکھا اس کے گناہ گار ہونے کا آپ کو یقین کیسے؟

    اور مولانا اجتبیٰ کو خیال آیا، اظہر کی لاش مسجد کے سامنے اب بھی رکھی ہے اور لوگ منتظر کھڑے ہیں کہ امام آئے تو نماز پڑھی جائے اور وہ لپکتے، ہانپتے، سسکتے گھر سے نکلے اور صفوں کے آگے کھڑے ہو کر انہوں نے ہاتھ اٹھا کر گواہی دی،

    ’’سب کے بخشنے والے! ہم اس میت کے بارے میں سوائے نیکی اور بھلائی کے کچھ نہیں جانتے۔‘‘

    مأخذ:

    علی عباس حسینی کی کہانیاں (Pg. 544)

      • ناشر: نند کشور وکرم
      • سن اشاعت: 2015

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے