aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پروفیسر کی سگریٹ

پرویز شہریار

پروفیسر کی سگریٹ

پرویز شہریار

MORE BYپرویز شہریار

    سپریم کورٹ کا ایک فرمان جاری ہوا تھا،جس کے مطابق چھتیس گڑھ کی ریاستی حکومت ماؤنوازوں سے نمٹنے کے لیے اسپیشل پولیس آفیسر کے نام پران پڑھ اور معصوم آدی باسیوں کے ہاتھوں میں ہتھیار دے کر انھیں ماؤنوازوں کے خلاف جنگ میں جھونک رہی تھی جو قانون کی نظر میں جرم تھا اور اس سے حقوق انسانی کی سخت خلاف ورزی ہو رہی تھی ۔

    اس فرمان میں ماؤنوازوں سے متاثرہ ضلعوں میں چلنے والے تربیتی کیمپوں کو فی الفور بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔

    دراصل ماؤنوازوں کے خلاف حکومت کی اس مہم میں نہتے آدی باسی نوجوان بڑی تعداد میں مارے جا رہے تھے ۔جس کے سبب پہاڑی اور جنگلی علاقوں میں رہنے والے آدی باسی سماج میں بہت زیادہ بدامنی اور بے اطمینانی پھیل گئی اور انجام کار وہاں محاذ آرائی کی صورت حال پیدا ہوگئی ۔ماؤنوازوں اور سیلوا جڈوم کے حمایتیوں کے درمیان گذشتہ کچھ عرصے سے یہ خونی کھیل جاری تھا ۔اس میں ریاستی سرکار کے ذریعے بے روزگار اور غربت کے مارے آدی باسی نوجوانوں کو بہت ہی قلیل تنخواہ پر پولیس میں بحال کر کے چور سپاہی کی ایک کبھی نہ ختم ہونے والی لڑائی میں جھونک دیا گیا تھا ۔ایک گوریلا جنگ کی سی صورت حال پورے جنگلی اور پہاڑی علاقے میں بنی ہوئی تھی۔ جسے موقع ملتا وہ دوسرے گروہ کے لوگوں کو مار گراتا تھا۔اس طرح ،دونوں اطراف سے ہونے والی جھڑپوں میں مرنے والے بے چارے آدی باسی ہی ہوتے تھے ۔

    حیرت کی بات تو یہ تھی کہ اس طوائف الملوکی اور خانہ جنگی کو پھیلانے والے مشن کو سیلوا جڈوم کا نام دیا گیا تھا جس کے معنی وہاں کی مقامی گونڈی بولی میں امن مشن کے ہوتے ہیں۔جب ملک کے چند بہت ہی اہم غیر سرکاری تنظیموں (NGOs)نے مل کر اس کے خلاف ایک زبردست تحریک چلائی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سپریم کورٹ نے آخر کار ریاستی حکومتوں کے اس بے تکے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے اسے فی الفور ختم کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

    ملک کی مشہور میگزین کے نامہ نگار کی حیثیت سے اس اسٹوری کو تیار کرنے کے لیے جب میرا نام تجویز کیا گیا تو مجھے بڑی طمانت کا احساس ہواتھا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ نکسل واد کے موضوع پر پہلے بھی میری کئی اسٹوری منظر عام پر آچکی تھیں اور جس گہرائی اور گیرائی سے میں ان سبھی اسٹوریزکو اکٹھا کر کے نتیجے کی تہہ تک پہنچا تھا،وہ کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں تھی ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں چھوٹا ناگپور کے ان علاقوں کے چپے چپے سے واقف تھا ۔میرا بچپن ان ہی پہاڑ جنگل گاؤں میں رہنے والے آدی باسیوں کے ساتھ مل جل کر ان کے سکھ دکھ بانٹنے میں گزرا تھا۔یہ بات میری یونٹ کے انچارج اور عملہ کے دیگر ارکان بخوبی جانتے تھے ۔مجھے جیسے ہی انچارج کا پیغام ملا ۔میں نے اپنے کیمرہ مین کلیان بنرجی کو اپنے ہمراہ لیا اور چند ضروری سامان سفر لے کر ٹرین پر سوار ہو گیا ۔چھتیس گڑھ سے ڈیڑھ سو کیلو میٹر دور ضلع بستر کے اندرونی علاقوں میں جہاں چھوٹی لائن سے ہو کر ٹرین گزرتی ہے ، مجھے وہاں چل رہے پولیس کے ایک تربیتی کیمپ میں جلد سے جلد پہنچنا تھا۔منزل مقصود پر پہنچ کر ریاستی پولیس کے ضلع ہیڈ کواٹر سے ایک انٹر ویوکرنا تھا۔میں نے دل میں سوچا تھا۔سب سے پہلے میں ہی اس علاقے کا دورہ کروں گا اور وہاں کی صورت حال کو مؤثر ڈھنگ سے قلم بند کروں گا ۔کیونکہ مجھے ان آدی باسیوں سے فطری ہمدردی تھی اور کیوں نہ ہوتی جیساکہ پہلے ہی میں نے عر ض کیا ۔میرا سارا بچپن ان ہی کے درمیان کھیلتے کودتے گزراتھا ۔

    کلیان اور میں نے ٹرین میں سوار ہونے کے بعد اپنے بیگ اور دوسرے سازوسامان اوپر کے برتھ پر رکھے اس کے بعد پلیٹ فارم سے منھ ہاتھ دھو کر آئے اور ایک ایک پیالی گرما گرم چائے پی ،چائے کے دوران، میں کلیان کو ضروری ہدایتیں دیتا رہا اور وہ خاموشی سے انھیں سنتا رہا ۔اس کے بعد میں نے دیکھا دھیرے دھیرے اس پر غنودگی طاری ہونے لگی تھی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔

    میرا ذہن بھی دفعتاً حال کی قید سے فرار ہو کر ماضی کی بسیط فضا میں کسی آزاد پنچھی کی طرح پرواز کرنے لگا ۔

    ہم صنعتی شہر سے گاؤں بلکہ جنگل اور پہاڑوں کے دامن میں منتقل ہوگئے تھے۔میرے والد صاحب شاعر تھے ۔وہ زندگی بھر جس قدرت کی آغوش میں تمام سماجی بندشوں سے آزاد ہو کر زندگی گزارنے کا خواب دیکھا کرتے تھے ،اب وہ حقیقت میں بدل چکا تھا ۔خام لوہے کی ایک بڑی کمپنی سے سبک دوش ہوتے ہی وہ مٹی کی دیواروں اور کھپریل کی چھت والے گھر میں منتقل ہو چکے تھے۔جس کے تینوں اطراف سے سال بھر ایک پہاڑی پر نالہ بہتا رہتا تھا ۔اس کے بیچوں بیچ اونچے ٹیلے پر ہمارا سرخ کھپریل کا مکان تھا ۔دو چار گھروں کا ایک متصل اور بے ہنگم سا سلسلہ تھا جو ایک بے ڈھنگ سی تیڑھی میڑھی قطار میں بنے ہوئے تھے۔ لیکن وہ کچھ اس طرح سے بنے ہوئے تھے کہ ایک گھر میں جشن کاسماں ہو یا ماتم کا ماحول تو دوسرے گھر اس سے ہر گز بیگانہ نہیں رہ سکتے تھے۔

    نئے مکان کی پہلی رات میں کھلے آسمان کے نیچے ٹمٹماتے ہوئے ستاروں کو دیکھتے دیکھتے کب آنکھ لگ گئی ،کچھ پتہ نہیں چلا تھا ۔ آنکھ جب کھلی تو ڈھک ڈھک ...ڈھک ڈھک...کی مسلسل آواز آرہی تھی ۔شہر کے لوگ سورج چڑھنے کے بعد آرام سے بستراستراحت سے اٹھنے کے عادی ہوتے ہیں ۔لیکن یہاں تو معاملہ بالکل اس کے برعکس تھا۔ڈھک ڈھک ،ڈھک ڈھک کی ایک اکتا دینے والی آواز سے آنکھ کھل گئی ۔پہلے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ الٰہی یہ کیا ماجرہ ہے ؟پھر صبح ہوئی توتجسس اس قدر بڑھ گیا کہ متصل مکان کے آنگن میں آنکھیں ملتا ہوا جا کر اکڑوں بیٹھ گیا ،جہاں سے متواترایسی غیر مانوس سی آواز آرہی تھی ۔معلوم ہوا کہ منھ اندھرے اٹھ کر ڈھیکی میں دھان کوٹا جا رہا ہے۔اس کٹے ہوئے چاول کو بانس کے سوپ میں چن پھٹک کر اندھیرے میں ہی پکانے کے لیے مٹی کی ہانڈی میں لکڑی کے چولہے پر چڑھا دیا جاتا ہے۔مزدور کسان آگ میں بھنی ہوئی سوکھی مرچ اور نمک کے ساتھ اس لال چاول کے بھات کو پیٹ بھر کے کھانے کے بعد اپنے اپنے کام پر نکل جاتے ہیں ۔مرد مزدوری کرنے نکل جاتے ہیں ۔لڑکے اسکول چلے جاتے ہیں ۔جنھیں کرسچن مشنری کے اسکولوں میں نہیں جانا ہوتا ہے وہ مویشیوں کو چرانے کی غرض سے گھر سے نکل جاتے ہیں اور عورتیں لکڑیاں کاٹ کر لانے کے لیے پہاڑوں کی طرف رخ کرتی ہیں۔ان کے ہاتھوں میں لوہے کا چاپڑ،مونج کی رسی اور کپڑے کا بیڑا ہوتا ہے ۔صبح گھر سے ایک قطار میں یہ عورتیں نکل جاتی ہیں راستے بھر کوئی حوصلہ افزا اور محنت کی تائید میں کوئی لوک گیت گاتی ہوئی پہاڑیوں پر چڑھ جاتی ہیں۔اور دن ڈھلنے سے پہلے پہلے واپس اپنے گھروں کو لوٹ آتی ہیں جب یہ واپس آتی ہیں تو دو ڈھائی من لکڑی کا گٹھر ان کے سروں پر ہوتا ہے۔جنھیں سوکھنے کے بعد ان کے مرد بیل گاڑیوں پر لاد کے شہر لے جاتے ہیں اور انھیں بیچ کر واپسی میں گھر کے لیے روز مرہ کے سودا سلف خرید کر لیتے آتے ہیں ۔شام تک چرواہا اسکولوں سے بچے اور چراگاہوں سے مویشی بھی گھاس چرکے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آتے ہیں ۔ہمارے گھروں کے آس پاس اور بالکل پہاڑی سلسلے کے دامن میں اسی طرح کے چند گھروں پر مشتمل کئی اور بھی آدی باسیوں کے گاؤں تھے جہاں کی اپنی دنیا تھی اپنے خوشی اور غم تھے جن پر سب گاہے بگاہے شریک ہوتے تھے ۔دھان کی فصل جب کٹنے کو تیار ہوتی تو پہاڑوں سے ہاتھیوں کے جھنڈ کے جھنڈ اتر آئے تھے یہ جھنڈ کبھی غصے میں آتا تو فصلوں کو روندکر کے مٹی کی دیواروں کو توڑ کے غلوں کو برباد کر دیتا تھا ۔ایسے موقعوں پر لوگ رات کے اندھیرے میں شعلیں جلا کر اور ٹن کے کنسترو ں کو بجا کر ان ہاتھیوں کو بھگاتے تھے۔جب کبھی شادی بیاہ یا کوئی تیج تہوار ہوتا تو ان کے باہمی اتحاد اور اجتماعی شرکت کا دلکش نظارہ دیکھا جا سکتا تھا ۔حالانکہ ان آدی باسیوں میں زیادہ تر لوگ ان پڑھ تھے لیکن ان کا بھی اپنا سماج تھا ان کے بھی اپنے لوک ناچ اور لوک گیت ہوتے تھے ۔وہ اپنے مٹی کے گھروں کو گیرواور سفید چمکدار چاک پتھر سے لیپ پوت کے خوب سجا سنوار کر رکھتے تھے ۔ان پر سانپ ،شیر اور بھالوں وغیرہ کی شبیہوں سے نقش و نگار بناتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خونخوار جانور انھیں کبھی نقصان نہیں پہنچاتے ہیں۔وہ ایک دوسرے کے سکھ سے سکھی اور دکھ سے دکھی ہونا بھی بخوبی جانتے تھے۔

    برسات کے موسم میں جب گڈھے نالوں میں پانی جمع ہوجاتا تو اس سے دھان کی کھیتی کی جاتی تھی ۔پٹھاری خطوں میں زمین سنگلاخ تھی اور پانی کی قلت کی وجہ سے پورے سال کھیتی باڑی نہیں کی جا سکتی تھی۔آس پاس نہ کوئی ندی تھی نہ کوئی نہر لے دے کے ایک برسات کا پانی تھا ۔ہم چھوٹے لڑکے بنسی لے کر مچھلی پکڑنے نکل جایا کرتے تھے ۔ جا بجا پہاڑ کے دامن میں تالاب بن گئے تھے۔یہ واٹر ہارویسٹنگ کا دیسی طریقہ آدی باسیوں میں صدیوں سے چلا آرہا تھا ۔برسات کے موسم میں جب پہاڑ سے آکر برساتی پانی تالاب میں جمع ہوجاتا تو گاؤں کی کنواری اور بیاہی سبھی لڑکیاں اس کے مینڈوں پر اپنی نیلی پیلی ساڑیاں پھیلا دیتی تھیں ۔وہ اپنی مقامی بولیوں میں برسات کے گیت گاتی تو ان سبھوں کی شیشے پر آری چلنے کی سی آواز سے ایک دلکش اور دل کی دھڑکنوں کو تیز کر دینے والا آہنگ پیدا ہو جاتا تھا ۔ہم لڑکے تیند اور جامن کے تناور درختوں پر چڑھ کر کسیلی جامنیں کھاتے اور ٹانگیں لٹکائے گھنٹوں بیٹھے سب کچھ دیکھتے رہتے تھے ۔مجھے یاد ہے جب نہا کے یہ آدی باسی دوشیزائیں تالاب کی اونچی اونچی مینڈوں پر جا کر سنہری دھوپ میں اپنے کالے گیلے بالوں کو سکھانے کے لیے گمچھے سے جھٹکتیں تو ان کے گداز ابھاروں کی چمک پکی شاہراہ سے گزرتے ہوئے لمبے روٹ کے سردار ڈرائیوروں کو اپنے اپنے ٹرک روک کے سستانے پر مجبور کر دیتی تھیں ۔بیک وقت کئی کئی ٹرک شاہراہ پر رک جاتے اور ان کے ڈرائیوراپنی آنکھوں کی دوربین سے ان نظاروں کو بٹورنے میں لگ جاتے ۔اس فعل عبث میں انھیں کیا مزہ آتا تھا یہ تو وہی جانیں مگر اپنے وقت کے ضائع ہونے کی ذرّہ برابر بھی پرواہ نہیں ہوتی تھی ۔وہ سب اس وقت تک وہاں اکڑوں بیٹھے رہتے جب تک کہ تانبے رنگ کی اور سیاہ فام آدی باسی حسینائیں اپنے حسن بھرے جوبن کو کپڑوں میں نہ سمیٹ لیتیں ۔ہم نوجوانی کی سرحدوں کو پھلانگتے ہوئے لڑکے بالے بھی جن کی ابھی مسیں بھی نہ بھیگی تھیں ،اپنے اعضا میں دیر تک تناؤ محسوس کرتے اور پھر سہ پہر سے پہلے پہلے اپنی اپنی چکنی چلبلی مچھلیوں کو پالی تھین میں لپیٹ کے پینٹ کی جیب میں رکھتے اور کبھی سانپ کبھی گرگٹ کا شکار کرتے ہوئے کچھ کھوئے کھوئے سے کچھ چٹے چٹے سے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آتے تھے ۔

    مجھے یاد ہے ،اونگا میرا بڑا جگری دوست تھا ۔اونگا سے جب میری پہلی ملاقات ہوئی تو وہ بڑ عجیب لگ رہا تھا ۔اس کے پاس ایک غیر معمولی سی جادوئی طاقت تھی ---- ایک اپنائیت اور چاہت کی طاقت ---- واقعہ یہ تھا کہ برسات کے دن تھے ۔وہ چھاتا لے کر آگے آگے چل رہا تھا ۔اس کے آگے اس کی بھیڑ بکریاں اور گائے تھیں ۔وہ ان پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔میں نے اس وقت ایک بڑی عجیب بات یہ دیکھی کہ اس کے پیچھے پیچھے دو چھوٹی چھوٹی مینائیں چل رہی تھیں ۔میں یہ دیکھ کر اک دم حیران رہ گیا کہ اونگا جدھر بھی جا رہا تھا وہ مینائیں اس کے پیچھے پیچھے چلتی جا رہی تھیں ۔بہت غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ ہر پانچ دس منٹ کے بعد جب مینائیں زیادہ شور مچانے لگتیں تو اونگا کسی گھاس میں چھپے ہوئے کیڑے پر جھٹ سے جھپٹتا تھا اور اس کے پنکھ اور پیر توڑ کے اس کا گوشت والا حصہ ان میناؤں کے منہ میں ڈال دیتا تھا ۔یہ منظر دیکھ کر میرا دل بھر آیا ۔کیونکہ عموماًپرندے کسی انسان کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اڑ جاتے ہیں لیکن اونگا تو جیسے ان کی ماں تھا ۔ جب وہ چیں چیں کر کے پنکھ اور ڈینیں ہلاتیں تو اونگا جھٹ کوئی ٹڈی یا بھنبھوٹ وغیرہ پکڑ تا اور اس کے پنکھ اور ٹانگیں توڑ کے میناؤں کی چونچ کھول کر ان کے منہ میں ڈال دیتا تھا اور وہ کھا کر کچھ دیر کے لیے سیر ہو جاتی تھیں۔میں نے نزدیک جا کر اس آدی باسی لڑکے سے دریافت کیا ۔’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ ’’اونگا‘‘۔ہلکی ہلکی مونچھیں اور تھوڑی پر داڑھی کے کچھ بال جمنے شروع ہو گئے تھے۔’’یہ مینائیں تم نے کہاں سے پکڑی ہیں ؟انھیں چھوڑ دو،جانے دو۔شاید یہ اڑنا چاہتی ہیں‘‘۔

    ’’نہیں نہیں !یہ ابھی اڑ نہیں سکتیں ۔‘‘ میں نے استعجاب سے پوچھا ۔’’کیوں‘‘؟’’یہ ابھی چھوٹی ہیں‘‘۔اس نے مزید کہا ۔’’اگر میں انھیں نہیں بچاتا تو ایک سانپ انھیں کھانے والا تھا ۔‘‘میرے معصوم دل نے محسوس کیا ۔اس کی باتوں میں کشش تھی ۔’’کیسے؟‘‘میں مکمل تجسس کے ساتھ جاننا چاہتا تھا۔’’کیندو کے پیڑ میں ان کا گھونسلہ تھا ۔وہ گویا ہوا ۔‘‘جب میں صبح صبح میدان گیا تو دیکھا کہ ان کی ماں کہیں چلی گئیں تھی ۔جب بہت دیر ہو گئی تو میں نے دیکھا ایک سانپ اپنی للچائی ہوئی نظریں ان پر جمائے ہوئے دھیرے دھیرے انھیں کھانے کے لیے بڑ ھ رہا تھا ۔

    ’’لیکن گھونسلہ تو پیڑ میں ہوتا ہے ؟‘‘

    ’’یہ پیڑ ہی پر تو چڑھ رہا تھا ۔‘‘

    ’’ہائیں !سانپ پیڑ پر چڑھ سکتا ہے ؟‘‘میں نے قدرے حیرانی سے پوچھا ۔

    ’’اور نہیں تو کیا۔ ‘‘ اس نے اطمینان سے جواب دیا ۔’’یہ تو گھونسلے تک سمجھو چڑھ چکا تھا ۔بس ایک آدھ ہاتھ بھر دوری رہ گیا تھا ۔تبھی میں نے ڈنڈے سے اسے مار بھگایا ۔اور انھیں بچا کر اپنے ساتھ لے آیا ۔‘‘

    ’’واہ واہ!‘‘میرے منھ سے خوشی کے فقرے خودبخود نکل گئے اور ہاتھوں سے تالی بج گئی ۔میری یہ حالت دیکھ کر اونگا بہت خوش ہوا۔

    ’’تم ایک اچھے لڑکے ہو‘‘اونگا نے مجھ سے کہا تھا ۔‘‘

    ’’ہاں !تم بھی اچھے ہو۔تم نے ایک موذی جانور سے اس کی جان کی حفاظت کی ہے ۔‘‘

    ’’تمہارے چھاتا کے اندر یہ کتاب کیسی ہے۔تم پڑھتے ہو۔‘‘ میں نے چھاتا کے اندر سے نظر آئی ہوئی کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ۔’’ہاں میں پڑھتا ہوں۔یہ میری فزکس کی کتاب ہے۔‘‘ اس نے یہ موٹی سی ہندی میں بھوتیکی وگان کی کتاب میرے ہاتھوں میں دے دی ۔میں اس کے اوراق الٹ الٹ کر دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اگر میں بھی سائنس پڑھوں گا تو مجھے بھی ایسی ہی موٹی موٹی کتابیں پڑھنا پڑیں گی۔

    ’’یہ پڑھ کر تمہیں کون سی نوکری ملے گی ۔‘‘ میں نے یوں ہی بے ارادہ ایک فضول سا سوال کر دیا تھا ۔میرے سوال پر اس نے بہت مایوس کن جواب دیا ۔’’نوکری کہاں ملتی ہے ۔میں نے ریلوے میں نوکری کے لیے کمپٹیشن کا امتحان دیا ہے۔لیکن آجکل ہر جگہ گھوس چلتا ہے۔‘‘ وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر کچھ توقف کے بعد بولا ۔گھوس کے لیے اتنا پیسہ کہاں سے لائیں گے ؟‘‘جب وہ یہ الفاظ ادا کر رہا تھا تو اس کی آواز اتنی دبی سی تھی کہ محسوس ہوا جیسے اس کی آواز کسی پاتال سے آرہی ہو۔اس سنگلاخ جغرافیائی خطے کی زندگی بہت ہی دشوار گزار اور تکلیف دہ معلوم ہوتی تھی ۔گرمی کے دنوں میں کئی کئی میل دور سے پینے کا پانی لانا پڑتا تھا۔برسات میں بجلی نہ ہونے سے گھوپ اندھیری راتوں میں گڈھے نالوں میں گزرنے پڑنے کا خدشہ رہتا تھا ۔بارش سے اکثر مٹی کے مکان ڈھے جاتے تھے ۔چارے کی قلّت سے مویشی بیمار ہو کر کبھی کبھی مر بھی جایا کرتے تھے ۔صرف خریف کی فصل ہوتی تھی ۔ان میں دھان کے علاوہ بھٹے اور باجرے کی بھی کھیتی ہوتی تھی ۔ سال کے آٹھ مہینے بھوک مری رہتی تھی ۔مرد مزدوری کرنے کے لیے اینٹ کے بھٹوں اور کوئلے کی کانوں میں جاتے تھے ۔کئی کئی ہفتے ویہیں رہتے اور عورتوں بچوں کی زندگی بہت ابتر حال اور محال رہتی تھی ۔دور دور تک کوئی اسپتال نہیں تھا ۔کرسچن مشنری کے اکاّدکاّ اسکول تھے جن میں بچے کچھ پڑھ لکھ جاتے تھے ۔وہاں سے عیسائی بن کے نکلتے تو سماجی حالت کچھ بہتر ہو جاتی تھی ۔

    اچانک، کلیان نے خراٹے بھرنا شروع کیا تو میرے خیالوں کے سلسلہ منقطع ہو گیا ۔بیس سال بعد آدی باسیوں کی دنیا استحصالی طاقتوں کے ہاتھوں بد سے بدتر ہو چکی تھی ۔اتنے طویل عرصے کے بعد میں اپنے دوست اونگا سے ملنے جا رہا تھا ۔حالانکہ ،اس دوران دو چار بار مجھے اس علاقے کا دورہ کرنے اور اطلاعات اکٹھا کرنے کے مواقع بھی ملے تھے لیکن تب اونگا کی حیثیت ایک ’’سیلوا جڈوم ‘‘کی تھی۔

    اس نے ایک دفعہ میرے سوال کرنے پر بتایا تھا کہ’’ امن مشن ‘‘میں شامل ہونا اس کی مجبوری تھی ۔اس کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا ۔اسے نوکری نہیں ملی تھی ۔ماں بیمار ی سے تنگ آکر ایڑیاں رگڑرگڑ کر پہاڑیوں پر دم توڑ چکی تھی ۔آدی باسیوں میں یہ رواج تھا کہ وہ آخری وقت میں خدا کے بھروسے بوڑھے اور بیمار شخص کو پہاڑ کے اوپر لے جا کر چھوڑ آتے ہیں۔ان کا عقیدہ تھا کہ اگر بیمار شخص رو بصحت ہو جاتا ہے تو خود بخود مسافت طے کر کے گھر واپس آجائے گا ۔ورنہ چیل کوئے اس نحیف و نزار شخص کو نوچ نوچ کر کھا جائیں گے ۔اسی سے انھیں موکش ملے گا ۔

    مجھے وہ دل دوز منظر اچانک یاد آگیا ۔ایک بار کھیل کھیل میں ہم پہاڑ کی چوٹی پر جھنڈا گاڑنے چلے گئے تھے ۔پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر جنگلی برگد کا ایک پیڑ تھا جس کے پتے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں ۔جیسے ہی ہمیں وہاں ،ہاتھیوں کی تازہ تازہ لید نظر آئی ،ہم وہاں سے جھنڈے ونڈے چھوڑ چھاڑ کے اپنی اپنی جان بچا کر بھاگے تھے۔بھاگتے بھاگتے میرے پیر پھسل گئے اور میں اوپر سے لڑھک کر کوئی بیس تیس فٹ نیچے کھائی جیسی کھڈ میں پہنچ گیا تھا ۔وہاں سے گزرتے ہوئے میری نظر ایک کنکھال پر پڑی تھی جس کی ہڈیاں آس پاس بکھری پڑی تھیں اسے دیکھتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے گویا وہ کوئی بھوت پریت کا اڈا تھا اور اس دم ہمارا بھی وہی حشر ہونے والا تھا ۔میں نے جنگل کے اونچے اونچے پر اسرار گھنے درختوں پر نظر دوڑائی کہ شاخوں سے کوئی تازہ لاش تو نہیں لٹک رہی ہے تبھی اونگا نے مجھے ڈھارس بندھائی اور میرا ڈر دور کرنے کے لیے اس نے مجھے کنکھال کے آس پاس پڑے دوسرے سازوسامان دکھاتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ بیمار اور بوڑھے لوگوں کو غریب آدی باسی خدا کے سہارے پہاڑیوں پر چھوڑ جاتے ہیں ۔کنکھال کے آس پاس پڑے مٹی کی صراحی المونیم کے کٹورے ،بانس کی لاٹھی اور ٹائر کی چپل اس بات کے ثبوت تھے ۔اس دن ---- انسانیت کی یہ دُردشا دیکھ کے میرے معصوم اور مغموم دل سے پہلی بار سرد آہ نکلی تھی ۔اُف !آدم خاکی کی ایسی ارزانی بھی ہو سکتی ہے ،یہ میں نے کبھی اپنے خواب و خیال میں بھی سوچا نہ تھا ۔

    اونگا کابڑا بھائی اپنی دونوں ٹانگوں سے معذور تھا ۔تقریباً دس برس کی عمر میں ایسا شدید پولیو کا جھٹکا لگا کہ وہ دوبارہ پھر کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکا ۔ہر طرح کی جھاڑ پھونک ،تیل کی مالش اور تعویز گنڈے لیے گئے لیکن کوئی بھی نسخۂ علاج کار گر ثابت نہیں ہوا ۔تبھی سے اس کی زندگی چھوٹے بھائی کے کاندھوں پر ایک بوجھ بن کر رہ گئی تھی ۔فاقہ کشی سے بچنے کے لیے وہ چاول کے ماڑ اور ہنڈیاں پی کر کئی کئی دن تک گزارہ کرتے تھے جب تک کہ ان کی لکڑیاں نہ بک جائیں یا کہیں کوئی مزدوری نہ مل جائے ۔وہ بھوک اور بیماری سے بے حال رہتے تھے ۔

    دوسری طرف مائینگ مافیا اس خطے میں اس قدر حاوی ہو چکے تھے کہ آئے دن پولیس اور ان مافیاؤں کی مڈبھیڑ ہوتی اور گولیاں چلتی تھیں ۔ماحول جب شانت ہوتا تو کبھی چار چھ لاشیں مافیاؤں کی تو کبھی پولیس والوں کی ملتی تھیں ۔ان کے غلبے سے جنگل کے اندر بیڑی کے پتے ،لکڑیاں اور قندمول تک کے لالے پڑ گئے تھے۔ان پر مافیاایک ایک کر کے قابض ہونے لگے تھے ۔جنگلوں میں آدی باسیوں اور مافیاؤں کے درمیان بندوق کی گولیوں اور تیروں کا تبادلہ ہوتا اور نہتھے اور معصوم لوگ اپنی زندگی گنوا بیٹھتے تھے۔

    وقت گزرتا گیا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آدی باسیوں نے بھی جینے کے لیے مرنا سیکھ لیا ۔ماؤنواز گروپ نے ان کے اندر بیداری کی تحریک پیدا کردی تھی ۔انہوں نے بھی ایک جٹ ہو کر مافیاؤں پر ہلّہ بولنا شروع کر دیا تھا ۔صنعت کا رجو اس ملک کے انتخابی مہموں میں بہت اہم کردار نبھاتے ہیں ۔اس ملک کی پارلیامانی نظام حکومت میں ان کی اہمیت سے کوئی سیاسی تنظیم انکار نہیں کر سکتی ۔جب انھیں جان و مال کا نقصان اور خسارہ ہونے لگا تو انتظامیہ نے ’’امن مشن‘‘کے نام پر آدی باسیوں کا ایک دستہ تیار کر لیا ۔انھیں سرکاری نوکری اور پولیس میں پرمانینٹ بھرتی کرنے کا جھانسہ دے کر ماؤنوازوں کے خلاف لڑائی میں صف اول میں کھڑا کیا جانے لگا ۔آدی باسیوں کے ہاتھوں آدی باسیوں کی موت کا کھلا کھیل کھیلا جانے لگا۔ماؤنوازوں اور نکسلیوں نے ہتھیار کی فراہمی اور آدی باسیوں کے تحفظ کے لیے صنعت کاروں اور زمینداروں و کسانوں سے خطیر رقم اینٹھنے شروع کردیتے تھے ۔نہ دینے پر گاؤں اور کھیتوں میں موت کا ہولناک منظر کھینچ دیا انے لگا ۔جن کے پاس مال و دولت نہیں تھے ان گھروں سے افراداکٹھا کیے جانے لگے ۔مرد عورت اور نوعمر جوانوں کو ماؤواد کا سبق پڑھا کر صنعت کاروں اور انتظامیہ کے خلاف صف آرا کیا جانے لگا تھا ۔

    ایسی صورت حال میں ایک عام آدی باسی کے جینے کے لالے پڑگئے تھے۔اسے ایک طرف نکسلائٹ کا خطرہ تھا تو دوسری طرف پولیس کے مخبر نہیں بننے کی وجہ سے پولیس سے بھی دشمنی مول لینی پڑتی تھی۔ان کے لیے ’’نے جائے رفتن نہ پائے ماندن ‘‘والا معاملہ درپیش تھا ۔

    ایسے نامساعد حالات میں اونگا کے کئی رشتہ داروں نے مرتے کیا نہ کرتے بمصداق ماؤنوازوگروپ کا سہارا لیا تھا۔اس کے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ اس کی منگیتری سانے بھی نکسلائٹ گروپ میں خود کو شامل کر لیا تھا جبکہ اونگا سیلوا جڈوم (امن مشن)کا رضاکار ممبر بن کے گاؤں گاؤں میں اپنے آدی باسی باشندوں کو انصاف کی راہ پر چلنے کی تلقین کیا کرتا تھا ۔

    پچھلی بار جب میں اپنی رپورٹنگ کے سلسلے میں بستر گیا تھا تو ’’سیلوجڈوم ‘‘کے کیمپوں میں بھی گیا تھا ۔اونگا اس وقت بہت خوش تھا اسے سرکار پر پورا بھروسہ تھا کہ جلد ہی اسے سرکاری نوکری مل جائے گی ۔اس کی پولیس میں بحالی ہوجائے ۔تب وہ می سا سے شادی کرلے گا اور وہ دونوں ڈار سے بچھڑے پنچھی کی طرح اس ڈال سے اس ڈال اڑتے پھرنے کے بجائے مستقل آشیانہ بنالیں گے اور وہیں ساری زندگی سکھ شانتی سے بسر کر سکیں گے ۔

    اچانک ٹرین کی رفتار سست ہوگئی اور کچھ دور چلنے کے بعد ٹرین رک گئی ۔چاروں طرف دھول آر رہی تھی ۔دور دور تک چھوٹی بڑی پہاڑیوں کے سلسلے تھے ۔کیندوشال ،مہوااور جامن کے لنڈ منڈ سے پیڑ سطح مرتفعائی خطے کی پتھریلی سرزمین پر دور تک پھیلے ہوئے تھے ،البتہ ہریالی قطعی ندارد تھی ۔ایک خوف و ہراس کا ماحول چاروں طر ف پھیلا ہوا تھا ۔سائیں سائیں کرتی ہوئی ہوا جب تیزی سے گزرتی تو اس خوف کے ماحول میں مزید اضافہ ہو جاتا تھا ۔کلیان اور میں اپنے سازو سامان لے کر پلیٹ فارم آنے سے پہلے ہی چلتی ٹرین سے کود کر اتے گئے ۔ایک پگڈنڈی پر چند لوگ سہمے سہمے سے چلے جا رہے تھے ۔ہم بھی ان پیچھے پیچھے چل پڑے ۔لوگ باگ چھپ چھپ کر ہم پر اپنی نظر بنائے ہوئے تھے اور ہمیں قدرے استعجاب اور حیرانی سے دیکھ رہے تھے ۔

    ہمارے پہنچتے پہنچتے چاروں طرف اندھیرا چھا چکا تھا ۔

    سب سے پہلے ہم لوگ ٹریننگ کیمپ میں پہنچ گئے ۔وہاں جب ہم نے اپنے جرنلسٹ ہونے کا شناختی کارڈ دکھایا تو ایک شخص جو اپنے حلیے سے پولیس والا لگتا تھا لیکن سول ڈریس میں تھا ۔اُس نے ہمیں ایک گلیارے سے ہوتے ہوئے ٹن اور اسبیٹس سے بنے سڑکوں سے نکال کر چھوٹی بڑی چٹانوں کے قریب لے گیا جہاں اونگا اور اس کے چند ساتھی کچھ مغموم سے کچھ اُداس سے بیٹھے کسی گہری سوچ اور فکر میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ہمیں دیکھ کر وہ اے دم سے کھڑا ہو گیا اور اُس نے تپا ک سے ہاتھ ملایا میں نے اسے اپنے سینے سے لگالیا ۔

    ’’اونگا کیسا ہے؟‘‘میں نے جوش کے ساتھ پوچھا ۔

    ’’ٹھیک ہوں‘‘اس نے ٹھگا سا جواب دیا ۔

    ’’کیوں سپریم کروٹ کے اس فیصلے سے تم خوش ہو؛‘‘میں نے اندھیرے کے باوجود اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی ۔

    ’’اب تو روزگار ملنے کی جو اُمید تھی وہ بھی گئی۔‘‘اس نے اپنے دست تاسف ملتے ہوئے بڑی مایوسی سے کہا ۔’’کیا تمہیں لگتا نہیں ۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے چاروں طرف امن و چین بحال ہو جائے گا ۔‘‘میں نے اس کے دل کی اصلی بات نکلوانے کے لیے کچھ کرید تے ہوئے سوال دریافت کیا ۔اسے خامو ش دیکھ میں نے مزید کہا ۔’’چند این جی اوز نے بھی سرکار کے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے اور اطمینان کا اظہار کیا ہے ان کا ماننا ہے کہ قانون سے انسانی حقوق کی پامالی پر بھی روک لگے گی ۔‘‘میں نے اس کے چہرے کے تاثرات جاننے کے لیے اس پر نظر یں گڑادیں ۔

    اُس نے دوسری طرف چہرہ گھما لیا اور دور خلاؤں میں گھورتا ہوا بولا ۔’’کھدان مافیا ہمیں جینے نہیں دیں گے ۔‘‘کچھ توقف کے بعد اس نے کہا’’پولیس ہمیں مرنے نہیں دے گی ‘‘ایک دو قدم چلنے کے بعد پھر وہ گویا ہوا ۔فرط غم اورغصے کی وجہ سے وہ اس قدر مغلوب تھا کہ مجھے محسوس ہوا جیسے وہ اپنے جذبات کو کھل کر بیان نہیں کر پا رہا تھا ۔بہر کیف ،اس نے کہا اب تو ماؤوادی بھی ہم سے خفا ہیں۔زمین کی طرف نیچے دیکھتے ہوئے اس نے مزید کہا۔’’ہم نے اُن سے بھی دشمنی مول لی ہے‘‘۔ایک لمبی سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ۔ماؤوادی بھی ہم سے دشمنی نکلالیں گے ۔کیونکہ ہم میں سے زیادہ تر ایسے نوجوان ہیں جو ماؤوادی سنگھٹن چھوڑ کے سیلوا جڈوم بنے ہیں۔انہیں ہم سے خطرہ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اشارے پر ہی اُن کے خفیہ ٹھکانوں پر چھاپے مارے گئے تھے اور ہزاروں ماؤوادیوں کی اب تک جانیں جا چکی ہیں۔پولیس ہم سے ماؤوادیوں کے خفیہ ٹھکانوں کے بارے میں پوچھے گی اور ماؤوادی سمجھیں گے کہ ہم پولیس کے مخبر ہیں۔اس کے بعد اونگا میرا بازو پکڑ کے مجھے ایک طرف لے گیا اور بڑے راز دارانہ انداز میں بولا۔

    ’’میں اورمی سا ،دونوں ہی،اس زندگی سے عاجز آچکے ہیں ۔‘‘

    آج کی رات ہم سیلوا جڈوم اور ماؤوادیوں سے پنڈ چھڑا کر بھاگ نکلیں گے۔میں یہاں سے بھاگنے کی پوری پلاننگ کر چکا ہوں ۔‘‘اس نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس طرح سے کہا گویا میری آنکھوں میں اعتماد کی کرن تلاش کرنا چاہتا ہو ۔

    ’’ہم دونوں اس زندگی سے دور بہت دور نکل جانا چاہتے ہیں...جہاں ہماری اپنی دنیا ہو ،جہاں ہم اپنی مرضی سے زندگی جی سکیں ۔‘‘

    اگلی صبح مقامی اخبار کے پہلے ورق پر جلی سرخیوں کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی تھی ۔

    کل رات دیر تک دونوں طرف سے گولی باری ہوتی رہی اور نکسلیوں اور پولیس کی اس مڈ بھیڑ میں اونگا اور می سانامی دو کوٹھیات آدی باسی مارے گئے جنہیں سپریم کروٹ کا فیصلہ منظور نہیں تھا رپورٹ میں آگے یہ لکھا تھا کہ ان کی موت AK-47-کی گولی سے ہوئی تھی ۔دفعتاً،میرے تصور میں نا جانے کیوں پروفیسر کی کچی پکی گھنگھرا لے بالوں والی چھوٹی سی داڑھی والا چہرہ گھوم گیا ۔وہاں سے نکل کے کھانہ کھانے کے لیے سیدھے ایک ڈھابے پر پہنچے ۔راستہ بھر میں یہی سوچتا رہا کہ اونگا اور ایک اس کی منگیتر زندگی کی شروعات کرنے جارہے ہیں۔جہاں بھی جائیں گے وہ ایک سماجی زندگی گزاریں گے ۔ان کے بھی بچے ہوں گے ۔انھیں اچھے اسکولوں میں داخلہ ملے گا۔ سماج میں ان کی ایک پہچان ہوگی ۔جہاں سکھ دکھ میں شریک ہونے والے ان کے دوست احباب ہوں گے۔ ان کا ایک اپنا حلقہ ہوگا ۔ان ہی سوچ وچار میں راستہ کٹ گیا ۔

    جب ہم ڈھابے میں بیٹھے کھانے کاا نتظارکر رہے تھے، تبھی ایک شخص بڑے پر اسرار طریقے سے آکر ہماری میز پر بیٹھ گیا ۔ کھادی کا ڈھیلا ڈھالا کرتا پجامہ پہنے ہوئے شخص نے بہت جلد ہی ہمار ا دھیان اپنی طرف مبذول کر لیا ۔جب اُس نے اپنی کچی پکی چھوٹی سی گھنگھرالے بالوں والی داڑھی کو کھجا تے ہوئے ہمارے سامنے سگریٹ کا ایک ڈبہ رکھ دیا ۔میں نے اسے غور سے دیکھا تو اُس پر چائنیز میں کچھ لکھا تھا۔باتوں کے دوران جب اُس نے اطمینان کر لیا کہ ہم جرنلسٹ ہیں اور دلّی سے آئے ہیں۔ تب اُس نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ یہاں سے کچھ ہی میل دور مغربی بنگال کے مدنا پور ڈگری کالج میں سوشیو لوجی کا پروفیسرہے۔اس کے ایک بزرگ رشتہ دار ہیں جن سے ملنے وہ چھتیس گڑھ اکثرآتا رہتا ہے۔

    جب میں نے سوشیولوجی کے پروفیسر سے تلگانہ کے نکسلائٹ مومنٹ کا ذکر کیا تو اُس نے قدرے تفصیل سے مجھے سمجھا یا جس کا لب و لباب یہ تھا کہ آندھرا پردیش کی تحریک کھیتوں کی باز یافت کی تحریک تھی ۔اس کے برعکس چھتیس گڑھ میں جنگلوں کی رہائی کا مسئلہ ہے جسے مائنیز مافیا نے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے اور یہاں کے مقامی آدی باسیوں کو ایک طرح سے یرغمال بنا لیا ہے جس کی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔

    بہر کیف ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو حسب عادت پینے لگے ۔چائے ختم ہوتے ہی پروفیسر نے سگریٹ کی پیشکش کردی جسے ہم نے شکر یے کے ساتھ قبول کر لیا ۔دوران سگریٹ نوشی جب میری نظر اس کے بٹ پر پڑی تو میں قدرے حیرت زدہ رہ گیا ۔

    پروفیسر کو الوادع کہہ کر ہم اپنے کمرے کی طرف بڑھے ۔

    راستے بھر میں یہی سوچتا رہا کہ ضلع بسترکے ایک دوردراز علاقے میں واقع چھوٹے سے گاؤں جیسی چھوٹی جگہ پر چین سے سگریٹ کیونکر آتا ہوگا ۔پروفیسر نے ہمیں جو سگریٹ پلائی تھی، اس پر چینی زبان میں ’’میڈان چائنا ‘‘لکھا ہوا تھا ۔یہ ایک معمولی سی بات تھی ۔لیکن نا جانے کیوں میرے ذہن میں یہ گتھی سلجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔کمرے پر پہنچ کر ہم جلدہی اپنے اپنے بسترپر چلے گئے ۔مچھروں کے یلغار سے بچنے کے لیے ہم نے اپنے بیگ سے اوڈوموس نکال کر اپنے ہاتھ پاؤں پر مل لیے ۔رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی۔ چنانچہ ،بستر پر جاتے ہی ہماری آنکھ لگ گئی ۔

    اگلی صبح مقامی اخبار کے پہلے ورق پر جلی سرخیوں کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی تھی ۔

    ’’کل رات دیر تک گولی باری ہوتی رہی تھی ۔نکسلیوں اور پولیس کی اس مڈبھیڑ میں اونگا مورا اور می سا نامی دو کو کھیات آدی باسی مارے گئے ۔جنہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ منظور نہیں تھا ۔‘‘رپورٹ میں آگے لکھ تھا ۔

    ’’ان کی موت AK- 47کی گولیوں سے ہوئی تھی ۔‘‘

    دفعتاً ،میرے تصور میں پروفیسر کی کچی پکی گھنگھرالے بالوں والی چھوٹی سی داڑھی والا چہرہ گھوم گیا ۔ اس کے ساتھ ہی میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ پروفیسر کی سگریٹ آخر کس انقلاب کا اشارہ تھی؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے