Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رام لیلا

کوثر چاند پوری

رام لیلا

کوثر چاند پوری

MORE BYکوثر چاند پوری

    گھر سے چلتے وقت اس نے رانی کی طرف دیکھا۔ وہ پہلے ہی پھیلی ہوئی بے رونق آنکھوں سے اس کو دیکھ رہی تھی۔ دونوں نگاہوں میں محبت کی بیکسی اور مجبوری کا احساس تھا۔ رانی کے رخساروں پر مژمردگی چھائی ہوئی تھی، ہونٹ پپڑائے ہوئے تھے۔ چھ مہینے کا لاغر مگر خوبصورت بچہ اس کی سوکھی ہوئی چھاتیوں سے اس طرح چمٹا ہوا تھا جیسے چیونٹی گڑکی ڈلی سے چمٹی ہوئی ہو۔

    رانی کی گردن میں ٹی بی گلینڈ کی وجہ سے شدت کا درد تھا۔ وہ بہت دبلی اور نڈھال نظر آ رہی تھی۔ رگوں میں تازہ خون کی روانی کم ہو گئی تھی۔ دودھ بھی بہت تھوڑا اتر رہاتھا۔ بچہ کمزور تھا مگر چھاتیوں کو دونوں ہونٹوں سے چبانے کی ہر وقت مشق کرتا رہتا تھا۔ مینہ کے جن مرمریں ابھاروں کو گردھاری نے کبھی عشق و محبت میں ڈوبی ہوئی نظروں سے دیکھا تھا، آج اس کا بیٹا سروپ انھیں بھوک کی شدت میں چبائے ڈال رہا تھا۔ اس نے دیوار سے ٹکی ہوئی ڈلیا کو اٹھاکر سر پر رکھ لیا اور رانی اور سروپ کے تصور میں کھویا ہوا سڑک پر آ گیا۔

    ذرا دور چلنے کے بعد وہ نالی پر پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔ پاؤں کے قریب ہی بہت سی چیونٹیاں مرے ہوئے کن کھجورے کو کھینچتی سوراخ کی سمت لے جا رہی تھیں۔ اس نے کنکھیوں سے انھیں دیکھ کر سوچا۔۔۔ چیونٹیوں کی یہ پلٹن اسی طرح پیٹ بھر لیتی ہے، اسے سڑکوں پر، گلیوں اور نالیوں میں بہت سے مرے ہوئے کیڑے مل جاتے ہیں اور وہ انھیں اپنے بلوں میں اکٹھا کر لیتی ہے۔ خوراک کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہو جاتا ہے۔ روٹی کے ٹکڑے، گڑ کی ڈلیا، مردہ ٹڈے، چھپکلی کے بچے، اسی قسم کی بیکار اشیا جو مرکر بھی اپنے سے کسی بہتر وجود کو جنم نہیں دے سکتیں، چیونٹیوں کی فوج کا بہترین راشن ہیں، جس کے سہارے وہ جانے کب تک زندہ رہتی ہے۔ بھوک کبھی اسے نہیں ستاتی۔

    ایک میں ہوں، میرا گھر بالکل خالی ہے۔ کھانے پینے کی کوئی چیز موجود نہیں۔ رانی کی چھاتیاں سوکھی پڑی ہیں، ان کے سوتے بند ہو چکے ہیں۔ ان میں سے دودھ کی دھاریں نکلنی بند ہو گئیں ہیں۔ سروپ انھیں دن بھر چچوڑنے کے بعد بھی بھوکا ہی رہتا ہے۔ کتنا فرق ہے چیونٹی اور آدمی میں۔ ایسی باتیں سوچتا ہوا گر دھاری دھیمی چال سے سڑک پر چلتا رہا۔ آج کافی دور نکل آنے پر بھی اسے کسی نے آوازنہ دی تھی۔ راستہ میں بہت سے آدمی سر پر بوجھ اٹھائے ہوئے ملے۔ اس نے ہنس کر خودکلامی کے طور پر دھیرے سے کہا، شہر کاہر آدمی چیونٹا بن گیا ہے اور اپنے رزق کی لاش سرپر اٹھائے بھاگ رہا ہے۔ چھابڑی والے کو نہیں پکارتا۔ اسی وقت کسی نے آواز دی، ’’چھابڑی والے۔۔۔ او چھابڑی والے۔‘‘

    اس نے مڑ کر دیکھا۔ ایک موٹا تازہ آدمی سفید کرتے پر کالی صدری پہنے کھڑا تھا۔ اس نے جلدی سے اس کے قریب پہنچ کر پوچھا، ’’کیا ہے بابوجی؟‘‘

    ’’لڈو ہے، جلیبی ہے۔۔۔‘‘ وہ جل کر بولا، ’’پوچھتا ہے کیا ہے بابوجی، ارے وہی ہے جو روز ہوا کرتا ہے اور تیرا بھاگ بن چکا ہے۔ پندرہ بیس کلو کانچ کے ٹکڑے ہیں۔ بول چلےگا؟‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’کارخانہ تک۔ نرک میں نہیں لے جاؤں گا تجھے۔‘‘

    ’’بابوجی، نرک میں تورات دن رہتا ہوں۔ اب بھی وہیں سے چلا آ رہا ہوں۔ سورگ میں لے چلتے تو بڑا کام ہوتا۔‘‘

    ’’سورگ تیرے لیے نہیں۔ نہ جانے کتنی مرتبہ مرکر جیےگا تب کہیں سورگ میں جانے کے قابل ہوگا۔‘‘

    ’’آواگون کا چکر تو آپ جیسوں کے لیے ہے بابوجی۔ میں تو مرتے ہی مکت ہو جاؤں گا۔‘‘

    ’’باپ رے باپ، کیا زمانہ آ گیا ہے۔ چھابڑی والا بھی سائنس کی زبان میں بول رہا ہے۔‘‘

    ’’میرا کیا دوش ہے بابوجی۔ چاروں اور سے ایسی ہی آوازیں آ رہی ہیں۔ سائنس سب ہی کی زبان سے بول رہی ہے۔ وہ بڑے اور چھوٹے کو نہیں دیکھتی۔ کارخانہ دار اور چھابڑی والے کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتی ہے۔ کہاں ہے کارخانہ؟‘‘

    ’’سامنے گلی میں۔۔۔ کیا ڈر لگتا ہے؟‘‘

    ’’ڈرکس بات کا بابوجی۔ میری جیب بھاری نہیں ہے۔‘‘

    بابوجی نے کانچ کے ڈھیر کی جانب اشارہ کرکے کہا، ’’ان ٹکڑوں کولے چلناہے کارخانہ تک۔‘‘

    گردھاری نے ٹوٹی ہوئی شیشیاں، مرتبان اور بوتلیں ڈلیا میں بھرلیں۔ بوجھ کافی تھا۔ اس نے بابوجی سے کہا، ’’ذرا ہاتھ لگاؤ سیٹھ۔‘‘

    ’’اور جو کانچ چبھ گیا۔۔۔‘‘

    ’’میرے سر کادھیان نہیں آیا آپ کو، اپنے ہاتھ کا اتنا خیال ہے۔ جب دھندا یہی ٹھہرا تو لوہے کے دستانے ضرور بنوا لو بابوجی۔‘‘

    ’’لے بابا، باتیں مت بنا۔‘‘

    انھوں نے ڈلیا کو برائے نام چھوکر سہارا دیا۔ گردھاری نے دونوں ہاتھوں کی پوری طاقت لگاکر بھری ہوئی ڈلیا کو سر پر رکھ لیا۔ اس کے بازوؤں کی مچھلیاں پھول گئیں، سانس تیز ہو گیا۔ وہ ڈلیا سمیت اٹھ کھڑا ہوا، اس کاسر نیچے کو دبا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پوری دھرتی کا بوجھ اس کے سر پر رکھ دیا گیا ہے۔ پیروں کے نیچے سیمنٹ کی سڑک نہ ہوتی تو پاؤں ضرور زمین کے اندر دھنس جاتے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہاں سے پانی ابل پڑتا۔ وہ بابوجی کے پیچھے پیچھے چلتا رہا جو ایک گلی کے بعد دوسری گلی میں مڑتے جا رہے تھے اور پھر ایک دم تیسری گلی میں گھوم جاتے۔ نہ جانے کتنی گلیاں طے کرنے کے بعد وہ ایک بلڈنگ کے آگے کھڑے ہوکر ہانپنے لگے۔

    ’’یہی ہے گودام، ٹھہرے رہو۔ میں اوپر سے کنجی لاتا ہوں۔‘‘

    بابوجی زینہ پر چڑھنے لگے اورجب تک واپس آئے گردھاری سر پر تیس چالیس کلو وزن رکھے کھڑا رہا۔ بار بار محسوس ہوتا تھا کہ دونوں پاؤں دھرتی میں دھنسے جا رہے ہیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ بوجھ تو میں اٹھاکر اتنی دور چلا ہوں اور سانس پھول رہا ہے بابو جی کا۔ شاید انھوں نے میرا درد بانٹ لیا ہے۔ ان کی نسوں میں میری تھکن بھر گئی ہے۔ ایک آدمی کو دوسرے آدمی کے ساتھ اتنا لگاؤ تو ہونا ہی چاہیے۔

    بابوجی نے گودام کھول دیا اور گردھاری نے کانچ کے ایک بہت بڑے ڈھیر پر ڈلیا الٹ دی۔ پھر وہ گودام میں ادھر ادھر نگاہیں دوڑانے لگا۔ ہرطرف کانچ ہی کانچ تھا۔ سوڈے کی بوتلوں کے ٹکڑے زیادہ تھے۔ وہ کچھ سوچ کر بولا، ’’بابوجی، کل کے دنگے میں سوڈے کی بارہ سو بوتلیں چلی تھیں۔ ایسا لگتا ہے ان کے سارے ٹکڑے آپ نے گودام میں بھر لیے۔‘‘

    بابوجی نے زور کا قہقہہ لگایا اور بولے، ’’مورکھ کہیں کے۔ ایسے دنگے نہ ہوں تو سارے گودام اور کارخانے بند ہو جائیں۔‘‘

    ’’کانچ کے ٹکڑوں پر نہ جانے کتنے آدمیوں کا لہو لگا ہوگا۔‘‘

    ’’اسے کون دیکھتا ہے۔ ہمیں تو کانچ کا دھندا چلانا ہے۔ اسے پگھلاکر دوبارہ بوتلیں اور برنیاں بنائیں گے۔ ان میں شربت، جوس اور مٹھائی بھری جائےگی۔۔۔ اور اسی طرح آواگون کا یہ چکر چلتا رہےگا۔ سوڈے کی بوتل، شربت کی بوتل اور مٹھائی کی برنی کی شکل میں آئےگی۔ یہ کسی بھونچال میں ٹوٹ جائیں گی تو پھر ان سے منھ دیکھنے کے آئینے بنیں گے اور پھر شراب پینے کے گلاس، ہاتھوں میں پہننے کی چوڑیاں۔ اسی طرح ہر دنگے کے بعد ایک کہکشاں ابھرتی رہےگی۔ دھنک کے رنگ بکھرتے رہیں گے۔‘‘

    ’’بابوجی، کتنا عمدہ دھندا کرتے ہیں آپ۔ ٹوٹے پھوٹے کانچ کو پگھلاکر پھر برتنوں کے روپ میں ڈھال لیتے ہیں۔‘‘

    ’’اور کیا۔‘‘

    ’’کسی ابھاگن کا سہاگ لٹنے پر اس کی چوڑیوں کے ٹکڑوں کا سودا بھی کیا آپ نے؟‘‘

    ’’کیوں نہیں، یہ اپنا پیشہ ہی ٹھہرا۔ نہ جانے ایسے ٹکڑوں سے کتنی چوڑیاں بناکر ہم نے سہاگنوں کی کلائیوں میں پہنادی ہوں گی۔ چوڑیوں کے ایک کارخانہ میں بھی ہمارا حصہ ہے۔ اچھا بول کیا دے دوں؟‘‘ بابوجی نے صدری کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے سوال کیا۔

    ’’جو دل چاہے دے دو بابوجی۔ میں ٹھہرایا نہیں کرتا۔‘‘

    ’’لے پچاس کا سکہ دیے دیتا ہوں۔‘‘

    ’’پچاس کم ہیں بابوجی۔‘‘

    ’’بہت ہیں، نکل جلدی سے۔ میں تالا لگاؤں گا۔‘‘

    ’’دور سے لایا ہوں بابوجی، بوجھ بہت تھا۔‘‘

    ’’پھر اور کیا لےگا؟ بلڈنگ لکھ دوں تیرے نام؟‘‘

    ’’بلڈنگ میرے کس کام کی؟ میں یہاں آبسا تو یہ بھی نرک بن جائےگی۔ اتنے ہی اور دے دو۔‘‘

    ’’پھر میرے ہاتھ کیا آئےگا، یہ بھی سوچا تونے۔ اچھا دس پیسے اور لے۔ کیا نام ہے تیرا؟‘‘

    ’’گردھاری۔‘‘

    ’’زیادہ لالچ اچھا نہیں ہوتا گردھاری۔‘‘

    ’’کیا بات ہے بابوجی لالچ کی۔ یہ نہ ہو تو آپ جیسے بھاگوانوں کے دل میں سوڈے کی ہزاروں بوتلیں ایک دم کیو ں کر پھوٹ جایا کریں۔‘‘

    ’’اچھا تم چلتے بنو۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ تم کسی ٹریڈ یونین کے سکریٹری ہو۔‘‘

    ’’مخول مت کرو چھابڑی والے سے بابوجی۔‘‘

    ’’جابابا پیچھا چھوڑ میرا۔‘‘ انھوں نے پانچ کا سکہ اور دے دیا۔

    ’’۶۵ پیسے میں تین آدمیوں کا پیٹ کیونکر بھر سکوں گا۔‘‘

    ’’میں نے پیٹوں کا ٹھیکہ نہیں لیا۔ کھانے کو تو پرماتما ہی دے سکتا ہے بھائی۔ آدمی کی اتنی ہمت کہاں ہے کہ سو پچاس کا دوزخ بھر سکے۔‘‘

    بابوجی نے منہ پھیر لیا۔ گردھاری کچھ اور کہنے کی ہمت نہ کرسکا۔ دوپہر تک جتنے پیسے اس نے کمائے، وہ انھیں لے کر گھر کی طرف چل پڑا۔ اسے رانی اور سروپ کی بھوک کا خیال کھائے جا رہا تھا۔ راستہ کی دوکان سے اس نے کلھڑ میں پچاس پیسے کا دودھ لیا اور جلدی جلدی چلنے لگا۔ اس کے کانوں میں رانی اور سروپ کی آواز آرہی تھیں، جیسے دونوں آواز میں آواز ملاکر پکار رہے ہوں۔

    ’’تم کہاں چلے گئے؟‘‘

    ’’اب تک آئے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’کچھ کھایا بھی تم نے۔۔۔؟‘‘

    آخری آواز رانی کی تھی۔ وہ اپنی تکلیف کو بھول چکی تھی، گردھاری نے چلتے چلتے ٹھوکر کھائی۔ اس وقت اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ گیا تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ دور رانی کی چتا جل رہی ہے۔ وہ اکیلی آگ میں نہیں کو دی، سروپ اس کی گود میں ہے۔ شاید وہ ستی ہو جانا چاہتی ہے۔ میرے ساتھ جل مرنے کی تمنا رکھتی ہے۔ جس وقت گردھاری نے گھر میں پاؤں رکھا ہے، ٹھیک بارہ بج رہے تھے۔ رانی پانی پی کر لوٹ رہی تھی۔ سروپ ٹاٹ پر پڑا ہاتھ پاؤں مار رہاتھا۔ روتے روتے اس کی آواز بیٹھ گئی تھی۔

    ’’کیا لے آئے؟‘‘ رانی نے پوچھا۔

    ’’دودھ! تم بھی پیو اور سروپ کو بھی پلاؤ۔‘‘

    ’’کہاں سے مل گیا؟ دودھ کی تو ہڑتال ہے۔۔۔‘‘

    ’’آج کھل گئی صبح سے۔‘‘

    ’’بہت مہنگا ملا ہوگا۔۔۔ اور تم نے بھی کچھ کھایا؟‘‘

    ’’جاتے وقت ہوٹل میں چائے پی لوں گا۔‘‘

    ’’چائے سے پیٹ نہیں بھرا کرتا۔‘‘

    ’’دو توس کھا لوں گا۔‘‘

    وہ زیادہ نہیں ٹھہر سکتا۔ دوپہر ڈھلے کام زیادہ ملا کرتا ہے۔ لوگ بازار سے سودا خریدکر گھروں کو لوٹا کرتے ہیں۔ انھیں چھابڑی والے کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور شام کو اسے آٹے کے علاوہ رانی کی گولیاں بھی لانی تھیں۔ وہ ایک چھوٹے سے ہوٹل میں گھس گیا اور ہچکولے کھاتی ہوئی ایک پرانی کرسی پر میز کے سامنے بیٹھ کر چائے کا آرڈر دیا۔۔۔

    ’’ایک کپ چائے۔۔۔ دو بسکٹ۔‘‘

    ’’میٹھے یا نمکین؟‘‘ بوائے نے سوال کیا۔

    ’’ایک میٹھا۔۔۔ ایک نمکین۔‘‘

    اس لمحہ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی بہت برا کارخانہ دار ہے اور اس کے ایک ہی اشارہ میں سوڈے کی سیکڑوں بوتلیں ٹوٹ سکتی ہیں۔ بہت سی عورتوں کی چوڑیاں مول سکتی ہیں۔ وہ پیروں میں چھابڑی ڈالے بری شان سے اکڑا ہوا بیٹھا تھا۔ یہ اکڑ اور تمکنت اس لیے نہیں تھی کہ اسے بابوجی نے کرسی پر بٹھا دیا ہے بلکہ اس لیے تھی کہ اپنی محنت سے کمائے ہوئے پیسہ کی طاقت سے اس نے یہ سیٹ حاصل کی ہے۔ اسے معلوم تھا کہ جیب میں اتنے پیسے ہیں کہ بل آسانی سے ادا کر دوں گا اور جب یہاں سے اٹھوں گا تو ہاتھ پیروں میں ایک نئی طاقت، امنگ اور شکتی ہوگی۔ رگوں میں تازہ خون دوڑ رہا ہوگا۔ ہوٹل سے نکل کر وہ سڑک پر گھومنے لگا اور شام تک سامان ڈھوتا رہا۔ پیسے ملتے رہے۔ لوگ منہ مانگی اجرت دیتے رہے۔ وہ پھٹے ہوئے کوٹ کی جیب میں پیسے ڈالتا رہا، جس کو رانی نے کل ہی موٹے دھاگہ سے اچھی طرح گوتھ دیا تھا۔

    پیسوں کا بوجھ اتنا بڑھتا جا رہا تھا کہ اسے تھکن محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ جیب کو تجوری بنانا نہیں چاہتا تھا۔ بازار کو دوسروں کے لیے خالی کر دینا چاہتا تھا۔ جانتا تھا کہ ہر چھابڑی والا ایک رانی کا شوہر اور ایک سروپ کا باپ ہوگا۔ اسے بھی اتنے ہی پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ آخری مزدوری کے ۷۵ پیسے اس نے جیب میں ڈالے تو ایسا لگا جیسے وزن اس کی بساط سے زیادہ ہو گیا ہو اور اب وہ اسے اٹھانے کا حوصلہ نہ رکھتا ہو۔ تین آدمیوں کو زندہ رکھنے کے لیے اتنے پیسے کم نہیں تھے جتنے وہ کما چکا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اپنا کوٹہ پورا ہو چکا، اب کسی کا بوجھ نہیں اٹھاؤں گا اور سورج ڈوبنے تک پیارے لال کے پاس بیٹھا بیڑی پیتا رہوں گا۔ اس سے جگ بیتی کہوں گااور آپ بیتی سنوں گا۔ یہ سوچ کر وہ شہر کی تنگ و تاریک اور گندہ گلیوں سے گزرتا پارک کی سمت چلنے لگا۔

    پیارے لال کارپوریشن میں نوکر تھا اور پارک میں پھولوں، پودوں اور تار کی باؤنڈری کی دیکھ بھال کیا کرتا تھا۔ دن بھر گدھے، گھوڑے اور بکریاں بھگاتا رہتا۔ جانور پھاٹک کھلا دیکھتے تو دوڑ کر پارک میں گھس جاتے۔ سب سے بڑی مصیبت وہ بچے تھے جو پھول توڑنے اور لوہے کے تاروں پر جھولنے کی غرض سے ہر لمحہ چکر کاٹتے رہتے۔ وہ انھیں گالیاں دیتا، کبھی مارنے کے لیے دوڑتا۔ گدھوں اور بچوں میں اتنا فرق تھا کہ ایک گدھے کا رخ باہر کی طرف ہو جاتا تو سارے گدھے اس کے پیچھے بھاگنے لگتے اور بڑی تنظیم کے ساتھ پسپا ہو جاتے۔ لڑکوں میں یہ ڈسپلن بالکل نہ تھا۔ وہ ان کا پیچھا کرتا تو سب تتر بتر ہو جاتے۔ کوئی پورب کو بھاگتا، کوئی پچھم کو۔

    بعض اوقات وہ جل کر سوچتا کہ اتنے لڑکے کہاں سے آ جاتے ہیں۔ سرکار فیملی پلاننگ چلا رہی ہے پھر بھی بچوں کی پیدائش نہیں رکتی اور رکے کیونکر وہ آپ ہی فیصلہ کرتا۔۔۔ آواگون کا دور کس کے روکے رکتا ہے، جتنے آدمی دنیا سے جائیں گے اتنے ہی آئیں گے ضرور۔ پارک کے بیچ میں دوب کی دل فریب ہریالی تھی اور چاروں طرف خالی زمین دکھائی دے رہی تھی۔ وہاں ابھی دوب پیدا نہیں کی جا سکتی تھی۔ دوسرے تیسرے دن سارے نل کھول دیے جاتے۔ ان سے اچھل کر پانی نکلتا اور خالی زمین کو خوب تر کر دیتا۔ وہاں دوب پیدا کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی تھی۔

    گردھاری سڑک پار کرکے اس حصہ میں پہنچ گیا، جہاں گھاس نہ تھی اور زمین چھابڑی والے کی نئی منڈی ہوئی چندیاکی مانند چمک رہی تھی۔ جگہ جگہ چیونٹیوں کی قطاریں رینگ رہی تھیں، جیسے زندگی کا تھکا ہوا قافلہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہو۔ دو دو، چار چار قدم پر چونے کی سی سفیدی نظر آ رہی تھی۔ دراصل وہ چونے کی سفیدی نہ تھی بلکہ دیسی گیہوں کے باریک پسے ہوئے آٹے کے نشانات تھے۔ صبح شام شہر کے بڑے بڑے دولت منداور دیالو تھیلیوں میں آٹا بھرکر لاتے اور ایک چٹکی چیونٹیوں کے سوراخوں پر ڈال جاتے۔ چیونٹیوں کی قطاریں ادھر ادھر دوڑتی رہتیں۔ وہ خیرات کے اس آٹے پر نگاہ ڈالے بغیر اپنی تگ و دو میں مصروف رہتیں۔ مرے ہوئے کن کھجوروں، ٹڈوں اور بھڑوں کی لاشیں ڈھونڈنے میں مشغول نظر آتیں۔ جب کوئی مرا ہوا کیڑا مل جاتا، وہ اسے گھسیٹ کر بل میں لے آتیں۔

    گردھاری نے دیکھا کہ ایک شخص سر جھکائے چیونٹیوں کے بل تلاش کر رہا تھا۔ جب کوئی سوراخ مل جاتا وہ ایک مٹھی آٹا اس کے آس پاس بکھیر دیتا۔ گردھاری کو یہ کھیل بہت پسند آیا۔ وہ ایک جگہ ٹھہر کر آٹا ڈالنے والے کی دریادلی کا نظارہ کرتا رہا۔ اس نے دھوتی کے پلو میں سیر بھر کے قریب آٹا بھر رکھا تھا، دھیرے دھیرے اس کا وزن کم ہوتا جا رہا تھا۔ گردھاری نے بالکل فلسفی کی نظر سے چیونٹیوں کی بے نیازی کا امتحان لینا شروع کر دیا، جو آٹے کے اوپر سے گزرتی پوری روانی اور تیزی سے میدان میں دوڑ رہی تھیں۔ لوگ انھیں پیروں سے روند دیتے تو بھی ان کی دوڑ دھوپ میں فرق نہ آتا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی بڑی مہم پر جا رہی ہیں۔

    چیونٹیوں کی آرمی کے بعض دستے ایسے بھی تھے جو مرے ہوئے کیڑے مکوڑوں کو کھینچتے بلوں کی سمت آ رہے تھے، صاف ظاہر تھا کہ دھن کی پکی چیونٹیاں بکھرے ہوئے آٹے کو اہمیت نہیں دیتیں، وہ آپ ہی اپنی محنت سے مہینوں کی خوراک بلوں میں اکٹھی کر لیتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے آٹا ڈالنے والے کی جھولی خالی ہو گئی۔ گردھاری کو اس کی فیاضی پر ہنسی آ گئی۔ وہ سوچنے لگا۔۔۔ اتنے آٹے سے ایک ایسے اپاہج کا پیٹ بھر سکتا تھا جو چلنے پھرنے سے بالکل مجبور ہو یا چوتڑوں کے بل زمین پر گھسٹتا ایشور کے نام پر بھیک مانگ رہاہو۔ نہ جانے وہ کتنی دیر کھڑا رہتا۔ اچانک اسے قریب ہی پیروں کی آہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے چونک کر دیکھا۔ وہی بابوجی چلتے چلتے دھوتی جھٹک رہے تھے جن سے صبح اجرت پر اس کی معمولی سی توتو میں میں ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا تھا۔۔۔ پیٹ تو پرماتما بھرتا ہے بھائی سب کا، میں نے پیٹوں کا ٹھیکہ نہیں لیا۔

    ’’بابوجی!‘‘ گردھاری بولا، ’’آپ کیوں یہ جھگڑا مول لے رہے ہیں۔ چیونٹی بھلا آ پ کے اس چٹکی بھر آٹے کو کب نگاہ میں لاتی ہے۔ اس کے سوراخوں میں مہینوں کا راشن بھرا پڑا ہے۔ کیڑے مکوڑوں کی لاشوں، گڑ کی ڈلیوں اور روٹی کے ٹکڑوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں چیونٹیوں کے گودام میں۔‘‘

    بابوجی نے اسے دیکھا۔ بات زیادہ پرانی نہ تھی جلد ہی یاد آ گئی۔ ہنس کر بولے، ’’کیوں بے چھابڑی والے! اب بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑا تونے۔ میں ایک نیا پیسہ بھی نہیں دوں گا تجھے۔‘‘

    ’’مت دو سرکار۔ تم تو دھرتی کی مانگ میں آٹے کا سیندور بھرتے رہو۔ بلا سے چھابڑی والا بھوکا مرتا رہے۔ مگر ایک بات ہے بابوجی! دھرتی اپنا تھوکا چاٹا نہیں کرتی۔ وہ اناج اگلتی ہے، اس کا آٹا کیوں کر چاٹ سکےگی۔‘‘

    اسی وقت پیارے لال لاٹھی کندھے پر رکھے ادھر آنکلا، بولا، ’’کیا ہے گردھاری! ادھر کیوں کھڑا ہے؟‘‘

    ’’ایک ناٹک دیکھنے لگا تھا۔ تم اسے رام لیلا کہہ لو۔ بابوجی چیونٹیوں کو آٹا چٹانے آئے تھے۔ میری اجرت کاٹ کر ان کے لیے گیہوں کا آٹا لائے تھے جو میدے سے بھی زیادہ مہین تھا۔ انھیں کیا پتہ کہ ان سیٹھانیوں کا گھر بھرا پڑا ہے کھانے پینے کی چیزوں سے، کون جانے ہر سال کتنا راشن سڑ جاتا ہوگا، وہاں پڑے پڑے۔ ان کے یہاں فیملی پلاننگ نہیں۔ دن رات میں لاکھوں بچے انڈوں سے نکل پڑتے ہیں۔ چیونٹی ان سب کا پیٹ بھر دیتی ہے۔ اسے بابوجی کے سیر بھر آٹے کی بھلا کیا پروا۔ بابوجی اس بات کو نہیں سمجھتے۔ وہ ایک ایک چٹکی آٹے سے اپنی مکتی کا مول کرتے ہیں اور چیونٹی کو بھیک پر گزر کرنا سکھاتے ہیں۔ میں خوب جانتاہوں کہ ان کا یہ سپنا پورا نہیں ہوگا۔‘‘

    مأخذ:

    آوازوں کی صلیب (Pg. 194)

    • مصنف: کوثر چاند پوری
      • ناشر: حلقۂ فکر و شعور، دہلی
      • سن اشاعت: 1974

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے