Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پرساد

MORE BYجی اے کلکرنی

    بائیں طرف نیل گری کے اونچے اور گھنے درختوں کے سایوں میں پچھلی شاہراہ سے وہ مندر کی سمت جانے والی پگڈنڈی پر مڑ گیا۔ اس وقت چاروں طرف گہری نیلی دھند پھیلی ہوئی تھی اور جگہ جگہ بکھری خود رو جھاڑیوں کے جھنڈ دھندلی پرچھائیوں کی طرح غیرواضح لگ رہے تھے۔ لیکن اس کہریلے ماحول میں بھی وہ سفید چمکیلا مندر دور ہی سے بہت صاف دکھائی دے رہا تھا۔

    وہ جوں ہی مندر کے قریب پہنچا، گل مہر کے درخت جیسے ہڑبڑا کر جاگ پڑے۔ یہ دیکھ کر اسے بےحد اطمینان ہوا کہ وہ یہاں سب سے پہلے پہنچا تھا۔ وہ پیپل کے گرد بنی مٹی کی کچی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں دھند پگھلنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے حد نظر تک سب کچھ ایک دم واضح ہو گیا۔

    اس نے سوچا سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی مندر کا بڑا پھاٹک کھل جائےگا۔ اب تیار ہو جانا چاہئے۔ وہ جوں ہی اٹھنے کو ہوا اندر سے مندر کے بڑے گھنٹے پر چوٹ پڑی اور اس کی گونجدار ٹن ٹن سے وہ یکبار گی چونک پڑا۔

    اس ٹن ٹن کے ساتھ ہی مندر کا بڑا پھاٹک کھل گیا۔ چند لمحے پیشتر وہاں اس کے سوا کوئی بھی دکھائی نہیں دیا تھا۔ اب اس نے غور کیا کہ دروازہ کھلتے ہی ارد گرد بکھری جھاڑیوں اور کنجوں سے مختلف لوگ سایوں کی طرح خاموشی سے نکل نکل کر مندر کے سامنے کھڑے ہو رہے تھے۔ بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر سایہ اسے دھکیل کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ قدم قدم پیچھے ہٹنے لگا۔ حتی کہ ہٹتے ہٹتے وہ دوبارہ بڑی سڑک سے جالگا۔ ان سایو ں میں مرد اور عورت کی تمیز مشکل تھی۔ کیونکہ وہ سب سرتاپا سیاہ لباس میں ملبوس تھے۔ صرف آنکھوں کی جگہ دو سوراخ جھانک رہے تھے۔ اس پوری بھیڑ میں عام لباس میں اس کے سوا کوئی دوسرا نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے محسوس کیا وہ سب لوگ عجیب نیندیلی نظروں سے پلٹ پلٹ کر اسے دیکھ رہے ہیں۔ اسے سیاہ اجگری کی آنکھوں کا خیال آیا جن کی ویرانی انسان کی روح کے اندر تک اترتی چلی جاتی ہے۔ اچانک اس نے ایک جھرجھری سی لی۔

    قطار میں کھڑے لوگ ایک ایک کرکے مندر میں داخل ہو رہے تھے مگر داخل ہونے کے بعد ایک آدمی بھی واپس پلٹ کر آتا دکھائی نہیں دیا۔ شاید وہ لوگ مندر کے پچھلے دروازے سے باہر نکل جاتے تھے۔ قطار دھیرے دھیرے آگے کو سرک رہی تھی۔ جب اس کی باری آئی تب اچھی خاصی دھوپ پھیل چکی تھی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا ا س کے پیچھے کوئی نہیں تھا۔ جب وہ پھاٹک میں داخل ہوا، پجاری پوجا کی چھوٹی سی جالی دار کھڑکی بند کر چکا تھا اور ہاتھ میں لوٹ اور ایک چھوٹی سی پوٹلی لئے روانگی کی تیاری کر رہا تھا وہ اندر داخل ہوا۔ اس نے بند جالی دار کھڑکی سے نمسکار کیا اور پرساد کی خاطر پجاری کے سامنے اپنی ہتھیلی پھیلا دی۔

    پجاری بےحد معمر تھا۔ چہرے پر اس قدر جھریاں تھیں کہ گال اور گردن کی کھال اوجھڑی کی طرح لٹک آئی تھی۔ اس کی آواز سن کر پجاری نے اپنی کیچ بھری چیکٹ آنکھیں اوپر اٹھائیں۔ اس پر نظر پڑتے ہی یکلخت پجاری کے ہاتھ کانپے اور لوٹا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گرا۔ ایک زور کا جھناکا ہوا۔ پجاری اس طرح گھبراکر کے پیچھے ہٹا جیسے اس پر اچانک کوئی حملہ ہونے والا ہو۔ اس کا بدن کانپ رہا تھا۔ اس نے اپنی کپکپاہٹ پر قابو پاتے ہوئے مردہ آواز میں پوچھا، ’’کیا چاہئے تمہیں؟‘‘ پجاری کی اس گھبراہٹ پر وہ خود بھی تھوڑا سٹپٹا گیا۔ اس نے رک رک کر جواب دیا۔

    ’’پرساد چاہئے۔ میرا مطلب ہے کچھ تبرک، پھول، نیاز درشن کے بعد یہاں سے سب کو کچھ نہ کچھ ملتا ہے، مجھے بھی کچھ۔۔۔‘‘

    ’’لنگر بند ہو چکا ہے۔ نیاز بھی ختم ہو گئی ہے۔‘‘ ضعیف پجاری لڑکھڑاتی آواز میں بولا، ’’اور اور مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ تم یوں آؤگے۔‘‘

    پجاری کے اس ریمارک پر وہ مزید بوکھلا گیا۔ پرساد کے لئے اصرار کرتا ہوا بولا، ’’دیکھئے، اندر پھول، پھولوں کی پنکھڑیاں، ناریل کے ٹکڑے بکھرے پڑے ہیں، انہیں میں سے کچھ دے دیجئے۔ میں پرساد لئے بغیر واپس نہیں جاؤں گا۔ آپ چاہیں تو میں نذرانے کے طور پر کچھ پیسے بھی دے سکتا ہوں۔‘‘

    بوڑھا پجاری دیوار سے ٹک کر کانپتا ہوا بولا’’میں نے لنگر خانے کی کنجی واپس بھجوادی ہے۔ اب وہ کھولا نہیں جا سکتا۔ تم واپسی میں گاؤں سے پرساد لے لو۔ میں تمیں ایک پرچی دے رہا ہوں۔ اسے کسی سے پڑھوا لینا۔ پڑھنے والا بتا دےگا کہ تمہیں پرساد کہاں سے لینا ہے۔‘‘

    پجاری نے پاس رکھے لکڑی کے صندوق میں ہاتھ ڈال کر ایک تہہ کی ہوئی پرچی نکالی اور اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ اب تواس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اس نے پوچھا، ’’ کیا آپ نے میرے لئے پرچی پہلے ہی سے لکھ کر تیار رکی تھی؟‘‘ پجاری نے جھک کر فرش سے لوٹا اٹھایا۔ اب وہ وہاں سے جلد از جلد بھاگ لینا چاہتا تھا۔

    ’’کبھی کبھی ایسے لوگ آتے رہتے ہیں۔ میں نے تمہیں کئی با ر دیکھا ہے مگر اس سے پہلے تم یہاں کبھی نہیں آئے شاید۔ تمہارے آنے کا ابھی وقت نہیں ہوا تھا۔‘‘

    اس نے پرچی لے لی اور مندر کے باہر آکر پرچی کھول کر دیکھنے لگا۔ کاغذ پر کسی ایسی زبان میں دو سطریں تحریر تھیں جس سے وہ نابلند تھا اور نیچے کسی کے عجیب تیڑھے میڑھے دستخط تھے۔ واپسی پر اسے گاؤں ہی سے ہوکر گزرنا تھا۔ اس نے طے کیا کہ وہ گاؤں میں کسی سے یہ چٹھی پڑھواکر وہ جگہ ضرور دریافت کرےگا جہاں پرساد ملتا ہے۔ وہ روانہ ہوا۔ اس کے باہر نکلتے ہی پجاری نے مندر کا پھاٹک بند کرکے اندر سے سٹکنی چڑھالی اور پیچھے کے دروازے سے باہر نکل گیا۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد اس نے یوں ہی پیچھے مڑ کر دیکھا۔ پجاری سڑک پر کھڑا اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ نظریں ملتی ہی پجاری ہڑبڑا گیا اور جلدی سے سڑک کی دوسری طرف مڑ گیا۔

    پہاڑی ٹیکری کے دوسری طرف گاؤں تھا۔ گاؤں کیا، تیس چالیس گھاس پھوس کے جھونپڑوں پر مشتمل ایک غلیظ سی بستی تھی۔ ایک طرف پھل سبزی کی دکان جو قریب قریب خالی پڑی تھی۔ جھونپڑوں کی چھتیں اس قدر جھکی ہوئی تھیں کہ اندر داخل ہونے کے لئے آدمی کا فرشی سلام کی حد تک جھکے بغیر گزر مشکل تھا۔ اس کے گاؤں میں داخل ہوتے ہی دکان کے پاس پڑے ہوئے تین چار کتے دانت نکوستے ہوئے اس پر جھپٹے۔ اگر اس نے اپنی لاٹھی نہ سنبھال لی ہوتی تو وہ اس کی تکابوٹی کر دیتے۔ اس شور و غل سے دکان میں بیٹھا اونگھتا ہوا بڈھا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے گالی دی اور ٹین کے ایک ڈبے پر بطور ڈھکن رکھا ہوا سل کا ٹکڑا کتوں کی طرف اچھال دیا۔

    ’’رات کو سالے، کو بھی نہیں کرتے۔ اب دھوپ میں خوامخواہ بھونک رہے ہیں۔‘‘ بوڑھے نے بڑبڑاتے ہوئے دوبار آنکھیں موند لیں۔ تھوڑے فاصلے پر تین چار لوگ کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ وہ جوں ہی ان کے قریب پہنچا، وہ ایک دم سے چپ ہو گئے اور اس کی طرف دیکھنے لگے۔ ان میلے کچیلے لوگوں میں سے نسبتاً ایک کم گدلے آدمی کی طرف اس نے چٹھی بڑھائی اور بولا، ’’کیا آپ بتاسکیں گے، یہ جگہ کہاں ہے؟‘‘

    اس آدمی نے تہہ کی ہوئی چٹھی کو کھولا۔ ایک بیک اس کا چہرہ فق پڑ گیا اور آنکھیں اس طرح باہر نکل آئیں جیسے کسی شریفہ پھل کو دباکر بیج نکالی جا رہی ہو۔ اس نے خط کو اس کے منہ پر دے مارا اور بھاگتا ہوا ایک جھونپڑے میں گھس کر دروازہ بند کر لیا۔ باقی دونوں اشخاص بھی قریب ہی دھول میں کھیلتے ننگ دھڑنگ بچوں کو بانہوں سے پکڑے جھونپڑوں کے پیچھے گھسیٹ لے گئے۔ تھوڑی دیر تک ان بچوں کے رونے کی تیز آواز گونجتی رہی پھر آواز بھی کہیں دب دبا گئی۔

    اسے یہ سب بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔ اس نے زمین پر پڑے ہوئے خط کو اٹھا لیا، اسے تہہ کیا اور ایک طرف کو روانہ ہو گیا۔ ایک شخص ایک کھڈکے کنارے بیلوں کو نہلا رہا تھا وہ جوں ہی قریب پہنچا۔ وہ شخص بیلوں کی نکیل تھامے انہیں کھینچتا کھانچتا جلدی جلدی ایک طرف کو چلا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ ویران ہو گیا۔ بھڑ، بھڑ، دروازے بند ہوتے چلے گئے۔ وہ کھڑکیاں بھی ایک ایک کرکے بند ہو گئیں جو ادھر ادھر کھلی رہ گئی تھیں۔

    اسے بڑا تعجب ہو رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر ہاتھ میں دبے خط کو کھول کر الٹا پلٹا اور اسے پڑھنے کی کوشش کی مگر بےسود۔ وہ زبان قطعی طور پر اس کے لئے غیرمعروف تھی۔ ایک لمحے کو اس نے سوچا اس پرچی کو پھاڑ پھوڑ کر واپس لوٹ جائے۔ لیکن اتنی دور تک چلے آنے کے بعد بنا پرساد لئے لوٹ جانا بھی مناسب نہیں لگ رہا تھا۔ اچانک ڈاکیے پر اس کی نظر پڑی اور وہ قریب قریب لپکتا ہوا اس کے پاس پہنچا اور تہہ کیا ہوا کاغذ اسے دکھایا۔ کاغذ پر نظر پڑتے ہی پہلے تو ڈاکیے کو جیسے کاٹھ مار گیا پھر اس کے ہونٹ لرزے، دہانے سے کف نکلنے لگا اور وہ گرتا پڑتا جھونپڑوں کی طرف بھاگا۔ سامنے چھجے کے نیچے کھڑے ایک بیل سے ٹکرایا پھر اس چلچلاتی دھوپ میں دھڑام سے زمین پر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔

    اب وہ کافی سٹپٹاگا تھا۔ ایک نامعلوم خطرے کے احساس سے اس کا دل ڈوبنے لگا۔ اس نے محسو س کیا کہ اس جھلسا دینے والے، ماحول میں اس کا وجود دھیر ے دھیرے پگھلتا چلا جا رہا ہے۔ وہ جلد از جلد اس گاؤں سے، اس کے الف لیلوی ماحول سے نکل جانا چاہتا تھا۔ اس نے تیز تیز قدم اٹھائے جب آخری جھونپڑی بھی چھوٹ گئی تو اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا۔ بعض جھونپڑوں کے دروازے دھیرے دھیرے کھل رہے تھے اور ان نیم وا دروازوں اور کھڑکیوں سے لوگ جھانک جھانک کر اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس کے مڑتے ہی ایک بار پھر کھٹ کھٹ دروازے بند ہو گئے۔

    وہ چلتا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس خط کا کیا کیا جائے مگر اس نے میں لکھی عبارت کے مفہوم کو سمجھنے کی خواہش ابھی باقی تھی اس نے ایک گہری سانس لی اور خط کو جیب میں ٹھونس کر بڑی سڑک کی طرف مڑ گیا۔

    ’’ارے بھئی، ذرا ٹھہر نا تو۔‘‘

    کوئی اس سے مخاطب تھا۔ وہ اس طرح چونکا جیسے کسی نے اچانک ’ہو‘ کرکے اسے ڈرا دیا ہو۔ اس نے دیکھا گل مہر کے سرخ پھولوں سے لدے پیڑ کے نیچے ایک صاف ستھری چادر پچھائے وہ شخص بیٹھا تھا۔ قریب ہی لکڑی کا ایک چھوٹا سا صندوق رکھا تھا۔ ظاہری رکھ رکھاؤ سے وہ بھکاری تو نہیں لگ رہا تھا مگر درخت کے تنے سے وہ اس طرح ٹیک لگائے، پاؤں پسارے بیٹھا تھا کہ گھٹنوں کے نیچے اس کے سوکھے اور بےجان پاؤں دور ہی سے دکھائی دے رہے تھے۔ اس کے خشک پیروں پر نظر پڑتے ہی اسے لگا کسی نے اس کے ننگے بند کو گیلی چادر میں لپیٹ دیا ہو۔ اس نے دوبارہ غور سے اس آدمی کی طرف دیکھا۔ پہلی نظر میں تو لگا وہ شخص مندر کا پجاری ہوگا۔ وہی رسی کی طرح بٹا ہوا چہرہ، آنکھیں جیسے خشک پھل کے سخت چھلکے پر کسی نے وہ شگاف لگا دئے ہوں۔ البتہ اس اجنبی کے ہاتھوں میں رعشہ نہیں تھا اور پجاری کے پیر سلامت تھے۔

    اس نے بوکھلا کے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور ایک بار پھر اجنبی کی طرف دیکھنے لگا۔ ’’اس خط کو پڑھنے والا یہاں کوئی نہیں ملےگا۔‘‘ اجنبی اپاہج کی کھرکھراتی آواز گونجی، ’’صرف ایک ہستی اس تحریر کو پڑھ سکتی ہے۔ تم جکھائی کو جانتے ہو؟‘‘

    ’’جکھائی!؟‘‘ اس نے اپنے خشک گلے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا، ’’کون جکھائی؟ میں یہاں کسی کو نہیں جانتا۔ میں بالکل نووارد ہوں۔ میں اپنے ایک ضعیف رشتہ دار کے لئے جو قریب المرگ ہے یہاں کے مندر کا پرساد لینے آیا تھا۔ اس کی آخری خواہش یہی تھیکہ کسی صورت اس مندر کا پرساد اسے ملجاتا تو پرلوک کا سفر اس کے لئے آسان ہو جاتا۔ میں یہاں کی بولی کچھ کچھ سمجھ لیتا ہوں مگر لکھا ہوا پڑھ نہیں سکتا۔ یہ جکھائی کون ہے؟‘‘

    ’’ابھی کچھ بتانا قبل از وقت ہوگا۔ تم جب وہاں جاؤگے تو خود ہی سمجھ جاؤگے۔ وہ دیکھو سامنے جو دیوار دکھائی دے رہی ہے اس کے پیچھے سرکنڈوں کی جھاڑیوں کا جھنڈ ہے۔ تم اس جھنڈ سے گزر جاؤگے تو ایک بہت بڑا مکان دکھائی دےگا۔ وہیں تمہیں جکھائی ملےگی۔ ‘‘

    اپاہچ اجنبی اچانک چپ ہو گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ جکھائی سے ملے بغیر ا س کا من شانت نہیں ہو سکتا۔ وہ گھوم کر دیوار کے پیچھے پہنچ گیا۔ دیوار سے لگی ہوئی سرکنڈوں کی جھاڑیوں کے درمیان سرخ رنگ کے عجیب و غریب پھل لٹک رہے تھے۔ جیسے بے شمار بھوتوں کی آنکھیں اس کی جانب نگراں ہوں۔ وہ ان جھاڑیوں سے بچتا بچاتا چند قدم ہی آگے بڑھا تھاکہ اچانک سامنے ہی کسی کوہ تن دیو کی طرح وہ مکان نظر آ گیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ اسچھوٹے سے گاؤں میں کوئی اتنابڑا مکان بھی ہو سکتا ہے۔

    مکان کسی پرانی گڑھی کی طرح کافی بڑا تھا۔ اس کی دیواروں پر جگہ جگہ ایسے داغ تھے جیسے آگ کی لپٹوں سے جھلسنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں مگر اس کے ایک بھی کھڑکی نہیں تھی۔ مکان کافی بلند اور بڑا تھا مگر اس میں داخل ہونے کے لئے جو دروازہ تھا وہ کسی جھونپڑی کے دروازے کی طرح ہی پست اور تنگ تھا۔ وہ ایک لمحے کو دروازے کے سامنے ٹھٹھکا۔ اندر جائے یا نہ جائے۔ پھر ہمت کرکے زورسے چلایا، ’’کوئی ہے؟ اندر کوئی ہے؟‘‘ اندر سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اندر سے پہلے بھی کسی قسم کی آواز نہیں آ رہی تھی مگر پتہ نہیں اسے ایسا کیوں لگا جیسے اس کے چلاتے ہی اندر اچانک سناٹا چھا گیا ہو۔ ایک لمحہ توقف کے بعد اس نے پھر ہانگ لگائی۔ ’’ارے کوئی ہے اندر‘‘ جواب میں فوراً ایک کرخت آواز آئی، ’’کون ہے؟ کیا چاہئے؟‘‘

    ’’میں جکھائی سے ملنا چاہتا ہوں۔ میرے پاس ایک خط ہے۔ اسے پڑھوانا ہے۔‘‘

    ’’اندر آ جاؤ۔‘‘ آواز آئی۔ لہجے میں اشتیاق تھا۔

    دروازہ کھلا، دو سوکھے ساکھے سیاہ فام ہاتھ برآمد ہوئے۔ جیسے اندھیرے کی جڑیں لٹک آئی ہوں۔ ان ہاتھوں میں پانی سے بھرا ایک طشت تھا۔ جس میں لیمو کے پتے تیر رہے تھے۔ ہاتھوں میں حرکت ہوئی، چھپ، وہ پانی اس کے پیرو ں پر پھینک دیا گیا۔ اس کے پیر گھٹنوں تک بھیگ گئے۔ پانی کے قطرے جھٹک دینے کی کوشش کرتا ہوا وہ جھک کر دروازے سے اندر داخل ہوا اور دروازے کے پاس ہی ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔ اندر کافی اندھیرا تھا۔ پہلے پہل تو اسے کچھ بھی سجھائی نہیں دیا۔ کافی دیر تک آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھنے کے بعد جب نظریں اندھیرے کی عادی ہوگئیں تو وہ گھبراکر ایک قدم پیچھے ہٹا۔ اندر کا حصہ کافی کشادہ تھا۔ مگر وہاں سامان یا فرنیچر کے نام پر کچھ بھی نہیں تھا۔

    دیوار سے لگی ہوئی کافی عورتیں ایک غول کی شکل میں بیٹھی ہوئی تھیں اور اس نیم اندھیرے نیم اجالے ماحول میں وہ کافی بدصورت اور ڈراؤنی لگ رہی تھیں۔ پر اس وقت تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے جب اس کی نظر سامنے کھڑی جکھائی پر پڑی۔ وہ اس قدر بوڑھی تھی کہ ا س کے کاندھوں پر زندہ چہرے کے بجائے ایک کھوپڑی جڑی ہوئی لگ رہی تھی۔ جس میں بہت اندر کو دھنسی ہوئی دو آنکھیں چمک رہی تھیں اور پیشانی پر ڈھیر سارا بھبوت ملا ہوا تھا۔ اس کی کمر میں کپڑے کا ایک پٹکا بندھا ہوا تھا جس میں ایک چھوٹی سی گھنٹی اور گھنگرو لٹک رہے تھے۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ قریب آیا اور ایک منمناتی سی آواز آئی، ساتھ ہی ایک سوکھا ہاتھ کاغذ کے لئے اس کے سامنے پھیل گیا اس نے اس سوکھے سے ہاتھ میں وہ خط تھما دیا۔ اسی دوران دو تین قبر رسیدہ بوڑھی عورتیں کیکڑوں کی طرح رینگتی گھسٹتی جکھائی کے قریب آئیں۔ دفعتاً جکھائی غصے سے چنگھاڑتی ہوئی انہیں اسی دیوار کی طرف ٹھیل لے گئی، ’’جاؤ کم بختو جاؤ، ابھی تمہارا وقت نہیں آیا ہے۔‘‘

    خط پڑھتے ہی وہ بے تحاشا ہنسنے لگی اور اس کا چہرہ اور بھی ڈراؤنا لگنے لگا۔ پھر وہ اس کے گرد گھومتی ہوئی اپنی لمبی ٹیڑھی انگلیوں سے اس کے کاندھوں اور گردن کو چھوکر دوبارہ اس کے سامنے آ کھڑی ہو گئی۔ اس کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا تھا۔ اسے لگا کوئی گدھ مردہ ڈھور میں اپنی منقار گڑانے سے پہلے شکار کا جائزہ لے رہا ہو۔ معاً اسی منمناتی آواز نے اسے ایک بار پھر سر سے پیر تک لرزا دیا، ’’آخر کار تم آ گئے۔ اب مجھے مکتی مل جائےگی۔‘‘ پھر اس کی طرف دیکھ کر عجیب کپکپی پیدا کر دینے والی ہنسی ہنسنے لگی۔

    ’’آخر۔ آخر۔ اس خط میں کیا لکھا ہے؟‘‘ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

    مگر اس نے جواب دینے کے بجائے وہ کاغذ اس کی طرف اچھال دیا وار تیزی سے اس ہال نما کمرے کے بیچ میں جا کھڑی ہوئی۔ وہ سحر زدہ سا ادھر دیکھنے لگا۔ وہ اپنا سوال تک بھول گیا تھا۔ کمرے میں چاروں طرف سے سرخ روشنی پھوٹنے لگی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا کمرہ کسی دہکے ہوئے تنور کی طرح سرخ ہو گیا۔ وہ پگھلے ہوئے تانبے جیسی سیال روشنی اندھیرے کے ایک ایک ٹکڑے کو نکلتی چلی گئی اور عورتیں یوار سے چپک کر بےحرکت ہوگئیں۔ عرصے سے تاریکی میں ڈوبی ہوئی چھت منور ہوکر گنبد کے اندرونی حصے کی طرح نیم بیضوی ہو گئی اور اس پر طرح طرح کی بھیانک تصویریں دکھائی دینے لگیں۔

    ایک ناؤ کی تصویر تھی جس میں چند خوف زدہ لوگ بیٹھے ندی پار کر رہے تھے اور ملاح ترشول سے انہیں کھونچ رہا تھا۔ دوسری تصویر میں دو کالے کلوٹے، خوفناک چہروں والے فرشتے کچھ لوگوں کو ایک بڑی سی کڑھائی میں سر کے بل غوطے دے رہے تھے۔ اس ملاح اور ان کالے کلوٹے فرشتوں کی آنکھوں سے سرخ روشنی اس طرح منعکس ہو رہی تھی کہ ان کے چہرو ں پر جڑی وہ آنکھیں سرخ انگاروں کی طرح دہک رہ تھیں۔ وہ تصویر حیرت بنا یہ ب دیکھ ہی رہا تھا کہ جکھائی نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے۔ اچانک اس کی بدن سے شعلے نکلنے لگے۔ جکھائی بری طرح چیخ رہی تھی۔ وہ فرش پر ایک دائرے کی شکل میں رقص کرنے لگی اس کے رقص کی رفتار بڑھتی جا رہی تھی۔

    اس کی کمر میں بندھی گھنٹی اور گھنگھرو کی آوازوں کی ٹن، ٹن چھم چھم سے لگتا تھا ناچتے شعلوں سے آواز کی چنگاریا ں سی نکل رہی ہیں۔ شعلوں کی لپلپاتی زبانیں اس بدصورت اور بھیانک جکھائی کو جاٹتی چلی گئیں۔ خوف و دہشت سے وہ کسی گڑی ہوئی میخ کی طرح بے حرکت کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ رقص کی لے تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی اور اب جکھائی ایک بڑے چراغ کی لو کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ صرف شعلہ سرتاپا شعلہ۔ کچھ منٹ یوں ہی گزر گئے۔ تبھی وہ یک بیک یوں چونکا جیسے کسی نے اسے گرم سلاخ سے داغ دیا ہو۔ سامنے کا منظر بدل رہا تھا۔ بیک نظر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ روشنی کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا تھا اور اس ہال کے بعض گوشے ایک بار پھر تاریکی میں ڈوبتے چلے گئے۔ دیواروں پر تصویروں کی طرح چپکی ہوئی شبیہیں دوبارہ استخوانی پنجروں کی شکلیں اختیار کئے پرچھائیوں کی طرح ڈولنے لگ گئیں۔ ناؤ شاید دوسرے کنارے پہنچ گئی تھی۔

    کھولتی ہوئی کڑھائی میں غالباً سارے گنہگاروں کو جھونکا جا چکا تھا۔ گنبد کی چھت بھی دھندلی ہوکر اوپر کی طرف سرک گئی تھی۔ مگر سب سے زیادہ حیرت انگیز تبدیلی دیوانہ وار رقص کرتی جکھائی میں ہوئی تھی۔ قد میں لگ بھگ اس کے برابر نظر آنے والی جکھائی اب صرف دو بالشت اونچی رہ گئی تھی۔ اس کا رقص برابر جاری تھا مگر رقص کے دائرے بتدریج چھوٹے ہوتے جا رہے تھے۔ اس طرح گز بھر کے دائرے میں رقص کرتی وہ بالشت بھر کی جکھائی اب محض ایک شعلہ رہ گئی تھی۔ بالآخر دیکھتے ہی دیکھتے وہ شعلہ بھی بجھ گیا اور چاروں طرف ایک دم سے اندھیرا چھا گیا۔

    وہ گھبرا کر پلٹا اور تیزی سے باہر نکل جانا چاہا۔ مگر اسے راستہ سجھائی نہیں دیا اور وہ ادھر ادھر اندھیرے میں دیواروں سے ٹکراکر رہ گیا۔ تبھی کسی نے اس کی بانہہ پکڑی اور اسے باہر دھکیل دیا۔ اس کے عقب میں دروازہ اتنے زور سے بند ہوا کہ اس بوسیدہ مکان کے چھجے سے دوچار مٹھی مٹی اس کے سر پر آ گری۔ وہ بے تحاشہ ایک طرف کو دوڑنے لگا۔ پتہ نہیں وہ کب تک دوڑتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اسے سامنے وہی اپاہج شخص گل مہر کے نیچے دکھائی دیا اور اچانک اس کے پیروں کی طاقت سلب ہو گئی۔ وہ منہ کے بل گر پڑا۔

    جب دوبارہ اسے ہوش آیا تو اس کا بدن دھوپ سے جھلس رہا تھا اور نیچے سڑک کی دھول بھی کافی تب گئی تھی۔ آسمان سے جیسے آگ برس رہی تھی۔ صرف گل مہر کے پیڑ کے نیچے تھوڑا سا سایہ تھا۔ اس میں اب بھی اٹھنے کی سکت نہیں تھی۔ وہ بمشکل اس نے جسم کو گھسیٹا ہوا پیڑ کے قریب پہنچا اور اس اپاہج کے قریب پہنچ کر ہانپتا ہوا لیٹ گیا۔ وہاں اب ایک دوسری صاف ستھری چادر بچھی ہوئی تھی۔ اپاہج نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پرسکون لہجے میں پوچھا، ’’کیا جکھائی نے خط پڑھا؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ کاش میں نے وہ خط اسی وقت چاک کر دیا ہوتا۔ میں اب تک اپنے واپسی کے سفر پر روانہ ہو چکا ہوتا۔‘‘ اس نے اپنی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے کہا اور وہ خط اپاہج کی طرف بڑھا دیا۔ اپاہج نے ہاتھ بڑھاکر خط لے لیا۔ پھر اسے کھول کر دیکھنے کے بعد اسے واپس کرتا ہوا بولا، ’’اوہو! یعنی جکھائی نے وہ خط پڑھ لیا ہے۔ دیکھو تو۔‘‘

    اس نے ہاتھ بڑھا کر خط دوبارہ لے لیا۔ مگر اب کی وہ کاغذ کو گھورتا ہی رہ گیا کا غذ بالکل کورا رہ گیا تھا۔ اس پرتحریر کے نام پر ایک لکیر بھی نہیں تھی۔

    ’’ارے۔ یہ کیا؟ کیا اس کے پڑھتے ہی تحریر صاف ہوگئی؟‘‘ اس نے اس کورے کاغذ کو گھورتے ہوئے کہا۔ ’’پھر اس نے مجھے اس تحریر کا مفہوم کیوں نہیں بتایا؟‘‘

    ’’اگر تمہیں اس تحریر کا مطلب بتا دیا جاتا تو جکھائی اسی طرح ڈائن بنی زندہ رہتی اور تم جل کر راکھ ہو گئے ہوتے۔‘‘

    ’’اوہو!‘‘ اس کی نظروں کے سامنے وہ بھیانک منظر گھوم گیا اور وہ ل ہی دل میں کانپ کر رہ گیا۔ اس نے سوچا اب یہاں سے جلد از جلد نکل بھاگنا چاہئے۔

    ’’دھوپ ڈھلتے ہی یہاں سے چلا جاؤں گا۔ جہنم میں گیا پرساد۔ ‘‘ وہ سامنے دیوار پر ٹھہری ہوئی دھوپ کی طرف دیکھ کر بولا۔

    ’’جاؤگے! مگر کیسے جاؤگے؟‘‘ اپاہج نے اس کی پیروں کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے پوچھا۔ اس نے جھک کر اپنے پیروں کی طرف دیکھا۔ اس کے پیروں کے جتنے حصے پر پانی گرا تھا اتنا اب سوکھ کر بے جان ہو گیا تھا۔ اپنے پیروں کی یہ حالت دیکھ کر وہ چیخ پڑا۔ یہ صدمہ اس کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ وہ زمین پر پڑا کسی ذبح کئے ہوئے جانور کی طرح تڑپنے لگا۔ اپاہج اسے لاتعلقی سے دیکھتا رہا۔

    اس کا تڑپنا بلکنا جب ذرا کم ہوا تو وہ بولا، ’’اس صدمے کو یوں اچانک جھیلنا مشکل ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ صبر آ ہی جائےگا۔ دوسری بات یہ کہ یہاں کے لوگ تمہیں جانے بھی نہیں دیں گے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ تمہارے فرار ہوتے ہی ان کے تین بچے فوراً موت کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ تمہیں اپنی برادری میں شامل کر لیں گے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے وہ سب اپاہج ہو جائیں گے۔ ویسے وہ سبھی لوگ بڑے فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ یہاں تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہوگی۔ ان کے بدن پر عموماً تمہیں چیتھڑوں کے سوا کچھ نظر نہیں آئےگا۔ مگر ادھر دیکھو مجھے یہ صاف ستھرے کپڑے انہوں نے ہی دئے ہیں۔ انہیں شاید ہی کبھی دو وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہو۔ مگر مجھے بلاناغہ دن میں دو وقت نفیس کھانا ملتا ہے۔‘‘

    ’’تم ان کی کتنی ہی تعریف کرو۔ مگر مجھے وہ سارے لوگ نیم پاگل ہی نظر آئے۔ اس سے قبل ان میں سے کوئی بھی مجھ سے بات کرنے تک کا روادار نہیں تھا۔‘‘ اس نے غصے سے کہا۔

    ’’اس کی وجہ یہ تھی کہ تمہارے پاس اس وقت وہ تحریر موجود تھی۔‘‘ اپاہج نے سمجھانے والے انداز میں کہنا شروع کیا۔ مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔ ادھر دیکھو، ایک عورت اسی طرف آرہی ہے۔ ’’ اس نے گاؤں کی سمت سے آنے والی سڑک کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا، ’’ وہ روزانہ اسی وقت کھانا لے آتی ہے۔ اوہو! دیکھو آج اس کے ہاتھوں میں دو برتن دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسرا برتن یقینا تمہارے لئے ہوگا۔ یہ دوسری صاف چادر تمہارے آنے سے قبل اسی نے بچھائی تھی۔ تم نے ابھی کہا تھا کہ اگر تم نے وہ خط پھاڑ دیا ہوتا تو تم اب تک واپسی کی سفر پر روانہ ہو گئے ہوتے۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ خط کے لئے جس کا انتخاب ہو جاتا ہے پھر اس کا چھٹکارا ناممکن ہے۔ وہ خط تم ضائع کر سکتے تھے مگر پھر ہوتا یہ کہ کسی ندی کے کنارے یا بازار میں کوئی لکڑہارا، چرواہا، کوئی بیراگی یا کوئی مداری وہ کاغذ تمہارے ہاتھ میں تھما دیتا اور سارے واقعات تمہیں اسی طرح پیش آتے، صرف مقام بدل جاتا۔ چلو اب تھوڑا ساناشتہ کر لو۔‘‘

    وہ عورت سچ مچ اس کے لئے کھانا لے آئی تھی اس نے اس کے لئے خاص طور پر دو کیلے رکھے، کھانا لگایا اور ایک مٹی کی لٹیا میں پانی رکھ کر واپس لوٹ گئی۔ اپنے سوکھے سوکھے بےجان پیروں کی طر دیکھ دیکھ کر اسے ہول ہو رہا تھا اور اسے اپنے پورے بدن سے گھن سی آنے لگی تھی۔ وہ ڈوبتے لہجے میں بولا، ’’اب تو میری بھوک ہی مر گئی ہے۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ شروع میں ایسا ہوتاہے مگر رفتہ رفتہ عادی ہو جاؤگے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ انسان کی بھوک انسان کے جتنی ابھیمانی نہیں ہوتی۔‘‘ اپاہج نے اپنے سامنے رکھا ہوا کھانا بڑی رغبت سے ختم کیا مگر وہ درمیان سے ٹوٹے ہوئے کیچوے کی طرح بےحرکت پڑا رہا۔ گل مہر کا سایہ اب پیچھے کو کھسکنے لگا تھا مگر ساتھ ہی سامنے والی دیوار کی چھاؤں ان پر سایہ کرنے لگی۔ اس طرح وہ دھوپ سے محفوظ ہی رہے۔

    ’’یہاں وقت کیوں کر کٹتا ہوگا۔ یہ گاؤں اور اس گاؤں کے لوگ پاس ہوکر بھی کتنی دور ہیں۔‘‘

    ’’اف۔۔۔ آخر یہاں کیا کیا جا سکتا ہے؟‘‘

    ’’وقت گزاری کے لئے انسان کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘ اپاہج کی گمبیھر اور بھاری آواز ابھری، ’’ایسا سوچنا تمہاری بھول ہے کہ تم کچھ کرو گے تبھی وقت گزرےگا ورنہ وہ کسی جوہڑ کے پانی کی طرح ایک ہی جگہ ٹھٹھرا پڑا رہےگا۔ تغیر فطرت کا مزاج ہے۔ آنکھیں کھلی رکھو تو بہت کچھ نظر آئےگا۔ سامنے والی دیوار پر وہ خشک اور مر جھائے ہوئے پودے دیکھ رہے ہو، جو اس وقت سوکھ کر سانپ کی جھڑی ہوئی کینچلی کی طرح دکھائی دے رہے ہیں، تھوڑے دن اور ٹھہر جاؤ، پہلی برسات پر ہی وہ سارے پودے مخمل اور ریشم کی طرح چمکدار ہوکر جاگ پڑیں گے اور ان پر ہتھیلی جتنے چوڑے جامنی رنگ کے پھول کھل جائیں گے۔ کسی جوگن کی طرح اداس نظر آنے والی یہ دیوار سجای سجائی دلہن کی طرح تروتازہ دکھائی دینے لگے گی۔ ان پھولوں کی شکل پیالہ نما ہوتی ہے اور ان کا جامنی رنگ اتنا دل پذیر ہوتا ہے کہ بے اختیار تمہارا جی ان میں پانی پینے کو مچل اٹھےگا۔

    برسات میں گل مہر کا سرخ رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے۔ پھر اس میں نئی کونپلں پھوٹتی ہیں۔ پتے نکلتے ہیں اور تازہ پھلیاں لٹکنے لگتی ہیں۔ سورج کے طلوع ہونے سے قبل اس درخت پر ایک الو آتا ہے اور متواتر نصف گھنٹہ بولتا رہتا ہے۔ الو کی آمد کا وقت ایسا نایاب ہوتا ہے کہ اس کی صحیح وضاحت شاید میں نہ کر پاؤں۔ یعنی رات کا سفر ختم ہونے کو ہوتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا۔ صبح آنے کو ہوتی ہے مگر نہیں آتی۔ اس وقت دل پر ایک عجیب سے کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ جی بلاوجہ تڑپ تڑپ اٹھتا ہے۔ آنکھیں خومخواہ ڈبڈبانے لگتی ہیں۔ مگر ان لمحوں کو بخیر وخوبی جھیل لیا جائے تو پھر پورا دن ہنسی خوشی گزر جاتا ہے۔ وہ الو فجر کی سپیدی کے ساتھ ہی اڑ جاتا ہے۔ پتہ نہیں۔ شاید اسے لگتا ہو کہ یہ درخت چہکنے اور بولنے کے لئے تو ٹھیک ہے مگر بسیرا کرنے کے لئے مناسب نہیں؟

    میں اکثر سوچتا ہوں وہ دوسرا درخت کہاں ہے؟ کیسا ہے؟ پھر گرما کی شفاف چاندنی راتوں میں دیوار کے اس پار سے انتہائی نازک نویلی اوربھینی بھینی خوشبو کی لپٹیں آنے لگتی ہیں۔ اس وقت اس نازک نکہتی فضا میں سونا بھی غیر تقدیسی فعل معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت جی چاہتا ہے کسی رنگین اور نازک سے پرندے کو یاکسی نوزائیدہ گائے کے بھورے پچھڑوں کو اٹھاکر اپنی ننگی چھاتی سے بھینچ لیں۔ بھینچ لیں اور آنکھیں بند کئے کسی اندیکھے منظر کے تصور میں کھو جائیں۔

    ’’یا کسی جوان عورت کی ننگی گرم چھاتیاں۔ اس نے درمیان ہی سے بات کاٹتے ہوئے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا، ایسا لگتا تھا اپاہج کے الفاظ اسے غیر محسو س طریقے سے کسی انجان جزیرے کی طرف بہائے لے جا رہے ہیں۔

    ’’نہیں۔‘‘ اپاہج بولا، ’’اس خوشبو سے ایسا احساس پیدا نہیں ہوتا۔ وہ دیکھو سامنے جو جھنڈ نظر آ رہا ہے وہاں بھری برسات میں ایک سبز رنگ کا پودا اگتا ہے اور اس پر سرخ رنگ کے پھول تازہ زخموں کی مانند کھلتے ہیں۔ رات میں ان کی خوشبو پھیلتی ہے۔ البتہ وہ خوشبو کی جنگجو سپاہی کے تیکھے مزاج کی طرح کڑی ہوتی ہے۔ دوسروں پر چھا جانے والی، مغلوب کر دینے والی۔ اس گھڑی ضرور ویسا احساس پیدا ہوتا ہے یعنی کسی جوان عورت کی ننگی گرم چھاتیاں۔ مگر ایک ایسی عورت جسے اپنے حسن کا اپنی بلا خیز جوانی کا بھرپور احساس ہو۔ جوہیروں سے جگمگاتے کرن پھول پہنے ہواور اس کی آنکھیں ہاں، آنکھیں نیلی نہ ہوں۔ نیلی آنکھوں میں وہ کف و نشہ کہاں؟

    جب کسی ہرنی کی پر گوشت ران کو سورج کی ڈوبتی کرنیں چوم رہی ہوں۔ اس وقت جو دھندلا دھندلا سا کچھ نارنجی، کچھ بیگنی رنگ نظر آتا ہے۔ ان آنکھوں کا رنگ بھی کچھ ایسا ہو۔ تس پر وہ عورت صرف جسم ہو، بولتا چہکتاجسم، جو صرف ایک اشارے پر کسی سوتے کی طرح ابل پڑے۔ روح، فکر، نیکی، بدی، پاپ، ان کی آلودگیوں سے پاک، صرف جسم عورت فقط عورت۔‘‘ اپاہج کی گفتگو نے بھیتر سے اسے کافی بےچین کر دیا۔ اس نے پہلو بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’اور جب تم یہ سب سوچنے لگتے ہو اس وقت تمہیں اپنے سوکھے مردہ پیروں کا احساس بری طرح کھٹکنے لگتا ہے۔ ہے نا؟‘‘

    اس کے لہجے میں چھپے کرب کو نظر انداز کرتے ہوئے اپاہج نے آگے کہا، ’’ہاں شروع شروع میں یہ احساس ضرور تکلیف دیتا ہے مگر بعد میں بے جان یا جاندار کسی بھی قسم کے پیروں کا خیال آنا بند ہو جاتا ہے جس طرح آئینے میں عکس بنا کس رکاوٹ کے آگے سرکتے رہتے ہیں اسی طرح آخر کار سوچ کے دھارے بھی کمزور یا بدشکل جسم کی مزاحمت کے بغیر برابر بہتے رہتے ہیں۔ سنو! ہمارے چاروں طرف جو حسن بکھرا ہوا ہے اسے ہم نے تخلیق نہیں کیا ہے مگر وہ سارا حسن ہمارے اندر ہی کہیں زندہ ہے اور ہماری ذات ہی سے جنم لیتا ہے۔ ہم ایک وسیلہ محض ہیں۔ پھر اس بات کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے کہ کسی کن کھجورے کی طرح ہمارے بیس پاؤں ہیں یا مگر مچھ کی طرح صرف ہاتھ ہیں اور پاؤں ندارد۔‘‘

    لیکن کبھی کبھی ایسا نہیں لگتا کہ زندگی خلاء میں معلق ہو گئی ہے۔ کہیں کوئی تغیر نہیں۔ نہ آگے کچھ نہ پیچھے، ایسے بے کیف لمحے بھی آتے ہیں زندگی میں۔‘‘

    ’’آتے ہیں۔ اکثر آتے ہیں۔ مگر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ لمحوں کے کنکر زندگی بھر ہیروں کی کنیوں کی طرح دمکتے رہیں۔ ’’اپاہج نے قریب رکھا ہوا لکڑی کا صندوق کھولا اور اس میں سے تختی پنسل اور دو پیتل کے لمبوترے گلاس نکالے۔ ان میں سے ہر ایک میں چار چار پانسے تھے اور ان پر مختلف قسم کے خط اور دائروں کے نشان بنے تھے۔

    ’’یہ رمل کے پانسے ہیں۔ اب ادھر دیکھو!‘‘ اپاہج کے لہجے میں دبا دبا سا جوش تھا۔ اس نے پانسوں کو پیتل کے گلاس میں ڈالا اور ہلاکر فرش پر پھینکا۔ پھر ان پر بنے خطوط اور دائروں کو گن کر تختی لکیروں اور دائروں سے بھر دی۔ تب اس نے ایک خط کے نیچے ایک مخصوص نشان بنایا، پھر ہنس کر بولا، ’’یہ میرے سوال کا جواب ہے۔ میں ذہن میں ایک سوال سوچ کر اس کا جواب تلاش کر رہا تھا۔ یہ نشان اس جواب کی علامت ہے۔‘‘

    ’’ذرا اس جواب کی وضاحت بھی کردونا۔‘‘ اس نے پر اشتیاق لہجے میں کہا۔

    اپاہج نے کاندھے جھٹکتے اور تختی کو صندوق پر رکھتا ہوا بولا۔، ’’جواب کی وضاحت تو میں خود بھی نہیں کر سکتا۔ ایک وقت تھا جب میرے پاس جوابوں کی کتاب تھی۔ مگر پتہ نہیں وہ کہاں کھو گئی ہے۔ اب ایساہے۔ میں سوال تو سوچ سکتا ہوں جواب بھی اخذ کر لیتا ہوں مگر اس کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘ ’’تعجب ہے۔ پھر سوال ہی کیوں سوچا اور اس کا جواب اخذ کرنے کی بھی کیاضرورت ہے؟ پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ایک ہی سوال کا جواب کبھی کچھ ہو اور کبھی کچھ۔ ‘‘ وہ قدرے جھنجھلا گیا تھا۔

    ’’تم سچ کہہ رہے ہو میں نے جس سوال کا جواب ابھی ابھی کھوج نکالا تھا، ایک گھنٹے بعد اسی سوال کا جواب مختلف ہو سکتا ہے‘‘ اپاہج رک کر ہنسا پھر بولا، ’’دراصل بات یہ ہے کہ جس سوال کا قطعیت کے ساتھ ایک ہی جواب ہو وہ سوال، سوال نہیں، سوال نما ہوتا ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا۔ اکثر کھیل میں ایک آدھ چھوٹے بچے کو اس کی تسلی کے لئے ’’گٹھلی‘‘ کہہ کر شامل کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح زندگی میں کھوکھلے الفاظ ایسے سوالات کا سوانگ لئے آتے رہتے ہیں۔ جن کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یک جوابی سوال کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔ میرا مطلب ہے جس سوال کا قطعیت کے ساتھ ایک ہی جواب ہو، وہ سوال بے معنی ہوتا ہے۔ صحیح سوال وہی ہے جو مختلف جوابات کے مکھوٹے لگاتا اتارتا رہتاہے اور ایسے سوال کا کوئی قطعی جواب نہیں ہوتا۔ یاد رکھو جواب، سوال کی موت ہے۔ بالفاظ دیگر حتمی جواب، سوال کا قاتل ہے اگر سوال مر گیا تو سمجھ لو انسان بھی مر گیا۔ میں اکثر سوچتا ہوں۔ شاید مرے ذہن میں متواتر سوال ہی گونجتے رہیں گے اور اس پیڑ پر بولنے والا الو متواتر جواب سجھاتا رہےگا۔‘‘

    اب اس کا ذہن دوبارہ اپاہج کی گفتگو سے ہٹنے لگا تھا۔ اس کی نظریں اپنے مریل سوکھے پیروں پر آکر جم گئیں۔ مردہ پیروں کا دکھ پھر سے زندہ ہو گیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ امید بھی اسی شدت سے زندہ رہی کہ ان مردہ پیروں میں آج نہیں تو کل پھر زندگی کا لہو ضرور دوڑےگا۔

    وہ بولا، ’’ تم اپنے دل کے بہلاوے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کر سکتے ہو مگر میں تو رمل اور پانسوں کے کھیل سے بھی واقف نہیں ہوں۔ میرا وقت کیوں کر کٹےگا؟‘‘

    ’’سنو! صرف رمل ہی وقت گزاری کا ذریعہ نہیں ہے مٹی کے گولوں سے کھلونے بناتے ہوئے یا زمین میں بیج بوتے ہوئے بھی سوال سوچے جا سکتے ہیں۔ سوالات پوچھنے کے طریقہ کار کی قطعی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ویسے تمہیں کچھ نہ کچھ تو آتا ہی ہوگا؟‘‘ اپاہج نے پوچھا۔ اس نے تھوڑی دیر تک غور کرنے کے بعد کہا، ’’مجھے تھوڑی بہت تک بندی آتی ہے مگر بعض اوقات ان کا مطلب خود میری سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘

    ’’اہا۔۔۔ کوئی بات نہیں۔ تمہارے پاؤں نہیں ہیں لیکن ہو سکتا ہے تمہارے الفاظ ایک طویل سفر کے لئے نکل پڑے ہوں۔ کون جانے کب تمہاری نظم کا کوئی مصرعہ کوئی فقرہ آنکھ کھولے اور تمہاری طرف اس انداز سے دیکھے کہ تم پر زندگی کے سارے اسرار فاش ہوتے چلے جائیں۔ بالفرض ایسا کچھ نہ بھی ہو تو تمہیں دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ الو روزانہ اسی شاخ پر بیٹھ کر بولتا ہے۔ ا س کے سامنے کون سے سوالات ہیں؟ کس کے سوال کا جواب دیتاہے وہ؟ شاید اس بات کا اسے بھی کوئی علم نہیں۔ تس پر بھی وہ بلاناغہ یہاں آتا ہے۔ بولتا ہے اور اڑ جاتا ہے۔ یا وہ کسی سے شکایت کرتا ہے؟ تمہیں بھی ایسی ہی تختی پنسل وغیرہ مل جائےگی۔ بس لکھتے رہو اپنی نظمیں۔ اگر دماغ تھک جائے تو اپنے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ڈوب جاؤ یا پھر اپنے ارد گرد کے واقعات کو اپنی ذات میں ضم ہو جانے دو۔‘‘

    اپاہج کی اس گفتگو کے بعد اسے اپنا مستقبل کسی بہت صاف تصویر کی طرح دکھائی دینے لگا اور اس نے بڑی حسرت سے اپنے خشک بےجان پیروں کی طرف دیکھا۔ بیک بیک وہ چونکا اور آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک نمودار ہوئی۔ اس نے اپاہج کا ہاتھ تھام لیا اور دھیرے مگر پراشتیاق لہجے میں پوچھا، ’’ایک بات بتاؤ! کیا تم بھی کوئی پرچی لے کر پرساد کے لئے یہاں آئے تھے؟‘‘

    اپاہج نے نہایت آہستگی سے ہاتھ چھڑا لیا اور بغیر ایک لفظ بولے تفہیمی نظروں سے اس کی جانب دیکھتا رہا۔ تبھی اسے لگا الفاظ کے سوتے خشک ہو چکے ہیں اور اپنے آپ میں گم ہو جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

    مأخذ:

    جی۔اے۔کلکرنی کی کہانیاں (Pg. 130)

    • مصنف: جی اے کلکرنی
      • ناشر: ادبی پرنٹنگ پریس، ممبئی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے