Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نوز پیس

توصیف بریلوی

نوز پیس

توصیف بریلوی

MORE BYتوصیف بریلوی

    ارمان نے جب آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھاتو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کی چمکدار، بڑی اور پر اثر آنکھیں تنی ہوئی ابروؤں کے نیچے روشن چراغوں کی طرح دکھائی دے رہی تھیں۔ جن میں وہ کچھ دیر کے لیے کھو گیا تھا۔ صرف آنکھیں ہی تو تھیں جنہیں ارمان دیکھ سکتا تھا کیوں کہ اس لڑکی نے خود کو برقع میں جو چھپا رکھا تھا۔ اس کی گول مٹول سی ہیئت ارمان کو بھا گئی۔ جب وہ قریب سے گزری تو خوشبو کا ہلکا سا جھونکا ارمان کے وجود میں اترتا چلا گیا۔ اس کے دل میں اس لڑکی کا نام جاننے، اس سے ملنے اور باتیں کرنے کی شدید خواہش پیدا ہونے لگی۔ لیکن کرے بھی تو کیا۔۔۔ وہ جا چکی تھی۔ ارمان نے نیا نیا ہی داخلہ لیا تھااس لیے دو چار لڑکوں کے علاوہ کسی سے واقفیت بھی نہیں تھی۔

    ایک دن ارمان نے اس لڑکی کا نام معلوم کرکے اسے مخاطب کیا۔۔۔ ”مونا۔۔۔!“ لیکن اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ تب ارمان اس کے برابر میں چلنے لگااور پھر پکارا۔۔۔ ”مونا۔۔۔!“

    میرا نام ”مونا“ نہیں ”مؤنّا“ (معنّا) ہے۔۔۔ کیا بات ہے؟ اس کا لہجہ روکھا تھا۔

    ارمان نے اپنی دھڑکنوں اور زبان پر قابو پاتے ہوئے کسی طرح اپنا مدعا بیان کیا۔ ”لیکن میں آپ سے دوستی نہیں کرنا چاہتی۔“ اس بار اس کا لہجہ تلخ تھا اور وہ تیز قدموں سے بدستور چلتی رہی۔

    ”سنو تو مونا۔۔۔!“

    تبھی اس نے ارمان کو گھور کر دیکھا۔

    اوہ۔۔۔ سوری۔۔۔ ”مؤنّا (معنّا)!“ ارمان نے معذرت کی۔ مؤنّا (معنّا) آگے بڑھ گئی اور ارمان اس کو تب تک دیکھتا رہا جب تک کہ وہ دکھائی دی۔

    دن یوں ہی گزرتے رہے۔ پھر ایک دن مؤنّا اپنی سہیلی کے ساتھ اس کے شعبہ کے فنکشن میں گئی اور اتفاق سے ارمان بھی وہاں کسی کے ساتھ پہنچ گیااور دونوں کی ملاقات ہوئی۔ جس میں مؤنّا نے اس دن کے اپنے سخت رویے کے لیے معافی تو نہیں مانگی البتہ ازالے کے طور پر دوستی کر لی۔ لائبریری اور شعبے میں جب بھی دونوں کا آمنا سامنا ہوتا تو سلام دعا ہو جاتا لیکن احتیاطاً دونوں بات نہیں کرتے۔ کئی دن گزرنے کے بعد بھی جب مؤنّا نے کوئی سدھ ہی نہیں لی تب ایک روز ارمان نے لائبریری میں پڑھ رہی مؤناّکی میز پر کاغذکا پرزہ رکھا اور چلا گیا۔ کچھ دیر بعد مؤنّا لائبریری کے پاس والے پارک میں پہنچی جہاں ارمان پہلے ہی بے چینی سے منتظر تھا۔ اس نے مؤنّا کے یہ پوچھنے سے پہلے ہی کہ”ہمیں یہاں کیوں بلایا ہے“ خود ہی شکایت شروع کر دی۔

    ”اب ہم دوست ہیں پھر بھی تم نہیں ملتی ہو، یہ کیا طریقہ ہے؟ ایسے دوستی کی جاتی ہے؟“

    ”میں نہیں مل سکتی۔۔۔ مجھے پسند نہیں۔ بلا وجہ۔۔۔“

    ”اوہ شِٹ۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے آؤ کچھ دیر یہاں بیٹھتے ہیں۔ ارمان نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا لیکن وہ کھڑی ہی رہی۔ اگر تمہیں یہاں ملنا ٹھیک نہیں لگتا تو باہر کسی ریستوراں میں ملوگی۔۔۔؟“

    ”نہیں۔۔۔ یہیں ٹھیک ہے۔ مؤنّا نے آہستہ سے کہا۔“

    ”برا نہ مانو تو میں تمہیں ”مونا“ کہہ سکتا ہوں؟“

    ”مؤنّا میں کیا خرابی ہے؟سوال کے بدلے سوال سن کر ارمان ہڑبڑا گیا۔“

    ”ٹھیک ہے۔“ مونا نے ہامی بھری اورارمان کو ایسالگا کہ وہ نقاب کے اندر مسکرائی بھی۔

    ”کیا میں تمہارا چہرہ۔۔۔“ ارمان اتنا ہی کہہ سکا پھر مونا کی آنکھیں دیکھ کر خاموش ہو گیا۔

    ”نہیں۔۔۔ میں اپنا چہرہ نہیں کھولتی۔“ مونا نے بڑے اعتماد سے کہا۔

    اس پر ارمان نے اپنی منطق پیش کی کہ بہت سی لڑکیاں برقع پہن کر بھی چہرہ نہیں ڈھکتیں۔۔۔

    ”ہاں۔۔۔ لیکن اس سے برقع پہننے کا کیا فائدہ۔ ایسا کرنا مجھے تو ہرگز پسندنہیں اس لیے Nose Piece لگاتی ہوں“ مونا نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

    ”اوکے۔ اوکے۔ اپنے موبائل فون میں ہی اپنی تصویر دکھا دو۔“ ارمان ملتجی ہوا۔

    ”نہیں۔۔۔ بالکل نہیں۔“

    ”اچھا!تو اپناIdentity Card دکھا دو۔۔۔“

    ”ارمان۔۔۔! ضد نہ کرو۔۔۔“ ، اس بار اس کا لہجہ نرم تھا شاید اسی لیے ارمان مان بھی گیا۔

    ”ٹھیک ہے مت دکھاؤ۔۔۔ لیکن یہ Nose Piece کیا ہے؟“ ارمان نے سوال کرتے ہوئے مونا کی طرف دیکھا۔

    ”برقع کے علاوہ چہرے کو ڈھکنے والا کپڑا۔۔۔“ مونا نے جلدی سے کہا۔

    ”چہرے کو ڈھکنے والا کپڑا۔۔۔؟ تو اسے Face Piece کیوں نہیں کہتے؟“

    ”اف ف ف ف۔۔۔!اب مجھے جانا چاہیے۔“ مونا نے ادھر ادھر دیکھا۔

    ”ہاں ٹھیک ہے، پہلے میرے سوال کا جواب تو دو۔۔۔“ ارمان نے اسے روکنا چاہا۔

    ”پھر کبھی۔۔۔ فی الحال میں جاتی ہوں۔ کسی نے دیکھ لیا تو مفت میں مشہور ہو جاؤں گی۔“

    وہ چلی گئی اور ارمان حسرت سے اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ اس کے لیے یہی بڑی بات تھی کہ مونا اب اس سے کم از کم بات کرنے لگی تھی۔ اس ادھوری ملاقات کے بعد وہ دوبارہ ملاقات کے لیے بے چین رہنے لگا۔ چوں کہ مونا نے سب کے سامنے بات کرنے سے منع کیا تھا اس لیے ملاقات کی کوئی صورت نہیں نکل رہی تھی اورخود کو صابر ثابت کرنے کے لیے فون نمبر اب تک طلب نہیں کیا تھا۔ یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں منع کر دیا تو۔۔۔ اچھا نہیں لگے گا۔ اس نے بڑی مشکل سے مونا کی دوستی حاصل کی تھی وہ ایساکوئی بھی کام نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے مونا کو تکلیف پہنچے۔

    جب ارمان کافی دن بعد مونا سے ملا تو اتنے دن نہ ملنے کا شکوہ کیا۔ مونا نے سنجیدہ نظروں سے ارمان کی طرف دیکھا اور ٹھندی آہ بھری۔ کچھ دیر بعد جب شکوے شکایتیں دور ہو گئیں تو ارمان نے پھر وہی Nose Piece والا موضوع چھیڑدیا۔ ”محترمہ۔۔۔! اسےFace Piece کیوں نہیں کہتے۔۔۔؟“

    ”حد ہے۔۔۔ آپ ابھی بھی اسی بات کو لیے بیٹھے ہیں؟ آپ کو کیا کرنا ہے؟ مجھے نہیں پتا ہے کہ Nose Piece کیوں کہتے ہیں اور Face Piece کیوں نہیں کہتے۔“ مونانے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔

    ”نقاب، ڈھاٹا اور حجاب یہ نام تو میں نے سنے تھے، یہ نوز پیس زبردستی گڑھ لیا آپ لوگوں نے۔“

    ”آپ نے جتنے بھی نام ابھی گنوائے ہیں جناب، ان سب میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے۔ شاید اسے نوز پیس اس لیے کہتے ہیں کیوں کہ یہ ناک کو ڈھک لیتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ لفظ نیا ہی ہے۔ میں نے ابھی کچھ سال پہلے ہی سے سنا ہے۔ ہم م م م۔۔۔ شاید دس سال پہلے۔“ مونا نے وضاحت کی۔

    ”کیا تم اپنا نوز پیس کھول کر مجھے دکھاؤگی۔۔۔؟ آخر میں بھی تو دیکھوں کیا فرق ہوتا ہے اس میں اور۔۔۔“ ارمان نے سنجیدگی سے کہا۔

    ”ارمان۔۔۔! میں اپنا چہرہ نہیں دکھانے والی“ ، مونا ہنسی اور چلی گئی۔

    ارمان اور مونا کبھی کبھار ملتے لیکن ارمان کی امید بر نہیں آ رہی تھی۔ وہ تو مونا کے قریب بیٹھ کر، اس کے گورے اور خوبصورت ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس سے محبت کی باتیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اس سے رومانی باتیں کر کے ارمان اسے ناراض بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ملاقاتیں بڑھنے کے ساتھ ہی ارمان کی ہمت بھی بڑھی۔ اس نے مونا سے اس کا کانٹکٹ نمبر بھی لے لیا۔ پھر اس نے مونا کو لنچ پر مدعو کیاحالاں کہ اس کام میں اسے ذرا مشکل سے کامیابی ملی۔ بہر کیف دونوں شہر کے ایک پر سکون ریستوراں میں ملے۔ کھانے کا آرڈر ارمان کے کہنے پر مونا نے دیا۔ دونوں خاموش بیٹھے کبھی ہوٹل کی خوبصورتی کو دیکھتے توکبھی چور نگاہوں سے ایک دوسرے کو۔ ارمان نے دیکھا کہ مونا کا ہاتھ میز پر ہے، جس کے آدھے آدھے ناخنوں پر مہندی کی لالی مزید دیدہ زیب لگ رہی تھی۔ وہ بڑی نزاکت سے انگشت شہادت کو جنبش دے رہی تھی جس سے اس کی انگلی کے جوڑوں پر باریک سی سلوٹیں پڑتیں اور درست ہو جاتیں۔ ارمان کو محسوس ہوا کہ مونا کی انگلی پر بار بار گلاب کھل رہے ہیں اور باقی انگلیوں پر پہلے ہی چھوٹے چھوٹے گلاب کھلے ہوئے ہیں، جن کی خوشبو میں وہ غرق ہوا چاہتا ہے۔ ”میں تمہارا ہاتھ چھو سکتا ہوں۔۔۔؟“ ارمان نے اچانک سکوت توڑا۔

    خلاف امید اس سوال سے مونا سٹپٹاگئی اور اس نے میز سے اپنا ہاتھ فوراًکھینچ لیا۔ ”ڈرو مت میں زبردستی نہیں پکڑوں گا۔“ اس نے اطمینان دلایا۔ جب کھانا آیا تو ارمان کو لگا کہ اب وہ کھانا کھانے کے لیے اپنا نوز پیس ضرور ہٹائے گی۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔ مونا نے بڑے ہی سلیقے کا مظاہرہ کیا۔ وہ ایک ہاتھ سے نوز پیس تھوڑا سا اٹھاتی اور دوسرے ہاتھ سے نوالہ منھ میں رکھ لیتی۔ یہ دیکھ کر ارمان کو لگا کہ جیسے ہاتھی اپنی سونڈ سے منہ میں کھانا پہچاتا ہے، مونا بھی ویسا ہی کچھ کر رہی ہے۔ ا س کا جی چاہا کہ زور سے ہنسے لیکن ضبط کر گیا۔ بہر کیف!چہرہ دیکھنے کا یہ Ideaبھی Flop رہا۔ کھانے کے بعد ارمان نے مونا کو اس کی پسند کا Dessert آرڈر کرنے کو کہا۔ پہلے تو مونا نے منع کیا لیکن بعد میں اپنی پسندیدہ Butterscoch Ice cream منگائی۔

    ”کیا تمہیں Butterscoch بہت پسند ہے؟“

    ”ہم م م م۔۔۔ بہت زیادہ۔ بچپن سے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کوئی دوسرا Flavour کب کھایا تھا۔“

    آئس کریم کے بعد ارمان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔ ”اب آپ سگریٹ پینا پسند کریں گی؟“

    ”کیا۔۔۔؟“ مونا چونکی۔

    ”ہاں ئئ آں سگریٹ۔۔۔ تم اپنے Nose Piece کے اندر لے جاکر کش لے سکتی ہو۔“

    ”کیا بکواس کر رہے ہو۔۔۔ کہتے ہوئے وہ ہنسنے لگی۔ اور اسے دیکھ کر ارمان بھی۔“

    ”آپ پیتے ہو سگریٹ۔۔۔ مونا نے تعجب سے پوچھا۔“

    ”ارے نہیں، کبھی نہیں۔ میں نے آپ کو لنچ پر بلایا تو میرا فرض بنتا ہے کہ آپ کے کھانے اور پینے کا خیال رکھوں۔“

    ”اوہ بس بس۔۔۔ اتنی شاندار دعوت کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ جزاک اللہ۔ مونا نے زور سے کہا اور دونوں ہنسنے لگے۔“

    رات میں ارمان اپنے بستر پر لیٹا چھت کی طرف دیکھ رہا تھالیکن اصل میں وہ مونا کے خیالوں میں گم تھا۔ پھراسے یاد آیا کہ گاؤں کے علاقوں میں تانگے والے سواری پہنچانے کے بعد جب واپسی کی سواریاں ڈھونڈھتے ہیں تو اس وقفے میں وہ اپنے گھوڑوں کا منہ چارے کے تھیلے میں ڈال کر، ان کے کانوں پر تھیلا لٹکا دیتے ہیں اور وہ اسی میں منہ ڈالے ہوئے چارہ کھاتے رہتے ہیں۔ کیا وہ گھوڑے کا نوز پیس ہوتا ہے؟اس کے ہونٹوں پر ہنسی پھیل گئی۔ اگلے ہی پل وہ یہ سوچ رہا تھا کہ مونا اگر نوز پیس کے اندر سے سگریٹ کا کش لیتی تو۔۔۔ اس نے تصور کیا کہ دھواں نوز پیس کے نچلے حصے سے نکل رہا تھا۔ ارمان ٹھہاکا لگا کر ہنس پڑا اور اس کے روم پارٹنر کی نیند کھل گئی۔ یہ ساری باتیں وہ اگلے دن مونا کو بتانا چاہتا تھا، پھر سوچا اسے برا لگے گا اس لیے نہیں بتائیں۔

    مونا کے نوز پیس کا ارمان پر کچھ ایسا اثر ہوا تھاکہ ارمان نے خود کو بہت اچھی طرح سمجھا لیا کہ وہ اب مونا کا چہرہ دیکھنے کی کوشش بالکل بھی نہیں کرے گا۔ اس کے باوجود مونا سے اس کی محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ دوستوں کے ساتھ کبھی آئس کریم کھانے کا موقع آتا تو وہ Butterscoch Flavour ہی کھاتا۔ Date Shake شوق سے پینے والا اب Butterscoch Shake پینے لگا تھا۔ یہاں تک کہ Energy Drinks، Candies، Chocolates ،Cookies، اور Cakes میں بھی وہ Butterscoch Flavour تلاش کرنے لگا تھا۔ ایک مرتبہ گھر سے آتے وقت ٹرین کسی چھوٹے سے اسٹیشن پر رکی باہر سڑک پر Ice-cream والا نظر آیا۔ وہ جھٹ سے اس کے پاس جا پہنچا۔ Butterscoch Flavour Cone تو مل گئی لیکن ٹرین جاتی رہی۔ کسی طرح قسطوں میں ہاسٹل پہنچا۔ اس رات تکان کی وجہ سے جب وہ گہری نیند میں ڈوبا تو اس نے خواب میں دیکھاکہ شب زفاف کا موقع ہے۔ پہلے اس نے مونا کو بھاری بھرکم ملبوسات اور زیورات سے آزاد کیا پھر اسے بانہوں میں اٹھا کر نہایت نفیس باتھ ٹب میں لٹا دیا جو پہلے ہی Butterscoch Ice-cream سے لبریز تھا۔ خواب میں بھی اس نے مونا کا چہرہ نہیں دیکھا، دیکھا بھی ہو تو اسے صبح تک یاد نہیں تھا۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش بھی کی۔ البتہ صبح تک ارمان کو یہ ضرور یاد تھا کہ مونا کی جلد بہت زیادہ ملائم ہے۔ اس لیے بار باروہ اپنے جسم کے ان حصوں پر ہاتھ پھیرتا رہا جو خواب میں مونا سے مس ہوئے تھے۔

    مونا کے لائبریری نہ آنے پر ارمان پارک میں بیٹھ کر پڑھنے کی کوشش کرتا یا تخیلات کے گھوڑے دوڑاتا۔ لیکن اب اسے اس بات کا سکون تھا کہ وہ مونا سے فون پر بات کر لیتا تھا۔ مونا بھی آمنے سامنے بات کرنے کی بہ نسبت فون پر بات کرنے میں زیادہ بہتر محسوس کرتی تھی۔ ارمان کو اب بھی یاد تھا جب اس نے مونا سے پہلی بارفون پر بات کی تھی۔ رات کا وقت تھا اور آندھی چلنی شروع ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے ہاسٹل کی لائٹ جا چکی تھی اور اندھیرے میں دونوں طرف کے ہاسٹلرس طرح طرح کی آوازیں نکال رہے تھے۔ پھر بھی وہ کافی دیر تک مونا سے بات کرتا رہا۔ ارمان مسکرایا۔

    وقت گزرتا گیا، موسم بدلتا گیا اور پھر صبح و شام ہواؤں میں خنکی محسوس ہونے لگی تھی۔ موسم خوشگوار تھا۔ ایک شام جب ارمان نے مونا سے اگلے دن ملنے کو کہا تو اس نے بتایا کہ وہ علی الصبح گھر جا رہی ہے۔ ارمان پریشان سا ہو گیا ”کیوں اور کس کے ساتھ؟“ اس نے فوراً پوچھا۔

    ”ارے۔۔۔ اپنے گھر جانے کے لیے بھی وجہ ضروری ہے۔ میں اکیلی جاؤں گی۔ اکثر اکیلی ہی جاتی ہوں۔“

    ”اوہ۔۔۔ معافی چاہتا ہوں۔ مجھے ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا۔“ ارمان نے پیار سے کہا۔

    ”بس سے جاؤگی یا ٹرین سے۔۔۔؟“

    ”بس کا سفر آسان ہے میرے لیے۔ ویسے بھی دور نہیں ہے۔“

    ”ٹھیک ہے تو صبح میں تمہیں بس اسٹاپ تک چھوڑنے چلوں گا۔“

    ”شکریہ۔۔۔ لیکن میں چلی جاؤں گی۔“

    ”صبح اندھیرا ہوتا ہے اس لیے میں بس اسٹاپ تک ضرور چلوں گا۔ تمہیں نہیں پتا آجکل ماحول ٹھیک نہیں ہے۔“

    ”ارمان۔۔۔! کیا آپ کونہیں لگتا آپ ضدی ہوتے جا رہے ہیں؟“

    ”ہاں۔۔۔ شاید تھوڑا سا۔۔۔“ وہ ہنسا۔

    رکشہ والے نے رکشہ دھیما کیا کیوں کہ بیچ سڑک پر اسے کوئی نظر آیا۔ رکشہ قریب پہنچتے ہی مونا نے ارمان کو پہچان لیا۔ اب رکشہ اپنی رفتار پر تھا اور ارمان مونا کے کاندھے سے کاندھا ملائے ہوئے تھا۔ جیسے نماز میں نمازی ملاتے ہیں۔ بس کے چھوٹنے میں ابھی وقت تھا۔ مونا نے چپس اور کولڈ ڈرنک لے کر ارمان کی طرف بڑھائے۔ ارمان اس کی آنکھوں میں دیکھتے دیکھتے ساری ڈرنک پی گیا۔ بس مقررہ وقت پر روانہ ہو گئی۔ ارمان چلتی بس سے نیچے اترا۔ مونا نے سلام کے بعد اپنے خوبصورت اور نازک ترین ہاتھ سے الوداعیہ اشارہ (Bye) کیا، جو ارمان کو بہت اچھا لگا اور کافی وقت تک اس کے حواس پر گھڑی کے پنڈولم کی طرح ہلتا رہا۔ ویسے بھی اس نے مونا کے ہاتھوں اور آنکھوں کے علاوہ دیکھا ہی کیا تھا۔ ایک مرتبہ ارمان نے دل میں عہد کیا کہ مونا کا ہاتھ ضرور پکڑے گا۔ اس نے ایسا کیا بھی۔ ارمان نے مونا کا ہاتھ زور سے پکڑا اور جب مونا نے چھڑانا چاہا تو مزید دبادیا۔ ہاتھ دبانے پر اسے ایسا لگا گویا کہ ریشم کا رومال اس نے اپنی مٹھی میں بند کر لیا ہو۔ یہیں سے ہاتھ پکڑنے کی ابتدا ہوئی۔ اگلی ملاقات جب پارک میں ہوئی تب مونا کی کلائیاں بھی ارمان سے چھپی نہ رہ سکیں۔ اس نے پہلے ہاتھ پکڑا پھر اپنی ایک انگلی اس کے برقع کی آستین میں ڈال کر آگے بڑھانے لگالیکن مونا نے دوسرے ہاتھ سے روک دیا۔

    ”کیا میں آستین کے راستے اندر چلا جاؤں گا؟“ ارمان ہنسا اورمونا بھی۔ پھر ارمان نے اپنی جیب سے قلم نکال کر مونا کی کلائیوں پر اپنا نام لکھتے ہوئے کہا۔۔۔ اب یہ میری Property ہے۔ دونوں کے قہقہے بلند ہوئے اور جلدی ہی دونوں سنجیدگی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور اُسی طرح دیر تک بت بنے رہے۔

    اتنا سب ہو جانے کے باوجود بھی ارمان نے اب تک مونا کا چہرہ نہیں دیکھا تھا یا شاید اب وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ ایک روز مونا اپنی پسندیدہ آئس کریم کھا رہی تھی۔ چمچ کو نوز پیس ہٹا کر منہ تک لے جانے میں نوز پیس پر آئس کریم لگ گئی جس سے وہ بڑی جزبز ہوئی اور اس نے ضد کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ”میں نوز پیس ہٹا دوں گی۔“

    ”کبھی وہ کام مت کرنا جس کا بعد میں تمہیں پچھتاوا ہو۔ اگر تم اپنا چہرہ نہیں کھولتی ہو تو میں تمہارے اس جذبے کا احترام کرتا ہوں۔۔۔“ ارمان نے اسے سمجھایا۔ مونا رات میں کافی دیر تک یہی سوچتی رہی کہ ارمان نے نوز پیس کھولنے سے منع کیوں کیا؟ جب کہ وہ تو ہمیشہ چہرہ دیکھنے کی فراق میں رہتا تھا۔ بہر کیف۔۔۔ اسے تشویش ہوئی اور وہ دیررات تک جاگی۔

    سب کچھ ویسا ہی چلتا رہابس مونا کے ہاتھوں کی خوبصورتی کو لے کر ارمان کی دیوانگی بڑھتی گئی۔ اس کی سال گرہ کے موقعے پر ارمان نے مبارکباد دیتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا، مونا نے بھی اپنا ہاتھ ارمان کے ہاتھ میں دے دیا۔ ارمان نے اپنے ہونٹ اس کے ہاتھ پر ثبت کر دیے۔ دست بوسی کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔

    اس قدر قربت بڑھنے کے ساتھ ہی دونوں میں کبھی کبھی ناراضگی بھی ہو جاتی جو کئی کئی روز تک چلتی تھی۔ مونا کبھی بھی اپنی غلطی نہیں مانتی اور نہ ہی کبھی ارمان کو منانے کے لیے خود فون کرتی۔ آخر کار ارمان”حضرت علی“ کے اس قول پر عمل کرتے ہوئے جس میں کسی رشتے کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے جھک جانے کی تلقین کی گئی ہے، غلطی نہ ہونے پر بھی خود ہی مان جاتا اور فون کرکے معاملہ شروع کردیتا۔ اس بار لڑائی نوک جھونک سے شروع ہوئی تو ذرا لمبی کھنچ گئی اور دونوں نے بات بھی بند کر دی۔ یہ خاموشی پورے دو مہینے تک قایم رہی۔ یہ سکوت بھی ارمان نے ہی مونا کو فون کر کے توڑا۔ بات سے بات نکلتی گئی اور شکوے گلے ہوتے رہے۔ ان دو مہینوں میں دونوں پرندے خوب پھڑ پھڑائے تھے۔ ارمان نے اپنے دل کا سارا حال کہہ سنایا، اس پر جو گزری وہ سب بتایا۔ مونا بھی خاموشی سے سنتی رہی۔ آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی اور باتیں ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھیں۔

    ”کیا تمہیں میری بالکل بھی یاد نہیں آئی۔۔۔؟“ ارمان نے ملال کیا۔

    ”آئی تھی لیکن۔۔۔“ اس نے ندامت میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا۔

    ”دیکھو مونامجھے پتا ہے کبھی کبھی میں ضد کرتا ہوں لیکن میں برا آدمی نہیں ہوں۔ میں ہمیشہ تمہارے ہی بارے میں سوچتا ہوں۔ آج میں تم سے اپنے دل کا سارا حال کہہ دینا چاہتا ہوں۔ میں تمہیں بہت پسند کرتا ہوں۔ ارمان بے خودی کے عالم میں حال دل بیان کرنے لگا۔۔۔

    ”میں۔۔۔ تمہارے گول بازو کے تکیے پر سر رکھ کر سونا چاہتا ہوں۔

    تمہارے سینے پر سر رکھ کر تمہاری دھڑکنوں کو سننا چاہتا ہوں۔

    تمہارے سامنے میں Surrender کرنا چاہتا ہوں۔“

    ”مونا۔۔۔! کچھ تو بولو۔۔۔ تم خاموش کیوں ہو؟“

    ابھی وہ کچھ کہتی کہ دونوں طرف کی مسجدوں سے’اللہ اکبر‘کی صدا بلند ہوئی۔ فجر کا وقت ہو گیا تھا۔ دونوں نے خاموشی سے اذان سنی۔ ”ٹھیک ہے میں نماز کے لیے جاتی ہوں آپ بھی جائیے۔“ مونا نے موبائل فون رکھ دیا۔ جواب نہ پاکر ارمان تڑپ کر رہ گیا لیکن کیا کرتا۔ اس کے بعد ارمان نے کچھ نہیں کہااور مونا نے بھی اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ارمان جب کبھی مونا پر خفا ہوتا تو کہتا ”تم منمانی کرنے لگی ہو میری کوئی بات نہیں مانتی ہو۔“ اس پر موناہمیشہ کی طرح اپنے مخصوص انداز میں دہراتی”آپ ہی کی تو بات مانتی ہوں۔“ یہ سن کر وہ مسکراتے ہوئے سرد ہو جاتا۔

    ارمان نے مونا کا چہرہ اب تک نہیں دیکھا تھااور نوز پیس ہٹانے کو سختی سے منع بھی کر دیا تھا۔ اتنا ہی نہیں اس نے مونا کو تاکید بھی کی کہ اس کے فون پر بھی تصویر نہ بھیجے اس لیے مونا کبھی کبھی فکر میں غرق ہو جاتی اور دیر تک سوچتی رہتی۔ البتہ ارمان کا ہاتھ اب مونا کے ہاتھوں سے نکل کر گلے اور گلے سے رینگ کرکمر تک جا پہنچا تھا۔ مونا کی طرف سے بھی سرد آہوں کے ساتھ مزاحمتیں بھی ہوتیں جو نوّے (90) فیصد مزاحمتیں ہوتی ہی نہیں تھیں۔ شاید اسی وجہ سے ارمان مونا کی سانسوں کی بے ترتیبی بھی کئی بار محسوس کر چکا تھا۔

    ایک دن دونوں تفریح کی غرض سے شہر میں گھومنے گئے۔ شاپنگ مال کے انٹرینس پر گارڈ نے چیکنگ کے بعد ارمان کو تو اندر جانے دیا لیکن لیڈی گارڈنے مونا کو چیک کرنے کے بعد چہرہ کھولنے کو کہا۔ مونا نے منع کیا تو اسے اندر جانے سے روک دیا۔ کیا پریشانی ہے؟ارمان نے واپس آکر پوچھا۔ سر آپ Under Servilance ہیں اور Rules کے مطابق میم کو چہرہ کھولنا ہوگا۔ یہ سن کر ارمان بڑے ہی معنی خیز انداز میں مسکرایااور مونا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ ”ڈارلنگ شاید ہم غلط جگہ آ گئے ہیں۔“ اور مونا کا ہاتھ پکڑ کر فوراً باہر نکل گیا۔

    موسم کافی سرد تھا۔ آفتاب کی ایک کرن بھی کئی روز سے دکھائی نہیں دی تھی۔ انسان چرنداور پرند سب اپنے آشیانوں میں دبکے ہوئے تھے اوروہ دونوں اب شاپنگ مال سے مدھم روشنی والے پرسکون اور گرم ریستوراں میں آ گئے تھے۔ ”جب میں چہرہ نہیں دیکھ سکتا تو کوئی اور بھی نہیں“ ارمان نے حق جتاتے ہوئے کہااور مونا کے لیے کرسی کھینچی۔ مونا کے بیٹھنے کے بعد وہ خود بھی اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔ ارمان سامنے بیٹھنے کے بجائے اس کے برابر میں بیٹھنا پسند کرتا تھا تاکہ مونا سے زیادہ قریب رہے۔

    ”کیا تم سردی میں بھی آئس کریم کھاؤگی یا آج کچھ اور۔۔۔؟“

    ”ہم م م م۔۔۔ پہلے آئس کریم پھر کچھ اور۔“

    آئس کریم کے بعد ارمان نے کباب اور کولڈ ڈرنک منگائی حالاں کہ اس کا موڈاسٹرانگ کافی پینے کا تھا۔

    ارمان نے اپنے کوٹ میں سے ایک کتاب نکال کر مونا کو دیتے ہوئے کہا۔۔۔ ”رومانی ناول ہے۔ امید ہے تمہیں پسند آئے گا۔“ مونا نے ناول لے کر پرس میں رکھ لیا۔

    ”شام کو مونا نے فون پر کہا ایک بات کہوں۔۔۔؟“

    ”ہاں کہو۔۔۔ کیا بات ہے؟ میں تو تمہیں ہر وقت سننا چاہتا ہوں۔“

    ”آج میں ڈر گئی تھی۔“

    ”لیکن کیوں اور کس سے ڈر گئی تھیں؟“ ارمان گھبرایا۔

    ”میرے کمرے میں خوشبو آ رہی تھی۔ پہلے تو مجھے لگا کمرے میں کوئی جن آ گیا ہے اس لیے میں ڈر گئی۔ پھر سونگھتے سونگھتے آپ کی دی ہوئی کتاب پر میری تلاش ختم ہوئی اس میں سے بہت تیز خوشبو آ رہی تھی۔ بعد میں یاد آیا یہ خوشبو تو آپ لگاتے ہیں۔ میں نے کتاب کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھے تو اندر سے بھی آ رہی تھی۔ آپ اتنی زیادہ خوشبو لگاتے ہیں۔۔۔؟“

    ”شکر ہے تمہیں خوشبو آ تو رہی ہے۔ یہاں تو ناک بند ہے اور گلے میں درد بھی ہو رہا ہے۔ آج کی آئس کریم اور کولڈ ڈرنک مجھے مہنگی پڑ گئی۔ تم ٹھیک ہو نہ۔۔۔؟“

    ”ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں۔ Vicks ہو تو لگا لیجئے آرام ملے گا۔ میری وجہ سے آپ کی طبیعت خراب ہوئی۔۔۔“ مونا نے افسوس جتایا۔

    ”کوئی بات نہیں تم سو جاؤ۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔“

    صبح جب دونوں شعبے میں ملے تو مونا نے اپنے پرس سے Vicks نکال کر ارمان کو دی۔ ارمان نے اسے مٹھی میں بند کرتے ہوئے مونا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہا۔۔۔ ”Vicks دینے سے کچھ نہیں ہوتا میڈم!۔۔۔ Vicks رب (Rub) کرنی پڑتی ہے۔“ مونا بس سنجیدگی سے ارمان کو دیکھتی ہی رہی۔

    ارمان کو مونا کی عادت سی ہو چکی تھی۔ ہر وقت مونا اس کے اعصاب پر سوار رہتی۔ اس کے تصور میں مونا کے ہاتھ اور آنکھیں گھومتے رہتے۔ اسے یقین تھا کہ مونا بھی اسے چاہتی ہے لیکن پریشانی یہ تھی کہ اس نے کبھی بھی کھل کر وضاحت نہیں کی۔ اسی بات سے تنگ آکرایک دن ارمان نے مونا سے سیدھے پوچھا۔۔۔

    ”مجھ سے شادی کروگی۔۔۔؟“ مونا خاموش رہی۔۔۔

    ارمان نے دوبارہ کہا۔۔۔ وہ پھر بھی خاموشی اختیار کیے رہی۔

    تیسری بار غصے میں پوچھنے پر مونا نے زبان کھولی۔۔۔ ”مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟“ ارمان غصے میں ہوتے ہوئے بھی مسکرایا اور چلا گیا۔

    دونوں کنبوں کو یہ رشتہ پسند آ گیا۔ پھر کیا تھا، چٹ منگنی اور پٹ بیاہ والے پیٹرن پر عمل کرتے ہوئے سارے کام تیزی سے نمٹائے جانے لگے۔

    ”تمہیں شادی کے جوڑے میں کیا پسند ہے؟ لہنگا، شرارہ، غرارہ یا بنارسی ساڑی وغیرہ، ان میں سے کیا؟“ ارمان نے فون پر رابطہ کرکے مونا سے پوچھا۔

    ”مجھے نہیں معلوم جو آپ کو پسند ہو۔۔۔“ مونا شرمائی۔

    ”تم ا نجلینا جولی کو جانتی ہو؟“

    ”آں۔۔۔ نہیں تو۔۔۔ لیکن کیوں۔۔۔؟“

    ”اوہ۔۔۔ میں بھی کتنا Stupid ہوں، تم تو ہندوستانی فلمیں ہی نہیں دیکھتی ہوتو انجلینا کو کیسے جانوگی؟خیر۔۔۔ کوئی بات نہیں۔ میں تمہیں بتانا چاہتا تھاکہ میں نکاح کے جوڑے میں تمہارے لیے Red Gown بلکہ Crimson Gown بنانا چاہتا ہوں، جیسا انجلینا جولی پہنتی ہے۔ جب تم پہن کر چلوگی۔ دو لڑکیاں اسے پکڑ کر تمہارے پیچھے چلیں گی۔ شہزادی لگوگی۔ لیکن تم گھبراؤ نہیں لباس ایک دم انگریزی نہیں رہے گااس میں تھوڑی تبدیلی کی جائے گی۔ اس کا اوپری حصہ کھلا ہوا نہیں ہوگا۔ کسی کرسچن دلہن کی طرح تمہارے ہاتھوں میں Glubs اور سر پرHat ہوگا۔ اس کے علاوہ چہرے پر نوز پیس ہوگااوربڑا سا سرخ دوپٹہ بھی۔ یہ سبCrimson ہی ہوگا۔۔۔ تو تمہیں کیسا لگا انڈو انگلش کامبینیشن؟ ”بے حد عمدہ۔ شکریہ۔۔۔!“ کہتے ہوئے مونا ہنسی۔

    وہ دن بھی آ گیا جب دونوں طرف کے ڈھیر سارے مہمانوں کے بیچ دونوں کا نکاح مکمل ہوا۔ رات میں ارمان حجلہ عروسی میں پہنچا جہاں مونا سکڑی سمٹی صبر کی مورت بنی ہوئی بیٹھی تھی۔ کمرہ بہت قرینے سے سجایا گیا تھا۔ پھولوں کی بھینی خوشبو ماحول کو خوش گوار بنارہی تھی۔ مونا سے اجازت لے کر ارمان نے مونا کے خوبصورت ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور باتیں کرنے لگا۔ ساتھ ہی وہ اس کے ہاتھوں کو بھی چوم رہا تھا۔ مونا سے نہیں رہا گیا تب اس نے ایک ہاتھ اپنی پیشانی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔ ”کیا آپ اب بھی میرا چہرہ۔۔۔“

    ارمان مسکرایا۔۔۔ ہاں ضرور۔۔۔ لیکن لائٹ آف کرنے کے بعد، مونا کا ہاتھ پھر ارمان کے ہاتھ میں تھا۔ اب مونا کو فکر ہونے لگی۔

    مجھے لگتا ہے تم تھک گئی ہو مونا! اس نے مونا کا ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے بس ایک منٹ میں لائٹ آف کر دوں۔۔۔ ارمان سوئچ دبانے ہی والا تھا کہ مونا نے زور سے پکارا۔۔۔ ارمان۔۔۔!

    ارمان نے مڑ کر دیکھاتو ہکاّ بکّا رہ گیا۔ سامنے مونا چہرہ کھولے ہوئے کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر ارمان کے ہاتھ پیر کانپنے لگے۔ زبان لڑکھڑانے لگی۔ وہ Panic ہونے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب کیا کرے۔ مونا بھی ارمان کے تاثرات دیکھ کر گھبرا گئی۔ ارمان کو مونا کی نہ تو سرمگیں آنکھیں دکھائی دیں اور نہ ہی سرخ اور نازک ہونٹ، نہ ہی چہرے کی ملاحت اور نہ ہی طلوع آفتاب کی طرح روشن جبین۔ مونا ابھی کچھ سمجھ پاتی کہ۔۔۔ دہاڑتے ہوئے ارمان نے بجلی کی سی سرعت کے ساتھ مونا کو جا دبوچا۔ اسے بیڈ پر پٹک کر گاؤن سے اس کا چہرہ اس قدر کس کے لپیٹنا شروع کر دیا کہ وہ جھٹپٹانے لگی اور اس کی آواز بھی گھٹ رہی تھی۔ ارمان نے یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ وہ بڑا دوپٹہ جو مونا نے اوپر سے اوڑھا ہوا تھا، اسے بھی اس کے چہرے پر لپیٹنا شروع کر دیا۔ ارمان کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ مونا اپنی پوری طاقت لگانے کے بعد بھی آزاد نہ ہو سکی اور کچھ ہی دیر میں ساکت ہو گئی۔ جب ارمان کو لگا کہ اب مونا کے جسم میں کوئی حرکت باقی نہیں رہی ہے تب اس نے مونا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کے پاس لیٹ گیا۔ مونا گاؤن میں لپٹی ہوئی بے حس و حرکت پڑی تھی ایسا لگ رہا تھالال گاؤن خاص اسی مقصد کے لیے بنوایا گیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے