Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قدیم معبدوں کا محافظ

سید محمد اشرف

قدیم معبدوں کا محافظ

سید محمد اشرف

MORE BYسید محمد اشرف

    (نذر نیر مسعود)

    پرانی عبادت گاہوں میں جانا، ان کے درودیوار کو دیرتک دیکھتے رہنا اور ان کے اندرونی نیم تاریک نم حصوں میں پہنچ کر سونگھ سونگھ کر پرانے پن کومحسوس کرنا میرا بچپن کا مشغلہ ہے۔ ایسا میں جب کرتا ہوں جب غروب کا وقت ہوتا ہے اوراندھیرے کی پوشاک پہن کر درخت چپ چاپ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ وقت کی اس کیفیت میں ایک ایسی اداسی ہوتی ہے جسے کوشش کے باوجود لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس کیفیت کی مماثلت ماضی کے کچھ واقعات میں تلاش کی جاسکتی ہے لیکن دقت یہ ہے کہ ماضی کے ان واقعات کو بھی صرف یاد کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میرا مسئلہ مختلف ہے بلکہ برعکس۔ میں ماضی کے واقعات یاد کرتا ہوں اورجب ان کو بعینہ بیان نہ کر پانے کی شدید الجھن میں گرفتار ہوتا ہوں تو ان واقعات کی مماثلت ڈھونڈنے پرانی عبادت گاہوں کے نیم تاریک اندرونی نم حصوں میں پہنچ جاتا ہوں۔

    اس دن بھی سورج غروب ہونے ہی والا تھا اور درخت اندھیرے کی پوشاک پہن کرچپ چاپ گم سم کھڑے تھے۔ بستی سے آنے والی سڑک کے بائیں طرف آم کے پرانے باغوں کو عبورکر کے میں اس قدیم عمارت میں داخل ہوا جس کے صدر دروازے پر کسی مضبوط عمارتی لکڑی کے دروازے ابھی تک سلامت تھے، حالاں کہ فرش اورچہار دیواری شکستہ ہونے کی وجہ سے صدردروازہ کھولنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ یوں بھی صدردروازے پرایک سیاہ رنگ کازنگ خوردہ قفل لٹکا رہتا تھا۔ قفل کے اصل رنگ میں زنگ کی زردی مائل سرخی نے مل کرایک ایسے رنگ کی آمیزش کردی تھی کہ قفل اپنی اصل عمر سے زیادہ قدیم محسوس ہوتا تھا۔ شکستہ دیواروں کے آس پاس کانٹے دار جھاڑیوں کو پھلانگ کر جب میں اندر کے ٹوٹے پھوٹے فرش پر قدم جمائے کھڑا تھا تو عمارت کے دوہرے دالانوں میں سے کوئی پرندہ چیخیں مارتا نکلا تھا۔ مجھے تھوڑی دیربعد علم ہو پایا کہ وہ کوئی پرندہ نہیں ایک چمگادڑ تھا۔

    مجھے تاریکی، تنہائی اور مافوق الفطرت عناصر سے خوف نہیں محسوس ہوتا کیوں کہ میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کے زیادہ ترحصے ہمیشہ تاریک رہتے ہیں، اتنے تاریک کہ اگر کبھی کسی تقریب کے وقت وہاں لالٹین سے روشنی بھی کی جائے تو وہ جگہ اس مکان کا حصہ نہیں لگتی۔ میرے عزیز خصوصاً والدین بچپن سے ہی مجھ سے بیزار ہیں کیوں کہ ان کے خیا ل کے مطابق میں خراب صحبت میں وقت گزارتا ہوں۔ یوں اس مکان میں میرا جوبھی وقت گزرا ہے وہ تاریکی اور تنہائی میں ہی گزرا ہے۔ تاریکی اورتنہائی میرے لیے ایسے لازم و ملزوم ہیں جیسے کرتے کی ایک آستین میں ہاتھ ڈال کردوسری آستین میں ہاتھ ڈالنا۔ میں جہاں بھی تاریکی دیکھتا ہوں مجھے تنہائی کا خیال آجاتا ہے اورجہاں بھی تنہائی دیکھتا ہوں، تاریکی کا احساس ہونے لگتا ہے کبھی کبھی ان دونوں کیفیتوں کا احساس بیک وقت ہوتا ہے اور کبھی کبھی ان دونوں کیفیتوں کے احساس کے درمیان زمانی وقت کاایک مختصر سا ٹکڑا حائل ہو جاتا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ اذیت اسی مختصر سے لمحے میں محسوس ہوتی ہے۔ اس وقت مجھے لگتا ہے کہ اگر تاریکی کے باوجود تنہائی نہیں ہے تو اس میں کوئی بڑا اسرارہے اور اگر تنہائی کے باوجود تاریکی نہیں ہے تو اس کے پس پشت کسی آسیب کا ہاتھ ہے۔

    اس شام چمگادڑ کی چیخ نے تاریکی یا تنہائی کے احساس کو کم نہیں بلکہ مزید واضح کیا۔ اور یوں وہ چیخ مجھے روشنی کی ایک لکیر کی طرح محسوس ہوئی جو تاریکی اورتنہائی کو روشن کرتی ہوئی آہستہ آہستہ معدوم ہوگئی۔

    فرش پرگھٹنوں گھٹنوں گھاس اگی ہوئی تھی۔ زمین والے سے بچنے کے لیے میں فرش پرآنکھیں گڑاگڑاکر قدم رکھ رہاتھا اوراسی طرح احتیاط سے چلتے چلتے میں اگلے دالان میں آگیا۔اس دالان کافرش بھٹے میں پکی ہوئی اینٹوں سے تعمیر کیاہوا لگ رہاتھا۔ان اینٹوں کی شکل عام اینٹوں سے مختلف مربعے کی صورت کی تھی۔ ان مربعوں پرمختلف شکلیں بنی ہوئی تھیں لیکن میں ان شکلوں میں کوئی مذہبی عنصرنہیں تلاش کرسکا ۔ہلکی روشنی میں صرف اتنا نظر آیا کہ وہ نقوش عورتوں سے متعلق ہیں اورزیادہ تربرہنہ عورتوں کے اعضاء ہیں جو بہت باریکی اور صفائی سے تراشے گیے ہیں۔ ان نقوش پرگہرے سبزرنگ کی کائی جمی ہوئی تھی اوراس طرح ہر عورت گہرے سبزرنگ کا لبادہ پہنے لگ رہی تھی۔

    اندر کے دالان کافرش کچاتھا اور وہاں بھی گھاس اگ آئی تھی۔ غروب شدہ سورج کی زرد روشنی میں وہ گھاس سیاہ رنگ کی محسوس ہورہی تھی۔ ان دونوں دالانوں کے بعد وہ حصہ تھا جس کوتین دروازوں نے بندکررکھا تھا۔یہی اصل عبادت خانہ تھا۔

    درمیانی دروازے کوہلکے سے دھکا دیا تو وہ ایک کمزور سی آواز کے ساتھ سے کھل گیا ۔اس حصے میں تاریکی برائے نام تھی کیوں کہ سامنے کی دیوار پر روشن دان کھلے ہوئے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ میں نے عمارت کی پشت پران روشن دانوں کوکبھی نہیں دیکھا تھا۔ روشن دانوں کے نچلے حصوں سے مٹی کے رنگ کی بہت سی دھاریاں دیوارپرسے ہوتی ہوئی فرش تک آرہی تھیں حالاں کہ چبوترے کی کل اونچائی اتنی نہیں تھی کہ چبوترے پرپہنچنے کے لیے ان سیڑھیوں پرچڑھنے کی ضرورت پیش آئے۔ اس چبوترے پرایک بڑی سی مربع صورت اینٹ جمی ہوئی تھی۔ میں نے غور سے دیکھا اس بڑی اینٹ پر کوئی نقش نہیں تھا صرف کائی کی دبیز تہہ تھی۔

    کیوں کہ میں مافوق الفطرت عناصر سے نہیں ڈرتا اس لیے میں نے اس چبوترے کے پاس بیٹھے زانو پر سر رکھے بوڑھے سے دریافت کیا کہ وہ کون ہے۔

    ’’میں ایک بے ذوق انسان ہوں۔‘‘ اس نے نگاہیں اٹھائے بغیر مختصر سا جواب دیا۔ میں اس کے جواب میں چھپی گہرائیوں کوسمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اسی وقت مجھے احساس ہوا کہ باہر کے دالان کے فرش پرکندہ حسین نقوش شاید اسی بوڑھے کے ہاتھوں کا کمال ہوں۔ میں صبرنہیں کرسکا۔

    ’’کیا باہر دالان کے فرش کے نقوش آپ نے بنائے ہیں ؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’یہ سوال ضروری نہیں ہے۔‘‘

    ’’لیکن آپ اس کا جواب جانتے ہیں،بتائیے کس نے بنائے ہیں ؟‘‘

    بوڑھے نے مجھے مسکراکرغور سے دیکھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس میں مجھے خوف محسوس ہوا کیوں کہ یہ تنہائی تاریکی اورمافوق الفطرت عناصر۔۔۔ سب سے مختلف کیفیت کا حامل لمحہ تھا۔

    چلتے چلتے میں نے اس سے پوچھا، ’’اس علاقے میں ایسے کئی معبدہیں۔ کیا آپ نے کسی معبد کے نقش و نگار نہیں بنائے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’پھر آپ کا کام کیا ہے؟‘‘

    ’’حفاظت کرنا۔‘‘

    ’’کس چیز کی--- کس سے؟‘‘

    ’’کسی بھی نقصان پہنچانے والے سے۔۔۔تم بھی ان میں سے ایک ہو۔‘‘

    ’’میں؟‘‘ اس کی سنجیدہ آنکھوں کو اندھیرے کے باوجود برداشت نہیں کرسکا۔ ہمت کرکے پوچھا۔

    ’’میں بھلا کیوں نقصان پہنچا سکتا ہوں؟‘‘

    ’’فراموش کرکے۔ ہرچیزفراموش کرکے۔‘‘

    ’’میں سمجھا نہیں۔‘‘ میں نے جاتے جاتے اس سے پوچھا، ’’میں نے کیا فراموش کیا؟‘‘

    جب میں شکستہ دیواروں کو پھلانگ کرواپس نکل رہاتھا تو اس نے بلند آوازمیں مجھے مخاطب کرکے کہا، ’’تم نے یہ بڑی حقیقت فراموش کردی ہے کہ ان پرانے معبدوں کے معمار تم ہی تو تھے۔‘‘

    اس رات جب میں بستی میں پہنچا تو اپنا تاریک اورتنہا مکان بہت دیر میں پہچان سکا۔

    مأخذ:

    ڈار سے بچھڑے (Pg. 183)

    • مصنف: سید محمد اشرف
      • ناشر: سید محمد اشرف
      • سن اشاعت: 1994

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے