Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رنگ کا سایہ

بیگ احساس

رنگ کا سایہ

بیگ احساس

MORE BYبیگ احساس

    ہم اسی جگہ جا رہے تھے جہاں سے ہمیں راتوں رات افرا تفری کے عالم میں بھاگنا پڑا تھا۔ امّی کا تو صرف جسم ساتھ آیا تھا روح شاید وہیں بھٹک رہی تھی۔ پھر جسم بھی اس قابل نہیں رہا کہ ان کے وجود کا بار اٹھا سکتا۔ آج اس جسم کو اسی زمین کے سپرد کرنا تھا۔

    ویان میں امّی کا بےجان جسم رکھا تھا۔ میں اور بہن پچھلے حصے میں بیٹھے تھے۔ بہنوائی ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر تھے۔ بہن نے غم سے نڈھال ہو کر آنکھیں موند لیں۔ میری آنکھوں میں نیند کا کوسوں پتہ نہ تھا۔ کیا امی کی موت کا ذمہ دار میں ہوں؟ ان کا اکلوتا بیٹا، جسے وہ جان سے زیادہ پیار کرتی تھیں۔ دیوانہ وار چاہتی تھیں۔ نہیں!! امی کو گھر چھوڑنے کا غم تھا۔ لیکن گھر تو چھوٹا میری ہی وجہ سے میرے اور لکشمی کے عشق کی وجہ سے ! گھر چھوڑ کر تو سب بھاگے تھے۔ پھر اس کے ذمہ داری ہمارے عشق پر کیسے آ گئی؟ میں نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن دل میں کوئی چور تھا۔

    ’’امی ہمارا اپنا گھر کیوں نہیں ہے‘‘ میں نے امّی سے پوچھا تھا جب ہم خالہ کا گھر چھوڑ رہے تھے۔

    ’’زندگی نے اتنی مہلت ہی نہیں دی بیٹھے‘‘ امی نے ٹھنڈی سانس بھر کے کہا۔ ’’پولیس ایکشن نے ساری بساط اُلٹ دی۔ دکن میں مسلمانوں کے چھ صدیوں کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا لاکھوں مسلمان مارے گئے، سینکڑوں خواتین نے خودکشی کر لی۔ کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہوگا۔ اونچے درجے کے سرکاری ملازم علاحدہ کر دئیے گئے یا ان کے عہدوں کو تنزلی دے دی گئی، جاگیرداری نظام ختم ہو گیا۔ ان اقدامات سے تنگ آکر کئی ملازمین نے قبل از وقت وظیفہ لے لیا۔ تمھارے ابا نے بھی وظیفہ لے لیا۔ کچھ برس تک اسی تذبذب میں رہے کہ یہاں رہیں کہ پاکستان چلے جائیں۔ اسی کشمکش میں گھر نہیں بنوایا۔ ہمیشہ اونچا سوچتے تھے۔ اچھی زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ جو بھی پیسہ تھا وہ طرز زندگی نبھانے اور تمھاری بہن کی شادی پر خرچ کیا۔ وظیفہ بھی اتنا تھا کہ سفید پوشی برقرار رہ سکتی لیکن اچانک موت نے انھیں ہم سے چھین لیا۔‘‘

    مجھے یاد ہے امی کے عدت کے دن پورے ہونے کے بعد خالہ ہمیں اپنے ساتھ گھر لے گئی تھیں ہم خالہ کے ساتھ رہنے لگے۔ امی کے خاندان پر ابا کے بہت سے احسانات تھے۔ امی بتاتی تھیں۔

    ضلع میں ایک ہی اسکول تھا۔ اردو، تلگو اور مراٹھی میڈیم کی کلاسس قائم تھیں۔ اسکول کے بعد کتب خانوں میں ناول پڑھنا۔ پہلے دن فلم دیکھنا اور بنا کا گیت مالا پابندی سے سننا۔ یہی نوجوانوں کے شوق تھے۔ ریڈیو سننے کے لیے نوجوان ہوٹلوں میں جمع ہوتے تھے۔ بڑے جی ای سی کے ریڈیو کے طاقت ور اسپیکر پر محمد رفیع کا کوئی گیت بجتا تو ٹیبل پر رکھے گلاس تھر تھرا نے لگتے۔

    محدود زندگی ۔مخصوص چہرے۔۔۔!

    خالہ کے ساتھ رہتے ہوئے چار پانچ برس ہو گئے تھے۔ خالہ زاد بہنیں اور بھائی بڑے ہو گئے تھے۔ خالہ کے لیے گھر ناکافی ہو رہا تھا۔ خالہ اور خالو میں اکثر بحث ہونے لگتی۔ امی بھی اسے محسوس کر رہی تھیں۔ مجھے بھی احساس تھا کہ خالہ مروت میں کچھ کہہ نہیں پا رہی ہیں۔ مجھے اپنے پیر پر کھڑے ہونے میں کافی وقت تھا۔

    ایسے میں یہ اطلاع مامو ں لے کر آئے کہ آبادی سے دور بیڑی مزدوروں کے لیے ایک سرکاری کالونی بنائی گئی ہے۔ بیڑی کے کارخانے کا سرٹیفکیٹ اور ضروری کاروائی کے لیے لیبر آفیسر کو تھوڑی سی رشوت دینے کی ضرورت ہے۔ امی ایک بیڑی کے کارخانے میں سنجیدگی سے بیڑیاں بنانا سیکھنے لگیں۔ ان کا خیال تھا کچھ آمدنی بھی ہو جائےگی۔ ایک دو ماہ میں سرٹیفکیٹ بھی مل گیا۔ ماموں کی کوششوں سے ہمیں ایک سنگل روم مکان الاٹ ہو گیا۔ ماموں ان کے کچھ احباب‘ مسلمانوں کے چار‘ چھ خاندان بھی اس کالونی میں آگئے۔

    زندگی میں پہلی بار میں نے کوئی کالونی دیکھی تھی۔ ایک کمرے اور دو کمرے والے مکانات ایک ہی وضع کے۔ ایک قطار میں تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ علاقہ شہر سے پانچ میل دور تھا۔ ریلوے کراسنگ پر شہر ختم ہو جاتا تھا۔ریلوے گیٹ کے پار ایک سنیما ہال تھا۔ دیہات جیسا ماحول تھا۔ دور دور ایک آدھ مکان نظر آ جاتا۔ ایک شمشان گھاٹ تھا۔ بیڑی کے کارخانے تھے۔ کارخانوں میں بڑے بڑے ہال بنے ہوئے تھے جس میں عورتیں اپنی ٹانگیں لمبی کیے ان پر دھات کا سوپ رکھے بیڑیاں بناتی تھیں۔ مشین کی طرح ہاتھ چلتے تھے۔ آپس میں باتیں بھی کرتی جاتیں اور بیڑیاں بھی بنایا کرتیں۔ ایک سائیکل ٹیکسی تھی۔ پھر چنوں کا ایک تنور لگا تھا۔ جب بڑی سی کڑھائی میں چنے ڈالے جاتے تو فضا میں سوندھی سی خوشبو پھیل جاتی۔ شہر سے یہاں تک کنکریٹ کی روڈ تھی جس پر لال مٹی بچھا دی گئی تھی۔ بارش میں یہ مٹی بہہ جاتی اور پتھر اُبھر آتے بعض جگہوں پر گڑھے بن جاتے۔ ادھر رکشہ نہیں چلتے تھے۔ اسکول کافی فاصلے پر تھا امّی نے ایک پر انی سائیکل دلا دی۔

    امی بہت خوش تھیں۔ ان کے اپنے گھر کا خواب پورا ہونے جا رہا تھا۔ ایک مدت بعد مکانات رہنے والوں کے نام کر دیے جاتے۔ ایک عجیب سی آزادی کا احسا س ہوا۔بجلی کا کنکشن تھا۔ نلوں کے پائپ فٹ تھے ٹوٹیاں لگی تھیں لیکن پانی کی پائپ لائن یہاں تک نہیں آئی تھی۔ مستقبل قریب میں اس کا امکان بھی نہ تھا۔ کالونی سے کچھ فاصلے پر کھیت تھے ان کھیتوں کو ایک نالے کے ذریعہ پانی پہنچایا جاتا تھا۔ اسی نالے کے پانی سے ضرورتیں پوری ہو جاتی تھیں لیکن پینے اور پکوان کے لیے کنوئیں سے پانی لانا ضروری تھا۔ کالونی میں ایک ہی کنواں تھا۔ کنویں میں دونوں طرف چرخیاں لگی تھیں۔ یہ چرخیاں خود یہی تقسیم ہو گئیں مسلمانوں کی اور ہندوؤں کی۔ ہندو عورتیں پانی بھرتی تھیں اور مسلمان مرد۔ زندگی میں پہلی بار ہندوؤں کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہو رہا تھا۔ میں تلگو نہیں جانتا تھا۔ ایک ڈول اور رسی خرید لی گئی۔ پہلی بار ڈول پانی میں چھوڑا تو پانی میں ڈوبنے کے بعد بہت ہلکا پھلکا ہو گیا لیکن پانی سے باہر آتے ہی کافی وزنی ہو گیا۔ ایک جھٹکا لگا۔ کسی نہ کسی طرح ڈول اوپر کھینچ لیا لیکن رسی پکڑے رکھ کر آگے جھک کر پانی سے بھرا ہوا ڈول سنبھالنا اور اسے گھڑے میں انڈیلنا آسان کام نہ تھا۔ گھڑا بھرنے کے بعد اسے اٹھاکر گھٹنے پر رکھنا پھر اٹھاکر کندھے پر جمانا اور تین فرلانگ لمبا راستہ طے کرنا بڑی مشقت کا کام تھا۔ پسینے چھوٹ جاتے۔ ہندو عورتوں کو دیکھ کر بڑی شرمندگی ہوتی تھی وہ پیتل کے چمک دار گھڑے لے آتیں جلدی جلدی پانی کھینچتیں بڑی مہارت سے گھڑا اٹھا کندھے پر رکھ کر تیز تیز قدموں سے چلی جاتیں۔ پانی بالکل نہ چھلکتا۔میرے سارے کپڑے بھیگ جاتے تھے۔ جتنی دیر میں ایک گھڑا پہنچا کر واپس آتا۔ وہ دو گھڑے لے جاتیں۔ میرے اناڑی پن پر وہ منہ چھپا کر ہنستی تھیں۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اگر کوئی مسلمان کسی ہندو کا گھڑا چھو لیتا تو وہ ناپاک ہو جاتا۔ سارا پانی پھینک دیا جاتا۔ گھڑا اچھی طرح مانجھ کر دھویا جاتا۔ تب دوبارہ پانی بھرا جاتا۔ اس دوران وہ غصے سے بڑبڑاتی رہتیں یا اونچی آواز میں ڈاٹنے لگتیں۔

    اس صورت حال سے بچنے کے لیے میں صبح صبح پانی بھرنے کے لیے پہنچا۔ کنویں پر صرف ایک دھندلا سا ہیولہ نظر آیا۔ قریب سے دیکھا۔ لکشمی تھی جو ہمارے مقابل والے مکان کے بغل میں رہتی تھی۔ مجھے اناڑی پن سے پانی کھینچتے دیکھ کر وہ زور سے ہنس پڑی۔ اس نے تلگو میں کچھ کہا۔ میں سمجھ نہ سکا۔ وہ میری طرف آ گئی۔ مجھے ایک طرف ہٹا کر خود پانی کھینچنے لگی۔ منٹوں میں میرا گھڑا بھر دیا۔ گھڑا اٹھا نے میں میری مدد کرنے کے لیے آگے آئی اتنا قریب آ گئی کہ میرا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ جسم کا نپنے لگا اور گھڑا ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ لکشمی سر سے پاون تک بھیگ گئی۔

    ’’پچی پلا گاڈو‘‘۔ ۱ ؂ لکشمی ہنسنے لگی۔

    میرے چہرے پر شرمندگی کے تاثرات تھے۔ میں نے سر اٹھا کر لکشمی کی طرف دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ لباس بھیگ کر اس کے جسم سے چمٹ گیا تھا، پوبھٹ رہی تھی۔ اس کا چہرہ روشن ہونے لگا۔ پھر وہ سورج کی کرنوں میں نہا گئی۔ جسم کے سارے خطوط واضح ہو گئے۔ وہ بدن اتنا سڈول تھا اس میں ایسی دلکشی اوربرعنائی تھی کہ سارے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑنے لگی۔ اپنے مرد ہونے کا شدید احساس ابھر آیا۔ لکشمی نے اپنا گھڑا اٹھایا اور چلی گئی۔

    لکشمی صبح چار بجے جاگتی تھی۔ آنگن میں جھاڑو لگاتی۔ اس پر گوبر کا چھڑکاؤ کرتی۔ نہا دھوکر بڑے انہماک سے مگو (رنگولی) سجاتی۔ بالماں ذرا دیر سے جاگتی۔ نہا دھوکر گیلے بالوں سے ناشتہ بناتی۔ اس دوران ملیا جاگتے ہی اپنے رکشہ میں بکٹ اور ڈول رکھ کر کنوئیں پر جاتا اپنا رکشہ دھوکر، نہا کر واپس آتا۔ بالماں ناشتہ کر کے بیڑی کے کارخانے کو چلی جاتی۔ ملیا رکشہ لے کر نکل جاتا۔ لکشمی اسکول جاتی۔ ناگماں گھر پر رہ جاتی۔ اکثر پرانے کپڑوں کے مضبوط ٹکڑوں کو جوڑ کر بنتہ ۲؂ سیتی رہتی۔ کبھی چاول اور جوار صاف کرتی میں بھی آبادی میں چلا جاتا تو امی اکیلی رہ جاتیں۔ سوپ لے کر بیٹھ جاتیں اور بیڑیاں بناتیں۔امی ٹھیک سے بیڑیاں نہیں بنا پاتی تھیں۔ ان کی بنائی ہوئی ۱؂ دیوانہ لڑکا ۲؂ پرانے کپڑوں کے ٹکڑوں سے جوڑ کر بنائی گئی چادر اکثر بیڑیاں رد کر دی جاتیں۔ بہت کم پیسہ ملتا تھا۔ بالماں بیڑیاں بناکر اچھا خاصا کما لیتی تھی۔ وہ گھر پر بھی بیڑیاں بناتی تھی۔ وہ بہت ماہر تھی۔ لوہے کی قینچی سے ایک سائز کے پتے کچھ اس طرح کاٹتی تھی کہ دھبے لگے ہوئے حصے الگ ہو جاتے۔ سارے پتے ایک سائز کے بنانے کے بعد ان میں تمباکو رکھ کر لپیٹتی۔ نچلے حصے پر سرخ دھاگے لپیٹ دیتی۔ اوپری حصہ پوری طرح بند کرنے کے بعد نچلے حصے میں خلا رکھ دیتی۔ساری بیڑیاں ایک جیسی، مشین میں ڈھل کر نکلی ہوں۔ اس کے پاس کافی زیور تھا۔ وہاں کی ساری عورتوں کو زیور کا شوق تھا۔ ہر عورت کے گلے میں گنتا فسل ۳؂ بازوؤں میں کڑے، کلائیوں میں سونے کی چوڑیاں‘کمرپٹا‘ پیروں میں چین، پاؤں میں بچھوے، کانوں میں تنکے، ناک میں لونگ۔۔۔! کھانے اور کپڑوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے۔ ان کے بلاوز کے آستین بہت چست ہوتے۔ کمر کھلی۔ بلاوز کے اندر کچھ بھی نہیں پہنتیں تھیں ان کے کسے ہوئے جسموں کو کسی سہارے کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔ ساڑھی کا کاشٹا۴؂ باندھتی تھیں۔ لڑکیاں لہنگا اور جیکٹ پہنا کرتی تھیں جس میں ان کے بدن کے خطوط واضح نہیں ہوتے تھے۔

    سب کچھ لٹ جانے کے بعد بھی مسلمانوں میں ایک طنطنہ تھا۔ وہ اپنی سفید پوشی برقرار رکھنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ اونچے اور متوسط طبقے میں جو بھی ہوا ہو۔ عام ہندو اب بھی مسلمان شرفا کی عزت کرتے تھے۔ ملیا کا پورا خاندان امی کو درسانی (بیگم صاحبہ) کہتا تھا۔ ان سے ادب سے گفتگو کرتے تھے۔ امی کو کبھی شہر جانا ہوتا۔ کسی رشتے دار سے ملنا ہوتا۔ یا کلکٹر آفس سے وظیفہ لینے کے لیے جانا ہوتا تو وہ ملیا کے رکشہ میں جاتی تھیں وہ کبھی امی سے کرایے کی بات نہیں کرتا تھا اور امی بھی اسے توقع سے زیادہ ہی دیتی تھیں حالاں کہ گھر بڑی تنگی سے چل رہا تھا۔ مثل مشہور تھی ’’حیدرآباد نگینہ اندر مٹی اوپر چونا‘‘ سب کچھ تیزی سے بدل رہا تھا۔ حالی اور کلدار سکوں کی جگہ نئے پیسے آ گئے تھے۔ سیر کی جگہ کلو گرام! امی اور ناگماں دونوں اس بات پر متفق تھیں کہ اس تول میں ۳؂ سونے کے موتیوں کا زیو۴؂ مہاراشٹراین طرز کی ساڑھی برکت ہے اور نہ پیسوں میں۔ پھر بھی امی ہر عید کا اہتمام کرتی تھیں۔ رجب میں کونڈے‘ محرم میں روٹ، چنگے، شربت اور قبولی۔ شب برأت کی تیاریاں خاص طور پر کی جاتیں ابا کی قبر پر جانا ضروری ہوتا۔ رات بھر امی عبادت میں مصروف ہوتیں۔ رمضان تو رمضان ہی تھا۔ سارے پڑوسیوں کو حصہ بھیجا جاتا۔ لکشمی کے گھر بھی حصہ ضرور جاتا۔ کالونی میں نہ کوئی مندر تھا اور نہ مسجد۔ جمعہ کے لیے مسلمان، آبادی کی جامع مسجد چلے جاتے۔ ہندو پوجا کے لیے کالونی سے باہر پہلے سے بنے ہوئے مندر جاتے۔

    میں بہت صبح جاگ جاتا اور انتظار کرتا کہ لکشمی کب کنوئیں پر جاتی ہے۔ لکشمی کے ڈول اور گھڑا لے کر نکلتے ہی میں بھی نکل پڑتا۔ لکشمی نے محسو س کر لیا کہ میں اس کے لیے کنوئیں پر آتا ہوں۔ اس نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ نہ بے رخی کا اظہار کیا۔ خوش دلی کے ساتھ مجھ سے باتیں کرتی۔ ہم بہت جلد بے تکلف ہو گئے۔ لکشمی میرے حواس پر چھاتی جا رہی تھی ساری رات کروٹیں بدلتے گذرتی۔ شام اس کے اسکول سے لوٹنے کا بےچینی سے انتظار کرتا۔ میں جانتا تھا لکشمی بھی مجھے پسند کرتی ہے لیکن ہم دونوں ہی اظہار کرنے سے گھبراتے تھے۔

    ایک دن میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ اپنے دل کی بات لکشمی سے کہہ دوں گا۔ دوسری صبح لکشمی اور میں پانی بھرتے رہے جب لکشمی نے اپنا آخری گھڑا کندھے پر رکھا۔ دوسرے ہاتھ میں رسی اور ڈول تھام کر لوٹنے لگی تو میں اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔

    ’’کیا بات ہے؟ ہٹو سامنے سے۔‘‘

    ’’مجھے تم بہت اچھی لگتی ہو لکشمی!‘‘

    ’’ہٹو راستے سے۔ کوئی دیکھ لےگا‘‘

    ’’مجھ سے اکیلے میں ملنے کا وعدہ کرو‘‘

    لکشمی خاموش رہی۔

    ’’میں شام میں کھیتوں کے پاس تمھارا انتظار کروں گا‘‘ میں نے جلدی جلدی کہا اور راستے سے ہٹ گیا۔ لکشمی گھر کی طرف چلی گئی۔

    شام تک میں تذبذب اور بےچینی کی حالت میں رہا۔ شام ہوتے ہی میں کھیتوں کے پاس پہنچ گیا۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی لکشمی نہیں آئی تو میں مایوس ہو کر لوٹنے لگا۔ راستے میں لکشمی مل گئی۔

    ’’تم آئیں کیوں نہیں‘‘ میں نے ناراضگی سے کہا‘‘

    ’’اماں کا کام ختم ایچ نئیں ہوا تھا‘‘

    ’’کب سے انتظار کر رہا ہوں‘‘

    ’’شما کر دو‘‘ لکشمی نے عجیب انداز میں کہا‘‘

    میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے ہاتھ نہیں چھڑایا۔ نرم نرم سا ننھا ہاتھ۔

    ’’میں اچھا لگتا ہوں تمھیں؟‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔

    ’’ہاتھ چھوڑو‘‘

    ’’جواب دو‘‘

    ’’ہوں‘‘ میں نے مارے خوشی کے لکشمی کو لپٹا لیا۔ لکشمی چپ چاپ سینے سے لگی رہی۔ زندگی کا پہلا تجربہ تھا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے اس کے دل کی دھڑکن محسوس کی جیسے کوئی پرندہ ہانپ رہا ہو۔ کان گرم ہو گئے۔ چہرہ تپنے لگا۔ حلق خشک ہو گیا۔ خوف اور مسرت کی عجیب کیفیت تھی۔ کھیت میں سرسراہٹ ہوئی۔ ایک بکری نکل کر بھاگی۔ ہم الگ ہو گئے۔ لکشمی نظر نہیں ملا پا رہی تھی۔ اس نے کھیت سے ایک گنا توڑ لیا۔ اس کے دو ٹکڑے کیے ایک مجھے دیا۔ میں دانتوں سے گنا چھیل کر کھانا جانتا تھا۔ ضلع کا ہر بچہ جانتا تھا۔ یہاں سے پچاس میل دور پر شوگر فیکٹری تھی۔ ہمارا اسکول ریلوے اسٹیشن کے قریب تھا۔ گنا بیل گاڑیوں میں لد کر اسٹیشن آتا وہاں سے دیگنوں میں بھر کے فیکٹری بھیجا جاتا۔ لڑکوں کا بیل گاڑیوں سے گنا چرا لینا عام بات تھی۔ ہم لوگ گنا کھاتے ہوئے ندی کی طرف بڑھنے لگے۔ گنے کے رس سے حلق کی خشکی کچھ کم ہوئی۔ ہم لوگ ندی کے کنارے پانی میں پیر چھوڑ کر بیٹھ گئے۔ ایک فرحت بخش احساس ہوا۔

    آپ کے پاؤں کتنے گورے ہیں‘‘ لکشمی نے کہا

    ’’صرف پاؤں؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا

    ’’نئیں آپ بھی بہت سندر اور گورے ہیں۔ راجکماروں جیسے‘‘

    ’’راج کمار؟ میں زور سے ہنسا’’ کیا یہاں بھیس بدل کر غریبوں کا حال معلوم کرنے کے لیے آیا ہے؟‘‘

    ’’سچی میں سونچتی ہوں آپ لوگاں یہاں کیوں آئے۔ بیڑی بنانے والوں کی کالونی میں‘‘

    ’’مکان کی خاطر!’‘ میں نے لکشمی کو اپنے بارے میں بتایا۔ لکشمی کی آنکھوں میں ہمدردی تھی۔ ’’اب چلو، بہو،‘ دیر ہو گئی‘‘ لکشمی نے کہا ’’ہم روز ملیں گے نا‘‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔

    ’’ہاؤ‘‘ لکشمی نے دھیرے سے کہا اور آنکھیں جھکا لیں۔

    ہم لوگ واپس ہو گئے۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا لکشمی میری زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی تھی۔ مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ ایک ہی ملاقات میں لکشمی اتنی قریب آجائےگی۔ میں ساری رات سونہ سکا۔ سر شاری اور تشنگی کا ملا جلا احساس تھا۔ کسی لڑکی کے بدن کا پہلا لمس کتنا سنسنی خیز ہوتا ہے اس کا پہلی بار احسا س ہوا۔ بار بار لکشمی کا خوب صورت چہرہ، نسوانیت سے بھر پور بدن نظروں کے سامنے آجاتا لکشمی کے چہرے پر عجیب سی کشش تھی۔ اس کی کالی کالی بڑی بڑی آنکھوں میں بےپناہ جاذبیت تھی۔ ناک تھوڑی سی چھوٹی تھی لیکن بھرے بھرے گالوں پر اچھی لگتی تھی۔چھوٹا سا دہانہ۔ نازک سے ہونٹ۔ چمک دار دانت، جب ہنستی تو چہرے پر معصومیت کی لہر دوڑ جاتی۔ گالوں میں گڑھے بن جاتے۔ لمبے سیاہ بال۔ صاف جلد۔ رنگ بہت گورا نہیں تھا لیکن چہرے پر بے پناہ نمک تھا۔ محنت کش لڑکیوں کی طرح مضبوط بدن تھا۔ اس کی شخصیت میں بانکپن تھا۔

    میں دن بھر لکشمی سے ملنے کے لیے بے چین رہنے لگا۔ ایک عجیب سی دیوانگی تھی۔ لکشمی کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں تھا۔ان دنوں میں بے کار تھا۔ میٹرک پاس کر چکا تھا۔ کالج کی پڑھائی کا سوال ہی نہیں تھا۔ملازمت حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ سب کے مشورے سے ٹائپ سیکھنے کے لیے جانے لگا۔ ٹائپ اور شارٹ ہینڈ کی بہت قدر تھی۔ گھنٹہ بھر ٹائپ کی پریکٹس کرتا۔ ادھر ادھر دوستوں میں وقت گزار کر لکشمی کے اسکول سے لوٹنے تک واپس آ جاتا۔

    ہم پابندی سے ملنے لگے۔ شام کھیتوں کے پاس ملتے۔ کسی کو ذرا سا شبہ بھی نہیں ہوا تھا۔ ایک دن لکشمی بہت خوش تھی۔

    ’’دیکھو۔ بھابھی نے مجھے سونے کی انگوٹھی دی ہے‘‘ اس نے انگوٹھی اتار کے میرے ہاتھ میں دے دی۔

    ’’اچھی ہے۔ تمھیں سونا پسند ہے؟‘‘

    ’’ہر عورت کو پسند ہوتا ہے۔ ہماری کالونی کے سارے عورتاں یہ ایچ کرتے۔

    مزدوری کر کے پیسے جمع کرنا اور زیور بنانا۔‘‘

    ’’ایک بات بتاؤں‘‘

    ’’ہوں‘‘

    ’’امی کے پاس سونے کا ایک تار بھی نہیں ہے‘‘

    وہ حیرت زدہ رہ گئی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ؟‘‘

    ’’ایسا ہی ہے۔ ہم لوگ بھی نا۔ سارا پیسہ زبان کے چٹخارے‘ عیدوں اور رسموں پر خرچ کر دیتے ہیں‘‘

    ’’میرے پاس ایک ترکیب ہے‘‘

    ’’کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’کسی مال دار لڑکی سے شادی کر لو۔ ڈوری میں خوب پیسہ اور ایک گھر لے لینا۔ زیور بھی آ جائیں گا‘‘

    ’’مذاق اڑا رہی ہو میرا؟‘‘

    ’’نئیں سچی۔ تم کو خوب صورت لڑکی بھی مل سکتی ہے اور یہ سب کچھ بی‘‘

    ’’لکشمی میں صرف تم سے شادی کروں گا‘‘

    ’’ایسا ہویچ نئیں سکتا۔ تم ایک اچھے خاندان کے مسلمان۔ میرا انار رکشہ چلاتا۔ بھابھی بیڑیاں بناتی ہے۔ نیں۔ ہمارا کوئی جوڑ نیں ہے‘‘

    ’’سب مجھ پر چھوڑ دو۔ میں امّی کو منا لوں گا۔ اچھا یہ بتاؤ انارکشہ کیوں چلاتے ہیں‘‘

    ’’کیا کریں گے ان کو کوئی اور کام آتچ نئیں۔ اماں اور بھابھی سمجھا سمجھا کے تھک گئے۔ نائنا (والد) ہمارے گاوں کے نواب صاحب کے خاص آدمی تھے۔ اماں بولتے کہ نواب صاحب ان پہ بہوت بھروسہ کرتے تھے۔ ان کو ہر جگہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ پولیس ایکشن میں ہمارا گاوں بہوت متاثر ہوا۔ نواب صاحب کا بنگلہ جلا دیا گیا۔ ان کے اپنے گاوں والے ان پر حملہ کرے تو نواب صاب کا بنگلہ جلا دیا گیا۔ ان کے اپنے گاؤں والے ان پر حملہ کرے تو نواب صاب کو بہوت صدمہ ہوا۔ بعد میں جاگیر اں بی ختم ہو گئے۔ پولیس ایکشن کے بعد نواب صاب گھر سے باہر نئیں نکلے ان کا جنازہ ایچ نکلا۔ نائنا بی زیادہ دن زندہ نہیں رہے۔ نائنا کے انتخال کے وخت بہوت چھوٹی تھی۔ ہم لوگاں گھر بیچ کے یہاں آگئے۔ یہاں آنے کے بعد انا رکشہ چلا نے لگے۔‘‘ کچھ دیر خاموشی رہی۔

    ’’آپ لوگوں کو دیکھ کے اماں نواب صاب کے گھر والوں کو بہوت یاد کرتے‘‘

    ’’ہم لوگ کوئی نواب وواب نہیں ہیں‘‘ میں نے کہا۔ ‘‘میں شادی کروں گا تو صرف تم سے کروں گا۔ شادی کروگی نا مجھ سے ؟‘‘ لکشمی اچانک مجھ سے لپٹ گئی۔ بہت دیر تک سینے سے لگی رہی۔

    ’’بس نوکری ہو جانے دو۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا، لیکن تمھیں کچھ نہیں ملےگا۔ یہ پیسہ نہ زیور!‘‘

    ’’تمہارے جیسے گورے گورے بچے تو ملیں گے‘‘ لکشمی نے شرارت سے کہا۔

    ’’پوری فوج تیار کر دوں گا‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔

    روزانہ کی طرح اس دن بھی ہم شام کو ملے۔ دیکھا کہ کافی چہل پہل ہے۔ گنے کی فصل کٹ رہی تھی۔ بیل گاڑیوں میں گنا لانے جا رہا تھا۔ میں اور لکشمی الگ الگ راستوں سے ندی کے کنارے پہنچے۔ میں نے ایک گنا اٹھا لیا۔ ندی کے کنارے بیٹھ کر ہم گنّا کھانے لگے۔ دنیا بھر کی باتیں کرنے لگے۔ گنا کھانے کے بعد ہم دونوں نے ندی میں اترکر ہاتھ دھوے میں نے پانی چاہا تو لکشمی نے روکا۔

    ’’گنا کھانے کے بعد پانی پینے سے زبان کٹ جاتی ہے‘‘۔ میں رک گیا۔ لکشمی کے اس طرح منع کرنے پر مجھے اس پر بے اختیار پیار آیا۔ میں نے اسے اپنی طرف کھینچا اور ہونٹ چوم لیے۔ الگ ہونا چاہا تو ہونٹ ذرا مشکل سے الگ ہوئے۔ گنے کے رس کی وجہ سے ہونٹ چپک گئے تھے۔ دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔ اس روز ہم دیر تک بیٹھے رہے۔ تاکہ کھیت کی کٹائی کرنے والے لوٹ جائیں۔ ہمارا اندازہ غلط نکلا۔ ابھی ہم نے تھوڑا ساراستہ ہی طے کیا تھا کہ کئی لوگ نظر آئے۔ انھوں نے ہمیں گھیر لیا۔

    ’’کاں سے آرے رے تم لوگاں‘‘ ایک آدمی نے دھمکایا

    ’’جی ندی سے‘‘

    ’’انّا انے تر کو لڑلو ۱؂ ہے‘‘ انے اور لکشمی دونوں روز یاں آکے ملتے‘‘

    ’’اے تو بھاگ یہاں سے’‘ کسی نے لکشمی سے کہا۔ لکشمی چلی گئی ’’کیا رے آشخی کررا‘‘ ایک آواز آئی۔

    ’’یہ سارے کمینے کالونی میں آکے بس گئے۔ ان لوگاں بیڑی مزدور بی نئیں ہے‘‘

    ’’کیا رے نظام کا زمانہ سمجھا کیا؟‘‘

    ’’ان کے خون میں عیاشی ہے انا‘‘

    ’’عیاشی ویاشی سب نکال دیں گے‘‘

    میرا سر چکرانے لگا۔ بےعزتی اور ذلت کا شدید احساس ہوا۔ سر سے پیر تک پسینہ بہنے لگا۔

    ’’بولتا کیوں نئیں رے‘‘

    ’’مارو سالے کو‘‘ ایک آواز آئی۔ وہ سب اچانک پل پڑے۔ تھپڑ گھونسے، لاتیں۔ غنیمت ہے کسی نے لاٹھی کا استعمال نہیں کیا۔ پھر وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ بڑی مشکل سے میں اٹھ پایا۔ ندی پر جاکر منہ دھویا۔ خون صاف کیا۔ سارے کپڑے گندے ہو گئے تھے۔ جسم پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔ چپکے سے گھر میں داخل ہوا۔ امی باورچی خانے میں تھیں۔ کپڑے تبدیل کرلیے۔ امی میرا حلیہ دیکھ کر گھبرا گئیں۔

    ’’کیا ہوا؟‘‘

    ’’سائیکل سے گر پڑا‘‘ میں نے جواب دیا۔

    مجھے بہت خوف ہو رہا تھا۔کالونی میں بات پھیلے گی توبڑی بدنامی ہوگی۔

    ۱؂ مسلمان

    خاندان بھر میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔ یہ بھی خیال آتا تھا کہ ممکن ہے بات ختم ہو جائے۔ ایک دھڑکا لگا ہوا تھا۔

    دوسرے روز پوری کالونی میں میری پٹائی کی بات پھیل گئی۔ بدقسمتی سے اسی روز ضلع میں فساد ہو گیا۔ یہ افواہیں گشت کرنے لگیں کہ میری اور لکشمی کی بات کو لے کر یہاں بھی ہنگامہ کیا جائےگا۔ تیاریاں کی جارہی ہیں۔ دوسرے محلوں سے غنڈے بلائے جا رہے ہیں۔ امی بے حد پریشان تھیں۔ انھیں کچھ سمجھائی نہیں دے رہا تھا۔ کبھی وہ مجھے ڈاٹنے لگتیں کہ کیو ں میں اس حرافہ کی چکر میں پھنس گیا۔ کبھی لکشمی کو کوسنے لگتیں۔ ان لڑکیوں کا م ہی یہی ہے۔ اچھے خاندان کے لڑکوں کو پھنسانا۔ کالونی میں ایک سراسمیگی پھیل گئی تھی۔ مجھے بہت خوف ہو رہا تھا پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے؟ شام ماموں نے آکر امی سے بتایا کہ تمام مسلمانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ کچھ دنوں کے لیے ضلع کے محفوظ علاقوں میں چلے جائیں۔ جب ہنگامہ تھمےگا تو لوٹ آئیں گے۔ امی زیادہ ہی ڈری ہوئی تھیں۔ انھو ں نے بہن کے گھر شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ ملیا نے کتنا اصرا رکیا کہ وہ بس اسٹاپ پر چھوڑ آئےگا۔ امی نہیں مانیں۔ ہم کھیتوں سے ہوتے ہوئے بس اسٹاپ پہنچے۔

    بہن اور بہنوائی کو امی نے کچھ نہیں بتایا۔ بس اتنا ہی کہا کہ حالات پُر سکون ہونے کے بعد ہم لوٹ جائیں گے۔

    ہفتہ بھر بعد مامو ں کا خط آیا کہ کالونی واپس لوٹنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔انھوں نے ملیا سے ہمارا سامان بھی منگوا لیا ہے۔ خط پڑھنے کے بعد امی گم صم ہو گئیں۔ اس رات انھیں تیز بخار چڑھا۔ رات انھو ں نے ضرورت سے اٹھنا چاہا تو اٹھ نہیں سکیں۔ صبح ڈاکٹر نے بتایا کہ انھیں فالج ہو گیا ہے۔ جسم کا بایا ں حصہ متاثر ہوا تھا۔ چہرے کا بایاں حصہ، ہاتھ اور پیر کا م نہیں کر رہے تھے۔

    بہنوائی کی کوششوں سے مجھے ان کے آفس میں عارضی کلرکی مل گئی تھی۔ جو بھی تنخواہ ملتی اس کا بڑا حصہ امی کے علاج پر لگ جاتا۔ امی داماد کے گھر رہنے سے خوش نہیں تھیں لیکن مجبوری تھی۔

    بہن پر کام کا بوجھ بڑھ گیا تھا۔ کبھی کبھی وہ جھنجھلا جاتیں۔ بہنوائی نے کبھی ا ظہار نہیں کیا تھا وہ بھی خوش نہیں تھے۔ مذاق مذاق میں کہتے کہ امی کی خدمت کرنے کے لیے اب شادی کرلو۔

    تین چار برس سے زندگی ایک ہی محور پر گھوم رہی تھی۔ آفس، گھر اور امی کی خدمت! امی کی ذہنی حالت بھی خراب ہوتی جا رہی تھی۔ وہ ایک ہی جملہ کہتیں۔

    ’’اپنے گھر چلو‘‘

    امی کی اس بات سے بہن بہت چڑ جاتی تھیں۔

    مجھے لکشمی کی بہت یاد آتی تھی۔ پتہ نہیں اس پر کیا گذری؟

    ایک لمبی کشمکش کے بعد امی کو اس تکلیف دہ صورت حال سے نجات حاصل ہوئی۔ آج فجر کی اذاں کے ساتھ امی نے آخری سانس لی۔ امی نے بہت پہلے کہہ رکھا تھا کہ انھیں ابا کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ ہم ضلع کی طرف جا رہے تھے۔

    مامو ں کے گھر پر ویان رکی۔ تمام رشتے دار پہلے ہی سے جمع تھے۔ کچھ لوگوں نے گلے لگا کر آنسو بہائے کچھ لوگوں نے عجیب نظروں سے دیکھا‘ جیسے امی کی موت کا ذمہ دار میں خود ہوں۔

    تدفین کے بعد ہم لوگ ماموں کے گھر رک گئے۔ فاتحہ سیوم کے بعد شہر لوٹنا تھا۔دل کی کیفیت اور ہی تھی۔ ایک بے چینی سے محسوس ہو رہی تھی۔ امی کے بچھرنے کا غم! رشتہ داروں کی مشکوک نظریں! لکشمی کے بارے میں جاننے اس سے ملنے کی شدید خواہش رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ ماموں بہن بہنوائی کی خاطر تواضع اور ان سے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔

    تیسرے روز فاتحہ پڑھ کر لوٹے تو قبرستان کے پھاٹک پر ملیا نظر آیا۔ کافی کمزور لگ رہا تھا۔

    ’’بابو در سانی سچی پوئی نا؟ (بیگم صاحبہ کا انتقال ہو گیا؟)

    ’’ہاں‘‘ میں نے رندھے ہوئے گلے کے ساتھ کہا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ ملیا سے یوں ملاقات ہوگی۔’’تمھیں کیسے پتہ چلا؟‘‘

    ’’کل مارکٹ میں آپ کے ماما مل گئے تھے‘‘ وہ امی کو یاد کر کے رونے لگا۔

    ’’ملیا۔ ایک بات کہوں؟‘‘

    ’’جی بابو‘‘

    ’’کیا میں وہ گھر دیکھ سکتا ہوں جہاں ہم رہتے تھے‘‘

    ’’کیوں نئیں بابو۔ میرے ساتھ چلئے‘‘

    میں نے ماموں سے بہانہ کیا اور رک گیا۔ سب کے جانے کے بعد میں ملیا کے رکشہ میں سوار ہو گیا۔

    ’’تم نے رکشہ چلانا نہیں چھوڑا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ملیا کھسیانے انداز میں ہنسنے لگا ادھر کافی عمارتیں تعمیر ہو گئی تھیں۔ ریلوے گیٹ بھی تبدیل کر دیا گیا تھا۔ سڑک جو سنسان رہا کرتی تھی اس پر چہل پہل نظر آ رہی تھی۔ کنکریٹ کی جگہ تارکول کی سڑک بن گئی تھی۔

    ’’کافی رونق ہو گئی ادھر تو‘‘

    ’’ہاں۔ آبادی بڑھ گئی ہے‘‘

    ’’پانی کا کنکشن لگ گیا؟‘‘

    ’’ہاں‘‘

    ’’کتنی تکلیف ہوتی تھی کنوئیں سے پانی بھرنے کے لیے‘‘ میں نے کہا ملیا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ہم لوگ کالونی میں داخل ہوئے کئی دکانیں کھل گئی تھیں ایک پرائیوٹ انگلش اسکول کا بورڈ بھی نظر آیا۔ مکانات کے اطراف احاطے کی دیواریں اٹھالی گئیں تھیں۔ یہ احاطے ہرے بھرے تھے۔ پہلی بار مجھے اپنے گھر کے کھونے کا افسوس ہوا۔ تین چار برس میں کتنا کچھ بدل گیا تھا۔ ملیا نے ہمارے گھر کے سامنے رکشہ روکا۔ آنگن میں گوبر کا چھڑکاؤ تھا۔ خوب صورت مگو (رنگولی) بنا تھا۔ چوکھٹ پر آم کے پتے ایک ڈوری میں پرو کر لٹکا دئیے گئے تھے۔ دہلیز پر نقش و نگار بنے تھے۔

    ’’کون رہتا ہے یہاں؟‘‘

    ہم ہی رہتے ہیں۔ ہم نے یہ گھر لکشمی کے نام الاٹ کروا دیا‘‘

    ’’اچھا؟‘‘ میرے لہجے میں اتنی تلخی پتہ نہیں کہاں سے آ گئی تھی۔

    ملیا نے یا تو اسے محسوس نہیں کیا یا نظرانداز کر گیا۔ دروازے کے قریب پہنچ کر ملیا نے تیلگو میں آواز لگائی۔ جو عورت باہر آئی وہ لکشمی تھی۔ وہی بڑی بڑی آنکھیں، تیکھے نقوش جسم پہلے سے زیادہ بھرا بھرا لگ رہا تھا۔ وہ زیادہ خوبصورت ہو گئی تھی۔ میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ لکشمی کے چہرے پر خوشی اور حیرت کے جذبات تھے۔

    ’’آپ؟‘‘ اس نے بےساختہ کہا ’’اندر آجایے۔‘‘ ملیا نے کہا میں ابھی آیا ملیا شاید ہمیں تنہائی میں بات کرنے کا موقع دینا چاہتا تھا۔ لکشمی نے ایک فولڈنگ چیر لگادی۔ خود فرش پر بیٹھ گئی۔

    ’’انا نے آپ کی امی کے بارے میں بتایا۔ افسوس ہوا‘‘

    ’’اپنا گھر کھونے کے غم میں ایسے بیمار پڑیں کہ۔۔۔‘‘ میرا گلہ بھر آیا لکشمی نے سر جھکا لیا۔ اس کی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے۔ ایک تکلیف دہ خاموشی چھا گئی۔

    ’’ہمارے جانے کے بعد تمھارے ساتھ کیا ہوا؟‘‘

    ’’کچھ نئیں۔ وہ تو مسلمانوں کو یھاں سے بھگانے کا بہانہ تھا۔ فساد بھی نئیں ہوا یھاں۔

    البتہ اماں میری شادی کی جلدی کرنے لگی‘‘

    ’’شادی ہو گئی تمھاری‘‘

    ’’ہاں‘‘

    مبارک ہو‘‘ میرے لہجے میں پھر وہی تلخی عود کر آ گئی کب ہوئی؟‘‘

    آپ لوگوں کے جانے کے ایک سال بعد۔۔۔اماں، انا کے پیچھے پڑ گئی تھی۔

    ’’کیا کرتے ہیں تمھارے میاں؟‘‘

    ’’کھیتاں اور زمیناں تھے۔‘‘

    ’’تھے کیا مطلب؟‘‘

    ’’میرے کو چھوڑ دیے انوں۔‘‘

    ’’ارے کیوں؟‘‘ مجھے یقین تھا اس کی وجہ ہمارا عشق ہی ہوگا۔ ’’کیا بات ہوئی؟‘‘

    ’’بچے کی وجہ سے‘‘

    کیا انہیں بچے کی شدید خواہش تھی اور تم ماں نہ بن سکیں؟‘‘

    ’’نیں۔ ایک بچہ ہے میرا‘‘ لکشمی چپکے چپکے رونے لگی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہوں۔ تب ہی ملیا اندر آیا۔ اس کی گود میں ایک خوب صورت لڑکا تھا۔ گورا رنگ ’سیاہ آنکھیں‘ گھنگھریالے بال!

    ’’بڑا پیارا بچہ ہے۔ ادھر آو بیٹا‘‘ میں نے بے اختیار کہا۔ ملیا نے اسے تیلگو میں سمجھایا کہ میرے پاس جائے۔ لڑکا چپ چاپ میرے پاس آ گیا۔

    ’’کس کا لڑکا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’لکشمی کا‘‘ ملیا نے دھیرے سے کہا۔ میں چونک پڑا۔

    ’’آپ کو یقین نیءں آیا نا؟‘‘

    ’’نہیں۔ میرا مطلب ہے‘‘ میں گڑ بڑا گیا۔

    ’’کوئی بی یخین نہیں کرتا۔ اماں، ودنا(بھابھی) رشتے دار، کالونی والے۔ کوئی یخین نئیں کرتا۔ ان کو بھی یخین نہیں آیا۔ سب میرے پہ شبہ کرتے ہیں۔‘‘

    ’’کیا شبہ کرتے ہیں؟

    ’’یہ کہ۔ لکشمی لمحے بھر کو رُکی۔ اس کو سب آپ کا بچہ سمجھتے ہیں‘‘ لکشمی نے جلدی سے کہا۔ ملیا باہر چلا گیا۔

    ’’لیکن لکشمی تم جانتی ہو ہمارے درمیان ایسا کچھ بھی نہیں ہوا‘‘ میں نے سٹپٹا کر کہا۔

    ’’ہاو۔ مگر کوئی ماننے کو تیار ایچ نئیں ہے خسماں کھا کھا کے تھک گئی۔ ان سے کتنا آجزی کی۔ نئیں مانے، آخر چھوڑ دیا ہم کو۔ الگ ہو گئے۔ لکشمی رونے لگی۔ ’’بڑی بے غیرتی کی زندگی ہے۔ انا اور یہ بچہ نئیں ہوتا تو باؤلی ۱؂ میں کود کے مر جاتی۔‘‘

    میں سناٹے میں آ گیا۔

    قارئین! کہانی کا ایک انجام تو یہ ہو سکتا ہے کہ میں کسی جھمیلے میں نہ پڑ کر فرقہ وارانہ کشیدگی کا خطرہ مولے بغیر لکشمی کو دلاسہ دے کر چپ چاپ یہاں سے چلاؤں۔ لکشمی کو بھلا کر ایک نئی زندگی کا آغاز کروں۔

    دوسرا انجام یہ ہو سکتا ہے کہ میں لکشمی اور اس کے بچے کو اپنا لوں۔ لکشمی کو میں نے چاہا ہے۔ وہ میری پہلی محبت ہے۔ امی کے انتقال کے بعد میں بالکل تنہا ہو گیا ہوں۔ میں کسی کو جواب دہ بھی نہیں ہوں۔ ہم دونوں کہیں دور چلے جائیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزاریں۔

    ۱ ؂ کنواں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے