Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قدموں کا نوحہ گر

خالد جاوید

قدموں کا نوحہ گر

خالد جاوید

MORE BYخالد جاوید

    ’’اور اب میرا کتا

    اپنے منہ میں دبائے لیے چلا آرہا ہے

    میں جنہیں پھینک آیا تھا

    ایک گندی نالی میں

    مجھے معلوم ہے کہ وہ انہیں ڈال دے گا میرے قدموں میں۔‘‘

    (بہت پہلے کہی گئی ایک نظم سے)

    (۱)

    اب جب کہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہونےکے قریب ہوں اور گھورے کے اس ڈھیر پر پڑے پڑے ایک بھیانک بدبو میں بدل چلاہوں۔ تو شاید اپنی کہانی بیان کرنے کے لیے اس سے زیادہ ایماندار وقت پھر کبھی میری زندگی میں نہ آسکے۔ ہر ایک کو اپنی کہانی تب ہی بیان کرنی چاہیےجب وہ ایک بدبو، ایک بگولے یا پھر میلے پانی میں بدل گیا ہو۔

    آخر کوڑے کے اس خطرناک ڈھیر پر لیٹے لیٹے آسمان کی طرف اسی طرح پلکیں جھپکا جھپکا کر دیکھتے رہنے کا کیا فائدہ جس طرح رات کے آخری پہر میں ستارے اس بے رحم زمین کو دیکھتے رہتے ہیں۔ میں تو اس زمین کی طرف اب نظر اٹھانا بھی گوارا نہیں کرتا۔ میں اس سے رگڑ کھاتے کھاتے تنگ آچکا ہوں۔

    وہ کتنا طویل، خوفناک اور کربناک سفر تھا جو میں نے طے کیا۔ اگرچہ سفر میں دن اور رات دونوں شامل ہوتے ہیں مگر میرے اس سفر میں راتیں اس طرح آتی رہیں جیسے چراغ گل ہوتے ہیں۔ راتیں لگاتار میرا پیچھا کرتی رہیں۔ کون جانے یہ سلسلہ پھر کب شروع ہوجائے اور کوڑا بیننے والے لڑکےآکر ایک بار پھر مجھے بوری میں بند کرکے لے جائیں۔ اب اگر اپنی کہانی نہیں سنائی تو پھر شاید کبھی نہ سناسکوں۔

    کہانی کیسے سنائی جاتی ہے؟ کیا واقعی کوئی کسی کی کہانی سنتا ہے؟

    مجھے ابتداء میں ہی اس کی وضاحت کردینی چاہیے کہ جس طرح انسان کبھی کبھی اپنے آپ کو مختلف ضمائر میں تقسیم کردیتا ہے اور اپنے اسم کی تلاش میں لگ جاتا ہے، اس سے بھی کہیں زیادہ میں یعنی ایک معمولی جوتا تو تمام زندگی صرف اسی اذیت ناک مشغلے کو اپنی تقدیر بنائے زمین پرچلتا رہتا ہے لہٰذا ابھی ابھی میں خود کاایک ٹکڑا نوچ کراسے اپنی پرچھائیں میں بدل لیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری یہ پرچھائیں میری ہی طرح مایوس اور اکیلی ہے اور اسے اپنی یا میری کہانی سننے میں ضرور دلچسپی ہوگی۔ اس لیے یہ کہانی ایک ایسے ماتمی مکالمے میں تبدیل ہو جاتی ہے جو کسی مشترک سانحے پر دولوگ آپس میں ایک دوسرےسے گلے مل مل کر اور رو رو کر کرتے ہیں۔

    مگر ٹھہریے۔ ایک جوتے کااپنی داستان بیان کرنااتنا آسان نہیں ہے۔ اسے چند دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پہلی بات تو یہ اگرچہ میں اپنے سائے سے ہی مخاطب ہوں مگرنہ جانے کیوں مجھے دوسروں کی موجودگی کاہراساں کردینے والا احساس بھی ہے اس لیے بے خیالی میں مجھے ان دوسروں کو بھی مخاطب کرنےکی غلطی سرزد ہوسکتی ہے۔ جب کہ میں جانتا ہوں کہ ان دوسروں کے لیے میری کہانی وہ ناقابل فہم اور کریہہ آوازیں ہیں جو سڑک پر رگڑ کھاتے ہوے یا پھسلتے ہوئے میرے وجود سے پیدا ہوتی ہے۔

    دوسری مشکل یہ ہے کہ اس وقت تو میں واقعی بالکل اکیلا ہوں مگر ہمیشہ ہی ایسا تو نہ تھا لہٰذا اپنی کہانی کےاس پہلے حصے میں میں اپنےساتھی کو بھی شامل کر رہا ہوں۔ میرا ساتھی یعنی میرا نصف وجود۔ انسان کے دوسرے پیر کا جوتا جسے میرے ساتھ ہی تخلیق کیا گیا ہے۔ انسان کے دو ہاتھوں، پیروں، دوکانوں، دو آنکھوں، ناک کے دو نتھنوں اور دونوں جبڑوں میں دانتوں کی دو قطاروں کی طرح۔ اس لیے یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ کہانی کےاس پہلے حصے میں ’میں‘ صرف ’میں‘ ہی نہیں ہوں اس میں وہ بھی شامل ہے۔ میں نے جان بوجھ کر ’ہم‘ کا صیغہ استعمال نہیں کیا۔مجھے’ہم‘ سے ہمیشہ غیریت کی بو آتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ’ہم‘ اجتماعیت کا نمائندہ ہے مگر مجھے اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ انسانوں کے ڈھکوسلے ہیں۔ ان کا ’کلچر‘ ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان کو آخر اتنے ڈھیر سارے کلچر کی ضرورت کیوں رہتی ہے۔ بہرنوع میں اپنی کہانی میں ’ہم‘ کی غیریت اور دوری کا شائبہ بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ہم کی غلط فہمی نے ہی انسان کو کبھی اپنے آپ کو سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا جس طرح خاوند اور بیوی ہمیشہ غیر ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے کے جسم کے حصے ہرگز نہیں ہوتے اور ان کا ’ہم‘ انھیں ایک دوسرے سےبے وفائی کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ’ضمائر جمع‘ سے بڑی غلط فہمی دوسری کوئی نہیں ہوسکتی۔

    پھر ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ ’’کہہ پانے‘‘ کے کرب سے پتہ نہیں کیوں مجھے ہی نوازا گیا حالانکہ وجود کا کرب میں نے اور اس نے ایک عرصے تک ساتھ ساتھ ہی جھیلا مگر وہ ہمیشہ بے زبان رہا۔ آج اگر وہ یہاں ہوتا تو اپنی کہانی ہرگز نہ سناتا۔ مجھے بھی نہیں۔ ابھی میرے ’میں‘ میں دونوں شامل ہیں اور اس سے بڑھ کر اپنائیت تو وہ جوڑے بھی نہیں دکھا سکتے جو ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے سڑکوں پر گھوما کرتے ہیں۔ اپنے جوتوں کو ڈانس فلور پر گھسا کرتے ہیں مگر دونوں کی وفاداریاں کہیں اور ہوتی ہیں۔ ان کی آرزوئیں کہیں اور جاکر دم توڑتی ہیں۔ اس لیے ’میں‘ ایک جوتا انسانوں کے ’ہم‘ پر نفرت سے تھوکتے ہوئےاس کے خلاف احتجاج کرتا ہوں اور یہاں ’میں‘ کا صیغہ استعمال کرنےمیں فخر محسوس کرتا ہوں۔ مگر افسوس کہ کہانی کے دوسرے حصے میں میں واقعتاً اکیلا ہوجاؤں گا۔ بالکل آج کی طرح اکیلا۔ مگر وہ ایک الگ داستان ہے۔

    سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سفر کی روداد کس طرح بیان کروں۔ کیا اس پتھر کے زمانے سے جب انسان ننگے پیر رہتاتھا مگر پھر اس نے اپنے گھٹنوں کو ٹھنڈسے بچانے کے لیے جانوروں کی کھال سے ڈھکنا شروع کیا؟ ہاں کہانی کا آغاز قدرے بھونڈا ہوتے ہوئے بھی میری دانست میں مناسب ترین ہے۔ شاید انسانی پیروں کی خدمت کایہی اولین سلسلہ تھا جس کو ’موچی‘ نام کے عظیم پیشے نے آگے بڑھایا۔ جوتے کے حق میں چمڑے کا ہمیشہ ہی اہم رول رہا (چمڑے اورخون کاتعلق بہت واضح ہے اور یہیں سے میری کہانی میں پہلی بار خون کی بو شامل ہوتی ہے۔) مگر لکڑی اور کپڑے کے سینڈل اور چپلیں بھی چلن میں تھیں۔ مجھے اپنے دور کے رشتہ دار ’بوٹ‘ سے نفرت ہے جو گھنٹوں تک اونچے ہوتےہیں مگر سوائے شکاریوں، فوجیوں اور پولیس والوں کے بے رحم اور سخت پیروں کے وہ کسی پیر میں نہیں سجتے۔ بوٹ ہمیشہ زمین اور انسان دونوں کے دلوں کو دہشت سے کپکپادینے پر مجبور کرتے ہیں۔

    میں تو خیر ایک ایسا جوتاہوں جو تاریخی اعتبار سےبہت بعد کی پیداوار ہے۔ اس زمانے کی جب فیکٹریوں میں مشینوں کے ذریعے بہت بڑی تعداد میں جوتے تیار کیے جانے لگے تھے مگر پھر بھی مجھے ہمیشہ اس بات کا شدت سے احساس رہا کہ میرا اصل خالق تو موچی ہی ہے۔ اس کے ہاتھ میں پہنچتے ہی میں ایک روحانی کیفیت سے سرشارہوجاتا ہوں۔ میں نے موچی کے بھدے اور کھردرے ہاتھوں کو اس وقت بھی چومنے کی کوشش کی ہے جب وہ میرے تلے میں چھوٹی چھوٹی کیلیں ٹھونکتا ہے یا موٹے سوئے سے میرے اندر ٹانکے لگاتا ہے۔ جب وہ مجھ پر پالش کرتا ہے تو اس کے محنت بھرے مگر محروم ہاتھوں کے لمس سےمیری جلد ہی میں نہیں میری روح میں بھی اجالا پھیل جاتا ہے۔

    اکثر لوگ عبادت گاہوں، باورچی خانوں اور صاف ستھرے قالینوں والے ڈرائنگ روموں کے باہر مجھے اپنے پیروں سےاتار کر رکھ دیتے ہیں۔ مہنگے اسپتالوں کے اعلیٰ کمروں میں بھی مجھے جانے کی اجازت نہیں ہے وہاں انسان کےننگے پیر کو مجھ پر ترجیح دی جاتی ہے۔ کچھ سادھو فقیر قسم کے لوگ بھی مجھے پہننا پسند نہیں کرتے۔ اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ زمین اور انسانی پیر دونوں ہی کو پاک صاف مانا جاتا ہے جب کہ میں ان دونوں کے درمیان کی ایک کڑی، اپنےگندے ہونے کے مقدر سےکبھی چھٹکارا نہیں حاصل کرسکا۔ صدیوں سے انسان کے پیروں کی بے لوث خدمت اور حفاظت کرتے رہنے کایہی ایک صلہ ہے جو انسان نےمجھے دیا ہے۔ میں دلدل، کیچڑ اور خون سے بھیگی زمین پر چلتا اور دھنستا رہاہوں مگر پاک صاف جگہوں پر جانےکی مجھے کبھی اجازت نہ ملی۔ اس کی مجھے کوئی شکایت بھی نہیں ہے۔ آخر ایک حقیر سےجوتے کی شکایت کے معنی ہی کیا؟

    میں نے ایک کتے کی طرح آدمی کے ساتھ وفاداری نبھائی ہے۔ انسان کو یہ یاد بھی نہ ہوگا کہ کس طرح اچانک ایک دن اس کے ارتقا کے سفر میں اس کے پیروں پر ایک گھنے چھتنار درخت کا سایہ بن کر چھا گیا تھا۔ میں انسان کے جسم کے آخری سرے پر جگمگاتا ہوا ایک ستارہ ہوں۔ کیا پاؤں انسانی جسم کی وسعت کی آخری حد نہیں؟ پاؤں جس کے بعد انسان ختم ہو جاتا ہے۔ جہاں تک دماغ کاسوال ہے تو وہ تو صرف انسان کی ابتدا ہے۔ ایک موہوم نقطہ جہاں سے وہ شروع ہوتا ہےاورجسے ایک بے ضرر معمولی ٹوپی بھی ڈھک لیتی ہے بے وجہ ہی انسان کے دماغ کا دنیا میں اتنا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے۔ انسانوں کے سروں کو ڈھکنے والی ٹوپیاں اور اس کی گردن کو تنی رکھنے پرمجبور کرنے والی، گلے میں لٹکتی ہوئی ٹائیاں اس بھیانک سفر کو کیا جانیں جو انسانوں کے پیروں میں فیتوں سےبندھے جوتوں نے طے کیا ہے۔ بھیانک سیاہ دلدل، سفید اورخاموش برف اور خون سے بھری اس زمین کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سفر۔

    یہ زمین جس میں موت کی خوشبو ہے۔ وہ خون کو اپنی طرف بلاتی ہے۔ وہ صرف ایک مذبح بننے کی طرف گامزن ہے۔ میں موت کی اس خوشبو کو اپنےتلے میں بسائے خون پر ہی چلتارہا۔ خون کو ہی رگڑتا، پونچھتا اور یہاں تک کہ چھپاتا بھی رہا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں کون کون سے پاؤں میں چلتا رہا۔ ایک جوتے کی زندگی میں کبھی کبھی اتنا اندھیراچھا جاتا ہے کہ اسے اپنے پہننےوالے پیر بھی نظر نہیں آتے۔ میں اکثر بےآواز رویا ہوں مگر آپ نےمیرے گھسٹنے کی آوازیں سنی ہیں، میری کراہیں نہیں۔جب مجھے کوڑے کے ایک ڈھیر پر پھینک دیا گیا تھا اور میں غلاظت میں لپٹا خاموش پڑا تھا تو ایک دن کوڑا بیننے والے چند بچوں نے آکر مجھے اپنی پھٹی پرانی بوری میں ڈال لیا۔ ان بچوں کے ہاتھ کوڑے میں پڑے شیشے یا ٹین کے کسی ٹکڑے سے ٹکراکر کٹ گیے تھے۔ ان کی انگلیوں سے لگاتار خون بہہ رہا تھا۔ خون بہتی انگلیوں سے ان بچوں نے مجھے نہ جانے کون سے مقام پر لے جاکر بوری سے نکالا تھا۔

    آپ نے اکثر سناہوگا کہ جوتا پیر میں کاٹ لیا کرتا ہے مگر یہ کاٹنا کسی زہریلے سانپ یا کیڑے کا کاٹنا نہیں ہے بلکہ یہ توایک ایسی محبت آمیز جسمانی قربت کا نتیجہ ہے جس میں کبھی کبھی تشدد کی آمیزش نہ چاہتے ہوئے بھی ہوہی جاتی ہے۔ انسانوں کو اس سے بد گمان نہیں ہونا چاہیے۔ وہ تو ہمیشہ سے ہی اپنی محبوبہ کے ہونٹوں کو زخمی کرتے چلے آرہے ہیں۔ جب قربت ڈھیلی پڑجاتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ تو محبوبہ کے ہونٹ صرف لپ اسٹک سے ہی زخمی رہتے ہیں آپ کے پیار سے نہیں۔ اسی طرح جب ایک جوتا ڈھیلا پڑجاتا ہے تو وہ کاٹنا بند کردیتا ہےاور جوتے اورپیر کے درمیان ایک خالی ہوا آکر بیٹھ جاتی ہے دونوں کو گھورتی ہوئی ایک خالی بے رنگ ہوا۔

    میں شروع شروع میں اس کے پیروں کو کاٹ لیا کرتا تھا۔ وہ ایک دولت مند شخص تھا۔ مگر اس نے مجھے جوتوں کی ایک اوسط درجے کی دوکان سے خریدا تھا۔ میں خود بھی ایک اوسط درجے کا جوتا ہی تھا مگر میرا چمڑا بہت چکنا، چمکدار اور پہاڑی کوے کی طرح کالا تھا۔ مجھ پر اتنی اچھی طرح پالش کی گئی تھی کہ کوئی بھی شخص جھک کر اس میں اس طرح اپنا عکس دیکھ سکتا تھا جیسے کسی صاف و شفاف تالاب میں۔ میری ٹو کافی چوڑی اور پروقار تھی اور ایڑی اونچی تھی۔میرے فیتے بہت لمبے لمبے تھے جن سے میری خوبصورتی میں اضافہ ہوتا تھا بشرطیکہ انہیں سلیقے سے ایک پھول کی شکل دیتے ہوئے باندھ لیا جائے۔ وہ شخص پستہ قد تھا مگر مجھے اپنے پیروں میں ڈال کر قدآور نظر آنےلگتا تھا۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ اتنا دولت مند اور بڑا آدمی ہوتے ہوئے بھی وہ آخر مجھے ہی کیوں خریدنے پر بضد تھا۔

    ’’آج کل تم بیڈ روم میں جوتے پہنےکیوں گھسے چلے آتے ہو؟‘‘ ایک رات اس کی بیوی نے اسے درشتگی کےساتھ ٹوکا۔ کوئی اور تو یہ محسوس نہیں کر سکتا تھا مگر میں نے اس کے پیروں کو کانپتے ہوئے محسوس کیا۔

    ’’ادھر آؤ۔‘‘ اس نے آہستہ سے بیوی سے کہا۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’آؤ تو۔‘‘ اس نے پھر کہا۔

    ’’بس رہنے دو۔‘‘ بیوی کے لہجے میں بہت تلخی تھی۔

    وہ بیڈ روم کے چکنے ماربل کے فرش پر مجھے پہنے سیدھا اور قدرے تن کر کھڑا تھا مگر اس کے پیر اب بھی کانپ رہے تھے۔ بیوی بستر پر نیم دراز تھی۔وہ ایک بھاری جسم اور پورے قد کی عورت تھی۔ جب وہ اس کے برابر کھڑی ہوتی تو اس سے اونچی نکل جاتی۔ میں نے غور کیا تھا کہ اس عورت کے کولہے ضرورت سے زیادہ بڑے اور پیچھے کی طرف نکلے ہوئے ہیں۔ ان کولہوں پر ایک قسم کی بے رحمی، بے مروتی اور بےوفائی کی چھوٹ پڑتی محسوس ہوتی تھی۔ یہ بڑی حیرت انگیز بات تھی کہ اس کے کولہے اور اس کے ہونٹ آپس میں خطرناک حدتک مماثلت رکھتے تھے۔ ان ہونٹوں کو کوئی بھی مرد چومنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔

    ’’بس ایک منٹ کو آجاؤ۔‘‘ وہ ہمت کرکے دوبارہ بولا تھا۔

    ’’لو آگئی۔‘‘ وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھی اور اس کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ میں نے مرد کے قد کو عورت کے قد کے برابر کردیا تھا مگر اس کے پیر اب پہلے سے بھی زیادہ کانپنے لگے تھے۔ میں نے حتی الامکان اس کپکپاہٹ کو روکنے کی پورے کوشش کی۔

    ’’اب بتاؤ کیا کرناہے؟‘‘ وہ طنزیہ مسکرائی جس میں اس کے بے رحم کولہوں نے پراسرار انداز میں ہل کر اس کا ساتھ دیا۔

    ’’کچھ نہیں۔ یہ جوتے دیکھو۔‘‘ وہ مایوس سا ہوگیا۔ بیوی نے اوپر سے نیچے تک اس کا جائزہ لیتےہوئے میری طرف نظریں مرکوز کردیں۔

    ’’میں نے اتنے گندے جوتے آج تک نہیں دیکھے۔ تم اپنے ساتھ بہت دھول خاک لے کر گھر میں آتے ہو۔‘‘ اس نے ہونٹ بھینچ کر جواب دیا مگر وہ بھنچ نہ سکے۔ وہ اس کے کولہوں کی طرح فاحشانہ شان کے ساتھ آگے کو نکلے رہے۔

    یہ تو خیر سچ تھا کہ میرے اوپر دھول اور مٹی بہت جما کرتی تھی۔ اس میں کچھ تو اس کے چلنے کا انداز اور صفائی کی طرف سے بے احتیاطی کا دخل تھا اور کچھ میرا ڈیزائن بھی اس قسم کا تھا کہ دھول مٹی کے سالموں کو ہوا کے ارتعاشات کے ذریعےمیرے اوپر اکٹھا کرتے جانے میں مددگار ثابت ہوتا تھا۔ ہر جوتا ایسا نہیں ہوتا۔ میرے اندر ایک قسم کا دیہاتی مردانہ اور کھرکھرے قسم کا حسن تھا۔ زمین پر چلتے وقت میرے اندر سے ’’کھٹ کھٹ‘‘ کی جو آواز نکلتی تھی وہ ایک ایسی صلابت سے بھری ہوئی تھی جیسی کہ دھمک زمین سےزیادہ فضامیں جذب ہوتی محسوس ہوتی تھی۔ ایسی آواز پر آدھی رات کو جاگتے رہو، کی صدا لگانے والے چوکیدار کی لاٹھی بھی شرما سکتی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ اگر وہ اس طرح فرش پر خاموش نہ کھڑا ہو کر وہاں ٹہلنے لگتا تو ممکن تھا کہ میری آواز سے بیوی مرعوب ہوجاتی۔

    ’’میرا خیال ہے کہ تم اب دوسرے کمرے میں سونا شروع کردو۔ مجھے یہ سب بہت گھناؤنا سا لگنے لگاہے۔‘‘ اس بار بیوی کا لہجہ بے حد سرد تھا۔اس کے ٹھنڈے ہوتے ہوئے پنجے میرے اندر پھر بری طرح کانپے۔ وہ تیزی کے ساتھ مڑا اور اپنی بیوی کے خطرناک کولہوں کو ہلتا ہوا چھوڑ کر بیڈروم سے باہر نکل گیا۔

    اس دن کے بعد پھر وہ کسی رات وہاں نہیں گیا۔ اس عالی شان مکان میں ایک چھوٹا سا ویران کمرہ تھا۔ وہ اسی میں اپنا زیادہ تر وقت گزارنےلگا۔ کمرے میں ایک چھوٹا سا پلنگ اور ایک بوسیدہ سی لکڑی کی میز کے سوا کچھ نہ تھا۔ ممکن ہے کہ یہ کمرہ کبھی نوکروں کے رہنے کے لیےبنایا گیا ہو۔رات کو سونے سےپہلے وہ مجھے اتار کر میز کے نیچے رکھ دیتا تھا اور خود پلنگ پر لیٹ کر خراٹے لینے لگتا تھا۔ یہ خراٹے اداس تھے۔ آدمی رات میں اس کے ان اداس خراٹوں کی آواز میرے اوپر ٹپ ٹپ کرتی ہوئی ایک اذیت ناک اندھیری بارش کی طرح گرنے لگتی۔

    اس شخص کے ساتھ میں نے بے بہت زیادہ عرصہ نہیں گزارا۔ کبھی کبھی وہ مجھے پہن کر شام کے وقت کلب میں جایا کرتا تھا۔ کلب میں ڈانس فلور پر میں نے ایک عجیب منظر دیکھامگر اس منظر کو صرف ایک جوتا ہی دیکھ سکتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ہر ناچنے والے کے جوتے اس کے پیروں کے لیے اجنبی بن گیے تھے۔ وہ اس ’ڈسک جو کی‘ سے کنٹرول نہیں کیے جارہے تھے جس کے اشارے پر عورت اور مرد ناچ رہے تھے۔ بظاہر ضرور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے جوتے اپنے پیروں کے ساتھ ناچ رہے ہیں مگر ایسا تھا نہیں۔ جوتے کہیں اور جانا چاہتے تھے۔ وہ کوئی دوسرا رقص کرنا چاہتے تھے۔ تو کیا کوئی جوتوں کو بھی کنٹرول کر رہا تھا؟ کوئی نادیدہ، پراسرار، بہت دور بیٹھا ’’شوجوکی۔‘‘ جوتوں کی دنیا انسانوں کی دنیا سے اتنی مختلف ہے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے بھی اتنی مختلف! مگر آہستہ آہستہ اس نے کلب جانا بند کردیا۔ وہ رات گیے تک اپنےآفس میں ہی بیٹھا رہتا۔ گھر آکر وہ کھانا بھی نہیں کھاتا تھا بس بے تحاشہ چائے پیتا رہتا تھا۔

    ایک رات جب میں میز کےنیچے سے اس پلنگ پر لیٹا ہوا دیکھ رہا تھا، اچانک مکان میں ایک عجیب سی آہٹ ہوئی جیسے کوئی ایک خطرناک ہنسی ہنس کر خاموش ہوگیا ہو۔ اس کے وہ اداس خراٹے رک گیے۔ وہ چونک کر اٹھ بیٹھا پھر اس نے جھپٹ کر کمرے کی وہ کھڑکی کھولی جو باہر بیڈروم کی طرف کھلتی تھی۔ تاروں کی چھاؤں میں میں نے بھی صاف صاف دیکھا۔ ایک لمبا سا مردانہ سایہ اس کے بیڈروم سے نکل کر آہستہ آہستہ پائیں باغ کی طرف رینگ رہا تھا۔ وہ خاموشی کے ساتھ دوبارہ پلنگ پر لیٹ گیا۔ مگر اب اس کے خراٹےندارد تھے۔

    مجھے افسوس ہے کہ میری ایڑی اسےاتنا اونچا نہ کرسکی جتنا کہ وہ سایہ جو آدھی رات میں اس کی بیوی کے کمرے سے باہر آکر اندھیرے میں گم ہوگیا تھا۔ لوگ لمبے اور اونچے ہونا چاہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو وہ خدا کی برابری کرنا چاہتے ہیں۔ افسوس کہ ایک کمزور سا جوتا اس مقصد میں ان کی بہت مدد نہیں کرسکتا۔

    مگر رکیے۔ کیا آپ نے بھی سنجیدگی سے یہ سوچا ہے کہ جوتا ایک ہتھیار بھی تو ہے۔ ایک ایسا ہتھیار جسے ہر انسان اپنے ساتھ لیے لیے گھومتا ہے۔جوتے کے لیےکسی لائسنس کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان کے کمینے پن میں بھی میں نے اس کا ساتھ نبھایا ہے۔ کسی کو ذلیل کرنے کے لیے میری شکل اچانک مکروہ ہوجاتی ہے اور میرے تلے میں بڑے بڑے درانت نکل آتے ہیں جو کاٹنے سے زیادہ چڑانے اور ذلیل کرنے کے کام آتے ہیں۔ میں ایک ٹچے ہتھار میں بدل جاتا ہوں جس سےکسی کو صرف بے عزت کیا جاسکتا ہے، شہید نہیں۔ اس معاملے میں خنجر، تلوار اور بندوق وغیرہ کا رتبہ یقیناً مجھ سے بلند ہے۔

    صبح ہوتے ہی اس نے اپنی بیوی پر جوتا نکال لیا۔ وہ مجھے ہاتھ میں اونچا کیے ہوئے اس طرح تھامے ہوا تھا جیسے کوئی کسی مقدس پرچم کو سنبھالے ہو۔ بیوی کے سفاک ہونٹوں پر ایک سیاہ مسکراہٹ رینگنے لگی۔ پتہ نہیں وہ اس مسکراہٹ سےخوف زدہ ہوا یا پھر اس کے بے رحم کولہوں سے۔ میں اس کے ہاتھ میں اس طرح ہلنے لگا جیسے تیز آندھی میں کاغذ کا کوئی ٹکڑا۔

    ’’آخر کس بوتے پر؟ کیا آج کل وہ مریل چھپکلی تمہاری آگ ٹھنڈی نہیں کرپاتی؟‘‘ بیوی نے کچھ اس طرح کہا جیسے وہ اس سے مخاطب نہ ہو کر مجھ سے ہو اور میں نے بھی نہ جانے کیوں خود کو لاجواب محسوس کیا۔

    ’’کمینی، فاحشہ۔‘‘ وہ بڑبڑایا یا اور اس کا ہاتھ کانپنے لگا مگر اس نے مجھ کو زمین پر نہیں گرنے دیا۔ اس رات میزکے نیچے پڑا ہوا میں اسےلگاتار دیکھتا رہا۔ میں اس منحوس رات کا گواہ ہوں جو صبح ہونے تک ایک پراسرار سردی سے ٹھٹھرتی رہی۔ ایسی سردی جسے صرف ریڑھ کی ہڈی ہی محسوس کرتی ہے۔

    شاید موت انسان کی وہ ناگزیر تخلیق ہے جسے ہر انسان کو بہرحال جنم دینا ہی پڑتا ہے۔ خدا نے ہر انسان کو یہ عطیہ بخشا ہے مگر افسوس اس کاہے کہ ہر تخلیق کی طرح موت سے پہلے بھی تکلیف تو ہوتی ہی ہے۔ وہ نیند جس میں بھیانک خوابوں سے بھی نجات مل جائے، خواب آور گولیوں سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ایسی نیند کو انسان کو اپنے اندر سے باہر نکال کر اسے اوڑھنا پڑتا ہے۔ ایک چادر کی طرح۔ ہرتخلیق کی طرح موت کے بھی اسلوب، ڈکشن اور تکنیک الگ الگ ہیں۔

    اس رات میں نے اسے خودکشی کرتے ہوئے دیکھا۔

    کھڑکی کے باہر کوئی ہنس رہاتھا۔وہ آہستہ آہستہ، ننگے پاؤں زہر کی نیلی شیشی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے میری طرف غور سے دیکھا تھا۔ کیا وہ ان لمحات میں مجھے اپنے پیروں میں پہننا چاہتا تھا؟ میں اسی جگہ پڑا پڑا اسے یک ٹک گھورتا رہا۔ ایک جوتے کی آنکھ انسانوں کی آنکھ کونظر نہیں آتی ورنہ ممکن ہے کہ اس کے ہاتھ سے زہر کی وہ نیلی شیشی فرش پر گر کر چکنا چور ہوجاتی۔

    نہیں۔ اس کی آنکھوں میں بزدلی کے کوئی آثار نہ تھے۔ پہلی بار مجھے اس کا چہرہ ایک چھوٹے سے بچے کا سا نظر آیا جس پر معصومیت اور بہادری دونوں کا نور تھا۔ بیڈروم کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے پٹ بند تھے مگر اس کے چہرے کی اس فیصلہ کن چمک نے کھڑکی بندپٹوں کو چیر کر باہر پھیلے گہرے اندھیرے کو روشن کردیا۔ اس روشنی میں باہر بھٹکنے والے بدکار ساؤں کی ہنسی خوف زدہ ہوکر کونےمیں دبک گئی۔

    زہرکو اپنے منہ میں انڈیلنے کے بعد وہ اچانک میز کے قریب آیا۔ جھکا اور میرے اور پر اس طرح ہاتھ پھیرا جیسے کوئی بچہ اپنی ٹیڈی بیئر پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ میرے کالے اور سخت چمڑے کے سوکھے ہوئے مساموں میں سے آنسوؤں جیسےکوئی شے باہرنکلنے کو ہوئی۔ رات بھر اس کی لاش فرش پر اس طرح پڑی رہی کہ اس کاسر میز کے نیچے تھا۔ خاص میری ’ٹو‘ پر اور پاؤں بے ترتیبی کے ساتھ ادھر ادھر۔زہر کی وجہ سے شاید اس کی آنتیں کٹ گئی تھیں اس لیے اس کے منہ سے خون کی ایک پتلی لکیر بہتی ہوئی مجھ تک چلی آئی تھی۔ میرا سارا تلا اس خون میں ڈوبنے لگا۔

    کسی انسان کو کھالینے کے بعد اگر کوئی شے کھانے یا کسی کودینے لائق بچتی ہے تو وہ صرف ’جوتا‘ ہی ہے۔ یقیناً اس مشہور فلم کے سین کی طرح جس میں ’’بھوک‘‘ مٹانے کے لیے دولوگ مجھے پکا کر کھاتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ’ایڑی‘ کی طرف میں زیادہ مزے کا ہوتا ہوں۔ میں اپنے گوشت کا ذائقہ جانتا ہوں کیونکہ ہر جوتے کا مقصد آخرکار خود کو نوچتے اور کھسوٹتے رہنا ہی ہے۔اس لیے مجھے اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی اس کی موت کے ہفتے بھر بعد، اس کی بیوی نے دروازے پر آئے ایک غریب اور بیمار شخص کو ’مجھے‘ مرے ہوئےآدمی کے جسم کی ایک کٹی ہوئی بوٹی کی طرح بخشش یا خیرات میں دے دیا۔

    ’’مجھے اس پر کوئی ملال نہیں ہوا کیونکہ میں خود بھی اس منحوس گھر میں نہیں رہنا چاہتا تھا۔ غریب اور بیمار شخص مجھے پلاسٹک کے ایک میلے سے تھیلے میں ڈال کر ’بہت سنبھال کر‘ تقریباً اپنےسینے سے لگائے ہوئے اپنے گھر کی طرف چلا۔

    تھیلے میں بند ہوئے میں نے اور میرے جڑواں نے ایک دوسرے کی طرف غور سے دیکھا۔ میں اس کے مقابلے میں زیادہ پھٹے حال نظر آتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں انسان کے بائیں پیر میں پہننے کے لیے بنایا گیا تھا۔ لوگ اکثر بائیں پیر پر ہی زیادہ زور ڈالتے ہیں اور گرتے پھسلتے بھی بائیں طرف ہی زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بائیں پیر والے جوتے کی ایڑی جلدی گھس جاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ دوسرے یہ کہ میرے تلے میں جو خون سوکھ کر اب کالا پڑگیا ہے، اس کی وجہ سے بھی میں نسبتاً زیادہ گندا محسوس ہوتا ہوں۔ میراجڑواں تو ابھی بھی نیا ہی نظر آتا ہے مگر آگے چل کر ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب وہ خون سے بھیگا اور میں یونہی بے داغ خراش پر پڑا رہا مگر یہ بہت بعد کی بات ہے۔

    یہ سچ ہے کہ ایک جوتے کا انسان کے پیر سے وہی تعلق ہوتا ہے جو انسانی شعور کا وقت کے ساتھ۔ جس طرح شعور وقت کے ساتھ ساتھ چلا کرتا ہے اسی طرح جوتا انسان کے پیر کے ساتھ۔ جس طرح انسان وقت کو ٹھوس رویے میں دیکھنے سےقاصر رکھتا ہے، اس طرح ایک پیر بھی ’جوتے‘ کے اصل وجود سےنابلد ہی رہتاہے۔ مگر یاد رکھیے کہ ہر جوتے کا ایک پیر ہوتا ہے۔ جولوگ محض اندازے سے یا کاغذ پر پنسل سے اپنے پاؤں کے ناپ کا نقش دیتے ہوئے جوتا منگواتے ہیں، ان کے پیر کو وہ کہیں نہ کہیں سے دباتا ضرور ہے زیادہ تر ایڑی یاپنجے کی طرف سے۔ اس میں جوتے کا بہرحال کوئی قصور نہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ یہ ایک تشدد آمیز قربت ہے۔ مگر شاید ہی کسی کو یہ احساس ہوگا کہ صرف جوتے ہی نہیں، انسان کے پیر نے بھی جوتے کو کاٹا ہے۔ جوتے نےتو سانپ کے زہر کو اپنی رگوں میں پی لیا ہے اور انسان کے پیرکو بچا لیا ہے مگر انسانوں نے زمین پر جس غلط طریقے سے قدم رکھے ہیں، اس کی وجہ سے ان کے بے زبان جوتوں کے تلے میں کیلیں ابھر آئیں ہیں جو یوں تو ان کے تلوے میں بھی چبھتی ہیں۔ مگر ان کیلوں نےجوتوں کے وجود کو لہولہان کر ڈالا ہے پھر بھی وہ دنیا کے ان کبھی نہ ختم ہونے والے راستوں پر گھسٹتا اور رگڑتا ہوا چلتا ہی جاتا ہے۔

    معاف کیجیے۔ یہ دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ہرگز نہیں ہے۔ میں کہانی کی طرف واپس آتا ہوں حالانکہ یہ بھڑاس بھی میری کہانی کا ایک باب ہے۔ دراصل میں اس غریب اور بیمار شخص کے ناپ کا جوتا نہیں تھا۔ میں اسےآگے یعنی پنجے کی طرف تھوڑا دباتا تھا جس کی وجہ سے اس کی چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ پیدا ہوجاتی تھی۔ اس بات کے لیے میں آج بھی شرمندہ ہوں۔

    وہ غریب اور بیمار شخص ایک سبزی فروش تھا۔ پوپھٹتے ہی وہ گھر سے نکلتا اور اپنا ٹوٹا پھوٹا سا ٹھیلا لے کر سبزیوں کی آڑھت کی طرف چل دیتا۔ اس وقت شہر کی تمام سڑکیں سنسان ہوتیں جن پر ٹھیلے کےخستہ حال لکڑی کے پہیوں کی آواز میری ’کھٹ کھٹ‘ کے ساتھ مل کر ایک ایسے گیت کاالتباس پیدا کرتی جیسے صبح کی عبادت کے لیے رچا گیا ہو۔ ویسے کیا کبھی کسی نے غور کیا ہےکہ انسانی پیر میں کس کے فیتے سے بندھے ہوئے جوتے کی زمین پر چلتے رہنے کی آواز سےبڑھ کر دوسری کوئی موسیقی نہیں ہے۔ جوتے کی یہ آواز ایک تنہا ’سر‘ ہے جو کبھی خاموشی کی طرف نہیں بڑھتا۔ وہ بڑھتا ہے کسی پراسرار اندھیرے کی طرف۔

    آڑھت پر ہر جگہ رنگ برنگی سبزیوں کا ڈھیر لگا رہتا۔ ہر طرف ٹرک پر ٹرک کھڑے نظر آتے جن سے تازہ سبزیوں کی بوریوں کو اپنے کاندھوں اور پشت پر لاد کر اتارتے ہوئے مزدوروں کاایک جمگھٹا لگا ہوتا۔وہ اپنا ٹھیلا کھڑا کرکے سبزیوں کی ڈھیر کی طرف بڑھ جاتا۔میرے تلے زمین پر بکھری ہوئی باسی اور سڑی ہوئی سبزیاں اور ترکاریاں کچلتی رہتیں ۔وہ اکثر جن پر پھسلتے پھسلتے بچتا۔ کبھی کبھی وہ اکڑوں بیٹھ جاتا اور ان باسی یا سڑی ہوئی سبزیوں کو الگ کرتے ہوئے ایسی مولیوں، گاجروں اور آلو یا ساگ وغیرہ کو بیننے لگتا جو خراب ہونے سے بچ گیے تھے۔ ایک دن وہ اکڑوں بیٹھا ہوایہی کر رہا تھا کہ اس کی پیٹھ پر ایک سخت جوتے کی نوک پڑی۔ وہ باسی سبزیوں پر اوندھے منھ گر پڑا۔ اس کی آنکھوں، منھ اور ناک میں سڑتے ہوئے ساگ کے پتے اور اس میں بجبجاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے سفید کیڑے گھس آئے۔

    ’’کیوں بے۔ تو نے روز کا ڈھرہ بنالیاہے۔ مفت میں مال لے جاتا ہے؟‘‘ اس کے پیچھے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے وہ لحیم شحیم پہلوان جیسا نظر آنے والا آڑھتی کھڑا تھا۔وہ اپنےدونوں ہاتھ زمین پر ٹیکتے ہوئے بمشکل اٹھ سکا۔گرتے وقت شاید اس کی زبان دانتوں کے درمیان پھنس کر بری طرح زخمی ہوگئی تھی۔ کیونکہ اس کے قابل رحم انداز میں کھلے ہوئے اور معافی مانگتے ہوئے منھ سے لگاتار خون بہہ رہا تھا۔ یہی نہیں اس کا سر بھی چوٹ کھا گیا تھا کیونکہ ماتھے پر بھی خون رس آیا تھا میں نے غور کیا کہ زمین پر پڑے ساگ کے ہرے ہرے لیس میں اس کے منہ سے نکلی خون کی سرخی بھی شامل ہوگئی ہے۔ زمین پر یہ کون سی پینٹنگ بن رہی تھی؟ کیا کسی ملک کے پرچم کے لیے کلر اسکیم تیار ہو رہی تھی؟ میں آڑھتی کے اس کمینے اور بے رحم جوتے پر جھپٹ کر وار کرنا چاہتا تھا مگر تب ہی میں نے محسوس کیا کہ میں جن کمزور پیروں میں بندھا ہوا ہوں، وہ اس کی اجازت مجھے نہ دیں گے۔

    ’’سالے۔ آئندہ یہاں سبزیاں بینتے نہ دیکھوں ورنہ تیری ماں۔۔۔‘‘ انسان کے اس غیرانسانی بیٹے نے کہا اور پھر اپنے جوتے کی نوک سے زمین پر عورتوں اور مردوں کے پوشیدہ اعضا کی نہایت صاف تصویریں بنانے لگا۔ مزدوروں اور غریبوں کی کمر پر وار کرنے والا یہ جوتا ایک آرٹسٹ کا برش بھی تو تھا۔اس صبح وہ خالی ہاتھ آڑھت سے واپس آیا۔ اپنے پھٹے ہوئے سر کے ساتھ سڑک پر اپنا خالی ٹھیلا کھینچتے ہوئے۔

    ہر انسان کا سر پھٹا ہوا ہے اور اس کا خون بہہ رہا ہے۔ وہ پھٹے ہوئے اور بہتے ہوئے خون کے ساتھ نہ جانے کہاں بھٹک رہے ہیں۔ یہ ایک المناک مگر مضحکہ خیز سلسلہ بھی ہے۔ انسان کے قدموں کے اس سفر کا گواہ صرف ایک ’جوتا‘ ہے۔ اس کے پیروں کے شعور کے ساتھ وقت کی طرح لپٹا ہوا۔آہستہ آہستہ اس کی کھانسی بڑھنے لگی۔ شام ہوتے ہی اسے تیز بخار چڑھ آتا اور پھر رات بھر کھانسی کاسلسلہ جاری رہتا۔ اس کی بیوی تمام رات جاگ کر اس کا سینہ سہلاتی رہتی جو ربڑ کے غبارے کی طرح پھولتا اور پچکتا رہتا۔

    میں اس کے پلنگ کی پائنتی پڑا پڑا اسے کھانستا ہوا دیکھتا رہتا۔ انسان کی کھانسی میں موت اور خون کی بو چھپی ہوتی ہے۔ اس کی گرمی اور حبس کی طرح جس کے بالکل عقب میں ایک خوفناک بارش کھڑی رہتی ہے۔ ایک ایسے اداکار کی طرح جو اشارہ پاتے ہی پردے کے پیچھے سے نکل کر اسٹیج پر آکھڑا ہوتا ہے۔ میں نے اس بو کو اپنے اندر جذب ہوتے محسوس کیا۔ ’’یہ بو‘‘ اس دن بہت زیادہ تھی جب وہ سرکاری اسپتال کے ایک کمرے میں ڈاکٹروں کے ایک گروپ کے سامنے مجرموں کی طرح سرجھکائے کھڑا تھاسب سے بڑے ڈاکٹر کے ہاتھ میں اس کی ایکس رے رپورٹ تھی۔

    ’’بیڑی پیتے ہو؟‘‘ ڈاکٹر نے پولیس آفیسر کی طرح سوال کیا۔

    ’’پیتا تھا صاحب مگر دوسال ہوئے چھوڑدی۔‘‘ اس نے مجرموں کی طرح اعتراف کیا اور اس کا سر اس جرم کے لیے شرمندگی سے جھک گیا۔ میں اسے اور وہ مجھے خالی خالی نظروں سے تکے جارہے تھے۔

    ’’ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے غور سے ایکس رے کو روشن بلب کے پاس لے جاتے ہوئے کہا۔

    ’’گٹکا کھاتے ہو؟‘‘ ڈاکٹر اس بار تقریباً گرجا۔

    ’’ارے صاحب بالکل نہیں۔ گٹکا تو آج تک چھوا بھی نہیں۔‘‘ وہ خوش ہوکر بولا۔ اس کا سرگویا غرور سے اوپر اٹھ گیا۔ یہ اس کے جرم سے بری ہونے کا ثبوت تھا۔

    ’’ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نےایک طویل سانس لی اور پھر اپنےماتحت ڈاکٹروں کو ایکس رے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انگریزی میں کچھ سمجھانےلگا اور وہ سب با ادب انداز میں اپنے سروں کو جنبش دینے لگی۔

    غریب سبزی فروش بچوں کی طرح خوش ہو رہا تھا کہ شاید آج اتنے بہت سے ڈاکٹر اسے اتنی توجہ کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ مگر میں جانتا تھا کہ بڑا ڈاکٹر ایک بہت ہی خطرناک بیماری کی علامات کے بارے میں اپنے ماتحتوں کو سمجھا رہاتھااور وہ سبزی فروش ان سب کے لیے ایک مینڈک سےزیادہ وقعت نہیں رکھتا تھا۔اپنے ہاتھوں میں چند دوائیاں اور جسم میں چند نادیدہ سیاہ دھبے لیے وہ خوش خوش گھر واپس آیا۔

    ’’اپنے لیے کوئی پھل بھی لے آتے۔‘‘ اس کی بیوی نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔

    ’’پھل؟‘‘ وہ اداس ہوگیا اور اسے اپنے ٹھیلے کے پہیے یاد آگیے۔

    اس شام جب وہ اپنے گھر کے کچے آنگن میں کھڑاتھا، اچانک اسے بہت زور کی کھانسی آئی۔ اس نے کھنکار کر تھوکا تو سارا بلغم خون سے بھرا ہوا تھا۔ وہ گھبراگیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ شاید وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی یہ خون دیکھے۔ جب اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو اس نے خون کو میرے نیچے دبا دیا اور کچی مٹی میں اسے بری طرح رگڑنے لگا۔ اس پوری رات ایک سڑی ہوئی ہوا چلتی رہی۔ یہ حبس اور نمی کی چادر کے نیچے جمی ہوئی ہوا تھی۔ یہ ہوا جب بہتی ہے تو کچھ نہیں ہلتا۔ نہ کوئی چادر، نہ قمیص کا کالر، نہ کرتے کا دامن اور نہ سر کے بال۔ میں اس سڑتی ہوئی ہوا کے دوکناروں کے بیچ، اس کی پائنتی پڑا خاموش اسے بخار میں آہستہ آہستہ جلتا ہوا دیکھتا رہا۔ اس کی بیوی کئی راتوں کی جاگی ہوئی تھی۔ آج اس کی آنکھ لگ گئی۔

    رات میں کتنی بار اسے منہ سے خون آیا مجھے یاد نہیں۔ مجھے یاد ہے تو صرف اتنا کہ ہر بار ایسا ہونے پر وہ بخار سے جلتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے مجھے تھام کر اس خون کو کچی زمین میں رگڑ رگڑ کر جذب کرنے کی کوشش کرتا۔ اس کے بخارزدہ ہاتھوں کے لمس سے میں پگھل پگھل کر بہہ جانے کو ہوا۔ صبح ٹھیک اسی وقت جب پو پھٹ رہی تھی اور جو اس کے ٹھیلا لے کر گھر سے نکلنے کا وقت تھا، اچانک اس کی کھانسی رک گئی۔ رات بھر اس کی بیوی کو اس نہ رکنے والی کھانسی نے اتنا نہیں چونکایا تھا جتنا کہ اس خاموشی نے۔

    عجیب خاموشی تھی۔

    وہ جلدی سے اٹھی۔

    زمین پر پلنگ کی پائنتی کے پاس خون ہی خون بکھرا ہوا تھا۔ میرا تلا اس خون میں چپکا ہوا تھا۔

    دور کسی مسجد میں فجر کی اذان ہوئی۔ اس کی بیوی کے بین بلند ہوئے۔

    دیکھا آپ نے! میرے پیروں کے نیچے کیا کیا کچلا گیا۔ دبی مری گھاس ،گوبر، کیڑے مکوڑے، سوکھے پتے، کیچڑ اور سڑی ہوئی سبزیاں۔ مگر کیا آپ واضح طور پر یہ محسوس نہیں کرتے کہ مجھے بار بار خون سے لتھڑنا پڑتا ہے۔ خون کو پھلانگنا پڑتا ہے۔ میں اس خون کو کتنی بار پھلانگوں؟مرنے والے کی بیوی کا ایک غریب بھانجہ کسی گاؤں سے آکر اس شہر کے کالج میں پڑھنےلگا تھا۔ سوئم کے روز جب وہ فاتحہ میں شرکت کے لیے آیا تو مرنےوالے کی بیوی نےمجھے ایک گیلے کپڑے سےصاف کیا اور پھر اسے سونپ دیا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ لڑکے کے کپڑے کے بنے ہوئے جوتے بالکل پھٹ گیے تھے دوسرے یہ بھی مردہ لوگوں کی بہت سی چیزیں دوسروں کو ثواب کی غرص سے دینے کا رواج تو رہا ہی ہے اور اگر وہ دوسرے اس کی مستحق ہوں تو یہ عین نیکی ہے۔

    وہ لڑکا یقیناً مستحق تھا۔ ٹیوشن پڑھا پڑھا کر وہ اپنی تعلیم کا خرچ پورا کیا کرتا تھا اکثر بے چارے کو فاقہ بھی کرنا پڑتا تھا کیونکہ وہ جس کوٹھری میں کرائے پر رہتا تھا، اس کا کرایہ ادا کرنا بھی اس کے لیے مشکل تھا۔ مگر وہ تھا بہت ذہین اور محنتی۔ میں اسے تمام رات لالٹین کی روشنی میں پڑھتے ہوئے دیکھتا تھا۔ جیسا کہ میرا مقدر رہا تھا، میں اس کے پلنگ کے نیچے پڑا پڑا تمام رات جاگ کر گزارتا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ جوتے کو نیند نہیں آتی ہے جوتا بھی سوجاتا ہے، آپ کے وفادار گھوڑے یا کتے کی طرح مگر فی الحال زمین پر جو حالات چل رہے ہیں، ان میں ایک جوتے کی آنکھ لگ جانا ممکن نہیں ہے۔

    وہ جس قسم کی کتابیں پڑھتا رہتا تھا وہ ایک قسم کی داخلی غلط فہمی پر مبنی تھیں۔ کتابوں میں چھپے ان الفاظ کے کوئی معنی نہیں تھے۔ یہ صرف استعاروں کی ایک اندھی فوج تھی جسےزمین پر بچھائی گئی بارود کی سرنگوں سےگزر کر پرزے پرزے ہوکر اڑ جانا تھا۔ مگر افسوس کہ یہ حقیقت بھی صرف ایک جوتا ہی جانتا تھا۔

    لڑکا شہر کے ایک دولت مند اور بارتبہ شخص کی بیٹی کو بھی ٹیوشن پڑھانےجایا کرتا تھا۔ لڑکی عمرمیں اس سے بس تھوڑی ہی چھوٹی ہوگی۔ جیسا کہ ان حالات میں اکثر ہوا کرتا ہے، دونوں میں زبردست عشق ہوگیا۔ اس عشق میں ان دونوں سے زیادہ لطف مجھے آتا تھا کیونکہ ان کی محبت کے درمیان میں وہی کام انجام دے رہاتھا جو ایک گلاب کا پھول انجام دیتا ہے۔

    وہ لڑکی خوبصورت تو نہیں تھی مگر اس کی چال بہت پرکشش تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ زمین پر کسی ملکوتی حسن کی پرچھائیں کی طرح چل رہی ہو۔ یا پھر اس کے وہ دوپتلے پتلے سے ہاتھ جو اکثر لکڑیوں کی طرح نظر آتے تھے اور جن میں گوشت پوست کی ارضیت کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ یہ ہاتھ دوسفید خشک لکڑیوں کی طرح پاکیزہ تھے۔ ایسے پاکیزہ ہاتھ جن میں کانچ کی چوڑیوں کو بجتے ہوئے یقیناً شرم آئے گی۔

    وہ دونوں جب بھی ملتے تو لڑکی اس سے جوتے اتارنے کی فرمائش کرتی۔ لڑکا میرے فیتے کھول کر مجھے اپنے پیروں سے نکال لیتا۔ تب لڑکی آہستہ سے اپنےنازک پیر میرے اندر ڈال دیتی۔ میں اس کے پیروں سے بہت بڑا تھا۔ اس کے پیر جب میرے اندر داخل ہوتے تو مجھے احساس ہوتا کہ کوئی ملائم خرگوش میرے اندر چھپ کر سوگیا ہے۔

    لڑکی کو یہ عجیب خبط تھا۔ شاید ہر سچے عشق میں ایک مقدس دیوانگی کا عنصر ضرور شامل رہتا ہے۔ مجھے پہن کر وہ فرش پر چکر لگانا شروع کردیتی۔ وہ اس طرح چلتی جیسےاڑ رہی ہو۔ مجھے محسوس ہوتا جیسے میں سخت زمین پر نہیں بلکہ ہوا کی ایک تنی ہوئی قنات پر چل رہا ہوں۔ مگر مجھے اس بات پر بہت زیادہ شرمندگی ہوتی تھی کہ میرے اندر ایڑی کی طرف کمبخت ایک کیل ڈھیلی ہوکر اوپر کی طرف ابھر آئی تھی۔ یہ کیل لڑکی کے نازک پیر کی ایڑی پر ضرور چبھتی ہوگی۔ مجھے اپنی خستہ حالی پر بھی شرم آتی تھی۔ لڑکے کو کبھی اتنی توفیق ہی نہیں ہوتی کہ وہ مجھے کسی موچی کے پاس لے جاکر تھوڑی سی مرمت کروا دیتا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ اگر یہی حالت رہی تو بہت جلد میرے تلے میں سوراخ ہوجائیں گے۔

    لڑکا اسے فرش پر چلتا ہوا دیکھتا رہتا۔

    ’’چلو اب جیومٹری پڑھ لو۔‘‘ آخر وہ تھک کر کہتا۔

    ’’میں تو نہیں پڑھوں گی۔‘‘ لڑکی اپنے قدم گنتے ہوئے کہتی۔

    ’’پڑھ لو۔ تمہاری جیومٹری بہت کمزور ہے۔‘‘

    ’’اس جوتے کی جیومٹری کیا ہے؟ اچھا بتاؤ یہ تم نے کتنے میں خریدا تھا؟‘‘ وہ مسکراکر سوال کرتی لڑکا خاموش اور اداس ہوجاتا تھا۔ پھر وہ فرش پر چکر لگاتے لگاتے تھک کر بیٹھ جاتی اور لڑکے کو محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگتی۔ یہ ان دو محبت کرنے والوں کا روز کا کھیل تھا جس میں کسی چاکلیٹ، آئس کریم، ریستوران یا بائیک کے بجائے ایک پھٹے جوتے کا ہی سب سے اہم رول تھا۔

    سردی جارہی تھی۔ یہ دن بڑے عجیب ہوتے ہیں، موسم گرم ہونے لگتا ہے۔ مگر اتنابھی نہیں کہ لوگ اپنے سوئیٹر اتار پھینکیں۔ جب ہوا زیادہ گرم ہوجاتی ہے تو ان دنوں اولے گرتے ہیں۔ اس شام بھی ہوا گرم تھی اور آسمان بادلوں سے گھرا ہوا تھا۔ ایسے بادل حبس پیدا کرتے ہیں اور ہر چیز بے وجہ ہی دھول میں لپٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر وہ زیادہ دور نہیں تھی یعنی بارش ۔وہ اس کے پیچھے ہی کھڑی تھی اچانک اس نے حبس کو ایک طرف کیا اور نکل کر سامنے آئی۔ زوردار گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہوگئی۔

    لڑکا لڑکی کے گھر جارہا تھا۔ ادھر کی گلیوں میں پانی بہت بھر جاتا تھا۔ نالیاں اور پرنالے امنڈنے لگتے۔ ایسی ہی ایک سڑک پر وہ پانی میں پھنس گیا۔ بارش رکنے کانام نہیں لے رہی تھی۔ سڑکوں، گڈھوں، نالیوں اور ندیوں میں پانی بھرنے لگا۔ لمبی ویران سڑک پروہ گھٹنوں گھٹنوں چڑھ آئے پانی میں اپنی پتلون کے پائنچے اٹھائے خاموش کھڑا تھا۔ میں پانی میں ڈوب چکا تھا۔ اچانک رات آگئی۔ بس ایسا لگا جیسے بارش رات میں بدل گئی تھی۔ آسمان پر ایک بار بادل بہت زور سے گرجے اور تب جاکر کہیں وہ اولے گرنا شروع ہوئے۔ گرتے اور ناچتے ہوئے روئی کے گالے جیسے سفید اولے پانی کے اوپر تیر رہے تھے۔ آسمان سے زمین تک اولوں کی ایک سفید باریک سی چادر تن گئی اور جس کے ڈھیلے ہوتے ہوئے پنجوں سے نکل کر ہوا بھی چلنے لگی۔ سردی بڑھ رہی تھی۔ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ وہ مجھ میں آکر اکٹھا ہونے لگی۔لڑکا سردی سے بری طرح کانپتا ہوا اپنے بھیگے ہوئے کپڑوں سمیت ایک بند دوکان کے ٹین کے شیڈ کے نیچے آکھڑا ہوا۔ ہوا بہت تیز تھی اور شیڈ اس سے بری طرح پھڑ پھڑا رہا تھا۔

    بہت دیر بعد بارش رکی۔ میرے اوپر تھکان طاری ہونے لگی۔ میں پانی میں تر ہوکر بے حد بوجھل ہوگیا تھا۔ مجھے عجیب سی بے چینی محسوس ہورہی تھی۔ جس طرح زلزلہ آنے سے پہلے حشرات الارض بے چین ہوکر ادھر ادھر نکل کر بھاگتے ہیں اس طرح ایک جوتا بھی زمین کے تمام پوشیدہ اور پراسرار ارتعاشات کو خوب سمجھتا ہے۔اس رات بہت دیر ہوگئی تھی جب لڑکا لڑکی کے گھر پہنچا۔ میری مرضی نہیں تھی کہ اس وقت وہ وہاں جائے۔ لڑکے کو عقل کا استعمال کرنا چاہیے تھا۔ عقل خطرے کے بدلے میں اداکیے جانے والا ایک تاوان ہے۔ یقیناً لڑکے نے یہ تاوان ادا نہیں کیا۔

    ’’تم آج۔ ایسی بارش میں کیسے آگئے؟‘‘ لڑکی نے کہا اور اس کی آنکھیں غیرمعمولی تہہ تک حساس نظر آئیں جیسے گہرے پانیوں میں رہنے والی مچھلیوں کی ہوتی ہیں۔

    ’’آتا کیسے نہیں۔‘‘

    ’’نہیں۔ تمہیں اس وقت نہیں آنا چاہیے تھا۔ اسے خبر لگ گئی ہے اور میں آج گھر میں اکیلی ہوں۔‘‘

    ’’مجھے تمہارے اکیلے پن سے کوئی غرض کبھی نہیں رہی۔‘‘

    اس کے کپڑوں سے پانی ٹپک رہا تھا اور میں تو بھیگ کر بالکل شل ہوچکا تھا۔

    ’’تمہیں سردی لگ رہی ہے؟‘‘

    ’’نہیں تو۔‘‘

    ’’کانپ جو رہے ہو۔‘‘

    ’’نہیں تو۔‘‘

    ’’اگر بخار آگیا؟‘‘

    ’’نہیں آئے گا۔‘‘

    ’’تم ضدی ہو۔‘‘

    ’’تم آج جوتے نہیں پہنوگی؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’کیونکہ وہ بھیگ گیے ہیں؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’تمہیں سردی لگ رہی ہے؟‘‘ تم کانپ رہے ہو؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’میرے قریب آجاؤ۔‘‘

    ’’نہیں،تم جوتے پہن لو۔‘‘

    ’’اچھا!‘‘

    لڑکی اس کے قدموں کے پاس جھک آئی اور میرے فیتے کھولنے لگی جو گیلے ہونے کے باعث بڑی مشکل سے کھل پائے۔ وہ اسی طرح چپ چاپ کھڑا رہا۔ اس کے جسم سے ٹپکتے ہوئے پانی نے فرش کو گیلا کرنا شروع کردیا تھا۔لڑکی نے اپنے دبلے پتلے، لکڑیوں جیسے دونوں ہاتھوں میں مجھے اٹھایا۔ پہلے اس نے اپنے دائیں پیر میں میرے نصف وجود، میرے جڑواں کو ڈالا پھر دوسرے ہاتھ سے مجھے اٹھاکر غور سے دیکھنےلگی۔ وقت محبت کے سکھ کے ساتھ، ہر قسم کی فکر اور اندیشے کو غبار کی طرح اڑاتا ہوا، بے نیازانہ، ایک مست جھومتے ہوئے ہاتھی کی طرح چلا جارہاتھا کہ اچانک وقت پردکھ ایک چمکدار خنجر کی طرح لپکا۔

    (۲)

    سب سے پہلے تو وہ ماں کی ایک گندی گالی تھی جو فضا میں گونج کر رہ گئی۔ کیا گالی سے زیادہ ہلاکت خیز دنیا کی کوئی اور شے بھی ہوسکتی ہے؟ گالی زبان کو اس طرح مار ڈالتی ہے کہ اپنی موت کے ساتھ ہی زبان ایک خوفناک بھوت بن جاتی ہے۔ گالی زبان نہیں، مری ہوئی زبان کا وہ بھوت ہے جو یوں تو انسان کے جسم کو ذلیل کرتا ہے مگر اس کی مار درحقیقت انسان کی روح کو سہنا پڑتی ہے۔

    ’’تیری حرکت بہت دنوں سے دیکھ رہا تھا۔ آج تیری بوٹی بوٹی الگ کردوں گا۔ بھڑوے‘‘ ایک ایسی آواز نے کہا جو جاہل عورتوں کی طرح بیٹھی ہوئی، مہین اور جلن و حسد سے بھری ہوئی تھی۔ مگر جن ہونٹوں سے یہ آواز نکلی تھی وہ عورت کے ہرگز نہیں تھے۔ لڑکی گھبراکر دور کرنے میں جاکھڑی ہوئی۔ میں اس کے ہاتھ سے پھسل کر نہ جانے کب زمین پر گر چکا تھا۔ بس اب ہوشیار ہوجائیے کہ اسی مقام سے میرے خالص اکیلے پن کی ابتدا ہوتی ہے۔ میرے ’میں‘ کےاندر سےمیرا ’نصف وجود‘ باہر نکل گیا ہے۔

    لڑکا ننگے پاؤں اسی طرح اس جگہ کھڑا رہا۔ اس کے کپڑوں سے ابھی ابھی پانی ٹپک رہا تھا۔ مگر وہ کانپ نہیں رہا تھا۔ وہ تو اس وقت بھی نہیں کانپا جب وہ فحش اور مہین آواز اس کی طرف لوہے کی ایک سیاہ وزنی سلاخ لیے آگے بڑھتی جارہی تھی۔

    ’’نہیں۔ خدا کے لیے اسے نہیں مارو۔ مجھے تمہاری ہر بات منظور ہے۔‘‘ لڑکی کی چیخ سے وہ کونا کانپ اٹھا جہاں وہ ایک پیر میں جوتا پہنے سہمی اور سمٹی کھڑی تھی۔ میں فرش پر، تھوڑی دور پڑا بے بسی کے ساتھ یہ دل ہلادینے والا منظر دیکھے گیا۔ لوہےکی وزنی سلاخ کی چوٹ کے نیچے میں نے اس کے سر کی ہڈیوں کو چٹختے ہوئے محسوس کیا۔ اس کے منہ سے ایک عجیب سی آواز نکلی اور وہ فرش پر ڈھیر ہوگیا۔ ہوا میں خون کی بو شامل ہوگئی۔ لڑکی کامنھ کسی ہذیانی چیخ کے لیے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس کے پتلے پتلے لکڑیوں جیسے ہاتھ خلا میں پھیل گیے۔ لڑکےکے سر سےخون کا فوارہ پھوٹ رہا تھا۔ چند ہی لمحوں میں بہتا ہوا خون کونے میں آکر لڑکی کے قدموں کو چھونے لگا۔ اس کے ننگے پیر کو بھی اور اس پیر کو بھی جس میں جوتا۔ یعنی میرا ہمشکل یا میرا آدھا وجود موجود تھا۔

    عورتوں جیسی وہ مہین مگر فاحشہ آواز لڑکی کو اس حالت میں کسی جانور کی طرح ہنکاتی ہوئی کمرے سے باہر دور ایک رکی ہوئی بارش کے نیچے پھیلے بیکراں اندھیرے میں لے گئی۔ اب میں اس تاریک کمرے میں اس کی لاش کے ساتھ بالکل اکیلا تھا۔ اب میں صرف میں تھا۔ بالکل اس لاش ہی کی طرح اکیلا جس کی ہم شکل روح اس کے جسم سےنکل کر کہیں دور تاریکی میں مل گئی تھی۔

    فرش پر خون اکٹھا ہوتا ہی جارہاتھا وہ اس پانی سے گلے مل رہا تھا جو لڑکے کے بارش سے تر کپڑوں سے ٹپکا تھا۔ مگر یہ کتنی تعجب خیز بات تھی کہ اس بار خون کی ایک چھینٹ بھی مجھ تک نہیں پہنچی تھی۔ میں اس دفعہ بے داغ تھا۔ کیا اس لیے قدرت نے میرے ساتھ یہ مذاق کیا تھا کہ میرے آگے کی تمام زندگی اپنے ساتھی کی تلاش میں گزرنا تھی؟ وہ جوتا جو لڑکے کے خون میں پوری طرح ڈوبا ہواہے۔ مجھے اس خون بھرے جوتے کے نشان کے ساتھ ساتھ چلنا ہے۔ وہ نشان ہی اس تک پہنچنے کا ایک راستہ یا سراغ ہیں۔ اپنے ساتھی کی تلاش کے لیے میں نے اسی فرش پر پڑے پڑے انتہائی مجبوری کے عالم میں پتہ نہیں کس سےدعامانگی۔ کاش میں چل سکتا۔ انسان کے پیر کا سہارا پائے بغیر بھی چل سکتا۔

    اور پھر وہ کرشمہ ہوا جس پر کسی کو یقین نہیں آئے گا۔ میرے اندر ایک سنسنی سی پھیلنے لگی۔ میں نے اپنے جسم کی پوری طاقت کو اپنی ایڑی اور پنجے پر اس طرح اکٹھا کیا جس طرح کوئی برسوں پرانا فالج زدہ شخص بےکسی کے عالم میں کرتا رہتا ہے۔ مگر مجھے واقعی محسوس ہوا کہ میں چل سکتا ہوں۔ کیا کوئی بھٹکتی ہوئی آتما میرے اندر داخل ہوگئی تھی؟ مجھے نہیں معلوم مگر واقعتاً میں چلنے لگا۔ اکیلا اور بغیر کسی انسانی پیر کے میں اس جگہ کو چھوڑ کر چل دیا جہاں ایک لاش پڑی ہوئی تھی۔ میں نے غور کیا کہ میرے چلنے سے زمین پر کوئی نشان نہیں پڑ رہاتھا۔ کیا میں اڑ رہاتھا؟ جس طرح پرندے زمین پر اکثر اپنے قدموں کےنشان نہیں چھوڑتے، برخلاف چوپاؤں کے۔

    اندھیرے میں اپنے جڑواں جوتے کے خون بھرے نشانوں پر میں چلتا ہی رہا۔ نہ جانے کتنی دیر تک اور کہاں تک میرے سر پر آدھی رات سائیں سائیں کرتی رہی۔ مگر افسوس کہ وہ نشان ایک خاص مقام پر جاکر غائب ہوگیےجہاں صرف ایک سوکھی جھاڑی کھڑی تھی۔اس کے بعد مجھ پر کیا گزری، یہ بیان کرنا مشکل ہے۔ میرے حافظہ میں صرف تصویریں اور آوازیں ہیں۔ کوشش کروں گا کہ انہیں سے اپنی داستان کو آگے بڑھا سکوں۔ مشکل یہ بھی ہے کہ ان تصویروں پر خون کے چھینٹے ہیں اور ان آوازوں سے خون کے بھبکے آتے ہیں۔

    آپ اب یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ آخر اس جوتے کے سر پر خون کیوں سوار ہے؟ نہیں یہ خون میرا تکیہ کلام ہرگز نہیں ہے۔ اگر آپ ایک جوتے کے سالہا سال کے تجربے سےکچھ علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یقین کریں کہ یہ زمین صرف خون کی بارش مانگتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر طرف صرف خون ہی خون ہے۔ اس راز کو ایک جوتے سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ (تو خون کا بار بار ذکر کیے بغیر میں رہ نہیں سکتا اور آپ کو آزادی ہے کہ اگر اس سے آپ کے لطیف جمالیاتی احساس کو ٹھیس پہنچتی ہے تو آپ بیچ میں سے ہی اٹھ کر چلے جائیں میری داستان کو ادھوراچھوڑ کر۔)

    اب آگے کی میری ساری داستان دراصل اس کربناک سفر اور تلاش کی روداد ہے جس میں زمین نے میرے تلے کو بری طرح روند ڈالا ہے۔ میرے اندر پیوست تمام کیلیں اب زیادہ ابھر آئی ہیں۔ ان کیلوں پر انسانوں کے لٹکتے ہوئے گندے کپڑوں کا بھی بوجھ شامل ہے۔ میری سلائیاں ہر طرف سے ادھڑنے لگی ہیں۔ میرے لمبے لمبے فیتے دھجیاں بن کر سڑک پر رگڑ کھاتے رہتے ہیں۔ سڑک پر بغیر کسی انسانی پیر کا سہارا لیے چلتے جانے کی سکت بھی اب مجھ میں کم ہوگئی ہے۔ ویسے بھی یہ کرشمہ اب کم ہی ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ہی یہ طاقت غیرمحسوس طریقے پر میرے اندر داخل ہوجاتی تھی۔ مگر کیونکہ میری زندگی کا مقصد صرف اپنے نصف وجود کو تلاش کرنا تھا اس لیے پھر بھی میں چلتا رہا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں کتنی بار خون کے ان نشانوں کے اوپر چلا جو ایک سوکھی جھاڑی تک جاکر غائب ہوجاتے ہیں مگر افسوس۔ افسوس!

    لیکن ایک دن ایک واقعہ پیش آیا کہ اس کے بعد میری ہمت دوبارہ اس طرح چلنے کی ہوئی ہی نہیں۔ ہوا یہ کہ چاندنی رات میں ندی کے پرانے پل پر ایک سنسان رات میں میں اکیلا چلا جارہا تھا کہ اچانک کسی گلی سے نکل کر پل پر دوتین لوگ سامنے آگیے۔ انہوں نے پہلے تو مجھے کوئی عجیب الخلقت جانور سمجھا تھا مگر بعد میں جب وہ قریب آئے میں انہیں صاف صاف نظر آگیا کہ اس اکیلی سڑک پر ایک خستہ حال جوتا تقریباً رینگتا ہوا چلا جارہا ہے۔انسانی پیروں کے بغیر جوتے صرف دوکانوں میں یا کہیں رکھے ہوئے ہی مناسب لگتے ہیں۔ انہیں اس طرح چلتے ہوئے دیکھنے کے لیے انسان کے حواس و اعصاب شاید کبھی تیار نہ ہوں وہ دہشت زدہ ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔

    اس کے بعد شہر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ کسی کے ایک پیر کا جوتاآدھی رات میں سڑکوں اور گلیوں میں آپ ہی آپ چہل قدمی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ لوگ خوف زدہ رہنے لگے۔ انسان سب سے پہلے جس بات پر یقین کرتا ہے اسی سے خوف بھی کھاتا ہے۔ یقین اور خوف کا رشتہ بڑا بے تکا ہے۔ خوف کے اظہار کا سب سے پرانا، فطری اور روایتی طریقہ لرزنا اور کانپنا ہے۔ جب کہ اعتقاد قبول کرلیے جانے کااور اپنی دنیا میں داخل کرلیے جانے کا عمل ہے۔ کانپ کر اور لرز کر ہم اپنی روح کے صدر دروازے کی کنڈی نہ کھولنے کی ایک احمقانہ حرکت کرتے ہیں تاکہ آنے والا داخل نہ ہوسکے۔ باہر ہی کھڑا رہے۔

    تب مجھے احساس ہوا کہ میرا اس طرح اکیلا سڑکوں پر گھومتے پھرنا مناسب نہیں ہے، اس سے شہر کے امن و امان میں بری طرح خلل پڑسکتا تھا۔ اس لیے میں نے تہیہ کیا کہ اب بے حد ضرروری ہونے پر ہی اپنی اس طاقت کااستعمال کروں گا۔ ویسے بھی یہ طاقت کسی خاص وقت میں ہی میرے اندر آتی تھی ۔وہ کون سا وقت ہوتا تھا یہ میں یقین کے ساتھ کہہ نہیں سکتا۔مگر وہ وقت جلد ہی آگیا۔ ان دنوں میرا جسم بالکل ہی جواب دے گیا تھا۔ میں کبھی کسی سڑک کنارے یا گلی میں نالی کے پاس خاموش پڑا رہتا۔ میرا تلا اب مجھ سے اکھڑ کر ایک خزاں رسیدہ پتے کی طرح ہلنے لگا تھا جیسے جلد ہی گرجانا تھا۔ آخری بار ارادہ کرکے میں پھر ایک رات ہمت سے کام لیتے ہوئے اسی سوکھی جھاڑی کی طرف چلا۔ ان خون بھرے نشانوں پر قدم رکھتے ہوئے جواب مٹنے لگے تھے اور صرف ایک جوتا ہی انہیں پہچان سکتا تھا۔

    میں چل رہا تھا مگر میرے ساتھ چلنے والی ہمت میرے سر پر چپت رسید کرتے ہوئے آگے آگے بھاگ کر میرا منہ چڑا رہی تھی۔ میں اپنی ہمت کا تعاقب کرنے کے لیے کھسیانا ہوکر پھولتی کانپتی سانسوں کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ اندھیرے میں بکھری ہوئی ریت، اینٹوں کے ڈھیر، مٹی کے بڑے بڑے تودوں اور گوبر میں پٹے ہوئے بھس اور گھاس کو میں پھلانگتا رہا۔ مگر مجھے یہ محسوس نہیں ہوا جیسے میں نے کسی ٹھوس مادے یا شے کو پھلانگا ہے۔ مجھے لگا جیسے میں نے اندھیرے کو کود کر پھلانگا ہے مگر جہاں رکا ہوں وہاں بھی میرے نیچے اندھیرا ہی ہے۔کسی نہ کسی طرح اس سوکھی جھاڑی کے پاس پہنچ کر ایک بھیانک تھکن، اکیلے پن اور ناامیدی ک گے گہرے احساس میں ڈوبتا ہوا میں بے دم ہوکر گر پڑا۔ اور تب میں زندگی میں پہلی بار اس طرح رویا۔ یہ رونا کوئی عام رونا نہیں تھا۔ یہ ایک بدنصیب، دم توڑتے ہوئے بوڑھے جوتے کا رونا تھا جو خلا میں یا شونیہ میں اوپر کی طرف اٹھتا جاتا ہے جسے سن کر ویران راتوں میں یا تو کتے روتے ہیں یا ٹوٹی ہوئی منڈیروں پر آوارہ بلیاں۔

    جب صبح ہوئی تو کسی نے ایک پھٹے حال، ایک پیر کے اکیلے اور بیکار جوتے کو وہاں سے اٹھاکر کوڑے کے ایک بڑے اور بدبودار ڈھیر پر ڈال دیا جس کے نیچے گندا پانی سڑ رہا تھا جس میں کیچوئے اور دوسرے زمین کے کیڑے رینگتے پھرتے تھے۔ چیلوں اور کوؤں کا جھنڈ وہاں ہر وقت موجود رہتا تھا جن میں کچھ بگلے بھی شامل ہوگیے تھے۔ ایک عرصہ گزر گیا۔ ایک دن جب میں غلاظت میں لپٹا خاموش پڑا تھا تو کواڑ بیننے والے کچھ بچے اپنی زخمی انگلیوں کےساتھ مجھے اٹھاکر اور ایک بوری میں ڈال کر وہاں سے لے گیے تھے۔ میں اس جگہ کا نام نہیں جانتا جہاں لے جاکر مجھے اس بوری سے نکالا گیا تھا۔ دراصل میں بہت پہلے ہی مرچکا تھا۔ ایک جوتے کی موت انسانوں کی موت سےمختلف ہوتی ہے۔ وہ بس اتنی ہی معمولی اور غم کی سنسنی خیزی سے یکسر خالی ہوتی ہے۔ جوتے کی زندگی اور اس کی موت میں کوئی فرق محسوس کرپانا ممکن نہیں تو اس کے پہلے جنم کو دوسرے جنم سے کس طرح الگ کرکے دیکھا جائے۔ مگر بہرحال میں نے دوسرا جنم لیا۔

    مجھے یاد آتا ہے کہ کس طرح مجھے نہ جانے کون کون سی مشینوں میں ڈال کر پگھلایا گیا۔ میرا سارا جسم کالے رنگ کے چمکدار کولتارمیں بدل کر بہنے لگا۔ اور میرے اندر سے ایسی بدبو پھوٹنے لگی جو ہڈیوں اور جانوروں کی سڑتی ہوئی کھالوں سے نکلتی ہے۔ جس طرح انسان کومٹی سے اور اجنہ کو آگ سے بنایا گیا ہے اسی طرح میں ان کھالوں کی مخلوق ہوں جس کے پاس آنے کے لیے انسانوں کو اپنی ناک پر رومال رکھنا پڑتا ہے۔ اس پگھلے ہوئے کولتار کو ایک شکل دے دی گئی۔ یہ میرا دوسرا جنم تھا۔ میری شکل و صورت یا ڈیزائن اب بالکل دوسری طرح کا تھا۔ میرے اوپر بھورے رنگ کا ایک لیپ چڑھایا گیا۔ میں اب بجائے کالے کے ایک بھورا جوتا بن گیا۔ میری ٹو اب پہلے سے زیادہ چوڑی اور چوکور کردی گئی۔ میری ایڑی کو ضرورت سےزیادہ اونچا بنایا گیا۔ یا تو یہ جدید ترین فیشن کی ضرورت کے مطابق کیا گیا ہوگا یا شاید ان اطراف میں بے حد پستہ قد لوگوں کی بہتات ہوگی۔ مگرمیری روح؟ ہر جنم میں کمبخت روح تو وہی پرانی رہتی ہے۔ حافظے کی جلتی بجھتی وہی پرانی زنجیر۔ ورنہ کرموں کا پھل کون بھوگے گا۔

    افسوس کہ ایک گڑبڑ اور تھی اور وہ یہ کہ میری ہی طرح پتہ نہیں کون سے بدنصیب ایک پیر کے کسی جوتے کو بھی پگھلاکر میرا جڑواں بنا دیا گیا۔ یہ میرے زخمو ں پر نمک چھڑکے جانےکے برابر تھا۔ اگرچہ وہ دیکھنے میں بالکل میری طرح لگتا ہے مگر وہ میرے وجود کاحصہ نہیں ہے۔ وہ کسی دوسری روح کا ٹکڑا ہے۔ وہ میرا اصل جڑواں نہیں ہے اور یہ بہت بھیانک اور ساتھ ہی اُباؤپن کی بات بھی ہے کہ کوئی آپ کا بالکل ہم شکل ہو لیکن دراصل اس سے آپ کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ آگے چل کرمیری زندگی میں ایسے ایسے خوفناک وقت آئے ہیں کہ مجھے چکر آگیے ہیں اور میں اس پیر میں اچانک ڈھیلا پڑگیا ہوں جو مجھے پہنے ہوئے تھا مگر میرے اس نقلی ہم شکل کی غبی اور ٹھس روح پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ میں نے اسے کبھی پریشان یا ہراساں ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہے ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے قطعی اجنبی ہیں اور میں پہلے ہی کی طرح ’میں‘ ہوں۔ اکیلا بالکل اکیلا۔ مگر ممکن ہے کہ اس بے چارے کو بھی میری ہی طرح اپنے نصف وجود یعنی ’اصل جڑواں‘ کی تلاش ہو۔ آخر اس تلاش کے واسطے ہی تو میں نے اپنے اس بھدے اور ناخوشگوار جنم کو بھی خوش دلی کے ساتھ قبول کرلیا تھا۔

    دوبارہ جنم لینے کے بعد اب میں صرف نچلے طبقے کے غریب لوگوں کے پیروں کے ےہی لائق ہوں۔ میں اب کسی دوکان کے شوکیس میں سجاکر رکھے جانے کے لائق نہیں کیونکہ بنیادی طور پر اب میں ایک سیکنڈ ہینڈ جوتا ہوں جسے فٹ پاتھ پربیٹھے موچی یا اس کے ٹھیلے سے ہی خریدا جاسکتا ہے۔ تو اس طرح میں پھر تیار ہوا۔ ایک نئے عذاب کا طوفان جھیلنے کے لیے۔ میں پھر زمین پر چلنے کے لیے تیار ہوا۔

    کبھی کبھی سوچتا ہوں کاش اس جنم میں میری آتما بھی بدل جاتی! میں تو اس بودھ بھکشو کی طرح تھا جس کے سر کے بال منڈوادیے گیے ہوں۔ زبردستی۔ اور ہاتھ میں پیالہ تھما دیا گیا ہو مگر اس سے بھی بھیانک بات یہ ہے کہ اس کے باوجود بھکشو کی آتما نہیں بدلتی۔ اپنی خواہشات اپنےگناہوں اور دکھوں کا بوجھ اپنی کمر پر لادے ’وہیں‘ اسی طرح کھڑی ہوئی پریشان حال آتما۔ بدھا نے آتما کے وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ مگر میں جانتا ہوں کہ وہ ہے اور یہ بھی کہ وہ کبھی نہیں بدلتی۔افسوس کہ جب میرا دوبارہ جنم ہوا تو وہی لتاڑی ہوئی اور چڑچڑی روح پھر سے میرے نئے مگر کمزور جسم میں داخل ہوئی۔

    آپ کو یاد ہوگا،میں نے کہا تھا کہ اب میرے پاس تصویریں اور آوازوں کا ایک بے ربط سلسلہ ہے۔ اس سلسلے میں مجھے یاد نہیں کہ میں کون کون سے پیروں میں پہنا جاتا رہا اور کس طرح یہ پیر بدلتے گیے، ایک کے بعد ایک کرکے۔ میراحافظہ اس مقام پر آکر خاموش سا ہوجاتا ہے۔میں صبح صبح چہل قدمی کرنے والوں کے پیروں میں بھی پہنا گیا ہوں حالانکہ میری ہیئت اس کے لیے مناسب نہیں تھی۔ وہ سب اپنا وزن کم کرنے کے لیے یا اپنی شکر نارمل کرنے کے لیے پارکوں میں اور سڑکوں پر ٹہل رہے ہیں۔ کبھی کبھی تو وہ دوڑنے لگتے ہیں۔ میں اس دوڑ میں ہمیشہ پیچھے رہ جاتا۔ میں کوئی ’اسپورٹ شو‘ تو تھا نہیں۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انسانوں نے دنیا کو اتنا خراب کیوں کرڈالا ہے جس میں صحت ٹھیک رکھنے کے لیے بوڑھوں کو بچوں کی طرح دوڑنا پڑتا ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔

    مجھے بھی ایک بوڑھا ہی پہن کر ٹہلنے نکلا کرتا تھا۔ اس کے مالدار بیٹوں نے اسے ’’واکنگ شو‘‘ خرید کر دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کیونکہ مالدار بیٹوں کا آج کل ذرا ہاتھ تنگ تھا۔ مگر میرے خیال میں اپنے باپ کو ابھی تک زندہ رہنے کی سزا دے رہے تھے شاید اسی لیے ٹہلنے کے مقصد کے لیے یکسر غیرمناسب ایک سیکنڈ ہینڈ بے حد اونچی ایڑی والا جوتا ہی ان کو اپنے باپ کے لیے دستیاب ہوسکا تھا۔

    ’مجھے کہنے دیجیے‘ کہ بوڑھوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ ننگے پیر رہا کریں۔ جوتے ان کا زیادہ ساتھ نہیں دے سکتے۔ بوڑھے اکثر پھیل جاتے ہیں اور زیادہ تر اپنے کولہے کی ہڈی تڑوا بیٹھتے ہیں۔ انہیں گرنا اور پھسلنا ہی ہوتا ہے کیونکہ ایک بوڑھے آدمی اور ماں کے پیٹ میں سئے ہوئے بچے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ بوڑھے دراصل واپس لوٹ رہے ہیں اس خوبصورت اندھیرے کی طرف جو اب ان کی ماں کی کوکھ سے نکل کر اس وسیع و عریض دنیا کے کسی کونے یا پھر خلا میں اکٹھا ہوگیا ہے۔ جوتے ان بوڑھوں کے لیے خطرناک شے ہیں۔

    ایک دن صبح صبح وہ پارک میں اس وقت لڑکھڑاکر گر پڑا۔ جب پیچھے سے آتی ہوئی ایک فربہ اندام ادھیڑ عمر کی ماڈرن عورت نے تقریباً اسے دھکا ہی دے دیا۔ وہ آگے نکل جانا چاہتی تھی۔ بوڑھا اسے شاید نظر نہیں آیا۔ ہوا کا جھونکانظر نہیں آتا۔ اسے محسوس کیا جاتا ہے۔ میں بھی ایک پھسلتے ہوئے ہوا کے جھونکے کو بھلا کس طرح سنبھالا دے سکتا تھا۔ کولہے کی ہڈی اس طرح ٹوٹی جیسے انڈے کا چھلکا ٹوٹتا ہے۔

    تقریباً دو ماہ تک بستر پر پڑے پڑے اس کے سارے جسم میں ایسے انوکھے زخم پیدا ہوگیے جن میں خون نہیں پہنچ سکتا۔ ایسے زخم کبھی نہیں بھرتے۔ ان زخموں سے بڑی سڑاندھ نکلتی ہے اور ان میں کیڑے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان بھیانک زخموں سے بچنے کاایک ہی طریقہ ہے کہ مریض کو بار بار بستر پر کروٹ دلائی جاتی رہے۔ مگر وہ ایسی کوئی کروٹ نہیں لے سکا۔ میں نے اسے صرف ایک کروٹ لیتے دیکھا تھا۔ جب ایک رات آخر اس نے اسی اندھیرے کی طرف کروٹ لے لی اور میں نےاس کے پلنگ کے نیچے لیٹے لیٹے یہ سب دیکھا۔

    ایک جوتے پر جو دکھ گزرے ہیں وہ آپ کو ایسے لگ رہے ہوں گے جیسےآپ نے انہیں خوابوں میں دیکھا ہو۔ آپ کو یہ ہرگز ہرگز اصل نہیں لگ رہے ہوں گے۔ مگر مجھے اس سفر کا ہردن بری طرح اکیلا کردیتا تھا۔

    اب لاکھ کوشش کرنے پر بھی میں یہ نہیں یاد کرپارہا ہوں کہ میں اس بڑھئی کے پیروں میں کس طرح پہنچا تھا جو صبح ہوتے ہی اپنے اوزار کاندھے پر لاد کر ایک عالیشان کوٹھی کا صدر دروازہ بنانے کے لیے نکل جاتا تھا۔ وہاں پہنچ کر وہ مجھے اتار کر ایک طرف رکھ دیتا اور خود اپنے رندے سےاس مردہ درخت کے تنے کو تراشنے لگتا جس میں ایک خوبصورت نفیس بلند دروازہ چھپا ہوا تھا۔ میں لکڑی کے اڑتے ہوے برادے کی ایک کتھئی اور دبیز چادر کے نیچے چھپ کر اسے کام کرتے دیکھتا رہتا۔ان دنوں دنیا میں مجھے بہت سے جوتوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔

    شاید پہلی بار زندگی میں میں نے بے روزگار نوجوانوں کے سڑک پر گھستے ہوئے جوتوں کو دیکھا۔ قلیوں، مزدوروں اور رکشہ چلانے والے لوگوں کے غریب جوتوں کو دیکھا۔ میں نے شوکیس میں سجے ہوئے مہنگے اور خوبصورت ترین اور بے حد مضبوط جوتوں کو دیکھا۔ اس بات پر مجھے ایک کمینی مسرت کا بھی احساس ہوا کہ ان جوتوں کو بھی کم کم ہی سہی مگر زمین پر تو بہرحال اترنا پڑے گا۔ کوئی بھی شخص یا شے اپنے اندر سے چاہے کتنی خوبصورتی باہر نکال کر لے آئے مگر وہ اس خوبصورتی سے باہر ایک زائد آنت کی طرح نکلا ہی رہتا ے۔ بڑھئی کے کالے سفید ٹی۔ وی پر میں نے فیشن شو میں استعمال ہونے والے، عورتوں کے عجیب و غریب جوتے دیکھے جو ان کی کمر اور کولہوں میں ایک نقلی شہوانیت اور فحش قسم کی ہلنت پیدا کردیتےتھے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اس لائق کبھی تھا ہی نہیں کہ اس گھٹیا کام میں کسی عورت کے لیے مفید ثابت ہوتا۔

    میں نے شہر میں مارچ کرتی فوجوں کے بوٹ دیکھے۔ گشت لگاتے ہوئے پولیس والوں کے جوتے دیکھے۔ رات میں ’’جاگتے رہو‘‘ کی صدا لگاتے ہوئے غریب چوکیدار کے جوتے دیکھے جو اس کی لاٹھی سے زیادہ بہادری کے ساتھ سڑک پر دھمک پیدا کرتے تھے۔ سڑکوں پر بھیک مانگتے ہوئے فقیروں کے جوتے دیکھے جو ان کے بھیک کے لیے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے زیادہ قابل رحم نظر آتے تھے۔میں نے جنازے میں پیچھے چلتے ہوئے قبرستان تک جانے والے اور وہاں سے واپس آنے والے جوتے دیکھے ہیں۔ میں خود بھی قبرستان کی خاموش مٹی اور خزاں کے گرتے ہوئے پتوں پر چلا ہوں۔ میں نے پاگلوں کو اپنےجوتے سر پررکھے یا گلے میں ٹائی کی طرح لٹکاتے ہوئے پاگل خانے کی دیوار پر سے کود کود کر بھاگتے دیکھا ہے۔

    ریلوے اسٹیشن پر پلیٹ فارم کی بھیڑ میں ایک چھوٹتی ہوئی گاڑی سے ہارتے ہوئے جوتے دیکھے۔ جلسوں اور قافلوں میں چلتے اور تھکتے جوتے دیکھے۔ کسی بارات میں روشنی کے ہنڈے اپنے کاندھوں پر اٹھائے پیچھے پیچھے چلتے جانےوالے مزدورں کے جوتے دیکھے۔پیروں سے مفلوج لوگوں کو خالی خالی نظروں سے اپنے پرانے جوتوں کو دیکھتے ہوئے محسوس کیا اور ان کے جوتوں فالج زدہ پیروں کو گھورتے ہوئے دیکھا۔ اس خونی اور بے ایمان دنیامیں بچوں کے کھیلنے کے حق پر بھی اپنا قبضہ کرتے ہوئے ہٹے کٹے بالغ لوگوں کے کھیل کے میدان میں اپنا اور دوسروں کا وقت برباد کرتے ایک بے ہنگم سی اچھل کود کرتے ہوئے جوتے دیکھے۔میں نے جنگ میں ہار کر بھاگتے ہوئے سپاہیوں کے سہمے ہوئے جوتے دیکھے۔ میں نے جنگ، فساد، زلزلے، باڑھ اور قحط کی زدمیں آئے جوتوں کو دیکھا جن سے دنیا کی تمام خون ریزی کی تاریخ بیان کی جاسکتی ہے۔

    مگر میں آج تک کسی ایسے شخص کے جوتے نہیں دیکھ پایا جسے کبھی پھانسی پر چڑھایا گیا ہو، اس کے جوتے کی سوچتے ہوں گے؟ وہ جلاد کے جوتوں کی طرح کیسی نظروں سے دیکھتے ہوں گے؟میں نے بھاری بھاری کتابوں کے بستے اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے اسکول جانے والے بچوں کے چھوٹے، معصوم اور تھکے ہوئے جوتے دیکھے، مجھے اس بات کا ہمیشہ ملال رہا کہ میں اپنے سائز کی وجہ سے کبھی کسی بچے کے پیر میں نہ آسکا۔ ہاں مگر ایک وقت ایسا آیا جب میری یہ تمنا پوری ہوگئی مگر کیونکہ میں ایک نیا جوتا نہیں تھا اس لیے یہ تمنا تو شاید میں اپنے دل ہی میں لیے ہوئے چلاجاؤں گا کہ کاش میں کسی بچے کے لیے عید، ہولی یاکرسمس کے موقع پر خریدا گیا ایک نیا نویلا جوتا ہوتا اور تیوہار سے ایک رات پہلے وہ بچہ مجھے اپنے تکیے کے پاس رکھتا اور رات میں بار بار جاگ کر میرے وجود کو چھونے کی کوشش کرتا۔ یا پھر میں ایک بالکل ہی ننھا منا سا جوتا ہوتا جسے وہ بچہ اپنے پاؤں میں ڈالتا جوابھی اپنی ماں کی گود سے زمین پر نہیں اترا۔

    ویسے بچوں کے لیے اب بازار میں بہت خوبصورت جوتے آگیے ہیں۔ وہ مرغی کے چوزوں کی طرح ہیں۔ ’چوں چوں‘ بولتے ہوئے اور ننھے رنگین بلبوں کو اپنے تلے میں بار بار جلاتے اور بجھاتے ہوئے۔ اس بچے کے جوتے بھی ایسے ہی تھے جسے اسکول سے واپس گھر آتے وقت ایک تیز رفتار کار کچل گئی تھی۔ بچے کے سر سے نکلے خون میں اس کے پیروں کے ساتھ ساتھ اس کے وہ ننھے ننھے جوتے بھی رنگ گیے تھے اور نہ جانے کس زاویے سے ان پر دباؤ پڑجانےکے باعث وہ لگاتارمرغی کے چوزوں کی طرح ’چوں چوں‘ بول رہے تھے اور ان کے تلے میں لگی روشنی بار بار جل بجھ رہی تھی۔ سڑک پر خون کا ڈھیر بڑا ہو جا رہا تھا۔ میں کس کے پیروں میں بندھا چلا جا رہا تھا؟ افسوس کہ میں وہاں رک کر ان ننھے منے جوتوں کے لیے کوئی ماتم نہ کرسکا۔

    میں تو کوڑھیوں کے سڑتے ہوئے پیروں کے لیے بھی کبھی رک کر ماتم نہ کرسکا۔ ان کے پیروں میں گندی اور غلیظ پٹیاں بندھی ہوئی دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کاش میں اتنا نرم جیسے بس ہوا کا بنا ہواایک نادیدہ جوتا ہوتا، جو کوڑھی کے پیروں کو ڈھک لیتا تاکہ وہ لوگوں کے لیےنفرت اور کراہیت کا سبب نہ بنتے۔ مجھے پتہ نہیں کہ کوڑھیوں کے گلتے ہوئے پیروں کے لیے کوئی جوتا بازار میں آگیا ہے یا نہیں اگرچہ نقلی پیروں میں فٹ کر دیے جانے والے جوتے تو اب عام ہیں۔

    سن لیں کہ کیونکہ میں ایک جوتا ہوں، انسان کے پیر میں پڑا ہوا۔ صرف زمین پر ہی گھسٹتا ہوا، اس لیے مجھے زمین پر زیادہ تر صرف جوتے ہی جوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ادھر سے ادھر جاتے ہوئے، ایک دوسرے کے نشانوں کو ہٹاتے ہوئے زمین پر بےشمار کیڑے مکوڑوں کی شکل میں بکھرے ہوئے بھانت بھانت کے جوتے۔

    ایک شام جب بڑھئی میرے اوپر جمی ہوئی برادے کی تہہ کو جھاڑ کر مجھے پہننے کے بعد اپنے گھر کی طرف جانے والے راستے پر روانہ ہوگیا تو پتہ چلا کہ شہر میں فساد پھیل گیا ہے ۔وہ حواس باختہ ہوکر ادھر ادھر کی گلیوں میں بھٹکنے لگا۔ سب مکانوں کے دروازے اور کھڑکیاں بند تھیں۔ سڑکوں پر اچانک بہت سےآوارہ کتے نمایاں ہوگیے۔ کتے تب ہی نمایاں ہوتے ہیں جب انسان دھندلے پڑجاتے ہیں۔ آگے جاکر اس نے محسوس کیا کہ وہ غلط علاقے میں پھنس گیا ہے۔ چاروں طرف گھیرا بندی کردی گئی تھی۔ دور کہیں آگ کی لپٹیں اور دھوئیں کے مرغولے اٹھ رہے تھے۔ کہیں کہیں سے شور کی آواز بھی آرہی تھی۔

    ایک اندھیری گلی سے نکل کر وہ جیسے ہی شاہراہ پر آیا۔ کچھ لوگ اس پر چھرالے کر پل پڑے۔ وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ بھاگا۔ اس کے منھ سے ہذیانی چیخیں نکل رہی تھیں۔ اس کی پشت پر چمکدار چھروں کے پھل لہرا رہے تھے۔ وہ شاید پھر بھی بھاگ کر نکل جانے میں کامیاب ہوجاتا اگر ٹھیک اسی وقت اس کا پاؤں نہ مڑ جاتا۔ میں نے حتی الامکان اس کے پیر کو سیدھا رکھنے کی پوری کوشش کی تھی۔ مگر میں اس خطرناک موچ کو نہیں روک سکا جو اچانک اس کے ٹخنے میں آگئی تھی۔اب وہ نہیں دوڑ سکا۔ وہ اسی جگہ ایک پیر پر کھڑا ہوکر، اپنےدونوں ہاتھ جوڑ جوڑ کر چھروں سے رحم کی بھیک مانگنےلگا۔ موچ والا پیر زمین پر رکھا ہی نہیں جاتا تھا۔ زمین کی کشش ثقل درد اور دکھ سے ہار گئی تھی۔ وہ زندہ چیزوں کو اپنی طرف نہیں بلاتی تھی۔ وہ صرف مردوں کو اپنی طرف کھینچی تھی۔

    اس طرح ایک پیر پر کھڑا ہوکر، اچھل اچھل کر، ہاتھ جوڑتے ہوئے وہ سرکس کے کسی جوکر کی طرح نظر آیا۔ مگر ٹھیک اسی وقت ایک خوفناک نعرے کے ساتھ نہ جانے کتنے چھروں نے اسے کاٹ کر رکھ دیا۔ ہوا میں پھر وہی میری جانی پہچانی، خون کی بوشامل ہوگئی۔ آگ کی لپٹیں اور دھوئیں کےغبار برھتے چلے گیے۔ سارا شہر اس میں ڈوب کر رہ گیا۔ مجھے یاد نہیں کہ مجھے اس کے بعد کون سے پیروں میں پہنا گیا مگر مجھے یہ یاد ہے۔ یہ فساد بہت دنوں تک جاری رہا۔ لوگ جلائے جاتے رہے، قتل کیے جاتے رہے۔ کوئی اس قتل عام اور تباہی کو روک نہ سکا۔ شاید شہر کانظم و نسق ’’جیرالڈ شاستری (۱)‘‘ کے گوریلےچلا رہے تھے۔

    نوبت یہاں تک پہنچی کہ لاشیں ٹھکانے لگانا مشکل ہوگیا۔ شہر سےدور بھورے رنگ کی چٹانوں کے بیچ ایک جھنڈ میں لاشوں کو ایک کے اوپر ایک کرکے ڈالا جانےلگا، چلچلاتی دھوپ میں لاشیں سڑنےلگیں۔ آسمان سے اتر کر چیلیں ان چٹانوں پر اکٹھا ہونے لگیں۔ پورے شہر میں بدبودار ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں۔

    ہزاروں سال پہلے کسی زمانے میں کئی نسلوں پہلےانسان نےاپنی ہی ذات ’’انسان‘‘ کوز مین کے نیچے کھدیڑ کر دفن کردیا تھا اور آج پھر ایک بار انسان نے وہی کیا تھا۔ بس فرق صرف اتنا تھا کہ آج یہ کام انسانوں نے اپنےجوتے کی نوک پر انجام دیا تھا۔

    میں نے دیکھا وہ قطاریں بنابناکر لاشیں ڈھورہے تھے۔ آسمان میں چاند ڈوب رہا تھا۔ اس کی مردہ روشنی میں مجھے اس امر کا عرفان ہوا کہ آدمی اب ایک نسل نہیں رہا۔ وہ دو الگ الگ قسم کے وحشی درندوں میں تبدیل ہوچکا ہے۔ وہ جو مجھے اپنے پیروں میں پہنے ہوئے، ان چٹانوں پر کھڑا ہوا لاشیں ڈھونے کا احکام دے رہا تھا، پتہ نہیں کون سا درندہ تھا۔میرے تلے کے نیچےبرابر ’کرکر‘ کر آواز آرہی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہاں سڑتی ہوئی اور منہ ٹیڑھا ہوئی لاشوں میں پیدا ہوجانے والے کیڑے بلبلارہے تھے۔ مجھے بہرحال اطمینان تھا کہ وہ انسانوں کے مقابلے میں بے ضرر تھے۔

    مگر اس کے تھوڑی ہی دیر بعد میں نے ایک چونکا دینےوالا منظر دیکھا۔ اس مقام سے تھوڑاآگے ایک گڈھا کھود کر اس میں لاشوں کے پیروں سے اتارے گیے جوتے اکٹھا کرکے ان میں آگ لگادی گئی تھی۔ شاید یہ فساد میں لاشوں کی شناخت مٹانے کا کوئی انوکھا طریقہ تھا۔ انہیں خوف تھا کہ جس طرح کسی سانپ کی آنکھوں میں اسے ہلاک کرنےوالے کی تصویر بن جاتی ہے، اسی طرح ایک جوتے میں انسان کے مردہ پاؤں کی تصویر ہر وقت موجود رہتی ہے۔ چاروں طرف چراندھ پھیل گئی۔

    جوتوں کے اس جلتے ہوئے ڈھیرسے بہت روشنی نکلی اور تب میں نے اداس ہوکر سوچا کہ فسادات شہر کو روشن بھی کردیتے ہیں۔ اس روشنی میں زمین پر بے شمار تعداد میں بکھرے ہوئے آپس میں ایک دوسرے کو روندتے، کچلتے اور کاٹتے ہوئے انسانی قدموں کے بے تکے سائے گزرتےنظر آئے۔مجھے ہوش نہیں کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہا۔ ان دنوں شدت سے میری خواہش تھی کہ کاش میں تھوڑے دنوں کے لیے پاگل ہوجاتا۔ مگر پھر مجھے اپنا مقصد یاد آتا۔ اپنی وہ تلاش یاد آتی۔ آخر میں یہ سب اپنے ’’نصف وجود‘‘ کو تلاش کرنے کے لیے ہی تو استقلال کے ساتھ برداشت کر رہا تھا اور یقیناً میری کھوج جاری تھی میرا سفر جاری تھا۔

    یہاں میں آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ جوتے کبھی کبھی پاؤں کے مخالف بھی چلا کرتے ہیں؟

    انہیں دنوں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف کئی بار مجھے ’شانتی مارچ‘ میں بھی چلنےکا اتفاق ہوا۔ سخت تیز دھوپ میں تپتی ہوئی سڑک پر سارے جوتے مل کر خود بھی ایک دہشت ہی پیدا کر رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس ’شانتی مارچ‘ اور ایک ’فوجی مارچ‘ میں کوئی فرق نہیں تھا جس کی دھمک سے اکثر ندیوں پر بنے ہوئے کمزور پل ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔ امن کے لیے کی گئی اس مارچ میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی شامل تھے۔ ان کے معصوم پیر فیتوں سے کس کر باندھے گیے جو توں کے اندر تھک تھک کر سوج گیے تھے۔ بچوں کو کسی ’شانتی مارچ‘ میں چلنے کی کیا ضرورت تھی؟

    ایسی ہی ایک شانتی مارچ میں چلتے چلتے میں نے صاف طور پر دیکھا کہ وہ جو اس ’مارچ‘ میں شامل ہیں، ان سب جوتوں کو میں نے خشک بھوری چٹانوں کے درمیان سڑتی ہوئی لاشوں کے اوپر سے گزرتے بھی دیکھا تھا۔ اور تب میں دراصل اس ’شانتی مارچ‘ کی مخالف سمت میں چلنے لگا۔ اس منافق پاؤں کے خلاف جو ’شانتی مارچ‘ میں جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھتا ہی جا رہا تھا۔

    مگر افسوس کہ انسان کے حافظے کے بارے میں جولن ترانیاں کی جاتی ہیں وہ سرے سے غلط ہیں۔ انسان سب کچھ بے شرمی کے ساتھ بھول جاتا ہے یا پھر ممکن ہے کہ زندگی گزارنا بجائے خود ایک بے غیرتی کا عمل ہو۔ آہستہ آہستہ لوگ وہ سب بھولتے گیے جس کا میں چشم دید گواہ ہوں مگر ایک جوتے کی گواہی انسانوں کے لیے کیا کوئی معنی رکھتی ہے؟ مگر میں شاید خود بھی کوئی کم بے غیرت نہیں تھا۔ اتنا سب کچھ دیکھ کر اور جھیل کر بھی میں چتھڑے چتھڑے نہ ہوا اور کسی نہ کسی طرح اس قصائی کے پاس پہنچ گیا جس کی آنکھیں ہمیشہ لال رہتی تھیں۔

    اپنا بغدہ اٹھا کر جب وہ مجھے اپنے پیروں میں ڈالتا اور مذبح کی طرف چلتا تو اس کی چال میں ایسا غرور آجاتا جیسے وہ سرحد پرجنگ لڑنے جارہا ہو۔ سڑک پر چلتے وقت اسے راستے کی ہر شے کو اپنے قدموں تلے کچلتے جانے کی عادت تھی۔ گھر پر رہ کر وہ زیادہ تر فرش پر کاکرو چوں کو مسلتا رہتا یا پھر دیوار پر چپکی ہوئی چھپکلیوں کو جوتے سے مار مار کر گرایا کرتا۔ ایک رات جب ایک چوہیا اس کے پلنگ کے نیچے بڑے دیر سے کھڑبڑ کر رہی تھی، تو وہ کسی بلی کی طرح تاک لگاکر بیٹھ گیا۔ جیسے ہی اسے مناسب موقع ہاتھ آیا، اس نے پھرتی کے ساتھ مجھے اٹھا کر پوری طاقت کے ساتھ چوہیا کو میرے نیچے دبا دیا۔ بھورے رنگ کی اس چوہیا کے منھ میں روٹی کاایک چھوٹا سا ٹکڑا دبا ہوا تھا۔ یقین کریں کہ میں نےاوپر کو اٹھنا چاہا تھا مگر اس کے ہاتھ کی زبردست طاقت کے سبب میں وہیں دب کر رہ گیا۔ چوہیا کی کھال اور میرے تلے کے درمیان کی دوری کم ہوتی گئی۔ اس کے کھلے ہوئے منہ سے روٹی کا ٹکڑا نکل کر میرے نیچے چپک گیا اور خون کی ایک لکیر باہر آگئی۔ اس کے دانت بھنچ گیے اور وہ ایک ہلکی سی آواز نکال کر ختم ہوگئی۔

    یہی نہیں ایک بار سڑک پر چلتے وقت وہ ایک کتے کی لاش کے اوپر سے بھی گزرا۔ کتے کا پیٹ پھٹا ہوا تھا اور اس کی انتڑیاں سڑک پر پھیلی ہوئی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ بچ کر نکل سکتا تھا مگر نہ جانے کیوں وہ کتے کی انتڑیوں کو کچلتے ہوئے آگے بڑھتا گیا۔اگرچہ اب میں ٹھنڈے دل سے یہ بھی سوچتا ہوں کہ شاید یہ اس کی بے رحمی نہ ہو کر صرف اس کی عادت تھی۔ عادت میں کسی بھی جذبے کی آمیزش نہیں ہوتی۔ عادت محض ایک خبط ہے۔ افسوس کہ اس دنیا کو اچھی یا بری بنانے میں انسانوں نے اسی خبط سے کام لیا ہے۔

    اب ذرا رکیے اور سوچئے کہ میرے تلے اور خون کے درمیان یہ کیسا پراسرار سا رشتہ بن گیا ہے؟اب تو آپ شکایت نہیں کریں گے کہ میرے سر پر آخر خون کیوں سوار ہے؟ یقین کیجیے میری کہانی حرف بہ حرف سچی ہے اور جو کچھ مجھ پر گزرتی رہی ہے اسی کو سوفیصد ایمانداری کے ساتھ آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں۔ ابھی آپ نے کیا دیکھا ہے۔ اس سے زیادہ خون تو آگےآنے والاہے۔

    مذبح شہر سےکافی دور تھامگر اس کی بساندھ اس کے آنے سے بہت پہلے ہی شروع ہوجاتی تھی۔ صبح صبح پوپھٹنے سے کچھ پہلے ہی وہاں پہنچ جاتا۔ اگر آسمان پر چاند ہوتا تو ابھی پوری طرح ڈوبا نہ ہوتا۔ مذبح کے بیچوں بیچ ایک چھوٹا ساتالاب تھا۔ جس کا پانی بالکل سیاہ تھا۔ تالاب کے کنارے بیری کاایک درخت تھا جس کی ٹہنیاں پانی کے ایک حصے پر جھک آئی تھیں اور اسے اور بھی زیادہ سیاہ بنارہی تھیں۔ اس کالے پانی میں تو چاند کا عکس بھی پڑتا نظر نہیں آتا تھا۔ آس پاس دھان کی بھوسی بکھری ہوئی تھی اور ادھر ادھر کچھ سینکوں والی چٹائیاں بھی پڑی تھیں۔ وہ اس بیری کے درخت کے نیچے جاکر رکتا۔ یہاں کی ساری زمین دلدلی تھی۔ اس دلدل میں میرا تلا تقریباً پوری طرح دھنس جاتا۔ اور تب ایک دن میں نے غور سے دیکھا۔ یہ دلدل خون سے لت پت تھی۔ وہ تالاب نہیں تھا۔ وہ جانوروں کے خون کو روکنے یا اکٹھا کرنے کے لیے کھودا گیا ایک گہرا گڈھا تھا۔

    تو یہ تھا مذبح کا تالاب جس میں روشنی کی کوئی کرن نہیں پہنچتی۔ اس میں تو چاند کا عکس تک نہیں پڑتا۔ ذبح ہوتے ہوئے جانوروں کی چیخیں اس تالاب کی سطح پر کوئی ہلچل پیدا نہیں کرتیں۔ بس بیری کی ٹہنیاں جھک کر اسے اور بھی سیاہ کردیتیں۔میرے چاروں طرف ایک بھیانک اندھیرا چھا گیا۔ ماں کی کوکھ سے بھی پہلے کا اندھیرا۔ میری کیفیت ایسی ہوگئی جو انسانوں کے تیز بخار کے وقت ہوتی ہوگی۔ تب پھر بہت دیر بعد شاید صدیوں بعد سورج طلوع ہوا۔ جس کی روشنی کے ساتھ ساتھ چیلیں اور کوے درختوں سےاتر کر وہاں منڈلانے لگے۔ تالاب کے کنارے جانوروں کی اتاری گئی کھالوں کے ڈھیر رکھے تھے۔ میرے حافظے نے بہت بے چین ہوکر کروٹ لی۔

    کیا میں یہاں پہلے بھی آیا تھا؟ اس مقام سے میرا کوئی بہت پرانا تعلق تھا۔ اتنا پرانا کہ یہ زمین ہے۔ ٹھیک اسی وقت مجھے اس امر کا بھی بخوبی احساس ہوا کہ جاندار اور بے جان اشیا کے درمیان کوئی رشتہ قائم کرنے کے لیے چلو بھر خون کی موجودگی اشد ضروری تھی۔ اس سیاہ اور خونی تالاب کے اندر کوئی گہری اور نہ دکھائی دینے والی سرنگ تھی جس میں ذبح ہوتے ہوئے جانوروں کے ڈکرانے کی آواز پہنچ کرایک گونجتی ہوئی موسیقی میں بدل جاتی ہے۔ اس موسیقی کے سرتال اس تعلق کے جشن کا اعلان نامہ ہیں جو زندہ اور بے جان اشیاء کے درمیان انسان نے اپنی بے رحم ’خطرناک اور خود غرض تخلیقی قوت کے ذریعے پیدا کیا اور اپنی دوکان کے شوکیس کو نئے، خوبصورت اور بھانت بھانت کے جوتوں سے بھر کر رکھ دیا۔

    سورج کی شعاع میں میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میری رنگت اب بھوری نہیں رہی۔ وہ سیاہی مائل سرخ ہوگئی ہے۔ میں نے یہ بھی دیکھاکہ اب میں بساندھ بھرے خون میں پوری طرح ڈوب چکاہوں۔

    اب ذرا مجھے دم لینے دیجیے۔ دراصل اب وہ وقت آگیا ہے کہ میں ان آخری بدنصیب پیروں کابھی قصہ سنا ڈالوں جن کے بعد مجھے کسی نے نہیں پہنا، شاید یہی وہ پیر تھے جن میں آکر میں خوش رہا۔ انسان ایک جنم میں ایک زندگی جی سکتا ہے مگر جوتا ایک کے بعد ایک کئی پیروں کو جی سکنے پر قادر ہے۔ دراصل وہ قصائی صوم و صلاۃ کا بھی بہت پابند تھا۔ جمعہ کی نماز تو اس سے کبھی قضا ہی نہیں ہوئی۔ گوشت تو وہ اس لیے کاٹتا تھا کہ لوگ گوشت کھاتے تھے اور چمڑے کا استعمال کرتے تھے۔ گوشت کاٹنا تو اس کا پیشہ تھا اور ہر اس پیشے کی طرح جو حلال اور محنت کی کمائی پر مبنی ہو، اس کے پیشے کا بھی احترام کرناچاہیے۔

    کسی سر پھرے شاعر نے اپنے کمزور لمحے میں کہا تھا۔

    ’’ہم بہشت میں کیچڑ میں سنے جوتوں کے ساتھ ہی قدم رکھ سکتے ہیں۔‘‘

    مگر عبادت گاہیں بہشت نہیں ہوا کرتیں۔ کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ عبادت گاہوں کے باہراتنی بڑی تعداد میں اتار کر رکھے گیے جوتے دیکھنےمیں کیسا اداس منظر پیش کرتے ہیں۔ (ویسے تو اتار کر رکھا گیا ہرجوتا اداس ہی نظرآتا ہے۔) اکثر جوتوں کو عبادت گاہوں کے باہر سے ہی چرایا جاتا ہے۔ مجھے احساس ہے کہ اپنے بھونڈے شاعرانہ مذاق کا اظہار کرکے میں نے آپ کی سمع خراشی کی ہے مگر یقین ہے کہ آپ اس بے حیا جوتے کو اسی طرح معاف کردیں گے جیسا کہ اب تک کرتے آئے ہیں۔

    اس جمعے کو جب قصائی محلے کی مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا تو مسجد کی دیوار کی اوٹ سے میلا سا لباس پہنےایک شحص برآمد ہوا۔ مسجد کی سیڑھیوں پر وہ بلی کی طرح چپکے چپکے چلاجہاں نمازیوں کے جوتے ایک کے اوپر ایک بے ترتیبی سےرکھے ہوئے تھے۔ بس اس کے ہاتھ میں میں ہی آسکا۔ اس نےمجھے چرا لیا اور اپنے پاجامے کے نیفے میں چھپا کر مجھے اپنے گھر لے آیا۔یہ تو مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ایک پیشہ ور چور تھا۔ دن میں تو وہ سڑک کے کنارے بیٹھ کر تالوں کی مرمت کرتا اور ان کی کھوئی ہوئی چابیاں بنایا کرتامگر آدھی رات میں نکل کر وہ لوگوں کے گھروں میں چوریاں کرتا۔ مجھے اکثر اس بات کابھی شائبہ گزرا کہ جب وہ مجھے پہن کر رات کےاندھیرے میں نکلتا تو کچھ اداس سا ہو جاتا۔

    چوری کوئی ایسا پیشہ نہیں ہے جس کے لیے آپ باقاعدہ صبح کا ناشتہ کرکے اپنا بریف کیس ہاتھ میں لیے ہوئے جوش و خروش کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں۔ شاید ایک قسم کا مجرمانہ احساس اس کے چوری کے لیے جانے والے قدموں کے ساتھ ساتھ لپٹا ہوا چلتا تھا۔ میں نے بھی یہ دیکھا کہ اس کے کپڑوں میں کسی بھی قسم کا ہتھیار، یہاں تک ایک حقیر سا چاقو۔۔۔ بھی پوشیدہ نہیں ہوتا تھا۔ہاں وہ اپنے ہاتھ پیروں پر کسی بدبودار تیل کی مالش ضرور کیا کرتا تھا جس سے کہ پکڑے جانے پر وہ کسی چکنی اور لیس دار مچھلی کی طرح گرفت سےنکل جائے۔

    وہ گھر سے اس وقت نکل کر چلنے کو تیار ہوتا جب اس کے دونوں بچے پوری طرح سوجاتے اورسڑک پر چوکیدار کی لاٹھی کی آواز سنائی دینےلگتی۔ گھر سے نکلنے سے پہلے اس کی بیوی مجھے ہاتھ میں لے کر اس کی نظر اتارتی۔ جی ہاں۔ یہ تو سب کو معلوم ہوگا کہ ایک جوتے سے کسی شخص کے اوپر لگی بری نظر بھی اتاری جاسکتی ہے۔ جوتوں سےبری اور بدنیت نظریں خوف کھاتی ہیں۔ اسی لیے لوگ اکثر اپنےنئے یا زیر تعمیر مکانوں کےاوپر بھی ایک جوتا ٹانگ کر لٹکا دیتے ہیں۔ (جوتا سنگھانے سے تو مرگی کا دورہ تک گھبراکر بھاگ جاتا) دراصل چور بے حد پھرتیلا واقع ہوا تھا۔ گھروں کی دیواروں،منڈیروں اور بجلی کے کھمبوں پر کسی چھپکلی کی طرح چڑھتے چلےجانے کی اس کی مہارت تو قابل دید تھی۔ چور کی بیوی شاید اسی لیے اس کی نظر اتارتی ہوگی کہ اس کی اس بے پناہ مہارت اور صلاحیت کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔

    میں اس بات کی بھی گواہی دیتاہوں کہ چور نے آج تک کسی کو جان سےمارنا تو دور کسی پر ہاتھ تک نہ اٹھایا تھا۔ یوں بھی وہ گھر کی بہت معمولی معمولی اشیاء ہی چوری کرتا رہتا تھا۔ مثال کے طور پر لوٹا، صابن دانی، چھتری، مرغیاں، الگنی پر لٹکتے کپڑے، انگیٹھی، گلاس، لکڑیاں، جھاڑو اور جوتے وغیرہ۔ کم از کم میں جب تک اس کے پیروں میں رہا،میں نےاسے انہیں چیزوں کو چراتے ہوئے دیکھا ہے۔

    مجھے اس کے پیروں میں رہ کر بس ایک ہی تکلیف ہوتی تھی۔ رات میں جب وہ گھر سے باہر چوری کرنے کے ارادے سے نکلتاتو گلیوں میں اس طرح چلتا کہ میرے اندر سے کوئی آواز نہ نکلنے پائے۔ یہ ایک جوتےکے لیے بہت اذیت ناک ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس طرح میری سانسیں اندر ہی اندر گھٹ کر رہ جاتی ہیں یا پھر زمین سے بری طرح رگڑ کھا کھا کر زخمی ہوتی رہتی ہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں اس چور کے گھر خوش رہا۔ یقین کریں کہ اپنی تمام زندگی میں مسرت کے جوایک دولمحات مجھے نصیب ہوئے ہیں وہ اس چور کے گھر میں ہی گزرے ہیں۔

    اس کی ایک وجہ تو چور کے وہ دو معصوم بچے تھے جو روز اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے پاؤں میں مجھے پہن کر آنگن میں کھیلا کرتے تھے۔ میں کیونکہ ان کے پیروں سے بہت بڑا تھا اس لیے انہیں اس کھیل میں بہت مزہ آتا تھا۔ چور کاایک بچہ سرکاری اسکول میں پڑھنے بھی جاتا تھا مگر دوسرا جو اس سے عمر میں ایک سال بڑا تھا، گھر پر ہی رہتا تھا۔ دراصل وہ بے حد ہکلاتا تھا۔ کسی بات کاجواب دیتے وقت اس کاسر گھومنے لگتا، اس کا منھ کھلا کا کھلا رہ جاتااور آنکھوں میں ایک ناقابل فہم سی اذیت کےآثار نمایاں ہوجاتے۔ ایسے وقت اس معصوم بچے کی لکنت اس کے منھ اور حلق سےنکل کر اس کے نیکر اور اس کی پنڈلیوں پر سے رینگتی ہوئی میرے اوپر آکر اکٹھا ہونےلگتی اور میں اس افسردہ لکنت کے بوجھ سے دب کر زمین میں گڑنےلگتا۔

    لوگوں کو خیال تھا کہ کیونکہ چور ایک اچھا آدمی نہیں تھا اس لیے خدا نے اسے اس معذور بچے کی شکل میں اس کے اعمال کی سزا دی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بلکہ یہ تو میرے دل پر نقش ہے کہ وہ رمضان کا ہی مہینہ تھا جب ایک دوپہر، اچانک چور کےاس ہکلے بچے نے اپنی ماں سے پلاؤ، کھانے کی فرمائش کی۔ ان دنوں ان کے گھر کے حالات ایسے نہ تھے کہ وہ کوئی عمدہ قسم کا پکوان تیار کرسکتے۔شام کو جب چور گھر آیا تو بیوی نے کہا، ’’بڑا پلاؤ پکانے کو کہہ رہا ہے۔‘‘

    ’’پلاؤ؟‘‘ چور افسردہ ہوگیا۔

    ’’ہاں۔ اصل میں کل سامنے والوں کے یہاں پلاؤ کی دیگ پکی تھی۔ انہوں نے سب کاروزہ افطار کرایا تھامگر نہ ہمیں بلایا اور نہ ہی ہمارے گھر کچھ بھیجا۔‘‘ بیوی نے شکایت کی۔

    ’’بچا نہ ہوگا۔‘‘ چور نے کہا اور پھر آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔

    ’’بس بڑے نے دیگ کی خوشبو سونگھی ہے۔ وہ تو یہاں تک آرہی تھی۔ کم بخت نے اسی وقت سے ’’پلاؤ۔ پلاؤ‘‘ کی رٹ باندھ لی ہے۔ آج کل گھر میں فاقوں کی نوبت ہے۔ میں بغیر سحری کےروزےرکھ رہی ہوں۔ شام کو سوکھی روٹی سے افطار لیتی ہوں۔ جو بھی ہوتا ہے وہ تمہارے اور بچوں کے لیے ہی بچا کر رکھ دیتی ہوں اور وہ کہہ رہاہے کہ پلاؤ پکاؤ۔‘‘ بیوی بڑبڑانے لگی۔

    ’’تم روزے مت رکھو۔‘‘ چور نے لگاوٹ اور سادگی کے ساتھ کہا۔

    ’’بس خاموش رہنا۔ کافر کہیں کے، نہ روزے کے نہ نماز کے۔ مجھے بھی بہکا رہے ہو۔ شیطان تمہاری زبان میں گھس گیا؟‘‘ بیوی کو بہت غصہ آگیا جسےاتارنےکے لیے وہ اس ہکلے بچے پر جوتا لے کر پل پڑی۔ پھر اچانک کوئی خیال آتے ہی رونے بیٹھ گئی، چورنےشرمندہ ہوکر اپنا سر جھکا لیا۔ اس کے شرمندہ سرکی پرچھائیں میرے اوپر ایک مہیب سیاہ بادل کی طرح جھک آئی۔

    چوراس رات چوری کرنےکے لیے نہیں نکلا۔ شاید وہ رمضان میں کوئی گناہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں اس کے پلنگ کے نیچے لیٹا تمام رات کروٹیں ہی بدلتا دیکھتا رہا۔ صبح جب سحری کا اعلان ہوگیا اور مسجد سےلاؤڈ اسپیکر پر سحری کےاوقات بتائےجانے لگے تو وہ خاموشی کے ساتھ اٹھا اور بیوی کو بتائے بغیر گھر سے باہر نکل آیا۔ کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی اس لیے گلیاں سنسان تھیں۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں جاگ کرسحری کھارہے ہوں گے۔ وہ خاموشی کے ساتھ مسجد کے سامنےجاکر کھڑا ہوگیا۔

    مسجد میں رونق نہ تھی اس نے سراٹھاکر اوپر دیکھا جہاں مسجد کے مینار سے ملحق سیڑھیاں تھیں جوامام صاحب کے حجرے پر جاکر ختم ہوجاتی تھیں۔ چور کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس وقت حجرے میں سحر کے واسطے انواع و اقسام کی خوردنی اشیا موجود تھیں۔وہ دبے پاؤں ان سیڑھیوں پر چلنےلگا۔مینار کےاوپر لگے لاؤڈ اسپیکر سے یک بار پھر سحری کے ختم ہونے کااعلان کیا گیا اس کے بعد پھر ایک خوش لحن بچہ نعت پڑھنے لگا۔حجرے کادروازہ کھلا ہوا تھا۔ امام صاحب اندر نہ تھے۔ چور کو محسوس ہوا جیسے اس کے بچے کی ہکلاہٹ دور ہوگئی ہے۔ نعت پڑھتا ہوا وہ خوش لحن بچہ اس کا ہی بچہ ہے۔ جس کادل پلاؤ کھانے کو ترس رہا ہے۔

    وہ پھرتی کےساتھ حجرے میں داخل ہوگیا۔ واقعی چاروں طرف کھانے پینے کی بہت سی اشیا سلیقے کے ساتھ رکابیوں اور سینوں میں ڈھکی رکھی تھیں۔ وہ ان میں پلاؤ تلاش کرنےلگا۔ تقریباً دیوانوں اور جنونیوں کی طرح۔ اور اچانک اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ایک چھوٹی اور گندی سی المونیم کی رکابی میں رات کاباسی اورٹھنڈا ہوگیا پلاؤ رکھا ہوا تھا ۔اس نےرکابی کوکس کر پکڑ لیا۔ ٹھیک اسی وقت حجرے میں امام صاحب کئی لوگوں کے ساتھ داخل ہوئے اور انہوں نے دروازہ اندر سے بند کردیا۔

    ’’اس چوٹے کو پکڑ کر یہیں باندھ دو اور جوتے مار مار کر اس کی کھال گرادو۔‘‘ امام صاحب نے گرج کر حکم دیا۔چور نے ایک ہاتھ میں پلاؤ کی رکابی کو کس کر پکڑ لیا اور پھر کسی چھلاوے کی طرح حجرے کی عقبی دیوار میں لگی کھڑکی کی طرف چھلانگ لگادی۔ کھڑکی کے باہر دیوار سے ملے ہوئے بجلی کے بےشمار ننگے تار جھول رہے تھے۔چور کے حلق سے دل دہلا دینے والی چیخیں نکلیں۔ اس کے پیر ان تاروں میں الجھ کر رہ گیے۔ میں اس کے پیروں کے نیچے ناچتی ہوئی چنگاریوں میں ڈوب گیا۔ میں ایک بار پھر مکمل طور پر سیاہ ہوچکا تھا۔ وہ کسی بے جان چھپکلی کی طرح دیوار سے نیچے زمین پر گرپڑا۔ اس کے سر پر پلاؤ کے سفید سفید موتیوں جیسے چاول اور بوٹیاں بکھر کر رہ گئیں۔ مسجد میں فجر کی اذان ہوئی۔ مگر پتہ نہیں وہ کیسا سخت جان یا بے غیرت واقع ہوا تھا کہ زندہ بچ گیا۔

    اسپتال لے جانےکے بعد معلوم ہوا کہ اس کی دونوں ٹانگیں پوری طرح جھلس کر مفلوج ہوچکی ہیں اور اس کی زندگی بچانے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ یہ ٹانگیں کاٹ کر اس کے جسم سے الگ کر دی جائیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ رمضان کے مہینے میں مسجد میں چوری کرنے کی یہ وہ سزا تھی جو اسے قدرت نے دی ہے تاکہ دوسرے چوروں کو بھی اس سے عبرت حاصل ہو اور وہ کم ازکم عبادت گاہوں میں چوریاں کرنے سےتوبہ کرلیں۔

    مگر میں قدرت کی دی ہوئی اس سزاکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ مجھے تو صرف اتنا یاد ہے کہ سرکاری اسپتال کی بوسیدہ سیڑھیوں پر اس کے جوتے اور اس کے دونوں کٹے ہوئے پیر دو الگ گٹھریوں میں بندھے ہوئےآمنے سامنے رکھے ہوئے تھے۔ اس کے کٹے ہوئے پیروں میں سے خون نکل کر گٹھری کے باہر چورہا تھا۔ چور کے کٹے ہوئے پیروں اور ان کے سامنے رکھے اس کے جوتوں کے درمیان اب ایک لامتناہی پراسرار فاصلہ تھا جہاں سے وہ دونوں ایک دوسرے کو خاموشی کے ساتھ دیکھے جا رہے تھے۔

    اس کے بعد جب میری گٹھری کھلی تو میں نے خود کو ایک بار پھر اسی گھورے پر پڑا پایا ہے۔ میرا نقلی جڑواں بھی ادھر ہی غلاظت میں دبا پڑا ہوگا۔ اور کیا عجب کہ اسپتال والے چور کےکٹے ہوئے پیروں کو بھی یہیں سڑنے گلنےکے لیے ڈال گیےہوں۔ چیل کوے تو یہاں بھی آتے ہیں اور گھورے کے اندربڑے بڑے بجو اور خوفناک چوہے بھی اپنی خوراک تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ رات تقریباً گزر رہی ہے۔ میری کہانی ختم ہو رہی ہے بس دو ایک باتیں اور ہیں جن کا تعلق کہانی سے ہی ہے۔

    انسان کے دل میں دکھ کے جتنے کانٹے ہیں، میرے خیال میں اس کے پیروں میں اس سے بھی زیادہ کانٹے ہوتے اگرجوتا نہ ہوتا۔ انسان کی معراج زمین پر چلنا ہی تھا ہوامیں اُڑنا تو بہت معمولی اوربزدلانہ بات ہے۔ اڑنےوالی اشیا بہت ہلکی ہوتی ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ انسان کبھی اس نکتے کو سمجھ نہ سکا۔ وہ پیدائشی طور پر خودغرض اور بزدل ہے اسی لیے اڑنا چاہتا ہے۔ یاد رکھیے کہ انسان خدا تک صرف اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے جب اس کے پاؤں زمین کی دلدل میں پوری طرح دھنسےہوئے ہوں۔ اس انداز میں کھڑے ہوکر ہی اسے اپنے قد کو اونچا کرنا ہے۔اسے اپنی چال کا بھی بہت احترام کرنا چاہیے۔ انسان کی چال خدا کی طرف سے دیا گیا اسے سب سے بڑاعطیہ ہے جو ایک حیوان سے مختلف ہے۔ اور اس درخت سے بھی جو صرف زمین کےاوپر اور نیچے ہی چلتاہے۔

    جوتا زمین پر انسان کی اس پراسرار اور بامعنی چہل قدمی کاصرف سچا گواہ ہی نہیں، وہ تو اس کے قدموں کے دکھوں میں بھی ساجھا کرلیتا ہے۔ زمین کے اذیت ناک واروں کو اپنے اوپر سہتا ہوا، لگاتار خون میں نہایا ہوا، انسانی قدموں کا یہ تنہا نوحہ گر، ایک جوتا۔

    کبھی کبھی میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ گھورے پر لیٹے رہنا ایک طرح سے اچھا ہی ہے۔ آخر ہر جوتے کو ایک نہ ایک دن اسی جگہ آنا ہے۔ اگرچہ یہ کوڑے کا ڈھیر بھی دنیا کا ہی حصہ ہے مگر میں اس دنیا کو ناقابل معافی سمجھتا ہوں جو بے حد خوبصورت ہے اور جس میں تمام عمر میں اپنی قید اپنے ساتھ لیے لیے ہی گھومتا پھرا ہوں۔ میں رگڑ کھاتے کھاتے تنگ آگیا، میرے اندر ناسور بن گیے۔ جتنی کیلیں میرے اندر ٹھونکی گئی ہیں اور جتنے پتھروں، کنکریوں کی چبھن کو میں سالہا سال سے سہہ رہا ہوں، اتنی دنیا کی کسی صلیب اور کسی تابوت کو بھی نہیں سہنا پڑی ہوں گی۔ میرے زخموں سے خون رستا ہے۔ یہ خون انسانوں کو ہی نہیں، مجھے بھی نہیں دکھائی دیتا کیونکہ میں اپنے ہی خون پر چلتا رہتا ہوں اسے چھپاتا رہتاہوں۔ کچھ اس طرح جیسے کوئی اپنی آنکھ کا آنسو اپنی ہی قمیص کی آستین سے پونچھ ڈالے۔

    اس دنیا سے گھبراکر میں نے کئی با سوچاکہ بس اب مجھے ایک سچی موت آجانی چاہیے۔ انسانی روح نے بار بار جنم لے کر بھی کرب کا ایک لامتناہی سفر طے کیا ہوگا جو ایک تنہا جوتے نے کیا ہے کیونکہ جوتا انسان نہیں، شئے ہے۔ اور شئے کاحافظہ اس کا ساتھ چھوڑ کر کبھی نہیں جاتا۔ مگرموت کی اس خواہش کے باوجود میں زبردستی زندہ رہنے پر صرف اس لیے مجبور ہوں کہ مجھے اپنے اس نصف وجود کو کھوج نکالنا ہے۔ میں اس سے پہلے نہیں مرسکتا چاہے سڑکیں گرم کولتار کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریاؤں ہی میں کیوں نہ بدل جائیں۔ اس کی تلاش میں بیتے اس مہیب اور کربناک سفر میں بس دوبارہ مجھے اس کے موجود ہونے کا شائبہ گزرا۔

    ایک تو ان دنوں جب فساد کے بعد شہرمیں خطرناک باڑھ آئی تھی۔ مجھے شبہ ہے کہ میں نے اسے باڑھ کے پانی میں بہتے دیکھا۔ باڑھ کا پانی جیسے جیسے بڑھتا ہے وہ گندا ہوتا جاتا ہے۔ میں کسی کے پیروں میں بندھا ہوا ندی کےایک اونچےسےکراڑے پر کھڑا ہوا تھا۔ بس ایک لمحے کے لیے میں نے اس کی جھلک دیکھی پھر وہ بہت تیزی کے ساتھ بہتا ہوادرختوں کےاس جھنڈ میں جاکر غائب ہوگیا جو ندی پر جھک آیا تھا۔ اپنےوجود کی پوری طاقت سے میں نےاس کے پیچھے دوڑنا چاہا مگر اس دن مجھے شدت سے یہ احساس ہوا ،نہ میں نے کسی پیر کو نہیں بلکہ ایک پیر نے ہی مجھے کس کر جکڑ رکھا تھا۔ لیکن اب میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ شاید باڑھ کے اس پانی میں مجھے کسی اور چیز پر اس کا دھوکہ ہی ہوا۔ وہ شاید صرف میرا وہم تھا۔

    دوسرے یہ کہ کبھی کبھی میں نےایسی آوازیں بھی سنی ہیں جیسے کہ وہ سڑک پر چل رہا ہو مگر نظر کچھ نہیں آیا بس ایسے وقت میں ایک تیز، پراسرار اور ٹھنڈی ہواکا جھونکا ضرور مجھے چھوتا ہواگزر گیا ہے۔ کیا کسی جوتے کی سڑک پر چلنے کی آواز ہوا کے جھونکے سے بھی مشابہ ہوسکتی ہے؟

    ایک بھیانک مایوسی سے دوچار ہوتے ہوئے میں اس ماضی کو یاد کرتا ہوں جب دونوں ساتھ ساتھ تھے۔ دو پیروں میں الگ الگ، زمین پر چلتے ہوئے، دوجڑواں بھائیوں کی طرح مگر افسوس کہ دونوں کے دکھوں کی داستان بالکل الگ الگ ہے۔ اس پر جو گزری ہوگی، وہ مجھ پر نہیں گزری۔ کتنے دنوں سے دونوں ایک دوسرے کے حالات سے بےخبر اپنی اپنی زندگی ڈھوتے رہے۔

    اس کا تلا اب بدنصیب لڑکے کے خون سے ترہے اور میں اسے کھوجنے کے لیے خون سے بھری کتنی زمینوں پر چلا ہوں، مجھے یاد بھی نہیں۔ سیڑھیاں، کنویں، میدان، نالے، ندیاں، کھڑکیاں، دیواریں اورقبرستان سب کھنگال ڈالے مگر وہ نہیں ملا۔ آہستہ آہستہ زمین ان خون سے بھرے نشان کو بھی پیتی گئی۔ مٹی کی نئی پرتیں انہیں نہ جانےکہاں لے گئیں۔ اب وہ نشان نظر بھی نہیں آتے، محسوس بھی نہیں ہوتے جو پہلے ایک سوکھی جھاڑی کے پاس جاکر غائب ہوجاتے تھے۔

    زمانہ گزر گیا۔ یہ دوسراجنم بھی ختم ہونے کو پہنچا۔ وقت کےکتنے پرانےٹیلوں کے پیچھے کھڑا میں ایک کمزور، بوڑھااور حقیر جوتا کب تک اسےڈھونڈتا رہوں گا۔ شاید باربار اپنےوجود کو کولتارمیں بدل دینے کے بعد بھی یہ بھیانک، اداس اور اکیلا سفر جاری رہے گا۔ مگر جس دن یہ تلاش مکمل ہوجائے گی اسی دن انسان بھی دوسرے انسان کے ساتھ ایک بہتر سوداکرسکے گا۔ کوئی میرے بدلے جب خون سے بھیگے میرے نصف وجود کو مجھے واپس کردے گا۔ شاید دنیا اس عجیب و غریب سودے کے ذریعے ہی مکمل ہوگی اور سارے معنی، سارے مفہوم خود کو آشکار کردیں گے۔

    پو پھٹ رہی ہے۔ رات بیت گئی۔ رات بیت جانے کے بعد ساری کہانیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ خون میں شرابور،میری یہ کہانی ختم ہوگئی۔ آسمان میں بہت سے ستارے ڈوب گیے ہیں۔ ستاروںمیں بھی مٹنے اور بننے کا عجب سلسلہ جاری ہے۔ پرانے بہت سے ستارے بھٹک کر نہ جانے کون سے اجنبی سیاروں کے قافلےمیں جاملے ہیں۔ اپنی کہانی سناتے سناتے میں بہت تھک گیا۔ یقیناً مجھےاحساس ہے کہ میری کہانی میں تکرار بہت تھی مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ یہ میری کہانی تھی مگر میں نے اسے ایک جنونی گیت کی طرح گایا۔ ایسا گیت جس کا سُر آدمی کے گھٹنوں، پنڈلیوں اور ٹخنوں کی گھومتی ہوئی ہڈیوں میں پوشیدہ ہے اور جو کوئی آواز نہیں بلکہ صرف اورصرف بہتا ہواخاموش خون ہے۔

    کیا وہ اپنی زخمی انگلیوں کے ساتھ ایک بار پھر یہاں آئیں گے؟

    (۱) جیرالڈ شاستری، ابن صفی کے ایک مجرم اور فاشسٹ کردار کا نام ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے