Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قید خانہ

احمد علی

قید خانہ

احمد علی

MORE BYاحمد علی

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے شخص کی کہانی جو تنہا ہے اور وقت گزارنے کے لیے ہر روز شام کو شراب خانے میں جاتا ہے۔ وہاں روز کے ساتھیوں سے اس کی بات چیت ہوتی ہے اور پھر وہ درختوں کے جھرمٹ میں چھپے اپنے گھر میں آ جاتا ہے۔ گھر اسے کسی قید خانے کی طرح لگتا ہے۔ وہ گھر سے نکل پڑتا ہے، قبرستان، پہاڑیوں اور دوسری جگہوں سے گزرتے، لوگوں سے میل ملاقات کرتے، ان کے ساتھ وقت گزارتے وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ زندگی ایک قید خانہ ہے۔

    ’’ابے او رام لال، ٹھہر تو سہی۔ ہم بھی آ رہے ہیں۔‘‘

    دو آدمی ہاتھوں میں ڈنڈے لیے نشہ میں چور جھومتے آ رہے تھے، رام لال جو آگے آگے چل رہا تھا، ڈنڈا سنبھالتا ہوا ان کی طرف مڑا، جواب مستی سے گلے لگ رہے تھے۔ ہوا بند تھی اور گرمی سے دم گھٹا جاتا تھا۔ وہ سب تاڑی خانہ سے لوٹ رہے تھے۔

    ’’ابے سمجھتا کیا ہے۔ ایسا ڈنڈا رسید کروں گا کہ سر پھٹ جائے۔‘‘

    ’’اوہو! ٹھہر تو۔ بدل پیترا۔ بچ۔۔۔‘‘

    اندھیرے میں مجھے ان کی صورتیں تو نہ دکھائی دیں لیکن ہڈی پر لکڑی کے بجنے کی آواز آئی۔ ان کی آوازیں بلند ہوئیں اور پھر دھیمی ہوگئیں۔ سڑک کے دونوں طرف مرد اور عورتیں چارپائیوں پر پڑے سو رہے تھے۔ میری نگاہ ٹانگوں، چھاتیوں اور سوئے ہوئے چہروں پر پڑی۔ قسمت کے قیدی مرد اور عورتیں ساتھ سوتے، سڑک پر ہی بچے پیدا ہوتے اور انسان مر جاتے تھے۔

    میں نکڑ پر مڑا۔ سامنے میرا عالی شان مکان سیاہ درختوں کی آڑ میں خاموش کھڑا تھا۔ اس کے اند رمیں بموں اور گولہ باری سے محفوظ زندگی بسر کرتا ہوں۔ قریب ہی سڑک کے موڑ پر پلاؤ نام کا شراب خانہ ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو میں اس کے اندر اپنی کوفت شراب سے دور کرنے چلا جاتا ہوں۔ چوڑی سیاہ سڑک آئینہ کی طرح چمکتی ہے اور پانی میں دوکانوں اور مکانوں کے عکس اس کی سطح پر کھڑکیوں اور دیواروں کا گمان پیدا کر دیتے ہیں۔ جب میں رات اسٹیشن سے واپس آتا ہوں تو نکڑ والی دوکان ایک جہاز کی طرح سڑک کے پانی پر چلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور اس کی نوک میرے خیالات کے چپوؤں سے ہلتی ہے۔ سردی سے میں اپنے ہاتھ گرم کوٹ کی جیب میں گھسا لیتا ہوں اور شانے سکیڑے کانپتا ہوا پٹری پر تیز تیز چلنے لگتا ہوں۔ بوندیں میری سیاہ ٹوپی پر زور زور سے گرتی ہیں اور ہلکی ہلکی پھوار میری عینک پر پڑنے لگتی ہے۔ اندھی نگری کے سبب کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایک کار میرے جہاز کو کاٹتی ہوئی گزر جاتی ہے اور اس کی مدھم روشنیوں کے عکس سے سڑک جگمگا اٹھتی ہے۔ میں پلاؤ میں داخل ہو جاتا ہوں۔ کمرہ دھوئیں اور پسینہ اور شراب کی بو سے بھرا ہوا ہے۔ عینک پر بھاپ جم جانے کی وجہ سے ہر چیز دھندلی نظر آنے لگی۔ میں عینک کو صاف کرنے کے لیے اتار لیتا ہوں۔

    سامنے اَینی ایک لمبی میز کے پیچھے کھڑی لکڑی کے پیپوں میں سے مشین سے کھینچ کھینچ کر شراب کے گلاس پینے والوں کی طرف بڑھا رہی ہے۔ اس کے جسم پر سوائے ہڈیوں کے اب کچھ باقی نہیں۔ اس کے سر پہ سفید بال ہیں لیکن کمر ابھی تک ایک سروکی طرح سیدھی ہے۔ اس کی آنکھوں سے روشناسی کے طور اور اس کے ہونٹوں سے خیرمقدم کا تبسم ٹپک رہا ہے۔ لیکن دس بجتے ہی وہ چلانا شروع کرےگی، ’’ختم کرو بھائی، ختم کرو۔ یہ آخری دور ہے۔ چلو ختم کرو۔‘‘

    مگر ہنسی اور مذاق اور شور اسی طرح قایم رہےگا۔ وہ اسی طرح کل سے شراب کھینچتی رہےگی اور اس کی آواز میرے کانوں میں رات کو خوابوں میں گونجےگی، ’’ختم کرو، ختم کرو، یہ آخری دور ہے۔‘‘ مجھے تیری آواز سے سخت نفرت ہے، اینی۔ کیا تو ذرا بھی اپنا لہجہ نہیں بدل سکتی؟ تیری آواز تو اپنے تیسرے شوہر کی قبر میں بھی اس کا دل ہلا دیتی ہوگی۔ کیا تجھے یاد ہے وہ اپنا شوہر جو شراب کی مستی میں راہئی ملک بقا ہوا؟ اگر تو اپنے ٹوٹے ہوئے ہارمونیم کی آواز میں اس پر نہ چلاتی تو شاید وہ آج تک زندہ ہوتا۔ لیکن تو تو مردوں پر حکومت کرنے کو پیدا ہوئی تھی، شیروں کو سدھانے کے لیے۔

    ’’کیسا برا موسم ہے۔‘‘ نینیٹ نے میز کے پیچھے والے دروازہ سے نکل کر کہا اور ایک شوخی بھری مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیل گئی۔ میں بولا، ’’توبہ۔ توبہ۔‘‘یہ عورت ایک دیونی معلوم ہوتی ہے۔ اس کا قد لمبا ہے اور بدن پر سیاہ کپڑے ہیں، چھاتی پر ایک سرخ گلاب چمک رہا ہے اور کانوں میں جھوٹے بندے۔

    ’’اچھے تو ہو؟‘‘اس نے محبت بھرے لہجہ میں میرے کان کے قریب آکر کہا، ’’ہاں۔ تم سناؤ۔‘‘

    ’’تمہاری دعا ہے۔ لیکن یہ تو کہو آج یہاں کیسے بیٹھے ہو؟ تم تو ہمیشہ اپنے مخصوص کونے ہی میں بیٹھا کرتے تھے۔‘‘

    میں نے مڑکر آتش دان کی طرف دیکھا۔ وہاں ہڈسن بیٹھا ہوا تھا۔ ہڈسن پیشہ کا درزی ہے، جسم کا توندل اور سرکا تامڑا۔ وہ ایک اور محلہ میں رہتا ہے لیکن اس کا معمول ہے کہ ہر رات کو دو گلاس کڑوی کے پینے پلاؤ میں ضرور آتا ہے۔ آندھی جائے، مینہ جائے لیکن اس کا یہاں آنا نہیں جاتا۔ ایک زمانہ میں اس کو اینی سے محبت تھی اور اس کے تینوں شوہر یکے بعد دیگرے میدان عشق میں ہڈسن کو پیچھے چھوڑتے چلے گیے۔ لیکن اس کی وضع داری دیکھیے کہ ابھی تک پرانی روش کے مطابق اسی پابندی سے یہاں آتا ہے، مگر اینی اس کی طرف نگاہ اٹھاکے بھی نہیں دیکھتی۔

    ہڈسن بڑے کڑوے مزاج کا آدمی ہے۔ نہ جانے کیوں اس کو مجھ سے اس بات پر چڑھ ہو گئی ہے کہ میں ہمیشہ اسی کونہ میں بیٹھتا ہوں۔ ایک رات وہ بولا، ’’کیوں جی، تم ہمیشہ یہیں بیٹھتے ہو۔‘‘

    ’’تو کیا تمہارا دینا آتا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’اگر تمہارا جی چاہے تو تم بیٹھ جایا کرو۔‘‘

    ’’اور تم اپنی کرسی عورتوں کو بھی نہیں دیتے۔‘‘

    ’’دیکھو میاں!‘‘میں نے کہا، ’’اس صدی کے تیس سال بیت گیے چالیسواں لگا ہے۔ اب رقت آموز نسوانیت کے دن گئے۔‘‘

    ’’تاہم تمہیں یہاں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘

    ’’اگر تمہیں یہ کونا اتنا ہی پسند ہے تو شوق سے بیٹھا کرو۔ لیکن تم تو اینی ہی کے قریب بیٹھنا چاہتے ہو۔‘‘

    ’’یہی بات ہے تو دیکھا جائےگا۔‘‘اس نے دانت پیس کر کہا اور مجھے غضب سے دیکھا۔۔۔ اور میں نے ہڈسن کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’تم نے اس کی بھی بھلی فکر کی۔‘‘ نینیٹ نے کہا، ’’وہ تو پاگل ہے۔ اس نے تمہیں اپنی تصویریں بھی ضرور دکھائی ہوں گی؟‘‘

    ’’اس سے کہیں ایسی بھی غلطی ہو سکتی تھی؟‘‘

    اور ہم دونوں مل کر ہنسنے لگے۔

    اسی روز کا واقعہ ہے۔ میں کھڑا کبھڑے سے باتیں کر رہا تھا کہ ہڈسن نے میرے کوہنی ماری۔ جب میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی تو اس نے مجھے دوبارہ ٹہوکا۔ میں اس کی طرف مڑا،

    ’’ہلو۔‘‘

    ’’گڈ ایوننگ‘‘ وہ مسکراکے بولا، ’’کیسا مزاج ہے؟‘‘

    ’’آپ کی نوازش ہے۔‘‘اور یہ کہہ کے میں پھر کبھڑے کی طرف مخاطب ہو گیا۔ ہڈسن نے پھر کوہنی ماری۔ میں غصہ سے اس کی طرف مڑا۔ وہ اپنی جیب میں کچھ ٹٹول رہا تھا۔

    ’’تم نے یہ بھی دیکھی ہے؟‘‘ اور اس نے میری طرف ایک سڑی سی تصویر بڑھا دی۔ تین مٹے مٹے آدمی کرسیوں پر بیٹھے تھے اور ان میں سے ایک ہڈسن تھا۔

    ’’یہ جنگ عظیم میں کھینچی تھی، سمجھے، جب میں سارجنٹ تھا۔‘‘یہ کہہ کر وہ ہنسا اور خوشی سے اس کی بانچھیں کھل گئیں۔ میں نے کہا، ’’تو اب کیوں نہیں بھرتی ہو جاتے؟‘‘

    ’’اب تو میری عمر اسی سال کی ہے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے ایک آہ بھری۔

    ’’تمہاری عمر تو بہت کم معلوم ہوتی ہے۔ تم بڑی آسانی سے بھرتی ہو جاؤگے۔ آج کل سپاہیوں کی بہت کمی ہے۔‘‘اس کے بعد میں نے منھ موڑ لیا۔ ہڈسن نے برا سامنہ بنایا اور اپنے برابر والے کو جنگ عظیم میں اپنی بہادری کے قصہ سنانے لگا۔ لوگوں کو چیرتا پھاڑتا میں اپنے کونہ کی طرف گیا اور کارنس پر گلاس رکھ کے ایک پاؤں دیوار سے لگا اس انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ کوئی کرسی خالی کرے تو بیٹھوں۔

    ’’تو تم میرے کونے میں آہی گئے؟‘‘ میں نے ہڈسن سے کہا۔ اس نے بتیسی دکھائی اور ایک قہقہہ لگایا۔ آج وہ ذرا خوش خوش معلوم ہوتا تھا۔ وہ اسرار کرنے لگا کہ بنچ پر بیٹھ جاؤ۔ مجھے بنچ پر بیٹھنے سے سخت نفرت تھی، لیکن جب وہ نہ مانا تو میں بیٹھ ہی گیا۔ وہ بھی کرسی چھوڑکر میرے پاس آن بیٹھا۔

    ’’آج اتفاق سے میری ایک دوست سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔‘‘ہڈسن لگا کہنے، ’’وہ بڑا فلسفی ہے، سمجھے، تو میں نے کہا کہ بھئی تم بڑے فلسفر بنتے ہو، ہمیں بھی ایک بات بتاؤ۔ اس نے کہا اچھا۔ میں نے پوچھا کہ دنیا کیسے اپنی جگہ قائم ہے؟‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے کہا۔

    ’’کیا مطلب؟ جو کچھ میں نے کہا۔ یعنی چاند، تارے، سورج اور زمین سب اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں۔ آخر وہ کیا طاقت ہے جو ان کو اپنا فرض پورا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔۔۔ وہ تو کوئی معقول جواب دے نہ سکا۔ تم بتاؤ کہ کون سی چیز ان سب ستاروں کو اپنی جگہ قایم رکھتی ہے۔‘‘

    بحث کرنے کو میرا جی نہ چاہتا تھا اس لیے میں نے جواب دیا، ’’خدا۔‘‘

    ’’نہیں، غلط۔‘‘

    ’’تو پھر کیا چیز ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔

    ’’میں تو خود تم سے پوچھ رہا ہوں۔‘‘

    ’’تو پھر یگانگت سب تاروں اور سارے عالم کو اپنی جگہ قائم رکھتی ہے۔‘‘

    ’’غلط‘‘ اس نے جماکر کہا، ’’معلوم ہوتا ہے تم نے بس گھاس ہی کھودی ہے۔‘‘

    ’’تو پھر تم ہی بتاؤ نا؟‘‘

    ’’اچھا لو میں بتائے دیتا ہوں۔ یہ سب تارے جو آسمان میں جگ مگ جگ مگ کرتے ہیں، یہ چاند جس کی رقصاں کرنیں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں، وہ سورج جو اپنی روشنی سے دنیا کو گرمی اور اجالا بخشا ہے، یہ خوبصورت زمین جس پر ہم سب بستے ہیں، ان سب کو ایک عجیب و غریب اور لاجواب طاقت اپنی اپنی جگہ قایم رکھتی ہے اور یہ طاقت بجلی ہے۔‘‘

    میں بےساختہ ہنس پڑا۔ ہڈسن غصہ سے چلانے لگا، ’’تو تمہیں یقین نہیں آیا؟ تم اس بات کو نہیں مانتے کہ بجلی وہ طاقت ہے جو ان سب ستاروں کو یکجا رکھتی ہے؟ کیا تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ تم کیسے پیدا ہوئے؟‘‘

    بہت محظوظ ہو کر میں نے کہا، ’’نہیں۔‘‘

    ’’اچھا تو میں بتائے دیتا ہوں۔ تمہارے باپ نے تمہاری ماں کے پیٹ میں بجلی ڈالی، سمجھے اور پھر تم پیدا ہوئے۔۔۔‘‘

    میں زور زور سے ہنسنے لگا اور خیال کیا کہ شاید ہڈسن نے آج معمول سے زیادہ پی لی ہے۔ وہ اپنی بجلی کے راگ الاپتا رہا یہاں تک کہ میں عاجز آ گیا اور ایک دم سے کھڑا ہو گھر کی طر ف چل دیا۔ مجھے اس عجیب و غریب نظریے اور اس کے حامی پر ہنسی آ رہی تھی۔ پھر خیال آیا کہ وہ اپنی اندرونی دنیا کے ہاتھوں قید ہے اور یہ سوچتے سوچتے میں تنہائی اور کوفت کے سمندر میں ڈوب گیا۔

    میرے کمرے کتابوں، الماریوں اور کرسیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ میں اکثر کوفت سے یہاں ٹہلتا ہوں، تنہائی مجھے کھانے لگتی ہے اور میں بیزار ہو جاتا ہوں۔ میرامکان، اس کے بڑے بڑے کمرے اور سلاخوں دار کھڑکیاں ایک قیدخانہ معلوم ہوتی ہیں۔ میں کھڑکیوں سے جھانکتا ہوں۔ میری نگاہ کشادہ میدانوں، مرغ زاروں اور پہاڑوں پر پڑتی ہے۔ رات کو آسمان تاروں سے بھر جاتا ہے اور اس کی دست کی کوئی تھا نہیں ملتی۔ زندگی آسمان کی طرح آزاد ہے۔ لیکن زندگی کی افق سے دور اور دنیائیں ہیں اور ستاروں سے پرے اور بھی جہاں ہیں جو ان ستاروں اور اس دنیا سے کہیں زیادہ خوشنما اور رنگین ہیں۔ میری ہڈیاں اور جسم، میرے خیالات بھی اس قیدخانہ کی سلاخیں ہیں جس کو ہم زندگی کہتے ہیں۔ لیکن میں اپنے جسمانی روپ سے آزاد نہیں ہو سکتا، اسی طرح جیسے میرا جسم اس مکان کے قیدخانہ سے آزادی حاصل نہیں کر سکتا۔ اپنے کمروں کی چہاردیواری میں اپنے تخیل کے اندر میں بھی اسی طرح چکر لگاتا ہوں جیسے چڑیا گھر کے پنجروں میں ریچھ۔

    کبھی کبھی میں تنہائی سے پاگل ہو جاتا ہوں اور سلاخوں کو پکڑ کر درد سے چیخنے لگتا ہوں اور میری پھٹی ہوئی آواز میں غلامی اور اس روح کی تکلیفوں کا نغمہ سنائی دیتا ہے جو صدیوں سے آزادی کے لیے جان توڑ کوشش کر رہی ہے۔ جب لوگ میری چیخ سنتے ہیں تو تماشا دیکھنے کو اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ وہ بھی سلاخیں پکڑ لیتے ہیں اور میری نقل کرتے ہیں۔ ان کا منہ چڑانا میرے دل میں ایک تیر کی طرح لگتا ہے اور میرا دماغ انسان کے لیے نفرت سے بھر جاتا ہے۔ اگر میں اپنے پنجرہ سے نکل سکتا تو ان کو ایک ایک کرکے مار ڈالتا اور ان کے کھوکھلے سینوں پر فتح کے جذبہ میں چڑھ بیٹھتا۔ کاش کہ میں صرف ایک ہی دفع انسان کو بتا سکتا کہ وہ ازحد ذلیل ہے اور اس کی روح کمینی اور سڑانڈی۔ پہلے تو وہ آدمی کو ایک پنجرہ میں بند کر دیتا ہے اور پھر اس بزدلانہ حرکت پر خوش ہوتا ہے۔

    قفس کے باہر وہ آزاد ہے (نہیں آزاد نہیں بلکہ اپنی ہی بنائی ہوئی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے جیسے سائے جکڑے ہوئے ہوتے ہیں) اور باہر سے ایک بزدل کی طرح مونگ پھلی دکھاتا ہے اور میری تڑپن اور بھوک پہ خوش ہوتا ہے۔ لیکن اکثر جب وہ مونگ پھلی دکھاتا ہے اور میں اسے لپکنے کو اپنا منہ کھولتا ہوں تو وہ صرف ایک کنکری پھینک دیتا ہے۔ میں غصہ سے چیخ اٹھتا ہوں لیکن میری کوئی بھی نہیں سنتا۔ مگر وہ جو میری روح کو ایذا پہنچاتے ہیں، میرے درد پر خوشی سے تالیاں بجاتے اور میرے زخموں پر نمک چھڑک کے خوش ہوتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ مجھ پہ کیا گذرتی ہے، وہ کیا جانیں کہ روح کسے کہتے ہیں، وہ شاید اپنی سفید چمڑی پر غرور کرتا ہے اور مجھے اس لیے ایذا پہنچاتا ہے کہ میں کالا ہوں اور میرے جسم پر لمبے لمبے بال ہیں۔ لیکن میرا ہی جی جانتا ہے کہ مجھے اس سے کتنی نفرت ہے۔

    ہر روز ایک شخص دور سے میرے پنجرہ میں غذا رکھ دیتا ہے۔ وہ نزدیک آنے سے شاید اس لیے ڈرتا ہے کہ میں کہیں اس کا گلا نہ گھونٹ دوں۔ کبھی کبھی وہ مجھ سے باتیں بھی کر لیتا ہے، لیکن سلاخوں کے باہر سے۔ اکثر وہ اچھی طرح پیش آتا ہے اور میری آزادی اور رہائی کا تذکرہ کرتا ہے۔ ایسے موقعوں پر وہ اچھا معلوم ہوتا ہے اور میں ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں، چیڑ کے جنگلوں اور شہد کے چھتوں کے خواب دیکھنے لگتا ہوں۔ اس نے جب پہلی بار مجھ سے شفقت سے باتیں کیں تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔

    ’’کیسا ہے تو، ابے کالے غلام، رات کو خوب سویا؟ ہاں؟ شاباش۔‘‘

    میں نے عجز و محبت سے اس کی طرف دیکھا اور خوشی کے مارے اپنا منھ کھول دیا۔

    ’’اچھا اگر میں تجھ کو آزاد کر دوں تو کیسا ہو؟‘‘

    میں خوشی کے مارے پھولانہ سماتا تھا اور وجد سے چھاتی پیٹنے لگا۔

    ’’لیکن تو آزادی لے کر کرےگا کیا؟ میں تجھ کو کھانا دیتا ہوں، تیرا گھر صاف رکھتا ہوں۔ ذرا ان بندروں کو تو دیکھ۔ تونے کبھی اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ وہ سردی میں سکڑتے اور بارش میں بھیگتے ہیں؟ دن کو غذا کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ رات کو جہاں کہیں جگہ مل گئی بسیرا لے لیا۔ ان کی زندگی وبال ہے۔ اگر تو بھی آزاد ہوتا تو ان کی طرح مارا مارا پھرتا۔ کیوں بےغلام، یہی بات ہے نا؟‘‘

    میرا دل بیٹھ گیا اور میں نے ایک آہ بھری۔

    ’’ارے جا بھی، میں تو مذاق کر رہا تھا، تو برا مان گیا۔ میں سچ مچ تجھے رہا کر دوں گا۔‘‘

    خوشی کی کیفیت پھر لوٹ آئی اور میں اس کے لیے جان تک قربان کرنے کو تیار تھا۔ مگر ایسے وعدے تو اس نے بارہا کیے ہیں اور اب تو اس کا اعتبار تک اٹھ گیا ہے۔ وہ تو کہہ کے بھول جاتا ہے، لیکن میں اپنے قفس میں نہیں بھولتا اور خوشی اور آزادی کے خواب دیکھنے لگتا ہوں، اس وقت کے جب کہ میں اپنی زندگی کا خود مالک ہوں گا۔ اب تو وہ جب کبھی مجھ سے باتیں کرتا ہے تو میرے دل میں نفرت بھر آتی ہے اور کوئی بھی اس کی آگ کو نہیں بجھا سکتا لیکن میں اس کے ہاتھوں قید ہوں اور صبر و مجبوری کے علاوہ کچھ اور چارہ نہیں۔

    اس ظلم اور تشدد سے میں اس قدر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اپنے مکان کی کھڑکیوں کی سلاخوں کو پکڑ کر کراہنے لگتا ہوں۔ صرف اسی طرح دنیا کے منہ چڑانے اور جگ ہنسائی سے نجات مل سکتی ہے اور میرے دل کو قدرے سکون ہوتا ہے۔ مگر جب میرا غصہ کم ہو جاتا ہے تو کوفت اپنے پنجوں میں جکڑ لیتی ہے اور میں اپنے کمروں اور مکان کی کال کوٹھری میں ٹہلنے لگتا ہوں اور جب اس سے بھی عاجز آ جاتا ہوں تو کرسیوں پر بیٹھ کے گھنٹوں ٹوٹے ہوئے فرش یا دیواروں کو گھورا کرتا ہوں۔ کوفت سے عاجز آکر ایک رات میں باہر آیا۔ جاڑوں کا موسم تھا اور سڑکوں پر برف پڑی ہوئی تھی۔ یکایک مجھے کلیرا کا خیال آ گیا اور اس سے ملنے کی نیت سے اسٹیشن کی طرف چل دیا۔

    جب میں نے گھنٹی بجائی تو نوکرانی نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھ کر اس طرح مسکرائی جیسے اس کو علم تھا کہ میں کس لیے آتا ہوں۔ اس کی ہنسی میں ایک مرجھائی ہوئی بڑھیا کی وہ خوشی تھی جو ایک نوجوان مرد اور عورت کے یکجا ہونے کے خیال سے پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اس کے چہرہ پر ایک اور ہی کیفیت نمایاں ہوئی اور اس نے مجھے شکایت کی نظر سے اس طرح دیکھا جیسے اس کی نیلگوں آنکھیں کہہ رہی ہوں، ’’تم کتنے خراب انسان ہو۔ ایک لڑکی کو اتنی دیر تک انتظار کروا دیا۔‘‘ اس کے جذبہ نسوانیت کوٹھیس پہنچی تھی، اس جذبہ کو جس کے سبب جنس ایک لاجواب اور رومانی شے معلوم ہونے لگتی ہے اور اس نے بھرائی ہوئی آواز سے کہا،

    ’’تم نے بڑی دیر لگا دی۔‘‘

    ’’ہاں، ذرا دیر ہو گئی۔ ویسے تو خیریت ہے؟‘‘

    وہ پھر ہنسنے لگی اور سیڑھیوں پر چڑھتے وقت میری کمر پر ایک معنی خیز طریقہ سے دھپ رسید کیا۔

    میں نے کلیرا کے کمرہ کا دروازہ کھولا۔ ریڈیو پر کوئی چیخ چیخ کر ہذیانی لہجہ میں تقریر کر رہا تھا۔ آتش دان میں گیس کی آگ جل رہی تھی اور ایک کرسی پہ سیاہ ٹوپی رکھی تھی جس پر سنہری پھول ٹنکا ہوا تھا۔ نیلے رنگ کی کرسیاں اور تکیے اور سرخ قالین بجلی کی روشنی میں اداس اداس معلوم ہو رہے تھے اور کلیرا کا کہیں پتہ نہ تھا۔ مجھے ایک کونے سے سسکیوں کی آواز آئی۔ جھانک کے جو دیکھا تو کلیرا پلنگ پر اوندھی پڑی رو رہی تھی۔ یہ بات مجھے سخت ناگوار ہوئی۔ ماناکہ مجھے دیر ہو گئی لیکن اس رونے کے کیا معنی تھے؟ مجھے اس سے عشق تو تھا نہیں۔

    ’’کیا بات ہوئی؟‘‘میں نے پوچھا، ’’روتی کیوں ہو؟‘‘

    تھوڑی دیر تک تو وہ سبکیاں لیتی رہی پھر ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے شکایت کرنے لگی۔

    ’’تم کبھی وقت پر نہیں آتے۔ روز روز دیر کرتے ہو۔ تمہیں میری ذرا بھی چاہ نہیں۔‘‘

    میں بولا، ’’دیر ضرور ہو گئی، اس کی معافی چاہتا ہوں۔ لیکن آخر اس طرح کیوں پڑی ہو؟‘‘

    ’’طبیعت خراب ہے۔‘‘یہ کہہ کر وہ آنسو پونچھتی ہوئی اٹھ بیٹھی اور اپنا حال بیان کرنے لگی۔

    وہ باتیں کر رہی تھی لیکن میرے دل میں طرح طرح کے خیال آ رہے تھے۔ میری کوفت کم نہ ہوئی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ اول تو وہ حوا کی اولاد تھی اور پھر عورت، لیکن وہ مجھ سے کیا چاہتی تھی؟ اس کا خیال تھا کہ مجھ کو اپنے قبضے میں کر لےگی لیکن اس کو یہ نہ معلوم تھا کہ مجھ پر کسی کا بھی جادو نہیں چل سکتا۔ وہ اپنی ہی جگہ پر رہ جائےگی اور میں دوسری عورتوں کی طرف دوسری دنیاؤں میں بڑھ جاؤں گا۔ میرے لیے عورت محض ایک کھلونا ہے، ایسا ہی بہلاوا جیسے بازیگر کا تماشا۔ جس طرح بچہ کا دل ایک کھلونے سے بھر کر دوسرے کھیلوں میں لگ جاتا ہے اسی طرح میں بھی ایک ہی بلامیں گرفتار ہونا نہیں چاہتا۔ عورت ایک صیاد ہے اور مرد کی روح اور جسم دونوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ میں اپنے خیال میں کھویا ہوا تھا۔ اس بات سے اس کے جذبہ خود نمائی کو اس لیے ٹھیس لگی کہ میں اس کی طرف متوجہ نہ تھا۔

    ’’چھت مجھ سے زیادہ دلچسپ معلوم ہوتی ہے۔‘‘ وہ جل کے بولی۔

    ’’تم بھی کیسی باتیں کرتی ہو۔ میں تمہاری باتیں غور سے سن رہا ہوں۔‘‘

    ’’تم ہمیشہ یہی کرتے ہو۔‘‘اس کے ان الفاظ میں جلن کا احساس تھا۔

    ’’میں کتنی ہی کوشش کیوں نہ کروں تم کو جان نہ پاؤں گی۔‘‘

    ’’تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں اپنے آپ کو ایک معمہ معلوم ہوتا ہوں۔ میں بڑا خوددار ہوں۔‘‘

    ’’ہاں تم مغرور ہو۔ عورتوں نے تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے۔ مگرتم اتنے برے تو نہیں ہو۔ تم اپنے آپ میں چھپے رہتے ہو، میں نکالنے کی کوشش کروں گی۔‘‘

    وہ اپنے کو محض دھوکا دے رہی تھی۔ وہ تو کیا مجھے نجات دلاتی میں خود اپنے سے ہار مان چکا ہوں۔ ایک عورت نے مجھے اپنے اندر پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا اور اب مجھے کوئی نہیں نکال سکتا۔

    ’’اب تو یہ ممکن نہیں،‘‘میں نے کہا، ’’اپنے تحفظ کے لیے قلعہ بنایا تھا، خود ہی میں نے اس قیدخانہ کی دیواریں کھڑی کی تھیں۔ اب میں نہ تو ان کو ڈھاہی سکتا ہوں اور نہ آزادی حاصل کر سکتا ہوں۔‘‘

    مجھے اس کی آنکھوں میں ایک لمحہ کے لیے پریشانی کی جھلک دکھائی دی۔ پھر اس نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ نہ اس نے منہ سے ایک لفظ نکالا نہ میں نے کچھ کہا۔ وہ مجھے تسکین دینا چاہتی تھی، اس بات کا احساس پیدا کرا رہی تھی اور مجھے اپنی حفاظت میں رکھنا چاہتی تھی۔ مجھے اس پر ترس آنے لگا اور اپنی حالت پر بھی افسوس ہوا۔

    ’’مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ تمہاری ملاقات غلط آدمی سے ہوئی۔‘‘

    ’’نہیں۔ ٹھیک آدمی سے۔‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے مجھے زور سے بھینچ لیا۔ میں اس کی پیٹھ کو تھپکنے لگا، اس نے اپنی بانہیں ڈھیلی کر دیں۔ لیکن پھر اس نے مجھے سینہ سے چمٹا لیا اور محبت سے کہا، ’’میری جان!‘‘ اور بڑی نرمی اور شفقت سے مجھے اس طرح جھلانے لگی جیسے میں ایک ننھا بچہ تھا، وہ مامتا بھری ماں اور اس کی آغوش ایک جھولا جس میں آرام کی نیند سوسکتا تھا اور دنیا کو بھلاکر سب خوف و خطر سے نجات پا لیتا۔

    بڑی دیر کے بعد اس نے مجھ کو جانے دیا۔ جب میں اسٹیشن پہنچا تو بارہ بج چکے تھے اور آخری ریل چھوٹ رہی تھی۔ میں جب ریل سے اتر کے باہر آیا تو چودھویں رات کا چاند ڈھلے ہوئے آسمان پر چمک رہا تھا اور اس کی روشنی میں سڑکیں سفید براق برف کی رضائی اوڑھے پڑی تھیں۔ درختوں کے سائے ایک عجیب کیفیت پیدا کر رہے تھے اور چاندنی میں برف ایک خواب کی طرح غیرحقیقی اور تعجب خیز معلوم ہوتی تھی۔ داستانہ اتارکر میں نے یہ دیکھنے کو برف ہاتھ میں اٹھائی کہ کہیں روئی کے گالے تو زمین پر اس لیے نہیں بچھا دیے گیے ہیں کہ اس کو گرم رکھیں۔ لیکن وہ میرے ہاتھ کی گرمی سے پگھل گئی۔ میں اور اٹھانے کو جھکا۔ میرے پیروں تلے وہ چرمرکر کے ٹوٹی۔ میں نے جوتے کی نوک سے ٹھوکر ماری۔ کیا وہ سخت تھی یا نرم؟ ایک شخص جو پاس سے گزر رہا تھا، مڑ کے دیکھنے لگا کہ میں کہیں پاگل تو نہیں ہوں۔ پھر یہ سوچتا ہوا کہ شاید کوئی خبطی ہے چلا گیا۔ میں بھی تازی ہوا کے گھونٹ لیتا ہوا آگے بڑھا۔ دور دور جس طرف بھی نگاہ اٹھتی تھی، ہرچیز ایک خواب کی طرح انوکھی اور خوبصورت معلوم ہو رہی تھی۔

    مکان کے دائیں طرف قبرستان ہے۔ اس کے اندر قبریں ہیں، لیکن قیدیوں کا اب نام و نشان بھی باقی نہیں۔ صرف پتھر اور تاریک کوٹھریاں زندگی کی ناپائیداری اور دنیا کی بے ثباتی کی یاد دلانے کو ابھی تک موجود ہیں۔

    پشت پر ڈراؤنا اور بھیانک جنگل ہے۔ اس میں عجیب عجیب آوازیں اور خواب چھپے ہوئے ہیں۔ اکثر شیروں کے دہاڑنے کی آواز آتی ہے اور شام کو لکھو کھا کوے کائیں کائیں کرکے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ مگر اس کے اندر آزادی اور اس لامتناہی قید خانہ سے رہائی کی امید بھی جھلکتی ہے۔ ایک دن میں بھی اس میں قدم رکھوں گا۔ لیکن اگر یہ بھی قید خانہ ثابت ہوا تو پھر میں کدھر جاؤں گا؟ یہاں کم از کم آزادی کی امید تو ہے۔ جنگل میں شاید یہ بھی نہ ہو۔ یہ خیالات مجھے اکثر پریشان کیا کرتے ہیں۔

    ایک رات میں اس برآمدہ میں سورہا تھا جو جنگل سے ملحق ہے۔ کوئی آدھی رات گیے اوپر کی منزل پر کواڑوں کے دھڑدھڑانے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے سوچا شاید نوکر کواڑ بند کرنے بھول گیے اور آندھی چل رہی ہے۔ میں لیٹ گیا، لیکن دھڑ دھڑ کم نہ ہوئی۔ میں پھر اٹھ بیٹھا۔ اسی وقت اوپر کسی کے چلنے کی آواز آئی۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ جون ہوگا۔ وہ اکثر ملنے آ جاتا ہے۔

    جون ایسٹ انڈیا کمپنی کا سپاہی ہے اور ۱۸۵۷ میں مارا گیا۔ میں اس سے پہلی مرتبہ ایک پارٹی میں ملا تھا۔ اس پارٹی میں کچھ لڑکے لڑکیاں، مصنف اور مصور اور چیکوسلوواکیا کے دو ایک گوشے موجود تھے۔ جون خود بہت سادہ لوح، نرم دل اور خاموش طبیعت تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے کمرہ میں رہتاتھا اور مکھن ڈبل روٹی پر گزارہ کرتا تھا۔ کبھی کبھی ہم چینی کھانا کھاتے اور پکیڈیلی میں گھومتے۔ ہم دونوں نے لندن کی گلیوں کی خاک چھانی ہے اور دوکانوں میں کام کرنے والی لڑکیوں اور طوائفوں کے تھکے ہوئے پژمردہ چہروں کا مطالعہ کیا ہے، یا لیسٹر سٹریٹ میں چھوٹے چھوٹے گندے لونڈوں کا۔ وہ آہستہ آہستہ اٹک اٹک کر نرمی سے باتیں کرتا تھا۔ اس کے چہرہ پر بچوں کی سی معصومیت تھی۔ اس کی پرورش دودھ اور شہد پر ہوئی تھی۔

    ’’جَون، کس بیوقوف نے تم کو اس بات کی صلاح دی کہ فوج میں بھرتی ہوکر اس دردانگیز ملک میں آؤ؟ تمہیں تو چاہیے تھا کہ وہیں رہتے اور دوستوں کو چائے پلایا کرتے۔‘‘

    اس کے بعد ہی اسے مقابلہ پر آنا پڑا۔ جیسے ہی وہ ریزیڈینسی کی دیوار پھاند کے میدان میں آیا تو اس کا سامنا ایک ہندوستانی سپاہی سے ہوا۔ وہ نشانہ لینے کو جھکا۔ سپاہی جس کی چڑھی ہوئی ڈاڑھی اور لال لال آنکھیں خوف ناک معلوم ہوتی تھیں، بڑا نرم دل تھا اور اس نے جون پر رحم کھایا۔ جیسے ہی جون نے گھٹنا ٹیک کے شست لی، سپاہی بولا،

    ’’قبلہ گورے سنبھل کر، کہیں تمہاری گوری گوری ٹانگ میلی نہ ہو جائے۔‘‘اور پھر تاریکی تھی۔ جَون، تمہاری ٹانگ کہیں میلی تو نہیں ہو گئی۔۔۔؟دروازہ کھلا ہوا تھا۔ لکڑی کی سیڑھیوں پر کھٹ پٹ کرتا ہوا میں اوپر چڑھا۔ بلی کھڑکی میں بیٹھی تھی، آتش دان میں گیس کی آگ جل رہی تھی، لیکن کمرہ میں انسان کا نام نشان ہی نہ تھا۔ گرم کوٹ اتار کے میں اندر داخل ہوا۔ لکڑی کی آرام کرسی پہ میگی بیٹھی تھی۔ اس کا چہرہ ستا ہوا، بال سرخ، انگلیاں سگریٹ سے لال اور دل ملائم تھا۔

    ’’ہلو میگی، تم بھی ہو؟ اور سب کہاں ہیں؟‘‘

    ’’شراب خانہ گیے ہوئے ہیں۔‘‘اس نے بھاری آواز سے بغیر ہونٹ ہلائے ہوئے کہا۔ اس کے زرد دانت چمک رہے تھے اور اس کی آنکھیں کہیں دور پرے دیکھ رہی تھی۔

    میگی خاموش بیٹھی رہی۔ اس کے خیالات افریقہ یا مصر کی سیر کر رہے تھے اور وہاں مردوں کے خواب دیکھ رہی تھی جن کو عاشق بنانے کی تمنا اس کے دل میں تھی مگر پوری نہ ہو سکتی تھی۔ وہ ساکت بیٹھی سگریٹ پیتی رہی۔ میں بھی خیالوں کی دنیا میں کھو گیا۔ میری آنکھیں گوگاں کی تصویر پر پڑیں اور چل کے کارنس پر گھڑی پر ٹھہری اور میگی کے چہرہ پہ آکر رک گئیں۔ اس کے چہرہ پر ہڈیاں ہی ہڈیاں، بال پکے ہوئے بھٹے کی طرح سرخ اور سخت ہیں، ہونٹ الائچی کے پتوں کی طرح باریک اور دانت بڑے بڑے اور زرد ہیں۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میں ہڈیوں کے ڈھیر کو دیکھ رہا ہوں۔ یکایک مجھے خیال آیا کہ میگی تو ایک ہوائی حملہ میں کام آ گئی تھی اور میں نے کہا،

    ’’میگی تم تو ایک ہوائی حملہ میں کام آ گئی تھیں۔‘‘

    ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرہ پر دوڑ گئی۔ اس کی آواز کہیں دور سے ایک ڈھول کی طرح آئی، ’’ہاں، میں مر تو گئی تھی۔‘‘

    ’’ہائے بیچاری میگی۔ کیا زخموں سے بہت تکلیف ہوئی؟‘‘

    ’’ہاں شروع شروع میں، بس خفیف سی اور پھر تو کچھ معلوم بھی نہیں ہوا۔‘‘

    ’’اچھا یہ تو بتاؤ تمہیں وہ عاشق بھی ملے یا نہیں؟‘‘

    مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھر کھیلنے لگی اور بڑھتے بڑھتے سارے چہرہ پر پھیل گئی۔

    ’’ہاں سب کے سب مل گئے۔‘‘

    ’’تو اب تو خوش ہو، میگی؟ وہ اچھے ہیں نا؟‘‘

    وہ پھر کہیں دور دیکھنے لگی۔ اس کے چہرہ پر سنجیدگی اور متانت آ گئی۔ میگی سوچ میں پڑ گئی۔

    ’’جو سچ پوچھو تو مایوس کن نکلے۔ میرے اپنے دماغ، میرے تخیل میں وہ بہت اچھے تھے، لیکن حقیقت میں گوشت اور ہڈیوں کے ڈھنچر نکلے۔‘‘

    ’’ہاں‘‘میں نے کہا، ’’وہ چیز جو تخیل میں بستی ہے، اس سے بدرجہا خوش نما اور لاجواب ہوتی ہے جس کوانسان چھوسکتاہے اور محسوس کر سکتا ہے، لیکن مجھے یہ سن کر بہت ہی افسوس ہوا کہ تم خوش نہیں ہو۔‘‘

    اس کی آنکھوں میں ایسا ترس جھلک اٹھا جو انسان اپنے لیے خود محسوس کرتا ہے۔ وہ آگ کی طرف گھورنے لگی اور مجھ سے اور دنیا سے بہت دور اپنے خیال میں کھو گئی۔ لیکن اب غبارے آسمان پر چڑھ چکے تھے۔ سڑک سنسان تھی اور شہر پر سناٹا چھا چلا تھا۔ ایسٹ اینڈ کے رہنے والے اندھیرے کے سبب گھروں کو چل دیے تھے۔ صرف دو ایک ہی اپنی اپنی معشوقاؤں کی کمروں میں ہاتھ ڈالے کہیں کہیں کونوں میں کھڑے تھے یا بند دوکانوں کے دروازوں میں کھڑے پیار کر رہے تھے۔ شفق آسمان پر پھولی ہوئی تھی۔

    ’’اچھا میگی، میں اب چل دیا۔ ذراٹہلنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘

    ’’اور میں بھی شراب خانہ میں ان سب کے ساتھ ایک گلاس پیوں گی۔ خدا حافظ۔‘‘

    ’’خدا حافظ، میگی۔‘‘

    مکان کے بائیں طرف ہمالیہ کی برفانی چوٹیاں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ شفق ان کو سرخ، گلابی اور نارنجی رنگوں میں رنگ دیتی ہے۔ ان کے دامن میں دریائے ویاس کا زمردی پانی ایک سریلا نغمہ گاتا، چٹانوں، درخت اور ریت کے چھوٹے چھوٹے خوشنما جزیرے بناتا، پہاڑوں، برف اور میدانوں کی قید سے آزادی حاصل کرنے اور سمندر کی محبت بھری آغوش میں اپنے رنجوں کو بھلانے کی تمنا میں بہتا ہوا چلا جاتا ہے۔

    سامنے دیو بن ہے اور اس کے پرے پہاڑ کی چوٹی پر بجلی کے دیوتا پر سال میں ایک دفع بجلی کڑکتی ہے اور بادل گرجتے ہیں۔ مندر میں ایک کے بعد دو سات کمرے ہیں۔ ساتویں کمرہ میں پجاری کا لڑکا آنکھوں پہ پٹی باندھے بیٹھا ایک پتھر کی حفاظت کرتا ہے۔ جب بجلی کڑک کے پتھر پر گرے گی تو اس کے ہزارہا ٹکڑے ہو جائیں گے۔ لیکن پجاری کا لڑکا ان کو سمیٹ کر اکٹھا کرلےگا اور وہ پھر جڑ جائیں گے۔

    پہاڑیوں کے اندر ایک درّہ ہے۔ اس کے دونوں طرف ڈھالوں پر چیڑ کے خوشبودار درخت اگے ہوئے ہیں اور ایک راستہ بل کھاتا ہوا خاموش انجان میں کھو جاتا ہے۔ میرے قدم درہ کی طرف اٹھتے ہیں۔ پہاڑیوں کے بیچ سے نکل کر ایک سوکھی ہوئی گم نام ندی وادی میں بہتی ہے۔ ایک پن چکی کے برابر پہاڑ کے دامن میں سات کھیت ہیں۔ دن بھر ان میں مرد اور عورتیں دھان بو رہے تھے۔ سب سے نیچے کے کھیت سے شروع کرکے وہ سب سے اوپر کے کھیت تک پہنچ چکے تھے۔ میں نے سوچا کہ وہ اب بھی دھان بو رہے ہوں گے لیکن اوپر کا کھیت پانی سے بھرا ہوا ہے اور چھ عورتیں اور ایک مرد گھٹنوں گھٹنوں کیچڑ میں کھڑے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جنگ پر آمادہ ہیں۔ یکایک مرد ایک عورت پہ جھپٹا اور اسے کمر پر اٹھاکر پانی میں پھینک دیا۔ عورتیں مل کراس کی طرف بڑھیں لیکن وہ ان سے ایک ایک کرکے مقابلہ کرتا رہا۔ یہ کھیل بڑی دیر تک جاری رہا۔ وہ ان کو معہ کپڑوں کے پانی میں غوطے دیتا اور وہ کچھ نہ بولتیں۔ میں کھڑا ہوا جنس اور بونے کے موسم کی اس رسم کا تماشا دیکھتا رہا۔

    جب میں ٹہل کے واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان سب نے میلے کپڑے اتار کے سفید کپڑے پہن لیے ہیں۔ پھر وادی موسیقی کی آواز سے گونجنے لگی۔ بہت سے مرد اور عورتیں اس طرح نمودار ہو گیے جیسے کہ سب پہاڑ سے نکل آئے ہوں۔ وہ جلوس بناکر ایک پگڈنڈی سے پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ ڈھول، مجیروں اور بانسریوں کی آواز فضا میں پھیل گئی اور راگ ایک وحشیانہ وجد سے بھر اناچ کا راگ تھا۔ رگوں میں خون اس طرح رکتا اور پھر بہنے لگتا تھا جیسے جوانی میں مجبوبہ کی ایک جھلک دیکھ لینے پر دل کی حرکت۔

    جلوس بل کھاتا ہوا ایک جھونپڑی کے سامنے چبوترہ پر رک گیا۔ جب سب بیٹھ گیے تو موسیقی پھر اٹھکھیلیاں کرنے لگی اور ایک مرد ہاتھ پھیلاکے کولہے مٹکا مٹکاکر اس طرح ناچنے لگا جیسے جنگل میں مورجذبہ میں مست۔ پھر اور لوگ بھی ناچ رنگ میں شریک ہو گیے اور گانے بجانے کی آواز پہاڑوں کی چوٹیوں سے ٹکرانے لگی۔ لیکن اب سائے لمبے ہو چلے اور رات کی آمد ہے اور میں بھی اپنے قید خانہ کی طرف روانہ ہو گیا۔

    راستہ میں لیلا کا مکان پڑا اور میں اس سے ملنے ٹھہر گیا۔ اس کے کمرہ میں ایک خاص نسوانی بورچی ہوئی تھی اور میزوں پر کاغذ اور کتابیں پھیلی تھیں۔ میں بیٹھا ہی تھا کہ وہ خود دوڑتی ہوئی برآمدہ میں سے نمودار ہوئی۔ وہ ایک سادی سفید رنگ کی ساڑی پہنے ہوئے تھی اور بالوں میں سرخ گلاب لگا رکھے تھے۔ اس کی آواز میں ایک لامتناہی درد تھا اور اس کے لہجہ میں نرمی اور محبت۔

    ’’میں نے تمہارا ڈرامہ پڑھا تھا‘‘ وہ کہنے لگی، ’’اور بےحد پسند آیا۔ میں نے سرلا سے کہا مجھے مصنف سے ملا دو۔ وہ بولی، کیوں، کیا تمہیں اس سے محبت ہو گئی ہے؟ اور میں نے بالکل اسی طرح کہا۔ تم تو مجھے جانتے ہی ہو۔ ہاں۔‘‘ یہ کہہ کراس نے دلربائی سے پہلو بدلا، اپنی خوبصورت نازک انگلیوں کو بل دیے اور اپنی دلفریب آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ اس کی مستی میری روح تک اتر گئی۔

    ’’ایک مرتبہ تو میں بس پاگل ہی ہو گئی تھی۔ راتوں کی نیند حرام تھی اور اگر آنکھ لگ بھی جاتی تھی تو اٹھتے ہی وحشت اور تنہائی مجھے اپنے پھندوں میں جکڑ لیتے تھے۔ باربار یہی خیال آتا کہ میں پاگل ہو جاؤں گی اور اگر پاگل نہ ہوتی تو ضرور اپنے کو کچھ کر لیتی۔ میرے دماغ کی حالت کچھ ایسی ہو گئی تھی کہ زندگی اجیرن ہو گئی۔ کچھ ایسی ہی بات تھی جو میری جان پر بن گئی۔ میں اس کا تذکرہ نہیں کر سکتی اور نہ اس کا حال کبھی کسی پر کھلےگا۔

    لیکن پھر بھی میری اس سے ملاقات ہو گئی۔ وہ دق کا مریض تھا اور میں ہر روز بلاناغاں اس سے ملنے اس نیت سے جاتی کہ مجھے بھی دِق ہو جائے۔ یہ مانا کہ میں بہت ہی بزدل ہوں لیکن خودکشی کی ہمت مجھ میں نہ تھی اور بیماری سے بآسانی کام تمام ہو جاتا۔۔۔ اگر میں اس سے ملنے نہ جاتی تو یقیناً پاگل ہو جاتی۔ میں نے اسی زمانہ میں ایک کتاب پڑھی تھی، ’’فیری رومینس۔‘‘ تم نے تو پڑھی ہوگی۔ نہیں۔ تو ضرور پڑھنا اور بتانا کہ تمہیں کون سے حصے پسند آئے اور جب ہی میں بھی بتاؤں گی کہ مجھے کون کون سے پسند تھے۔ یہ کتاب میں نے اسے بھی پڑھنے کو دی تھی، لیکن اس نے واپس تک نہ کی۔

    میں ایک خواب میں رہتی تھی اور ابھی تک ایک خواب میں رہتی ہوں، بڑا پیارا اور دلکش خواب۔ درختوں کی پریاں ہوتی ہیں، ہر درخت ایک پری ہے اور میرے خواب میں سب دوست خاص خاص درختوں سے وابستہ ہو گئے تھے۔ جب تم کتاب پڑھ لوگے تو بتاؤں گی۔ مجھے درختوں سے محبت ہو گئی۔ گھنٹوں بیٹھی ہوئی درختوں کو دیکھا کرتی تھی۔ مجھے اب تک درختوں سے انس ہے۔ مگر اب تو صرف خواب ہی خواب رہ گیا ہے۔ میں بزدل ضرور ہوں، لیکن بتاؤ تو میں کروں بھی تو کیا۔ میں مجبور ہوں۔

    لیکن میں نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ میں نے دنیا میں کیا کچھ نہیں دیکھا مگر ہر چیز نے اسی بات پر مجبور کیا کہ میں اپنے خواب ہی میں پناہ لوں۔ اگر میرا خواب نہ ہوتا تو نہ جانے میں کیا کر گزرتی۔ میں سچ مچ مرنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر ابھی تک مجھے کچھ اور نہیں ملا ہے۔ اب بھی صرف اپنے خواب ہی کے لیے زندہ ہوں۔۔۔ نہ جانے میں تم سے یہ باتیں کیوں کر رہی ہوں۔ لیکن تم بڑے فہیم ہو اور میری بات سمجھ جاؤگے۔ تم حسین ہو اور میرے خواب میں ایک اور دوست کا اضافہ ہو گیا۔۔۔‘‘

    بڑی دیر تک وہ اسی طرح باتیں کرتی رہی۔ جب میں باہر آیا تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ الائچی کے درخت مستی سے اپنے سینے پیٹ رہے تھے اور ان کی لاجواب خوشبو ہوا میں بسی ہوئی تھی۔ رات کا جادو دنیا پر پھیل چکا تھا اور تارے جگ مگ جگ مگ کر رہے تھے۔ خیال میں کھویا ہوا، اپنے خواب میں مقید، میں گھر کی طرف چلا۔ دو سپاہی ایک قیدی کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ڈالے لیے جا رہے تھے اور سات مزدور قطار باندھے ہوئے، سروں پر گیس کے ہنڈے رکھے گاتے جا رہے تھے،

    کربان تمہارے اللہ پار لگا دو نیا جان۔۔۔

    ان کی آواز ایک ٹیس کی طرح میرے کانوں میں بج رہی تھی۔ جب میں سڑک پر مڑا تو میرا مکان رات کی تاریکی میں چھپا کھڑا تھا اور چند ہی لمحوں میں اس کے اندر دنیا کی مصیبتوں سے محفوظ پر مقید ہو گیا۔

    مأخذ:

    قید خانہ (Pg. 12)

    • مصنف: احمد علی
      • ناشر: انشا پریس، دہلی
      • سن اشاعت: 1944

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے