Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پہاڑوں کے بادل

صادقہ نواب سحر

پہاڑوں کے بادل

صادقہ نواب سحر

MORE BYصادقہ نواب سحر

    ڈاکٹر راحین اپنی ڈسپنسری کا پرانا اسٹاک دیکھ رہی تھیں۔ وہ کچھ مہینوں بعد ایکسپائر ہونے والی دوائیاں نکال کر الگ کر رہی تھیں۔ ان کے ڈسپنسری کے اوقات صبح نو سے بارہ اور شام چھ سے آٹھ تھے۔ اس وقت دوپہر کے بارہ بجے تھے۔ شاید آج کا آخری مریض جا چکا تھایا شاید ابھی کوئی باقی ہو! تبھی ایک لڑکی نے ڈسپنسری میں قدم رکھا۔

    پتہ چلا پروانہ آئی ہے۔وہی لڑکی جو پچھلے تین سالوں سے کالج کی فیس کے لئے مدد مانگنے آتی رہی ہے۔دراصل پچھلے کچھ سالوں سے ڈاکٹر راحین کے پاس ایک زکوٰۃ کمیٹی کے پیسے آنے لگے تھے، جنہیں وہ مستحق بچوں کی پڑھائی لکھائی پر بطور مدد خرچ کرتی ہیں۔ اس بارے میں بہت باخبر رہنا پڑتا ہے کہ کہیں لوگوں کی نکالی ہوئی زکوٰۃ کے پیسے غریب بن کر ٹھگنے والے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں۔ پچھلے مہینے ایک خاتون اپنی پانچ بیٹیوں کو لے کر ڈاکٹر راحین کی ڈسپنسری میں آئی تھی۔ سب کی پچھلے سال کی فیس جمع نہیں کرائی گئی تھی اس لئے سالانہ امتحانات میں بیٹھنے سے روک دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر راحین نے پتہ چلایا کہ وہ خاتون سنگِ مرمر کے فرش پر بنے ایک چھوٹے سے ذاتی گھر میں رہتی ہے۔ اس کے گھر میں فرج اور ٹی وی بھی ہے۔ خاتون نے خدا کا واسطہ دیا کہ یہ سب اچھے دنوں کی یادگار ہیں، جب اس کا شوہر زمین کی دلالی میں اچھا خاصہ کمایا کرتا تھا۔ اب اس کے شوہر کا برسوں کا پینا رنگ لایا ہے۔ اس کا شوہر جگر کے سخت درد کا شکار ہے۔ اب وہ چار ہزار روپئے مہینہ کمانے کے لئے ایک پیکنگ کمپنی میں دن کے دس گھنٹے گزارتی ہے اور بیچ بیچ میں چھُٹّی لے کر اپنے شوہر کا علاج بھی کرواتی ہے۔

    ’’ابھی گھر کا سامان بکا نہیں ہے۔‘‘ وہ گڑگڑاتی رہی۔

    لیکن ڈاکٹر راحین کو ایسے لوگوں پر ذرا بھی بھروسہ نہیں۔ اس نے ایسے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو خدا کے نام پر پیسہ جمع کر کے کھا لیتے ہیں۔ پھر وہ کیسے اس لڑکی پر یقین کرے!

    اسی لئے وہ پروانہ سے ہر سال کالج سے فیس کی تفصیل منگواتی ہیں۔

    پروانہ لگاتار فون کرتی۔ ملتی۔اس کا بی اے کا آخری سال تھا۔ آٹھ دنوں میں امتحان ہونے والے تھے۔ ہفتہ بھر پہلے تو اس نے حد ہی کر دی۔ اپنے ابا سے فون پر بات کروا دی!

    ’’آپ نے میری لڑکی کا کالج میں داخلہ کروایا۔ پڑھا رہی ہیں، ساتھ ساتھ ذرا گھر بنانے میں بھی مدد کیجئے۔‘‘

    ڈاکٹر راحین کو اس کا اپنے والد کے ہاتھ میں اچانک فون تھما دینا بالکل پسند نہیں آیا تھا۔

    آخر انھوں نے تنگ آکر پروانہ کو گھر کی تصویر کسی کے فون سے وہاٹس ایپ کرنے کے لئے کہا تھا اور کسی دن اس کا گھر دیکھنے جانے کا وعدہ بھی کر لیا۔

    ڈاکٹر راحین مہاراشٹر کے ضلع رائے گڑھ کے کھالاپور ضلع کے تحصیلدار آفس کے پاس رہتی تھی۔ اسی عمارت کے نیچے ان کی ڈسپنسری تھی ۔باندرہ کی چہل پہل سے اکتا کر وہ پچھلے دنوں ہی سکون کی تلاش میں ممبئی میٹرو پولیٹن کے اس پرسکون علاقے میں منتقل ہوئے تھے۔ ممبئی کے ایک بلڈر نے نیا کمپلیکس بنانا شروع کیا تھا۔ ان کے ڈاکٹر شوہر نے زمین کا ایک ٹکڑا خرید کر اس پر اپنے ذاتی اسپتال کی تعمیر شروع کر دی تھی۔ اِن دنوں وہ میڈیکل کانفرنس میں شرکت کرنے کلکتہ گئے ہوئے تھے۔ان کے دونوں بیٹے وہیں ایک انگریزی اسکول میں دوسری اور تیسری کلاسوں میں پڑھنے لگے تھے۔ ابھی امتحان ختم ہوئے تھے اور بچے دن بھر گھر کے اندر کھیلتے ہوئے تھک چکے تھے۔ بس شام کو مولوی صاحب قرآن شریف اور اردو پڑھانے آ جاتے۔۔۔ اور پھر ڈاکٹر راحین نے پروانہ سے وعدہ کر لیا تھا کہ اس ہفتے وہ ضرور اس کا گھر دیکھنے آئیں گی۔ آخر ایک پنتھ دو کا۔۔۔

    کرجت اسٹیشن سے بیس پچیس منٹ پیدل دوری پر’ دہی وَلی ‘گاؤں سے بائیں جانب کوئی دو ڈھائی کلومیٹر کی دوری پر آکُرلے گاؤں کی ابتدا میں ہی بائیں طرف بغیر دیوار کا دو جھولے اور ایک گھسرن والے چھوٹے سے تکونے گارڈن کے پاس ایک دوکان کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے تین نوجوانوں سے ڈاکٹر راحین نے پروانہ کا پتہ پوچھا۔ بچے اِس چھوٹے سے گارڈن کو دیکھ کر مچل رہے تھے لیکن بارہ بجے کی دھوپ میں تپتے جھولے کس کام کے! گارڈن کے بالکل سامنے ایک چکی کی چال میں صدر دروازے کے باہر چھوٹی سی موری کے اوپر چار پائپوں کے سہارے پڑی چھوٹی سی چھت کے سائے میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت کپڑے دھو رہی تھی۔ کار کے رکتے ہی اس عورت نے تپاک سے سلام کیا جیسے پہچان گئی ہو کہ کون آیا؟

    ’’پروانہ اندر ہے۔‘‘، اس نے کہا اور کھڑی ہو گئی۔’’اے۔۔۔ ے۔۔۔ پروانہ۔۔۔!‘‘ اس نے آواز لگائی تو پروانہ باہر آئی۔ پھر جھانک کر اندر چلی گئی۔ وہ کچھ ہی سکنڈ میں دوپٹہ اوڑھ کر باہر آئی اور ڈاکٹر راحین اور ان کے دونوں بچوں کو صدر دروازے سے اندر لے گئی۔ ڈاکٹر راحین کے لئے اس قسم کے گھر کی ساخت نئی تھی۔ وہ چالی جہاں ڈاکٹر راحین کھڑی تھیں، کوئی چھے سات فٹ چوڑی تھی اور صاف ستھری تھی۔ صدر دروازے کے سامنے بالکل آخری حصے میں ایک چھوٹی سی تین فٹ اونچی دیوار کی موری تھی۔ وہاں تک پہنچنے کے لئے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بنے چار کمروں کے دروازوں سے گزرنا ہوتا۔

    چالی کے پہلے کمرے میں قدم رکھتے ہی ڈاکٹر راحین بھونچکا رہ گئیں۔ کمرہ بہت صاف ستھرا تھا۔ دروازے کے پیچھے پلاسٹک کی دو کرسیوں پر گدے، چادریں اور تکیے تہہ کرکے رکھے ہوئے تھے۔ پروانہ کی نانی پڑوس سے مانگ کرایک کرسی لے آئیں جس پر ڈاکٹر راحین بیٹھیں اور لوہے کی تین فٹ چوڑی کھاٹ پر پرانی سوتی ساڑی کے کور والے بستر پردونوں بچے بیٹھ گئے۔ پروانہ کی نانی نے پلو کی گانٹھ سے کچھ روپئے نکال کر پروانہ کو دے دےئے اور وہ وہاں سے چلی گئی۔

    ان کے گھر کے پچھلے حصے میں گاؤں کا ماحول تھا بلکہ ایکسپریس وے کو لگے ہوئے چھوٹے چھوٹے قصبے اور آدیواسی واڑیاں بھی تھیں مگر ابھی وہ ان حصوں کو دیکھ نہیں پائے تھے۔

    ڈاکٹر راحین بچوں کو کہہ کر لائی تھیں کہ گاؤں دیکھنے جا رہے ہیں۔ اسی لئے وہ دھیان سے اس چھوٹے سے کمرے کو دیکھ رہے تھے۔ دروازے کے دوسرے پٹ سے لگے ہوئے دو بڑے بڑے صندوق تھے۔پلنگ کے اوپر سیمنٹ کی چھت لوہے کے فریم پر پڑی تھی۔ فریم سے ایک سفید پیاز کی گَڈلٹک رہی تھی۔

    ’’پروانہ کل کے شنی وار بازار سے ہفتہ بھر چلنے والی سبزیاں خرید لائی تھی۔‘‘نانی نے اشارہ کیا۔ اونچے پلنگ کے نیچے دو بڑے پتہ گوبھی، ایک بڑا سا پھول گوبھی، تھیلیوں میں ٹماٹر اور ہری مرچ کلو دو کلو رکھے ہوئے تھے۔

    ’’ادھار لے کر گھر بنا رہے ہو؟۔‘‘ ڈاکٹر نے اندازہ لگاتے ہوئے پوچھا۔

    ’’ہم ادھار نہیں لیتے صرف کرانہ کا کھاتا ہے۔ ہر مہینہ چکا دیتے ہیں۔۔۔ بقایا رکھتے نہیں۔‘‘ پروانہ کی نانی نے جواب دیا۔

    تبھی پروانہ آدھا لیٹر مینگولا کی بوتل اور ایک ویفرس کا پیکٹ لئے ہوئے اندر آئی اورکچن میں جاکر اسٹیل کے گلاسوں میں مینگولا انڈیلنے لگی۔ ڈاکٹر اس کے پیچھے کچن میں گئیں۔کچن کیا تھا، کمرے کے اندر ایک بہت چھوٹا سا کمرہ تھا جسے کچن کہہ سکتے ہیں۔ وہاں ایک چوڑا برتن رکھنے کا ریک سلیقے سے سجا ہوا تھا۔ بس اتنی ہی دیوار تھی۔ دروازے کے سامنے والی دیوار پر ایک کچن کا ٹیبل تھا جس پر دو چولہوں کا اسٹو رکھا ہوا تھا۔ کچن بہت صاف ستھرا تھا۔

    ’’کیا پکایا ہے تم نے؟‘‘

    ’’میں نے نہیں، نانی نے۔ میں پڑھ رہی تھی۔‘‘ کہتے کہتے پروانہ نے ڈاکٹر راحین کے سامنے کچن ٹیبل پر رکھی چھوٹی چھوٹی ہانڈیوں کو کھول دیا۔ ایک میں ابلے ہوئے چاول، دوسری میں کھچڑی، تسلے میں گوندھا ہوا آٹا اور ایک برتن میں کوئی پاؤ کلو بیگن آلو کا سالن تھا۔

    بچے ویفرس کے لئے جھگڑنے لگے تھے۔ ڈاکٹر راحین نے ایک ویفر کا ٹکڑا منہ میں رکھتے ہی محسوس کیا، اچھے تیل سے نہیں بنا ہے لیکن بچے کب سنتے ہیں۔

    ’’آپ کے آنے کا پتہ ہوتا تو ماں چھٹی لے لیتیں۔‘‘ پروانہ نے بغیر شکایت کئے ہی کہا،’’ وہ پچھلے مہینے سے ایک نرسری میں پانچ ہزار کی تنخواہ پر کام کر رہی ہیں۔‘‘

    ’’نرسری میں تو اتوار کو چھٹی ہوتی ہے!‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔

    ’’نہیں وہ بچوں والی نرسری نہیں۔۔۔ پھولوں پودوں والی۔۔۔!‘‘

    ’’ارے واہ!‘‘

    نرسری پوسری گاؤں میں تھی، جہاں جانے اور آنے کے بیس روپئے خرچ ہو جاتے تھے۔ پروانہ نے بتایا کہ اس کے ابا میونسپلٹی میں عارضی نوکری پر تھے۔ جب کام ہوتا بلا لئے جاتے۔ ’’ابا کو فون کروں؟ بلاؤں؟ ‘‘ پروانہ بچھی جاتی تھی۔

    ’’نہیں رہنے دو۔‘‘

    ’’اس چھوٹے سے ڈیڑھ کمرے کے گھر کا کرایہ ڈیڑھ ہزار روپئے ہے۔‘‘ نانی نے بتایا، ’’لائٹ بل اور پانی کا بل اوپر سے پانچ سو روپئے۔ یہ چال چکی والے کی ہے۔چکی والے کی دوکان کا رُخ سڑک کی طرف ہے۔ چال کے سبھی گھروں سے ایک ایک کلسی پانی بھر کر چکی پرپہنچانا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’روز صبح چکی والا چکی صاف کرنے کے لئے میری ماں سے کہتا ہے۔ کبھی کبھی وہ انکار کر دیتی ہے۔ تب وہ اسے جی بھر کر کوستا ہے اور کچھ دیر کے لئے لائٹ بھی بند کر دیتا ہے۔ سبھی عورتوں کی باری کبھی صبح کبھی شام لگتی ہے۔‘‘پروانہ نے وضاحت کی۔

    پروانہ کا گھردیکھ کر تینوں ماں بیٹے باہر آئے۔

    ’’کیا آپ یہیں رہتی ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے نانی سے پوچھا۔

    ’’پھر کہاں رہوں؟‘‘ نانی نے بتایا کہ ان کے شوہر کسی بلڈر کے یہاں کام کرتے تھے۔ شوہر کی موت کے بعد وہ اپنی اِسی بیٹی کے گھر رہتی ہے۔ ان کی سب سے غریب بیٹی پروانہ کی ماں ہی تھی۔ دونوں بیٹیاں اپنے اپنے گھر میں سکھ کی روٹی کھاتی تھیں۔

    پروانہ بہت خوش تھی۔ وہ بار بار کہتی تھی کہ ’’پتہ ہوتا تو دونوں بھائیوں کو یہاں بلا لیتی۔ آپ ڈانٹتیں تاکہ وہ کچھ کام کرنے لگتے۔‘‘

    ’’تمہارا بڑا بھائی پیتا ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’جوا‘‘

    ’’ہاں‘‘

    ’’اور ابا؟‘‘

    ’’کبھی کبھی۔‘‘

    ’’جوا بھی؟‘‘

    ’’ہاں‘‘

    ’’چھوٹا بھائی؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’اچھا! اب وہ گھر دکھاؤ۔ تمہارا اپنا گھر، جسے دیکھنے کے لئے ہم یہاں آئے ہیں۔‘‘

    ’’آپ چلیں گی؟ اتنی دور؟ ہم تو پیدل جاتے ہیں۔آپ نہیں چل سکتیں۔‘‘

    ’’گاڑی سے چلیں گے۔‘‘

    ’’پاس ہی کا گاؤں ہے۔ ’بام چا مالا‘۔۔۔‘‘

    پروانہ ڈرائیور کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ گئی اور وہ دس منٹ میں پاس کے اس ’بام چا مالا گاؤں پہنچ گئے۔ اندرونی سڑک کے کنارے گاڑی رکوا کرپروانہ انھیں کچے راستے سے اپنے گھر لے گئی۔

    ’’یہ وہی گھر ہے، جس کی تعمیر ہو رہی ہے، ڈاکٹر۔‘‘ پروانہ نے بتایا،’’ برسوں نگرپالیکا میں کام کرنے کے کارن ایک پمپ ہاؤس والا کمرہ میرے ابا کو دے دیا گیا تھا۔ تب پمپ ہاؤس مارکیٹ یارڈ میں شفٹ ہو گیا تھا۔ یہ پراناپمپ ہاؤس موٹی دیواروں والا مضبوط چھوٹا سا کمرہ تھا۔‘‘

    ’’یہ کیسے ملا؟‘‘

    ’’صاحب کی لگاتار چاپلوسی اور گڑگڑانے سے، ساتھ ہی صاحب کے بنگلے کے چھوٹے موٹے کام وقت پر کرتے رہنے سے صاحب نے پمپ ہاؤس سے لگی ہوئی ایک کمرے کی زمین بھی ابا کو دے دی۔ اس سے پہلے بھی وہ اس سے بہت بڑی جگہ دے رہے تھے مگر وہ زمین بہت دور تھی۔ وہاں نہ پانی تھا نہ بجلی۔ راستے بھی کچے تھے۔ بارش میں چاروں طرف کیچڑ اور پھسلن۔۔۔‘‘، وہ ہنسی، مجھے وہ جگہ پسند نہیں آئی، اس لیے ابا نے نہیں لی۔‘‘

    ’’اچھا!۔۔۔ تمہاری پسند!!‘‘

    ’’آپ کو بتایا نہیں۔ میں نے کال سینٹر میں کام کیا۔سات ہزار کماتی تھی۔ میری پگار پر گھر چلتا تھا۔ دسویں، بارہویں کے امتحانات میں باہر سے بیٹھی۔ اب کھوپولی کا ٹاٹا کال سینٹر بند ہو گیا ہے۔ کالج جاتی ہوں۔ بھائی اسکول ہی پورا نہیں کر پائے۔‘‘

    ’’اوہ! بڑا مان ہے تمہارا!۔۔۔‘‘ ڈاکٹر راحین نے کہا۔

    ’’گھر بننے کے بعد یہ جگہ ابا کے نام پر چڑھائی جانے والی ہے۔‘‘ پروانہ مسکرائی اور بولی۔

    پمپ ہاؤس سے ایک دروازہ اس کمرے میں کھلتا تھا۔ کچی اینٹوں کا کمرہ تیار ہو چکا تھا۔ ابھی فرش کا کام باقی تھا اور پلاسٹر کا بھی۔ ڈاکٹر راحین کچھ عجیب سے احساس میں مبتلا تھیں۔

    ’’یہ ہمارا پہلا ذاتی گھر ہوگا۔‘‘پروانہ نے بتایا۔

    پروانہ کے ساتھ اس کے گھر دیکھتے ہوئے ابھی گھنٹہ بھر ہی ہوا تھا اور بچوں کابھی جی نہیں بھرا تھا۔ وہ گاؤں کی زندگی دیکھ کر بہت جوش میں تھے اورفارم ہاؤس دیکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے پہلی بار آدیواسیوں کو بھی دیکھا تھا۔ چھوٹی چھوٹی دوکانوں میں کرانہ سامان اور دوسری چھوٹی چیزیں بیچتے ہوئے، سڑک پر مست چال سے چلتے ہوئے اور ان کے نئے گھر کے پیچھے والے جھونپڑے میں تین آدیواسی عورتوں کو پیٹی کوٹ اور بلاؤز پر دوپٹہ پہنے بیٹھے دیکھ کربچّے حیران ہو گئے تھے۔

    ’’کیا ہم تمہاری امی سے ان کی نرسری میں مل سکتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر راحین نے پروانہ سے پوچھا۔

    ’’مگر میں لوٹوں گی کیسے؟ وہ تو بہت دور ہے؟‘‘

    پروانہ نے بہت فون لگایا مگر ماں نے نہیں اٹھایا۔ اس نے اپنے ابا سے بات کی۔انھیں صرف اتنا پتہ تھا کہ وہ پوسری کی کسی نرسری میں کام کرتی تھیں۔ بڑی مشکل سے ماں نے فون اٹھایا تب پتہ چلا کہ وہ مہر بیکری کے پاس کسی نرسری میں کام کرتی ہیں۔جو’ لاڈی ولی‘ کی پرکاش نرسری کے بعد آتی ہے۔نرسری کا نام ابھی رکھا نہیں گیا تھا۔ پروانہ نے ماں سے نرسری کے باہر کھڑے رہنے کے لئے کہا۔ پروانہ کی ماں اپنی ماں کی طرح نظر آئی۔ گہرے سانولے چوڑے چہرے والی۔ چھوٹی آستین کے بلاؤز اور میلی سی سوتی ساڑی میں وہ سخت دھوپ میں کھڑی ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ وہ ہمیں نرسری میں لے گئی۔ بوگن وِ لا، ڈیلیا اور دوسرے پھولوں اور پودوں کو الگ الگ حصوں میں قطار در قطار پلاسٹک کی تھیلیوں میں لگایا گیا تھا۔ دھوپ میں کام کرنے والی عورتیں سر پرسوتی کپڑے کے اوپر انگریزی کیپ لگائے کمر جھکائے کام کر رہی تھیں۔

    پروانہ کی ماں نے اپنے ساتھیوں سے ڈاکٹر کا تعارف کروایا۔ وہ سب چھاؤں میں بیٹھی پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی کالی تھیلیوں میں کھاد ملی مٹی بھر رہی تھیں۔ نرسری کا مالک وہیں تھا۔ بچوں کے مانگنے پر نرسری کے مالک نے انھیں دو تلسی کے پودے دےئے۔ بچے خوشی خوشی نرسری میں یہاں وہاں ایک دوسرے کی تصویریں کھینچتے کھنچواتے رہے۔ ڈاکٹر راحین نے انھیں بتایا کہ گیٹ کے سامنے بنا ہوا چھوٹا سا مکان فارم ہاؤس ہے۔

    لوٹتے ہوئے پروانہ کو اس کے گھر چھوڑنا تھا۔ انتظار میں گھر کی چوکھٹ پر بیٹھی پروانہ کی نانی انھیں دیکھ کر ہاتھ ہلا نے لگیں۔

    ’’کھانا کھا کر جایئے ڈاکٹر صاحب!‘‘ پروانہ نے کار سے اترتے ہوئے کہا۔

    ’’اور تم کیا کھاؤگے؟‘‘

    ’’ہم پھر بنا لیں گے۔‘‘ اس نے خلوص کے ساتھ کہا۔ ڈاکٹر مسکرائیں اور پروانہ کو اگلے دن اپنی ڈسپنسری بلا لیا۔ تبھی کار کی کھڑکی پکڑکر کھڑی ہوئی پروانہ کے اوپر آسمان سے پانی کی کچھ بوندیں گریں۔ اس نے سر اٹھا کر پہاڑوں سے گزرتے ہوئے بادلوں کی طرف دیکھا۔ چند بوندیں اور اس کے چہرے پر گریں۔ اس نے ہتھیلیوں کو بے ساختہ پھیلا دیا۔ سوکھی ہتھیلیوں کو ٹھنڈی بوندیں سکون دینے لگیں۔ انہی اٹھے ہوئے ہاتھوں سے اس نے ڈاکٹر راحین کے بچوں کو ’بائے‘ کہا اور کار یو ٹرن لے کر کرجت کی طرف مڑ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے