Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پتھر، لہو، کتا

انور سجاد

پتھر، لہو، کتا

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    تاریک رات۔

    وہ شخص جس کی لوئی میں رات کا عکس ہے، جس کی زبان پر کانٹے اور پاؤں میں آبلے ہیں، جس کے جسم سے بہتا مڑکا پیاسی زمین پر ٹپکتا ہے، چاروں اور سے سمٹ کر آیا ہے اور اس کھنڈر کی طرف گامزن ہے جہاں ایک سیاہ پتھر پڑا ہے، جو کہ وقت سے پہلے موجود تھا۔ بعضوں کا خیال ہے کہ یہ پتھر وقت کے بعد بھی رہےگا۔ جب چاروں اور سے سمٹ کرآنے والا چاروں اور پھیل جائےگا۔

    اس شخص کے دھیان میں کچھ نہیں۔ کالی رات، خشک جھاڑیاں، پیاسی زمین، کچھ بھی نہیں، صرف اس کی گہری سوچ میں ڈوبی آنکھوں میں اس سیاہ پتھر کی روشنی ہے۔ جو سامنے کھنڈر میں شہ نشین پر پڑا ہے، جو وقت سے پہلے وہاں موجود تھا، بعضوں کا خیال ہے۔

    وہ آبلہ پاکھنڈر کی طرف اگلا قدم بڑھاتا ہی ہے کہ قریب سے کتے کی لمبی بھونکار اس کے پیروں میں الجھتی ہے۔ وہ رکتا ہے۔ اپنی لوئی کے پلو کو ٹھیک سے کاندھے پر جماتا ہے اور کتے کی بھونکار کی جانب دیکھتا ہے۔ بھونکار اس کے کانوں سے پھسلتی ہوا کے ساتھ دور دور جاکر تحلیل ہو جاتی ہے۔

    وہ مسکراتا ہے۔ کھنڈر کی جانب بڑھتا ہے۔

    وہ جب سے روانہ ہوا ہے۔ مختلف وقفوں کے بعد اس کے بالکل قریب کتے کی لمبی بھونکار اس کے پیروں میں الجھتی ہے، وہ رکتا ہے، اپنی لوئی کے پلو کو ٹھیک سے کاندھے پر جماتا ہے اور آواز کی جانب دیکھتا ہے۔ بھونکار ہر مرتبہ اس کے کانوں سے پھسل کر ہوا کے ساتھ دور دور جاکر تحلیل ہو جاتی ہے۔ وہ مسکراتا ہے اور پھر کھنڈر کی جانب بڑھنے لگتا ہے۔ اگلے لمحے اس کو چوکھٹ سے ٹھوکر لگتی ہے۔ اس کے پیروں کے آبلے پھوٹتے ہیں اور پانی کے ساتھ مل کر سرخ سرخ چمکیلا لہو چوکھٹ کو سیراب کرتا ہے۔

    شہ نشیں پر سیاہ پتھر کی روشنی تیز ہو جاتی ہے۔

    دروازے کا دوسرا پٹ بھی چرچراتا ہوا کھل جاتا ہے۔ وہ دہلیز کو پار کرتا ہے۔ سامنے پتھر کو دیکھ کر اطمینان کا سانس لیتا ہے۔ کتے کی بھونکار بالکل اس کے قریب سے ابھرتی ہے اور ہوا کے ساتھ ساتھ دور دور جاکر تحلیل ہونے کے بجائے اس کے قریب کھنڈر کی دیواروں میں جذب ہو جاتی ہے۔

    وہ بڑے اعتماد سے سیاہ پتھر کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے۔ مضبوط ہاتھوں سے اس پتھر کو اٹھاتا ہے، لوئی کے نیچے ہو جاتی ہے۔

    دہلیز کے پار قدم رکھتا ہی ہے کہ یا ہو کی آواز سے کھنڈر کے درودیوار لرز جاتے ہیں۔ دیوار کی اوٹ سے ایک شخص جس کے چہرے کا نچلا حصہ نقاب سے ڈھکا ہے، جس کی کمر میں بڑی میخوں والی چوڑی پیٹی کے ساتھ، رانوں کے دونوں طرف پستول لگے ہیں، یک لخت دائیں ہاتھ سے پستول نکلتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے جس میں اس نے کوڑا تھام رکھا ہے، چوڑے پھیر والے ہیٹ کو سر سے ذرا پیچھے سرکاتا ہے اور لوئی والے کو ہاتھ اوپر اٹھانے کا حکم دیتا ہے۔

    لوئی والا شخص سیاہ پتھر کو اور بھی لوئی میں چھپاتا ہے، قدم قدم پیچھے ہٹتا ہے۔

    سیاہ پوش اپنے حکم کی تعمیل نہ پاکر پستول کی گرفت مضبوط کرتا ہے۔ بائیں ہاتھ سے کوڑا لہراتا ہے۔ لوئی والے پر کوڑا برستا برستا لمحہ بھر کے لیے S کا روپ دھارتا ہے، کوڑے کا دستہ ایس پر عمود میں گرتا نظر آتا ہے۔

    نقاب پوش اسے ایس کے ہک میں لے کر اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ہنستا ہے۔

    دونوں اپنی اپنی زبان میں لفظوں کے وار کرتے ہیں۔ لیکن بے سود۔ نقاب پوش پستول کی نالی اس کی کمر میں لگا دیتا ہے۔ لوئی والا ایک ہاتھ سے بھاری پتھر کو سینے کے ساتھ سنبھالتا ہے۔ دوسرے ہاتھ سے تہمد کے ڈب سے خنجر نکالتا ہے۔

    دونوں جسموں سے خون کے فوارے ابلتے ہیں۔ لوئی والے کے ہاتھ سے سیاہ پتھر لڑہک جاتا ہے۔ کچھ لوئی والے کے سرخ چمکیلے خون سے آلودہ ہوتاہے۔ باقی حصہ پر نقاب پوش کے دھندلے سفیدی مائل لہو کے دھبے پڑ جاتے ہیں۔

    نقاب پوش اپنی زبان میں بڑے کرب سے کہتا ہے۔

    میں تو مر گیا!

    لوئی والا اس کی بند ہوتی آنکھوں اور سیاہ پتھر کی طرف رینگتے جسم کو جامد ہوتے دیکھ کر اپنی زبان میں حیرت سے سوال کرتا ہے۔

    میں بھی تو مر گیا؟

    پھر سیاہ پتھر اپنے چمکیلے لہو کو دیکھ کر مسکراتا ہے اور کراہ کے آنکھیں موند لیتا ہے۔

    کتا اپنی آواز کا پیچھا کرتا ہوا وہاں آتا ہے۔ لوئی والے کو لمحہ بھر کے لیے دیکھتا ہے۔ آنکھیں جھپکتا ہے۔ پتھر کی طرف بڑھتا ہے۔ اسے سونگھتا ہے۔ پتھر پر سرخ سرخ چمکیلے خون کو چھوڑ کر دھندلے سفیدی مائل لہو کو چاٹتا ہے۔ اسے اپنے سارے وجود میں جذب کرکے اپنے اگلے پیر جوڑتا ہے اور ان پر تھوتھنی ٹکاکر بیٹھ جاتا ہے۔ اسی سیاہ پتھر کے سرہانے، جو کہ وقت سے پہلے موجود تھا اور جس کے بارے میں بعضوں کا خیال ہے کہ یہ پتھر وقت کے بعد بھی رہےگا جب کہ چاروں اور سے سمٹ کر آنے والا چاروں اور پھیل جائےگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے