Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

روح کا ایک لمحہ اور سولی پر پانچ برس

دیوندر اسر

روح کا ایک لمحہ اور سولی پر پانچ برس

دیوندر اسر

MORE BYدیوندر اسر

    اوورکوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اور کالر اٹھائے میں پلیٹ فارم پر کھڑا تھا۔ میری جیب میں خط پڑا تھا، جسے بار بار میں انگلیوں سے چھو رہا تھا اور محسوس کر رہا تھا کہ انگلیاں ایک ایک لفظ کو پڑھ رہی ہیں۔

    ۲۲کو فرنٹیئر سے آرہی ہوں۔۔۔ نشی۔

    آج دسمبر کی ۲۲تاریخ ہے۔ سگنل گرچکا ہے۔ کچھ ہی منٹوں میں فرنٹیئر میل آرہی ہے۔ لیکن نشی۔۔۔! نشی کون ہے؟ میری انگلیاں پھر ایک بار خط پر حرکت کرنے لگیں۔

    ۲۲کو فرنٹیئر میل سے آرہی ہوں۔۔۔ نشی۔

    نشی کے نام پر پھر میں رک گیا۔ اگر گاڑی کی وسل سے چونک نہ پڑتا تو شاید اسی ایک نام پر نہ جانے کب تک رکا رہتا۔ عورتوں کا ڈبہ تیزی سے میرے سامنے سے گزر گیا۔ میں نے مضبوطی سے خط پکڑ لیا۔ ڈبے سے چہرے باہر جھانک رہے تھے۔ ہاتھ ہل رہے تھے۔ لوگ پہچانے ہوئے چہرے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ جواب میں ہاتھ ہلا رہے تھے۔ دوڑ رہے تھے۔ وہ کون سا چہرہ ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے، وہ کون سا ہاتھ ہے جو مجھے بلا رہا ہے۔ نشی تم کون ہو؟ تم مجھے کیسے جانتی ہو؟ میرے پاس کیوں آرہی ہو؟ شاید یہ خط میرے لیے نہ ہو۔ میں ایک دم گھبراگیا۔ میں نے جیب سے خط نکالا۔ پتہ پڑھا۔ نام میرا تھا، پتہ میرا تھا۔ لیکن نشی؟

    ’’امیش۔‘‘ جیسے جیب سے آوازآئی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ نشی کھڑی تھی (ظاہر ہے وہ نشی ہی ہوگی) وہ مسکرا رہی تھی۔ اس کے بال اڑے اڑے تھے اور چہرے پر سفر کی تھکن کے آثار تھے۔ لیکن وہ مسکرا رہی تھی۔ وہ چند ثانیے اسی طرح کھڑی رہی۔ مسکراتی رہی۔

    ’’پہچانا مجھے۔‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’ہاں نشی۔‘‘

    وہ کھلکھلاکر ہنس پڑی، ’’اس لیے کہ تمہیں نشی کا خط ملا۔ اگر اس کے نیچے اوشا، اُما یا شانتا ہوتا تو میں۔۔۔‘‘

    ’’بڑی تیز لڑکی ہو۔‘‘

    ’’لڑکی نہیں ڈیئر۔ عورت۔‘‘ اس نے پاس کھڑی بچی کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’بڑی ذہین ہے۔‘‘ میں نے سوچا۔ اس نے میرے چہرے کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔

    ’’اب میں بڑی ہو گئی ہوں نا۔‘‘ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور پلیٹ فارم سے باہر کی طرف چل دی۔ اب کے کھیل میں جیت دشوار تھی۔ فن کا مقابلہ معصومیت سے تھا، معصومیت جو شعور کی حدوں کو چھو لینے سے پیدا ہوتی ہے۔

    ’’دیکھو امیش۔‘‘ جب ہم ٹیکسی میں بیٹھ چکے تو اس نے کہا، ’’انسان کی زندگی میں پانچ برس بڑالمبا عرصہ ہوتا ہے، وقت کی رفتار میں چہرے اور دل بدل جاتے ہیں۔ لیکن کوئی ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جو منجمد ہوکے کہیں چھپ جاتا ہے اور پھر کسی انجانی حرارت سے پگھلنا شروع ہوجاتا ہے اور ان پانچ برسوں پر محیط ہوجاتا ہے۔ انسان کی رگوں میں لاوے کی طرح بہنے لگتا ہے۔ دل کی تہوں میں گرم لوہے کی طرح حرکت کرتا ہے۔ اس کی تاب لانا مشکل ہے۔ اگر تمہارے دل اور جسم میں اتنی سکت ہے کہ اس آگ سے لپٹ جاؤ تو تم جینیس ہو ورنہ۔۔۔‘‘ وہ پہلی بار سنجیدہ ہوگئی۔

    نشی اب میرے لیے اجنبی لڑکی نہیں تھی۔ اس کے ہاتھوں کی گرمی اور ہونٹوں کی مسکراہٹ میری جانی پہچانی تھی۔ بس پانچ برسوں میں میں اسے بھول سا گیا تھا۔ اس نے ٹھیک کہا تھا کہ پانچ برس بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ اس میں چہرے اور دل بدل جاتے ہیں۔

    ’’تو تمہاری شادی ہوگئی۔‘‘ میں نے بات چھیڑنے کی غرض سے کہا۔

    ’’اور لڑکی بھی۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ میں نے اس کی لڑکی کی طرف دیکھا۔ سپید چہرہ۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں۔ ماتھے پر کٹے ہوئے بال۔ چینی گڑیا۔

    ’’چین میں پیدا ہوئی ہے۔‘‘ میں کے اس کے بالوں کو چھوتے ہوئے کہا۔

    لڑکی کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور پتلے پتلے ہونٹ کھل اٹھے۔ دونوں مسکرادیں۔

    ’’میں نے اس کانام بھی چینی گڑیا رکھا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں سروں کا زیرو بم ہے اور پاؤں میں بجلی کی تھرکن۔ اس کا ناچ دکھاؤں گی تمہیں۔‘‘

    ظاہر تھا کہ نشی اپنی شادی کی بات کرنا پسند نہیں کرتی تھی۔ شاید وہ ان چند لمحوں میں اپنی اس زندگی کو بھول جانا چاہتی تھی۔ شاید وہ اس زندگی سے کچھ لمحوں کے لیے فرار کرکے میرے پاس آئی تھی۔ لیکن میں تو اب ساری زندگی سے فرار کرچکا تھا۔ انجام بڑا خطرناک تھا لیکن دلچسپ بھی۔

    گھر آگیا تھا۔ ہم نے سامان اتارا اور کمرے میں داخل ہوگئے۔

    ’’تم تھکی ہوئی ہو۔۔۔ آرام کرلو۔ میں چائے بناتا ہوں۔‘‘

    ’’ابھی نہیں۔ چائے تو سکون سے پینی چاہئے۔ تم ہی تو کہتے تھے کہ چائے اور پیار کے لیے جذبہ چاہئے۔‘‘

    نشی ادھر ادھر کمرے میں گھومنے لگی۔ اس کی بچی کو نہ معلوم کیوں میں ایلس کے نام سے پکارنے لگا۔ وہ آرام کرسی پر بیٹھے بیٹھے سوگئی۔ نشی کمرے میں پڑی تصویروں کو دیکھنے لگی۔ وہ ایک تصویر پر تھوڑی دیر رک گئی۔

    ’’پسند آئی؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’ہاں۔ لیکن ہاتھ پاؤں میں زنجیروں کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

    تصویر کیوبک آرٹ کا نمونہ تھی۔ جس میں مختلف اداس رنگوں کے پس منظر میں ایک آدمی کی تصویر کشی کی گئی تھی۔ مختلف رنگ ان پابندیوں کے مظہر تھے، جن میں انسان جکڑا ہوا ہے۔

    ’’زنجیروں کے بغیر یہ تصویر روح کی غلامی کی اذیت کا مظہر بن جاتی۔ زنجیریں غیر ضروری ہیں۔‘‘

    ’’تمہیں آرٹ میں کب سے دلچسپی ہوگئی؟‘‘

    ’’اس کے لیے کوئی ایک لمحہ متعین نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

    ’’ویسے میرا خیال تھا کہ زندگی کے کسی بھی لمحے تم آرٹسٹ بن سکتی ہو۔‘‘

    ’’وہ کیسے؟ حالانکہ جب تم آرٹ اور ادب کی باتیں کرتے تھے تو میں بور ہوجاتی تھی۔‘‘

    ’’یہ میرے دل کی آواز تھی۔‘‘

    وہ میری طرف دیکھنے لگی۔

    ’’بات یہ ہے نشی! تم اپنی روح کو اپنے جسم سے ظاہر کرتی ہو، میں نے کہا تھا۔ تم نے جواب دیا تھا، تم ٹھیک کہتے ہو۔ میرا جسم ہی میرا ذہن ہے۔ میں کئی لمحے تک سوچتارہا کہ زندگی کو پرکھنے کاشعور تم میں ہے۔‘‘

    ’’ہاں ہاں جینیس جو ٹھہری۔‘‘ وہ کھلکھلاکر ہنس پڑی۔

    ’’باتھ روم کدھر ہے؟‘‘ اس نے کپڑے سنبھالے اور باتھ روم چلی گئی۔ ایلس سو رہی تھی۔ اور میں سوچ رہا تھا نشی کتنی بدل گئی ہے۔

    اس کے جسم سے جیسے برقی رو اٹھتی رہتی تھی۔ کٹے بال، بغیر بازو کی قمیص، پھول کی طرح کھلتی ہوئی مسکراہٹ۔ جب میں اس کے بہت قریب آگیا تھا جہاں روح اور جسم کی حدیں ملتی ہیں، تو وہ بولی، ’’اتنی دیر تک کیا سوچتے رہے؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔‘‘

    ’’بدھو ہو۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔

    جب بھی میں اس سے کوئی سوال کرتا تو اس کاجواب ہوتا، ’’پتہ نہیں۔‘‘ میں خاموش ہوجاتا۔ میں نے دھیرے دھیرے محسوس کیا کہ نشی کا جسم ہی اس کی زبان ہے۔ اس کی روح کو پانے کا راستہ اس کا جسم ہے۔

    نشی نہاکر واپس آگئی تھی۔ میں نے اسٹو جلایا اور چائے کا پانی رکھ دیا۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑی بال سنوارنے لگی۔

    ’’ایلس کو جگاؤں؟‘‘ میں نے کہا۔ اس نے ایلس کی طرف دیکھا، ’’رہنے دو۔ شاید کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔‘‘

    میں نے ایلس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ میں اس کی پیشانی چومنے کے لیے اس پر جھکا۔

    ’’سوئے ہوئے بچے کو پیار نہیں کرتے۔‘‘ نشی نے کہا۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’پتہ نہیں۔‘‘ پرانی نشی پیدا ہو رہی تھی۔

    ’’نشی تم تو جاگ رہی ہو نا۔‘‘ میں نے اس کی خوابیدہ نگاہوں کی طرف دیکھا۔ وہ سفید ساری میں ملبوس تھی۔ وہ چائے بنانے میں مشغول تھی۔ آرام کرسی پر ایلس سو رہی تھی۔ میں اخبار دیکھ رہا تھا۔ مجھے آج اپنا کمرہ گھر نظر آرہا تھا، جس میں پیار کرنے والی بیوی ہے اور پیار پانے والا بچہ۔ اس کمرے میں نشی پہلی لڑکی (عورت) نہیں جو چائے بنارہی ہو اور جس کے بال شانوں پر لہرا رہے ہوں۔ لیکن گھر کااحساس آج پہلی بار ہو رہا تھا۔ شاید اس لیے کہ پانچ برس بڑا لمبا عرصہ ہوتا ہے اور آدمی کاچہرہ اور دل بدل جاتے ہیں۔

    ’’آشی۔ دیکھو چائے تیار ہے۔‘‘

    ایلس پھر کروٹ بدل کر سوگئی۔

    ’’تھک گئی ہے آشی۔‘‘

    نشی نے ایلس کے گالوں کو سہلایا۔ اسے اٹھالیا اور باتھ روم میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر میں چائے اور ایلس دونوں ہی تیار ہوگئیں اور ہم چائے پینے لگے۔

    ’’امیش تمہیں تعجب تو ہوا ہوگا، میرا خط پاکر۔‘‘

    ’’ہاں بات یہ تھی کہ خط بڑا مختصر تھا اور پھر پانچ برس بیت گئے تھے۔‘‘

    ’’ہاں۔ میں بھی ذرا بزرگ ہوگیا ہوں، باتیں بہت کم یاد رہتی ہیں۔‘‘

    ’’باتیں عمر کے ساتھ نہیں، جذبے کی کمی کے باعث بھولتی ہیں۔‘‘

    ’’شاید۔‘‘

    ’’آدمی زندگی کو تین طرح سے محسوس کرتاہے۔ جسم سے، دماغ سے اور دل سے۔‘‘

    میں نشی کے چہرے کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا۔

    ’’پانچ برس پہلے میں نے زندگی کو جسم سے محسوس کیا تھا اور تم نے دماغ سے اور جذبہ دل سے محسوس کیے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا۔‘‘

    تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولی، ’’اور یہ احساس کہ تم جذبے سے محروم ہوگئے ہو، بڑا اذیت ناک ہوتا ہے۔ تم سوچتے ہوگے میں تمہارے پاس کیسے آگئی۔ اسی احساس کے باعث۔ شاید اس ایک لمحے کو پھر سے تازہ کرکے زندگی کو دل سے محسوس کرسکوں اور اس ایک لمحے کو ساری زندگی پر محیط کرسکوں۔‘‘

    ہم چائے پیتے رہے اور دیر تک باتیں کرتے رہے۔ میں نے فن کے راز کو پالیا تھا لیکن میں نے ہر چیز کو اس کی بلند سطح پر ہی لیا ہے۔ نشی کہا کرتی تھی کہ شادی زہر ہے لیکن اسے شادی کرنی پڑی۔ معلوم نہیں پانچ برس تک وہ اس زہر کو کیسے پیتی رہی۔ جب یہ زہر اس کی رگوں میں سرایت کرنے لگا تو اس نے ادب و فن میں دلچسپی لینی شروع کردی۔ جس سادگی سے وہ پیار کرتی تھی، اسی سادگی سے وہ اب کتابوں، ادیبوں اور مصوروں کے بارے میں بات کرتی ہے۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ دلی اچانک کیسے آگئی، اس نے جواب دیا کہ ایک روز میں سٹوِل کی ایک نظم پڑھ رہی تھی۔ مجھے محسوس ہوا کہ منجمد لمحہ جو میرے دل کے کسی گوشے میں چھپ کر بیٹھا تھا، پگھلنے لگا ہے اور لاوے کی طرح میری رگوں میں بہنے لگا ہے۔ اچانک تمہاری یاد آئی اور اس نے سٹول کی وہ نظم سنائی۔

    STILL FALLS THE RAIN,

    DARK AS THE WORLD OF MAN, BLACK AS OUR LOSS, BLIND AS THE NINTEEN HUNDRED AND FORTY NAILS UP ON THE CROSS.

    دن بھر میں ایلس سے کھیلتا رہا۔ نشی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔ اور پھر دیر تک باتیں کرتے رہے۔ جب شام کے سایے پھیلنے لگے تو ہم باہر نکلے۔ نشی نے اسی طرح بغیر بازو کی سرخ قمیص پہنی۔ اس نے ریشمی بالوں کو ہوا میں اڑنے دیا۔

    ’’نشی تم بالکل ویسی ہی نظر آتی ہو جیسی پانچ برس پہلے تھیں۔‘‘

    روشنی دھیرے دھیرے کم ہو رہی تھی۔ اندھیرا دھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا۔ سورج ڈوب چکاتھا۔ دور اس پار شفق پرپھیلتی ہوئی روشنی بادلوں میں اُودے، سیاہ اور سرخ رنگ بھر رہی تھی۔ ہم دونوں خاموش بیٹھے رہے۔ نشی نے میرے کندھے پر سر رکھ دیا۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ نشی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور اس نے نگاہ جھکالی اور ور شفق کی ساری سرخی ایک دم سمٹ کر اس کے چہرے پر چھا گئی۔ اس ایک لمحے میں نشی، نشی نہیں تھی کوئی ماورائی حقیقت تھی۔ اس کے ہونٹ کپکپانے لگے۔ اس نے زور سے میرا ہاتھ دبادیا۔ میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے ساری کائنات سمٹ کر ان ہونٹوں میں سما گئی ہے، اور یہ ہونٹ پھیل کر ساری کائنات پر چھا گئے ہیں۔

    نشی کی آنچ میرے چہرے پر خوش کن لمس دے رہی تھی۔ چاروں طرف سناٹا تھا جیسے وقت کی رفتار رک گئی ہو۔ نامعلوم کب تک اس کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا رہا کہ میری روح پر گلاب کی دونازک پتیاں لرز رہی ہیں۔ اور جب میں نے آنکھیں کھولیں تو رات ہوچکی تھی، چاروں طرف اندھیرا تھا۔ میں اور وہ اندھیرے میں ڈوب گئے تھے۔ اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا۔ دور جیسے پروں کے پھڑپھڑانے کی آواز آرہی تھی۔ کسی پرندے کی۔

    مأخذ:

    کینوس کا صحرا (Pg. 50)

    • مصنف: دیوندر اسر
      • ناشر: پبلشرز اینڈ ایڈورٹائزرز کرشن نگر، دہلی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے