Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پرومیتھیئس

انور سجاد

پرومیتھیئس

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    میز پر چندکاغذ، بغیر پتلیوں کی آنکھیں اس کی آنکھوں میں، اس کے ہاتھ میں قلم کی انی پرپتلیاں۔

    میں کیا لکھوں؟

    وہ شفاف کاغذوں سے نظر ہٹاتا ہے۔ نہ چاہنے کے باوجود اس کی نظریں دیوار پر جاپڑتی ہیں۔ ایک بوسیدہ فریم میں چھ نو سائز کی تصویر، کمرے میں لگی واحد تصویر، جو کسی کلاسیک کا ری پرنٹ ہے

    قوی ہیکل جوان، دیوتاؤں کی قبیل کا، آہنی زنجیروں میں جکڑا چٹان سے نتھی ہے۔ عقاب اس کا جگر نوچ رہا ہے۔

    اس کی نظریں فوراً بغیر پتلیوں کی آنکھوں میں پلٹ آتی ہیں۔

    لیکن مجھے لکھنا ہوگا۔

    وہ اٹھتا ہے۔ آئینے کے سامنے جاکر کہتا ہے، ۔۔۔ مجھے لکھنا ہے۔

    اسی وقت اس کی دائیں پسلیوں کے نیچے ہلکا سا درد اٹھتا ہے۔ وہ فوراً کاغذوں والی میز کو لوٹ آتا ہے۔ بایاں ہاتھ دائیں جانب پسلیوں کے نیچے رکھتا ہے اور دائیں ہاتھ سے قلم اٹھاتا ہے جس کی انی پرپتلیاں ہیں۔ میز پر بکھری بغیر پتلیوں کی آنکھیں اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں اترتی ہیں۔

    وہ نب کی نوک کاغذ پر رکھتا ہے۔

    چھ نو سائز کی تصویر پھڑ پھڑاتی ہے۔ اس کے کندھوں کے عین درمیان کنویں میں زنجیروں کی گونج ابھرتی ہے۔ وہ منڈیر کو قلم والے ہاتھ سے تھامتا ہے۔

    لیکن مجھے لکھنا ہے I am committed۔ مجھے کچھ نہ کچھ ضرور لکھنا ہے۔

    اس کی دائیں پسلیوں پر اس کے بائیں ہاتھ کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ وہ دوہرا ہوا بڑی مشکل سے اٹھتا ہے اور پانی سے درد کی گولی نگلتا ہے۔

    یہ پتہ ہے یا جگر؟ ڈاکٹر ابھی تک تشخیص نہیں کرپایا۔ اگر اس درد نے میرا پیچھا نہ چھوڑا تو میں یہ سیٹ ہی نکلوادوں گا، کیونکہ مجھے لکھنا ہے۔ میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں۔ لیکن یہ درد۔

    وہ ایک اور گولی کھاتا ہے، درد کو سہلاتا ہے۔

    پہلے جب کبھی اس حصے میں ہلکی سی ٹیس بھی اٹھتی تھی تو وہ قلم کی انی پر چڑھی پتلیوں کو فوراً کاغذ پر اتار دیتا تھا اور اسے ان Pain killer کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ لیکن تب چھ نو سائز کی تصویر کا سائز چھ نو نہیں تھا۔ کائنات کی وسعتوں پر محیط تھا اور یہ تصویر پھڑپھڑاتی نہیں تھی، اس کے کندھوں کے عین درمیان کنویں میں زنجیروں کی زبان نہیں تھی۔ پھر تصویر سمٹ سمٹاکر چھ نو سائز کی ہوگئی۔ عقاب کی پھڑپھڑاہٹ اور زنجیروں کی زبان دھیرے دھیرے، رفتہ رفتہ صاف شفاف کاغذ اور قلم کی نوک کے درمیان دیواریں بن گئی تھیں اور چاروں طرف سے اس کے گرد سمٹنے لگی تھیں۔

    نہیں نہیں، یہ بہت اذیت ناک ہے۔ میں اذیت برداشت نہیں کرسکتا۔ اگر قلم کی انی کی پتلیاں کاغذ پر اترآئیں تو میں۔۔۔

    اس کی نظریں پھر چھ نو سائز کی تصویر پر پڑتی ہیں اور کراہ کے پلٹ آتی ہیں۔

    نہیں۔ یوں میں اس Commitment کی ذمہ داری قبول نہیں کر سکتا، میں ایک اور گولی کھاؤں گا۔ یہ پتہ ہے یا جگر، مجھے بہر حال لکھنا ہے۔ وہ سامنے کھڑکی سے پار دیکھتا ہے۔ دو نازک گندمی ہاتھ کپڑے دھوتے نظر آتے ہیں۔ باقی سب کچھ پردے کے پیچھے چھپا ہے۔ شاید Pain Killer کی وجہ سے پسلی کے نیچے درد کم ہوجاتا ہے۔ وہ سکون کا سانس لیتا ہے اور قلم اٹھاکے کاغذ پر لکھتا ہے۔

    گھر کی اس منزل پر، جہاں میں بیٹھا ہوں، سامنے کے گھروں کی قطار چاند کی شکل میں گھوم گئی ہے۔ اس چاند کے پیٹ کے عین درمیان والا گھر میری کھڑکی کے سامنے ہے۔ کھڑکی سے مجھے نیواڑی پلنگ صاف نظر آتا ہے جس پر بیٹھی الف ننگی لڑکی اپنے جسم کے ایک اک ملی میٹر پر تیل کی مالش کر رہی ہے۔ اس کا چہرہ سورج کی طرف ہے، یعنی میری طرف۔ اس کا جسم دھوپ میں لشک رہا ہے۔ اس نے پلنگ پر ٹانگیں پھیلالی ہیں، بغلوں میں بالوں کے گچھوں سے پسینے کے ننھے ننھے قطرے لرزنے لگے ہیں۔ وہ بڑے انہماک سے تیل مل رہی ہے۔ اس کے ہاتھ چھاتیوں سے پھسل کر پیٹ پر آگئے ہیں۔ اب ران، ران کا اندرونی حصہ۔ پسینے کے قمقے پھوٹ گئے ہیں۔ اگر اس پر سورج اسی طرح چمکتا رہا تو گندمی رنگ جھلس جائے گا۔

    یہ پیارے پیارے، نرم نرم گندمی ہاتھ کس کے ہیں؟ پردوں کی اوٹ سے نکلے سل پر مصالحہ رگڑ رہے ہیں۔ اسی سطح پر، پیڑھی پر کولہے، ہاتھوں کی ہر جنبش کے ساتھ بڑھتے ہیں، ہٹتے ہیں، مسلسل حرکت، ارتعاش، مدوجزر۔ جوان گندم کے کھیتوں میں ہوا، دھان کے پیروں میں بہتا پانی۔

    اس لڑکی کے جسم پر شاید میری نظروں کی چیونٹیاں رینگنے لگتی ہیں۔ وہ سورج کی کرنوں میں ایک تیز لہر کی طرح اٹھی ہے اور پگھل کر بہہ گئی ہے۔ ساتھ والی کھڑکی کے پٹ زور سے بند ہوتے ہیں یہ غسل خانہ ہے۔ اس کی کھڑکی کے پٹ سیاہ ہیں۔ اس کے ساتھ والی کھڑکی سفید۔ اسی طرح ہر کھڑکی ہے کہ چاند کی شکل کے احاطے میں بنے مکان ہیں، شطرنج کی بساط دکھائی دیتے ہیں۔ جب آندھیاں آتی ہیں اور سیاہ و سفید کھڑکیوں کے پٹ دہلیزوں سے ٹکراتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے سیاہ و سفید وردیاں ایک دوسرے سے الجھ گئی ہیں۔ بادشاہ، وزیر، پیادے، قلعے، گھمسان کا رن پڑتا ہے اور پھر تیل میں ملی بارود کی بو، بارود کی بو، بارود۔۔۔

    بارود کی بو؟

    کاغد پرچلتے چلتے اس کا قلم یک دم رک جاتا ہے۔ وہ قلم اٹھاکر نب کی نوک کو دیکھتا ہے۔ انی پر ٹنگی پتلیاں اسے گھورتی ہیں۔ اس کے کندھوں کے درمیان کنویں میں زنجیریں یک لخت چیخ اٹھتی ہیں۔ وہ ایک بار پھر دائیں پسلی کو دوسرے ہاتھ سے تھامتا ہے۔

    آئی ایم سوری۔ میں کہاں سے چلا تھا اور کہاں جانکلا۔ نہیں، تیل میں گچ، کسے ہوئے کنوارے گندمی جسم سے بارود کی بو کیسے آسکتی ہے؟

    میری نظروں کی چیونٹیاں ہی تو ہیں، ٹینک نہیں اور لڑکی کاجسم العالمین کی ماں نہیں کہ جس پر رومیل کے ٹینک چڑھ جائیں پرے رہو، پرے رہو، مجھے زنجیروں سے نہ باندھو، اپنی کٹار ایسی چونچ کو میان میں ڈال لو۔ دیواریں میرے گرد کیوں سمٹ رہی ہیں؟ میں اپنے لکھے ہوئے آخری الفاظ واپس لیتا ہوں۔ میں آگ نہیں دونگا۔ میں۔۔۔ اس تحفے کو قلم کی سیاہی سے بجھادیتا ہوں۔

    غسل خانے کی سیاہ کھڑکی کے نیچے سفید کھڑکی، باورچی خانے کی ہے۔

    وہ فوراً جملہ کاٹتا ہے اور فوراً لکھتا ہے۔

    گندمی ہاتھوں میں شعلہ بھڑکا ہے اور چولہے میں آگ جلنے لگی ہے۔

    وہ جملہ کاٹ دیتا ہے۔

    نہیں، وہی ہاتھ کپڑے دھو رہے ہیں، دھو رہے ہیں، اوپر چھت پر تنی رسی پر لٹکتے کپڑوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چادریں ہوا میں پرچم ہیں۔ شلواریں، رنگارنگ شلواریں، پائینچوں کی اندرونی طرف سے اٹھتے ہوئے تکون کے زاویے جو نیفے کے عین درمیان ایک بالشت نیچے جاکر مل جاتے ہیں، سب سے معکوس زاویہ۔

    وہ لمحہ بھر کے لیے چھت پر تنی رسی پر پھڑکتے، سوکھتے کپڑوں کو دیکھتا اپنے قلم کو چوستاہے، پھر دوات میں ڈبوکے لکھنے لگتا ہے۔

    چادر کی اوٹ سے دوہاتھ فضا میں ابھرتے ہیں۔ گندمی، نازک نازک ہاتھ رسی پر انگیا کو لٹکاکے چادر کے پیچھے غائب ہوگئے ہیں۔ انگیا کاسائز، اگر میں مایوپک نہیں تو، بیالیس انچ ہے۔ کتنی بھرپور لڑکی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا اس گھر میں اتنے کپڑے کیوں دھوئے جاتے ہیں۔ تیل گرنے کا امکان تو نہیں پر شاید، شاید۔۔۔

    وہ بڑے اطمینان سے کرسی کے ساتھ ٹیک لگاتا ہے اور سامنے شطرنج کے خانوں کو دیکھتا ہے۔

    کھڑکیوں میں اتنی حرکت کے باوجود اس کے صرف ہاتھ کیوں نظر آتے ہیں؟ ان ہاتھوں کے ساتھ وجود بھی ہے یا نہیں، یا ہاتھوں کے علاوہ ساری گندم پگھل گئی ہے۔

    لفظوں کی لکیر آگے کو رینگتی ہے۔

    نیچے بازار میں اس مکان کا سیاہ دروازہ کھلا ہے، جسے کوئی بڑی مدت سے کھڑا بجا رہا تھا۔ اس شخص کی شکل صاف نظر نہیں آتی۔ دروازے کی سیاہ بیک گراؤنڈ میں اس کا رنگ چونا ہے۔ اس کے انداز سے لگتا ہے جیسے ازل سے وہاں کھڑا ہے۔ دستک دے رہا ہے۔ ادھ کھلے سیاہ دروازے کی اوٹ سے ہنسی ابھری ہے اور شعلہ لپکا ہے۔ نازک نازک ہاتھ اس گندمی لڑکی کے ہیں جو سامنے پلنگ پر الف ننگی بیٹھی جسم کے ایک ایک ملی میٹر کو تیل سے ملتی رہتی ہے۔

    ایک جھٹکے سے سامنے کی کھڑکی کے پردے گرگئے ہیں۔ اب وہ آرام کر رہی ہے۔ سرخ پردوں کے پیچھے پلنگ پر لیٹی۔ کپڑے دھو دھو کر، مصالحہ رگڑ رگڑ کر تھک چکی ہے۔ اب آرام کر رہی ہے اور اپنے ناخنوں سے تیل کی بو میں الجھی بارود کی بو کو الگ کر رہی ہے۔

    او، شٹ، یہ بارود کی بو پھر آگئی۔ طوفان تو آگے گزر چکا۔ شطرنج پر ہر مہرہ جامد ہے، کھڑکیوں کے پٹ حرکت میں نہیں، تو پھر؟

    وہ کندھوں کے درمیان کنویں میں ابھرتی ابھرتی جھنکار کاگلا گھونٹ دیتا ہے۔

    پھر وہ پہلے اپنے ذہن میں سر کو وجود سے علیحدہ کرتی ہے۔ جونہی وہ گردن کو علیحدہ کرتی ہے تو سر کو چھوڑدیتی ہے۔ پھر گردن کو چھوڑکے دایاں کندھا، بایاں کندھا، دائیں چھاتی، بائیں چھاتی، پھر ٹانگیں۔

    جب میری دائیں پسلی کا درد میرے ہر جوڑ میں اترآتا ہے تو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق میں بھی اپنے ہر عضو کو اسی طرح آئسولیٹ کرکے چھوڑدیتا ہوں۔ لیکن اب مجھے درد محسوس نہیں ہو رہا، مجھے کوئی آواز نہیں آرہی، دیوار نظر نہیں آرہی۔ اور میں بہت خوش ہوں، بہت خوش ہوں، بہت خوش کہ میرا پتہ؟ میرا جگر؟ میری گردن؟ (کالی ماتا نہیں) ۔ کالے پتا کے قدموں سے بہت دور ہے۔ قربانی نہیں ہوگی۔

    ہاں تو اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ پردے گرادئیے ہیں اور خود بڑی تیزی سے پرے ہوگئی ہے۔ پردے سرخ ہیں۔ سرخ سرخ کپڑے کا پردہ گرا ہے۔ سرخ پردے کے پیچھے پلنگ پر لیٹ کے اس نے تمام اعضاء ڈھیلے چھوڑ دیے ہیں اور لمبے لمبے سانس لے رہی ہے۔ اس کے گھر کی سیڑھیاں چڑھتے قدموں کی آواز میرے قلم کی نوک میں گونج رہی ہے۔ غسل خانے کی کھڑکی کے پٹ کھلے ہیں۔ اندر کوئی نہیں۔ فلش کی زنجیر سیڑھیاں چڑھتے قدموں کی آواز کے ارتعاش سے ہولے ہولے لرزاں ہے۔ سرخ پردوں کے پیچھے اس نے قمیص اتار کے اپنی انگیا کا بند کھولا ہے اور اپنی کنواری؟ چھاتیوں کو ہولے ہولے مسل رہی ہے۔ بادشاہ، وزیر، قلعے، پیادے، گھوڑے۔ سب میری دائیں پسلی کے نیچے ساکت ہیں۔ بساط کے نچلے حصے پراس کے سامنے کے مکانوں کا سایہ ہے۔ سورج اب 45ڈگری پر ہے اور اوپر رسی پر چادریں، شلواریں، انگیا دھوپ میں خشک ہو کر اکڑ گئی ہیں۔ لڑکی نے ازاربند کھول کے ساٹن کی شلوار کا نیفہ ذرا نیچے سرکایا ہے۔ پسینہ اس کی ناف میں اترکے بھنور بن گیا ہے۔ ناف کے کناروں سے اچھل کر پیٹ کی ڈھلوان۔۔۔

    لاحول ولا، یہ میں کیا لکھ رہا ہوں؟ کیا اب میرے لیے لکھنے کو اور کچھ نہیں رہا؟

    وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے کندھوں کے درمیان اٹھی منڈیروں کو تھامتا ہے۔ غسل خانے میں فلش کی زنجیر نزدیک آتے قدموں کی آوازوں سے اور بھی لرزاں ہے۔ اس کا درد پسلی سے پھوٹ بہا ہے اور اس کی رانوں کے معکوس زاویے کی طرف بڑھتا ہے۔ دیوار پر لگی چھ نو کی تصویر پھڑپھڑاتی ہے۔ زنجیروں کی آواز بڑے شور سے ابھرتی ہے۔

    نہیں، یہ فلش کی زنجیر ہے۔

    اس سے درد نہیں سنبھلتا۔ وہ کرسی سے اٹھ کر دونوں ہاتھوں سے درد کو دباتا ہے۔ اچھلتا ہے، دباتا ہے، ناچتا ہے، بھنگڑہ، درد، ناچ، درد، درد۔

    میں لکھنا چاہتا ہوں۔ میرے لیے لکھنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ کوئی چارہ نہیں لیکن یہ لکھوں؟ یہ لکھوں؟ جو لکھ رہا ہوں۔۔۔!

    آوازوں کی دیواریں اس کے گرد سمٹتی ہیں۔

    نہیں، میں قلم کی انی پر گھومتی پتلیوں کو کاغذوں کے ڈیلوں پر نہیں اتاروں گا۔ میں بزدل ہوں۔

    وہ کھڑکی کی طرف بھاگتا ہے۔

    لڑکی شلوار اتار کے پلنگ پر دراز ہے۔

    اوہ، واٹ دی ہیل۔

    شلوار اتار کے پلنگ پر دراز ہے، دراز ہے۔

    او، واٹ دی ہیل، واٹ دی ہیل۔

    وہ پھر پلٹتا ہے اور چھ نو کی تصویر کو دیکھنے بنا گزر کے آئینے کے سامنے جاتا ہے۔ آئینے میں اس کی صورت مسخ ہے۔ وہ مختلف زاویوں سے اپنے عکس کو صحیح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ درد اور بڑھتا ہے وہ اور بھنگڑہ ڈالتا ہے۔ ناچ، ناچ، ناچ، درد، زلزلہ۔ وہ درد کی گولیوں کی خالی شیشی میں جھانکتا ہے۔

    سرخ پردے کے پیچھے چونے میں اٹا عاشق اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہے، پھر اس کی پیٹھ پر، چھاتیوں پر، پیٹ پر، اس کی رانوں کی اندرونی طرف، وہ چپ چاپ ننگی لیٹی ہے۔

    میں کیا کروں؟ میں کیا کروں؟ فریب دوں؟ فریب دوں؟ نہیں۔ نہیں۔

    وہ دونوں ہاتھوں سے جگر کو مسلتا پھر آکے کرسی میں بیٹھتا ہے اور قلم اٹھاتا ہے۔

    یہ دردیوں نہیں جائے گا۔

    وہ قلم کی نوک کاغذ پر رکھتا ہے۔

    اور جو بعد میں مسلسل جگر کو۔۔۔ لیکن اس درد سے تو پیچھا چھوٹے گا۔

    وہ لکھتا ہے۔ دیوانہ وار لکھتا ہے۔

    سرخ پر دوں کے پیچھے لڑکی کا پیٹ پھول گیا ہے۔ معلوم نہیں تھا کہ درد کی چونچ پر ناچتے ہوئے ستمبر، اکتوبر، نومبر، دسمبر، جنوری پانچ ماہ گزر چکے ہیں۔ اسے پانچ ماہ کا حمل ہے۔

    اس کا سارا گردوپیش تاریک ہے۔ اس کے سامنے صرف سفید کاغذ ہے جس پر وہ اپنے قلم کی انی سے پتلیاں اتار رہا ہے۔ جانے کیوں کوئی جنبش نہیں، آواز نہیں۔

    میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں؟

    اس کا قلم لمحہ بھر کے لیے رک کے چلتا ہے۔

    چھوٹا سا بچہ، جو ابھی پوری طرح بنا نہیں، فلش کموڈ کے کنارے پر ٹنگا ہے۔ اس میں جان نہیں، یہ صرف پانچ ماہ رحم میں رہا۔ دو نازک نازک زردی مائل گندمی ہاتھ، دروازے کی اوٹ سے، کانپتے بڑھتے ہیں اور سبزی کاٹنے والی چھری سے اس بچے کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہیں، قیمہ بناتے ہیں، کموڈ میں ڈالتے ہیں اور فلش کی زنجیر کھینچ دیتے ہیں۔

    جملہ ختم کرتے ہی فلش کا سیلاب بن کے اس کے دماغ میں اٹھتا ہے۔ وہ قلم پھینک کے سامنے دیکھتا ہے۔ سامنے غسل خانے میں فلش کی زنجیر زور زور سے ہل رہی ہے۔

    یہ میں نے کیا لکھ دیا!

    وہ اپنے سامنے پھیلے کاغذوں کو دیکھتا ہے۔ آخری پیرے پر اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، اس کے جسم میں سنسناہٹ دوڑ جاتی ہے۔ وہ کاغذ پر اتری پتلیوں سے نظریں چھڑاتا ہے۔ پلٹ کر دیوار پر چھ نو کی تصویر کو دیکھتا ہے جس میں عقاب، دیوتاؤں کی قبیل کے اس آدمی کا جگر مسلسل نوچ رہا ہے، نوچ رہا ہے اور وہ زنجیروں میں بندھا، بے بس، چٹان کے ساتھ نتھی ہے۔ اس کی نظریں پھر اپنے مسودے کے آخری پیرے پر پڑتی ہیں۔

    مجھے معاف کردیجیے۔ آئی ایم سوری سر۔ مجھ سے غلطی ہوگئی۔

    قلم کی انی سے اتری پتلیاں اسے گھورتی ہیں، سلگتی ہیں، بھڑک اٹھتی ہیں۔ وہ کندھوں کے درمیان کنویں کی منڈیر کو تھامتا ہے جس میں پھڑپھڑاہٹ اور جھنکار کا طوفان ہے۔

    یہ شعلہ اس کا ذمہ دار ہے۔ یہ روشنی بجھادو۔ اس اذیت کو فنا کردو۔ قلم کی انی نہیں بچھو کا ڈنک ہے۔

    وہ دوات اٹھاکے پتلیوں پر انڈیل دیتا ہے۔ شعلے اور بھڑکتے ہیں، روشنی اور لچکتی ہے، زہر اور سرایت کرتا ہے۔ کٹار ایسی چونچ سے ٹپکتے درد کو وہ کبھی دائیں پسلی میں تھامتا ہے، کبھی سر میں پکڑتاہے، کبھی پھر پسلی میں۔ ڈگمگاتا اٹھتا ہے، لڑکھڑاتا ہوا جاکے درد کی گولیوں کی خالی شیشی اٹھاتا ہے اور ڈاکٹر کے کلینک کی طرف بھاگتا ہے۔

    چھ نو کی تصویر کا تابلو فریم میں جڑا ازل سے دیوار پھانسی کی سزا بھگت رہا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے