Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پرایا گھر

جیلانی بانو

پرایا گھر

جیلانی بانو

MORE BYجیلانی بانو

    کہانی کی کہانی

    مادی دنیا میں خونی رشتوں کا معیار بھی دولت ہے۔ ایکسیڈنٹ میں زخمی ایک شخص کے ذہن پر چوٹ کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ اسے سب کچھ پرایا لگنے لگتا ہے یہاں تک کہ اپنا گھر اور گھر والے بھی۔ اسے خاص نگہداشت کی ضرورت ہے لیکن گھر کا کوئی فرد اس کے پاس نہیں ہوتا، وہ صرف پنشن کے فارم پر دستخط کرانے اس کے پاس آتے ہیں۔

    تمام گھر ایک جیسے ہیں، کہیں میں کسی اور گھر میں نہ پہنچ جاؤں۔

    جب وہ مجھے ہاسپٹل سے گھر لے جارہے تھے تو میں بار بار یہی سوچ رہا تھا۔

    ہسپتال کے ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ کار کے حادثے میں مجھے شدید چوٹ آئی تھی۔ مگر وہ سب جھوٹے ہیں، اگر مجھے چوٹ لگی تھی تو اس کااحساس کیوں نہ ہوا۔

    وہ سب مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھتے رہے اور ہر وقت میرے بستر کے پاس پہرہ دیتے رہتے تھے جیسے میں اٹھ کر کہیں بھاگنے والا ہوں۔

    آخر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔

    وہ لوگ مجھے جانے کس پرائے گھر میں چھوڑ گئے، جیسے ہی مجھے سب نے پکڑ کر بستر پر لٹایا کوئی عورت زور زور سے چلانے لگی، ’’ہائے یہ کیا ہوگیا۔ نہیں نہیں، یہ میرا حامد نہیں ہوسکتا۔ اسے کچھ نہیں ہوا۔‘‘

    اور پھرکسی بچے نے پوچھا، ’’امی یہ چادر اوڑھے کون لیٹا ہے، ابا کے پلنگ پر؟‘‘

    اب تو اس میں کوئی شک نہ رہا کہ میں غلطی سے کسی اور کے گھر میں آگیا ہوں۔ مجھے ہمیشہ اسی بات کا ڈر لگا رہتا تھا کہ اگرمیں بھول کر کسی اور کے گھر میں گھس جاؤں تو کیا ہوگا؟ کہیں گھر کے مرد نہ آجائیں۔۔۔ چلو بھاگو، بھاگو۔ مگر لوگ مجھے چاروں طرف سے پکڑے بیٹھے ہیں۔

    ’’چپ رہو۔۔۔ چپ رہو بھابی۔‘‘ دوسرے کمرے میں کوئی مرد سب کو چپ کراتا پھر رہا ہے۔ ’’تم لوگ اتنا شور مچاؤگے تو وہ اوربھی پاگل ہوجائے گا۔۔۔ اب کسی طرح اسے بہلاؤ تاکہ اس کا جی گھر میں لگے۔‘‘

    بہلاؤ۔۔۔ بہلاؤ کیا معنی! یعنی میں اپنا گھر چھوڑ کے اس گھر میں رہ پڑوں۔ آخر یہ ہے کون بزدل جو اپنی بیوی کو خود نہیں پال سکتا اور مجھے زبردستی اپنے پلنگ پر سلا رہا ہے۔ ہو نہ ہو یہ سب لٹیرے ہیں، مجھے لوٹناچاتے ہیں۔ میری کنجیاں کہاں گئیں! میری کنجیاں دے دو۔

    افوہ جانے کس احمق کاگھر ہے کہ روشنی کا کمرے میں نام بھی نہیں ہے۔

    آج ابھی تک سورج کیوں نہیں نکلا۔ کہیں اسے بھی کسی اور گھر میں قید نہ کردیا ہو۔

    یا شاید اب رات ہو۔۔۔ مگر رات آئی کدھر سے؟ رات ہوتی تو چاند تارے چھت پر نکلتے۔۔۔ چنداماموں دور کے۔۔۔ چنداماموں آؤ آؤ۔۔۔ کون آیا ہے؟ کیا سورج صاحب آگئے۔ ہاں سورج کو اب آجانا چاہیے۔ اگر کسی دن صبح ہوجائے اور سورج نہ نکلے تو کیا غضب ہو۔

    پھر میں نہ تو شیو کرسکوں گا نہ چائے پی سکوں گا۔ بھلا اس اندھیرے میں کوئی شیوکرسکتا ہے، کہیں اپنی گردن ہی نہ کاٹ لوں۔ ہسپتال کا ڈاکٹر کہتا تھا کہ اب اپنے ہاتھ سے شیو مت کرنا۔۔۔ کیوں۔۔۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ کار کے حادثے میں میرے ہاتھ بھی کٹ گئے ہیں۔

    اب شیو کا سامان بھی کیسے ملے گا! میری کنجیاں ہی کھو گئی ہیں۔ میری ہر چیز غائب ہے۔ ڈاکو میری ساری دولت لے بھاگے ہیں۔ اس گھر میں تو چوروں کی بستی آباد ہے۔ وہ سب مجھے تعجب سے دیکھتے ہیں۔۔۔ آپس میں کانا پھوسی کرتے ہیں۔ اور کھانا لے کر آنے والا فضلو تو مجھے دیکھ کر زور زور سے ہنستا ہے۔ بدتمیز، جاہل، گنوار۔۔۔

    شاید وہ سب بیچارے کسی حادثے میں پاگل ہوگئے ہیں۔ مثلاً کہیں کار میں جارہے ہوں گے کہ اچانک۔۔۔ افوہ۔۔۔ میرے سر میں کیسا شدید درد ہو رہاہے۔ یقیناً کسی نے میرے سر پر پتھر مارا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ میں بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دوں۔ سب کا مار مار کے بھرکس نکال دوں۔

    مگر اس وقت تو اتنے نرم بستر سے اٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا ہے اور پھر اس آدمی سے بھی ڈر لگ رہا ہے جو دروازے کے اوپر ایک چھوٹی سے کھڑکی میں بیٹھا جھانکتا رہتا ہے۔ میری طرف بڑی طنز بھری نظروں سے دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔ کیوں کیسے پکڑے گئے؟

    ’’جاؤ۔۔۔ یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔ مجھے چھوڑدو۔‘‘ میرے چیخنے کی آواز سن کر ایک موٹی سی تھل تھل عورت اندر آتی ہے۔ اس عورت کانام نمو ہے۔

    (مجھے جانے کیسے یہ بات معلوم ہوگئی ہے؟) وہ یہ ڈھونگ رچائے ہوئے ہے کہ میں اس کا شوہر ہوں۔۔۔ یہ بھی خوب رہی۔۔۔ اتنی قابلِ نفرت، بدشکل اور بھدی عورت میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ میں اس سے صاف صاف بات کرچکا ہوں کہ فی الحال تو میں تمہیں جوتے سے بھی چھونے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس کے باوجود وہ کئی کئی بار کمرے میں آکر مجھے ڈانٹتی ہے، چپ چاپ لیٹے رہنے کا حکم دیتی ہے۔ اس بات سے مجھے کچھ شبہ ہوتا ہے کہ وہ یقیناً اگلے جنم میں کسی نہ کسی مجھ جیسے مظلوم انسان کی بیوی ضرور ہی ہوگی۔

    اس وقت بھی وہ اندر آکر پوچھتی ہے، ’’کون آیا ہے۔ آپ کسے ڈانٹ رہے ہیں؟‘‘

    ’’یہ آدمی! آخر یہ چوبیس گھنٹے مجھے کیوں گھورے جاتا ہے۔‘‘ میں ہاتھ اٹھاکر کھڑکی میں بیٹھے اس آدمی کو ٹھینگا دکھاتاہوں۔

    ’’یا اللہ۔۔۔ میرے اوپر رحم کر‘‘، نمو اپنے ماتھے پرہاتھ مار کے کہتی ہے۔

    ’’وہ بھی کوئی آدمی ہے جس سے آپ ڈر رہے ہیں۔ وہ تو آپ کا فوٹو ہے۔ کیا آپ اپنے آپ کو بھی بھول گئے۔‘‘

    نہیں۔۔۔ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ وہ آدمی میں ہوں۔ اگر وہ آدمی ’میں ہوں تو پھر ’میں کون ہوں؟ ہم دونوں میں اصل ’میں کون ہے۔ یہ تو بڑی گڑبڑ ہوگئی۔ اگر کسی کو معلوم ہوگیا کہ اصل ’میں کوئی اور ہے تو کیا ہوگا؟ اب مجھے جلدی سے کہیں چھپ جانا چاہیے، میری رضائی کہاں گئی۔ اب چاہے مجھے کوئی کتنا ہی پکارے، میں ہرگز جواب نہیں دوں گا۔

    دوسرے کمرے میں کوئی بار بار میرا نام لے کر کچھ کہہ رہاہے۔

    ’’وہ پاگل نہیں ہوا ہے۔۔۔ تم لوگ اسکاعلاج نہیں کرواتے۔ کیونکہ تم میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ پھر صحت مند ہوکر تمہاری گردن پر سوار ہوجائے۔‘‘

    ’’اتنی جائیداد۔۔۔ بینک بیلنس۔۔۔ سات سو روپے پنشن۔‘‘

    یہ آدمی یقیناً نموکا شوہر ہے۔ ممکن ہے اب پاگل ہوگیا ہو۔ یا پھر وہ سب مل کر مجھے پاگل بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔ مجھے دوٹکڑوں میں بانٹ کر اوپر لٹکادیا گیا ہے۔ یہ لوگ مجھے ہسپتال سے اغوا کرکے لائے ہیں۔

    کون ہے۔۔۔ کون میری رضائی کھینچ رہا ہے۔۔۔ میں یہاں نہیں ہوں میں تو اوپر کھڑکی سے جھانک رہا ہوں۔

    نمو پھر میرے پاس آئی ہے۔ اس کے ہاتھ میں انگوروں سے بھری ایک پلیٹ ہے اور ساتھ میں چند تماشائی بھی ہیں۔ جنہیں وہ میرا تماشہ دکھانے لائی ہے۔

    وہ بڑی محبت سے انگور میرے منہ میں رکھ کر کہتی ہے، ’’حامد۔۔۔ ذراہوش میں آئیے۔۔۔ دکھیے آپ کی چچی اماں آئی ہیں۔۔۔ نشاط اور اختر آئے ہیں۔ کیا آپ انہیں بھی بھول گئے۔‘‘

    ’’کیسے مزاج ہیں‘‘، ایک صاحب میرے قریب بیٹھ کر پوچھتے ہیں۔

    ’’اچھا اچھا، سمجھ گیا‘‘، میں اس آدمی کو پہچان کر کہتا ہوں۔

    ’’تم ہسپتال والے ہو، مجھے انجکشن دینے آئے ہو‘‘، میں جلدی سے اٹھ کر اپنے بچاؤ کے لیے گلدان ہاتھ میں اٹھالیتا ہوں۔

    ’’چلے جاؤ۔۔۔ یہاں سے چلے جاؤ، ورنہ سب کے مزاج بحال کردوں گا۔‘‘

    پھر میں روتی ہوئی نمو کو بھی ایک لات جھاڑ کر کہتا ہوں، ’’بس کرو ایکٹنگ۔۔۔ میں مداری کا بندر نہیں ہوں، تم جس کا تماشہ سب کو دکھاتی ہو۔ کہو تو ابھی سب کے سامنے تمہارا بھی تماشہ شروع کردوں۔‘‘

    اب تو اس گھر سے بھاگنا ہی پڑے گا۔ واہ کیسا مزہ آئے گا جب کسی دن یہ لوگ مجھے اس بستر پر نہ پائیں گے اور چلاچلاکے میری جائیداد اور پنشن کے لیے روئیں گے۔

    مگر اس دوسرے ’میں ‘نے تو سارامعاملہ ہی چوپٹ کردیا ہے۔ وہ کم بخت ہر وقت میری نگرانی کرتاہے۔ آخر میں کیوں دو حصوں میں ٹوٹ گیا۔ ایسا ٹوٹا پھوٹا انسان کرے تو کیا کرے؟

    اس دن میرے کمرے میں دو بچے بھیجے گئے۔

    دس گیارہ برس کا ایک لڑکا بے حد شکی مزاج اور محتاط قسم کالڑکا پپو۔۔۔ وہ بار بار دیکھ رہا تھا کہ میرے ہاتھ میں پتھر تو نہیں ہے اور ایک بے حد خوبصورت منی سی بچی، چھوٹی سی گڑیا، جو چابی دینے سے چوں چوں بولتی ہے۔

    ’’چوں چوں۔۔۔ آؤ آؤ۔‘‘

    لیکن میرے بلانے سے پہلے ہی وہ مجھ سے آکر لپٹ گئی اور پپو کے منع کرنے کے باوجود اپنے سنہرے بال میرے سینے پر پھیلاکے کہنے لگی، ’’ابا ابا۔۔۔ آپ کے سر میں چوٹ کیسے لگی۔۔۔ ابا ابا، پپو آپ سے ڈرتا ہے۔ ابا ابا، آپ ہمیں تو نہیں ماریں گے نا۔‘‘ پھر میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر آہستہ سے بولی، ’’ہمیں ایک چھوٹا سا پلین لادیجیے اسی میں بیٹھ کر اَپن دور چلے جائیں گے۔‘‘

    خوب دور۔۔۔ اوں۔۔۔ زوں۔۔۔ زوں۔

    اچانک ہم دونوں واقعی چھوٹے سے پلین میں بیٹھ کراڑنے لگے۔

    ’’ٹاٹا۔۔۔ ٹاٹا‘‘، چوں چوں ہاتھ ہلاکے نیچے رہ جانے والی ذلیل مخلوق سے کہتی ہے۔

    ’’ٹاٹا۔۔۔ ٹاٹا‘‘، میں بھی ہاتھ ہلاکے اس اجنبی گھر کے لوگوں سے کہتا ہوں۔

    ’’ٹھہریے۔۔۔ آپ کہاں جارہے ہیں؟‘‘

    آخر ان کم بختوں نے مجھے پکڑ ہی لیا۔

    ’’اتنی تیزی سے مت بھاگیے۔ آپ کی طبیعت اچھی نہیں ہے‘‘، نمو پیچھے سے مجھے پکڑ لیتی ہے۔

    ’’منی اتر نیچے۔۔۔ اب ان کے کاندھے پر سوار ہونے کی عادت چھوڑ دے۔ تیرے ابا کی طبیعت اچھی نہیں ہے۔‘‘

    ’’چھوڑو۔۔۔ ہمیں چھوڑو۔ ہم پلین میں دلی جارہے ہیں۔ بہت دور جارہے ہیں۔ ٹاٹا۔ ٹاٹا۔‘‘

    لیکن منی کو زبردستی اترناپڑا۔ مجھے بھی مجبوراً اپنے کمرے میں آکر لیٹنا پڑا۔

    اب نمو میرے پاس بیٹھ کر برے ناز سے کہتی ہے، ’’خدا کاشکر ہے آپ اپنے بچوں کونہیں بھولے۔‘‘

    پھر وہ چوں چوں کی طرح میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر میرے اور قریب آجاتی ہے۔

    ’’سچی۔۔۔ میں تو ڈر ہی گئی تھی کہ اگر آپ اپنے بچوں کوبھول گئے تو ہمارا کیاہوگا۔‘‘

    ’’کیوں تمہاراکیا بگڑ گیا؟‘‘ میں اس سے دور ہٹ کر بیٹھ جاتا ہوں۔

    ’’اے واہ۔۔۔ اب کیا میں کمانے نکلتی۔ آپ کی پنشن آرہی ہے تو گھر چل رہاہے۔ اب اس تھوڑی سی جائیداد کا سہارا ہی تو رہ گیا ہے۔ امتیاز کی ماں تو خوب عیش کرکے مرگئی۔ اب آپ نے مجھ سے بیاہ کیوں کیا تھا۔ میں ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر کہاں جاؤں؟‘‘

    یہ عورت یقیناً پاگل ہے، ابھی رونا شروع کیا تھا ابھی جھٹ سے ہنسنے لگی اور کاغذ میرے سامنے رکھ دیا، ’’لو اس پر دستخط کردو۔‘‘

    ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں غور سے دیکھتا ہوں کہ کہیں میری غلامی کی دستاویز تو نہیں ہے۔ شاید اس بات کااقرار ہو کہ میں دوحصوں میں بٹ گیا ہوں۔ ایک تو اوپر کھڑکی میں سے جھانک رہا ہوں اور ایک یہاں ان ظالموں کے چنگل میں پھنسا بیٹھا ہوں۔

    ’’کیا دیکھ رہے ہیں، دستخط کردیجیے نا!‘‘ نمو یوں بے قرار ہے جیسے انگاروں پر کھڑی ہو، میں بڑے غور سے کاغذ دیکھتا ہوں۔۔۔ ایک ہزار۔۔۔ ایک ہزار کے ہندسے ابھر ابھر کر مٹ رہے ہیں۔ اچھا تو یہ صرف پیسوں کی بات ہے۔

    میں جلدی سے دستخط کردیتا ہوں۔

    ’’امی۔۔۔ اگر ابا دستخط کرنا بھی بھول جاتے تو کیا ہوتا!‘‘ ہمارے قریب کھڑا ہوا پپو کہہ رہا ہے۔ پپو کے قریب فضلو ہے۔ فضلو کے قریب شمی۔۔۔ اور جانے کون امی ممی ہمیں گھیرے کھڑے ہیں۔

    ’’صاحب کلم پکڑنا بھول جاتے تو ساری دولت ہاتھ سے گئی تھی‘‘، یہ بات سڑے سیتا پھل کے بیجوں جیسے دانتوں والے فضلو صاحب فرمارہے تھے۔

    ’’تو چپ۔۔۔ چوپ۔۔۔ چوپ‘‘، میں اچانک اسے ڈاٹنا شروع کردیتا ہوں۔ ’’بڑا آیا دولت کاتماشہ دیکھنے والا۔۔۔ اور تو مجھے دیکھ دیکھ کر کیوں ہنستا ہے بے! یہاں کوئی مداری کا تماشہ ہو رہا ہے یا میرے سر پر سینگ اگ آئے ہیں۔‘‘

    میری بات سن کر سب ہنس پڑتے ہیں اور مجھے شک ہوتاہے کہ واقعی میری صورت میں کوئی گڑبڑ ہوگئی ہے پھر یہ بات ہرشخص کو معلوم ہوچکی ہے کہ میں آدھا وہاں کھڑکی میں ہوں جبھی تو سب مجھے اتنے غور سے دیکھتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کھڑکی میں بیٹھا ہوا میں بھی اپنے آپ کو بڑی حیران کن نظروں سے دیکھ رہا ہوں۔ نہیں۔۔۔ اب یہ اول جلول حرکتیں چھوڑ دینا چاہیے۔ کل جب میں ایک مکھی کومارنے سارے گھر میں لکڑی لیے پھر رہا تھا تو بہت سے بلب ٹوٹ گئے۔ شیشے کی الماری اوندھی ہوگئی اور نمو کہنے لگی، سب لوگ میرا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ سارے شہر کے سنیما ہال بند ہوچکے ہیں۔ جبھی تو لوگ تماشہ دیکھنے اس گھر میں آجاتے ہیں بلکہ تماشا کرنے بھی۔۔۔ کل دوپہر یہاں ڈائننگ ہال میں میٹنی شو چل رہاتھا۔ وہی خوب صورت سی لڑکی شمی ہیروئن تھی اور ایک لمبا سا کالا نوجوان ہیرو تھا۔۔۔ وہ لوگ بڑے رومانی موڈ میں تھے۔ یہ چوری ہے۔۔۔ صریحاً چوری۔ میں نے سوچا کہ یہ منظر تو ہر ہندوستانی پکچر میں دیکھ چکا ہوں، بس اب گانا شروع ہوگا۔۔۔ تو میرا چاند۔۔۔ میں تیری چاندنی۔ اگر واقعی گانا شروع ہوگیا تو میں پاگل ہوجاؤں گا۔

    ’’بندکرو۔۔۔ خدا کے لیے بند کرو یہ سین!‘‘

    میں چلایا تو انہوں نے ڈر کے مارے سچ مچ اس سین کو ادھورا چھوڑ دیا۔

    ہیرو تو قلانچیں بھرتا ہوا باہر بھاگا اور ہیروئن آکر میرے قدموں سے لیٹ گئی۔

    ’’ابا۔۔۔ ابا مجھے معاف کردیجیے۔۔۔‘‘ وہ رو رہی تھی، جھوٹ موٹ کے آنسو۔

    ’’اور مجھے بھی معاف کیجیے‘‘، میں نے اس کاہاتھ جھٹک کر بالکل کسی ہیروئن کے باپ کے انداز میں جواب دیا۔

    ’’میں آپ کے ایسے فضول ڈرامے میں کوئی پارٹ نہیں کرسکتا۔‘‘

    اتنے میں کہیں سے چوں چوں آگئی۔ آج اس کی گود میں کاغذ کی بہت سی کترنیں تھیں۔

    ’’جلدی لیجیے ابا۔۔۔ اتنے بہت سے روپے لائی ہوں‘‘، اس نے میری گودمیں کاغذ ڈالے تو وہ سچ مچ کے نوٹ بن گئے۔

    ’’اب اس نوٹ کا کیک لائیں گے۔۔۔ اور اس نوٹ کا پلین لا۔۔۔ اور اس نوٹ کا ابا کے لیے سگریٹ اور اس نوٹ کا۔۔۔‘‘ وہ ایک ایک نوٹ اٹھاکر بڑی گرہستنوں کے انداز میں گود میں رکھتی جاتی ہے۔

    ’’اور اس نوٹ کے ابا۔‘‘

    ’’ہٹ پاگل۔۔۔‘‘ پپو کہتاہے، ’’کہیں نوٹ سے ابا خریدے جاتے ہیں؟‘‘

    ’’کیوں ابا، آپ نے ہم سب کو ایک نوٹ سے خریدا ہے نا؟‘‘

    ’’ہاں اور کیا۔۔۔ تم سب کو میں نے خریدا ہے۔ تم سب میرے غلام ہو۔ سب میرے حکم پر یہاں کھڑے ہوجاؤ۔‘‘

    میں حکم دیتا ہوں۔ مگر کوئی نہیں سنتا۔

    ’’پپو تو الو کا پٹھاہے‘‘، منی کہتی ہے۔

    ’’امی کہتی ہیں روپے ہوں تو ہر چیز خرید سکتے ہیں۔‘‘

    تو پھر میں کیوں نہ اس دوسرے ’میں کو خریدلوں۔ میں سوچتاہوں۔۔۔ اور منی سے سب روپے چھین کر اپنی گود میں چھپا لیتا ہوں۔

    ’’نہیں میرے ہیں‘‘، منی رونے لگتی ہے۔ ’’میرے روپے ابا نے لے لیے۔ دے دیجیے۔‘‘

    ’’ان کاغذوں کاآپ کیا کریں گے۔ منی کو دے دیجیے نا‘‘، اس کی آواز سن کر نمو اندر آگئی۔

    ’’میں ان روپوں سے ایک ’میں خریدوں گا۔ تم چاہتی ہو میں ہمیشہ ادھورا رہوں۔ دو ٹکڑوں میں بٹا ہوارہوں۔‘‘

    ’’اللہ خیر‘‘، نمو میری ڈانٹ سن کر سہم جاتی ہے۔

    ’’جاؤ بچو، تم باہر کھیلو۔ تمہارے ابا کو پھر دورہ پڑنے والا ہے۔‘‘

    وہ مجھے کمرے میں بند کرکے چلی جاتی ہے۔

    آج اخبار میں خبر آئی ہے کہ رابرٹ کینیڈی کوکسی نے گولی مار کے ہلاک کردیا۔

    میں بھی اپنے دشمنوں کو فائر کردینا چاہتاہوں۔ لیکن میراپستول تو کینیڈی کاقاتل ادھار لے گیا ورنہ میں اس دنیا میں اتنے وحشی اور نکمے لوگوں کو رہنے دیتا؟

    خصوصاً نمو فضلو اور امتیاز۔۔۔ ان تینوں کو تو ضرور شوٹ کردیناچاہیے۔ پھر دیکھنا اس دن سورج کیسے چمکیلا نکلے گا۔ لوگ کتنا ہنسیں گے۔

    ٹھائیں۔۔۔ ٹھائیں۔۔۔ ٹھائیں۔۔۔ میں اپنے ہاتھوں کی بندوق بناکر نشانہ بازی کی مشق شروع کردیتا ہوں۔ لوگ میرے نشانے کی زد میں آکر دھڑادھڑ گر رہے ہیں۔ نمو، فضلو اور ہاسپٹل کا وہ سور کی صورت ڈاکٹر جس نے مجھے زبردستی اس پرائے گھر میں بھجوایا اور پنشن آفس کاوہ کلرک جو مجھے ہر مہینے دیکھ کر مسکراتا ہے۔ سب مرگئے۔ چلو اب خوب موج اڑاؤ۔ کباب کھاؤ۔

    آج مجھے کتنی بھوک لگ رہی ہے۔ گزشتہ ایک برس سے میں نے کھانا نہیں کھایا ہے۔ آج میں کباب کھاؤں گا۔ خوب مرچ مسالے دار۔۔۔ چٹ پٹے اور اگر کباب نہ ملے تو امتیاز کو بھون کر کھا جاؤں گا۔

    کباب لاؤ۔۔۔ جلدی۔۔۔ کباب وانٹیڈ۔

    مگر کبابوں کی بجائے پھر امتیاز آگیا۔

    یہ لڑکا بھی اسی گھر کا ایک فرد ہے اور ان کی والدہ محترمہ بار بار یہ جتاتی رہتی ہیں کہ یہ ناخلف صاحبزادے بھی میری ہی اولاد ہیں۔۔۔ لاحول ولا۔۔۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اگلے جنم میں بھی ہم ایک دوسرے کے دشمن ہی تھے۔ کیونکہ اب بھی امتیاز کی نظروں میں میرے لیے بڑی حقارت اور نفرت بھری رہتی ہے، اور جب بھی اس کی طرف دیکھتا ہوں تو بے اختیار منہ سے نکل پڑتا، ’’اچھا تمہیں بھی سمجھوں گا بیٹا!‘‘

    پتہ نہیں یہ لڑکا کس کی دولت پر اکڑتاہے۔ سگریٹ کا دھواں میرے منہ پر چھوڑتا ہواگزر جاتا ہے اور ہر وقت ماں بیٹے میں روپے پیسے کے لیے لڑائیاں ہوتی ہیں۔ رات کو ایک دو بجے وہ نشے میں چور گھر لوٹتا ہے تو شاید یہ سمجھتا ہوگا کہ میں الکحل کی بدبو کونہیں پہچان سکتا۔ مجھے تو اس کی ماں کی دیدہ دلیری پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے آوارہ نکمے لڑکے کو میرا بیٹا بنانے کی جرأت اس نے کیسے کی۔

    میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں۔ میں نے بھی دنیا دیکھی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے امتیاز کے منہ پر اتنے طمانچے ماروں کہ اسے اپنا سچ مچ کا باپ یاد آجائے۔ مگر اس کے ہٹے کٹے بدن سے ڈر لگتا ہے۔ جانے کون بدنصیب باپ ہوگا جس کی قسمت میں ایسی اولادلکھی تھی۔

    آج بھی اس نے آتے ہی مجھے حکم دیا، ’’جلدی سے تیار ہوجائیے۔ آج ۷تاریخ ہے پنشن لانے میرے ساتھ چلنا ہے۔‘‘

    مجھے باہر جانے اور پنشن لانے سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اس دن ہم خوب بازاروں کی سیر کرتے ہیں۔ جب میں اپنی پنشن کے اتنے بہت سے روپے اپنی جیب میں رکھنا چاہتا ہوں تو امتیاز مجھے ان پیسوں کی قلفی ملائی لادیتا ہے۔ اس کے بعد وہ مجھے گھر چھوڑ کے کہیں چلاجاتا ہے تو اس کی ماں خوب چیخ و پکار کرتی ہے۔ اس لیے اکثر ۷تاریخ کو مجھے لوگ ادھر سے ادھر گھسیٹتے پھرتے ہیں۔ نمو کہتی ہے میں اس کا ہوں اس لیے وہ مجھے پنشن لانے اپنے ساتھ لے کرجائے گی۔ امتیاز کہتاہے مجھ پر صرف اس کاحق ہے اس لیے اپنے ساتھ مجھے وہ لے کر جائے گا۔ مگر آج میں امتیاز کو جلانے کے لیے اس کی بات اَن سنی کردیتا ہوں۔

    ’’میرے کباب کہاں ہیں۔ جلدی لاؤ مجھے بھوک لگی ہے۔‘‘

    ’’آپ کپڑے تو بدل لیجیے‘‘، وہ بڑی محبت سے کہتا ہے۔ ’’آج آپ کی ساری پنشن کے آپ کو کباب کھلادوں گا۔‘‘

    آج امتیاز مجھ پر کتنا مہربان ہے۔ آج مجھے نہ تو وہ بار بار ڈانٹتاہے نہ دھکے دے دے کے کپڑے پہننے پر مجبور کرتاہے۔

    یا اللہ۔۔۔ کباب کتنے مہنگے ہوگئے۔ سات سو روپے میں ایک پلیٹ کباب، ہٹاؤآج میں کباب بھی نہیں کھاتا۔ امتیاز کے ساتھ بازار کی سیر بھی نہیں کروں گا۔ آخر میں کیوں جاؤں پنشن لانے۔ ابھی اگر رضائی تان کر سوجاؤں تو کبھی آنکھ نہ کھلے۔ بس آج یہی فیصلہ کیا ہے مابدولت نے۔ کپڑے بدل کر کہیں جانا تو ایک آفت ہے۔ سارا گھر اکٹھا ہوجاتا ہے۔ کوئی شیو کروارہا ہے، کوئی منہ دھلا رہا ہے۔ اس دن امتیاز خود استری کرکے مجھے کپڑے پہناتا ہے کہ لوگ مجھے ایسی حالت میں دیکھ کر کیا کہیں گے۔

    لوگ۔۔۔ لوگ۔۔۔ جانے وہ کون لوگ ہیں جن سے اس گھر کے رہنے والے اتنا ڈرتے ہیں، کہیں مجھے وہ لوگ مل جائیں تو اس گھر کا سارا کچا چٹھا سنا ڈالوں۔ یہ تک بتادوں کہ پرسوں نمو کی غیرموجودگی میں دوسری چابی لگاکر امتیاز نے الماری میں سے کئی زیور نکال لیے ہیں اور شمی عنقریب اس کالے بھجنگ نوجوان کے ساتھ گھر کی دولت سمیٹ کر فرار ہونے والی ہے۔ میں دن بھر پردے کے پیچھے سے جھانک جھانک کر سب دیکھتا رہتا ہوں۔ ایک دن پپو دیگچی میں سے بوٹیاں چن چن کر کھا رہاتھا۔ میں نے اچانک اسے ڈرایا تو سب کو سخت حیرانی ہوئی کہ آخر میں ڈائننگ ہال میں کیسے پہنچا اورکب سے وہاں چھپا کھڑا تھا۔

    اور یہ فضلو تو اتناچالاک ہوگیا ہے کہ کیا کہوں۔ میرے لیے کھانالاکر تپائی پررکھتا ہے اور خود ہی کھانے بیٹھ جاتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد ایک دن میں نے دروازے سے کان لگاکر سنا وہ نمو سے کہہ رہا تھا کہ صاحب کو کھانا کھلادیا ہے۔

    ’’نہیں نہیں، میں نے کھانا نہیں کھایا ہے۔ مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ جلدی سے کھانا دو‘‘، میں نے کھانے کے کمرے میں جاکر کہا۔

    ’’یہ ایک اور مصیبت ہے‘‘، نمو، شمی سے کہنے لگی۔ ’’ابھی فضلو نے کھانا کھلایا ہے اور پھر بھوک لگی ہے۔‘‘

    ’’زیادہ کھانے سے آپ کی طبیعت خراب ہوجائے گی، نا۔۔۔ جائیے آرام کیجیے‘‘، شمی مجھے کمرے کی طرف دھکیلنے لگی۔

    ’’نہیں مجھے بڑے زور کی بھوک لگی ہے۔ فضلو سے پوچھو، میں نے کھانا نہیں کھایا ہے۔‘‘ مگر فضلو جواب دینے کی بجائے نمو کی طرف دیکھ کر ہنس رہاہے۔

    ’’مگر آپ یہاں کیوں آگئے۔ میز گندی کردیں گے جائیے میں آپ کے کمرے میں کھانا ابھی بھجواتی ہوں‘‘، نمو نے مجھے کمرے میں دھکیل کر باہر سے کنڈی لگادی ہے۔

    ’’میرے ابا کو مت مارو۔۔۔ مت مارو‘‘، چوں چوں باہر چلارہی ہے۔ رو رہی ہے۔

    ’’چپ۔۔۔ چپ۔۔۔ بڑی آئی ابا کی بیٹی‘‘، نمو چوں چوں کو بھی مار رہی ہے۔

    ’’دروازہ کھولو۔۔۔ دروازہ کھولو‘‘، میں نے زور زور سے کواڑوں پر اپنا سر مارنا شروع کردیا تو دروازہ کھل گیا۔

    کیا چوں چوں کو مار ڈالا۔۔۔ میں نے اپنے ماتھے پر سے بہتاہوا خون پونچھ کر دیکھا تو وہ ایک کونے میں سہمی ہوئی کھڑی تھی۔ پھر ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف باہیں پھیلاکے دوڑتے ہیں۔

    نمو نے مجھے کمرے میں بٹھانے کی ایک اور ترکیب نکالی۔

    وہ طرح طرح کے لوگوں کو میرے پاس لاتی ہیں کہ میں ان سے باتیں کرکے اپنا جی بہلاؤں۔ پرسوں ایک پاگل صاحب تشریف لائے۔ نقلی داڑھی لگاکے آئے تھے۔ وہ باربار ہوا میں اڑتی توگھبراکے یوں پکڑتے جیسے بھید کھلنے کا ڈر ہو۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی یوں گلے لپٹ گئے جیسے برسوں پرانی دوستی ہو۔

    ’’کہو یار کیسے ہو۔ طبیعت ٹھیک رہتی ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’ہاں تم اپنا سناؤ۔ یہ نقلی داڑھی بیچتے ہو؟‘‘

    وہ میری بات سن کر پیچھے کو ہٹے لیکن میں انہیں پکڑکے بٹھالیتا ہوں۔ کیا ہرج ہے اگر کچھ وقت کسی پاگل کے ساتھ ضائع ہوجائے۔

    اب وہ مجھ سے بہت دور ہٹ کر ایک اسٹول پر بیٹھ گئے۔

    ’’کئی بار ارادہ کیا کہ تمہیں دیکھ آؤں۔ مگر ڈر بھی لگتا تھا کہ جانے تم مجھے پہچانوکے یا نہیں‘‘، وہ اپنی داڑھی سہلاکر بولے۔

    ’’ہاں اب تم بے چارے اپنی دماغی بیماری سے بدل جو گئے ہو‘‘، میں نے جواب دیا۔ ہیں ہیں ہیں، وہ جانے کیوں میری طرف دیکھ کر ہنسنے لگتے ہیں۔ پاگل ہمیشہ دوسروں کو پاگل سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے یہ بڑھئو بھی مجھ ہی کو پاگل سمجھ رہے ہیں۔

    ’’یار، مجھے تمہاری بیماری کا بہت دکھ ہے۔ کیا کریں اللہ کی مرضی‘‘، وہ کہتے ہیں۔

    ’’اور مجھے تمہاری اس نقلی داڑھی پر بے حد پیار آرہا ہے۔ ایک دن کے لیے ہمیں ادھارنہیں دوگے؟ ہم چوں چوں کے ساتھ ڈاکو ڈاکو والا کھیل کھیلیں گے۔‘‘

    لیکن وہ میری بات سن کر دروازے کی طرف جانے لگتے ہیں، اور پھر رک کر فرماتے ہیں، ’’یار کچھ سمجھ داری کی باتیں کیا کرو۔ سنا ہے بھابی نے تمہارا علاج معالجہ کچھ نہیں کروایا۔ کیا تم اپنی ساری پنشن بھی ان ہی لوگوں کے حوالے کردیتے ہو یا کچھ اپنے لیے بھی رکھتے ہو؟‘‘

    پھر وہی پنشن کی بات! ایسا لگتا ہے جیسے میرا دوسرا ’میں بھی کہیں غائب ہوگیا ہے۔

    اور یہ میں جو ہوں، یہ ایک پنشن کانام ہے۔ ہر شخص مجھے یوں دیکھتا ہے جیسے میں آدمی نہیں رہا پنشن بن گیا ہوں۔ جسے دیکھو اسی کاذکر۔ اسی کی بات۔۔۔ جی چاہتا ہے اس پنشن کو کسی طرح اپنے منہ سے نوچ پھینکوں۔ پتہ نہیں پھر میں اس گھر میں کسی کو نظر بھی آؤں گایا نہیں!

    مجھے کچھ یاد نہیں رہا کہ اس پاگل سے مجھے کب چھٹکارا ملا۔ فضلو کہہ رہا تھا کہ جب میں نے زبردستی داڑھی چھیننے کی کوشش کی تو وہ ڈر کے مارے بھاگ گیا۔

    بھلاایسے سر پھرے پاگلوں کے ساتھ اور کیاسلوک کیا جاسکتا ہے۔

    ایسا ہی ایک اور ہونق میرے کمرے میں آیا تھا۔ حسبِ توقع وہی میری اور اپنی پرانی دوستی کا ڈھونگ رچایا اور پرانے قصے سنانے لگا جو بالکل جھوٹے تھے۔ پھر میری آنکھ بچاکر میرا پارکر پین اپنی جیب میں ڈال لیا اور میرے سب سگریٹ پھونک ڈالے۔ پھر جاتے وقت میرے سر پر احسان کا ایک چھپر رکھ گئے کہ آج کل نمو کا دل بہلانے میں وقت صرف کرتے ہیں تاکہ میری بیماری سے اس کا دل بالکل ہی نہ ٹوٹ جائے۔ پھر یہ بھی انکشاف فرمایا کہ ہسپتال سے اس اجنبی گھر میں لانے کے ذمہ دار بھی یہی حضرت تھے۔ اتنا سنتے ہی میں بے قابو ہوگیا۔

    ’’اچھا تو تم ہی جو جس نے مجھے اس پرائے گھر کی دوزخ میں ڈال دیا ہے۔ آخر مجھے ستانے میں تمہیں کیا مل گیا؟‘‘

    ’’ابھی نہیں ملا مگر کل مل جائے گا‘‘، وہ مکاری سے مسکرایا۔

    ’’یہ بات ہے تو میں ابھی پولیس کو بلاتا ہوں۔ ابھی تمہارے کچے چٹھے کھولتا ہوں۔‘‘

    میں فوراً فون کا ڈائل گھماتا ہوں۔ ہیلو ہیلو۔

    ’’میرا چھوٹا فون دے دیجیے‘‘، چوں چوں جلدی سے آکر اپنا چھوٹا سا سرخ ٹیلی فون مجھ سے چھین لیتی ہے۔ ’’لائیے میں کردوں۔ آپ کس کو فون کریں گے؟‘‘

    ’’پولیس اسٹیشن۔۔۔ پولیس کو جلدی بلاؤ چوں چوں، ورنہ مجرم فرار ہوجائیں گے‘‘، میں سخت پریشانی میں کہتا ہوں۔

    ’’ہیلو‘‘، چوں چوں بڑی سنجیدگی سے فون کان سے لگاکر زمین پربیٹھ جاتی ہے۔

    ’’جلدی آئیے۔۔۔ ابا کو سب ستارہے ہیں۔ کھانا نہیں دیتے۔‘‘

    تھوڑی دیر بعد ہم دونوں اس کھیل سے اکتا جاتے ہیں۔

    ’’اب فون کا کھیل ختم۔۔۔ چلیے چلیے، اب چور پکڑیں گے‘‘، اور پھر ہم دونوں سچ مچ چور کو تلاش کرناشروع کردیتے ہیں۔

    ’’ہشت، آہستہ چلیے‘‘، چوں چوں منہ پر انگلی رکھ کر کہتی ہے۔

    اب ہم دونوں گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے پلنگوں کے نیچے گھسٹ رہے ہیں۔ اچانک میرا سر مسہری کے پائے سے ٹکراتا ہے اور آہٹ سن کر کوئی نیچے کود جاتا ہے۔

    ’’چور۔ چور‘‘، میں چور کی ٹانگ پکڑ چلانے لگتاہوں۔ ’’جلدی میرا پستول لاؤ۔۔۔ چور پکڑ لیا ہے۔‘‘

    ’’چور پکڑ لیا، چور پکڑ لیا‘‘، چوں چوں بھی زور زور سے تالیاں بجانے لگی۔

    ’’انہیں چھوڑ دیجیے، بچے آجائیں گے، شور مت مچایے‘‘، نمو مسہری پر سے اٹھ کر کہہ رہی ہے۔ تب میں نے غور کیا کہ جس چو رکو ہم نے پکڑا ہے یہ وہی آدمی ہے جو ابھی مجھ سے باتیں کر رہاتھا۔ ہماری آواز سن کر سارا گھر کمرے میں اکٹھا ہوگیا۔ شمی، فضلو، پپو، امتیاز وہ سب بڑی حیرانی کے ساتھ کبھی مجھے دیکھتے ہیں کبھی اس آدمی کو۔۔۔ پھر سرجھکا کے کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں۔

    ’’عجیب بزدل لوگ ہیں یہ۔۔۔‘‘ میں دل میں سوچتاہوں۔۔۔ چور کو سزا دینے کی بھی ہمت نہیں کرسکتے؟‘‘ نمو ساری رات اپنے کمرے میں بڑبڑاتی رہی۔

    ’’نہیں، وہ پاگل نہیں ہے۔ سب ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ اپنے آپ کو بھول گیا۔ مگر میری نگرانی کرنا نہیں بھولتا۔‘‘

    ایک دن عجیب حادثہ ہوا۔

    کیا دیکھتا ہوں کہ رات ختم ہوگئی ہے۔ سب لوگ جاگ اٹھے۔ میرے کمرے میں بھی اجالا تو ہے مگر دھوپ کا کہیں پتہ نہیں ہے۔ کہیں رات وہ چور سورج کو تو چرا کر نہیں لے گیا۔ مجھے بری تشویش ہونے لگی۔ پھر جب چوں چوں اپنا ٹیلی فون لے کر آئی تو میں نے اسے فوراً یہ وحشت ناک خبر سنائی۔

    ’’رات چور سورج کو چراکر لے گیا۔‘‘

    ’’کہاں لے گیا؟‘‘ چوں چوں بھی سخت فکرمند ہوگئی۔ اس گھر میں اس بچی سے زیادہ سمجھ دار اور کوئی نہ تھا۔

    ’’کیا پتہ۔۔۔ دیکھو نا رات سے کیسا اندھیرا اندھیرا سا ہے۔ اب میری تو سمجھو کل دولت ہی لٹ گئی۔ سورج نہ رہا تو دن کیسے نکلے گا؟ میں بستر سے کیسے اٹھوں گا؟‘‘

    میں غم کے مارے رونے لگا۔ چوں چوں نے مجھے روتے دیکھ کر اپنے کھلونے پھینک دیے اور حسبِ عادت اپنے سنہرے بال میرے سینے پر پھیلاکے بولی، ’’میں ایک بڑا سا سورج آپ کو خرید کر لادوں گی۔ میرے پاس دو پیسے ہیں۔‘‘

    ’’بے وقوف۔۔۔ سورج کہیں بکتاہے!‘‘ میں اس کی نادانی پر ہنسنے لگا۔

    ’’پھر آپ کے پاس کیسے آیا تھا‘‘، اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں پھیلا کے پوچھا۔

    لو اب ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوا۔ آخر سورج میرے پاس کیسے آیاتھا۔ کیوں آیا تھا۔ کیا اسے بھی میری پنشن کی سن گن لگ گئی تھی یا پھر اس دوسرے ’میں کی اسے بھی خبر ہوگئی تھی۔

    ’’وہ کون ہے؟‘‘ میں نے چوں چوں کو انگلی سے اوپر دکھایا۔

    وہ۔۔۔ وہ۔۔۔؟ بڑی دیر تک وہ گردن اوپر اٹھائے غور سے دوسرے ’میں کو دیکھتی رہی، ’’وہ ابا ہیں۔‘‘

    ’’کس کے ابا؟‘‘ میں خوش ہوگیاکہ وہ کوئی اور نکلا۔

    ’’میرے۔۔۔‘‘ اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر کہا۔

    ’’وہ آپ ہیں۔‘‘

    میں۔۔۔؟ میں لرز اٹھا۔۔۔ لو اب اتنے اتنے سے بچوں میں بھی یہ بات پھیل چکی ہے کہ میں دو حصوں میں بٹ چکا ہوں۔

    ’’تمہیں معلوم ہے چوں چوں کہ مجھے وہاں کس نے ٹانگاہے؟‘‘ میں نے ادھر ادھر دیکھ کر بڑی رازداری میں پوچھا۔

    ’’امی نے‘‘، اس نے بھی اتنی ہی احتیاط کے ساتھ کان میں کہا، ’’ایک دن امی نے آپ کو شیشے میں بند کرکے رسی لگاکے وہاں ٹانگ دیا تھا۔‘‘

    شیشے میں بند کرکے۔۔۔؟ رسی لگاکے۔۔۔؟ یعنی مجھے مار ڈالا گیا ہے۔ گویا مجھے پھانسی دی گئی ہے! پھر میں کیوں اس پلنگ پر لیٹوں۔ میں تو مرچکا ہوں۔ میرا اب اس دنیا سے کیا واسطہ رہا۔

    میں دیوار سے لگ کر چپ چاپ کھڑا ہوگیا کہ پھر نمو کمرے میں نازل ہوئی۔ جب سے میں نے چور پکڑا تھا وہ مجھ سے سخت ناراض تھی مگر اس وقت تو وہ اپنی آواز میں شکر گھول کر آئی تھی۔ پہلے تو اس نے مجھے زبردستی دیوار سے ہٹانے کی کوشش کی پھر ہار مان کے خود بھی میرے قریب آبیٹھی۔

    آج وہ مجھ سے بے حد اہم مشورے کر رہی تھی اور بڑی بے تکلفی سے میری پنشن کو اپنی پنشن اور اپنے بچوں کو ’میرے بچے کہے جارہی تھی۔

    اسے تیس ہزار روپے کی ضرورت تھی اس لیے وہ مکان بیچنا چاہتی ہے اور میرا جتنا روپیہ ہے اسے اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے تاکہ شمی کا بیاہ ہوسکے اور امتیاز کا حصہ اسے دے کر گھر سے رخصت کردیں۔ میں سب سنتا ہوں۔ سچ مچ کے مظلوم شوہروں کی طرح۔ حالانکہ پنشن اور بینک کی باتیں مجھے سخت بور کرتی ہیں لیکن پھر بھی میں بڑی دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے خوب ڈانٹتا ہوں۔

    ’’چپ رہو۔۔۔ اب میں تمہاری کوئی بات نہیں سنوں گا۔ تم نے مجھے مار ڈالا ہے۔ میرے گلے میں رسی ڈال کر پھانسی دی گئی ہے۔‘‘

    یہ سن کر وہ میرے قدموں سے لپٹ جاتی ہے، ’’اس رات والی بات کو بھول جاؤ، حامد مجھے معاف کردو۔۔۔ اب کبھی تمہیں دھوکا نہیں دوں گی۔‘‘

    ’’واہ کیوں معاف کردوں‘‘، میں نے اب اسے پیٹنا شروع کردیا۔

    ’’تم نے میرا سورج چرالیا ہے۔ بھلا اتنا اندھیرا کبھی دنیا میں ہوا تھا! اور میرا پستول چھپا لیا ہے کہ میں کسی چور کو نہ مارسکوں۔ تمہیں کچھ خبر ہے کہ اس گھر کے کونے کونے میں کتنے چور چھپے بیٹھے ہیں۔ میں کس کس کو دیکھوں؟ یہ گھر ہے یا فلم اسٹوڈیو جہاں ہر وقت رومانی شاٹس فلمائے جاتے ہیں۔ نہیں۔۔۔ میں ایسے فضول ڈراموں میں کوئی پارٹ ادا نہیں کرسکتا۔‘‘

    اچانک میری نگاہ اوپر گئی جہاں شیشے کے کیس میں بند کرکے مجھے رسی سے لٹکا دیا گیا ہے۔

    ’’مجھے پھانسی کس نے دی۔ میرے ٹکڑے تم نے کیے ہیں۔ میں تو اب کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہا۔‘‘

    نمو زور زور سے چلانے لگی کیونکہ میرے ہاتھ میں جو جو چیزیں آئیں، میں نے اٹھاکر اسے مارناشروع کردیا تھا۔ پھر جو بھی مجھے پکڑنے آیا وہ خود زخمی ہوکر بھاگا۔ آج میں سب کو مار ڈالوں گا۔ سب کو شوٹ کردوں گا۔ ایک بڑا سا پتھر اٹھائے میں سارے گھر میں چیختا پھر رہا تھا۔

    ’’لوگو۔۔۔ ذرااس آدمی کی حالت دیکھو‘‘، نمو چلا چلاکر محلے والوں سے کہہ رہی تھی۔ ’’میں آج ہی ساری جائیداد اپنے نام کرلوں گی۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے ابا کو میں اپنے ساتھ لے جاؤں گا‘‘، امتیاز بھی کمرے سے نکل کر لڑائی میں حصہ لے رہا تھا۔

    ’’اچھا! خبردار جو انہیں چھوا‘‘، نمو ہاتھ نچا رہی تھی۔۔۔ ’’بڑے آئے ابا سے محبت کرنے والے۔ اپنے ساتھ انہیں لے جاکر سات سو کی پنشن پر قبضہ کرنا چاہتے ہو۔ انہیں کوئی اس گھر سے نہیں لے جاسکتا۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کا یہی تو ایک سہارا ہے۔‘‘

    وہ سب اتنی زور زور سے لڑ رہے ہیں کہ مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ پتھر پھینک کر سوچتا ہوں کہ کیا واقعی امتیاز مجھے اس پرائے گھر سے لے جائے گا؟

    اس بات کی خبر اس دوسرے ’میں کو نہیں ہوناچاہیے۔ میں اسے یہیں چھوڑنا چاہتا ہوں، ان خونخوار لوگوں سے نبٹنے کے لیے۔

    ’’چوں چوں۔ آؤ ہم تم کہیں بھاگ چلیں۔‘‘

    میں نے لڑائی کے ڈر سے سہمی ہوئی چوں چوں کو اٹھاکر کاندھے پر بٹھالیا۔

    ’’کہاں۔۔۔ کہاں جائیں گے!‘‘ وہ اپنی گڑیا اور اسے نہلانے کی ننھی سی بالٹی پھینک کر میرے کاندھے پر بیٹھ گئی۔

    ’’دور۔۔۔ خوب دور۔۔۔ وہاں سورج کے پاس۔‘‘

    میں بڑے اطمینان سے پھاٹک کھول کر باہر آگیا کیونکہ اس وقت وہ سب آپس میں لڑ رہے ہیں۔ انہیں اپنے حصے کی دولت سمیٹنے میں اتنے حواس کہاں ہیں کہ ہمیں پکڑ سکیں۔

    مگر اچانک میں بھول گیا کہ وہ لوگ آخر کیوں لڑ رہے ہیں! شاید کوئی آدمی مر گیا ہے جسے وہ بہت چاہتے تھے۔ شاید سورج مرگیا ہے یا پھر میری پنشن مر گئی ہے۔

    ’’ابا ابا، بھائی جان آپ کے پنشن کے لیے امی کو مار رہے ہیں‘‘، چوں چوں کہتی ہے۔

    ’’پنشن کے لیے! اب اپنی پنشن کوندی میں پھینک دیجیے نا۔ پھر سب لڑائیاں ختم ہوجائیں گی‘‘، چوں چوں مجھے مشورہ دیتی ہے۔۔۔ پھر اچانک تالیاں بجاناشروع کردیتی ہے۔

    ’’ابا ابا۔۔۔ دیکھیے سورج مل گیا۔ وہ وہاں ندی میں چھپ رہا ہے۔۔۔ جلدی چلیے۔۔۔ ارے واقعی سورج ہے۔۔۔ اسے کسی چور نے نہیں چرایا۔۔۔‘‘ ہمیں دیکھ کر وہ جلدی جلدی پانی میں چھپ رہاتھا۔

    ’’ارے ابا ابا۔۔۔ جلدی بھاگیے۔۔۔ وہ دیکھیے، امی آپ کو پکڑنے آرہی ہیں‘‘، چوں چوں میرے کاندھے پر بیٹھی بیٹھی چاروں طرف کی اطلاعیں دے رہی ہے۔

    ارے باپ رے باپ۔۔۔ میں اور تیز تیز بھاگنے لگتا ہوں مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ نمو سے چھپ کر کہاں جاؤں۔۔۔ سامنے تو دور دور تک پانی ہی پانی ہے۔ چوں چوں، چلو اس پانی میں چھپ جائیں۔۔۔ پھر دیکھیں کوئی ہمیں کیسے پکڑتا ہے؟

    مأخذ:

    پرایا گھر (Pg. 6)

    • مصنف: جیلانی بانو
      • ناشر: اردو مرکز، حیدرآباد
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے