Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیارے جمی

انور سجاد

پیارے جمی

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    ۲۷ نومبر ۱۹۴۴ء

    پیارے جمی، اس وقت سرد آسمان پر جڑے ہوئے ستاروں کی آنکھیں پتھرا رہی ہیں اور باغ میں یوکلپٹس کے درختوں نے کہرے کا لباس پہن لیا ہے۔

    نینا ابھی رو رو کے سوئی ہے۔ امی جی اور گڈو بھی اپنے بستروں میں چلی گئی ہیں اور وہاں میرا بستر بھی مجھ اکیلی کا انتظار کر رہا ہے۔

    تمہیں یاد ہے نا، کہ آج ہماری شادی کی دوسری سال گرہ ہے۔ پہلی سالگرہ پر تم یہاں تھے تو کتنا مزہ آیا تھا۔ ہم سب کتنے خوش تھے لیکن آج گھر میں کچھ ایسی خاموشی چھائی رہی جیسے محاذ پر بمباری سے پہلے چھا جاتی ہے۔ ہم سب چپ چپ سے تھے۔ ہوائی حملے سے لوٹے ہوئے جہاز کی طرح خالی خالی۔

    تمہارے کمرے میں آگ روشن ہے۔ میں تمہارے صوفے پر بیٹھی ہوں اور تم سامنے مینٹل پیس پر پڑی تصویر میں مسکرا رہے ہو، تمہاری پی کیپ پر لگا ہوا تاج اور تمہارے سینے پر تمغے دیکھ کر میرا سر فخر سے اونچا ہو گیا ہے۔ سونے والے کمرے میں بھی آگ جل رہی ہے اور میری طرح امی جی اور گڈو بھی تمہارے شریر سے مسکراتے چہرے کو آنکھوں میں لیے سونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ گڈو نے ابھی مجھ سے کہا تھا کہ بھائی، جمی بھائی جان کہہ گئے تھے کہ میں کسی وقت چپکے سے آ جاؤں گا اور تمہارے لیے مزیدار ٹافیاں اور چاکلیٹ لاؤں گا۔ وہ میرے سوتے ہوئے آ گئے تو مجھے جگا دیجیےگا۔ امی جی حسب معمول تمہاری میزپر تھرموس میں گرم گرم اوولٹین رکھ کر گئی ہیں اور مجھے ہر روز کی طرح ہدایت کرنا نہیں بھولیں کہ جمی آئےگا۔ جمی آئےگا تو اسے کافی کی بجائے اوولٹین پلانا۔ کافی اس کی صحت کو نقصان پہنچائےگی، جب وہ آئےگا تو مجھے اسی وقت نہ بتانا، مبادا میری دھڑکن بند ہو جائے اور میں اپنے پیارے بیٹے کو دیکھ بھی نہ سکوں۔۔۔

    گڈو ہر روز اپنے پیارے بھائی جان اور ان کے تحفوں کے انتظار میں سو جاتی ہے۔ امی کا سرد سینہ تمہارے سر سے حدت حاصل کرنے کی آرزو میں لحاف میں ٹھٹھرتا رہتا ہے اورمیں۔۔۔، میں نے ہر رات آتشدان میں جلتی ہوئی آگ میں راکھ کر دی ہے، ہر دن نینا بیٹی کے ساتھ پائلٹ ابا کی باتیں کرکر کے رات کے انتظار میں گزار دیا ہے تاکہ تمہاری مینٹل پیس پر فریم شدہ مسکراہٹ کو اپنے ہونٹوں پر پھیلاکر رات کو آتش دان میں اتار دوں۔

    ہم سب سارا دن بے حد خوش رہتے ہیں اور جب کبھی ہم یک دم اداس سے ہو جاتے ہیں تو امی جی برقعہ اوڑھ کر حضرت علی ہجویریؒ کے مزار پر تمہارے لیے دعا مانگنے چلی جاتی ہیں۔ گڈو، نماز کا وقت نہ ہونے کے باجود نماز پڑھ کر اپنے جمی بھائی کے لیے سجدہ میں رونے لگتی ہے اور میں تمہارے بغیر تنہائی میں بیتے ہوئے دنوں کے مزار پر دعائیں مانگنے کے بعد تمہارے محبوب شاعر ایذرا پاؤنڈ کی نظمیں لے کر بیٹھ جاتی ہوں جن کا مفہوم تم نے مجھے سمجھایا تھا۔ یا پھر نینا سے تمہاری باتیں کرنے لگتی ہوں۔ وہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے ننھے سے ہوائی جہاز کو پرے پھینک کر ’’امی‘‘ کہنے والی گڑیا اٹھاکر مجھے یوں دیکھنے لگتی ہے جیسے کہہ رہی ہو، امی جس کی باتیں تم ہر وقت کرتی رہتی ہو وہ کبھی آئےگا بھی یا نہیں۔ میں اسے یقین دلانے لگتی ہوں۔۔۔ کہ نینا، تمہارے ابا جی ضرور آئیں گے انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ پھر میرا دل نامعلوم خوف سے دھڑکنے لگتا ہے اور جب میں تمہارے سینے پر چمکتے ہوئے کامیابی کے تمغے دیکھتی ہوں تو خوف ہواؤں میں تحلیل ہو جاتا ہے اور تمہارے مسکراتے ہوئے ہونٹ ہلنے لگتے ہیں۔۔۔

    جنگ اب جلد ہی ختم ہو جائےگی۔ میں جلد ہی لوٹ آؤں گا اور پھر میں کبھی ہوائی جہاز کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا، مجھے یقین ہے کہ امی اور گڈو کی دعائیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ہم نے آج تک جو بھی اس سے مانگا ہے اس نے دیا ہے لیکن تم اپنا وعدہ بھول کر کہ اب ایئرفورس چھوڑ دوگے۔ پھر نہ کہیں چلے جانا۔ مجھے گولیوں سے الجھتی ہوئی ہواؤں پر اعتبار نہیں رہا، ہم سب کو تمہاری محبت کی ضرورت ہے اور ابا کی وفات کے بعد اب تمہارا وجود ہمارے لیے لازمی ہے۔ گڈو اور نینا کو گڈے گڑیا کی شادی رچانے کے بعد خود ڈولی میں بیٹھنا ہے اور تمہارے بغیر یہ ناممکن ہے۔ امی جی کی آنکھوں کی جلا کے لیے تمہارے مسکراتے ہوئے چہرے کی ضرورت ہے، تمہارے بغیر ان کے سر کے چاند کی کرنوں ایسے بال گہنائے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ میرا اس دنیا میں اور کوئی نہیں۔

    بچپن ہی سے تمہارے ابا اور امی تھے۔ چاچا جی تو تب سے روٹھے ہوئے ہیں جب سے انہیں اباجی نے تمہارے رشتے سے جواب دے دیا تھا۔۔۔ تمہیں یاد ہیں نا وہ دن جب تم اپنی ٹریننگ ختم کرکے آئے تھے اور گھر میں بڑی بڑی کانفرنسیں ہوا کرتی تھیں۔ چاچا جی میرے ابا جی کو منانے کے لیے سارے حربے استعمال کر رہے تھے اور میں اور تم سوچا کرتے تھے کہ اگر اباجی نہ مانے تو ہم کیا کریں گے۔ تم نے کہا تھا کہ تم جہاز کا Crash کر لوگے اور میں نے وعدہ کیا تھاکہ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔ تم نے امی جی کی کتنی منتیں کی تھیں۔

    میں پردے کے پیچھے ہواؤں سے لرزتے ہوئے زرد پتے کی طرح ڈولتی رہتی تھی۔ پھر امی جی تمہیں مایوس دیکھ کر کس طرح پر شفقت مسکراہٹ سے مجھے اپنے دوپٹے کے دامن میں چھپا لیتی تھیں اور ہمارے سب اندیشے دور ہو جاتے تھے اور تم سے کہتی تھیں جمی فکر نہ کرو۔ اللہ سے دعا کرو۔ وہ ضرور تمہاری خواہش پوری کرےگا ہم دونوں نے مل کر دعا کی تھی اور اباجی نے امی جی سے ہار مان لی تھی اور امی جی نے اپنی فتح کا جشن ہماری شادی کی صورت میں منایا تھا۔۔۔

    وہ آج ہی کا دن تھا نا۔ آج میں نے پھر اسی خلوص دل سے دعاکی ہے کہ تم لوٹ آؤ اور ہم اسی طرح کیرم کھیلیں، امی جی ریفری بنیں اور۔۔۔ Points کا میرے اور گڈو کے حق میں فیصلہ کریں۔۔۔ ہم دونوں نظمیں لکھیں اور امی جی، ہر سال میرا دل رکھنے کی خاطر میری نظم کو بہتر قرار دے کر مجھے ایک خوبصورت سی ساڑھی انعام میں دیں اور ہم دونوں مل کر اپنے باغیچے کو سنواریں (سچی، میں جب بھی اپنے باغیچے میں جاتی ہوں تو مجھے پودوں کی جھکی ہوئی ٹہنیاں سوال کرتی محسوس ہوتی ہیں کہ ہمارا جمی کہاں ہے؟ تم تنہا کیوں آئی ہو؟ مجھ سے کوئی جواب نہیں بنتا اور میں شرمندہ سی ہوکر لوٹ آتی ہوں) میرے آنسو ابھی ابھی خشک ہوئے ہیں، کیوں کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ میاں نے میری دعا قبول کر لی ہے۔ میں نے خط لکھنے سے پہلے ایک چھوٹی سی نظم لکھ کر آگ میں پھینک دی ہے۔ جانے تمہاری غیرموجودگی میں کہی ہوئی نظم اچھی کیوں نہیں لگتی۔

    آج میرا دل بہت باتیں کرنے کو چاہتا ہے۔ ہر گزری ہوئی بات دہرانے کو چاہتا ہے۔ شاید اس لیے کہ آج ہماری محبت کی تکمیل ہوئی تھی۔ تم خفا نہ ہونا۔ آج مجھے اپنے قلم کی طرح دل پر بھی اختیار نہیں رہا مجھے ابھی تک وہ دن نہیں بھولے جب امی نے تمہیں ایرفورس میں جانے کے لیے منع کیا تھا اور تم نے کہا تھا کہ مرنا تو ایک ہی دن ہے۔ آپ میرے لیے دعا کریں اور امی جی نے بے بسی سے دعاؤں کے ساتھ تمہیں اجازت دے دی تھی۔ اباجی کادل بہرحال ایک باپ کا دل تھا انہوں نے تمہارے شوق کے باعث منع نہیں کیا تھا اور میری سمجھ میں آج تک نہیں آ سکا کہ تمہارے ہاتھ جو کہ دماغ کے بےپایاں سمندر کی سرگوشیوں کو کاغذ پر منتقل کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ رڈرسٹک کو کس طرح تھام سکیں گے۔ جانے تمہیں ہواؤں میں اڑنا اتنا پسند کیوں تھا کہ تم سب کے آنسوؤں کو مسکراہٹوں سے خشک کرتے ہوئے چلے گئے۔۔۔

    شاید اس لیے کہ تمہارے احساسات اور جذبات قلم تک محدود نہیں رہ سکتے تھے جب میں اسٹیشن پر تمہیں الوداع کہنے آئی تھی تو تم نے میرے آنسو پونچھتے ہوئے کہا تھا کہ تم فاشزم کے خلاف لڑنے جارہے ہو۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کیونکہ یہ ایک اصول کی جنگ ہے اگر یہی صورت حال رہی تو انسانیت فاشزم کی آگ میں جل جائےگی۔ میری عقل نے تو تمہاری تبدیلیوں کو قبول کر لیا تھا لیکن میرا دل جمہوریت، فاشزم، کوئی بھی ازم یا فلسفہ نہیں جانتا۔ وہ تو صرف تمہارے لیے دھڑکتا ہے۔

    جمی، میرے اچھے جمی، یہ نہ سمجھنا کہ میں بزدل ہو گئی ہوں لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ میں تمہارے تمام تمغے سرکار کو واپس دے آؤں اور ان سے کہوں کہ ان کے بدلے میرے گھر کی مسرتیں لوٹا دیں۔ جمی، تمہارے جانے کے بعد وقت منجمد ہوکر رہ گیا ہے۔ پچھلے دوماہ سے تمہارا کوئی خط بھی نہیں آیا، شاید تم بہت مصروف ہوگے۔ خط جلدی لکھا کرو۔ امی جی پریشان سی ہوجاتی ہیں۔ جمی تم یوں کرو کہ جان بوجھ کر بیمار ہو جاؤ۔ اپنڈسائٹس کا بہانہ کرکے چھٹی لے کر گھر آجاؤ۔۔۔ مجھے معاف کردو یونہی دیوانگی میں بات نکل گئی تھی۔

    خط میں نینا کے ساتھ اتری ہوئی تصویر بھیج رہی ہوں تمہیں پتہ ہے نا کہ تمہارے جانے کے دو ہی دن بعد، شادی کی سالگرہ سے چوتھے ہی دن نینا صاحبہ تمہاری یاد کی تازہ کلیوں کی خوشبو میں اضافہ کرنے کے لیے تشریف لے آئی تھیں۔ گول مٹول سی، بالکل تم پر گئی ہے تمہاری طرح شرارتی سی آنکھیں اور گھنگھریلے بال تمہاری تصویر کو دیکھ کر ابا، ابا کہتی ہے جب تم آؤگے تو تمہیں دیکھتے ہی پہچان جائےگی۔

    دیکھونا، باتوں باتوں میں کتنی باتیں کر گئی ہوں۔ باتونی ہوں نا، یونہی تمہارا وقت ضائع کیا ہے۔ اس وقت کہرے کا لباس اور بھی درختوں کے ساتھ لپٹ گیا ہے۔ ستاروں کی پتھرائی ہوئی آنکھیں بھی مندنے لگی ہیں۔ امی جی ہر روز کی طرح کل بھی تمہارا کمرہ خود صاف کریں گی۔ تمہارے کمرے میں آگ جلائیں گی۔ فرکے گرم جوتے اور تمہارا گاؤن الماری سے نکال کر رکھیں گی اور میز پر اوولٹین کی تھرموس رکھ کر تمہارے متعلق ہدایات دیں گی اور پھر گڈو اور میری طرح اور نینا کی طرح بھی) دعائیں مانگنے کے بعد تحت الشعور کی دنیا میں تمہارے پاس چلی جائیں گی۔۔۔ تمہیں واپس لانے کے لیے۔

    تمہارے خط کا بےحد انتظار رہتا ہے کم از کم خط تو جلدی لکھا کرو۔۔۔ ورنہ میں روٹھ جاؤں گی اور دیر دیر سے خط لکھوں گی۔ امی جی کی طرف سے دعائیں۔ گڈو اور نینا آداب کہتی ہیں۔

    خدا ہمیشہ تمہارا حافظ و ناصر رہے

    تمہاری

    ۲۷نومبر ۱۹۴۴ء سے پورے دو سال بعد میں برما کے جنگلات میں سروے کے لیے گیا تھا اور یہ دھندلایا ہوا خط مجھے گھنے درختوں میں ایک کیچڑ سے بھرے واٹر پروف بٹوے میں ملا تھا۔ اس بٹوے میں اہم جنگلی کاغذات کے علاوہ ایک خوبصورت سی لڑکی کے ساتھ ایک پیاری سی گھنگھریلے بالوں والی بچی کی تصویر بھی تھی۔ اس واٹر پروف بٹوے سے چند قدم کے فاصلے پر زنگ آلود لوہے کے دو ایک بڑے بڑے ٹکڑے پڑے تھے۔ جو غالباً کسی ہوائی جہاز کے تھے۔

    وہ تصویر فریم کراکے اپنے کمرے میں لگالی ہے۔ جب بھی بین الاقوامی حالات کا جائزہ لینے کے بعد مجھے آسمان تیسری جنگ سے ابرآلود نظر آتا ہے، تو میں گھبراکر تصویر کی طرف دیکھتا ہوں جس کے ہونٹوں پر پرامید سی مسکراہٹ سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ پھر میں اپنی فائل سے یہ خط نکال کر کئی بار پڑھتا ہوں اور مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ تیسری جنگ کے یہ تاریک بادل خوشگوار ہواؤں سے بکھر جائیں گے اور کبھی نہیں برسیں گے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے