Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سانپ اور آئینہ

ویکوم محمد بشیر

سانپ اور آئینہ

ویکوم محمد بشیر

MORE BYویکوم محمد بشیر

    ’’کیا کبھی تمہارے جسم کے کسی حصے پر کوئی سانپ لپٹا ہے؟ بپھرا ہوا کوبرا؟‘‘ جوا ب میں ہم سب خاموش ہو گئے۔ سوال ہومیوپیتھ نے کیا تھا۔ مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب ہم سانپوں کا تذکرہ کر رہے تھے۔ ڈاکٹر اپنا قصہ بیان کر رہا تھا اور ہم سب لوگ بڑی توجہ سے سن رہے تھے۔

    گرمیوں کی رات تھی۔ وقت تقریباً دس بجے کاتھا۔ میں نے ریستوراں میں کھانا کھایا اور کمرے پر واپس آ گیا۔ جوں ہی میں نے کمرے کا دروازہ کھولا، مجھے اوپر کہیں سے کھرکھراہٹ کی آواز آئی۔ آواز میرے لیے نامانوس نہیں تھی۔ کمرے میں رہنے والا میں تھا اور چوہے۔ میں نے اپنی ماچس کی ڈبیا نکالی اور میز پر رکھا ہوا لیمپ جلایا۔

    کمرے میں بجلی نہیں تھی۔ یہ کرایے پر لیا ہوا ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ میں نے ابھی کچھ ہی دن ہوئے، اپنی میڈیکل پریکٹس شروع کی تھی۔ آمدنی بھی ابھی بہت معمولی سی تھی۔ میرے سوٹ کیس میں تقریباً آٹھ سو روپے پڑے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ چند قمیصیں اور چند دھوتیاں۔ میرے پاس ایک اکلوتا کالا کوٹ بھی تھا جو میں اس وقت پہنے ہوئے تھا۔

    میں نے اپنا کالا کوٹ، سفید قمیص اور بنیائن، جوبہت سفید نہیں تھی، اتاری اور ان سب کو ٹانگ دیا۔ میں نے کمرے کی دونوں کھڑکیاں کھول دیں۔ یہ کمرہ باہر کے رخ بنا ہوا تھا، جس کی ایک دیوار کھلے ہوئے احاطے کی طرف تھی۔ کھپریلوں والا لمبا سائبان دیوار پر رکھے ہوئے شہتیر پر ٹکا تھا۔ کمرے پر باقاعدہ چھت نہیں تھی۔ شہتیر کے نیچے سے چوہوں کی آمدورفت ہمہ وقت کا سلسلہ تھا۔ میں نے اپنا بستر ٹھیک کیا اور پلنگ کو کھینچ کر دیوار کے قریب کر لیا۔ لیٹا مگر نیند نہیں آئی اور میں سونہ سکا۔ میں تھوڑی سی تازہ ہوا کھانے کے لیے اٹھ کر برآمدے میں گیا مگر ہوا کے دیوتا شاید اس وقت آرام کر رہے تھے۔

    میں کمرے میں واپس آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔ میز کی دراز کھول کر میں نے اپنی ’’میٹیریا میڈیکا‘‘ نکالی۔ کتاب میں نے میز پر رکھ لی، جہاں لیمپ بھی رکھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ایک بڑا سا آئینہ بھی۔ آئینے کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کنگھا بھی تھا۔ جب آئینہ قریب ہو تو آدمی کے دل میں اس میں دیکھنے کی خواہش بھی پیدا ہوتی ہے۔ میں نے ایک نظر ڈالی۔ اس زمانے میں حسن پرستی مجھ پر طاری تھی اورمجھے خود اپنے آپ کو نک سک سے درست رکھنے کا شوق تھا۔ تب میں غیرشادی شدہ تھا اور ڈاکٹر تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ مجھے اپنے وجود کا احساس دلانا چاہیے۔ میں نے کنگھا اٹھایا، بالوں میں کیا اور مانگ اچھی طرح سے ٹھیک کی تاکہ وہ سیدھے اور سلیقے کی لگے۔ تب اوپر سے آتی ہوئی کھرکھراہٹ کی آواز میں نے پھر سنی۔

    میں نے آئینے میں اپنے چہرے کو غور سے دیکھا اور پھر ایک اہم فیصلہ کیا۔ میں شیوہر روز کیا کروں گا اور باریک سی مونچھیں رکھوں گا تاکہ کچھ اور خوبصورت لگوں میں، بہرحال کنوارا تھا اور ڈاکٹر تھا۔

    میں نے آئینے میں دیکھا اور مسکرایا۔ یہ ہنسی بہت دلکش تھی۔ میں نے ایک اور لرزہ خیز فیصلہ کیا۔ مزید خوبصورت نظر آنے کے لیے میں یہ دلکش تبسم ہر وقت اور ہمیشہ اپنے ہونٹوں پر رکھوں گا۔ میں بہرحال بیچلر تھا اور مزید یہ کہ ایک ڈاکٹر بھی تھا!

    کھرکھراہٹ کی وہی آواز اوپر سے پھر آئی۔

    میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ایک بیڑی جلائی اور کمرے کے اندر ٹہلنے لگا۔ اس وقت ایک خوبصورت خیال میرے دل میں آیا۔ مجھے شادی کر لینا چاہیے۔ میں کسی ایسی عورت سے شادی کروں گا جو خود ڈاکٹر ہو، اس کے پاس بہت دولت ہو اور اس کی پریکٹس اچھی چل رہی ہو۔ اسے فربہ ہونا چاہئے۔ اس کی ایک معقول وجہ تھی۔ اگر کبھی مجھ سے کوئی احمقانہ غلطی سر زد ہو جائے اور مجھے بھاگنے کی ضرورت پڑے تو اس میں میرے پیچھے بھاگ کرمجھے پکڑ لینے کی صلاحیت نہیں ہونا چاہئے۔

    ذہن میں ان ہی خیالات کولیے ہوئے میں میز کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ اوپر سے آنے والی کھرکھراہٹ کی آواز ختم ہو چکی تھی۔ اچانک دھپ سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی جیسے کوئی ربڑ کا پائپ زمین پر گرا ہو۔ یقیناً یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کے لیے بہت پریشان ہوا جائے۔ اس کے باوجود میں نے سوچا کہ اٹھ کر ادھر ادھر ایک نظر ڈال لوں۔ ابھی میں ذرا سا مڑا ہی تھا کہ ایک موٹا سا سانپ کرسی کی پشت سے رینگتا ہوا آیا اور میرے کندھے پر آکر رک گیا۔ میرا مڑنا اور سانپ کا کندھے پر آنا تقریباً ساتھ ہی ساتھ ہوا۔

    میں نہ تو اچھلا اور نہ ہی ہلا۔ میں چیخا چلایا بھی نہیں۔ ایسا کچھ کرنے کا موقع بھی نہیں تھا۔ سانپ میرے شانے کے قریب رینگا اور میرے بائیں بازو میں کہنی سے کندھے تک لپٹ گیا۔ اس کا پھن پھیلا ہوا تھا اور سرمیرے منھ سے بمشکل تین چار انچ کے فاصلے پر ہوگا۔ یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ میں وہاں اپنی سانس روکے بیٹھا رہا۔۔۔ میں پتھر ہو چکا تھا مگر میرا دماغ بہت تیزی سے کام کر رہا تھا۔ دروازہ تاریکی میں کھلا تھا۔ سارے کمرے میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ لیمپ کی روشنی میں میں گوشت پوست کا ہونے کے باو جود پتھر کے ایک بت کی طرح کرسی پر اور آئینے کے اندر اپنے عکس میں بیٹھا ہوا تھا۔

    اس وقت مجھے اس دنیا، بلکہ اس ساری کائنات کے خالق کی عظیم کی موجودگی کا احساس ہوا۔ خدا موجود ہے۔ فرض کیجیے میں نے کچھ کہا ہو اور اسے پسند نہ آیا ہو؟ میں نے اپنے تصور میں، اپنے دل کے باہر، جلی اور سنہرے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کی، ’’یا اللہ۔‘‘

    میرے بائیں ہاتھ میں کچھ درد ہوا۔ ایسا لگا جیسے سیسے کی ایک موٹی سلاخ۔۔۔ نہیں، پگھلی آگ سے بنی ہوئی سلاخ۔۔۔ دھیرے دھیرے مگر یقینی طور پر میرے بازو کو مسل رہی تھی، بھینچ رہی تھی۔ بازو کی ساری قوت زائل ہونا شروع ہوئی۔ میں کیا کروں؟ میری خفیف سی حرکت پرسانپ مجھے کاٹ سکتا ہے۔ موت مجھ سے چار انچ کی دوری پر تھی۔ فرض کیجیے یہ مجھے کاٹ لے تومجھے کون سی دوا لینی ہوگی؟ کمرے میں کوئی دوا نہیں تھی۔ میں ایک بےچارہ، بےوقوف اور احمق ڈاکٹر تھا۔ میں اپنی جان کو درپیش خطرے کو بھول گیا۔ مجھے خود اپنے آپ پر ہنسی آ گئی۔ ایک کمزور، نحیف و نزار تبسم۔

    ایسا لگا جیسے میری یہ ادااللہ میاں کو پسند آ گئی۔ سانپ نے اپنا سر موڑا۔ اس نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔ میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ یہ پہلا سانپ تھا جس نے کبھی کسی آئینے میں دیکھا ہو۔ مگر یہ بہرحال حقیقت تھی کہ سانپ آئینے میں دیکھ رہا تھا۔ کیا وہ خود اپنے حسن سے مسحور ہو رہا تھا؟ کیا وہ مونچھیں رکھنے، آئی شیڈیا مسکارا لگانے یا اپنی پیشانی پر ٹیکا چسپاں کرنے کے بارے میں کوئی اہم فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا؟

    میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس سانپ کی جنس کیا تھی۔۔۔ نر یا مادہ؟ مجھے یہ کبھی نہ معلوم ہوگا، کیونکہ سانپ نے اپنے بلوں کو میرے بازو سے کھولا اور رینگ کر میری گود میں آ گیا۔ وہاں سے وہ میز پر چڑھا اور آئینے کی طرف چل پڑا۔ شاید وہ اپنے عکس سے زیاد قریب ہوکر لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔

    اب میں پتھر کا بت نہیں رہا تھا۔ اچانک میں گوشت پوست کا آدمی ہو گیا تھا۔ اپنی سانس بدستور روکے ہوئے میں کرسی سے کھڑا ہو گیا۔ خاموشی کے ساتھ دروازے سے نکل کر میں برآمدے میں چلا گیا۔ وہاں سے احاطے میں کودا اور بھاگا کہ اس وقت میں صرف میں یہی کرنے والا تھا۔

    ’’شکرہے!‘‘ ہم میں سے ہر ایک نے اطمینان کا لمبا سانس لیا۔ ہم سب نے بیڑیاں جلائیں۔ کسی نے پوچھا، ’’ڈاکٹر، کیا تمہاری بیوی موٹی ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ ڈاکٹرنے کہا، ’’خدا کی مرضی کچھ اور ہی تھی۔ میری جیون ساتھی نرکل کی طرح پتلی ہے اور انتہائی تیز قدم۔‘‘

    کسی دوسرے نے سوال کیا، ’’جب تم بھاگے تو کیا سانپ نے تمہارا پیچھا کیا؟‘‘

    ڈاکٹرے جواب دیا، ’’میں بس بھاگے ہی چلا گیا یہاں تک کہ اپنے ایک دوست کے گھر پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے سب سے پہلے تو اپنے سارے جسم پر تیل ملا، پھر نہایا، صاف کپڑے پہنے۔ دوسرے دن صبح کو میں اپنے دوست اور دو ایک دوسرے لوگوں کولے کر اپنے کمرے پر گیا تاکہ وہاں سے اپنا سامان نکال سکوں۔ مگر ہمیں وہاں بہت کم سامان ملا۔ کسی چور نے میرا سامان چرا لیا تھا۔ کمرہ صاف ہو چکا تھا۔ چور نے آخری تذلیل کے لیے بس ایک چیز چھوڑ دی تھی۔‘‘

    ’’وہ کیا تھی؟ ’’میرے دوست نے پوچھا۔

    ڈاکٹر نے کہا، ’’میری گندی بنیائن۔ صفائی کا کیا ذوق تھا! ا رے بدمعاش! اسے لے جاتا، صابن سے دھوکر پہن سکتا تھا۔‘‘

    ’’ڈاکٹر، تم نے دوسرے دن سانپ دیکھا؟‘‘

    ڈاکٹر ہنسا۔ ’’اس کے بعد آج تک نہیں دیکھا۔ یہ ایک ایسا سانپ تھا جو خود اپنے حسن سے مسحور تھا اور اپنے ہی حسن کا گرویدہ۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے