Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رفاقت

تسنیم منٹو

رفاقت

تسنیم منٹو

MORE BYتسنیم منٹو

    لکھنا آتا ہو تو اِنسان اندر کی دُنیاکو باہر لاسکتا ہے اور اکلا پے کو بانٹ دیتا ہے، لیکن جب انسان لکھ بھی نہ پائے تو اپنے دُکھ دُوسرے سے بیان کرنے میں Ego آڑے آتی ہے۔ نظر سے نظر مِلا کر بات کہنے سے حیا آتی ہے۔ آنکھیں اپنے اندر بسی دُنیا سمیت بندہو جاتی ہیں، اور پِھر دُکھ رنج تو وُہ چیز ہے، جسے فقط ماں کی جھولی میں ہی ڈالا جا سکتا ہے، لیکن ماں سدا نہِیں رہتی، اور دُکھ بھی وُہی گہرے ہوتے ہیں، جو اپنوں نے دِیے ہوتے ہیں، کیوں کہ وُہی ہمارے بھیدی ہوتے ہیں، جو جانتے ہیں کہ صحیح چوٹ کہاں پر لگانی ہے۔۔۔

    عُمر کا وُہ وقت ہے کہ اکثر راتیں نِیند سے ہاتھا پائی میں گُزر جاتی ہیں۔ میرے پہلُو میں میری محبتوں کا دم بھرنے والا گہری نیند سوتا ہے، اور مَیں دُھلی دُھلائی آنکھیں لیے بڑی آہستگی سے اُٹھ جاتی ہُوں، کہ مُبادہ وُہ جاگ جائے۔۔۔ عجب تماشا ہے کہ مرد عورت کو ڈُھونڈتا ہے، اُسے چاہتا ہے، اور پھِر گھر میں لا کر کہِیں رکھ کر بھُول جاتا ہے، اور عورت باقی کی زِندگی اُس چاہنے والے کوبھرے گھر میں ڈُھونڈتی رہتی ہے۔۔۔

    ایک زمانہ گُزرا، زہرہ نگاہ نے کم عمری میں نئی نئی شاعری شُرُوع کی تھی۔ اپنا بھی لڑکپن تھا۔ اچھّا شعر دِل میں جگہ، بناتا تھا، اور یاد رہتا تھا۔۔۔

    ہم نے سُنا تھا کہ یہ وقت

    تارے گِن لو تو گُزر جاتا ہے

    اور وُہ لمحہ جو ٹھہر جانے کو ہو

    بات کر لو تو بِکھر جاتا ہے

    آنکھ اُٹھّی تو ہنسی آنے لگی

    آج کی رات سِتارے ہی نہِیں

    اِتنا گہرا ہے اندھیرے کا سکُوں

    بات کرنے کے سہارے ہی نہِیں

    پچھلے کئی روز سے وُہ ذِہنی اور جسمانی طور پر چُور چُور تھی۔ نِیند کے لیے، وُہ ایک گولی سے زیادہ نہِیں لیتی تھی۔ زِندگی میں بَہُت کم خُود مُختاری تھی۔ لہٰذا نِیند کے لیے اُسے ایک گولی کی حد تک محتاجی گوارا تھی۔۔۔ اگرچہ پیچھے گُھپ اندھیرا تھا، پھِر بھی اُس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا۔ سارا منظر برسوں بعد بھی بَہُت واضح تھا، اور کُچھ واقعات ایسے تھے جو بَہُت ڈھٹائی سے ذِہن کے گوشوں میں مضبُوطی سے جمے ہُوئے تھے۔۔۔ اور آج اِس سمے وُہ تمام باتیں بضد ہیں کہ ہمیں یاد کرو، ہمیں دُہراؤ، ہم سے نظریں مِلاؤ۔۔۔

    کوئی خاص وجہ، نہِیں تھی۔ پھِر بھی دیر ہوتی جارہی تھی۔ شکل، عقل، عِلم اور مِڈل کلاس کے حوالے سے ایک مُعتبر ساکھ رکھنے والا سُلجھا ہُوا گھرانا۔۔۔

    آج صبح سے ہی گھر میں کچھ اہتمام سا تھا۔ چھوٹی نے سوچا وُہ باہر والا برآمدہ سب سے آخر میں صاف کروائے گی، تاکہ پودے وغیرہ ترو تازہ نظر آئیں۔ وُہ چھوٹی نہِیں تھی،لیکن اُسے چھوٹی کہا جاتا تھا۔ بھائی صاحب کا اِضطراب اور بے جی کی مایُوس خاموشی۔۔۔ اَبّا جی تو اپنا بوریا بِستر سمیٹ کر برسوں پہلے جا چکے تھے۔ سب کچھ بڑے بھائی تھے، اور ماں بیٹے کی بڑی گہری دوستی اور انڈرسٹینڈنگ تھی۔ بے جی اِس مُعاملے میں خاصی غیر مُنصِف تھیں کہ یہ دوستی، یہ ہمدمی اُنھوں نے فقط بڑے بیٹے سے ہی اُستوار کر رکھی تھی۔۔۔ مہمانوں نے دُور دراز علاقے سے آناتھا، لہٰذا دوپہر کے کھانے اور شام کی چاے کا انتظام تھا۔۔۔ مہمان رُخصت ہوچکے تھے، اور اب بھابھی جی سستا رہی تھیں۔ بے جی عِشا کی نماز کے بعد جاے نماز سمیٹ رہی تھیں۔ بھائی صاحب سوفے پر بیٹھے سوچ میں گُم تھے۔ بظاہر آج کے مہمانوں کا رویّہ حوصلہ افزا تھا، لیکن پھر بھی ایک دھڑکا سا لگا تھا۔ ”آئیں امّاں آئیں“ بھائی صاحب نے بے جی کو سوفے پر جگہ، دیتے ہُوئے کہا۔ مہمانوں کے رُخصت ہونے کے بعد بے جی نے پہلی مرتبہ اِستفہامیہ نظروں سے بیٹے کی جانب دیکھا ”نوجوان ہے، ابھی لاکِیا ہے، والد کے ساتھ کام شُرُوع کِیا ہے۔ بظاہر لوگ اَچھّے لگ رہے ہیں۔ خُصُوصاً والد تو بَہُت مُدّبر سے ہیں۔“ بھائی صاحب نے تفصیل سے بے جی کو اپنی راے بتا دِی۔ ”تُم فکر نہ کرو، جو قُدرت کو منظُور ہو گا، ہو جائے گا۔ بے جی مہمانوں کے خُوشگوار رویّے کی وجہ، سے کُچھ پُر اُمِّیدسی تھیں۔

    غالباً دوسرے تیسرے روز بھائی صاحب نے بڑے دھیرج سے بے جی کو بتایا ”اَمّاں شیخ صاحب کا فون آیا ہے، وُہ سب بَہُت خُوش ہیں، اور ہمارے ساتھ رِشتہ داری قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کِیا ہے۔“ ۔۔ اِس خبر پر ساس بہُو نے ایک دُوسری کو مُطمئن مُسکراہٹ سے دیکھا، ظاہر ہے چھوٹی تو بَہُت ہی خُوش تھی۔۔۔ لیکن وُہ جو زِندگی کے اِس بے حد اہم Episode کا ایک اہم ترین کِردار تھی، اُسے سب سے آخِر میں بتایا گیا، اور اُس نے بھی روایتی انداز میں بڑی متانت سے اِس فیصلے کو تسلیم کر لیا۔

    سترہ نومبر شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔۔۔ اُس زمانے میں اناج کی قِلّت تھی، اور شادیوں پر فقط چاے پیش کی جاتی تھی۔ لہٰذا بھائی صاحب نے بڑی ہی ریج سے کچھ ایسا اعلیٰ مِینو تیّار کروایا، کہ سب نے بے حد پسند کِیا۔ مہمانوں کوسر آنکھوں پر بٹھایا گیا کہ یہ اِس گھر کی رِیت تھی۔ عام زِندگی میں بھی مہمان اِس گھر کے لیے بَہُت اہم تھا۔۔۔ رفاقت نے نئے گھر اور نئے ماحول میں خُود کو رچا، بسا لیا۔

    بات کچھ بھی نہِیں۔لوگ آتے ہیں،چلے جاتے ہیں، لیکن ایسے وقت میں بھری محفل چھوڑ کر اُٹھ جانا کہ نظّارہ بھر پُور ہے، اور جو باغ باغیچہ لگاتے سینچتے جوانی بِیت گئی، اور ابھی نگاہ نے یہ نظّارہ جی بھر کے نظروں میں سمیٹا بھی نہِیں تھا کہ بس جلدی جلدی میں اُس نے اُٹھ جانے کا سوچ لیا۔۔۔ یہ بھی سچ ہے کہ محفل کو جمے برسوں گُزرے تھے، اور اب وُہ وقت آن لگا ہے کہ کون نہ جانے کِس وقت اپنی بساط لپیٹ لے اور جمی محفل میں سے اپنی جگہ، خالی کر کے چلتا بنے۔۔۔ آج کی نسل کے ایک حقیقت پسند بچّے نے اگلے روز یہ بات کہی۔۔۔ کہ ”ہاں اتنے برسوں بعد کچھ تو ہونا ہی ہوتا ہے۔۔۔“ سوچتی ہُوں کہ موجُودہ نسل اپنے رویّوں میں کِس قدر شانت ہے۔ جذبوں اور محبتوں کودلیلوں کے کیسے کیسے ترازُو میں تولتی ہے۔

    پچھلے سفر میں گھر والوں اورحالات نے جس ڈگر پر ڈال دِیا، وُہ چل پڑی، اور بڑے سلیقے سے ساری اُونچ نیچ، ٹبّے، ٹوئے، کھائی، بِناٹھوکر کھائے طے کِیا۔۔۔ مگر موجُودہ سفر کا پروگرام اُس نے خُود ہی بنا لیا۔ نہ صلاح لی، نہ مشورہ کِیا، کچھ من میں ایسی سمائی کہ بس چلنے کی ہی ٹھان لی۔ گھر سے چلی تو ہلکی نیند کا خُمار تھا۔ ہسپتال پہنچ کر گہری نیند سو گئی۔ سو یہ باب تمام ہُوا۔

    مَیں کہ جس کے دماغ میں عورت کے حُقُوق کی برابری اور سماجی سطح پر اُس کی شناخت کا کیڑا گُھسا ہُوا ہے، میری ایک عادت ہے کہ راہ چلتے اگر کوئی جنازہ گُزرے اور وُہ جنازہ عورت کا ہو تو مَیں سب کچھ بھُول کر اُس ہُجُوم میں سے اُس عورت کے باپ، بھائی، بیٹے اور شوہر کا چہرہ ڈُھونڈتی ہُوں، کہ ا ُس عورت کے جانے سے اُس کے یہ رِشتے جن کے وسیلے سے وُہ مُعاشرے میں سانس لیتی رہی، کِس قدر افسُردہ ہو سکتے ہیں، لیکن مجھے اِس میں کبھی کامیابی نہِیں ہُوئی کہ سب چہرے سپاٹ ہوتے ہیں اور وُہ اپنے روزمرّہ کے کاموں کو چھوڑ کر ایک دُنیاوی فرض کو پُورا کرنے جا رہے ہوتے ہیں۔ اُس روز جب وُہ جارہی تھی اور مَیں دُور ایک کونے میں کھڑی تھی، مجھے کِسی افسُردہ چہرے کی تلاش نہِیں کرنی پڑی۔۔۔ رفاقت خُوش نصیب تھی کہ مُدّتوں بعد میری جُستجو کامیاب تھی۔ اب نہ معلُوم یہ جانے والی کی صلاحیّت تھی یا غم سے نڈھال ہونے والوں کا ظرف۔

    رفاقت کے بیٹے نے پچھواڑے میں گھر بنایا ہے۔ گھر کو سجانے کے صلاح مشورے ہو رہے تھے۔ لیکن وُہ تو اُس کو سجا سجایا دیکھنے سے پہلے ہی چلی گئی، بالکل اپنے اَبّا جی کی طرح کہ وُہ کتنی خواہش کرتے تھے کہ بھائی صاحب کو عدلیہ کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوتے دیکھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بھائی صاحب نے بَہُت کچھ حاصِل کیا۔ عدلیہ بھی، اِنتظامیہ بھی، محبت، عِزت، رِزق اور ایک بے حد سخی دِل۔ اَبّا جی نے اپنے اندر کی خواہشوں کی آوازیں ہی سُنیں۔ ذِہن میں ہیُولے بنائے، پِھر وقت نے اُن آرزوؤں کے چہرے دیکھنے کی مُہلت نہ دی۔

    ابھی کچھ دیر پہلے مَیں نے رفاقت کے بچّوں کی خیریّت معلُوم کرنے کے لیے فون کِیا تو پتا چلا کہ وُہ سب لوگ مع ہاشم بھائی کے مری گئے ہُوئے ہیں۔ سارے خاندان کے لیے اِس قِسم کی تبدیلی بے حد ضرُوری تھی۔پچھلے ڈیڑھ دو ماہ سے یہ لوگ سخت ذِہنی اور جذباتی دباو میں تھے، لیکن یہ جان کر مَیں کُچھ کھو سی گئی ہُوں، کہ پچھلے گُزرے بائیس چوبیس برسوں میں رفاقت نے کسی بھی پہاڑی مقام پر جا کے نہِیں دیکھا۔ ہاشم بھائی کو کسی زمانے میں دِل پر کُچھ گزری تھی۔ چُناں چہ رفاقت نے آپ ہی آپ یہ فیصلہ کر لِیا تھا کہ ہاشم بھائی کے لیے پہاڑ پر جانا اَچھّا نہِیں۔ اُس نے ہاشم بھائی کی صِحّت کی نِگہداشت ایک ریاضت اور عبادت سمجھ کر کی۔۔۔ لیکن آج مَیں حیران ہُوں کہ اِتنے برسوں پر پھیلی یہ ریاضت کس قدر بے معنی ثابت ہوتی ہے، اور رفاقت نے یہ بن باس کیوں لِیا۔۔۔

    گُزرتا وقت بھی کہانی ہے، اور جب کوئی اِنسان وقت کی گرِفت سے نِکل جاتا ہے تو وُہ بھی کہانی بن جاتا ہے۔۔۔ رفاقت کے بچّے آنے والے وقتوں میں اپنے بچّوں سے اپنی ماں کی باتیں کریں گے، اور بچّوں کو دیکھی لیکن بھُولی کہانی یاد آئے گی۔۔۔ ساشا بڑی متانت سے سر ہِلا کر کہے گی ”جی ابُّو مجھے یاد ہے“ اورنِشے اپنی ماں سے چمک کر کہے گی ”امّی آپ کیا سمجھتی ہیں کہ مجھے نانو یاد نہِیں۔“

    رفاقت چلی گئی، لیکن اُس کے ذِکر کے ساتھ ابھی ”تھی“ لگانے کو من نہِیں مانتا، چند روز زِندگی کے معمولات بدلے۔ اب سب کُچھ ویسے کاویسا ہے،دُھوپ، گرمی، بارش، پھُول، پتّے، سب اپنے اپنے وُجُود کا احساس دِلاتے ہیں۔ کُچھ لمحے اُداس کردیتے ہیں۔ وقت کا بیشتر حِصّہ زِندگی اپنی ہماہمی کی جانب کھینچ لیتی ہے۔ اِسی کو قانُونِ قُدرت کہتے ہیں۔ اور قُدرت مصرُوفِ عمل ہے۔کون کب اُٹھتا ہے۔ یہ راز صِرف دستِ اجل کو معلوم ہے۔

    جی کا جانا ٹھہر گیا ہے

    صبح گیا یا شام گیا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے