Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رئیس کیوں چپ ہے؟

اخلاق احمد

رئیس کیوں چپ ہے؟

اخلاق احمد

MORE BYاخلاق احمد

    رئیس کچھ دنوں سے چپ ہے۔

    اب یہ مت سمجھ لیجئےگا کہ رئیس نے بولنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ وہ بولتا تو ہے مگر بس، ضرورت کے مطابق۔ ہر سوال کا جواب دیتا ہے۔ دفتر میں ساتھیوں کی خیریت بھی دریافت کرتا ہے۔ بچوں سے اور بیوی سے گفتگو بھی کرتا ہے۔ رات گئے گھر آنے والے مہمانوں کے سامنے خاندانی جھگڑوں پر رائے بھی دیتا ہے۔ کبھی کبھار ہنستا بھی ہے۔

    مگر اس کی گفتگو میں اور اس کے رویے میں اور اس کی پوری شخصیت میں جیسے کوئی کمی محسوس ہوتی ہے۔

    جو لوگ رئیس کو برسوں سے جانتے ہیں وہ صاف محسوس کر لیتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہے۔ مگر کوشش کے باوجود، دیر تک غور کرنے کے باوجود یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا گڑبڑ ہے۔ رئیس کی بیوی بھی اندر ہی اندر پریشان ہے۔ بظاہر سب ٹھیک ہے۔ شادی کے پندرہ برس گزر جانے کے باوجود رئیس اس کی کوئی بات نہیں ٹالتا۔ کبھی جھگڑا نہیں کرتا۔ اس کے باوجود یوں لگتا ہے جیسے درمیان سے کچھ غائب ہو گیا ہے۔ جیسے راہداری میں برسوں سے جلنے والا کوئی بلب، ایک روز اچانک بجھا ہوا ملے اور وہ راہداری اچانک بےحد ویران اور تاریک اور اداس نظر آنے لگے۔

    پہلے، یعنی چپ ہو جانے سے پہلے، رئیس ایک شرارہ تھا۔ وہ دروازہ کھول کر داخل ہوتا تھا تو کمرے میں توانائی کی ایک لہر سی دوڑ جاتی تھی، گھر میں، دفتر میں، محلے میں، دوستوں کی محفلوں میں، کاروباری میٹنگز میں، ہر جگہ اسے کھلے دل سے خوش آمدید کہا جاتا تھا۔ لگتا تھا، خوش دلی کا کوئی ہالہ ہے جو اس کے ساتھ چلتا ہے۔ وہ گفتگو کا ماہر تھا اور تعلقات بنانے کا اور چہروں سے دل کا حال جان لینے کا اور ہر ایک سے محبت کرنے کا اور بالآخر سب کا محبوب بن جانے کا۔ وہ سادہ سی بات بھی ایسے دلکش انداز میں کہتا تھا کہ بالکل نئی، یکسر انوکھی لگتی تھی۔ سیدھی دل میں اتر جاتی تھی۔

    نوعمری میں ہی رئیس نے یہ راز پا لیا تھا کہ پراثر گفتگو کرنے کی صلاحیت، کامیابی کی کنجی ہے۔ اس کی بدولت اجنبی، دوست بن جاتے ہیں۔ کیفے ٹیریا والا ادھار دینے لگتا ہے۔ ماسٹروں کے لہجوں میں نرمی آ جاتی ہے۔ سو رئیس نے اس صلاحیت کو مانجھا، رگڑا، چمکایا اور پھر خوش مزاجی کی ایسی دھار لگائی کہ یونیورسٹی تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک عالم کا محبوب بن گیا۔ لڑکے، لڑکیاں، یونین والے، ہوسٹل والے، کیفے ڈی پھونس میں بیٹھنے والے، باپ کی دولت بے دردی سے ضائع کرنے والے، دن رات پڑھائی کرنے والے، عشق میں ناکام ہو جانے والے، سب اس کے دوست تھے۔ وہ رواں انگریزی بولنے والے فرعونوں کو غالب کے ایک مصرعے سے ناک آؤٹ کر دیتا تھا۔ غصے سے گرجتے دوستوں کے اشتعال کی آگ کو اپنی بذلہ سنجی سے پل بھر میں بجھا دیتا تھا۔ جہاں بیٹھتا تھا، قہقہوں کا ایک طوفان برپا کر دیتا تھا۔

    محبت میں مبتلا ہونے کا رئیس کو قطعاً شوق نہیں تھا۔ وہ ان جوڑوں پر حیران ہوتا تھا جو ویران لائبریری کے دور دراز گوشوں میں، پرانے شعبہ تصنیف و تالیف کے پیچھے کیکروں کی اوٹ میں، مختلف ڈپارٹمنٹس کی پہلی یا دوسری منزل کی سیڑھیوں پر گھنٹوں بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے۔ کم لوگ جانتے تھے کہ رئیس کے لئے کسی لڑکی کے ساتھ تنہائی میں بیٹھا بےحد دشوار تھا۔ کسی کو ’’مجھے تم سے محبت ہے‘‘ جیسی فضول بات کہنا تو بالکل ممکن نہ تھا۔ ایک نفیسہ عبدالکریم کے سوا، جو رئیس کی ہر سالگرہ پر طارق روڈ سے ایک بڑا کیک بنواکر لاتی تھی، کوئی لڑکی اس کے قریبی حلقے میں شامل نہیں ہو سکی تھی اور نفیسہ کے ساتھ اس کا تعلق بھی ایسا کھلی کتاب جیسا تھا کہ کوئی بھی بات، کسی سے پوشیدہ نہ تھی۔ رئیس جانتا تھا کہ نفیسہ کے دل میں کیا ہے اور ان تین چار لڑکیوں کے دلوں میں بھی، جو چار برسوں کے دوران چند ہفتوں یا چند ماہ تک اس کے گرد گردش کرتی رہیں اور پھر کسی اور مدار میں چلی گئیں۔ مگر رئیس کی نظریں آگے، بہت آگے مرکوز تھیں۔ زندگی کی جانب۔ کامیابی کی جانب۔

    مگر یہ سب تو پرانی باتیں ہیں۔ اس وقت کی، جو گزر گیا۔ ان دوستوں کی، جو گم ہو گئے۔ اس زندگی کی، جو دھندلی یادوں میں ڈھل چکی۔

    نئی بات یہ ہے کہ رئیس چپ ہے۔

    اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں، صبح سے شام تک جاری رہنے والے دفتری ہنگاموں میں، بھاری تنخواہوں اور چمکیلی کاروں کی خاطر ہر وقت برپا رہنے والی بھگدڑ میں، ہزاروں لاکھوں لوگوں کے چیختے چلاتے شور میں، رئیس چپ ہے۔

    نارمل نظر آنے کی کوششوں کے باوجود، مصنوعی مسکراہٹوں اور روح سے خالی قہقہوں کے باوجود چپ ہے۔

    رئیس اپنے چپ ہوجانے پر فکر مند بھی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یوں چپ ہوجانے سے بڑی گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ قیاس آرائیوں کی نئی نئی فیکٹریاں کھل جاتی ہیں جہاں سے دن رات طرح طرح کے خدشات ڈھل ڈھل کر نکلتے رہتے ہیں۔

    وہ جانتا ہے کہ اس کی بیوی اس خاموشی سے پریشان ہے مگر ایک جدید، پڑھی لکھی عورت کی طرح اس معاملے کو نظر انداز کر رہی ہے اور اسے امید ہے کہ رفتہ رفتہ سب ٹھیک ہو جائےگا۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ وہ جدید، پڑھی لکھی عورت خاموشی سے پوری تحقیق کرا چکی ہے اور یہ جان کر مطمئن ہو چکی ہے کہ رئیس کے روز مرہ کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اس کے اردگرد کوئی نئی عورت نہیں ہے۔

    وہ جانتا ہے کہ اس کے ساتھی ڈائریکٹرز بھی اس کی خاموشی کو نوٹ کر چکے ہیں مگر کارپوریٹ دنیا کی روایتی شائستگی اور کسی کے نجی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے کی روایت نبھا رہے ہیں۔ تاہم وہ یہ نہیں جانتا کہ کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر کی ہدایت پر اس کے بینک اکاؤنٹ کی اور ٹیلی فون کالز کی چھان بین کی جا چکی ہے اور یہ چیک کیا جا چکا ہے کہ وہ کسی بڑے مالی مسئلے سے دوچار نہیں ہے اور یہ کمپنی چھوڑ کر کسی اور ادارے سے وابستہ ہونے کا بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے۔

    وہ اپنی فکرمندی اور اپنے خدشوں اور اپنے اردگرد بسنے والوں کے بارے میں اپنے غلط اندازوں کے باوجود چپ ہے۔ اپنی فتوحات اور اپنی کامیابیوں اور اپنی اطمینان بھری زندگی کے باوجود چپ ہے۔

    گیارہ دن پہلے رئیس کے پاس وہ ٹیلی فون کال آئی تھی۔

    شام سات بجے۔

    رئیس کو سب یاد ہے۔ وہ وقت بھی، وہ پورا منظر بھی۔

    وہ اپنا لیپ ٹاپ بند کر رہا تھا جب سیل فون پر ایک اجنبی فون نمبر جلنے بجھنے لگا۔ رئیس نے گلے میں لٹکا ہوا قریب کی نظر کا چشمہ ناک پر ٹکایا اور غور سے دیکھا۔ کوئی اسلام آباد سے فون کر رہا تھا۔

    ’’ہیلو۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’رئیس الدین خان۔؟‘‘ دوسری طرف سے کسی نے بدتہذیبی سے پوچھا۔

    یقیناً کوئی پرانا شناسا تھا۔ پندرہ برس سے تو وہ صرف رئیس خان تھا۔ اس نے کہا۔ ’’جی، میں بول رہا ہوں۔ آپ کون صاحب۔؟‘‘

    ’’گل کرو۔‘‘ بد تہذیب آواز نے کہا۔

    ریسیور کی کھڑ کھڑاہٹ سنائی دی۔ پھر کسی نے آہستہ سے کہا۔ ’’رئیس، یار میں شوکت بول رہا ہوں۔‘‘

    ’’شوکت۔؟‘‘ رئیس نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’آئی ایم سوری۔ میں پہچانا نہیں۔‘‘

    دوسری طرف جو بھی تھا، بہت دھیمی آواز میں بول رہا تھا۔ ’’میرا تو خیال تھا تو مجھے فوراً پہچان لےگا۔ میں شوکی ہوں یار۔ شوکی۔ یاد آیا۔؟‘‘

    رئیس اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ ’’شوکی! ‘‘اس نے چلّا کر کہا۔ ’’تو کہاں سے آ گیا۔؟‘‘

    شوکی کی ہنسی بھی کمزور سی تھی۔ ’’بس، دیکھ لے۔ بڑی مشکل سے تیرا نمبر حاصل کیا ہے۔‘‘

    ’’تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔؟‘‘ رئیس نے کہا۔ ’’اور تو اسلام آباد میں کیا کر رہا ہے۔؟ لندن سے کب آیا۔؟‘‘

    دوسری طرف شوکی کھانسنے لگا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’یہیں رہتا ہوں یار، ابھی تو پی سی او سے فون کر رہا ہوں۔‘‘

    رئیس کے سارے حواس بیدار ہو چکے تھے۔

    شوکی کچھ بتانا چاہتا تھا مگر نہیں بتانا چاہتا تھا۔ کچھ چھپانا چاہتا تھا مگر نہیں چھپانا چاہتا تھا۔ سینکڑوں، ہزاروں گزری یادیں رئیس کی نظروں کے سامنے سے یوں گزرنے لگیں جیسے کسی تیز رفتار ٹرین کی کھڑی سے مناظر گزرتے جاتے ہیں۔

    لمحہ بھر خاموش رہنے کے بعد رئیس نے کہا۔ ’’تو کسی پریشانی میں ہے شوکی۔ سچ سچ بتا، کیا بات ہے؟‘‘

    شوکی پھر کھانسا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’بات یہ ہے کہ ۔۔۔ میں تجھ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں۔۔۔‘‘ وہ بولتے بولتے ذرا دیر کو رکا۔ ’’۔۔۔ میں مر رہا ہوں، یار۔‘‘

    رئیس کو یوں لگا جیسے اس کے پیروں کی جان نکلتی جا رہی ہو۔ پھر بھی اس نے بشاشت سے کہا۔ ’’ابے، ہم سب کسی نہ کسی پر مررہے ہیں۔ زندگی میں اور کام ہی کیا ہے۔‘‘

    شوکی کی آواز بجھی ہوئی تھی۔ ’’زیادہ ٹائم نہیں ہے یار۔ تو کب تک آ سکتا ہے۔؟‘‘

    ’’کیا بکواس ہے شوکی۔‘‘ رئیس نے بے یقینی سے کہا۔

    ’’کسی کو پتا نہیں چلنا چاہئے۔‘‘ شوکی اتنی دھیمی آواز میں بول رہا تھا کہ سننے میں دشواری ہورہی تھی۔ ’’ وعدہ کر، تو کسی کو میرے اس فون کے بارے میں نہیں بتائےگا۔ کسی بھی دوست کو۔۔۔‘‘

    ’’نہیں بتاؤں گا، یار۔‘‘ رئیس نے کہا۔

    ’’کب آئےگا۔؟‘‘

    ’’بہت جلد۔ تین چار دن میں۔‘‘

    ’’ٹائم نہیں ہے، رئیس۔‘‘ شوکی کھانستے کھانستے بے دم ہوگیا۔ پھر اس نے سنبھل کر کہا۔ ’’تو سمجھتا کیوں نہیں۔؟‘‘

    رئیس نے لمحہ بھر سوچا اور پھر کہا۔ ’’اوکے۔ کل شام سات بجے میں تیرے پاس ہوں گا۔ ایڈریس سمجھا مجھے۔‘‘

    ’’فیض آباد کا بس اڈہ دیکھا ہے تونے؟ جہاں سے دوسرے شہروں کے لئے۔۔۔‘‘

    ’’دیکھا ہے اڈہ۔‘‘ رئیس نے کہا۔ ’’آگے بول۔‘‘

    ’’نیازی کوچ کا جو آفس ہے، اس کے بالکل سامنے، سڑک کے پار ہے نیو غازی ہوٹل۔ گیارہ نمبر کمرے میں ہوں میں۔ سمجھ گیا نا؟‘‘

    ’’سمجھ گیا۔‘‘ رئیس نے کہا۔

    فون کال منقطع ہو گئی تب بھی وہ ٹیلی فون کان سے لگائے بیٹھا رہا۔

    یوں لگتا تھا، کوئی خواب چل رہا ہے۔ ابھی آنکھ کھل جائےگی اور شوکی کی دھیمی آواز اور اس کے سینے کے اندر سے اٹھنے والی کھانسی اور یہ پورا منظر اچانک غائب ہو جائےگا اور زندگی۔۔۔ روشن، ترو تازہ، ہنستی مسکراتی زندگی سامنے کھڑی نظر آئےگی۔

    مگر ایسا نہیں ہوا۔

    کوئی اور وقت ہوتا، کوئی اور معاملہ ہوتا، شوکی کے بجائے کوئی اور ہوتا تو رئیس اندھا دھند فون کھڑکانا شروع کر دیتا۔ کاظمی کو بتاتا اور نفیسہ کو اور غلام علی کو اور نہ جانے کس کس کو۔ مشورے، اندازے، قیاس آرائیاں، جملے بازی، کانسپریسی تھیوریز۔ گھنٹہ بھر ٹیلی فون پر محفل جمی رہتی۔ ہزار قصے دہرائے جاتے۔ مل بیٹھنے کی باتیں شروع ہو جاتیں۔

    مگر درمیان میں لندن سے آنے والا شوکی تھا۔ شوکی، جو نہیں چاہتا تھا کہ کسی بھی دوست کو کچھ بتایا جائے۔ شوکی، جس کے ساتھ زندگی کے حسین ترین شب و روز گزرے تھے۔ شوکی، جس کی دھیمی آواز دل کو ایک شکنجے کی طرح جکڑتی، دھیرے دھیرے دباؤ بڑھاتی جاتی تھی۔

    وہ ریڈیو کیب میں اسلام آباد ایئرپورٹ سے فیض آباد روانہ ہوا تو شام ڈھل رہی تھی۔ بارش شاید کچھ دیر پہلے ہی تھمی تھی۔ سڑکیں ابھی گیلی تھیں اور اسلام آباد، یورپ کا کوئی شہر نظر آ رہا تھا۔ سرسبز، حسین اور پرسکون۔ ڈرائیور باتونی تھا مگر رئیس نے اپنی بے نیازی اور سرد مہری سے اس کی خواہشات کو کچل ڈالا۔

    نیو غازی ہوٹل ایک کھنڈر تھا جسے مختلف شہروں کو جانے والی ویگنوں کے اڈوں نے دنیا کی نظروں سے اوجھل کر رکھا تھا۔ مرکزی دروازے کے پاس ایک ٹھیلے والا بہت بڑے کڑھاؤ میں پکوڑے تل رہا تھا۔ اردگرد پلاسٹک کی بد رنگ کرسیوں پر درجنوں گاہک تازہ، گرما گرم پکوڑوں کا اور بھیگے ہوئے موسم کا لطف اٹھا رہے تھے۔

    لکڑی کے بوسیدہ سے استقبالیہ کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے نوجوان نے، جو شام کے اخبار کی چٹ پٹی خبروں میں گم تھا، بیزاری سے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’اوپر چلے جاؤ جی۔ سیدھے ہاتھ کا پہلا کمرہ ہے باباجی کا۔‘‘

    دور لگے بلب کی زرد روشنی میں سیڑھیاں بمشکل نظر آتی تھیں۔ وہ اپنا بریف کیس سنبھالے، احتیاط سے اوپر چڑھتا گیا اور بالآخر ایک کشادہ برآمدے میں جا نکلا جہاں دونوں جانب قطار میں کمرے بنے ہوئے تھے۔ ایک جیسے پرانے سلیٹی دروازے۔ کسی بند دروازے کے پیچھے ٹیپ ریکارڈر چل رہا تھا۔ کدی تے ہنس بول وے۔ نصیبو لعل چلا رہی تھی۔ نہ جند ساڈی رول وے۔

    رئیس نے دائیں جانب کے پہلے دروازے پر دستک دی۔

    گیلری میں گونجتے گانے کے شور میں اسے شبہ سا ہوا کہ اندر سے کوئی آواز آئی ہے۔ مگر بس ایک شبہ۔ وہ کچھ دیر کھڑا رہا۔ پھر اس نے دوبارہ دستک دی اور ساتھ ہی دروازے کو دھکیلا۔

    دروازہ اچانک کھل گیا۔

    رئیس نے ایک دبلے پتلے آدمی کو دیکھا جو بستر سے اتر کر کھڑا ہو رہا تھا۔ سفید بال اور بےترتیب داڑھی اور آنکھوں پر چشمہ، جو دبلے چہرے پر بہت بڑا لگ رہا تھا۔

    ایک لمحے کے لئے۔۔۔ بس صرف ایک لمحے کے لئے رئیس کو یوں لگا جیسے وہ کسی غلط کمرے میں گھس آیا ہے۔ کسی اجنبی بوڑھے کے کمرے میں، جس کا چہرہ جانا پہچانا نہیں ہے۔ مگر یہ لمحہ بھر کی بات تھی۔ اگلے ہی لمحے اسے چشمے کے پیچھے وہ آنکھیں نظر آئیں اور وہ دھیمی سے مسکراہٹ اور گال کا وہ مسّہ۔ یہ خدوخال وہ کیسے بھول سکتا تھا۔

    رئیس نے ایک ہاتھ میں بریف کیس تھامے تھامے، دوسرے بازو کے حلقے میں شوکی کے ڈھانچے کو محسوس کیا۔ نری ہڈیاں۔ دو سوکھے بازو اس کی کمر کے گرد لپٹ گئے اور وہ کمزور بدن ہلنے لگا۔

    شوکی رو رہا تھا!

    رئیس نے اپنے سینے کے اندر اٹھنے والے طوفان کو دبانے کے لئے کہا۔ ’’حرامزادے۔ میں تجھے۔۔۔ ’’مگر پھر وہ طوفان گرجتا ہوا باہر نکل آیا۔ سنبھلنے کی ہر کوشش کو اپنی وحشت خیزی سے ناکام بناتا، راہ میں آنے والی سوجھ بوجھ کی ہر رکاوٹ کو تہس نہس کرتا۔ رئیس کی خود سمجھ میں نہیں آیا کہ شوکی کو احتیاط سے تھامے، وہ کسی سبب کے بغیر یوں پھوٹ پھوٹ کر کیوں رو رہا تھا۔

    ’’چاچاجی۔ خیر ہے نا۔؟‘‘ کمرے کے کھلے دروازے میں کسی وقت نمودار ہو جانے والے ایک نو عمر لڑکے نے پوچھا۔ اس کے لہجے میں تشویش تھی۔

    شوکی نے خود پر قابو پاکر کہا۔ ’’خیر ہے۔ سب خیر ہے۔ بھائی آیا ہے میرا۔ جا، چائے لے آ اچھی سی اور یہ دروازہ بند کرتا جا۔‘‘

    دروازہ بند ہو گیا تو رئیس شوکی کا ہاتھ تھام کر اسے بستر کی طرف لے گیا، بستر پر رکھے دونوں تکئے سرہانے لگائے، اسے سہارا دے کر تکیوں کے ساتھ بٹھایا اور پھر ایک کرسی گھسیٹ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔

    ’’ یاد ہے رئیس، ہم آخری بار کب ایسے روئے تھے۔؟‘‘ شوکی نے اپنی دھیمی آواز میں پوچھا۔ اس کے چہرے پر نمی سی تھی۔

    رئیس نے صرف سر ہلایا۔ یہ کہے بغیر، کہ وہ سول ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ تھا جہاں اندر ایک دوست کی گولیوں سے چھلنی لاش پڑی تھی اور باہر بہت سے دوست سینہ کوبی کرتے تھے۔ کتنے سال پرانی بات تھی۔؟ رئیس نے دل ہی دل میں حساب لگایا۔ تیس سال۔ یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ وقت کیسے پلک جھپکتے میں گزر گیا تھا۔

    ’’پتہ بھی نہیں چلا، یار۔ گولی کی طرح گزر گیا وقت۔‘‘ شوکی نے یوں کہا جیسے کوئی جواب دے رہا ہو۔ کسی ان کہی بات کا جواب، جو ابھی رئیس کے دل میں تھی۔ رئیس بالکل حیران نہیں ہوا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں ایسا بار بار ہوتا تھا۔ ایک دوسرے کے اندر جھانکنے کی صلاحیت رکھنے والے یار۔ موٹا اقلیم غصے سے کہتا تھا، تو نے کیوں جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے؟

    رئیس کے پیچھے کمرے کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور وہی نو عمر لڑکا چائے لے کر اندر داخل ہوا۔ ٹرے میں گہرے نیلے رنگ کی چھوٹی سی لوہے کی کیتلی تھی اور دو چھوٹے کپ تھے جن کے کنارے گھسے ہوئے تھے اور جن میں بمشکل تین چار گھونٹ چائے بھری جا سکتی تھی۔

    رئیس نے کہا۔ ’’ابے، اس دروازے میں کوئی کنڈی نہیں ہے؟ ہاتھ لگاتے ہی جھٹکے سے کھل جاتا ہے۔‘‘

    لڑکے نے ٹرے ان کے درمیان بستر پر رکھی اور جس تیزی سے اندر داخل ہوا تھا، اسی تیزی سے رخصت ہو گیا۔

    ’’کنڈی ہے۔‘‘ شوکی مسکرایا۔ ’’لیکن کنڈی لگانا منع ہے۔ ایسے حیرت سے نہ دیکھ مجھے۔ ڈاکٹروں نے منع کیا ہے کنڈی لگانے سے۔ بند دروازے کے پیچھے کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔ سمجھا۔؟‘‘

    رئیس نے دونوں کپوں میں چائے انڈیلی، ایک کپ ٹرے سمیت کھسکا کر شوکی کے سامنے کر دیا اور دوسرا کپ اٹھا کر کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ گرم اور بےحد میٹھی چائے کا ایک گھونٹ بھر کر اس نے کہا۔ ’’شوکی۔ میں تیری پہیلیاں بوجھنے یہاں نہیں آیا ہوں۔ پوری بات بتا مجھے۔‘‘

    ’’بتا تو دی تھی تجھے پوری بات۔‘‘ شوکی نے کہا۔ ’’میں مر رہا ہوں۔ اب اس کے بعد کیا باقی رہ جاتا ہے بتانے کو۔‘‘

    رئیس خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ وہ بالکل نہیں بدلا تھا۔ سیدھی سی بات کا ٹیڑھا جواب دینا اس کی عادت تھی۔ جیسے سامنے بیٹھے آدمی کو بلا سبب چیلنج کر رہا ہو۔ مقابلے کی دعوت دے رہا ہو۔

    ’’چل، نہ بتا۔‘‘ رئیس نے کہا۔ ’’مجھے بھی کوئی جلدی نہیں ہے۔‘‘ اس نے گرم چائے کا گھونٹ لیا۔

    مسکراہٹ شوکی کے چہرے پر یوں دھیرے دھیرے پھیلی جیسے رات ختم ہونے کے بعد اجالا پھیلنے لگتا ہے۔ اس نے کہا۔ ’’بس ایک تو ہے رئیس، جو میری ہر چال جانتا ہے۔‘‘

    ’’اور چلن بھی۔‘‘

    شوکی آہستہ سے ہنسا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’جانتا ہے، تجھے دیکھ کر ایک طاقت سی آ گئی ہے بدن میں۔ بالکل میری توقع کے مطابق۔ تجھے فون کرتے وقت میں نے یہی سوچا تھا کہ تو آئےگا تو۔۔۔‘‘

    رئیس نے کہا۔ ’’تیرے فون کے بعد مجھے رات بھر ٹھیک طرح سے نیند نہیں آئی۔ بار بار آنکھ کھل جاتی تھی۔‘‘

    ’’تو نے بتایا تو نہیں کسی کو۔؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’بیوی کو۔؟‘‘

    ’’بیوی کو بھی نہیں۔‘‘ رئیس نے کہا۔ ’’جھوٹ بول کے آیا ہوں کہ دفتر کا کام پڑ گیا ہے اسلام آباد میں۔‘‘

    ’’اور اگر دفتر والوں نے گھر فون کر دیا تو۔؟‘‘

    ’’تو مجھے اتنا گھامڑ کیوں سمجھتا ہے شوکی۔؟ دفتر والوں کو بتاکے آیا ہوں کہ ذاتی کام سے اسلام آباد جارہا ہوں۔ ویسے بھی دفتر والے سیل فون پر بات کرتے ہیں۔‘‘

    ’’تو ایک کامیاب مجرم بن سکتا ہے۔‘‘ شوکی نے آنکھیں موند لیں۔ ’’اب میں آرام سے مر سکتا ہوں۔‘‘

    رئیس کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا اور ہنسنے کے دوران، سر جھٹک کر پوری توانائی کے ساتھ قہقہہ لگانے کے دوران، سرشاری کی ایک لہر سے شرابور ہونے کے دوران، رئیس کو یاد آیا کہ نہ جانے کتنے دنوں بعد اسے یہ بےساختہ، بھرپور، بدن کی کسی نامعلوم گہرائی سے اٹھنے والی ہنسی نصیب ہوئی ہے۔ مکمل ہنسی۔ ایک پھوار کی طرح برستی ہنسی، جو دل کو توانائی سے اور خوشی سے بھر دیتی ہے اور آدمی بس تھوڑی سی دیر کو مالی معاملات سے اور گھریلو مسائل سے اور دنیا کے الجھاووں سے بےنیاز، ایک کھلنڈرا، بے فکر نوجوان بن جاتا ہے۔

    ’’تو خوش قسمت ہے پیارے۔‘‘ شوکی نے کہا۔ ’’کھل کر ہنس سکتا ہے۔ مجھے تو ہنسی پر بھی قابو پانا پڑتا ہے۔ ورنہ کھانسی شروع ہو جاتی ہے۔ دم گھٹنے لگتا ہے۔‘‘

    رئیس مسکرایا۔ ’’گویا اب تو چاہتا ہے کہ میں تیری بیماری کے بارے میں سوال کروں۔۔۔‘‘

    شوکی کچھ نہ بولا۔ لیکن اس کے دبلے پتلے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی۔

    پھر شوکی نے کہا۔ ’’ایڈز ہے یار۔۔۔‘‘

    رئیس کو یوں لگا جیسے کسی نے اس کے سینے پر گھونسا مارا ہے۔ ہر جانب ایک گہرا سناٹا تھا جس میں اس نے خود کو حیرت سے کہتے سنا۔ ’’کیا۔؟‘‘

    شوکی نے کہا۔ ’’ابے ایک بیماری ہوتی ہے۔ اے۔ آئی۔ ڈی۔ ایس۔‘‘

    ’’معلوم ہے مجھے۔‘‘ رئیس نے سنبھل کر کہا۔ ’’مگر، میرا مطلب تھا۔۔۔‘‘

    ’’تیرا کوئی مطلب نہیں تھا۔‘‘ شوکی دھیرے سے مسکرایا۔ چہرے پر چھائے ہوئے بڑے سے چشمے کے پیچھے اس کی آنکھوں میں اداسی نہیں تھی، ایک گہرا اطمینان تھا۔ وہ اطمینان، جو بہت کچھ جان لینے والوں کی آنکھوں میں ہوتا ہے۔

    معاملے کی گمبھیرتا دھیرے دھیرے رئیس پر کھلتی جا رہی تھی۔

    ’’کب ہوا یہ۔؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’اور کیسے۔؟‘‘

    شوکی نے تکیوں سے ٹیک لگائے لگائے آنکھیں بند کیں اور بولا۔ ’’بارہ سال۔ یا شاید اس سے بھی زیادہ۔‘‘

    رئیس اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ بے ترتیب سفید داڑھی اور ہڈیوں پر منڈھی ہوئی کھال، جس میں جھریوں کا باریک جال غور سے دیکھنے پر نظر آتا تھا۔

    شوکی نے اچانک آنکھیں کھول دیں اور بولا۔ ’’جانتا ہے، وہ سالا وائرس بدن میں برسوں خاموش بیٹھا رہتا ہے۔ ایچ آئی وی۔ دو سال۔ پانچ سال۔ دس سال، یا اس سے بھی زیادہ۔ بدن میں کوئی چادر تانے سوتا رہتا ہے۔ پھر ایک دن انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھتا ہے اور بس۔۔۔‘‘

    ’’دوائیں بھی تو آ گئی ہیں، میں نے سنا ہے۔۔۔‘‘

    ’’دوائیں بس تکلیف کم کر دیتی ہیں اور کیا کرسکتی ہیں یہ رنگ برنگی گولیاں۔؟‘‘

    رئیس خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔

    ’’میں جانتا ہوں تیرا سوال۔‘‘ شوکی نے کہا۔ ’’کسی عورت سے ملا تھا یہ تحفہ، وہاں لندن میں۔ بے شمار عورتوں میں سے کسی ایک عورت سے۔‘‘ وہ آہستہ سے ہنسا۔ ’’سب معلوم تھا مجھے کہ آدمی کو محتاط رہنا چاہئے۔ بے راہ روی میں بھی کیا احتیاط برتنی چاہئے۔ مگر میں تو خود مرنے پر تُلا بیٹھا تھا۔ جو آدمی خود کھائی میں چھلانگ لگانا چاہتا ہو اس کے لئے احتیاط کیا حیثیت رکھتی ہے۔؟‘‘

    ’’اور بائی دا وے، تو مرنا کیوں چاہتا تھا۔؟‘‘

    ’’بس تھی کوئی وجہ۔‘‘ شوکی کی آواز میں جھنجھلاہٹ تھی۔ غصہ تھا۔

    ’’جو بتائی نہیں جا سکتی۔؟‘‘

    ’’بس یوں ہی سمجھ لے۔‘‘

    کمرے میں کچھ دیر خاموشی رہی۔

    پھر شوکی نے کہا۔ ’’یار، میں ایسا ہی ہوگیا ہوں بس۔ وعدہ کر، تو میری کسی بات پر ناراض نہیں ہوگا۔‘‘ اس کے لہجے میں تاسف تھا۔

    رئیس مسکرایا۔ ’’جب میں جوانی میں تیری کسی ۔۔۔‘‘

    ’’نہیں، وعدہ کر۔‘‘ شوکی نے کہا۔ ’’وعدہ کر تو کسی بات کا برا نہیں مانےگا۔‘‘

    ’’ابے، کیا پاگل ہو گیا ہے۔‘‘ رئیس نے کہا۔ ’’میں وعدہ کرتا ہوں، تیری کسی بات پر ناراض نہیں ہوں گا۔ خوش۔؟‘‘

    شوکی مسکرا کر کچھ کہنا چاہتا تھا کہ اسے کھانسی آ گئی۔ ہلکی سی کھانسی، جو دیکھتے ہی دیکھتے خوفناک کھانسی میں بدل گئی۔ ناتواں سینے کے اندر کہیں گہرائی سے اٹھنے والی کھانسی، جس سے اس کا لاغر بدن کانپتا تھا اور اس کی آنکھوں سے پانی بہتا تھا اور وہ سانس لینے کے لئے ہانپتا تھا۔ رئیس نے اس کی کمر سہلائی اور اس کا دبلا پتلا ہاتھ تھامے رکھا۔ رفتہ رفتہ شوکی نے خود پر قابو پالیا۔ مگر اس کا سانس اب بھی دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔

    رئیس نے اسے پانی پلایا۔ آہستہ آہستہ۔ تیز سانسوں کے درمیان ایک ایک گھونٹ۔

    کچھ دیر میں شوکی واپس تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھنے کے قابل ہو گیا۔

    ’’کچھ پتا نہیں چلتا۔‘‘ اس کی آواز میں لرزش تھی۔’’ آج ۔۔۔ یا کل۔۔۔ یا اگلے مہینے۔۔۔ یا۔۔۔‘‘

    ’’تھوڑی دیر چپ ہوجا، یار۔‘‘ رئیس نے کہا۔ ’’سانس کو قابو میں آنے دے۔‘‘

    شوکی نے اثبات میں سر ہلایا اور آنکھیں بند کر لیں۔

    ’’میری سمجھ میں نہیں آ رہا، شوکی۔‘‘ رئیس نے کہا۔ ’’تو لندن سے یہاں کیوں آ گیا ہے۔؟ تو اس ہوٹل میں کیا کر رہا ہے۔؟ کچھ عقل سے کام لے شوکی۔ تجھے ایک بیماری ہو گئی ہے، اور بیماری میں آدمی کو دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے اور علاج کی اور کسی خدمت گزار کی۔ تو اس حال میں مجھے فون کرنے نیچے کسی پی سی او میں گیا تھا۔؟ پیدل۔؟ ایڈز کے علاج سے پہلے تیرے دماغ کا علاج ہونا چاہئے۔‘‘

    آنکھیں بند کئے کئے شوکی نے آہستہ سے کہا۔ ’’بولتا رہ۔ مزا آ رہا ہے۔‘‘

    رئیس خاموش ہو گیا۔ ہر چیز خواب جیسی تھی۔ کسی کو بتائے بغیر روانگی، شوکی سے ملاقات، نیو غازی ہوٹل کا یہ بے رونق کمرہ۔۔۔ کچھ بھی حقیقی نہیں لگتا تھا۔ اس کے باوجود رئیس کا دماغ کسی برق رفتار کمپیوٹر کی طرح چل رہا تھا۔ ضرب، جمع، تقسیم۔ تشخیص، تجزیہ، علاج۔ شوکی کو دیکھنے اور اس کی باتیں سننے کے ساتھ ساتھ اس کے اندر وہ مشین کھٹا کھٹ چلتی جا رہی تھی۔ کیا کرنا چاہئے اور کیسے اور کب۔ کرائسس مینجمنٹ۔ پہلا قدم اور دوسرا قدم۔

    شوکی نے آنکھیں کھولیں اور مسکرایا۔ ’’کس سوچ میں ہے پیارے؟ اپنے چھوٹے سے دماغ کو مت تھکا۔ میں نے تجھے علاج کی ترکیبیں سوچنے کے لئے نہیں بلایا۔‘‘

    ’’تونے مجھے صرف ٹارچر کرنے کے لئے بلایا ہے۔‘‘ رئیس ہنسا۔ ’’تو ایک اذیت پسند جنونی ہے شوکی۔ تجھے کسی خفیہ ایجنسی میں نوکری کرنی چاہئے تھی۔‘‘

    رئیس کو حیرت ہوئی جب اس نے شوکی کے چہرے سے مسکراہٹ کو غائب ہوتے دیکھا۔ لمحہ بھر وہ اپنی بے تاثر آنکھوں سے رئیس کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’شاید تو ٹھیک کہہ رہا ہے۔‘‘

    ’’کیا ٹھیک کہہ رہا ہوں۔؟‘‘

    ’’یہی اذیت پسند والی بات۔‘‘

    رئیس خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔

    شوکی کی آواز بہت مدہم تھی۔ ’’اس دنیا میں مجھے اگر کوئی جانتا ہے، تو وہ تو ہے رئیس۔ مگر تو کتنا جانتا ہے؟ آدمی کسی دوسرے آدمی کو کتنا جان سکتا ہے؟ یہ جو میری جھریاں ہیں اور جو ڈھانچہ ہے، اس کے اندر چھپے شوکت علی خان کو، شوکی کو پوری طرح کون جان سکتا ہے؟ تو مجھے اتنا ہی جانتا ہے رئیس، جتنا میں نے تجھ پر خود کو کھولا ہے۔‘‘

    ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے پیارے۔‘‘ رئیس نے بےنیازی سے کہا۔ ’’سب کچھ جاننا ضروری نہیں ہوتا۔ میرے بچے نہیں جانتے کہ ان کا باپ ایک زمانے میں شرابی رہ چکا ہے۔ میری ماں کو مرتے دم تک پتا نہیں چلا کہ میں اس کے پیسے چرا لیتا تھا۔ میری بیوی مجھے ایک بےحد بااصول آدمی سمجھتی ہے جو میں ہرگز نہیں ہوں۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ آدمی کو جاننے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کے سب راز معلوم ہو جائیں۔‘‘

    شوکی اداسی سے مسکرایا۔ ’’ہاں، یہ بھی ہے۔ تو پہلے کے مقابلے میں زیادہ ماہر ہو گیا ہے رئیس۔‘‘

    ’’ماہر۔؟‘‘

    ’’قائل کرنے کا۔‘‘ شوکی نے کہا۔ ’’کوئی بات سمجھانے کا۔ گفتگو کرنے کا۔‘‘

    رئیس ہنسا۔ ’’ پہلے میں بھی یہی سمجھتا تھا۔ ایک عرصے بعد پتہ چلا کہ کوئی بھی گفتگو سے قائل نہیں ہوتا۔ بات درست ہوتی ہے تو لوگ قائل ہوتے ہیں۔ جیسے تجھے قائل ہوجانا چاہئے کہ تو ایک احمق آدمی ہے، کیونکہ تو اس حال میں یہاں بیٹھا ہے جبکہ تجھے دیکھ بھال کی۔۔۔‘‘

    ’’بس، یہی تیری خرابی ہے، رئیس۔‘‘ شوکی نے کہا۔ ’’تو گفتگو اچھی کر لیتا ہے۔ مگر تو ہر چیز کو اپنے زاویہ سے دیکھتا ہے۔‘‘

    ’’یعنی۔؟‘‘

    ’’یعنی یہ کہ تو زندگی کو اس طرح دیکھ رہا ہے، جیسے وہ تجھے نظر آ رہی ہے۔‘‘

    ’’ہر آدمی اسی طرح۔۔۔‘‘

    ’’نہ، نہ، میری جان۔‘‘ شوکی مسکرایا۔ ’’جو آدمی موت کی دہلیز پر کھڑا ہو، وہ زندگی کو ذرا دوسری طرح دیکھتا ہے۔ یہ جو تو علاج کی اور دیکھ بھال کی باتیں شروع کر دیتا ہے، تیرا کیا خیال ہے، میں نے ان سب باتوں پر غور نہیں کیا ہوگا۔؟‘‘

    رئیس خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔

    شوکی نے کہا۔ ’’ تو بڑا آدمی بن گیا ہے رئیس۔ بڑا اور کامیاب آدمی۔ مگر مجھے تھوڑا سا زنگ آلودہ لگ رہا ہے۔ کامیاب ہوجانے والوں کی دھار کچھ کند ہو جاتی ہے۔ شاید دفتری زندگیاں گزارتے گزارتے، یا شاید احمق سیٹھوں اور سربراہوں کے ساتھ کمپرومائز کرتے کرتے۔ مگر تیرے اندر وہ جو چنگاری تھی، وہ ابھی بجھی نہیں ہے۔‘‘ وہ بولتے بولتے لمحہ بھر کو رکا۔ جیسے کھانسی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہو۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا ۔ ’’تجھے یہ سب بکواس لگ رہی ہوگی۔ کھسکا ہوا بڈھا۔ کریک پاٹ۔ تو یہی سوچ رہا ہوگا۔۔۔‘‘

    ’’شوکی۔‘‘ رئیس نے کہا۔ ’’تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میں ایسا کبھی۔۔۔‘‘

    شوکی نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ’’مذاق کررہا ہوں یار۔ کیا ہوگیا ہے تجھے؟ خود سوچ، میں نے تجھے فون کر کے کیوں بلایا۔ وہاں، تیرے شہر کراچی میں میرے ایک ہزار جاننے والے ہیں۔ پورا خاندان ہے میرا۔ مگر میں نے صرف تجھے فون کیا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ میں ساری زندگی میں ایک ہی آدمی کی محبت حاصل کر سکا ہوں۔ پچاس برس کی زندگی میں صرف ایک آدمی۔ ساری زندگی کی کمائی۔‘‘

    رئیس نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر پھر کچھ سوچ کر خاموش ہو گیا۔ شاید شوکی کو بولتے رہنے دینا ہی بہتر تھا۔

    ’’میں بہت سوچتا رہا ہوں، رئیس۔‘‘ شوکی نے اپنے الجھے ہوئے سفید بالوں کو سنوارتے ہوئے کہا۔ ’’موت سامنے نظر آرہی ہو تو آدمی زندگی کے بارے میں نہ جانے کیا کچھ سوچتا ہے۔ اپنی زندگی کے بارے میں۔ یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ میں نے پچاس برس میں صرف ایک آدمی کمایا ہے، یہ بہت حساب کتاب کے بعد کہہ رہا ہوں۔ آدمی نہ جانے کس گمان میں رہتا ہے۔ جیسے یہ ہر وقت اردگرد رہنے والے، یہ مل کر قہقہے لگانے والے اور دن کے دس دس گھنٹے ساتھ گزارنے والے اور آدمی کو محبت سے یا احترام سے دیکھنے والے۔۔۔ یہ سب کتے۔۔۔ ‘‘وہ بولتے بولتے رک گیا۔ شاید اپنی کیفیت سے مغلوب ہوکر۔ یا شاید سانس پر قابو پانے کے لئے۔ رئیس کرسی سے ٹیک لگائے خاموش بیٹھا رہا۔

    شوکی نے ذرا دھیمی آواز میں بولنا شروع کیا۔ ’’یہ سب کتے۔۔۔ اور کتیائیں۔۔۔ انہیں کسی سے کوئی محبت نہیں ہوتی۔ سمجھ رہا ہے نا تو۔؟ ان کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ کبھی سماجی مجبوری۔ کبھی بدن کی بھوک۔ کبھی کوئی ضرورت۔ کبھی محض وقت گزاری۔ اور کبھی اس برسوں پرانے ذلیل محاورے پر اعتماد کہ کھوٹا سکہ بھی کبھی نہ کبھی کام آ جاتا ہے۔ میں سچ کہہ رہا ہوں میری جان۔ جس دن تو افسری سے محروم ہو گیا یا معذور ہوگیا، اس دن سارا ہجوم چھٹ جائےگا۔ تو اچھوت بن جائےگا جس سے ہر شخص دور رہنا چاہتا ہے۔ یہ ہے دنیا!‘‘

    ’’دنیا ہمیشہ سے ایسی ہی ہے۔‘‘ رئیس نے کہا۔ ’’کوئی نئی بات بتا۔ یہ باتیں تو اماں مرحومہ بھی غربت کے دنوں میں بار بار۔۔۔‘‘

    شوکی نے جیسے تڑپ کر کہا۔ ’’اماں چلی گئیں۔؟ کب۔؟‘‘

    رئیس نے کہا ۔ ’’سات آٹھ سال ہو گئے ہیں اب تو۔ بس ایک روز اچانک۔۔۔‘‘

    ’’خدایا۔‘‘ شوکی کی آواز میں لرزش تھی۔ ’’یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ اماں۔۔۔ حالانکہ۔۔۔ ظاہر ہے، اب تو ہمارے چل چلاؤ کا وقت ہے۔۔۔ پھر بھی۔۔۔ کمال ہے یار۔۔۔‘‘ اس نے آنکھیں موند لیں۔

    رئیس کو حیرت ہوئی۔ اماں کی موت پر سب پرانے دوستوں کو صدمہ پہنچا تھا۔ سب کا اماں سے براہ راست تعلق تھا۔ مگر شوکی کا ردعمل سب سے شدید نظر آتا تھا۔

    چند لمحہ بعد شوکی نے آنکھیں کھولیں۔ موٹے چشمے کے پیچھے اس کی آنکھوں میں نمی تھی اور چہرے پر ایک کمزور سی مسکراہٹ، اس نے کہا۔ ’’بڑا احسان تھا اماں کا، یار۔‘‘

    اعصاب۔ رئیس نے دل ہی دل میں کہا۔ اس کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔؟ موت اتنی یقینی اور اتنی قریب ہو تو اعصاب کسے ہوئے تاروں کی طرح ہوجاتے ہیں۔ شوکی بھی ایسی ہی کسی کیفیت میں تھا۔ رئیس کا دل دکھ سے بھر گیا۔ ابھی کل ہی کی بات تھی جب شوکی نوجوان تھا، توانائی سے چھلکتا ہوا تھا۔ کیسے کیسے واقعات تھے جو یاد کی سرحد پر قطار در قطار کھڑے تھے۔ مگر شاید یہ ان واقعات کو یاد کرنے کا وقت نہیں تھا۔ سمجھدار، ہوش مند رئیس کا دماغ ایک پروگرامڈ کمپیوٹر کی طرح چل رہا تھا۔ شوکی کو مکمل دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔ چوبیس گھنٹے دیکھ بھال کی اور اس کے لئے پہلے اسے قائل کرنا، راضی کرنا ضروری تھا۔ کراچی میں شوکی کا علاج اور دیکھ بھال آسان کام تھا۔ مگر وہ فضائی سفر کرنے کے قابل نہیں تھا۔ رئیس کے کمپیوٹر نے کھٹاکھٹ آپشن دینے شروع کر دیئے۔ اسلام آباد کا کوئی گیسٹ ہاؤس۔ یا اسٹوڈیو اپارٹمنٹ۔ آٹھ آٹھ گھنٹے کے تین میل نرس۔ کسی ڈاکٹر کا روزانہ وزٹ۔ زونل آفس کے دو تین لوگوں کی بھی ڈیوٹی لگائی جا سکتی ہے کہ وہ صبح، دوپہر، شام شوکی کو دیکھتے رہیں۔ ایک بڑے اسپیشلسٹ کا ہفتہ وار چیک اپ۔ پچاس ساٹھ ہزار روپے مہینہ کا خرچہ ہے۔ مگر شوکی کے سامنے اس خرچے کی کیا حقیقت ہے۔ رئیس کا دل بھر آیا مگر اس نے اپنے اعصاب کی پوری قوت کے ذریعے خود پر قابو پا لیا۔

    وہ سنبھل کر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ شوکی کو پھر وہی کھانسی کا دورہ پڑا۔ ہلکی سی کھانسی، جسے وہ روکنے کی کوشش کرتا گیا مگر وہ بڑھتی گئی۔ رئیس نے اٹھ کر اسے سہارا دیا اور اس کی پیٹھ سہلائی۔ شوکی کا لاغر بدن کانپ رہا تھا اور کھانسی کے ساتھ جھٹکے لے رہا تھا۔ اس کے کھانسنے کی آواز سینے کے اندر سے یوں آتی تھی جیسے کسی گہرے کنوئیں سے کسی چیخ کی باز گشت آتی ہو۔ بہت دیر بعد شوکی اس حملے سے سنبھلا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا اور وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔

    سانس پر قابو پانے کے بعد شوکی نے چشمہ اتار کر ایک رومال سے اپنے چہرے کو صاف کیا اور آہستہ سے کہا۔ ’’سب کچھ ختم ہورہا ہے رئیس۔ میں بھی جانے والا ہوں۔ جیسے اماں چلی گئیں۔۔۔‘‘

    رئیس نے نرمی سے کہا۔ ’’سب چلے جائیں گے۔ یہاں کون رک سکا ہے۔؟‘‘

    ’’ہاں۔ مگر میرے پاس وقت نہیں ہے۔‘‘ موٹے چشمے کے پیچھے شوکی کی آنکھوں میں کسی انجانی وحشت کی آگ بھڑکتی نظر آتی تھی۔’’زندگی سالی اتنی تیزی سے گزر جائےگی، یہ سوچا ہی نہیں تھا۔‘‘

    رئیس کچھ نہ بولا۔ خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔

    شوکی نے کہا۔ ’’ایک کام کر۔ میرے بیڈ کے نیچے ایک سوٹ کیس پڑا ہوا ہے۔ اسے کھینچ کر باہر نکال لے۔ یہاں اوپر بیڈ پر ہی رکھ دے۔‘‘

    رئیس نے سلیٹی رنگ کا بھاری سوٹ کیس بیڈ کے نیچے سے کھسکا کر باہر نکالا اور اٹھا کر بیڈ پر رکھ دیا۔

    شوکی نے کہا۔ ’’نائن سکس تھری ہے اس کے تالے کا نمبر۔ اسے کھول دے۔‘‘

    رئیس جانتا تھا، اب کیا ہوگا۔ کوئی دستاویزات ہوں گی، یا کچھ اور جس سے شوکی کا جذباتی تعلق ہوگا۔ رئیس کو وہ بے شمار واقعات یاد آئے جب دوستوں نے، عزیز و اقارب نے تنہائی میں اس پر اعتماد کیا تھا۔ اسے رازدار بنایا تھا۔ نو عمری سے ادھیڑ عمری تک رئیس سب کا محبوب رہا تھا۔ خاص آدمی۔ کانفیڈانٹ۔ لوگ پروانہ وار اس کی جانب آتے تھے اور اپنے راز، اپنے دکھ، اپنے آنسو اس کی جھولی میں ڈال جاتے تھے۔

    شوکی نے کہا۔ ’’کپڑوں اور سامان کے نیچے دیکھ۔ دو کاغذ کے لفافے ہوں گے۔ ایک بڑا، ایک چھوٹا۔‘‘

    سوٹ کیس میں تہہ کئے ہوئے کپڑے تھے اور چھوٹے چھوٹے ڈبے تھے اور نہ جانے کیا الم غلم تھا۔ رئیس نے سامان کے نیچے ہاتھ ڈالا اور ذرا سی محنت کے بعد کاغذ کے وہ دو لفافے کھینچ کر نکال لئے۔

    ’’بڑے لفافے میں میری میڈیکل رپورٹس ہیں۔‘‘ شوکی نے کہا۔’’ سینٹ میری ہسپتال ہے وہاں لندن کا۔ پچھلے دو برس کا سارا ریکارڈ ہے اس میں۔ تیری تسلی ہو جائےگی یہ رپورٹس پڑھ کر اور یہ جو چھوٹا لفافہ ہے۔‘‘ وہ بولتے بولتے لمحہ بھر کو رکا۔ ’’یہ تیرے لئے ہے۔‘‘

    وہ ایک میلا سا لفافہ تھا۔ پرانے وقتوں کا خاکی لفافہ جسے شاید ہزاروں بار کھولا اور بند کیا گیا تھا۔ رئیس نے نگاہ اٹھا کر دیکھا۔ شوکی اپنے موٹے چشمے کی اوٹ سے اسے دیکھ رہا تھا۔

    لفافے میں ایک چھوٹی سی ڈبیہ تھی اور کچھ تصویریں تھیں۔ چھ یا سات تصویریں۔ گزر جانے والے وقت نے ان تصویروں کے رنگ پھیکے کردیئے تھے اور اب وہ بھورے رنگ کی تصاویر نظر آتی تھیں۔

    شوکی کی تصویریں۔

    شوکی اور نفیسہ عبدالکریم کی تصویریں!!

    ’’یہ شادی کی تصویریں ہیں۔‘‘ شوکی کی آواز آئی۔

    رئیس نے حیرت سے کہا۔ ’’کس کی شادی کی تصویریں۔؟‘‘ پھر اسے اپنے سوال کی لایعنیت کا اندازہ ہو گیا۔ ’’تیری اور نفیسہ کی شادی۔؟‘‘

    ایک تصویر میں نفیسہ ایک کرسی پر بیٹھی کچھ کاغذات پر دستخط کر رہی تھی۔ کرسی کی پشت پر بید کاجال ادھڑا ہوا تھا۔ دو تصویریں شوکی اور نفیسہ کی تھیں جن میں وہ مسکرا رہے تھے۔ دو تین گروپ فوٹو تھے جن میں کچھ لوگ شوکی اور نفیسہ کے دائیں بائیں کھڑے تھے، جنہیں رئیس نہیں پہچانتا تھا۔ ایک نفیسہ کا کلوز اپ تھا۔ اس کے نصف چہرے کو دوپٹے نے ڈھانپ رکھا تھا اور وہ شوخی سے کیمرے کی جانب دیکھ رہی تھی۔ تصویر پر انگریزی میں لکھا تھا۔ ’’محبت کے ساتھ۔‘‘ نیچے نفیسہ کے دستخط تھے۔

    رئیس ان تصویروں کو بار بار دیکھتا رہا۔ یوں جیسے بار بار دیکھنے سے گتھی سلجھ جائےگی۔

    ’’ہم نے عدالت جا کر شادی کر لی تھی یار۔‘‘ شوکی کے لہجے میں تھکن تھی۔ ’’میں نے اور نفیسہ عبدالکریم نے!‘‘

    رئیس ساکت بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں کچھ سمجھ نہ پانے کی بے بسی تھی اور دماغ ایک خالی سلیٹ کی طرح تھا جس پر کسی جذبے کا نقش، کسی خیال کی تحریر نہیں تھی۔

    ’’تجھے نہیں بتایا تھا۔‘‘ شوکی کی نظریں سامنے والی دیوار پر مرکوز تھیں۔ ’’بلکہ کسی کو بھی نہیں بتایا تھا۔ دوست، یار، گھر والے۔ میرا خیال تھا، بعد میں سب کو بتا دیں گے اور۔۔۔ لیکن کس کو خبر تھی کہ بعد میں کیا ہونے والا ہے۔‘‘

    شادی۔؟ رئیس نے حیرت سے سوچا۔ شوکی اور نفیسہ عبدالکریم کی شادی۔؟ وہ نفیسہ، جو یونیورسٹی کے زمانے میں خود رئیس کے گرد پروانہ وار گھومتی تھی۔ جس کی آنکھوں کی تپش رئیس اپنے چہرے پر محسوس کرتا تھا اور دل ہی دل میں ڈرتا تھا۔ جس کے دل کا حال اسی کی سہیلیوں کے ذریعے رئیس تک باقاعدگی سے پہنچتا تھا اور رئیس کی بےنیازی کی دیوار سے ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہو جاتا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔؟ رئیس نے خود سے کہا۔ وہ شوکی سے۔۔۔؟ شوکی سے۔۔۔؟ اور میں تیس سال تک لاعلم رہا!

    تعلقات عامہ کے ایک تجربہ کار ماہر کی طرح اپنے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کو اپنے لہجے سے عیاں نہ ہونے دیا اور بولا۔ ’’بات سمجھ میں نہیں آئی۔ نفیسہ کی شادی تو کراچی میں ہوئی تھی۔ کوئی میجر تھا۔ سات آٹھ سال سے ملیر کینٹ میں رہتی ہے۔ اس کا میاں اب کوئی بریگیڈیئر وغیرہ ہو گیا ہے۔ تو نے کب کرلی تھی اس سے شادی۔؟‘‘

    شوکی کی نظریں بدستور دیوار پر جمی ہوئی تھیں۔ یوں، جیسے دیوار پر اسے گزر جانے والی زندگی کا ہر لمحہ نظر آرہا ہو۔ ’’یونیورسٹی کے بعد کر لیا تھا نکاح۔ چھ مہینے کی ڈیڈ لائن رکھی تھی ہم نے، کہ اس دوران زندگی کا پہیہ چل پڑے گا تو ایک روز اعلان کردیں گے۔ لیکن اس سے پہلے ہی نفیسہ کے باپ کو پتہ چل گیا۔‘‘

    رئیس نے کہا۔ ’’ڈی ایس پی عبدالکریم کو۔‘‘

    شوکی نے سر ہلایا۔ ’’ہاں۔ شاید اس رات پولیس مجھے گھر سے اٹھالیتی۔ نفیسہ نے عین وقت پر اپنی کسی بھابھی کے ذریعے مجھے خبردار کر دیا۔ اس کی بھابھی تین ہزار ڈالر لائی تھی اور ایک خط، جس میں نفیسہ نے مجھے اپنی محبت کا واسطہ دے کر پاکستان سے فرار ہوجانے کے لئے کہا تھا۔ اس کی بھابھی نے کہا کہ چار پانچ مہینوں میں نفیسہ بھی میرے پاس پہنچ جائےگی۔‘‘

    رئیس اس ورق ورق کھلتی داستان کے ہر منظر کو یوں دیکھتا تھا جیسے کسی تنگ و تاریک محلے میں رہنے والا بچہ کسی بارونق بازار کی جگمگاتی دکانوں کو بے یقینی سے دیکھتا ہے۔

    ’’میں اسی رات خیبر میل میں بیٹھ گیا۔‘‘ شوکی کی آواز میں تھکن تھی۔ ’’پہلے اسلام آباد۔ ایک ماہ بعد وزٹ ویزے پر لندن اور بس۔‘‘

    کچھ دیر کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔

    پھر رئیس نے پوچھا۔ ’’اور نفیسہ۔؟‘‘

    ’’اس سے تین بار فون پر بات ہوئی۔‘‘ شوکی بدستور دیوار سے مخاطب رہا۔ ’’آخری فون میں وہ رو رہی تھی۔ اس کے باپ نے اسے گھر میں بند کردیا تھا۔ اس کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ تو اندازہ کر سکتا ہے رئیس، میرا کیا حال ہوگا۔ میں یہاں آکر اس حرام زادے ڈی ایس پی کو قتل کر سکتا تھا۔ اس کے پورے خاندان کو۔۔۔‘‘ وہ بولتے بولتے پھر رک گیا۔ شاید اپنی سانس پر قابو پانے کے لئے۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ نفیسہ نے مجھے اپنی محبت کا واسطہ دے کر روک دیا۔ اس نے کہا کہ اس کا باپ بہت ظالم ہے اور بےحد سفاک اور اس کی طاقت پولیس کا وہ نیٹ ورک ہے جو زندہ آدمی کے ٹکڑے کر کے اسے غائب کر سکتا ہے۔ میں کچھ نہ کر سکا رئیس۔ نفیسہ بھی کچھ نہ کر سکی۔‘‘

    رئیس نے دیکھا۔ آنسو شوکی کے جھریوں بھرے چہرے پر بہتے، اس کی الجھی سفید داڑھی میں کہیں گم ہوتے جاتے تھے۔

    ’’پوری زندگی انہی تصویروں کے ساتھ گزر گئی۔‘‘ شوکی نے چشمہ اتار کر رومال سے اپنا چہرہ پھر صاف کیا۔ ’’تصویروں کے ساتھ اور اپنی اور نفیسہ کی بےبسی کے ساتھ۔ اس کی شادی کے ایک ڈیڑھ ماہ بعد اس کی بھابھی کا فون آیا تھا۔ وہ نفیسہ کا آخری پیغام تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ اس راز کو میں اپنے سینے میں ہمیشہ کے لئے دفن کر دوں۔ ان تصویروں کو جلادوں۔ وہ ایک تکلیف دہ زندگی گزار رہی تھی رئیس۔ شاید وہ مجھے ایک دکھ بھرے مستقبل کی قید سے آزاد کرنا چاہتی تھی۔ میں نے فون پر اس کی بھابھی سے وعدہ کیا کہ ان تصویروں کو جلادوں گا۔ اس سارے معاملے کا ذکر بھی اپنی زبان پر نہیں لاؤں گا۔ مگر میں ان تصویروں کو آگ کی نذر نہ کرسکا۔ کیسے کرسکتا تھا۔؟ زندہ رہنے کے لئے ایک لائف سپورٹ سسٹم تو ضروری ہوتا ہے۔‘‘

    رئیس ساکت بیٹھا رہا۔ کمرے میں کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔

    پھر شوکی نے کہا۔ ’’تو سمجھ گیا ہوگا، میں کیا چاہتا ہوں۔‘‘

    رئیس نے آہستہ سے کہا۔ ’’تو چاہتا ہے کہ میں یہ تصویریں جلا دوں۔‘‘

    شوکی کے اداس چہرے پر لمحہ بھر کو مسکراہٹ چمکی۔ ’’ہاں۔ مگر جب میں۔۔۔ جب میں اس دنیا میں نہ رہوں۔ کل، پرسوں، دس دن یا دو مہینے بعد۔ ایک بات اور بھی ہے۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرے رخصت ہو جانے کی خبر کسی نہ کسی طرح نفیسہ تک۔۔۔‘‘

    رئیس نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’تیرے اعصاب پر موت سوار ہے شوکی۔ تیرا کیا خیال ہے، میں تجھے مرنے دوں گا؟‘‘

    موٹے چشمے کے پیچھے شوکی کی آنکھوں میں زندگی کی رمق جاگی۔ ایک دھیمی، نرم مسکراہٹ نے اس کا جھریوں بھرا چہرہ جگمگادیا۔ ’’میں جانتا تھا رئیس، تو آئے توگا میرا سکون غارت ہو جائےگا۔ تو مجھے آسانی سے مرنے بھی نہیں دےگا۔‘‘

    رئیس ہنسا۔ مگر یہ وہی ہنسی تھی جو اس نے کارپوریٹ دنیا میں آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے کے لئے بہت محنت سے سیکھی تھی۔ اس ہنسی پر بالکل اصلی ہنسی کا گمان ہوتا تھا۔

    رئیس کا سینہ دکھ سے لبا لب بھرا ہوا تھا۔ اس بات کا دکھ کہ شوکی نے اپنی زندگی ایک سراب کے پیچھے برباد کردی تھی۔ اور اس بات کا دکھ کہ شوکی نے، نفیسہ نے ،کسی نے اس کو باخبر رکھنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ رئیس کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ باقی سب ڈرامہ تھا۔ نفیسہ کی محبت۔ پولیس کے ذریعے شوکی کو گھر سے اٹھا لینے کی دھمکی۔ اپنے باپ ڈی ایس پی عبدالکریم کی سفاکی کا خوف۔ سب بکواس۔ رئیس کو سب یاد تھا۔ نفیسہ اپنی شادی کے وقت کیسے چہک رہی تھی۔ کتنی بار اس کے گھر پر پرانے دوستوں کی دعوت ہو چکی تھی۔ اس کا شوہر ہمیشہ اس کی مٹھی میں رہا تھا اور وہ ایک بے حد عمدہ زندگی گزار رہی تھی۔ ابھی تین چار ماہ پہلے ہی اس نے ملائشیا کی تصویریں فیس بک پر پوسٹ کی تھیں۔ لنکاوی کے سرسبز علاقے میں بچوں اور شوہر کے ساتھ ہنستے، کھیلتے، درجنوں تصویریں۔

    مگر اب۔۔۔ موت کی دہلیز پر کھڑے شوکی کو بتانا بےسود تھا کہ اس کی نفیسہ نے۔۔۔ ذہین اور چالاک نفیسہ نے اسے ایک فرضی داستان کے جال میں پچیس تیس برس گرفتار کر رکھا تھا۔ نو عمری کی ایک غلطی کا احساس ہونے پر تین ہزار ڈالر دے کر ملک سے اور اپنی زندگی سے نکال پھینکا تھا۔

    ’’ان تصویروں کے ساتھ جو چھوٹی سی ڈبیہ ہے۔‘‘ شوکی کی آواز آئی۔ ’’اس میں شادی کی انگوٹھی ہے۔ جو تیری ہے۔‘‘

    ’’میری ہے۔؟‘‘ رئیس نے حیرت سے کہا۔

    ’’ہاں۔ اب یہ تیری ہے۔‘‘ شوکی کی آواز میں لرزش تھی۔ ’’کیونکہ یہ اماں کی تھی۔ میں بیچ دوپہر تیرے گھر گیا تھا۔ میرے پاس انگوٹھی خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ اماں نے دی تھی مجھے اپنی انگوٹھی اور کہا تھا، میں نے رئیس کی دلہن کے لئے سنبھال کر رکھی تھی مگر تو بھی تو میرے لئے رئیس جیسا ہی ہے۔۔۔‘‘ آنسو اس کے جھریوں بھرے چہرے پر بہہ رہے تھے۔ ’’میں نے اماں سے کہا تھا کہ ابھی یہ بات رئیس کو مت بتایئےگا۔۔۔ اور وعدہ کیا تھا کہ میں کچھ دنوں میں انگوٹھی واپس کردوں گا۔۔۔‘‘

    رئیس سکتے کے عالم میں بیٹھا تھا۔

    اردگرد نہ جانے کیا ہو رہا تھا۔ شوکی نہ جانے کیا کہتا جا رہا تھا۔

    یہ نہ جانے کون سا نگر تھا جہاں رئیس ایک اجنبی تھا۔ ہر جانب نہ جانے کون لوگ تھے۔

    اماں بھی؟ رئیس نے خود سے پوچھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔؟

    وہ جو زندگی بھر ان گنت لوگ اس پر بھروسہ کرتے آئے تھے، اپنے دل کی ہر بات بیان کرتے آئے تھے، اس سے اندھا دھند محبت کرتے آئے تھے، کیا وہ سب جھوٹ تھا۔؟ ڈھکوسلا تھا۔؟

    عزیز ترین دوست، والہانہ خاموش عشق کرنے والی دوست، جان چھڑکنے والی ماں۔۔۔ سب مہر بہ لب، سب اجنبی، سب دل میں چھپا راز بتانے سے گریزاں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔؟

    اور اگر یہ ہو سکتا ہے تو یہ ساری زندگی ایک خوش گمانی کے سوا کیا ثابت ہوئی۔؟ سب کا محبوب بنے رہنے کی خوش گمانی۔

    رئیس کو کچھ یاد نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا۔

    شاید وہ ایک بے جان کٹھ پتلی کی طرح ہنستا بولتا رہا۔

    شاید اس نے وہیں سے ٹیلیفون کر کے شوکی کے علاج اور دیکھ بھال کا سارا بندوبست کیا۔

    شاید شوکی کو وہ گھاؤ نظر بھی نہیں آیا جو رئیس کے بدن کے اندر کہیں نمودار ہو چکا تھا۔

    شاید وہ دونوں ساری رات باتیں کرتے رہے۔ یا شاید شوکی گزرے دنوں کو یاد کرتا رہا۔

    رئیس کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔

    بس اتنا ہے کہ رئیس چپ ہے۔ خاموش اور منتظر۔

    ایک ہزار کلو میٹر دور سے اسے شوکی کی طبی رپورٹ روز ملتی ہے۔

    وہ اپنے لوگوں کو دیکھ بھال کی ضروری ہدایات دیتا رہتا ہے۔

    مگر کوئی نہیں جانتا۔۔۔ اس بھری پری دنیا میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ اپنے اردگرد برپا شور کے باوجود، مصنوعی مسکراہٹوں اور روح سے خالی قہقہوں کے باوجود، فتوحات اور کامیابیوں کے باوجود، کیوں چپ ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے