Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پرندے کی کہانی

انور سجاد

پرندے کی کہانی

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    یوبلڈی باسٹرڈ۔

    دربان نے زمین پر زہرتھوکا، آستین سے منہ پونچھا اور نوٹ والی مٹھی جیب میں ڈال لی۔ اس کی نظریں باہر دالان کی طرف کھلتے دروازے پر تھیں۔ جاتے جاتے سفید فام سیاح، یا، س ف س نے گھوم کر ہاتھ ہلاکے الوداع کہا۔ دربان کی زبان سے پھر زہر ٹپکا، اس نے آستین سے دوبارہ منہ صاف کیا، چور آنکھوں سے لوگوں کو دیکھا، مسکراکے جواب میں ہاتھ ہلایا اور جیب میں نوٹ کو ملتا مقبرے کی محراب کے نیچے اپنی جگہ پر آکے بیٹھ گیا۔ وہ مسرور تھا اور نہیں بھی۔

    س ف س بہت مسرور تھا۔ نیلے کانچ میں اس زمین کا سارا اسرارمحصور تھا۔ اس نے مڑ کے محراب کی تصویر لی، جوتوں پر چڑھے خول اتارے اور صحن میں آگیا۔ کچے فرش سے سوندھی سوندھی باس اٹھ رہی تھی۔ اس نے گہرا سانس لے کر باس کو سینے میں بھرا۔ دوسرے ہی لمحے سانس کے ساتھ ہی یہ باس پھر ہوا میں بکھر گئی۔

    میں اس خوشبو کو کیمرے میں قید نہیں کرسکتا۔

    س ف س نے مایوسی میں سر کو ہلایا اور آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ اس کے جوتوں کے نیچے صحن میں بکھرے دانے چرچرا رہے تھے۔ اسے پاس ہی دانہ چگتے پرندوں کے غول میں کوئی غیرفطری بات نظر نہ آئی۔ حسب معمول پرندوں کی دنیا وہ دانہ تھی جو چونچ کے نیچے تھا؟ اس دانے کے علاوہ ہر شے معدوم۔ یہ دانے کس نے پھینکے تھے؟ پرندوں کو معلوم تھا کہ یہ دانے کہاں سے آئے ہیں؟ انہیں یہ یقین تھا کہ ان دانوں کی تہہ میں کوئی جال نہیں؟

    یہ معمولی اور غیراہم سوال ہیں۔ مجھے کیا؟ یہ پرندوں کے ذاتی مسائل ہیں۔ ظاہر ہے کسی سخی ہاتھ ہی نے یہ دانے بکھیرے ہوں گے۔

    س ف س نے سر کی ایک جنبش کے ساتھ ہی سارے سوال جھٹک دیے۔ وہ تھم تھم کے قدم اٹھاتا پرندوں کے قریب سے گزر کر باہر کے دروازے سے نکلنے والا تھا کہ پرندوں کے غول میں ایک پتھر آکے گرا۔ پرندوں نے لمحہ بھر کے لیے پرتولے اور پھر دانہ چگنے لگے، لیکن اب ان میں پہلا سااطمینان نہیں تھا۔ وہ بار بار گردنیں اٹھاکے اس اور دیکھتے تھے جس سمت سے پتھر آیا تھا۔ س ف س نے اس طرف دیکھا۔ منڈیر پر ایک لڑکا بیٹھا تھا، بہت معصوم اس کی مسیں ابھی نہیں پھوٹی تھیں۔ س ف س کے ذہن میں جانے کیوں حضرت عیسیٰ کے بچپن کے کئی نقش گزرگئے، لیکن وہ سب کے سب چہرے اوپرے اوپرے اجنبی سے تھے۔ وہ معصوم چہرہ وہاں کی زمین تھا، سوندھی سوندھی پاس، گندمی گندمی مٹی، نصف کراۂ ارض پر محیط۔

    اگر میں مصور ہوتا تو اسے فوراً اپنے سٹوڈیو میں لے جاتا۔

    اس نے اپنے کیمرے کو تھاما۔

    نہیں، یہ مشین کا کام نہیں۔ دماغ میں اس لڑکے کے بھڑکائے ہوئے شعلے سلولائیڈ کو راکھ کردیں گے۔

    لڑکے نے اپنی قمیض کے دامن سے بہتی ہوئی ناک کو پونچھا اور غول کی طرف دیکھتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے دوسرے پتھر کو اچھالنے لگا۔ اس سے پیشتر کہ وہ غول میں دوسرا پتھر پھینکتا س ف س یک دم چلایا، ۔۔۔ او۔۔۔ یو۔۔۔ جیوڈاس۔

    لڑکا اس کے تیور دیکھ کر منڈیر سے اتر کر بھاگ گیا۔ س ف س نے خشک گلے کو تھوک سے تر کرکے اطمینان کا سانس لیا۔

    میں خواہ مخواہ زمین کے رنگ اور خوشبو کے جھانسے میں آکر جذباتی ہوگیا تھا۔ جیوڈاس ہی تو تھا۔ بالکل جیوڈاس۔

    اس نے غول کی طرف دیکھا۔ پرندوں میں اب بھی کسی حد تک اضطراب تھا۔ اس نے جانے کے لیے قدم اٹھایا ہی تھا کہ نیلے کانچ میں محصور سارا اسرار پتیلیوں میں پھیل گیا۔ غور سے ایک عجیب و غریب پرندہ نما چیز نکل کر زمین کو سونگھتی آگے بڑھی۔ اس کی کھال پروں سے مبرا تھی۔ صرف روئیں تھے جو کہ پرنچنے کے بعد رہ جاتے ہیں۔ بے ڈھنگے جسم کے دونوں طرف ٹنڈ منڈ بازو لٹک رہے تھے۔ ڈوبتے سورج کے سارے رنگ اس کی کھال سے پھسل کر بوم رینگ کی طرح واپس سورج کے حلق میں ٹپک رہے تھے؟ صرف پیازی رنگ تھا کہ کھال سے چمکتا تھا۔ لمبی گردن کے آخر میں بڑا سا سر جس میں گول گول آنکھیں رتھ کے پہئے تھے۔ چونچ اوپر تلے رکھی دوکر کیوں سے بنی تھی۔ وہ اپنے سوکھے ہوئے پنجے ناپ تول کے زمین پر گاڑ کر چلتا تھا۔ اس کی چونچ زمین کے ہر دانے کو پرکھتی، اٹھاتی، پھر اسے وہیں چھوڑ کر اگلے دانے کی طرف بڑھ جاتی۔ قدم اٹھاتے اٹھاتے اس کا ٹنڈ منڈ بازو اس کے سامنے آجاتا، اس کی طرف گردن جھکتی، بازو کے سرے کو چونچ میں لینے کی غرض سے وہ اپنے پنجوں پر گھومتا گھومتا لٹو بن جاتا، پھر اس سعی لاحاصل سے اکتا کر اگلے دانے کی طرف چونچ بڑھاتا، غول کے پرندے اس سے بے تعلق جلدی جلدی اپنے پوٹے بھر رہے تھے اور اپنے اپنے بسیروں کو جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ یہ پرندہ دانوں کی پرکھ میں مصروف تھا۔

    س ف س کا منہ حیرت میں کھلا تھا۔

    اس نے اس قسم کا پرندہ، کہ وہ پرندوں سے نکل کر آیا تھا، آج تک نہیں دیکھا تھا۔ تاریک، خنک، سرخ پھولوں سے لدھے دھاڑتے ہوئے جنگلوں کے سیاہ آسمان پر اڑتا ہوا وہ پسینے، دھان اور بارود کی بو میں رچے، سبز غلاف میں لپٹے پیازی آسمان پر آیا تھا۔ اس کے سوٹ کیس پر ہر رنگ اور ڈیزائن کے لیبل چسپاں تھے لیکن آسمان کی کسی وسعت میں اس کو یہ پرندہ نظر نہیں آیا تھا۔ اس کا ہاتھ فوراً اپنے کیمرے کی طرف اٹھا۔ پھر اسے یاد آیا کہ رول تو ختم ہوگیا ہے اور اس کے پاس اور فلم نہیں۔

    تو پھر، تو پھر۔

    اس نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری۔

    تو پھر میں اسے اٹھاکر اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ سنہری پنجرے میں ڈال کر اسے اپنی ماں کے جنم دن پر تحفہ دوں گا۔ یہ پرندہ بولتا بھی ہوگا۔ اس کے جسم کی طرح اس کی آواز بھی عجیب و غریب ہوگی۔ میری ماں یقیناً اس تحفے کو پسند کرے گی۔

    پھر اسے لطیفہ یاد آیا کہ کس طرح ایک امیر امریکی نے بے بہا رقم خرچ کرکے ایک گانے والا پرندہ کسی دوسرے ملک سے اپنے گھر تحفے کے طور پر بھیجا۔ اگلے روز یہ جاننے کے لیے کہ پرندہ بحفاظت پہنچ گیا ہے یا نہیں ٹیلی فون پر اپنی ماں سے پوچھا کہ پرندہ کیسا رہا۔ دوسری طرف سے چٹخارے دار آواز آئی، ۔۔۔ نہایت لذیذ۔

    س ف س مسکرادیا۔

    اول تو یہ پرندہ میں خود لے کر جاؤں گا اور اگر ایسا موقع آبھی گیا کہ ماں اپنے کانوں کے ذائقے پر زبان کے ذائقے کو ترجیح دے تو میں بھی اس ضیافت میں شریک تو ہوں گا۔

    وہ ذراہٹ کر، عین پرندے کے سامنے آکے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ پرندے نے رک کر اسے دیکھا، پھر گردن گھماکر غول کے پرندوں پر نگاہ ڈالی۔ پرندے ایک ایک کرکے زمین چھوڑ رہے تھے۔ کچھ درختوں کی طرف بڑھ رہے تھے اور کچھ محرابوں کی طرف۔ کرن اس پرندے کی کھال کو پیازی رنگ کا آخری چھینٹا دے کر بجھ گئی۔ پرندے کی آنکھیں پھر س ف س کی آنکھوں میں تھیں۔ درختوں سے تاریکی اترنے لگی تھی۔ س ف س اپنے اس خزانے کو جلد از جلد قابو میں لینا چاہتا تھا۔ اس نے زمین سے چند دانے اٹھاکر اس کے آگے بڑھائے۔ پرندہ چند قدم چل کر بالکل اس کے قریب آگیا، غور سے ہاتھ میں پڑے دانوں کو دیکھا، پھر چونچ پرے کرکے آسمان پر پھیلی سرخی دیکھنے لگا۔

    بیمار ہے کیا۔ اگر اس نے دانہ نہ کھایا تو پہلے اس کے پیازی گوشت میں دھان کاپانی سوکھے گا اور پھر۔۔۔ لیکن اگر اس نے یہ دانہ نہ لیا تو اسے میرا اعتماد کیسے حاصل ہوگا۔ اور میں اسے پکڑوں گاکیسے اور۔۔۔

    س ف س نے بے صبری سے ہاتھ پھر اس کی چونچ کے آگے کردیا۔ ننگے ٹنڈمنڈ پرندے نے گردن گھمائی اور گول گول آنکھوں سے پھر ہاتھ پر پڑے دانوں کو دیکھا گردن ذرا اور آگے بڑھائی پھر یک دم جھٹکے سے کرکی ماری۔

    ای۔ ی۔ ی۔

    اور س ف س کی چھنگلی سے گوشت نوچ کر ایک طرف کو ہوگیا۔

    س ف س ہاتھ جھٹکتا اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور پرندے کو غصے اور حسرت کی نگاہوں سے دیکھتا اپنی چھنگلی منہ میں ڈال کر چوسنے لگا۔ پھر اس نے جیب سے رومال نکال کر خون میں بھیگتی چھنگلی پر لپیٹ لیا۔ پرندہ پھر زمین پر اپنی پرکھ میں مصروف تھا۔ صحن میں اور کوئی نہیں تھا۔ س ف س کی چیخ سن کر دربان صحن کے دروازے میں آگیا۔ س ف س نے اسے اشارے سے سمجھایا کہ وہ اس پرندے کو پکڑنا چاہتا ہے۔ دربان نے پلٹ کر دیکھا۔ لوگ تھے۔ دروازے کے سامنے سے وہی معصوم سا لڑکا ان دونوں کو غور سے دیکھتا گزرا جس کی مسیں ابھی نہیں پھوٹی تھیں۔ اس کے ہاتھ میں اب بھی پتھر تھا۔ دربان اس لڑکے کو دیکھ کر جھینپ گیا۔ اس نے بے بسی کے اظہار میں کندھے جھٹک کے س ف س کو اشاروں میں سمجھایا کہ وہ اس پرندے کو کیسے پکڑ سکتا ہے اور واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔

    س ف س نے بازو بڑھا کر کہنیاں باہر نکالیں، پرندے پر اپنے ہاتھوں کا سایہ کیا، یہ دیکھنے کے لیے کہ پرندہ بڑھتے ہاتھ دیکھ کر نیچے سے نکل بھاگتا ہے یا نہیں۔ پرندہ اپنی غذا کی تلاش میں سرگرداں پھر اپنے پنجوں پر گھومتا اپنے بازو کا پیچھا کر رہا تھا۔ س ف س نے موقع غنیمت جانا۔ آہستہ آہستہ ہاتھ بڑھا کر پہلے اس کی گردن کو پکڑ کر فوراً چونچ کو قابو کیا، پھر دوسرے ہاتھ سے اس کے پنجے پکڑ لیے۔

    میں تمہیں اپنے گھر لے جارہا ہوں۔ وہاں میں تمہیں اچھی اچھی غذا کھلاؤں گا۔ تمہارے جسم پر پر نکلیں گے، تم سنہرے پنجرے میں بیٹھ کر بہاروں کے گیت گاؤگے اور میری ماں کو خوش کروگے۔

    پرندہ اس کے بازوؤں میں لحظہ بھر کے لیے تڑپ کر ساکت ہوگیا۔

    س ف س نے دربان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے مڑکر دیکھا لیکن دربان مقبرے کی چھتوں سے پھیلتی تاریکی میں نظر نہ آیا۔ وہ اس کو دوسری مرتبہ دیکھنے کی کوشش کیے بغیر پرندے کو بغل میں داب کے لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر آگیا۔۔۔ یہ سوچ کر کہ وہ اس کی خدمت کامعاوضہ بعد میں بھجوادے گا۔

    اس کے شوفر نے بڑھ کر کار کادروازہ کھولا۔ س ف س اچھلتے دل سے کار میں بیٹھ گیا۔ شوفر کار کا دروازہ بند کرنے ہی والا تھا کہ کار نے اندر جلتی روشنی میں اس کی نظریں س ف س کی گود میں جاپڑیں۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اس نے قریب قریب چیختے ہوئے پوچھا، ۔۔۔ صاحب یہ کیا ہے؟

    پرندہ۔ مقبرے سے لایا ہوں۔

    شوفر س ف س کاجواب سننے کے بجائے اس کی چھنگلی پر بندھے سرخ ہوتے رومال کو دیکھ رہا تھا۔

    ہائیں۔۔۔ آپ کی انگلی کو کیا ہوا؟

    کچھ نہیں۔

    س ف س مسکرایا۔

    دوست نے کاٹ کھایا۔ چھنگلی کے عوض یہ مہنگا نہیں۔

    صاحب چھوڑدیں اسے۔ یہ بہت خطرناک جانور معلوم ہوتا ہے۔

    جانور؟ یہ پرندہ ہے بے وقوف۔ یہیں سے ہے۔ پہلے کبھی نہیں دیکھا تم نے؟

    نہیں صاحب، آج تک نہیں دیکھا۔ کیا بڑی آنکھیں ہیں اس کی۔ ان میں اپنا عکس صاف نظر آتا ہے۔ اس کی تلوار بھی چونچ۔ توبہ، مجھے تو خوف آتا ہے۔

    گھبراؤ نہیں، اب یہ کچھ نہیں کہے گا۔ تم باتیں نہ بناؤ، ہوٹل چلو۔

    س ف س نے بے صبری سے کہا۔

    پہلے ہسپتال نہ چلیں؟ آپ کی انگلی!

    نہیں معمولی زخم ہے، تم فوراً چلو۔

    صاحب میری مانیں تو۔

    شوفر اگلا دروازہ کھول کر اپنی سیٹ پر آگیا۔

    او، بکو مت۔ تم چلوگے یا نہیں؟

    شوفر نے چابی گھمائی اور کچھ سوچ کر کہا،

    صاحب آپ کے ملک میں چڑیا گھر والے تو اس کی بڑی قیمت دیں گے۔

    اس نے پیار سے پرندے کو دیکھا۔

    ہوں۔ فی الحال میں اسے گھر لے جاکر کھلاؤں پلاؤں گااور پھر۔ معلوم ہوتا ہے صدیوں سے بھوکا ہے۔

    شوفر نے کار سٹارٹ کی۔ پرندہ س ف س کو غور سے دیکھے جارہا تھا۔ کارچلنے لگی توپرندے نے یک دم سر اچک کر اس کے ہونٹوں پر وار کیا۔ کرکی ہونٹوں سے پھسل کر گال کو چیر گئی۔

    رکنا ذرا۔۔۔ یہ پھر شروع ہوگیا ہے۔

    شوفر انجن بند کرکے فوراب کارسے اترا اور پچھلا دروازہ کھولا۔

    صاحب اسے فوراً پھینک دیجیے۔

    پرندہ س ف س کی گود میں بے طرح پنجے ماررہاتھا۔ اسے قابو کرنے کی کوشش میں اس کے ہاتھ بری طرح زخمی ہوگئے۔

    میری مدد کرو شوفر۔۔۔ بس۔۔۔ بس۔۔۔ قابو۔

    میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ اسے پھینک دیجیے۔ دیکھیے آپ کس طرح لہولہان ہو رہے ہیں۔

    کیسے چھوڑدوں۔۔۔ یہی تو میرے اتنے طویل سفر کا انعام ہے۔

    پرندہ دیوانہ وار تلوار چلا رہاتھا۔ پہلے زخم سے رومال کھل گیا تھا، چھنگلی باریک ریشے کے ساتھ ہاتھ سے لٹک رہی تھی۔

    بس۔۔۔ بس۔۔۔ میں تمہیں بہت کچھ کھلاؤں گا۔

    پرندے کے کان نہیں تھے۔ وہ چیختا ہوا اس کے بازوؤں پر وار کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ پیازی کھال کے نیچے سرخ لہو میں مدوجزر تھا۔

    مدد۔

    س ف س نے شوفر کو پکارا۔ شوفر نے جھجکتے ہوئے ہاتھ بڑھائے اور س ف س کی گود سے پرندے کو اٹھاکر پوری قوت سے باہر فٹ پاتھ پر پٹخ دیا۔ پرندہ پیٹھ کے سہارے گرا۔ ایک لمحے کے لیے اس نے پنجے ہوا میں لرزے اور وہ پھر پلٹ کے پنجوں پر کھڑا ہوگیا۔ شوفر نے اسے ٹھوکر مارنے کے لیے پیر اٹھایا۔ پرندے ٹنڈ منڈ بازو اٹھاکر اپنے نئے مدمقابل کی طرف بڑھا۔ شوفر بھاگ کر کار کی اوٹ میں ہوگیا۔ سڑک پر لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوگیا تھا۔ سب تماشا دیکھ رہے تھے۔ پرندہ بڑی تیزی سے بھاگتا ہوا اچک کے کھلے دروازے سے کار پر چڑھ گیا۔ س ف س کی آنکھوں میں تاریک، خنک سرخ پھولوں سے لدے دھاڑتے جنگل اور پسینے، دھان اور بارود کی بو میں رچے رنگ ناچنے لگے۔

    س ف س نے اپنے ہاتھوں سے وار کو روکنا چاہا لیکن پرندے نے اپنی گردن جھکاکر ہاتھوں کے نیچے سے اس کے سینے کو نوچ لیا اور نوچتا رہا۔ بڑی مشکل سے س ف س نے اٹھ کر اسے ٹھوکر ماری اور ہانپتا ہوا لہو سے تر سیٹ پر گرگیا۔

    اس نے نیلے کانچ سے بہتے اسرار پر پڑتے پردوں کی اوٹ سے دیکھا، شوفر پرندے کو ٹانگوں سے پکڑ کے فٹ پاتھ پر پٹخا رہا تھا۔ پھر یک لخت کسی نے پتھر مارا۔ شوفر کا ماتھا پھٹ گیا اور وہ معصوم لڑکا، جس کی مسیں ابھی نہیں پھوٹی تھیں، جس کا چہرہ وہاں کی زمین تھا، سوندھی سوندھی باس، گندمی گندمی مٹی، نصف کرۂ ارض پر محیط، آگے بڑھا۔ اس نے شوفر سے پرندے کو چھین کر اپنے سینے سے لگالیا اور اس کے سر کو چومتا ہوا ایک طرف کو ہولیا۔

    جیوڈاس۔

    س ف س کے ہونٹ نقاہت میں لرزے۔

    سوڈاکٹر۔۔۔ یہ ہے سارا قصہ۔

    یو بلڈی باسٹرڈ۔

    ڈاکٹر نے زیر لب کہا اور مقامی خون سے بھری بوتل کی نالی کا کلیمپ کھول دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے