Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پل

MORE BYفرانز کافکا

    میں سردی سے اکڑ گیا تھا۔ میں ایک پل تھا۔ میں ایک درے پر پڑا ہوا تھا۔ میرے پیر درے کے ایک طرف تھے، ہاتھوں کی انگلیاں دوسری طرف جمی ہوئی تھیں۔ میں نے اپنے آپ کو بھربھری مٹی میں مضبوطی کے ساتھ بھینچ رکھا تھا۔ میرے دونوں پہلوؤں پر میرے کوٹ کے دامن پھڑپھڑا رہے تھے۔ نیچے بہت دور پر مچھلیوں سے بھرا ہوا برفیلا چشمہ غرا رہا تھا۔

    اس ناقابل گزر بلندی تک کوئی مسافر بھٹک کر نہیں آتا تھا۔ ابھی پل کسی نقشے میں پایا بھی نہیں جاتا تھا۔ اس لیے میں پڑا تھا اور انتظار کر رہا تھا۔ میں انتظار ہی کر سکتا تھا۔ ایک بار بن جانے کے بعد کسی بھی پل کو بنے رہنے کے سوا چارہ نہیں تاوقتیکہ وہ گرنہ جائے۔

    یہ ایک دن قریبِ شام کا ذکر ہے۔ وہ پہلی شام تھی۔۔۔ یا وہ ہزارویں شام تھی۔۔۔ میں کہہ نہیں سکتا۔ میرے خیالات ہمیشہ پراگندہ اور ایک دائرے میں گھومتے رہتے تھے۔ یہ گرمیوں کے موسم میں قریبِ شام کا ذکر ہے۔ چشمے کی غراہٹ بڑھ گئی تھی۔ اس وقت میں نے انسانی قدموں کی آہٹ سنی۔ میری طرف آتی ہوئی، میری طرف آتی ہوئی۔ پل! یہ مسافر جو تمہارے حوالے کیاجارہا ہے اس کو سنبھالنے کے لیے استوار ہوجاؤ۔ بے جنگلے کی منڈیرو! تیار رہو۔ اگر اس کے قدم بہکیں تو خاموشی سے انہیں ہموار کردو، اگر وہ گرنے لگے تو دکھادو کہ تم کیا ہو اور کسی کوہستانی دیوتا کی طرح اسے زمین کی طرف اچھال دو۔

    وہ آگیا۔ اس نے اپنے عصا کی فولادی نوک سے مجھے کھٹ کھٹایا۔ اس نے اپنے عصا کی نوک سے میرے کوٹ کے دامنوں کو اٹھایا اور درست کردیا۔ اس نے اپنے عصا کی نوک میرے گھنیرے بالوں میں ڈال دی اور دیر تک وہیں رہنے دی۔ وحشت زدہ ہوکر چاروں طرف دیکھتے وقت وہ یقیناً مجھ کو فراموش کرچکا تھا۔ لیکن جب میں پہاڑ اور وادی میں اس کے بھٹکتے ہوئے خیالات کا پیچھا کر رہا تھا تو اچانک وہ دونوں پیروں سے اچھلا اور میرے بدن کے بیچوں بیچ میں کود پڑا۔ میں درد کی ٹیس سے تھرا کر رہ گیا۔ وہ کیا تھا؟ کوئی بچہ؟ کوئی خواب؟ کوئی راہ گیر؟ کوئی خودکشی کرنے والا؟ کوئی فریبی؟ کوئی تخریب کار؟ اور اسے دیکھنے کے لیے میں گھوم پڑا۔ پل کا گھوم پڑنا! ابھی میں پوری طرح گھومنے بھی نہ پایا تھا کہ گرنے لگا۔

    میں گرگیا۔۔۔ اور دم بھر میں ان نکیلی چٹانوں نے چھید چھید کر میرے چیتھڑے اڑادیے جو بہتے پانی سے منھ نکالے ہر وقت چپ چاپ مجھے تکتی رہتی تھیں۔

    مأخذ:

    کافکا کے افسانے (Pg. 41)

    • مصنف: فرانز کافکا
      • ناشر: نیر مسعود
      • سن اشاعت: 1978

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے