Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیامبر

دیپک کنول

پیامبر

دیپک کنول

MORE BYدیپک کنول

    بلونت عرف بلو اپنی کبوتر بازی کی وجہ سے جموں کے سرحدی علاقے رنبیر سنگھ پورہ میں خاصا بدنام تھا۔ اسے کبوتر بازی کا ایسا جنون تھا کہ بس اوقات کھانا پینا تو کیا وہ اپنے آپ کو بھی بھول جاتا تھا اورکبو تروں کے پیچھے جنگلی بلی کی طرح بھاگتا پھرتا تھا۔ وہ دن دیکھتا تھا نہ رات دیس نہ سرحد۔ وہ کبوتروں کا ایسا دیوانہ تھا کہ ان کے تعاقب میں وہ سرحد کے اس پار تک چلا جاتا تھا۔ اُسکی ماں اس کی ان حرکتوں سے ہمیشہ نالاں اور پریشان رہتی تھی۔ وہ جب بھی گھرسے نکلتا تھا تو اس کی ماں کلیجہ تھام کر بیٹھ جاتی تھی۔ پاس پڑوسیوں، ناتے رشتہ داروں نے اسے بارہا سمجھایا کہ اس طرح سرحد کے آر پار کود پھاند مت کیا کر۔ کسی دن دھر لئے گئے تو بڑی آفت میں پڑ جاوگے۔ بلو اپنے شوق میں اس حد تک اندھا ہو چکا تھا کہ اُس پر کسی کے سمجھانے بجھانے کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا تھا۔ وہ اس کان سے سنتا تھا اور اس کان سے اڑاتا تھا۔ اب اگر کسی بڑے بزرگ نے اسے ڈانٹ ڈپٹ کر سمجھانے کی کوشش کی تو وہ سمجھانے والے کو ایسا ٹکا سا جواب دیتا تھا کہ کہنے والا اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا تھا۔

    ایک بار کبوتروں کا ایک جوڑا اس کے کوٹھے پر اتر گیا۔ خوبصورت کبوتروں کا جوڑا دیکھ کر بلو خوشی سے اچھل پڑا۔ اس نے پہلی بار ایسے نسل کے کبوتر دیکھے تھے چاندی کی طرح چمکتے ہوئے یہ سپید برق جیسے کبوتر کہاں سے آئے تھے اور اس کے کوٹھے پر کیسے اتر گئے؟بلو کے لئے اندازہ لگا نا مشکل ہو رہا تھا۔ بلی کے پاس کئی قسم کے کبوتر تھے مگر ایسے رنگ و روپ کے کبوتر اُس نے زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے۔ بلی ان کبوتروں کے بالکل قریب جاکر ان کے رنگ و روپ کا گہرائی سے جائزہ لینے لگا۔ ان کبوتروں کے گلے کے گرد ایک لال رنگ کی لکیر بنی ہوئی تھی۔ دور سے دیکھنے پر ایسا لگتا تھا جیسے ان کے گلے میں کسی نے لال رنگ کے ہار ڈال دئے ہوں۔ سرپر مور کے جیسے بال تھے جو دھوپ میں ہیرے کی طرح چمکتے تھے۔ ان کبوتروں کی آنکھیں یاقوتی پتھروں کی طرح دمک رہی تھیں۔ ان کی چونچیں اور ٹانگیں گلابی رنگ کی تھیں۔ ان کے پنجوں میں ایک ایک تانبے کا چھلا بندھا ہو اتھاجن پر کوئی باریک سی عبارت لکھی ہوئی تھی جو بلو پڑھنے سے قاصر تھا۔ اس نے آگے بڑھکر جونہی ایک کبوتر کوپکڑنے کی کوشش کی تو اُسنے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ دراصل وہ ایک کبوتری تھی جو گھائل تھی۔ کسی باز نے پنجہ مار کر اسے گھائل کر دیا تھا اور ان کے اس کوٹھے پر اترنے کی وجہ بھی یہی تھی۔ اس کا نر ایک پل بھی اس سے نظریں نہیں ہٹا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس وقت اُسکی مادہ کو اس کے سہارے کی ضرورت ہے۔ بلونے اسے ہاتھوں میں پکڑ کر جب سہلانے کی کوشش کی تو اچانک اس کی نظر اس کے گھاو پر پڑی۔ وہ فوراََ اسے نیچے لے گیا۔ نر کبوتر بد حواس ہوکر بلو پر جھپٹنے کی کوشش کرنے لگا مگر بلو اتنی تیزی سے نیچے اتر گیا کہ کہ نر کبوتر بس پر پھڑ پھڑاتا رہ گیا۔ اس نے پہلے اس کے زخم کو سپرٹ سے دھویا اور پھر اس نے اس کے گھاو پر مرہم لگایا۔ مرہم لگانے کے بعد وہ اسے واپس کوٹھے پر لے آیا۔ اس کی عدم موجودگی میں اس کا ساتھی کبوتر پاگلوں کی طرح کوٹھے کے اوپر اپنے پر پھڑپھڑاتا رہا۔ بلو نے جب مادہ کبوتر کو چھوڑ دیا تو نر کبوتر کی جان میں جان آ گئی۔ وہ اپنی مادہ کے پاس جاکر غٹر غوں غٹر غوں کرنے لگا۔

    چھلے پر لکھی عبارت بلوکے لئے اسرار بنی ہوئی تھی۔ وہ یہ جاننے کے لئے بےچین تھا کہ آخر یہ کبوتر کس کے ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔ وہ شام کو چاچا فتح سنگھ کے پاس چلا گیا اور اسے نایاب کبوتر دکھانے کے بہانے اپنے کوٹھے پر لے آیا۔ کبوتروں کی وہ جوڑی اُسکے کبوتروں کے ساتھ گھل مل گئی تھی پر ان کے رنگ ڈھنگ ایسے تھے کہ ہل مل جانے کے بعد بھی وہ جھنڈ میں الگ تھلگ نظر آرہے تھے۔ بلو نے ایک کبوتر کو جھپٹ کر پکڑ لیا اور پھر چاچا فتح سنگھ کے سامنے اُسکا پنجہ بڑھا کر بولا۔

    ”چاچا اتھے دیکھ کے لکھا ہے؟“

    چاچا نے جیب میں سے اپنی ٹوٹی پھوٹی موٹی سی نظر کی عینک نکالی اور پھر اسے پہن کر وہ باریک عبارت پڑھنے لگا۔ وہ جب تک اس عبارت کو پڑھنے کی کوشش میں لگا رہا بلو اس کے منہ کی طرف ایسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا جیسے وہ منہ سے کوئی موتی اگلنے والا ہو جسے لپکنے کے لئے وہ کھڑا ہو۔ چاچا پہلے منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑانے لگا پھر وہ لفظوں کو جوڑ کر بولا۔

    ”کلیم اللہ لاہور والے“

    ”کلیم اللہ لاہور والے“ بلی زیر لب بڑبڑایا، ”او اب میں سمجھ گیا یہ کبوتر نے سندر کیوں ہے؟“

    ”ہاں پتر یہ کبوتر اس کرکے انے سندر ہیں کہ یہ سرحد کے اُس پار سے اتھے آئے ہیں۔“ فتح سنگھ چاچا نے رشک بھری نظروں سے اس جوڑی کو دیکھا اور پھر بلو کو سمجھاتے ہوئے بولا۔

    ”پتر یہ وڈی نایاب جوڑی ہے۔ انے کھلا نہ چھڑا کر۔ یہ کدی بھی پھر ہو سکدے ہیں۔“

    بلو ان کبوتروں کی طرح ایسی مسرور نظروں سے دیکھنے لگا جیسے یہ کبوتر نہ ہوں انمول ہیرے ہوں جو اس کے ہاتھ لگے ہوں۔ اس علاقے میں لوگوں کو کبوتر پالنے کا بڑا شوق تھا۔ جونہی یہ خبر ادھر ادھر پھیل گئی کہ بلی کے کوٹھے پر دو بدیسی کبوتر اتر آئے ہیں تو پاس پڑوسی ان کبوتروں کا درشن کرنے ایسے چلے آئے جیسے مہا پرشوں کی کوئی جوڑی اس گھر میں براجمان ہوئی ہو۔ جو بھی ان کبوتروں کو دیکھتا تھا وہی بلی کی قسمت پر رشک کرنے لگتا تھا۔ چند ایک تو ان کبوتروں کو خریدنے کا عندیہ ظاہر کرنے لگے۔ ایک دو تو بلوکو منہ مانگی قیمت دینے کے لئے تیار تھے۔ بلی کا ایمان ڈگمگانے لگا۔ آخر پیسے کی چمک کے آگے آدمی کا ایمان کمزور پڑ ہی جاتا ہے۔ بلوکا منللچایا۔ للچاتا بھی کیوں نہیں۔ آخر بیٹھے بیٹھے اس کی لاٹری نکل آئی تھی۔ اس نے نر کبوتر گلو کے ہاتھ آٹھ سو میں بیچ دیا۔ گلو کو کبوتر کیا مل گیا جیسے اُسے قارون کا خزانہ مل گیا۔ وہ خوشی سے کد کڑے مارتا ہوا چلا گیا۔

    نر کے بچھڑ جانے کے بعد مادہ ایکدم اداس اور غمگین ہو گئی۔ وہ اپنے پر پھڑ پھڑانے کی کوشش کرنے لگی پر وہ اپنے پر پھیلا نہ سکی کیونکہ وہ گھائل تھی۔ اسے اپنیبے بسی اور لاچارگی پر رونا آ گیا۔ اتنے میں بلی کی ماں بلو کو بلانے کوٹھے پر چڑھ گئی۔ جب اس کی نظر کبوتری پر پڑی تو وہ حیرت اور مسرت سے اسے دیکھ کر بولی۔

    ”ہائے کنا سونا۔ یہ کبوتر توسی کتھے لے آئے؟“

    بلونے اس کبوتر جوڑی کے بارے میں ماں کو پوری رام کہانی سنا ڈالی۔ جب کلونت کور کو معلوم پڑا کہ بلی نے نر کبوتر بیچ دیا ہے تو وہ ایکدم خفا ہوکر بلو کی طرف دیکھنے لگی اور پھر اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ماں کو اسطرح روتے دیکھ کر بلوکا کلیجہ پھٹنے لگا۔ وہ مضطرب ہوکے ماں کی طرف بڑھا اور پھر اس کے آنسو پونچھتے ہوئے بولا۔

    ”بی جی کی ہوئیا؟“

    کلونت کو ر مسلسل روئے جارہی تھی۔ جس درد کو وہ برسوں سے اپنے سینے میں چھپائے بیٹھی تھی، آج وہ درد آنسوں کا طوفان بن کر آنکھوں کے راستے باہر نکل آیا تھا۔ وہ پچھلے اکیس سالوں سے برہا کی آگ میں جل رہی تھی۔ وہ سہاگن ہوکر بھی ودھوا کہلاتی تھی۔ اس کے درد و غم سے کوئی واقف نہ تھا۔ وہ جب بھی اکیلی ہوتی تھی تو اندر کے سارے گھاو ایک ساتھ ٹیسیں مارنے لگتے تھے۔ اپنے من کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لئے وہ دہاڑیں مار مار کر روتی تھی۔ لیکن جب بلو پاس بیٹھا ہوتا تھا تو وہ اپنے سلگتے ہوئے زخموں کو جھوٹی ہنسی کے پھواروں میں چھپا لیتی تھی۔ وہ آج تک اپنے بیٹے کو بتا نہیں پائی تھی کہ اس کا باپ کون ہے اور وہ کہاں ہے۔

    اس کا شوہر منجیت سنگھ بڑا ہی پیارا اور جیالا آدمی تھا۔ وہ جموں و کشمیر پولیس میں حوالدار تھا۔ اس کی تنخواہ حالانکہ بہت کم تھی مگر اوپر کی آمدنی سے اجلا گزراں ہوتا تھا۔ منجیت سنگھ نے کلونت کور کو کبھی بھی کسی چیز کی کمی محسوس ہونے نہ دی۔ وہ جس چیز کی فرمائش کرتی تھی منجیت وہ چیز فوراََ اس کے سامنے لاکر رکھ دیتا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے بے انتہا پیار کرتا تھا۔ بلونت بھی اپنے شوہر سے والہانہ محبت کرتی تھی۔

    اسی بیچ بلوکا جنم ہوا۔ بیٹا پاکر منجیت ہوا میں اڑنے لگا۔ ادھر بیٹا ہوا ادھر اس کی ترقی ہو گئی۔ وہ حولدار سے سب انسپکٹر بن گیا۔ بلو ان کی زندگی میں خوشحالی کا پیامبر بن کر آیا تھا۔ سب انسپکٹر بنتے ہی گھر میں ہن برسنے لگا۔ منجیت کی نہ صرف آمدنی میں اضافہ ہوا بلکہ اس کی عزت و توقیر بھی بڑھ گئی۔ لوگ اب اسے کوتوال جی کہہ کر بلاتے تھے۔ کلونت یہ سب کچھ دیکھ کر پھولے نہیں سماتی تھی۔ جب وہ گھر سے سبزی لینے نکلتی تھی تو لوگ بھاگ اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ کوئی بھی سبزی والا اس سے پیسے نہیں لیتا تھا۔ منجیت کے انسپکٹر بننے سے کلونت کور کی بھی شان بڑھ گئی تھی۔ اب وہ کلونت کور سے بی جی ہو گئی تھی۔

    جب منہ کو حرام کی کمائی کا چسکہ لگ جاتا ہے تو آدمی بڑا بے رحم اور کمینہ بن جاتا ہے۔ منجیت بھی حرام کی کمائی کا ایسا عادی ہو چکا تھا کہ جس دن اس کی جیبیں بھر نہیں جاتی تھیں وہ بے گناہ لوگوں پر بے وجہ ظلم ڈھاتا تھا۔ جب پاپ کا گھڑا بھر گیا تو منجیت ایک سیاسی دبنگ کی شکایت پر رشوت لیتے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ نوکری تو گئی اس کے ساتھ ہی وہ ساری جائیداد بھی چلی گئی جو اس حرام کی کمائی سے کھڑی کی گئی تھی۔ سارا کر و فر ہوا ہو گیا۔ وہ ایسا خجل و خوار ہوا کہ کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہا۔ وہ دن بھر گھر میں منہ چھپا کے بیٹھا رہتا تھا۔ کبھی گھر سے نکلتا تھا تو لوگ اُس پر پھبتیاں کستے، اس پر شماتت آمیز قہقہے لگاتے۔ بگڑے اور بدتمیز لونڈے لپاڑے اسے دیکھ کر اس کی کھلی اڑانے لگتے تھے۔ منجیت کا جی کر رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اسی میں سما جائے۔ سب سے زیادہ تکلیف تو اسے تب ہوتی تھی جب اس کے یار دوست اسے دیکھ کر منہ پھیر لیتے تھے۔ دوستوں کے اس رویے کو دیکھ کر وہ اپنا من مسوس کے رہ جاتا تھا۔

    منجیت بڑا اداس اور افسردہ رہنے لگا تھا۔ کبھی کبھی وہ تنہائی میں بیٹھ کر چار آنسو بھی بہا لیتا تھا۔ یہ کلونت تھی جو اس آڑے وقت میں اس کا سہارا بنتی تھی، اس کی دلجوئی کرتی تھی اور اسے اس منجدھار سے نکالنے کے لئے اُس سے ہنسی مذاق کرتی رہتی تھی۔ اگر وہ اس سے بھی نہ بہل جاتا تھا تو وہ بچے کو لاکر اس کی گود میں ڈالتی تھی۔ وقتی طور پر تو اس کا دل اپنے بچے کے ساتھ کھیلتے ہوئے بہل جاتا تھا مگر جونہی رات آتی تھی تو اس کے گناہ آسیب بن کر اسے پریشان کرتے رہتے تھے۔ وہ ایسی گھٹی گھٹی سی زندگی جینے کا عادی نہ تھا۔ وہ آزاد فضا میں جینے کا پر وردہ تھا اس لئے اس نے ایک دن جموں کو خیرباد کہہ کے رنبیر سنگھ پورہ کے سرحدی علاقے میں ڈیرہ ڈال دیا۔ یہاں اسے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ یہاں زندگی کی کھٹنائیاں کچھ زیادہ تھیں مگر یہاں کی کھلی فضاوں میں اسے سانس لینے کی بھر پور آزادی تھی۔ اس علاقے کے بیشتر لوگ اسمگلنگ کے دھندے سے جڑے ہوئے تھے۔ ایک دن وہ ملکھا سنگھ کے رابطے میں آ گیا جوکہ اس علاقے میں اسمگلنگ کا بے تاج بادشاہ تھا۔ وہ یہاں سے انگریزی شراب سرحد پار بھیجتا تھا۔ شراب چونکہ اس علاقے میں ممنوع تھی اس لئے بدیسی شراب کے اچھے خاصے دام مل جاتے تھے۔ ملکھا سنگھ ناس علاقے کے غریب اور نادار لوگوں کو اپنے جال میں پھانس لیتا تھا اور پھر انہیں سرحد کے اُس پار دھکیل دیتا تھا۔ جو خوش قسمت ہوتا تھا وہ بچ کے واپس آ جاتا تھا اور جو بدنصیب ہوتا تھا وہ پاکستانی رینجروں کے ہتھے چڑھ جاتا تھا۔ ایک بار جو پکڑا گیا پھر اس کا نام و نشان بھی نہیں ملتا تھا۔ ملکھا سنگھ کو اپنے آدمی کے پکڑے جا نے پر نہ کوئی افسوس ہوتا تھا نہ پچھتاوا۔ وہ اتنا خود غرض اور بے درد تھا کہ نہ کسی کے آنسوں سے وہ پگھل جاتا تھا اور نہ ہی کسی کی آہ و زاری سے اس کا من پسیج جاتا تھا۔ اسے آدمی کے پکڑے جانے سے کہیں زیادہ اپنا مال کھونے کا افسوس ہوتا تھا۔ آدمی مرتے تھے، آدمی پکڑے جاتے تھے۔ ان سب باتوں سے ملکھا سنگھ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ ایک جاتا تھا تو وہ دوسرے کو دانہ ڈال دیتا تھا۔ وہ جب کسی غریب کے سامنے ہرے ہرے نوٹ لہراتا تھا تو نوٹ دیکھ کر وہ کچھ بھی کر گزرنے کے لئے تیار ہوتا تھا۔ ملکھا سنگھ نے منجیت کے بارے میں تھوڑابہت سن رکھا تھا کیونکہ پولیس افسروں کے ساتھ اُسکا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ جس دن منجیت اس سے ملا اس نے اس کی خوب آو بھگت کی اور ساتھ ہی اس کی بدنصیبی پر دوچار مگر مچھ کے آنسو بھی بہا لئے۔ جو انسان ٹوٹا ہوا ہوتا ہے اسے ہمدردی جتانے والے کی گالی بھی بھلی لگتی ہے۔ منجیت کو پہلے تو بڑا دھچکا لگا کہ ملکھا سنگھ اس کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے مگر اس کے بعد جس طرح اس نے اس کو اپنے حق میں کرنے کے لئے جھوٹے آنسو بہائے، یہ سب دیکھ کر منجیت اس پر فدا ہو گیا۔ اس نے منجیت کو بھروسہ دلانے کی کوشش کی کہ وہ اس کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ منجیت بڑا دلیر اور نڈر آدمی تھا۔ وہ سرحد پار جانے کے لئے فوراَََ تیار ہو گیا۔ ایک بات کا اس نے ملکھا سنگھ سے وعدہ لیا کہ اگر وہ پکڑا گیا تو اس کی عدم موجودگی میں وہ اُسکے بال بچوں کا پورا پورا خیال رکھےگا۔ ملکھا سنگھ نے اپنی لچھے دار باتوں سے منجیت کو ایسے نہال کر دیا کہ وہ دوسرے دن کسی کو کچھ بتائے بنا وہ شراب کے دو کریٹ لے کر سرحد پار چلا گیا۔

    جب منجیت رات کو گھر نہیں لوٹا تو کلونت کا فی فکر مند اور پریشان ہونے لگی۔ اس نے ادھر ادھر پتا کیا۔ پاس پڑوسیوں سے پوچھا مگر کسی سے بھی منجیت کے بارے میں اسے کوئی سراغ نہیں ملا۔ وہ آدھی رات تک پاگلوں کی طرح بھٹکتی رہی۔ تھک کے گھر آئی تو بچے کو کھانا کھلا کر خود بھوکی پیاسی منجیت کے انتظار میں بیٹھی رہی۔ بچی کھچی رات آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹی۔ جب وہ صبح تک گھر لوٹ کے نہیں آیا تو اس کی فکر و تشویش بڑھنے لگی۔ آج تک وہ اس سے پوچھے بنا کبھی اس طرح گھر سے باہر نہیں رہا تھا۔ آج وہ یوں بنا بتائے کہاں چلا گیا۔ یہ سوچ سوچ کر اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ اس نے گاوں کا چپہ چپہ چھان ماراپر منجیت کی کہیں گرد تک نہ ملی۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر وہ گیا کہاں۔ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نکل گیا۔ پاس پڑوسیوں نے اسے بہترا سمجھایا کہ وہ پولیس میں جاکے رپٹ درج کراکے آ جائے مگر وہ پولیس کے نام سے ہی بدکنے لگتی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ پولیس میں جاکر اپنی زندگی میں اپنے ہی ہاتھوں سے زہر گھول دے۔ منجیت کا نام تو پہلے سے ہی پولیس کے ریکارڑ میں داغدار ہو چکا تھا۔ اب اگر وہ اس کی گمشدگی کے بارے میں پرچہ چاک کرنے جاتی تو پولیس والے ایک تو بال کی کھال اتارنے بیٹھ جاتے دوسرا یہ کہ آئے دن وہ تفتیش کے بہانے ان کے گھر میں نازل ہوتے رہتے۔ اکیلی عورت بنا چھت کے گھر کی طرح ہوتی ہے۔ جو بھی اس گھر کے سامنے سے گزرے گا، جھانکے بنا آگے نہیں بڑھےگا۔ جب شریف شرفا اپنے آپ کو روک نہیں پائیں گے تو چور بھلا للچائے بنا کیسے رہ سکتا ہے۔ گھر کھلا ہو تو چور کبھی بھی گھر میں کوئی بھی کود پھاند کر سکتا ہے اسلئے ان ساری باتوں کو مد نظر رکھ کر اس نے خود ہی اپنے مرد کو ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا اور پولیس والوں کو اس نے اس بات کی ہوا بھی لگنے نہیں دی کہ اس کا مرد لاپتہ ہو چکا ہے۔

    ایک رات ملکھا سنگھ نشے میں غین تھا۔ محفل میں کسی منچلے نے منجیت کا زکر چھیڑا تو ملکھا سنگھ ترنگ میں آکر ساری رام کہانی اگل بیٹھا۔ بابو لال رسوئیا منجیت کا دور دراز کا رشتہ دار تھا۔ اس رات ملکھا سنگھ کے گھر میں کھانا اسی نے بنایا تھا۔ جب منجیت کی گمشدگی کا بھید کھلا تو بابو لال کے کان کھڑے ہو گئے۔ وہ کام دام سے فارغ ہو کر سویرے سویرے کلونت کے گھر پہنچااور اسے ساری حقیقت سے آگاہ کر دیا۔ کلونت یہ خبر سن کر پہلے چکرا کے رہ گئی اور اُسکے بعد وہ دہاڑیں مار مار کر رونے لگی کہ اُسکا مرد فوجیوں کے ہتھے چڑھ گیا ہوگا اور انہوں نے اُسے موت کے گھاٹ اتار دیا ہوگا۔ بہت دیرتک وہ بین کرکے روتی رہی اور بابو لال اس کی ڈھارس بندھاتا رہا۔ اس کے جی میں آیا کہ وہ منجیت کی کرپان نکال کر ملکھا سنگھ کے گھر پر ہلہ بول دے اور اس کا سر دھڑ سے الگ کر دے۔ کتنا بڑا ظلم کیا تھا اس نے اس کے ساتھ۔ ایک ٹوٹے ہوئے انسان کو اُسنے اپنے فائدے کے لئے استمال کرکے اسے موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا۔ اس کے سر سے اس کا سہاگ چھین کر وہ ایک بار بھی اس سے ملنے نہیں آیا تھا۔ اس نے اسے یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اس کا مرد اب کبھی لوٹ کر نہیں آئےگا۔ وہ ایسے کم ظرف اور کمینے انسان کو سبق سکھانا چاہتی تھی جس نے اس کی زندگی میں اندھیرا کر دیا تھا۔ بابو لال بڑا سلجھا ہوا آدمی تھا۔ اس نے کلونت کو بڑے پیار سے سمجھایا کہ کالے کے آگے چراغ نہیں جلتا۔ ملکھا سنگھ ایک دبنگ ہے۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ اس آدمی سے دور ہی رہو۔ ایک اکیلی عورت اس آدمی کا کیا بگاڑ سکتی ہے جس کی گھٹی میں بڑے بڑے پولیس افسر اور منتری پڑے ہوں۔ اس نے کلونت کور کو اپنے بچے کا واسطہ دیکر اس بات پہ راضی کر نے کی کوشش کی کہ وہ ملکھا سنگھ سے کوئی پنگا نہ لے کیونکہ زبردست کا ٹھینگا ہمیشہ سر پر ہوتا ہے مگر وہ نہ مانیاور نکل پڑی ملکھا سنگھ سے لوہا لینے۔ ملکھا سنگھ شاطر آدمی تھا۔ وہ دیکھتے ہی بھانپ گیا کہ اس کا بھید کھل گیاہے اور سکھنی کے سر پر اسوقت خون سوار ہے اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ وہ بھلے ہی آنکھیں پھیرے طوطے کی سی پر باتیں کرے مینا کی سی سو اس نے کلونت کور کو اندر آنے سے روکا نہیں۔ وہ اس کے آگے کھڑی ہو کر اسے جی بھر کر صلواتیں سنانے لگی۔ ملکھا سنگھ خاموشی سے اس کی گالیاں سنتا رہا۔ جب اس کے من کی بھڑاس نکل گئی تو وہ دہاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ ملکھا سنگھ نے اسے کھل کے رونے دیا۔ جب وہ رو رو کے ہلکان ہو گئی تو ملکھا سنگھ رقت بھری آواز میں اس سے مخاطب ہوکر بولا۔

    ”میرا وشواس کرو میں نے منجیتے نال کوئی زور زبردستی نہیں کی۔ وہ تنگی میں تھا۔ اسے پیسے کی سخت ضرورت تھی۔ میں نے اس سے کہا کہ تو میرا پرا ہے، میرے سے کچھ پیسے لے لو پر وہ بڑا خود دار تھا، نہیں مانا۔ وہ جیسے یہ سوچ کر آیا تھا کہ اسے پیسے کمانے کے لئے سرحد پار جانا ہی ہے۔ واہ گورو کی مہر ہوتی تو وہ صیح سلامت لوٹ آتا مگر ایشور کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ سننے میں آیا ہے کہ وہ فوج کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ تم تو جانتی ہو بہن کہ یہ فوجی کتنے بےرحم ہوتے ہیں۔ ڈال دیا ہوگا میرے بھائی کو کسی کال کوٹھری میں۔“ کہہ کر وہ ایسے رونے لگا جیسے اُسے سچ مچ منجیت کے پکڑے جانے پر افسوس ہو۔ اس کی مکاری کام کر گئی۔ کلونت کے دل کی ساری کدورت اور رنجیدگی ایک پل میں دور ہو گئی اور وہ چپ چاپ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔

    سالوں بیت گئے منجیت کا کوئی پتہ نہ چلا۔ کلونت کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ اپنے آپ کو سہاگن کہے یا ودھوا۔ ایک طرح سے اس نے دل پر پتھر رکھ کر اس سچائی کو قبول کیا تھا کہ منجیت کا اب زندہ ہونا ایک معجزہ ہی ہو سکتا ہے لیکن من کے کسی کونے میں اب بھی ایک موہوم سی امید چھپی ہوئی تھی کہ منجیت زندہ ہوگا اور پاکستان کی کسی کال کوٹھری میں اپنے دن گن رہا ہوگا۔ وہ ہر دن اسی امید فردا کے ساتھ جی رہی تھی۔ بلو اپنے باپ کے بارے میں پوچھتا تھا تو وہ اسے یہ کہہ کر بہلا دیتی تھی کہ اس کا باپ فوج میں تھا کہ ایک دن وہ کہیں لا پتہ ہو گیا۔ بلی اسی جھوٹ کے سہارے بڑا ہو گیا۔ کلونت کور نے اُسکی پرورش میں کوئی کمی کسر نہیں رکھی پھر بھی اس کے دل میں بار بار یہ سوچ کر ہوک اٹھتی تھی کہ اگر اس کا باپ اس کے ساتھ ہوتا تو شاید اُسکی پرور ش بڑے ناز ونعم سے ہوئی ہوتی۔ اچانک اُسکے خیالوں کا تانا بانا ٹوٹا۔ بلی اسے ہلا کر پوچھ رہا تھا، ”بی جی کیا ہوا۔ کس سوچ میں پڑی ہو؟“

    کلونت کے دل و دما غ میں ایک تلاطم سا اٹھ رہا تھا۔ یہ تو جذبات کا ایک تلاطم تھا۔ واقعات کی ایک آندھی تھی جو اسے اپنے ساتھ اڑاکر لے گئی تھی۔ وہ اپنے آپ کو ایک گناہ گار کی طرح محسوس کر رہی تھی کہ اس نے اپنے بیٹے سچائی چھپا کے رکھی تھی۔ اس کا ضمیر اسے لعنت ملامت کر رہا تھا کہ وہ اب تک اپنے بیٹے سے جھوٹ بولتی آ رہی تھی۔ وہ اس خیال سے لرز رہی تھی کہ کل جب اس کے بیٹے کو سچائی معلوم پڑ جائے گی تو وہ اس کے بارے میں کیا سوچےگا۔ وہ اسی سوچ میں غلطاں و پیچاں تھی کہ بلو نے اس کے ہاتھ سے کبوتری چھین کر کہا۔

    ”بی جی توسی انی دکھی مت ہوجا۔ میں ہون ہی اس دے نر نو چھڑ کے لے آوں گا۔ پھر میں ان دونوں کو سیما پہ چھڑ کے آ جاوں گا۔“

    بلونت نے اشک بار آنکھوں سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔

    ”پترآج میں تینوں ایک گل دسنا چاہندی ہوں پر مینوں ایک وچن دے کہ میری گل سن کے تو میرے سے ناراض نہیں ہو جائےگا۔“

    بلو نے ماں کے ہاتھ کا بوسہ لے کر گلو گیر آواز میں کہا۔

    ’’بی جی۔ یہ جڈی زندگی ہے یہ توڑی دی ہوئی ہے۔ توڑے سے ناراض ہوکے مینوں نرک میں جانا ہے کیا۔ بی جی تو اگر میری جان بھی لو گی تاں بھی میں توڑے سے کدی ناراض نہیں ہو سکدا۔ دسو کی گل ہے؟”

    بلونت نے اس کی پیشانی کا بوسہ لیا اور پھر اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولی۔

    ”پتر میں آج تک تیرے سے جھوٹ بولتی آئی کہ توڑا پتا فوج وچ نوکری کردا تھا۔ سچی گل یہ ہے کہ وہ کدی فوج وچ گیا ہی نہیں۔ وہ تو پولیس میں سب انسپکٹر تھا اور اسے رشوت لینے کے الزام میں نوکری سے برخاست کیا گیا۔ ہم لوگ لوکاں دے طعنے سے بچن واسطے اتھے آکے رہن لگے۔ زندگی وڑی کٹھن ہوگئی سی۔ کمائی دا کوئی زریعہ نہ تھا۔ ایک دن توڑا پتا ملکھا سنگھ کے رابطے وچ آ گیا اور ساڑھی تنگی تکلیف دا فائدہ اٹھا کر توڑے پتا کو شراب کی بوتلاں نال سیما پار بھیج دیا۔ جب دن خراب ہوں تو قسمت کتھے ساتھ دیتا ہے۔ وہ جیسے ہی سیما پار کر گیا اس پار کے فوجیوں نے اسے پکڑ لیا۔ اُس دے بعد اُس دے نال کے ہویا واہ گورو ہی جاند اہے۔“

    جب بلو نے یہ سچائی سنی تو اسے لگا جیسے اس پر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ وہ پچھاڑیں کھا کھا کر رونے لگا۔ ماں اسے دلاسہ دیتی رہی اسے پچکارتی رہی مگر وہ سنبھل نہیں پایا۔ آنسوں کا ایک سیلاب اس کی آنکھوں سے بہے جا رہا تھا۔ اسے باپ سے کہیں زیادہ اپنی ماں کی حالت پر رونا آ رہا تھا کہ وہ آج تک اپنے دکھ کو ک سطرح چھپائے بیٹھی تھی کہ کہیں اس کا بیٹا دکھی نہ ہو جائے۔ اُسنے بڑھ کر ماں کو سینے سے لگایا اور پھر سسکتے ہوئے بولا۔

    ”تو سچ مچ مہان ہے بی جی۔ تو نے میرے لئے اپنے سارے آنسو اندر ہی اندر پی لئے اور مجھ پر دکھ کی پرچھائی بھی پڑنے نہیں دی۔ تو غم نہ کر پتا جی جتھے بھی ہونگے واہ گورو کی مہر سے چنگے بھلے ہونگے اور ایک دن ہمارے قول لوٹ کے آ جائیں گے۔“

    اب کے کلونت کور بھی اپنے سینے میں چھپے درد کے سیلاب کو روک نہیں پائی۔ وہ بیٹے کے سینے سے لگ کر بلک بلک کر روئی۔ جب آنسو کچھ تھمے تو وہ اپنے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے بولی۔

    ”پتر ہم کب تک اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہیں گے۔ تیرا باپو زندہ ہوتا تو کبھی نہ کبھی کوئی چٹھی پتر مجھے ضرور بھیجتا۔ میرا دل کہتا ہے کہ ان ظالموں نے اسے مار ڈالا ہوگا اور پھر اسے کہیں دفنا دیا ہوگا۔ میں چاہتی ہوں کہ اس کی آتما کی شانتی کے لئے میں اکھنڈ پاٹھ کروا لوں تاکہ مر کر اُسکی آتما کو شانتی تو ملے۔“

    بلو ایک بار پھر رونے لگا۔ ماں اسے تسلی دیکر بولی، ”بیٹا جو اس سنسار وچ آتا ہے اسے ایک نہ ایک دن مرنا ہی ہے۔ یہی سچائی ہے۔ یہی اس سنسار کا نیم ہے۔ اس سچائی کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔“

    تھوڑی دیر کمرے میں خاموشی رہی۔ اس کے بعد یہ طے ہوا کہ اگلے روز گوردوارے کے گرنتھی کو گھر پر بلا کر اس سے اکھنڈ پاٹھ کروا لیا جائے۔ کلونت کور یہی سوچ کر گرنتھی سے ملنے اس کے گھر گئی۔ ماں کے باہر جاتے ہی بلو درد کے انگاروں پر لوٹنے لگا۔ اُسے بنتا سنگھ کی وہ کہانی یاد آ گئی جو اس نے اسے بچپن میں سنائی تھی کہکس طرح پاکستان کے فوجیوں کا پارہ ہندوستان کا نام سنتے ہی چڑھ جاتا ہے۔ وہ کسی بھی ہندوستانی کو دیکھ کر غصے سے پاگل ہو جاتے ہیں اور پھر اسے مار کر اپنا قصاصپورا کرتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ سرحد پار کے فوجیوں نے اس کے باپ کو خوب اذیتیں دے کر مار ڈالا ہوگا۔ وہ بد لے کی آگ سے تپنے لگا۔ دفعتاََ اس کی نظر منڈھیر پر بیٹھی کبوتری پر پڑی۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کبوتری کو پکڑ کر اس کی گردن مروڑ دیتا، وہ پھر سے اڑ گئی۔ بلوخون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ وہ اپنی بدلے کی آگ ان بے زبان کبوتروں سے بجھانا چاہتا تھا، کیونکہ یہ کبوتر اسی دیس سے آئے تھے جہاں اُسکے باپ کو زندہ دفن کیا گیا تھا۔ وہ اپنا دوسرا کبوتر لینے گلو کے گھر پہنچا۔ یہ دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گیا کہ گلو بچے کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔ اس نے جب اس سے رونے کا سبب پوچھا تو گلو سسکتے ہوئے بولا۔

    ”اوئے وہ میرا آٹھ سو والا کبوتر اڑ گیا“

    بلو کو لگا جیسے کسی نے اس کے سینے پر ایک وزنی گھو نسہ مارا ہو۔ وہ مٹھیاں بھینچ کر وہاں سے گوردوارے کی طرف بڑھنے لگا۔ اچانک اس کی نظر ماں پر پڑی جو اس کی طرف خوشی کے دوش پر اڑی چلی آ رہی تھی۔ وہ حیران ہوکر اُسکی طرف بڑھا اور پھر اس سے پوچھا۔

    ”گل کی ہے بی جی۔ وڑی خوش دکھائی دے رہی ہو؟“

    ”ہاں پتر گل ہی کچھ ایسی ہے۔ میں ہون گرنتھی جی کے کار گئی سی۔ گرنتھی جی دسیا کہ پنتیس سال جڑ اقیدی پاکستان کی جیل وچ بند تھا اسے وہاں دی سرکار نے رہا کر دیا۔ میرا دل کہندا ہے کہ ایک دن ساڑھے قول بھی کوئی فرشتہ یہ سماچار لے کے آئےگا کہ تیرے پیو کو بھی پاکستان نے رہا کیا ہے۔ اب میں اس کی سلامتی کے لئے پرار تھنا کروں گی۔“

    وہ خوشی و انبساط کے اسی احساس کے ساتھ جب گھر پہنچے تو یہ دیکھ کر بلو کا دل بلیوں اچھل پڑا۔ کبوتروں کی وہ جوڑی منڈھیر پر بیٹھی غٹر غوں کر رہی تھی۔ وہ دونوں سرعت سے آگے بڑھے اور انہوں نے کبوتر کی اس جوڑی کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ کلونت نے کبوتری کو اپنے سینے سے لگایا۔ بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے۔ یہ غم کے نہیں خوشی کے آنسو تھے۔ امید کے آنسو تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے