Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کشمکش

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    کہانی کی کہانی

    اخلاقی قدروں کے  زوال کا نوحہ ہے۔ بڈھا موہنا دو ہفتوں سے بیمار ہے، اکثر ایسا لگتا ہے کہ وہ مر جائے گا لیکن پھر جی اٹھتا ہے۔ اس کے تینوں بیٹے چاہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد مر جائے۔ دو ہفتے بعد جب وہ مر جاتا ہے تو اس کا جلوس نکالا جاتا ہے اور اس کے جلوس سے میٹھے چنے اٹھا کر ایک عورت اپنے بیٹے کو دیتی ہے اور کہتی ہے کہ کھا لے تیری بھی عمر اتنی لمبی ہو جائے گی۔ عورت کو دیکھ کر ٹرام کا ڈرایئور، چیکر اور ایک بابو بھی دوڑ کر بوان سے چھوہارے وغیر لے کر کھاتے ہیں۔

    بڈھا موہنا مر رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے کونوں تک مفت کی بن مانگی ہلدی بکھر گئی تھی۔ چھت، الگنی، سنڈاس، بچوں اور سایوں کی طرف دیکھنے کی بے بضاعت، بے سود کوششوں سے ظاہر تھا کہ اس ساون سوکھے، نہ اساڑھ ہرے ۔ جسم میں زندگی کی حرص و ہَوا ابھی تک باقی ہے۔ بڈھے کی نگاہِ واپسیں سے عزیزوں کو ہمدردی نہیں تھی، نفرت تھی۔ آخر جو آدمی ہفتے بھر سے روز جیتا روز مرتا ہو، خدا جانے اس کی کون سی نگاہ نگہِ واپسیں ہوتی ہے۔

    باہر اسلحہ خانے کے برابر ایک تنہا ٹرام، شرابی کی طرح لڑکھڑاتی کھڑکھڑاتی شور مچاتی گزر رہی تھی، یا قریب ایک رکشا قلی زور زور سے اپنے گھنگھرو رکشا کے بموں پر مار رہا تھا۔ اسے اپنے سیپ کا موتی اگلنے کی جلدی تھی۔ اور وہ یوں تیزی سے بھیڑ کو چیرتا ہوا جا رہا تھا جیسے تیز قصابی چھری کراچی کی مچھلی کے گداز جسم میں سے گزر جائے ’’باچو، باچو، ہے پو سے۔۔۔‘‘ ایک ہجوم ہنستا کھیلتا، روتا، گھر، تھیٹر اور جہنم کی طرف جا رہا تھا۔ اور موہنا کا بتیس سالہ بیٹا راجہ اپنے دونوں بیٹوں اور آدھی بیٹی یعنی لنگڑی چھوکری کو بچانے کے لیے ایک پھٹے ہوئے ڈھول کی آواز میں چیختا، حتیٰ کہ اس کی رفیقۂ حیات، جو بچے پیدا کرنے اور پھر انھیں فحش گالیاں دینے کی حد تک ہی راجہ کی رفیقہ تھی، اپنی رفاقت کا پورا حق نبھاتی۔’’اوطوں مارو، ہیضے کے توڑو اٹھ جاؤ دنیا سے، ارے سارے جمانے کی گلٹی نکل ری، اور ان کے گلٹی بھی تو نا نکلتی۔‘‘ گویا بچے ٹرام کے نیچے آ کر تو نہ مریں،طاعون اور ہیضہ انھیں بھلے ہی لے جائیں۔

    راجہ نے ایک طویل سی جمائی لی اور آخ۔۔۔ کی ایک آواز کے ساتھ اپنے اٹھے ہوئے بازوؤں کو نیچے گرا دیا،دو چھوٹے بھائی، ایک بہنوئی اور ایک مسلمان پڑوسی پچھلی رات سے جاگ رہے تھے۔ ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ پٹوال سے پڑے دکھائی دیتے تھے اور پانی بے تحاشہ بہہ رہا تھا، جیسے آنکھوں کی دکھتی رگوں پر کوٹا ہوا پھونکا جلا جست باندھ دیا گیا ہو۔ ان لوگوں میں سے جب کوئی تھوڑی دیر کے لیے اونگھ لیتا، تو یوں محسوس کرتا جیسے جست کے باوجود اس کی آنکھوں پر بالائی باندھ دی گئی ہے۔ سب کی خواہش تھی کہ موہنا ایک طرف ہو۔ اب جب کہ وہ بالٹیوں کا تلہ بھی نہیں لگاتا، کچھ اس لیے کہ بول و براز بھی چارپائی پر ہوتا اور کچھ اس لیے کہ چارپائی پر مرنا بیٹوں کے لیے بھاری ڈنڈ تھا۔ اس ہفتے میں چھ سات بار موہنا کو زمین پر رکھا گیا اور اس کے ہاتھوں پر آٹے کا دیا رکھ کر اسے سورگ کا راستہ دکھانے کی کوشش کی گئی۔ ابھی کانوں کی لویں سیاہ اور سرخ تھیں اور روشنی آر پار چلی جاتی تھی، اور ناک کے قریب کانسی کی تھالی کرنے سے کچھ مرطوب سے بخارات جم جاتے۔ موہنا کے دماغ کے کسی کونے میں امید اور لواحقین پر مایوسی چھا جاتی۔ زمین کچی تھی اور ٹھنڈی۔ اس پر موہنے کو رکھنے سے یوں ہی جان نکل جاتی۔ موہنے کا مرنا تو سب چاہتے تھے، لیکن اذیت دینے سے گھبراتے تھے۔ کچھ گندم ابال رکھی تھی، کچھ دان کیا تھا، لیکن بے سود۔ ابھی موہنا مرا، ابھی جی اٹھا۔

    راجہ کی جورو نے باہر جھانکا۔ سرطانی سورج صبح سے کھوپڑیاں چٹخا رہا تھا۔ لیکن اب کہیں سے اپنے آپ ہی بادل نمودار ہو گئے۔ ’’اگر بارش ہو گئی تو بڑی مصیبت ہو گی‘‘ وہ سوچنے لگی۔ ننھوا، اس کا بیٹا، جسے گلے کی شکایت تھی اور جس کے حلق کا کوا نیچے گر گیا تھا، چاٹ کھا رہا تھا۔ راجانی نے اسے دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ صرف بازار سے رائی لانے کا حکم دے دیا۔ رائی سرہانے رکھنے سے جان جلد اور آسانی سے نکل جاتی ہے۔ اس وقت ننھوا نے منھ بسورتے ہوئے کہا، ’’میں ٹرام کے نیچے آ جاؤں گا ماں!‘‘ اور راجانی خشمگیں ہو کر بولی، ’’تو؟۔۔۔ تو تو مرتا بھی نا، تجھے توڑے سیتلا۔۔۔ تیرا مر جا باوا‘‘ اور پھر اسی سانس میں اسے پچکارتے ہوئی بولی، ’’ارے، لے اَدھنی۔ دیکھ ہماری سرکار نے نئی اَدھنی بنائی ہے۔ اب سونے کی ادھنیاں بننے لگی ہیں۔۔۔ ارے دیکھ، بٹن کی پھانٹ پر پیر نہ رکھ دیجیو۔پھر جائے گی پاؤں میں تلوار کے ماپھک۔‘‘

    جب راجانی اندر آئی تو ایک دفعہ پھر موہنا کو اتار کر چارپائی سے نیچے رکھ دیا گیا تھا۔ راجہ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے چھوٹے بھائی نے پھر جلدی سے ایک پھٹے ہوئے تکیے سے روئی نکالی۔ ہاتھ میں مل کر جلدی سے بتی بنائی اور راجانی کے بنائے ہوئے آٹے کے دیے میں رکھ دی۔ راجانی نے جلدی سے گھی ڈالا اور ایک بناسپتی روشنی کوٹھری کی تاریکی پر غلبہ پانے لگی۔ پھر سے باوا کے ہاتھ پر رکھ دیا گیا۔ مسلمان پڑوسی نے سوجے ہوئے پاؤں کو ہاتھوں سے چھوا۔ پہلے وہ ٹھنڈے تھے، اب یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گرم ہو رہے ہیں، اور ٹخنوں پر ایک شریان یک لخت حرکت کرنے لگی۔ ’’قرآن پاک کی قسم‘‘ وہ بولا ’’موہنا بابا جی رہا ہے۔ میں شرط بدتا ہوں‘‘ اور پھر جیب کے پیسے کھنکارتے ہوئے بولا۔ ’’بولو کتنے کتنے۔۔۔؟‘‘

    بیٹے ایک دفعہ پھر ہنس دیے اور پھر ایک پژمردگی سی ان پر چھا گئی۔

    راجانی نے جھاڑو اٹھایا اور سنڈاس اور پھوس کی دیوار کے درمیان کا کچا حصہ صاف کرنے لگی۔ راجا نے حلقے کے تھانیدار کے لیے ٹین کا حمام بنایا تھا۔ ڈھانچہ گول کیا ہوا کونہ میں پڑا تھا۔ انگیٹھی کی ٹوپی بھی بن گئی تھی۔ اب سب کچھ تپائی پر رکھنا تھا اور لوہے کی ربٹیں لگانی تھیں۔ تپائی چوکی کے قریب انگڑائیاں لے رہی تھی۔ ایک پیادہ سپاہی کئی دفعہ ہو گیا تھا لیکن اس نئی مصیبت سے چھٹکارا حاصل ہوتا تب تو۔ ٹین کی ننھی ننھی کترنیں ہاتھوں سے اٹھا راجانی سنڈاس کے پاس ڈھیر لگانے لگی۔ کھٹیک منڈی کے نواح سے ایک گھاگھ آیا کرتی تھی اور سب بکھرا ہوا ٹین اور بے کار و مصرف لوہا کسی بیدار ملک کو پہنچانے کے لیے سمیٹ لے جاتی۔

    پہلی ٹرام نے مسجد کے قریب اپنے مسافر چھوڑے۔ کچھ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ اس سے بھی پرے جانے والے تھے، اور کچھ سوار ہونے کو تھے۔ ٹرام چلانے والا ہتھی پر ہاتھ رکھے خلا میں گھور رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے بلا ضرورت گھنٹی بجا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس کے بنانے والے نے خوب اس کا مضحکہ اڑایا ہے۔ بس سارا دن شہر میں چکر لگاتے رہنا اور پھر وہیں۔ کبھی ہوتا ہے کہ کوئی کتا نیچے آ کر مر جاتا ہے اور پھر منتظمان کمیٹی کو ’نیگلجنٹ ڈرائیونگ‘ کے سلسلے میں بیان دینے پڑتے ہیں۔ اس ہموار ساکن زندگی سے موت اچھی ہے۔ کلپ کلپ کلپ، اور چیکربے تحاشہ ٹکٹیں مسافروں کے ہاتھ میں ٹھونس دیتا ہے۔ بس اس کا کام ہے ٹکٹیں دینا اور پھر ٹھیک سے دام وصول کر لینا۔ اس کی زندگی کا ارتعاش یہی ہے کہ پانچ سال سے بڑا بچہ بلا ٹکٹ سفر نہ کرے۔ اور اس کی ساری زندگی میں شاذ ہی کوئی حسین واقعہ پیش آیا ہو گا۔

    ایک دفعہ میناری چوک سے ایک کنبے کا کنبہ چڑھا، جس میں ایک نوخیز لڑکی بھی چڑھی۔ ماں باپ اس لڑکی کو بلا ٹکٹ لے جانا چاہتے تھے۔ ’’ارے بھئی یہ تو بچہ ہے‘‘ ماں باپ چلائے ’’دیکھو ۔ دیکھو۔ بھلا یہ لڑکی جوان ہے؟ یہ تو ریل میں مفت سفر کرتی ہے۔‘‘ چیکر کہنا چاہتا تھا ’’کیا یہ جوان نہیں ہے؟ دیکھو ۔ دیکھو۔‘‘ لیکن وہ جھینپ گیا اور پائیدان اور سیٹوں کے درمیان پاؤں جمائے کھڑا لوگوں کے فیصلے کا انتظار کرتا رہا۔ ماں باپ نے دو پیسے بچانے کے لیے چھوکری کو دو سیٹوں کے وسط میں کھڑا کر دیا اور نمائش شروع کر دی ’’دیکھو یہ جوان ہے؟۔۔۔ دیکھو۔۔۔ ‘‘ایک نوجوان نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر اپنے ساتھی سے کہا ’’بھئی اس طرح تو پتہ نہیں چلتا‘‘ اور اس دن چیکر کو زندگی کچھ بامعنی معلوم ہوئی۔ پھر کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا۔ اس کلپ کلپ اور چیکنگ کو اس نے زندگی کا ایک حصہ تو بنا لیا تھا، لیکن اس کے باوجود وہ اس سے بے طرح غیر مطمئن تھا۔ شاید ایک اور واقعہ بھی پیش آیا تھا۔ ایک عورت اپنے خاوند کو چھوڑنے آئی تھی۔ اتنے مسافروں کے سامنے وہ اپنے راجا سے بات نہیں کرسکتی تھی۔ راجا کسی دوسرے دیس میں جانے کے لیے اسٹیشن کی طرف روانہ ہو رہا تھا۔ اسباب پہلے پہنچ چکا تھا۔ عورت نے پوچھا ’’اب کب آؤ گے؟‘‘ مرد نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی اور کہا ’’جب بھگوان لائیں گے‘‘ اور ٹرام چل دی۔ اس کے آہنی اور چوبی پشتوں پر کسی کے آنسو دکھائی نہیں دیتے تھے۔ وہ عورت بے بسی کے عالم میں اپنی کھوکھلی بیکار نگاہوں سے سڑک پر بچھی ہوئی لوہے کی چار لکیروں کی لا محدود تنہائی دیکھتی رہی۔

    اب رائی بھی سرہانے رکھ دی گئی تھی۔ تین گھنٹے اور بڈھا بے حس و حرکت پڑا رہا۔ اب کنپٹی کے پاس ابھری رگ پھڑکنے لگی۔ موہنا کے منھ میں پانی کا ایک چمچہ ڈالا گیا۔ گڑ گڑ گڑ کی ایک آواز آئی اور اس کے بعد موہنے نے پانی پی لیا۔ راجا نے اپنا ہاتھ اس کی نبض پر رکھا۔ نبض چل رہی تھی اگرچہ ہولے ہولے۔ اس کے بعد یک لخت جیسے سب کچھ ساکن ہو گیا۔ پیشانی گرم تھی اور پھر وہ بانس کی سی ٹانگیں بھی حرکت میں تھیں۔ راجا نے برافروختہ ہو کر کہا،

    ’’بابا کو رکھ دو چارپائی پر۔‘‘

    ’’کیسے رکھ دیں چارپائی پر‘‘ راجانی بولی۔

    ’’کیسے رکھ دیں؟‘‘راجا نے کہا ’’جیسے اسے نیچے رکھ دیا ہے۔ اب یہ نہیں مرے گا۔ یہ ساری جندگی نہیں مرے گا۔‘‘

    ’’اور ڈنڈ کون دے گا جو مر گیا چارپائی پر؟‘‘

    راجا نے خشمگیں ہو کر چھاتی پر ہاتھ مارا اور بولا ’’ڈنڈ میں دوں گا۔ درگا مائی کی قسم یہ بڈھا کبھی نہ مرے گا۔‘‘

    چھوٹے بھائی چاہتے تھے، کہ بابا ٹھنڈے فرش پر محض ٹھنڈک کی وجہ سے نہ مرے، لیکن چارپائی پر مرنے کے ڈنڈ سے وہ بھی گھبراتے تھے۔ بھائی کے چھاتی ٹھونکنے پر وہ بہت خوش ہوئے۔ راجہ کے جسم پر سے ایک پھٹی پرانی پیوند لگی چادر علاحدہ کرتی ہوئی راجانی بولی۔

    ’’ہم تو کبھی ڈنڈ نہیں دینے کے۔ہماری جندگی ہی ڈنڈ دینے میں گجر گئی۔ چھوٹوں کو بڑا کیا، بیاہا، اب آنکھیں دکھاتے ہیں۔ جو کسی سے نیوندہ دھاما لیا ،وہ یہ دینے ہار نہیں۔ اب چارپائی کا ڈنڈ دے، اتنا امیر آیا ہے نا!‘‘

    پھر راجانی نے راجا کو چڑاتے ہوئے چھاتی پر ہاتھ مارا۔ ’’جھٹ چھاتی بج اٹھتی ہے۔‘‘ مسلمان پڑوسی اشارے سے ان کو بک بک جھک جھک سے منع کرنے کے علاوہ منھ میں کچھ ورد کر رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد اس کی طبیعت اکتا گئی۔ وہ کوئی فرض پورا کر رہا تھا۔ اسے بار بار اپنی زخمی گھوڑی یاد آ جاتی تھی جس کی جان نہیں نکلتی تھی اور اس کی بیوی اور بچے تھان کے قریب کھڑے رو رہے تھے۔ آخر راجانی نے کسی کو بلا کر گیتا کے اٹھارویں ادھیائے کا پاٹھ کروایا اور جوں ہی پاٹھ کرنے والے آخری شبدوں پر پہنچے، گھوڑی نے جان دے دی۔ اور اب جب کہ موہنا گھوڑا بلکہ گدھا، جس نے ساری زندگی بار برداری اور ٹین کوٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا تھا مر رہا تھا، تو مسلمان پڑوسی کو بھی لازم تھا کہ ان کی مدد کرے۔ لیکن اس بار شلوک بھی کارگر نہ ہوئے۔ رائی سرہانے سے لے کر دروازے تک بکھر گئی۔ آخر بہت دیر بعد جب سب نے مل کر موہنا کو چارپائی پر لٹا دینے کا فیصلہ کیا اور اسے اپنے بازوؤں میں اٹھایا تو اس کی پتلیاں پھر گئیں اور وہ فرش اور چارپائی کے درمیان ہی مر گیا۔ اس وقت دن تھا نہ رات۔

    راجا نے چارپائی کے نیچے گھس کر ایک بڑا سا سرکنڈہ نکالا۔ اس کو چھلکے سے صاف کیا اور لاش کے برابر کا ناپ کر اسے موہنا کے پاس رکھ دیا تاکہ ماپ رہے اور رات کو مردے کے جسم میں کوئی شیطان روح نہ داخل ہو جائے۔ اس کے بعد وہ خودبخود جھینپ گیا۔

    ’’کب لائے تھے تم سرکنڈہ راجا بھیا؟‘‘ چھوٹے بھائی نے پوچھا، ’’ابھی لایا ہوں‘‘ راجا نے سریحا جھوٹ بولتے ہوئے کہا ’’میرا مطبل ہے ابھی ننھوا کے ہاتھ منگوایا ہے۔‘‘ سب کھلی مار کر ہنس پڑے۔ یہ سرکنڈہ دو ہفتے سے یہاں پڑا ہوا ہے۔ اتنی دیر سے ان لوگوں کو موہنا بابا کے مر جانے کی توقع اور خواہش تھی۔ اس کے بعد راجانی ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگی کہ اس کا راجا پھوس کے لیے نمونہ لایا تھا، مگر سب بے سود۔ کھلی اور بھی اونچی ہو گئی۔

    اگلی صبح محلے والوں کی رائے سے بابا کو بڑا کرنے کا فیصلہ ہوا۔ آخر پوتوں والا آدمی، زندگی کے سب فرائض سے سبکدوش ہو چکا تھا۔ اس کاجلوس نکالنے، اسے بڑا کرنے سے بیٹوں ہی کی عزت تھی۔ بہوؤں کی مانگ میں سیندور ڈالا گیا، حلوان کشمیرے کی چادر، کفن اور جھنڈیوں کے لیے چندہ اکٹھا کیا گیا۔ چھوٹے بھائی نے راجا اور منجھلے کی نسبت زیادہ روپے دیے۔ اس کے بعد چھوٹ کے لیے جٹ، چھوہارے اور میٹھے چنے وغیرہ منگوائے گئے اور صبح بوان اٹھایا گیا۔ آج پھر ٹرام والوں کے لیے ایک حسین واقعہ تھا۔ ایک بوان شمشان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کے آگے گھنٹیاں بج رہی تھیں اور پیچھے کپڑے رنگے ہوئے سر منڈائے دوتین آدمی تھے۔ اس کے ساتھ دوسرے مرد اور عورتیں مل کر ایک گانا گا رہی تھیں۔ یہ گھنٹی اور یہ سواریاں اور یہ جنازہ بردار! گویا یہ جلوس بھی ایک سست رفتار ٹرام تھی جو کہ بغیر ریل کے ایک معین راستہ پر جا رہی تھی اور سارا دن شہر کا چکر لگانے کے بعد شمشان کے باہر رک جاتی تھی۔ کچھ سائیکل والے اتر پڑے۔ ایک صاحب نے اپنا ہیٹ اٹھایا۔ ایک مسلمان جو بیٹھا تھا کھڑا ہو گیا۔ ٹرام والے نے ایک لمحہ کے لیے بریک لگائی اور خلاء کی بجائے سرخ حلوان اور کشمیری چادر میں لپٹے ہوئے جسم کی طرف دیکھنے لگا اور سوچنے لگا۔ اس بوڑھے کے اپنے بچے اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

    اس وقت بوان کے اوپر سے میٹھے چنوں اور باداموں کی چھوٹ ہو رہی تھی۔ کبھی کبھی کوئی بادام ٹرام میں بھی آ گرتا۔ ایک عورت اپنے بچے کو ٹرام میں بٹھا نیچے اتر پڑی اور کچھ میٹھے چنے ہاتھ میں لے آئی اور واپس اپنے بچے کے قریب آتے ہوئے بولی، ’’لے بیٹا، لے کھا لے۔ تیری عمر بھی اتنی لمبی ہو جائے گی۔ اس بڈھے کی عمر سے بھی جیادہ۔‘‘

    ٹرام کے ڈرائیور، چیکر اور زندگی سے بے حد غیر مطمئن و مایوس ایک بابو نے عورت کی اس حرکت کی طرف دیکھا اور پھر تینوں نے ایک دم اچک کر بوان پر سے گری کے جٹ اور چھوہارے اتار لیے اور رغبت سے انھیں کھانے لگے۔ اس کے بعد ’’چل میرے بھائی‘‘ کی آواز آئی اور ٹرام لائنوں کے ایک جال میں الجھنے کے لیے چل دی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے