Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پمپوش

دیپک کنول

پمپوش

دیپک کنول

MORE BYدیپک کنول

    فردوسہ کی زندگی جھیل ڈل کی اس شوریدہ سر موج سے کتنی مشابہت رکھتی تھی جسے ہوا کا ایک بے رحم تھپیڑا کنارے تک بہا کے لیجاتا ہے اور پھر یہ بے بس موج کنارے سے ٹکراکر پاش پاش ہو جاتی ہے اور آوارہ اور من موجی تھپیڑا نہال ہو کے کہیں اور نکل جاتا ہے۔ فردوسہ نے اپنی تمام تر زندگی اسی ڈل کے آغوش میں اسی جل ترنگ کی مانند گذاری تھی۔ اس کا گھر ڈل کے بیچوں بنے ٹاپو پر واقع تھا۔ یہ ٹاپو چاروں اور پانی سے گھرا ہوا تھا۔ دور سے دیکھنے بپر ایسا گمان گذرتا تھا جیسے نیلگوں پیمانے کے بیچوں بیچ زمرد کا رنگ سجا کے رکھا گیا ہو۔ اس ٹاپو تک پہونچنے کے لئے کوئی زمینی راستہ نہ تھا۔ یہاں تک پہونچنے کے لئے آمد رفت کا واحد زریعہ پانی کی یہ ننگ دھڑنگ کشتیاں تھیں جن کے اوپر نہ کوئی چھت ہوتی تھی اور نہ بیٹھنے کے لئے کوئی روئی یا فوم کا گدا۔ یہ بے چین اور خستہ حال کشتیاں ہمیشہ گھاٹ سے لگی رہتی تھیں۔

    فردوسہ کو اپنے چپو اور کشتی سے بے پناہ پیار تھا۔ اس کی زندگی بڑے نشیب وفراز سے گزری تھی۔ صیح معنوں میں اس کے دکھ سکھ کے ساتھی اس کی ناو اور اس کے چپو ہی رہے۔ جب بھی وہ اداس تھی تو یہی کشتی اسے اپنے سینے پر بٹھا کر اس ٹاپو سے کہیں دور لے جاتی تھی۔ جب بھی اُ س پر کبھی کوئی افتاد پڑی تو اسی ناو نے اسے اس آفت سے نکالا۔ اس نے اپنی عمر کی پچاس بہاریں اسی کشتی کے سہارے ڈل کے سینے پر چلتے پھرتے گذاری تھیں۔ بنا کسی یکسوئی کے۔ اس کی زندگی کا ہر پل ایک طوفان بنکر گذرا۔ اس ڈل میں اٹھتے تلاطم کی طرح۔ کب اس کا بچپن نکل گیا کب جوانی نے دستک دی، کب وہ ایک الہڑ اور شوخ لڑکی سے ایک مکمل عورت بن گئی، اسے پتا ہی نہیں چلا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چار چار بچوں کی ماں بن گئی۔ آنکھوں کے حلقوں کے گرد جھائیاں اور چہرے پر جھریاں پڑنے لگیں تب بھی وہ اسی ڈل کی گود میں بیٹھ کر اٹکھیلیاں کرتی رہی۔ بچپن سے لے کے جوانی تک کے اُسکی زندگی کے سارے پل اس ڈل کے سینے پر رقم تھے۔ وہ جب بھی اپنے شکارے پر بیٹھ کر ڈلگیٹ کے گھاٹ کی طرف بڑھتی تھی تو اس کی آنکھوں میں خوشی کی ایک لہر سی دوڑ جاتی تھی۔ بہت سارے مانوس چہرے دیکھ کر وہ کھل اٹھتی تھی اور پھر وہ شکارے سے بہت سارے پمپوش اٹھا کر لے آتی اور انہیں اپنے گراہکوں میں مسکراتے ہوئے تقسیم کرتی تھی جو صبح دم سے ہی اُس کے انتظار میں اس گھاٹ پریوں آس لگائے بیٹھاکرتے تھے جیسے وہ کوئی دیوی ہو جس کی ایک جھلک پا کر ان کے سارے پاپ دھل جائیں گے۔

    فردوسہ برسوں سے کمل کے یہ پھول) جنہیں کشمیری میں پمپوش کہا جاتا ہے) بیچا کرتی تھی۔ یہی اس کی آمدن کا زریعہ تھا۔ گل فروشی ان کا خاندانی پیشہ تھا۔ اس کے جد و اجداد بھی یہی کام کرتے تھے۔ اس کے دادا نے اسے پھول چننا سکھا دیا تھا۔ یہ پھول وہ بھور سے پہلے ہی ڈل کے پانیوں سے توڑ کر لاتی تھی اور پھر وہ یہ پھول ان تک پہونچاتی تھی جن کو ان پھولوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ ان پھولوں کی فضلیت کو سمجھتی تھی۔ ان کے تقدس کو پہچانتی تھی اسلئے وہ جب بھی گھر سے نکلتی تھی تو نہا دھو کر نکلتی تھی اور صاف و پاک ہوکے ہی وہ ان پھولوں کو ہاتھ لگاتی تھی۔ اس کے گراہک بندھے ہوئے تھے۔ ایک گنپت یار کا مادھو جو تھا جو کہ بڑا ہی نیک اور پارسا آدمی تھا اور جو پچھلی کئی دہائیوں سے اس سے یہ پھول خرید لیتا تھا۔ مادھو جو گنپت یار مندر کا پجاری تھا۔ برسوں سے وہ اس مندر میں یہ پھول چڑھاتا تھا۔ اس کی زندگی اسی پوجا ارچنا میں گذر گئی تھی۔ وہ فردوسہ کو تب سے جانتا تھا جب وہ اپنے دادا نبرؔ جو کا ہاتھ پکڑ کر چلتی تھی۔ نبر جو ؔکے مرنے کے بعد اسے مادھو جو میں اپنے مرحوم دادا کی شبہہ دکھائی دیتی تھی۔ اس کے پہلو میں بیٹھ کر اسے بڑی فرحت اور طمانیت محسوس ہونے لگتی تھی۔ اسی کی زبانی بچپن میں اسے یہ معلوم پڑا تھا کہ یہ کوئی عام پھول نہیں ہے بلکہ یہ بہت ہی مقدس اور متبرک پھول ہے۔ یہ پھول ہندو دیوی دیوتاؤں کو بےحد پسند ہیں جن میں شیو اور پاروتی کا نام اول تھا۔ وہ ہندو دھرم کے بارے میں زیادہ کچھ جانتی نہیں تھی ماسوائے اس کے کہ پاروتی اور لکشمی دو ایسی دیویاں ہیں جن کی ہندو پوجا کرتے ہیں۔ ایک بار مادھو جو اس کے لئے ایک بڑی سی رنگین تصویر لے کے آیا جس میں لکشمی کو پمپوش کے پھولوں پر بیٹھے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ جب سے اُسکے دل میں ان پھولوں کے تئیں ایک احترام اور عقیدت کا جذبہ پیدا ہوا تھا۔ جب بھی وہ یہ پھول توڑتی تھی تو توڑنے کے بعد وہ والہانہ نگاہوں سے ان پھولوں کو چند لمحوں تک نہارتی تھی اور پھر ان پھولوں کو ٹوکری میں رکھتی تھی۔ ان پھولوں کے ساتھ اسے ایک جذباتی لگاو تھا۔ وہ ان پھولوں کی زبان سمجھتی تھی۔ ان کے دکھ و درد کو محسوس کر سکتی تھی۔ ان کو مسکراتے ہوئے دیکھ سکتی تھی۔

    فردوسہ خود بھی اسی پمپوش کی طرح تھی۔ شدھ، صاف و پاک۔ مادھو جو جو کہ علم نجوم کا ماہر تھا۔ ایک بار اس نے فردوسہ کا ہاتھ دیکھا۔ اس کا ہاتھ دیکھنے کے بعد وہ بہت دیر تک اداس ہو کے خلا میں گھورتا رہا۔ وہ جتنی دیر خاموش رہا فردوسہ کا دل حلق میں پھنسا رہا۔ وہ شاید کچھ بول بھی نہ پاتا مگر فردوسہ ایسے سر پڑ گئی کہ نہ چاہتے

    ہوئے بھی اسے فردوسہ سے یہ کہنا پڑا کہ اس کی شادی شدہ زندگیپریشانی اور کٹھنائیوں سے بھری رہےگی۔ فردوسہ نے باہر سے کوئی ردِ عمل ظاہر نہ کیا البتہ وہ اندر سے دہل کے رہ گئی۔ ان دنوں اس کا دادا حیات تھا اور گھر کے سارے فیصلے اسی کی رضا و رغبت سے لئے جاتے تھے۔ مادھو جوؔ نے جب نبر جو کو جیوتش ودیا کے حوالے سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ فردوسہ کی شادی خوب دیکھ پرکھ کے ہی کرے ورنہ اُسے ساری زندگی پچھتا نا پڑےگا تو نبر جوؔ نے اس کی اس پیش گوئی کو مذاق میں اڑایا۔ مادھو جو نبر جوؔ کا بہت پرانا دوست تھا۔ وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس سے رائے مشورہ ضرور لیتا تھا مگر فردوسہ کی ازدواجی زندگی کے بارے میں اس کی پیشن گوئی کو اس نے سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ دراصل وہ توہمات کا کبھی بھی قائل نہ رہا تھا۔ وہ توکل والا آدمی تھا۔ وہ ہر کام خدا کے بھروسے پر کرتا تھا۔

    نوردین ایک نوجوان ملاح تھا جو ان ہی کی ذات براداری سے تعلق رکھتا تھا۔ دیکھنے میں وہ سوکھا مریل سا لگتا تھا۔ ایکدم مرزا پھویا مگر لڑنے بھڑنے میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس کے اندر جیسے خون کی جگہہ بارود بھرا پڑا تھا جبھی تو وہ آگ دیکھ کے دہکنے لگتا تھا۔ وہ بڑا ہی اکھڑ، سڑیل اور چپڑ قناتیا تھا۔ نہرو پارک گھاٹ کا وہ بے تاج بادشاہ تھا۔ وہ صبح سویرے اپنی سجی دھجی کشتی لے کر گھاٹ پر پہونچ جایا کرتا تھا اور نمبر نہ ہوتے ہوئے بھی پہلی سواری لپک لیتا تھا۔ اب اگرنمبر والے نے احتجاج کے طور پر سواری روک لی تو نوراؔ جامے سے باہر ہو جاتا تھا اور پھر وہ دوڑ کر اپنی ناؤ سے چپو اٹھا کر لاتا تھا اور چپو کو پوری طاقت سے ہو امیں لہرا کر وہ سب کو چیلنج کرتا تھا۔ شکارے والے ڈر کے مارے ادھر ادھر جاکر چھپ جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ناحیا والا اپنی حیا سے ڈرا، بے حیا سمجھا مجھ سے ڈرا۔ نوراؔ یہی سمجھتا رہا کہ وہ اس سے خائف ہیں اس لئے وہ شیر ہو گیا تھا۔ اس کے سنگی ساتھی رگڑے جھگڑے میں پڑنا نہیں چاپتے تھے اسلئے وہ ایسے غنڈے موالی سے دور رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ اس کے منہ لگنا بھڑکے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔ وہ کب کسے کاٹ پھاڑ ڈالے اسکے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا بے فضول تھا۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر ابل پرتا تھا اور کسی کے ساتھ بھی دست وگریبان ہونے میں عار محسوس نہیں کرتا تھا۔ اُس کی اس غنڈہ گردی کی وجہ سے نہرو پارک گھاٹ کے سبھی شکارے والے دکھی اور پریشان تھے پر اس سے دو دو ہاتھ کرنے کا کسی میں یارانہ تھا۔ پیٹھ پیچھے لوگ اسے تبرہ بھیجتے تھے۔ منہ پرتو اسی کی تُک میں تک ملایا کرتے تھے۔ نورا ؔ کواس غنڈہ گردی کا فائدہ یہ ہو رہا تھا کہ اُس کی کمائی دوسرے ملاحوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ہوا کرتی تھی۔ ٹورسٹ سیزن میں تو وہ اچھی خاصی کمائی کرتا تھا پروہ کہتے ہیں نا کہ کنوئیں کی مٹی کنوئیں کو ہی لگتی ہے۔ نورا بھی اپنی حرام کی کمائی دارو میں بہا دیتا تھا۔ اسے شراب نوشی کی ایسی لت لگ چکی تھی کہ دارو کے بنا وہ ایک رات بھی گزار نہیں پاتا تھا۔ کام سے خلاصی پاتے ہی وہ اپنے سنگی ساتھیو ں کے ساتھ لبہ کولؔ کے بار میں پہونچ جایا کرتا تھا اور رات گئے تک وہ خم کے خم چڑھائے جاتے تھے۔

    نوراؔ فردوسہ کے پڑوس میں ہی رہتا تھا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ سانپ سب جگہ ٹیڑھا چلتا ہے پر اپنی بانبی میں سیدھا جاتا ہے۔ وہ گھر میں ایسے رہتا تھا جیسے منہ میں زبان ہی نہ ہو۔ وہ فردوسہ کو دل ہی دل میں پیار کرتا تھا پر نبر جوؔ کے ڈر سے اظہار نہیں کر پاتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جب تک وہ نبر جوؔ کو اپنے حق میں ہموار نہیں کرپائےگا اس کے پیار کا جذبہ اسی طرح سینے میں دبا رہےگا۔ اس نے نبر جوؔ کو شیشے میں اتارنے کا فیصلہ کیا۔ جونہی نبر جوؔ گھاٹ کی طرف نکل آتا تھا تو وہ دوڑ کر گھاٹ پر کھڑا ہو جاتا تھا اور پھر وہ ہاتھ باندھے تب تک کھڑا رہتا جب تک نبر جوؔ ناؤ سے اترتا نہیں تھا۔ اترتے ہی اوروہ اُسکا ہاتھ تھام کر اُسے گھاٹ پر لے آتا تھا اور پھر چنار کے چھتنار سائے میں اسے بٹھاکر وہ دوڑ کر حقہ لے آتا تھا۔ اپنے ہاتھوں سے چلم بھرکے وہ اسے سلگا کر گرم کرتا تھا حقہ گرم ہونے کے بعد وہ نَے نبر جو ؔکی طرف بڑھاتا تھا۔ نبر جوؔ نوراؔ کی فرماں برداری کو دیکھ کر نہال ہو جاتا تھا۔ وہ اتنا زیرک ہونے کے باوجود نوراؔ کے ارادے کو بھانپ ہی نہیں پایا۔ فردوسہ کے لئے رشتے پر رشتے آ رہے تھے پر نبر جوؔ اپنی پوتی کا رشتہ برادری سے باہر کرنا نہیں چاہتا تھا۔ ایک دن نوراؔ نے اپنے ایک رشتےدار کو نبر جو ؔ کے پاس تھاہ لینے بھیجا۔ نورا ایکدم ناٹھا نگوڑا تھا۔ آگے ناتھ نہ پیچھے پگھا۔ سبھی ماں باپ کی یہی خواہش رہتی ہے کہ اُنکی بیٹی جس گھر میں جائے اس گھر میں اسی کا راج ہو۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔ نبر ؔ جو تو پہلے سے ہی مراد باندھے بیٹھا تھا نورا کا رشتہ کیا آ گیا وہ جیسے مراد پا گیا۔ اس نے فوراََ اس رشتے پر اقرار کی مہر ثبت کی۔ کئی رشتہ داروں نے نوراؔ کے چال چلن کو لے کر اپنے اپنے خدشات ظاہر کئے مگر نبرؔ جو پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ تو پہلے سے ہی یہ تہیہ کرکے بیٹھا تھا۔ مادھو جو کے انتباہ اور رشتہ داروں کے احتجاج کے باوجواُسنے نورا کے حق میں ٖفیصلہ دے دیا۔

    شادی بیاہ کے معاملے میں نوراؔ قسمت کا دھنی ثابت ہوا۔ وہ فردوسہ کا پاسنگ برابر نہیں تھا پھر بھی فردوسہ کے نکاح نوراؔ سے ہو گئے۔ نکاح کے چند مہینے بعد نبر جوؔ اللہ کو پیارا ہو گیا۔ جب تک نبر جو زندہ تھا نوراؔ قاعدے سے رہا۔ نبر جوؔ نے آنکھیں کیا موند لیں نوراؔ اپنی اصالت پر آ گیا۔ دن بھرگھاٹ پر اس کی کسی نہ کسی سے لے دے چلتی ہی رہتی تھی رات ہوئی نہیں وہ لبہ کول کے بار پر پہونچ جایا کرتا تھا۔ جب وہ گھر لوٹتا تھا تو نشے میں دھت ہوتا تھا۔ آتے ہی وہ گھر میں ہنگامہ کھڑ ا کر لیتا تھا۔ کبھی سالن کو لے کے بیوی کی تھکا فضیحتی کی تو کبھی ٹھنڈے چاول کو بہانہ بناکر اسے لتے لے لیا۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا جب وہ اپنی بیوی کو چار باتیں سنا نہ ڈالتا تھا۔ فردوسہ کو مادھو جو کی کہی باتیں یاد آتی تھیں اور وہ اپنے نصیب کو رونے لگتی تھی۔ شاید مقدر کا لکھا بدلتا نہیں۔ بدلتا ہوتا تو اس کا دادا اسے اجگر کے منہ میں کیوں جھونک دیتا۔ وہ بھی سبھی رشتہ داروں کے منع کرنے کے باوجود۔

    دیکھتے ہی دیکھتے فردوسہ کی گود ہری بھری ہو گئی۔ وہ چار بچوں کی ماں بن گئی۔ باپ بننے کے باوجود نوراؔ کے رویے میں کوئی بدلاو نہ آیا۔ وہ پہلے سے زیادہ چڑچڑا اور سفاک بن گیا۔ شروع شروع میں پاس پڑوسی ان کے جھگڑے ٹنٹے کے بیچ میں کود جایا کرتے تھے۔ ایک دن جب نور اؔنے اُن کو بھی آڑھی ترچھی سنا ڈالی تو انہوں نے میاں بیوی کے ٹنٹے سے دور رہنا ہی بہتر سمجھا۔ وہ روز روز کے اس حیص بیص سے کافی دکھی اور پریشان تھے پر نورا جیسے غنڈے موالی کے منہ کون لگتا اس لئے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پتا مار کر بیٹھ جاتے تھے۔ آئے دن کے یہ رگڑے جھگڑے تو اب روز کا قصہ بن چکا تھا۔ فردوسہ تو اب ان ساری باتوں کی عادی ہو چکی تھی۔ وہ رو دھو کے جتنے پیسے اُسے دے جاتا تھا اُس میں نون تیل کا خرچہ بھی پورا ہونا مشکل تھاپھر بھی فردوسہ زبان پر ایک شکایت کا لفظ تک نہ لاتی تھی۔ وہ باپ ہو کے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اس نے بچوں کی پرورش کا ذمہ بیوی کے سر پر ڈال دیا تھا۔ ایسے میں فردوسہ کی کمائی کیمیا کا کام کر جاتی تھی۔ وہ پمپوش کے ان مقدس پھولوں کو بیچ کر نہ صرف گھر چلاتی تھی بلکہ چار پیسے پس انداز کرکے بھی رکھتی تھی جو آڑے وقت میں کام آتے تھے۔

    زندگی جیسی بھی تھی یکسوئی اور اطمینان سے گزر رہی تھی۔ فردوسہ کے چاروں بچے باقاعدگی کے ساتھ اسکول جایا کرتے تھے۔ وہ اپنے بچوں کو ایک اچھی زندگی دینے کی خواہاں تھی۔ وہ انہیں باپ کے نقش وقدم پر چلتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ باپ کی دیکھا دیکھی میں بچوں کا ابتدا ہی بگڑ جائے اور وہ گمراہ ہو کر ابھی سے اپنی عاقبت بگاڑ کے بیٹھ جائیں اس لئے وہ انہیں اپنے باپ کے سایے سے بھی دور رکھتی تھی۔ اس کا تو بس ایک ہی ارمان تھاکہ اس کے بچے پڑھ لکھ کر اچھے شہری بنیں۔ چاروں بچے پڑھنے لکھنے میں بڑے تیز تھے۔ وہ ماں کی بڑی قدر کرتے تھے۔ اُسی کی بات مانتے کیونکہ ان کا لگاو ماں کی طرف زیادہ تھا۔ باپ کو تو وہ ٹھینگا دکھاتے تھے۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی ان کے منہ اتر جاتے تھے۔ سب سے زیادہ تو انہیں اس کی مئے خوری سے چڑ تھی۔ وہ جب نشے میں غین ہوکر کبھی فردوسہ پر ہاتھ اٹھا لیتا تھا تو وہ ماں کی حمایت میں مٹھیاں تان کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ نور محمد باہر سے جتنا مظبوط دکھائی دیتا تھا اندر سے وہ اتنا ہی کمزور تھا۔ بچوں کے جارحانہ تیور دیکھ کر ہی وہ دبک کے بیٹھ جاتا تھا اور پھر کسی خالی کونے کھدرے میں بیٹھ کر بدر بدر کرتا رہتا تھا۔

    اچانک ایک دن سب کچھ بدل گیا۔ وادی میں بڑے پیمانے پر شورش کی ابتدا ہوئی۔ بغاوت کی لہر کیا اٹھی سب کچھ بکھر کے رہ گیا۔ آئے دن ہڑتالیں اور کرفیو روز کا معمول بن گیا۔ کبھی کراس فائرنگ میں عام شہری مارے جاتے تھے اور کبھی بم دھماکوں میں قیمتی انسانی جانیں تلف ہوتی تھیں۔ کئی ٹورسٹ اس تشدد میں جان بحق ہو گئے۔ اس کے بعد ٹورسٹوں نے وادی کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ جو ہاوس بوٹ سیا حوں سے بھرے رہتے تھے وہ ایکدم ویران ہو گئے۔ کاروبار ٹھپ ہو کے رہ گیا۔ لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے۔ اس ساری ہنگامہ آرائی میں ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ نورا اب گھر میں ہی پڑا رہتا تھا۔ اب وہ طلب ہونے کے باوجود شراب نہیں پیتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ چند دین داروں نے اسے ایک دن نشے کی حالت میں پکڑا اور پھر اُسے بے بھاو کی دے ڈالی۔ چار چوٹ کی مار کھانے کے بعد وہ ادھ موا ہو کر رہ گیا۔ جاتے جاتے انہوں نے اس کی کنپٹی پر ریوالور تان کر اسے متنبہ کیا کہ آئندہ اگر اسے نشہ کرتے ہوئے پکڑا گیا تو اس کا سر قلم کر دیا جائےگا۔ نورا پر اس واقعے کے بعد ایسی ہیبت طاری ہو گئی کہ وہ دن میں بھی گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا۔ کبھی اسے ایک سگریٹ کا پیکٹ منگانا ہوتا تو وہ اپنے بچوں کے پاؤں پکڑ کر انہیں بازار بھیج دیتا تھا۔ اس کے بیکار ہونی کے سبب اب گھر کا سارا بوجھ فردوسہ کے سر پرآ پڑا تھا۔ وہ اکیلی جان حالات سے کیسے لڑپاتی۔ وادی کے حالات تو ایسے ہو گئے تھے کہ گھر سے باہر نکلنے کا جھوکھم بھی کوئی لینے کے لئے تیار نہ تھا ایسے میں وہ پھول لے کے کہاں بیچ کے آتی۔

    جب گھر کے حالات کافی ابتر ہونے لگے تو ایک دن وہ سر پر کفن باندھ کر اپنی ناو لے کر سویرے سویرے نکل گئی اور کچھ پھول توڑ کر گھاٹ پر پہونچ گئی۔ وہجب گھاٹ پر پہونچ گئی تو اسے ایک بھی پنڈت دکھائی نہیں دیا جو کہ اس کے مستقل خریدار تھے۔ گھاٹ تو مرگھٹ کی طرح ویران پڑا تھا۔ گھاٹ کی یہ ویرانی دیکھ کر اُس کا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ وہ اداس اور مغموم ہو کر واپس گھر کی طرف لوٹ گئی۔ راستے میں ناو کھیتے کھیتے اس کی آنکھوں سے آنسوں کی جھڑی لگ گئی۔ وہ ایسے رونے لگی جیسے اس کا کوئی عزیز مر گیا ہو۔ بہت دیر تک وہ پانی کی خاموش لہروں کو اپنے دکھ کا فسانہ سناتی رہی۔

    وہ روز پھول لے کے گھاٹ پر پہونچ جایا کرتی تھی پر اسے یہ پھول خریدنے والا کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پتہ چلا کہ جوان پھولوں کے خریدار تھے وہ اس وادی سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ وہ ہفتوں مہینوں ان کا انتطار کرتی رہی پر ان میں سے کوئی لوٹ کر نہیں آیا۔ اس کے پھول پڑے پڑے سڑتے رہے پر وہ ان پھولوں کو کسی اور کے ہاتھ بیچنے پر تیار نہ ہوئی۔ گھر کی حالت دیکھ کر وہ بڑی آزردہ اور پریشان ہوئے جا رہی تھی۔ نوراؔ بھی اب آٹھوں پہر گھر میں ہی پڑا رہتا تھا۔ اس کا دھندہ تو بالکل ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا۔ ڈل کے باسی ٹورسٹ کی صورت دیکھنے کے لئے ترس گئے تھے۔

    نوراؔ ایک طرف اپنی طلب سے پریشان تھا اور دوسری طرف مسلسل بیمار رہنے کے سبب وہ زندگی سے بیزار ہوکے بیٹھا تھا۔ ایک صبح جب فردوسہ نیند سے اٹھی تو یہ دیکھ کر وہ دھک سے رہ گئی کہ نوراؔ اپنے بستر پر نہیں تھا۔ وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں گئی، وہ وہاں بھی نہیں ملا۔ وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے کو کھنگالتی گئی پر وہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔ اس نے بچوں کو جگایا اور انہیں باپ کی کھوج میں لگا دیا۔ دوپہر ہوئی وہ کہیں نہ ملا۔ انہوں نے ٹاپو کا چپہ چپہ چھان مارا۔ انہیں اس کی گرد تک نہ ملی۔ فردوسہ چھاتی پیٹ پیٹ کر رونے لگی۔ اسے لگا کہ نوراؔ نے تنگ آکر جان دے دی ہے۔ شام کو جب یہ خبر ملی کہ نوراؔ جموں بھاگ گیا ہے تو فردوسہ کی جان میں جان آ گئی اوریہ سوچ کر اس نے سجدہ شکر منا لیا کہ نوراؔ مرا نہیں زندہ ہے۔

    فردوسہ کے گھر کی حالت دن بہ دن خستہ ہوئی جا رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ اس طرح بھوکے پیاسے مرنے سے اچھا ہے کہ وہ کمل ککڑی نکال کر بیچے۔ کمل ککڑی جو کہ کمل کے پھول کی ڈنڈی ہوتی ہے اور جس کو کشمیری زبان میں ندرو کہتے ہیں، سبزی کے طور پر استمال کی جاتی ہے۔ اس کی ہمیشہ کشمیر میں مانگ بنی رہتی ہے۔ یہی فیصلہ کرکے جب وہ صبح سویرے ناو میں بیٹھ کر ڈل کے بیچوں بیچ پہونچ گئی تو یہ دیکھ کر وہ دھک سے رہ گئی کہ سارے پمپوش مرجھا گئے تھے۔ اُس نے اس سے قبل کبھی بھی ان پھولوں کو اس طرح مرجھائے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ وہ پورے دن اُداس اور افسردہ رہی۔ رات کو اس نے ٹھیک سے کھانا بھی نہیں کھایا۔ اس کا جی کر رہا تھا کہ وہ دہاڑیں مار مار کر روئے۔ وہ یہ سوچ کر مری جارہی تھی کہ آخر پمپوش مرجھانے کیوں لگے ہیں۔ کیا موجودہ حالات سے ان پھولوں کا کوئی تعلق ہے؟

    رات کو اس نے ایک ڈراونا خواب دیکھا۔ خواب میں اس نے مادھو جو کو دیکھا جو خون میں لت پت تھا اور جو ہر آنے جانے والے سے بس ایک ہی سوال کر رہا تھا، ”مجھے پمپوش کب لا کر دوگے۔ یہ دیکھو میرا شیو ناتھ پمپوش دیکھنے کے لئے کس طرح ترس رہا ہے۔“

    وہ ہڑبڑاکر اٹھی اور بین کرکے رونے لگی۔ اس نے پچھلے کئی سالوں سے مادھو جو کی کوئی خیر خبرلی ہی نہیں تھی۔ اس کا کلیجہ پھٹا جانے لگا۔ وہ اس سے ملنے کے لئے تڑپ اٹھی۔ اس نے دیوار پر لگے وال کلاک کی طرف دیکھا۔ صبح کے چھ بج چکے تھے۔ وہ سرعت سے اٹھی۔ غسل خانے میں جاکر پہلے نہا ئی دھوئی پھر نیا پھرن پہن کر وہ ناؤکی طرف بڑھی اور ناؤ میں بیٹھ کروہ اُسے تیزی سے اس اور کھینے لگی جہاں پر پمپوش کھلے ہوتے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ پھول کی طرح کھل اُٹھی کہ آج بہت سارے پمپوش اس کے چشم براہ تھے۔ اُس نے جلدی سے چند پھول توڑے اور پھر اپنی ناؤ میں بیٹھ کر وہ اسے ڈل گیٹ گھاٹ کی طرف کھینے لگی۔

    گھاٹ پر پہونچ کر اس نے اپنی ناؤ کو ایک کھونٹے سے باندھا اور وہ سڑک پر آکے کھڑی ہو گئی۔ اس نے لال چوک جانے والی بس پکڑ لی۔ بس کچھوے کی چال سے چلتی جا رہی تھی۔ فردوسہ اندر ہی اندر اُبل رہی تھی۔ اس کے اندر صبر کا یارانہ تھا۔ جونہی بس زرا سی دھیمی ہوئی تووہ بس سے اتر گئی اور پیدل ہی گنپت یار کی اور لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگی۔ اس کے دل میں جذبات کاا یک تلاطم اٹھ رہا تھا۔ ایک ایسا طوفان جو ضبط کے سبھی باندھ توڑ کے نکل جانا چاہتا تھا۔ وہ آج اس شخص سے ملنے جا رہی تھی جسمیں اسے اپنے دادا کی شبہہ نظر آتی تھی۔ وہ سوچنے لگی کہ وہ کس طرح مادھو جو کا سامنا کر پائےگی۔ کیا وہ اسے اس بات کے لئے ڈانٹےگا نہیں کہ اسنے آ ڑ ے وقت میں اُ سکی ایک بار بھی سدھ نہ لی۔ وہ ان ہی سوالوں میں الجھی ہوئی جب گنپت یار مندر کے اندر ہونچ گئی تو یہ دیکھ کر اس کا دل بلیوں اچھل پڑا کہ مندر میں شیو کی مورتی کی جگہہ خود مادھو جو براجمان تھا۔ وہ اپنے خوشی کے آنسو روک نہ سکی اور بےقابو ہو کر اس نے اپنی تھیلی میں رکھے سارے پمپوش نکال کر اس کی طرف اچھال دئے اور پھر وہ ریلینگ کے ساتھ لگ کر پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی۔ رونے کی آواز سن کر باہر پہرہ دے رہے سی۔ آر۔ پی۔ کے کچھ جوان بندوقیں تانے اندر آ گئے۔ ایک عورت کو مندر کے اندر دیکھ کر وہ سناٹے میں رہ گئے۔ اُنہوں نے ہڑ بڑاہٹ میں اسے پکڑ لیا اور اُسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے جانے لگے۔ وہ مسلسل روتی چلاتی رہی شور سن کر مندر کا نیا پجاری اپنے کمرے سے باہر آ گیا۔ اس نے جب ایک مسلم خاتون کی یہ دردشا دیکھی تو اس نے اُسے جوانوں سے چھڑا لیا اور اُسے ایک کونے میں بٹھا کر پوچھا، ”تم اس مندر میں کیسے آ گئی ہو بہن؟“

    ”وہ جو مادھو جو اندر بیٹھا ہے نا میں اسی سے ملنے آئی ہوں!“

    ”مادھو جو اندر بیٹھا ہے؟“ اس نے چونک کرپہلے اس کی طرف دیکھا اور پھر اس کے سراپا کا ایک طائرانہ جائزہ لے کر بڑی رقت بھری آواز میں بولا۔

    ”تمہیں بھرم ہوا ہے بہن۔ مادھو جو یہاں کہاں ہو سکتا ہے۔ اسے تو مرے ہوئے ایک سال ہو گیا۔ پچھلے سال جموں میں سانپ کے کاٹنے سے اس کی موت ہو گئی“

    ”نہیں!“ وہ تڑپ کر کھڑی ہو گئی اور پھر سختی سے بولی”تم جھوٹ بول رہے ہو۔ مادھو جو کبھی مر نہیں سکتا۔ وہ اندر بیٹھا ہو ا ہے۔ میں نے خود اسے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہ اس طرح مجھ سے پمپوش لئے بنا کیسے جا سکتا ہے۔ وہ اگر چلا گیا تو پھر اس وادی میں پمپوش کبھی نہیں کھل پائیں گے۔ کبھی نہیں“

    کہکر وہ پنڈت کے کاندھے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روتی ہی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے