Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پرانی تصویر نئے رنگ

دیوندر اسر

پرانی تصویر نئے رنگ

دیوندر اسر

MORE BYدیوندر اسر

    ٹن، رات کے گیارہ بجتے ہیں۔ سامنے مکان کا در کھلتا ہے اور دوآنکھیں باہرجھانکتی ہیں۔ میں بجلی کے کھمبے تلے ایک لمحے کے لیے رکتا ہوں اور پھر آگے بڑھ جاتا ہوں۔ ایک رات، دو راتیں، تین راتیں، اس طرح کئی راتیں بیت گئیں، ٹن، رات کے ساڑھے گیارہ بجتے ہیں، سامنے مکان کادر کھلتا ہے، دو آنکھیں باہر جھانکتی ہیں، میں بجلی کے کھمبے تلے ایک لمحے کے لیے رکتا ہوں اور پھر آگے بڑھ جاتا ہوں۔ اور اس ایک لمحے میں وقت کی رفتار جیسے ٹھٹک کے تھم جاتی ہے۔

    جب میں پہلی بار اس راستے سے گزرا تھا تو دور پیلے مکان کے پیچھے چاند نمودار ہو رہاتھا اور مکان کے سایے ریمبراں کی تصویروں کی طرح گلی، فٹ پاتھ اور سڑک پر پھیلے ہوئے تھے۔ سامنے والے مکان کی دائیں طرف شیشم کا درخت سرجھکائے خاموش کھڑا تھا، جیسے کسی گہرے سکوت کی آواز سن رہا ہو اور بجلی کا کھمبا اوپر ہی اوپر اٹھتا چلا جارہا تھا۔ خاموشی، تنہائی اور اندھیرا، سب دروازے اپنے اندر غم اور خوشیاں سمیٹ کر بند ہوچکے تھے۔ دروازہ دھیرے سے کھلتا ہے خاموشی کی صدا بن کر، اندھیرے میں کرن پھوٹتی ہے اور تنہائی کے سوز میں ساز بجتا ہے۔

    سوبھ تم آگئے، سایے اور روشنی ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتے ہیں۔ اور نوجوان مرد نے کو ٹرائے کی بھوری پتلون اور کھلے کالر والی سرخ قمیص پہن رکھی ہے۔ اس کے پاؤں میں چپل ہے اور سر کے بڑھے ہوئے بال بے ترتیبی سے سنورے ہوئے ہیں۔ اس کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی مگر تیز ہیں جیسے پارہ چمک رہا ہو۔ وہ لڑکی کی پیشانی چوم لیتا ہے۔ لڑکی نے ہلکے نیلے رنگ کی ساڑی پہنی ہوئی ہے۔ اس کے سیاہ کھلے رنگ بال شانوں پر بکھرے ہوئے ہیں۔ لڑکی خوبصورت حسین جاذب توجہ ہے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مسکرادیے۔

    ’’شیل‘‘ نوجوان نے دھیرے سے کہا اور اس کاہاتھ پکڑ لیا۔ وہ دیوار کے سائے میں کھڑے ہوگئے۔ رات کتنی حسین ہے۔ شیل نے کہا۔ وہ رات حسین ہوتی ہے جب حسن۔ شیل کے رخساروں پر حیا کی سرخی دوڑ گئی۔ اس نے اپنی لمبی لمبی پلکیں جھکالیں۔ دیوار کا سایہ پیچھے سرک گیا اور چاند کی روشنی آگے بڑھ گئی۔

    ’’بہت دنوں بعد آئے ہو۔‘‘ شیل نے نوجوان کی قمیض کے کالر کی شکن درست کرتے ہوئے کہا۔

    ’’تمہاری تصویر بنا رہاتھا۔‘‘

    ’’ہوں دیکھو کتنے دبلے ہوگئے ہو۔ کبھی آئینہ دیکھا؟‘‘

    ’’آئینہ دیکھنے کی کسے فرصت ہے اور آئینہ توصرف چہرے کا روپ دکھاتا ہے۔‘‘

    اس نے دونوں ہاتھوں سے شیل کا چہرہ اوپر اٹھالیا۔

    ’’میرے پاؤں میں خرابی ہے نا، اس لیے میں اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔‘‘ نوجوان مسکرایا۔ میں نے نوجوان کے پاؤں کی طرف دیکھا۔ مجھے کوئی خرابی نظر نہیں آئی۔

    ’’آؤ! کچھ باتیں، لمحے جو وقت کی رفتار سے چرائے ہیں، انہیں اپنے پیار سے بھر لیں۔۔۔‘‘ اور نوجوان نے شیل کے ہونٹوں کو چھولیا۔

    ’’ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے موم سے تراشے گئے ہوں۔ میں آج کل موم کی مورتیں بنارہا ہوں۔‘‘ نوجوان نے اس کے ہونٹوں کے کناروں کو اپنی لمبی لمبی انگلیوں سے چھو کر کہا۔ شیل نے اس کے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔

    ’’سوبھ، مجھے کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’غم نہ کروشیل۔۔۔‘‘ سوبھ نے اسے سینے سے لگالیا، ‘‘ انسان اس حقیقت سے زندہ نہیں رہتا جسے اس نے پالیا ہے، بلکہ اس تصویر سے، جسے وہ حقیقت کاروپ دینے کے لیے، روشنی اور سائے کے سنگم پر رکتا ہے اور وقت کے رک جانے کے انتظارکا کرب برداشت کر رہا ہے۔‘‘

    روشنی اور سائے کے سنگم پر وقت کے رک جانے کے انتظار کا کرب، میں نے سوبھ اور شیل طرف دیکھا۔ شیل کی آنکھوں میں آنسو تھے اور سوجھ کے چہرے پر فکر کی لکیریں اور ایک سمٹی ہوئی پرچھائیں کی طرح اندھیرے میں گم ہوگئے۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ شیل، سوبھ شاید پھر سائے بن کر زمین میں جذب ہوگئے تھے یا شاید روشنی میں تحلیل ہوگئے تھے۔ یہ خواب تھا یا حقیقت یا محض ایک تصویر جو دل کے نہاں خانے میں حقیقت بننے کے لیے تڑپ رہی ہے۔ میں تھوڑی دیربجلی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا اور اس پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ بڑے خوش نصیب ہو دوست، میں نے کھمبے سے کہااور چلا آیا۔

    اس بات کو کئی دن بیت گئے۔ میں اس راستے سے کئی بار گزرا، لیکن وقت کی رفتار سے چرائے ہوئے ان لمحوں میں اپنے پاؤں کی آہٹ شامل کرکے انہیں ڈرانا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے آگے بڑھ جاتاتھا۔

    ہاں کبھی کبھی بجلی کے کھمبے کو چوم لینے کی ابنارمل خواہش کو نہیں روک سکتا۔ ایک رات بارش نے مجھے راستے میں گھیر لیا۔ میں لپک کے بغل والے ریستوراں میں داخل ہوگیا۔ اس ریستواراں میں وہی لوگ آتے ہیں جن کے سینے حسرتوں کے مدفن ہیں۔ معلوم نہیں اس ریستوراں میں وہ کون سی قوت تھی، جو ہر غم کو اپنے اندر جذب کرلیتی تھی۔ میں نے چائے کا آرڈر دیا اور اپنے خیالوں میں کھوگیا۔ اتنے میں کسی کے قدموں کی آواز آئی۔ بالکونی سے ایک مرد اور عورت سیڑھیاں اتر رہے تھے۔ مرد کے بال الجھے ہوئے تھے۔ اس کے کپڑے شکن آلود تھے اور اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ اس کے ہاتھ میں سگریٹ کاآخری حصہ تھا۔ اسے دیکھ کر ایسا احساس ہوتا تھا کہ وہ دن بھر آندھی میں کھڑا رہاہے اور اب اچانک کمرے میں آگیا ہے۔ عورت نے سرخ بھڑکیلی ساڑی اور لوکٹ سیاہ بلاؤز پہن رکھا تھا۔ اس کے چہرے پر سرخی اور غازہ اس طرح بکھرے ہوئے تھے جیسے برش صاف کرنے والے کپڑے پر رنگ کے دھبے ہوتے ہیں۔ عورت کے لباس کو دیکھ کر مجھے برہنگی کا احساس ہوتاتھا۔

    وہ میرے سامنے والی میز پر بیٹھ گئے۔ مرد نے دوپیگ کاآرڈر دیا اور میز پر سررکھ کر بیٹھ گیا۔ عورت بے حجاب نظروں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ میز پر گلاس رکھنے کی آواز سے وہ چونکا۔ اس نے سر اٹھایا اور سگریٹ سلگایا۔ پہلی بار میں نے اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے کے نقوش جانے پہچانے سے معلوم ہوئے۔ پارے کی طرح حرکت کرتی چھوٹی چھوٹی تیز آنکھیں میں نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ اسے کہاں دیکھا ہے۔ اوہ یہ تو سوبھ ہے۔

    اس شکستہ حالت میں، اسے کیا ہوگیا؟

    یہ ساتھ کون ہے؟ یہ شیل تو نہیں۔ کوئی فاحشہ نظر آتی ہے۔ میں نے اس عورت کی طرف دیکھا۔ وہ ہنس دی۔ سوبھ نے اس کی مسکراہٹ کا تعاقب کیا اور سگریٹ سلگانے لگا حالانکہ وہ مجھے نہیں جانتا تھا۔ عورت نے ایک گھونٹ ہی میں گلاس ختم کردیا اور سوبھ دھیرے دھیرے پیتا رہا اور نشے کی حالت میں وہ میز پر لیٹ سا گیا۔

    بیرے نے بل پیش کیا۔

    ’’پیسے نہیں ہیں۔‘‘ سوبھ نے کہا۔

    بیرے نے سمجھا نشے میں ہے۔ اس نے بل آگے بڑھادیا۔

    ’’کہہ دیا پیسے نہیں ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر لیٹ گیا۔

    بیراریستوران کے مالک کے پاس گیا اور وہ دوڑتا ہواآیا۔

    ’’جناب نشے میں ہیں۔ زیادہ پی ہے۔ بل حاضر ہے۔‘‘ منیجر نے نہایت عاجزی سے بل سوبھ کی جانب بڑھایا۔ لیکن اس نے کوئی حرکت نہ کی۔

    ’’میں آپ سے مخاطب ہوں جناب۔‘‘ منیجر کے لہجہ میں درشتی تھی۔

    ’’کیا یہاں سب بہرے ہیں۔ کوئی نہیں سنتا۔ پیسے نہیں۔‘‘ وہ چلایا۔

    ’’کیا مطلب؟‘‘ منیجر غصے میں تھا۔

    ’’مطلب۔ جتنے پیسے ملے، صاحب کو دے دیے۔‘‘ اور پھر اس نے اپنی دونوں جیبیں الٹ دیں۔

    ’’تو پھر آپ نے آرڈر کیوں دیا؟‘‘ منیجر غرایا۔

    ’’ایک نشے کو دوسرے نشے سے کم کرنے کے لیے۔‘‘

    ’’یہاں فلاسفی نہیں چلے گی مسٹر۔‘‘ اور منیجر نے اس کے منہ پر طمانچہ رسید کیا۔

    ’’تو یہ چلے گا۔ میں اس کا عادی نہیں۔‘‘

    ’’گڈبائی۔‘‘ سوبھ اپنا گال سہلاتا ہوا اٹھنے لگا۔ منیجر نے روک لیا اور اس دوران میں وہ عورت ریستوران سے باہر جاچکی تھی۔ مجھے یہ منظر بڑا عجیب سالگا۔ میں منیجر کے پاس گیا۔ اس کے ہاتھ سے بل لیا۔ تین روپے کچھ آنے تھے۔ میں نے پیسے نکالے اور بیرے کے ہاتھ میں دے دیے۔

    ’’شکریہ!‘‘ منیجر نے کہا، ’’کیاآپ انہیں جانتے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں۔ میرا دوست ہے، زیادہ پی لی ہے۔‘‘

    ’’جھوٹ۔ میں نے زیادہ نہیں پی۔ صرف ایک پیگ۔ حقیقت یہ ہے صاحب پیسے نہیں، معلوم نہیں لوگ سچ کو سچ کیوں نہیں مانتے۔‘‘ اس نے میری طرف دیکھا۔ کتنا احسان فراموش ہے یہ شخص، مجھے اس پر انتہائی غصہ آیا لیکن میں نے ضبط سے کام لیا۔

    ’’تم کوئی شریف آدمی نظر آتے ہو۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’اور تم کوئی بدمعاش؟‘‘

    وہ مسکرایا۔ شکریہ گڈبائی۔ اس نے کہا اور باہر چلا گیا۔ دروازے پر وہ رکا۔ اس نے ایک بار منیجر کی طرف دیکھا اور دہلیز پر تھوک دیا اور باہر نکل گیا۔ جب وہ باہر نکلا تو میں نے دیکھا، وہ ایک پاؤں سے لنگڑاتا تھا۔ میں بڑی عجیب حالت میں تھا۔ کیا یہ وہی ہے جسے اس روز چاندنی رات میں میں نے دیکھا تھا۔ نہیں، یہ وہ آدمی نہیں ہوسکتا۔ ان دو آدمیوں میں رنگ روپ، خدوخال کے علاوہ اور کوئی مشابہت نہیں۔ چاندنی رات دیوار کے سائے میں کھڑا سوبھ نرم دل، ذہین، نفاست پسند، پیار کرنے والا نوجوان تھااور ریستوران کی اس چاردیواری میں نظر آنے والا سوبھ لاابالی اور سنکی نوجوان ہے، جس نے نفرت سے دہلیز پر تھوک دیا ہے۔

    میں نے میز سے اپنا سگریٹ کیس اٹھایا اور باہر نکل آیا۔ وہ دروازے پر ہی کھڑا تھا۔ اس نے میرے ہاتھ میں کاغذ کاایک پرزہ دیا۔ وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر آگے بڑھا۔ میں نے کاغذ کو الٹ کر دیکھا، یہ میرا چارکول اسکیچ تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ بڑی مدت سے میں اپنے ذہن میں جو اپنی تصویر بنا رہا تھا، یہ اس کا خاکہ ہے۔ اسکیچ میں میری آنکھیں میرے چہرے پر نہیں، میرے سینے پر ہیں۔

    ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں پوچھا۔

    وہ رکا۔

    ’’میں رقم واپس نہیں کرسکتا۔‘‘ اس نے کہا۔ اس کے لہجے میں نمایاں تبدیلی آگئی تھی۔

    ’’تم نشے میں بالکل بدل جاتے ہو۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’کیا آپ مجھے جانتے ہیں؟‘‘ اس نے تعجب ظاہر کیا۔

    ’’ہاں۔ ایک روز چاندنی رات میں دیوار کے سائے میں تمہیں اور شیل کو۔۔۔‘‘

    وہ چونکا نہیں۔ اس نے میری طرف ایک لمحے کے لیے دیکھا اور نگاہیں جھکالیں۔

    ’’اور آج تمہیں ایک فاحشہ کے ساتھ دیکھ کر۔‘‘

    وہ خاموش رہا۔

    ’’کیا تم ایک لڑکی کے جذبات سے کھیل کر اپنی ہوس کی آگ۔۔۔‘‘ میرے لہجے میں درشتی تھی۔

    ’’مسٹر آپ نے میرا بل ادا کیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ میری توہین کریں۔‘‘ وہ سانپ کی طرح چوٹ کھاکر بولا۔

    میں اسے مزید پریشان کرنا چاہتا تھا۔

    ’’کیا یہ جھوٹ ہے کہ رات رات بھر شراب کے نشے میں چور بازاری عورتوں کے جسموں سے لپٹے رہنے کے بعد بھی تم کہتے ہو کہ تمہیں شیل سے پیار ہے۔‘‘

    اس نے اثبات میں سرہلادیا۔ اس کے چہرے پر غم کی لکیریں کھنچ گئیں۔

    ’’تم انتہائی کمینے انسان ہو۔‘‘

    ’’اگر میرے پاس پستول ہوتی تو تمہیں گولی سے اڑادیتا۔‘‘

    وہ کافی دیر خاموش رہا۔ اس نے اپنی پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا جیسے پستول نکال رہا ہو۔

    ’’میں خود ہی اپنے کو گولی سے اڑادیتا لیکن اس کا تصور آتے ہی رک جاتا ہوں۔‘‘

    تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولا، ’’ایک بار میں نے خودکشی کا ارادہ کیا تھا لیکن اس وقت میرے پاس پستول نہیں تھا۔‘‘

    ’’جب تک دماغ کے پرزے نہ اڑیں، مجھے مرنا پسند نہیں۔‘‘ وہ خاموش ہوگیا۔

    میں بالکل الجھ گیا۔

    ’’میں اپنا دل و دماغ، روح، جسم سب کچھ شیل کو سونپ چکا ہوں اور اس نے بھی مجھے اپنا سب کچھ ارپن کر دیا ہے۔ کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا جسم پھٹ جائے گا۔ اگر میں۔۔۔ ’’میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔ وہ واقعی روحانی کرب میں مبتلا تھا۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ’’سوبھ تم ذہین آدمی ہو کر بھی ابھی تک روایتی اخلاق کے غلام ہو۔ عشق میں سب کچھ جائز ہے۔‘‘

    وہ تھوڑا مسکرایا، ’’آپ صحیح کہتے ہیں۔ لیکن اس جائز کی ذمہ داری لینے کی مجھ میں ہمت نہیں۔‘‘

    ’’تم بزدل ہو۔‘‘

    ’’ہاں، ورنہ ابھی تک زندہ کیسے رہتا۔ ’’

    ’’اور پھر بھی تم پیار کرتے ہو۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    میں خاموش ہوگیا۔

    ’’ڈیئر جو کچھ تم کہتے ہو، سب ٹھیک ہے۔ میرا ذہن اسے قبول کرتاہے۔‘‘

    ’’تو پھر؟‘‘

    ’’میں ایک بیکار آدمی ہوں، پیار، جذبہ حسن اس چٹان سے ٹکراکر پاش پاش ہوجاتے ہیں۔ عشق میں آدمی جوئے شیرلا سکتا ہے۔ بے کاری میں عشق نہیں کرسکتا۔ اسی باعث ہزارنہ چاہنے پر بھی ہم اس اخلاق کے غلام ہوجاتے ہیں، جسے تم روایتی اخلاق کہتے ہو۔ اگرچہ ہم اس نئے اخلاق پر عمل کریں تو سوائے خودکشی کے کوئی راستہ نہیں۔ جسم میں سانس کی آمد و رفت قائم رکھنا ضروری ہے جو پیسے کے بغیر ممکن نہیں اور جس کے بغیر پیار آہ سرد ہے۔ نفس کو آنچ نہیں۔‘‘

    ’’تم بڑے حقیقت پرست ہو۔ اور ذہین بھی۔‘‘

    وہ زہریلی ہنسی ہنسا، ’’اگر دل کے بجائے پاؤں خراب ہوجائے تو آدمی حقیقت پرست ہوجاتا ہے۔‘‘

    اس کے لہجے میں طنز تھا۔

    ’’تم مجھے کبھی مہذب سمجھتے ہو اور کبھی وحشی۔ اگر میں نے اپنی شخصیت کو منقسم نہ کرلیا ہوتا تو شیل میری وحشت کا شکار ہوجاتی یا میں اپنا جسم پھونک لیتا۔ بتاؤ کیا عشق میں جسم کی تسکین شامل نہیں۔ اور اگر آدمی بیکار ہو تو وہ وحشی نہیں ہوجائے گا یا اسے بھی وحشی نہیں ہوجانا چاہیے۔‘‘

    اس کالہجہ رقت آمیز تھا۔ وہ وہی باتیں کر رہا تھا جو میں کہناچاہتا تھا۔ فرق محض اتنا ہے کہ میں نے یہ باتیں عقل کی سطح پر کتابوں سے پڑھ کر سیکھی ہیں اور اس نے اپنی روح اور جسم پر اذیتیں سہہ کر انہیں اخذ کیا ہے۔

    ’’میری ایک خواہش ہے۔‘‘ کافی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولا، ’’شیل کی انگلیاں بڑی خوبصورت ہیں۔ کاش میں اس کے لیے سونے کی انگوٹھی خریدسکتا۔‘‘

    اس نے نظریں جھکالیں، ہم کافی دیر تک اکٹھے چلتے رہے۔ رج روڈ پر وہ مجھ سے علیحدہ ہونے لگا۔

    ’’اب کہاں جاؤگے؟‘‘ میں نے کہا۔

    ’’اسٹوڈیو میں۔‘‘

    ’’تم آرٹسٹ ہو؟‘‘ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    ’’تمہارا اسٹوڈیو کہاں ہے؟‘‘

    ’’جس عورت کو میرے ساتھ دیکھا تھا، اس کے گھر میں، اور اس کاگھر۔۔۔‘‘

    وہ ہنس دیا۔ ظاہر ہے وہ عورت فاحشہ تھی، رج روڈ کے چوراہے پر وہ مجھ سے الگ ہوگیا۔

    ایک روز میں اس کے گھر گیا۔ اس کے کمرے میں رنگ اور برش بکھرے پڑے تھے۔ وہ بالکل برہنہ بیٹھاکوئی تصویر بنارہاتھا۔ میں کافی دیر اس کے پاس بیٹھا رہا لیکن وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔ اسے کچھ ہوش نہیں تھا۔

    ’’یہ تم ننگے کیوں بیٹھے ہو؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

    ’’ننگا انسان خدا کے بہت قریب ہوجاتا ہے۔‘‘ اس نے بغیر میری طرف دیکھے جواب دیا۔

    ’’کیا تمہیں خدا میں یقین نہیں ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’جب میں تصویر بناتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ شاید خدا ہے۔ ویسے جب میں برہنہ جسم کی تصویر بناتا ہوں تو کپڑے پہن لیتا ہوں۔‘‘ وہ چھوٹی چھوٹی شرارتیں کرنے کا عادی تھا۔

    ’’بہت دنوں سے نظرنہیں آئے۔‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’تصویر بنارہاہوں۔ دل اور جسم کی کشمکش میں روح کے کرب کو چہرے پر نمایاں کرنا چاہتا ہوں۔ کیسے ہوگا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘

    ’’میں نے ابھی تک زندگی کو تصویر میں دیکھا ہے۔ اب تصویر کو زندگی میں دیکھنا چاہتاہوں۔‘‘

    کافی دن بیت گئے ہیں۔ میں اپنے کاموں میں مصروف رہا اور سوبھ سے ملاقات نہ ہوسکی۔ ایک روز آرٹ گیلری میں ایک تاریک کونے میں اس کی بنائی ہوئی تصویر دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کا خیال آگیا۔ بڑی مدت ہوگئی اس سے ملے ہوئے۔ تصویر میں روشنی اور سائے کے سنگم پر ایک زخمی عورت کابرہنہ جسم تھا۔

    میں سوبھ کے گھر گیا۔ رنگ، برش اور ناتمام تصویروں کے سوا وہاں کچھ نہ تھا۔ دیواروں پر جسم کے مختلف اعضا کی الگ الگ تصویریں تھیں اور ان کو اپنے تصور میں یکجا کرنے سے مکمل جسم کی تصویر بنتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نے عالم جذب میں تصویر بنائی تھیں۔

    میں نے اس فاحشہ سے پوچھا، ’’سوبھ کہاں ہے؟‘‘

    ’’کون سوبھ؟ وہ آرٹسٹ؟ اس کی بات کرتے ہو۔ وہ تو پاگل تھا سنکی۔‘‘

    میں مایوس لوٹ آیا۔ میں اس مقام پر گیا جہاں پہلی بار چاندنی رات میں، میں نے اسے دیکھا تھا۔ میں اس ریستوران میں بھی گیا جہاں وہ شراب کے نشے میں چور تھا۔ اس سڑک پر بھی گھوما جہاں ہم نے سرگوشیاں کی تھیں، لیکن وہ نہ ملا۔

    جب میں کسی نوجوان کی خوکشی کی خبر پڑھتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں اور مجھے سوبھ کا فقرہ یاد آجاتا ہے۔ میں نے جب اسے کہا تھا تم بزدل ہو، تو اس نے جواب دیا تھا، ہاں! ورنہ میں ابھی تک زندہ کیسے رہتا۔ شاید۔ اور اس کے آگے میں کچھ نہ سوچ سکا۔

    ہر رات کو ساڑھے گیارہ بجے میں اس مقام سے گزرتا ہوں۔ سامنے مکان کادر کھلتا ہے۔ دوآنکھیں باہر جھانکتی ہیں۔ میں ایک لمحے کے لیے رکتا ہوں اور پھر تیزی سے آگے بڑھ جاتا ہوں۔

    مجھے خدا میں یقین نہیں۔

    لیکن میں نے بجلی کے کھمبے تلے، دیوار کے سائے تلے، دیوار یا درخت کی چھایا میں ایسانور دیکھا ہے جو خدا کے سوا اور کوئی نمو نہیں کرسکتا۔

    مأخذ:

    کینوس کا صحرا (Pg. 39)

    • مصنف: دیوندر اسر
      • ناشر: پبلشرز اینڈ ایڈورٹائزرز کرشن نگر، دہلی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے