Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پتھر اور کونپل

نجمہ نکہت

پتھر اور کونپل

نجمہ نکہت

MORE BYنجمہ نکہت

    اس نے ہتھیلی کی پشت سے پلکوں پر جلتے ہوئے آنسووں کے قطرے پونچھ دیئے اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ نیلے آسمان پر دور تک پھیلے ہوئے بادلوں کے غبار پر نظر جم گئی۔ پھر دیکھا تو دور تک میدان ہی میدان پڑا تھا۔ مٹیالا، مٹیالا اور کہیں کہیں ہلکا سبزہ زمین پر بچھی ہوئی کاٹی کی طرح لگتا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کے پردے کی چنت سمیٹ لی۔ ہوا کا ایک جھونکا تیزی سے آیا اور آنکھوں کی نمی پر ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ وہ کتنی دیر سے رو رہی ہے۔درد کی ٹیسیں دل کی رگ رگ میں رینگ رہی ہیں۔ دل کا سارا غبار آنسوں کے ننھے منے قطروں میں بہہ رہا ہے۔ پھر بھی ایک پتھر سا سینے پر دھرا ہے۔

    یہ درد بادلوں کی طرح اس کے سینے میں کیوں تیرتا پھرتا ہے۔ ایک دم چھما چھم برس کے تھم جائے بھرا بھرا سا دل لئے وہ کب تک منہ چھپا کے روتی رہےگی۔

    میدان پر جھکے ہوئے ابر کے سیفد ٹکڑے ایک دوسرے کے پیچھے دھیرے دھیرے رینگ رہے تھے۔ ویسے ہی جیسے وہ اپنی زندگی کی لمبی، اداس اور سنسان سڑک پر مشین کی طرح چلتے چلتے تھک گئی اور دھیرے دھیرے بھاری بھاری قدم اٹھا رہی ہے۔ منزل کہاں ہے؟ یہ بادل کہاں جا رہے ہیں۔ چپ چاپ بھرے بھرے دل کے ساتھ یہ کہاں برس پڑیں گے۔ اس نے کنکھیوں سے دیکھا۔ اس کا شوہر جھولنے والی کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ دونوں کے بیچ صرف اخبار کی اوٹ تھی مگر اس کو یوں لگا جیسے یہ اخبار نہیں ہے۔ ایک مضبوط دیوار ہے اور اس دیوار کو ان دونوں کے خیالات، احساسات، نظریات و جذبات کے اختلافات نے تعمیر کیا ہے۔

    وہ دونوں ایک دوسرے سے کس قدر مختلف تھے۔ کوئی ایک عادت بھی تو مشترک نہ تھی پھر بھی وہ اس کی ذرا ذرا سی فرمائش پوری کرتی۔ اس کی عادتوں کو اختیار کرنے کی کوشش میں اس کی اپنی عادتیں بھی چھوٹ گئیں۔ اس کی شخصیت میں خود کو گھول دینے میں اس کی اپنی شخصیت مسخ ہو گئی اور وہ یوں خالی الذہن ہو گئی جیسے سوچنے کو دنیا میں کچھ نہ رہ گیا ہو۔

    پھر بھی وہ ایک گھر میں رہتے تھے۔ایک پلنگ پرسوتے تھے۔ ایک دوسرے سے دور ہوتے ہوئے بھی وہ ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔۔۔ یہ گھر جواس کے آنے سے پہلے ویران پڑا رہتا تھا، جس کو اس کے ہاتھوں نے سنواراسجایا تھا وہ سارے گھر میں کھوئی کھوئی سی کام کاج میں مصروف گھومتی رہتی تو پردے لہرا لہرا کے پوچھتے۔ تم کون ہو۔۔۔؟ گلدانوں کے پھول سر اٹھا اٹھا کے اس کو پہچاننے کی کوشش کرتے اور اس کے اندر ہی اندر کوئی بڑی ڈراؤئی آواز میں ضد کئے جاتا۔ تم کون ہو۔۔۔؟ تم کون۔۔۔؟

    وہ بھولی بھالی سانولی لڑکی جس کی بڑی بڑی آنکھوں میں کا جل کی تحریر ایک خوبصورت شعر کی طرح لکھی ہوئی تھی۔۔۔جس کی نظروں میں زندگی کے ولولے شعلے بن کر لپکتے تھے جس کے ننھے منے دل میں امنگوں کے چراغ سدا کو دیتے تھے اور جس کے شاداب ہونٹوں پر اچھوتی مسکراہٹ چھائی رہتی تھی۔ جو ہنستی گا تی حسین زند گی کے سپنے دیکھتی تھی۔۔۔ وہ آج تھکی تھکی، بجھی بجھی یوں بیٹھی ہے جیسے اس کے سارے سپنے لٹ گئے ہیں۔ شعلے راکھ بن چکے ہیں۔ اُمنگوں کے سارے چراغ ایک ایک کر کے بجھ گئے ہیں اور اندھیرے کی گمبھیرتا میں اس کو اپنا راستہ نہیں سوجھتا۔ وہ کہاں جائے؟ کیا کرے؟

    کھڑکی میں بیٹھی وہ آسمان کو تکتی رہی۔بادلوں کے غبار میں بنتے بگڑتے محل اس کو بچپن سے اچھے لگتے تھے۔ اپنی تھوڑی ہتھیلیوں کے پیالے میں جمائے وہ بیٹھی گھنٹوں انھیں گھورا کرتی۔ ہائے یہ محل تواس کی اپنی اُمیدوں کے محل ہیں۔ ابھی بنے نہیں کہ ٹوٹ گئے! کیا دیکھ رہی ہو بیٹی۔۔۔؟ اس کا باپ اپنا شفقت بھرا ہاتھ اس کے بالوں پر دھیرے دھیرے پھیرنے لگتا۔۔۔

    جی۔۔۔؟ وہ چونک کے دیکھتی۔۔۔ وہ شفیق آنکھیں جن کے اطراف جھریوں نے جالے تان رکھے تھے، مسکرانے لگتیں۔

    دیکھئے نا۔۔۔ یہ بادلوں کے زمین وآسمان۔۔۔ بادلوں سے بنے ہوئے محراب اور کمانیں۔۔۔ محل کی دیواریں وسیڑھیاں کتنی اجلی ہیں جیسے یہ سب کچھ برف میں ڈھالے گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے بادلوں نے پوری الف لیلی ٰ پینٹ کی ہو۔۔۔ ویسے ہی شاندار محل اور ویسا ہی پراسرار ماحول۔۔۔

    اور اس کا باپ ہلکی سی چپت لگا کے کہتا، بس پگلی ہے۔ بالکل پگلی اس نے بچپن کی دہلیزسے باہر قدم رکھا تواس کی ضدی ہٹیلی اور پر وقار شخصیت پرسب ہی وارے نیارے ہو گئے۔ اس کا باپ اس کی ذراسی ناراضگی پر اداس ہو جاتا۔ ماں ذراسی تکلیف پر تڑپ اُٹھتی اور بھائی اس کی ہر ضد یوں پوری کرتا جیسے زندگی کے اہم ترین فرائض میں یہ فرض بھی شامل ہو۔

    ایک دن وہ یوں ہی گلاب کی خاردار باڑھ میں کھلے ہوئے گلابی پنکھڑیوں والے پھولوں پر تھرکتی رنگ برنگی تتلیوں پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ ہمیشہ کی طرح ہونٹوں پہ مسکراہٹ تھی، نظریں تتلیوں کے تعاقب میں اڑ رہی تھیں اور کورے بالوں کی لٹیں روپٹہ کی ملگجی سلوٹوں پر بکھر گئی تھیں کہ اچانک سامنے سے کسی پکارا۔

    ارے دیکھ تو یہ کو ن آیا ہے۔۔۔؟

    کون آیا ہے۔۔۔؟ اس نے لا پرواہی سے نظریں اٹھائیں۔

    گھنی گھنی گنجان بھووں کے نیچے دو خوبصورت سی اداس آنکھیں اسے دیکھ رہی تھیں۔

    گھڑی بھر کے لئے وہ انداز ہ نہ کر سکی کہ کہاں کھڑی ہے۔

    یہ انجم ہے میرا نواسہ۔۔۔ مگر تو نے کا ہے کو دیکھا ہو گا۔ آہاہا۔۔۔ ہی ہی بالکل سنکی ہے سنکی۔۔۔ داڑھی مونچھ نکل آئی تواب نانی کا گھر یاد آیا۔۔۔ رحمت خالہ نے گویا تعارف کروایا۔ پھولی پھولی سانسوں کے ساتھ اپنی مخصوص ہنسی کے درمیان انھوں نے رک رک کے بتایا۔۔۔ مگر وہ اس قدر مرعوب ہو گئی تھی کہ ‘‘بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کے’‘ کا عام پسند جملہ بھی نہ دہرا سکی۔ وہ آنکھیں اب تک اس پر گڑی ہوئی تھیں اور وہ گھبرائی گھبرائی سی اِدھر اُدھر نظریں دوڑا رہی تھی۔ اِدھر ادھر کی کچھ باتوں کے بعد غالباً رحمت خالہ نے سوچا کہ وہ اب تک تفصیلی تعارف کرانے میں ناکام رہی ہیں۔

    ’’اب تو اللہ رکھے ملازمت بھی مل گئی مگر عورت کی برائی تو اس کے دماغ میں بیٹھ گئی ہے کہتا ہے شادی نہ کروں گا۔۔۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ دنیا کے لڑکے کیا چاؤ کرتے ہیں شادی بیاہ کا۔۔۔ ارے شادی ہو گی تو بیوی بچے ہوں گے، ہوں گے، گھر ہو گا اپنی جھونپڑی کا ارمان کسی کے محل کو دیکھ کے پورا نہیں ہوتا بھلا تنہائی کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے۔۔۔؟’‘ رحمت خالہ ایک ہی سانس میں کہتی چلی گئیں۔ ‘‘اچھا۔۔۔ تو آپ کو عورت سے نفرت ہے’‘ اس نے دل ہی دل میں ہنسی اڑائی اور رحمت خالہ کی بات سنی ان سنی کر کے اٹھ کھڑی ہوئی چلئے رحمت خالہ برآمدے میں بیٹھیں۔۔۔

    نہ جانے مردوں کو یہ عجیب سامرض کیوں ہوتا جا رہا ہے،کسی خوبصورت لڑکی کو دیکھا تو بس پہروں گھورتے رہیں گے۔ اپنے متعلق اس کے ہونٹوں سے نکلا ہوا معمولی ساجملہ بھی سننے کو کان ہر وقت کھڑے رہیں گے۔ چلتے چلتے ہاتھ ملانے کو بےقرار ہو اٹھیں گے۔ مگر کہیں گے کیا۔۔۔؟

    ارے شادی۔۔۔؟ کون یہ جھنجھٹ مول لے، عورت بری چیز ہے عورت تو بری چیز تب سے ہے جب حوا پیدا کی گئیں اور حضرت آدم بھی جنت سے نکلے ہوئے یہی تیر عورت کے کلیجے پر لگا تے گئے مگر عورت کا کلیجہ تیر کھا کھا کے چھلنی بھی ہو جاتا ہے تو اپنے زخم چپکے سے چھپا لیتی۔ یوں اعلان نہیں کرتی پھرتی۔۔۔ رحمت خالہ کے پلے کچھ نہ پڑا تو جلدی جلدی پان کی ڈبیا پر بندھی دستی کی گرہ کھولنے میں مصروف ہو گئیں۔

    انجم نے چونک کراس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں جیسے اداس شام گہری ہو گئی تھی۔

    ‘‘اچھی خاصی فلاسفر کی نانی ہے یہ ذراسی لڑکی۔‘‘ اس نے سوچا بڑی مشکل سے انجم نے اپنی شخصیت پر روغن چڑھا یا تھا۔ اپنی باتوں کے انوکھے انداز اور آنکھوں کی اداسی کو سحر زدہ سابنائے وہ ہر بحث مباحثہ میں زور وشور سے حصہ لیتا۔۔۔ فتح مندی کی مسکراہٹ ہونٹوں پہ لیئے اپنی شخصیت کے احترام میں گھنی بھنویں کھینچے، مضبوطی سے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبائے وہ کرسی سے اٹھتا تو دیکھنے والے داد دینے کے انداز میں تعریفی نظریں اس کی طرف پھینکتے مگر یہ لڑکی تواس کو یوں نظر انداز کر رہی تھی کہ اس نے جگہ جگہ سے اپنی شخصیت کے رنگ و روغن کو کھرچا محسوس کیا، آنکھوں کی اُداسی کا سحر پہلی بار ناکام رہا اور وہ جلد ہی اکتا گیا۔۔۔

    جب تک اس کی چھٹیاں ختم نہ ہو گئیں وہ آتا رہا۔۔۔ دنیا کے سارے خشک موضوع اس کے آتے ہی سرپٹ دوڑتے آتے اور دونوں کے درمیان بکھر جاتے انجم کے انداز بیان، لہجہ کی گرمی اور صحت مند نقطۂ نظر کی وہ قائل ہوتی جاتی مگر کبھی کبھی وہ سوچی۔۔۔ یہ ہوا کے ہلکے سے جھونکے کا جھک کے سلام لینے والے ننھے منے پھول۔۔۔ یہ اترائے اترائے سے شریر بھونرے اور جھپٹ جھپٹ کے ہر طرف دوڑ نے والے پھولوں کی مہک۔۔۔ کیا یہ کسی بھی خوشگوار گفتگو کا موضوع نہیں بن سکتے۔۔۔؟

    مگر اس کی آرزو کبھی پوری نہ ہوئی۔ انجم ہمیشہ زندگی کا کوئی خشک ترین مسئلہ اپنے سوچ بچار کے لئے چن لیتا اور اس کو بھی حصہ لینا پڑتا۔

    ایک اداس سے دن رحمت خالہ نے چھالیہ کاٹتے ہوئے اسے بتایا کہ انجم کی چھٹیاں ختم ہو چکی ہیں اور وہ دو ایک دن میں علی گڑھ کے لئے روانہ ہو جائےگا دن اور اداس ہو گیا، سنہری دھوپ چپکے چپکے دیواروں کے آخری سروں پر پہونچ گئی اور آنگن میں دم جھٹک جھٹک کے شور مچانے والی چڑیا خاموشی سے چونچ نیوڑھا کر اپنا ایک ایک پر صاف کرنے لگی۔ سامنے منڈیر پر بیٹھا ہوا کوا سر اٹھا اٹھا کے اپنے ساتھی کو پکارنے لگا۔ سارا ماحول ایک بے نام سی اُداسی کی آغوش میں اونگھنے لگا۔

    ‘‘کیا واقعی انجم کو عورت سے نفرت ہے؟ اس نے سنجیدگی سے سوچا۔ وہ جب کبھی انجم کے ذہن سے اس زہریلے خیال کو نکال پھینکنے کی شعوری کو شش کرتی تو انجم اپنے ہونٹوں پر طنز بھری تلخ مسکراہٹ لئے چپ چاپ بیٹھا رہتا جیسے اس کا ساری بکواس کا جواب بس یہی مسکراہٹ ہے۔! اور وہ تھک کر بیزار کن نظر سے آس پاس پڑی ہوئی چیزوں کا جائزہ لینے لگتی۔

    ‘‘پتہ نہیں، آپ بیٹھے ایک ہی رخ کیوں گھورا کرتے ہیں۔’‘

    ’’وہی رخ میرے سامنے ہمیشہ آیا ہے۔‘‘

    ‘‘عجیب بات ہے۔‘‘

    ’’جی ہاں۔’‘

    اور یوں وہ ہمیشہ دامن چھڑا کے بھاگتا۔۔۔

    اس کو بھی ضد ہو گئی تھی۔ یہ مدت سے انجم کے ذہن میں ایک ہی کروٹ پر لیٹا ہوا اعتقاد کروٹ بھی تو بدل سکتا ہے۔۔۔ اور وہ ہر ممکن طریقہ پر اسے گدگدائے جاتی۔۔۔ کوئی بات تو ہوگی ہی جو وہ یوں عورت کی ساری مہربانیوں سے منکر ہو بیٹھا۔ اس کی زندگی میں کوئی نفیسائی موڑ ایسا ضرور آیا ہوگا جہاں پہونچ کر،اس نے اس نفرت کا صحیح جواز ڈھونڈ نکالا ہو۔ کون جانے ان ڈھیرسے جذبات کے پیچھے کوئی ان کہی بات ڈھکی چھپی پڑی ہو۔۔۔ انجم جاتے ہوئے اس سے ملنے آیا تو بولا مجھے خوشی ہے کہ میری چھٹیاں آپ کی بدولت اچھی گذر گئیں۔ وہاں تو ایک بھی بےتکلف دوست نہیں ہے میرا۔۔۔ میں آپ کو ایک اچھے دوست کی حیثیت سے یاد رکھوں گا۔

    ’’بس۔۔۔؟’‘ اس نے جیسے اپنے آپ سے پوچھا۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔

    اکثر اپنے کمرے کا دروازہ بند کئے وہ ساری دنیا کے سیاسی، سماجی و معاشی مسائل پر سر دھنا کرتی۔ اخبار میں صر ف فلمی اشتہارات، اغواء مار دھاڑ و قتل کی دہشتناک خبریں پڑھنے والی اب سیاست کی نبض ٹٹولنے چلی تھی۔۔۔

    ایک بار جب اس کا جی مسلسل پڑھنے لکھنے سے اکتا گیا تواس نے سارا کمرہ الٹ پلٹ کے رکھ دیا۔ بے ترتیب کپڑے الماری میں سلیقہ سے تیار رکھے تھے الماری کی جگہ پلنگ نے لے لی۔ پلنگ کی جگہ لکھنے کی میز آ گئی۔ الماری ایک نمایاں کونے میں رکھ گئی۔ فرش دھویا گیا۔ گلدانوں کے مرجھائے ہوئے پھول تاز ہ ٹہنیوں میں تبدیل ہو گئے۔

    اس کی جان سے زیادہ عزیز کتا بیں نئی نویلی دلہنوں کی طر ح بک شیلف میں سجائی گئیں۔۔۔ اس اٹھا دھری میں بھی اس کا جی نہ لگا تو وہ رحمت خالہ سے ملنے چلی گئی۔

    رحمت خالہ اس کی وحشتوں سے بے خبر آمدنی کے محدود ذرائع گرانی کی زبردست ہولناکی اور اس کے باوجود اپنی سلیقہ شعاری اور پرانی روایات پر چل کے اپنے باپ دادا کا نام روشن کرنے کی سعادت پراس کو دیر تک لکچر پلاتی رہیں اور وہ انتہائی بیزاری سے صبر و شکر کئے بیٹھی ہوں۔ ہاں کرتی رہی۔ باتوں باتوں میں اس نے انجم کے ماضی کو تجس کے تیز ناخن سے کریدا۔

    ’’رحمت خالہ ! یہ آپ کے انجم ہیں نا۔۔۔ بھٹی مجھے وہ عجیب سے لگتے ہیں ضدی اور ہٹیلے۔ مگر ضدی آدمیوں کی آنکھوں میں چمک ہوتی ہے تیز تیز نظر ہوتی ہے مگر مجھے تو ان کی آنکھوں میں بڑی اُداسی نظر آتی ہے۔‘‘

    ’’یہ اپنا انجم۔؟’‘ رحمت خالہ نے اپنی بے رونق آنکھیں پھیلا کے پوچھا ’’اپنا؟‘‘ وہ یہ کیسے کہہ سکتی ہے۔۔۔!

    یہ لو تم کو پتہ نہیں؟ دل کا درد تو آنکھوں ہی میں امڈ آتا ہے اتنی ذرا سی جان تھی اس کی کہ ماں کو زچگی کی بیماری نے کھا لیا۔ دادی نے گود لیا۔ اپنی جان تج تج کر اس کی پرورش کی اور سہرا دیکھنے کی آرزو اپنے ساتھ کفن میں باندھ کر لے گئیں۔ ایک بہن تھی سو اللہ کو پیاری ہو گئی۔ باپ کو کبھی بیٹے کے اچھے برے سے مطلب نہ رہا۔ موئے سوتیلے بچوں سے کیا کوئی ایسا برتاؤ کرےگا جو انھوں نے اس بےماں کے بچے کے ساتھ کیا۔وہ تو اللہ پاک کا صدقہ تھا کہ انجم پڑھ لکھ گیا اور چچا کے دل میں اس نے رحم ڈال د یا ورنہ پرائی آگ میں، کون پھاندتا ہے مگر قسمت کا ہمیشہ ہی کھوٹا ہے۔ بڑی آپا کی لڑکی سے نسبت تھی نسبت تھی۔ سنا تھا کہ انجم کو بھی لڑکی جی جان سے پسند ہے خدا کی کرنی دیکھو، اس وقت انجم بیچارا پڑھتا تھا اور بڑی آپا کے لئے لڑکی کا بوجھ سنبھا لے نہ سنبھلتا تھا۔ یوں بھی بیوہ عورت پر ہر کس و ناکس انگلی اٹھاتا ہے۔ اوپر سے جوان لڑکی کا گھر بٹھا نا۔۔۔ آپا بھی بھڑوں کے چھتے میں گھر گئیں۔۔۔ جتنے منہ اتنی باتیں تھیں۔۔۔ لڑکی ذات تو نگوڑی ترائی کی بیل ہے اگی نہیں کہ منڈے چڑھی۔

    رحمت خالہ دم لینے کو رک گئیں اور بار بار بٹوہ کی تہہ میں دو چار گرے پڑے چھالیہ کے ٹکڑے ٹٹولنے لگیں۔۔۔ اور وہ آرام کرسی پر بےسدھ پڑی ہی دماغ میں ہزاروں خیال ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے اور اس مسلسل دھما چوکڑی میں اس کے جسم کے سارے اعضاء تھکن سے چور، چور، اس سے بےتعلق پڑے رہے۔ بھلا چارسال کون اس بوجھ کو ڈھوتا پھرے۔۔۔ حسن مرزا وکیل کا لڑکا ولایت سے بیرسڑ ہوکے آیا تو چٹ منگنی پٹ بیاہ ہو گیا۔۔۔ آج لڑکی سونے چاندی میں کھیلتی ہے اور انجم میاں ایسے سر پھرے ہیں آج تک کسی لڑکی کے لئے حامی نہ بھری۔۔۔ ان کے لئے کمبخت عورت بس کی پڑیا ہو گئی کہ نام لیا اور موت کا سناٹا طاری۔

    ’’ہوں’‘۔۔۔ اس نے جیسے سارے جسم کی بچی کھچی طاقت اکٹھی کرے کہنا چاہا مگر نہ کہہ سکی۔

    ‘‘اب یہ حال ہے کہ گھر میں کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے، نہ اچھے برے، یہ ٹوکنے والا۔ بے ناتی کا بیل بنا شہر شہر گھومتا ہے۔وہ تو کہو اب نوکری کی بیڑی پیر میں پڑھی ہے۔ میں تو کہتی ہوں بی بی۔۔۔ جس گھر میں عورت نہیں ہوتی وہ گھر میں گھانس پھونس ہوتا ہے۔ ذراسی چنگا ری پڑی اور بھک سے اڑ گیا۔

    اور دور کہیں اس کے لا شعور میں اس کا ننھا منا پیارا گھر رحمت خالہ کی باتوں کی چنگاریاں لے اڑیں۔۔۔ تنکا تنکا بکھر گیا۔

    آخر اس نے انجم کی زندگی کے نفسیاتی موڑ پر پہونچ کر ڈھکے چھپے راز کو ڈھونڈ نکالا جہاں انجم کی زندگی عورت کی محبت، شفقت اور قربانیوں سے محروم ہو گئی تھی جہاں یہ سب پیاری چیزیں اس کی دسترس سے دور تھیں۔ ادر یہ دوری نفرت بن کے اُبھری تھی جب ہم خوشیوں سے محروم ہو جاتے ہیں تو ہنستے ہوئے لوگ کس قدر کمینے لگتے ہیں! بعید از قیاس چیزیں تخیلی ہوکے رہ جاتی ہیں اور جو کچھ اپنی زندگی میں ہوتا ہے دہی حقیقت کا احساس دلاتا ہے۔ کہتے ہیں اس دنیا کے بعد بھی ایک اور دنیا ہے مگر کس کو یقین آتا ہے کہ اللہ سچ مچ اتنا مہربان ہے کہ زندگی بھر دکھی انسانوں کو تڑپاتا ہے، ترساتا ہے۔۔۔ ہنستے کھیلتے چہرے دکھا دکھا کے بدلے لیتا ہے اور مانگے سے موت نہ دینے والا۔ بغیر مانگے موتی کے محل، شہد، دودھ کی نہریں اور خوبصورت شفیق حوریں دےگا۔۔۔ کون یقین کرےگا۔

    دوسروں کو خوشیاں بانٹنے والا اور اپنے حصہ میں دکھ درد رکھ لینے کی عورت کی ازلی خواہش، اس میں شد ت سی جاگنے لگی۔

    انجم نے کہا تھا وہاں، اس کا کوئی بےتکلف دوست نہیں۔۔۔ کا ش وہ اس کے پاس پہونچ جائے، اس کے خشک کورے بالوں میں اپنی ننھی منی نرم ہتھیلیوں سے خالص چنبیلی کے تیل کی مالش کرے اور جب بالوں میں گھومتی نرم و نازک انگلیوں کی سرسراہٹ اس کو نیند کی آغوش میں پھینک دے تو وہ اس کے چوڑے ماتھے سے بالوں کے گچھے سمیٹ لے۔ میز پر بے ترتیبی سے بکھری ہوئی کتابوں کو بک شیلف میں سلیقے کے ساتھ سجادے اور کھڑکیوں میں بڑے بڑے گلدانوں میں اس کے ہاتھوں سجائی ہوئیا گلاب کی ٹہنیاں صبح تک سر اٹھائے کھڑی رہیں۔۔۔

    رات دیر گئے تک وہ جاگتی رہتی۔۔۔ برابر کے کمرے میں امی اور ابّا کے بوڑھے چونچلے نیند کی خر خر میں تبدیل ہو جاتے۔ برآمدے میں لگا ہوا زیرد نمبر کا بلب اپنی زرد اداس روشنی بکھیرنے لگتا اور ہوا کے جھونکے کھڑکیوں سے پھڑپھڑاتے چمگادڑوں کی طرح کمروں میں گھومتے پھرتے اور وہ پلکوں پر زندگی کے ادھورے خواب لئے لحاف میں گھس جاتی۔

    خواب دیکھتے رہنے میں کتنی لذت ملتی ہے۔ زندگی کی ساری ناکامیوں نامرادیوں کا مداوا اُلٹے سیدھے خواب ہیں جن کی صحیح تعبیریں ملنے کی امید زندگی میں رس گھولتی رہتی ہے۔

    چائے ٹھنڈی ہو گئی بی بی ‘‘زہرہ بی اپنی ڈوبی آواز میں اطلاع دیتیں۔

    مگر وہ سوئے جاتی۔ صبح ہی صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ اس کی نرم و گرم ریشمی بالوں والی بلی کھڑکی سے کودکرسرہانے آ بیٹھتی اور مسلسل میاؤں میاؤں کئے جاتی۔ پھر چنبیلی کی گھنی بیلوں پر ایک ساتھ چڑیوں کا شور گونج اٹھتا۔۔۔

    اور کھانے کے کمرے میں دیر تک برتنوں کی پٹک جھٹک کے بعد زہرہ بی کی آواز ابھرتی تو وہ جھنجلا کے اٹھ بیٹھتی۔

    بائے اللہ جیسے ساری کائنات کو اس کے رسیلے دلآدیز خوابوں سے چڑ سی ہو گئی ہے۔ آخر کوئی خواب پورا بھی ہوگا؟ مگر ہر بار کوئی نہ کوئی ادھورے خواب سے چونکا دیتا۔ وہ آنکھیں ملتی ہوئی تکیہ کے نیچے سے دوپٹہ نکال کے یونہی کاندھوں پر پھیلا لیتی اور ٹھنڈ ی چائے حلق میں انڈیل کر زہرہ بی کے ہاتھوں پیالی تھما دیتی تو زہرہ بی کی آنکھوں کا دبا ہوا درد اسے جھنجوڑ نے لگتا۔ زہر ہ بی کے شوہر نے اس کی بے شمار مہر بانیوں اور حدسے بڑھی ہوئی محبت سے تنگ آکے کسی ایسی دیسی عورت کو گھر میں ڈال لیا تھا جو اپنی موٹی موٹی آنکھوں و سیاہ چہرے کے ساتھ زہرہ بی کی زندگی میں سیاہی گھولنے آئی تھی اور تب سے زہرہ بی کی آواز سے ساری کھنک غائب ہو گئی تھی جب وہ باتیں کرتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے دور کسی کھائی میں پڑا کوئی دھیرے دھیرے بڑبڑا رہا ہے۔ ہنس ہنس کے مذاق کرنے والی، گھر بھر میں بسورتی پھرتی۔ چولہے کی گیلی لکڑیاں زہرہ بی کے مسلسل پھونکنے پر بھی دھواں دیئے جاتیں تو وہ بھکنی سے لکڑیوں پر زور زور سے ضربیں لگانے لگتیں۔ جھوٹے برتنوں سے چکنائی چھڑاتے ہوئے بار بار پٹک پٹک کے کڑکڑانے لگتی۔ قالینوں، گلدانوں اور سیاہ خوبصورت دیوار گیریوں پر رکھی نازک مورتیوں سے تک وہ لڑتی جھگڑتی، پٹکتی اور چپکے چپکے گالیاں دیتی۔ آخر وہ اپنے سارے دکھوں کا بدلہ کس سے لے؟

    اس نے سر اٹھایا تو زہرہ بی جاچکی تھی۔ خالی پیالی کے ساتھ رحمت خالہ کے پاس انجم کے خطوط کبھی کبھار آ جاتے۔ ان میں اس نے پوچھا تھا ’’اس بڑی بڑی آنکھوں والی لڑکی کا کیا حال ہے؟ میرا سلام پہنچا دیجئے’‘۔ یہ سلام رحمت خالہ خاص طور پر آ کے پہنچا جاتیں اور جواب میں وہ کہتی میرا بھی سلام لکھ دیجئے اور پوچھئے کیا عورت سے نفرت آج تک قائم ہے؟ اور جانے اس نے کیا جواب لکھا کہ رحمت خالہ دیر تک بڑے دالان میں بیٹھی اس کی امی سے سر جوڑ کے پان چبا چبا کے باتیں کرتی رہیں اور اٹھتے اٹھتے ’’اے بہن یہ معاملہ تو چٹکی بجاتے میں طے ہو جانا چاہئے’‘ کا خوبصورت مصرعہ گنگنا کر چلی گئیں۔

    اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا پام کے چوڑے چوڑے پتوں کی زبان سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور گملوں میں نہ جانے کہاں سے ساری کی ساری کلیاں چٹک پڑی تھیں چنبیلی کی لچکیلی نازک ڈالیاں کھڑکی کے آگے سہرے کی لڑیوں کی طرح جھول رہی تھیں اور سامنے انار کی سوکھی ماری شاخوں پر دو چڑیاں بیٹھی ایک دوسرے کو ہلکے ہلکے ٹھونگ مار رہی تھیں۔

    اس کی انجم سے والہانہ محبت نہ تھی۔ انجم اس کو پوجتا نہ تھا پھر بھی وہ اس کی طرف تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی۔

    ان گنت ناکامیوں کے منہ سے انجم کو کھینچ لینے اور ناامیدی کے گھور اندھیرے میں دلاسہ دینے تپتے ہوئے صحرا میں نخلستان کتنی عظیم راحت ہے۔ وہ کیوں اس کو خوش دیکھنا چاہتی ہے؟ وہ کیا لگتا تھا اس کا کیا رشتہ ناطہ تھا جس کے سہارے وہ یوں بڑھ رہی تھی جیسے سرکس میں تار پر سنبھل سنبھل کے چلنے والی لڑکی سینے میں تیز دھڑکن اور ہونٹوں پر کانپتی مسکراہٹ لئے خطرناک تار پر احتیاط کے ساتھ مگر تیزی سے دوڑتی ہے۔

    اور جب اس نے انجم کی زندگی میں ایک غمسار بیوی کا پہلا قدم رکھا تو خزاں رسیدہ سوکھی زرد پتیاں اس کے قدموں میں اڑنے لگیں۔ چنبیلی کی نرم لچکدار ٹہنیاں سوکھ گئیں اور بڑھتی ہوئی تاریکی میں آندھی کے جھونکوں سے لڑتا ہوا سنہری فانوس بڑے کمرے کی چھت سے لٹکا ڈولتا رہا۔ گھر کے پچھواڑے جیسے خبیث روحیں آپس میں لڑنے جھگڑنے لگیں۔ بالکل اس کے وحشی لڑاکو خیالوں کی طرح۔

    وہ کہاں آ گئی۔ وہ کہاں آ گئی ہے۔ اس نے اپنے اطراف پھیلے ہوئے سناٹے سے بار بار پوچھا۔

    انجم دفتر سے گھر آتا تو وہ دوڑ کر برآمدے میں جا کھڑی ہوتی۔ مسکرا کے خیر مقدم کرتی خود بڑھ کے سیاہ اونی کوٹ اتارنے میں مدد دیتی اور ریشمی آنچل سے ماتھے کا پسینہ پونچھنے کے لئے آگے بڑھتی تو وہ اس کا ہاتھ جھٹک دیتا۔

    ’’یہ کیا؟، اس ساری کو گندہ کرو گی؟ ارے بھئی تولیہ کس لئے ہے آخر؟‘‘

    وہ اپنے ہاتھ سے چائے بنا کے لے آتی اس آس میں سامنے بیٹھی رہتی کہ وہ چائے ختم کر کے اس سے باتیں شروع کرےگا۔ دنیا جہاں کے قصے سنائے گا اور وہ بحث مباحثہ کے موڈ کو ختم کر کے اس کے ہاں میں ہاں ملائے گی۔ خوب قہقہے لگائےگی۔ دن بھر کے کام کاج کی تھکن اتارنے میں یہ قہقہے کس قدر مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔

    مگر وہ چائے پیتے ہی تازہ اخبار لے کر بیٹھ جاتا اور گھنٹوں اس میں گم رہتا اس کو وہ دن بھی یاد آتے جب وہ اور اس کا بھائی رات کے کھانے پر نئے نئے دلچسپ موضوع لے کے بیٹھ جاتے اور امی کو ہمیشہ شکایت رہتی کہ وہ اپنی پسندیدہ چیزیں کم کھاتے ہیں اور باتیں زیادہ کرتے مگر دیر تک دلچسپ بحثیں ہوا کرتیں کھانے کے بعد کسی مشاعرہ میں شرکت ضروری ہے تو تاش کی محفل لازمی ہے، کبھی شعر و ادب کی نئی قدریں پرکھی جاتیں تو کبھی ترقی پسند ادب کی بنیادیں تک ٹٹولی جاتیں۔ مگر یہاں تو بس۔

    انجم کھانے کی میز پر آتا تو وہ کوئی ہلکا پھلکا موضوع اٹھا لیتی۔ عادت جو فطرت بن چکی تھی۔ وہ کچھ ہی کہتی رہتی۔ انجم چپ چاپ نوالے اٹھایا کرتا اور ہوں، ہاں کئے جاتا۔ وہ عاجز آ کے چپ ہو جاتی۔

    کھانے کے بعد وہ ٹہلنے نکل جاتا اور بھولے سے بھی اس کو ساتھ چلنے کے لئے نہ کہتا اور وہ چاندنی راتوں مین دیر تک برآمدے میں اکیلی بیٹھی نیم کے پیچھے دھیرے دھیرے ابھرنے والے چاند کے سینے پر دہکتے ہوئے داغوں کو گھورا کرتی۔

    وہ انجم کی ذرا ذرا سی ضرورتوں کا خیال رکھتی۔ صبح سویرے اس کے کپڑے نکال کر ہینگر پر ڈانگ دیتی۔ اس کے جوتوں پر اپنے ہاتھ سے پالش کرتی۔ اس کی کنجیاں، پن اور پرس کوٹ کی جیب میں احتیاط سے ڈال دیتی جیسے وہ بھی کوئی ننھا منا بچہ ہے جو اپنی چیزیں بھول جائے گا۔ رات کو اس کا پلنگ خود ٹھیک کرتی۔ چادر میلی تو نہیں ہے۔ تکئے ٹھیک رکھے ہیں یا نہیں؟ اور ہر رات اس کے دل میں چھوٹی سی آرزو گنگناتی۔ ابھی ابھی انجم آئے گا۔ اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنے سامنے زبردستی بٹھائےگا اور اس کی نرم گلابی ہتھیلی چوم کر کہےگا۔

    تم کتنی اچھی ہو۔ تمہارے ان نرم و نازک ہاتھوں نے مری زندگی کے بکھرے ہوئے نظام کو کتنے سلیقے سے ترتیب دیا ہے۔ مری خزاں کی اداس شام کی طرح ویران زندگی میں بہار کا گیت بن کر لہرا گئیں تم۔۔۔ تم نے مجھے پھر زندگی کی رنگینیوں میں شامل کر دیا۔ تم واقعی دوسرا رخ ہو۔ شفیق۔ مہربان اور چاہنے والی۔ تم نہ ہوتیں تو۔۔۔ تو۔۔۔

    مگر انجم آتا تو بغیر کچھ کہے سنے پلنگ پر گر جاتا۔ وہ ساتھ والے پلنگ پر گر جاتا۔ وہ ساتھ والے پلنگ پر لیٹنے سے پہلے اس کے بالوں میں دیر تک انگلیاں پھیرتی رہتی کچھ پوچھتی بھی تو وہ سر اٹھا کے جواب دیتا ’’بہت تھک گیا ہوں’‘۔ اب صبح باتیں ہوں گی۔

    اس پر اوس پڑ جاتی۔ کتنا بے جان ہے یہ۔ بالکل پتھر!

    پتھر سے تراشے ہوئے ایک انسان کے ساتھ رہتے رہتے وہ خود بھی پتھریلی ہوتی جا رہی تھی۔ سوچنے، سمجھنے، ہنسنے رونے۔ خوش ہونے اور غم کرنے کے سارے احساسات و جذبات مردہ ہوتے جا رہے تھے۔

    کبھی کبھی رات گئے کسی کے سخت، کھردرے ہاتھ بغیر کسی تمہید کے بے دردی و بے رحمی کے ساتھ اس کو جھنجھوڑ نے لگتے تو وہ تیز و تند جنسی جذبے کی اس حیوانیت پر کراہ اٹھتی۔ مضبوط بازو پر سر رکھے میٹھی میٹھی باتیں کرنے کی آرزو دم توڑ دیتی اور وہ اس قدر قریب ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو اس سے بہت دور محسوس کرتی۔

    بس وہ بیوی ہے، محبوبہ نہیں۔ صرف بیوی جو شوہر کے جا و بیجا حکم پر سر جھکاتی آئی ہے۔ وہ اس کا مجازی خدا ہے۔ ہائے ری عورت جانے کون کون سے خدا تجھ پر حکومت کریں گے۔ خداؤں کے قہر اور ظلم سے بچنے کا بس ایک ہی راستہ۔ پوجا کئے جا۔ ہاتھ جوڑے، آنکھیں بند کئے مرادیں مانگے جا، خدا تو جو کرتا ہے، اچھے کے لئے کرتا ہے۔

    اور صبح تک اس کے اندر کوئی سسک سسک کر کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔ اس نے ایک اچھے پجاری کی طرح اپنا سب کچھ ایک پتھر پر نثار کر ڈالا۔

    دھوپ نیچے اتر آئی تھی۔ کھڑکیوں کے پردے سنہرے ہو گئے تھے اور گلاب کی ٹہنیاں سر جھکائے اپنی کسی غلطی پر شرمندہ تھیں اور سارے بھولے بھٹکے پنچھی اپنا گھر ڈھونڈ رہے تھے۔ اس کا شوہر اخبار پڑھتے پڑھتے کرسی ہی پر سو گیا تھا۔ اس کے سینے میں اٹھتے ہوئے خوفناک جھکڑ سے بے خبر۔ بادلوں کے برف کی طرح سفید محلوں پر سنہری کرنیں چمک رہی تھیں۔ شاید وہاں بھی کوئی پتھر کا شہزادہ سویا پڑا ہو اور دور دیس کی شہزادی اس پر جادو کے چشمے کا سنہرا پانی چھڑک کر گوشت پوست میں ڈھالنے آئی ہو۔ پھولوں کی خوبصورتی، چشموں کی روانی، چاندی کی طرح پگھلتی ہوئی چاندنی رنگ و نور کا احساس دلانے آئی ہو۔ پتھر پر بہار کی پہلی کونپل کی طرح سر اٹھانا چاہتی ہو۔

    مگر اے شہزادی! تم انتظار کرتی رہوگی۔ یونہی پریشان، بولائی بولائی سی۔ بادلوں کے خوبصورت ستونوں والے محلوں میں دکھ درد کے عوض سکھ بانٹنے کی تمنا لئے گھومتی رہو گی۔ تم یونہی تڑپتی رہوگی۔ یونہی اپنے جذبات کا گلہ اپنے ہاتھوں گھونٹتی رہو گی، تم یونہی اپنے آپ کو فریب دیتے دیتے پتھر کی حسین مورتی میں تبدیل ہو جاؤگی۔ بادلوں سے گرتے ہوئے چھم چھم تمہارے آنسو رک جائیں گے کیونکہ بہار کی پہلی کونپل تو پولی پولی متی میں دبے ہوئے بیج سے پھوٹتی ہے۔ پتھر کے سینے پر جنگلی خار دار جھاڑیاں اگتی بھی ہیں تو پتھر کی تپش پا کے سوکھ جاتی ہیں اور برسوں تک وہ سوکھی جھاڑیاں پتھر کا جزو بنی کھری رہتی ہیں اور آندھیاں ایک دن کہیں دور کی چنگاریاں اڑا لاتی ہیں اور جھاڑیوں میں آگ لگا جاتی ہیں۔

    پتھر اور کونپل کا کیا ساتھ؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے