Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سڑاند

MORE BYوسیم حیدر ہاشمی

    راجن اپنی ناک پر رومال رکھے، آنکھ کے کونے سے بائیں جانب کراہت سے دیکھتا ہوا گھر سے باہر نکلا۔ اس کے چہرے پر ناگواری کے آثار صاف نمایاں تھے۔ وہ بڑبڑاتا ہوا چوراہے کی طرف چل دیا۔

    ’’عجیب حال ہے نگر پالیکا والوں کا بھی۔ صفائی کا لمبا چوڑا عملہ رکھتے ہیں، اس کے باوجود شہر میں صفائی نام کو نہیں۔ مہتروں کا دماغ تو اتنا خراب ہو چکا ہے کہ سیدھے منہ بات نہیں کرتے۔ آپ شکایت کرتے رہیے، کون سنتا ہے۔‘‘ اب وہ ایک پی۔ سی۔ او۔ تک پہنچ چکا تھا۔ اندر داخل ہو کر اس نے ایک نمبر ملایا۔ اتفاق سے فون جلد ہی ریسیو کر لیا گیا۔

    ’’ہالو۔۔۔! نگرپالیکا سپھائی ببھاگ‘‘

    ’’ہاں۔ دیکھئے میں محلہ گھنٹہ گھر سے بول رہا ہوں۔ پرسوں رات میرے گھر کے دروازے پر کہیں سے ایک کتا آکر مر گیا ہے۔ محلے کی مہترانی سے کہا تھا مگر اس نے دھیان نہیں دیا۔ اسے جلد پھکوانے کا انتظام کیجیے۔۔۔‘‘

    ’’لوکیسن بولیے۔ آدمی کدھر بھیجنا ہوگا؟‘‘

    ’’جی ہاں۔ رام بابو کی گلی کا جو نکڑ ہے، بس اس سے تیسرا مکان۔ پیلے رنگ کا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔ کمپلین نوٹ ہو گیا۔‘‘

    ’’دیکھئے، بہت جلد آدمی بھیجئے گا۔دو دن ہو گئے۔ کتا خوب پھول چکا ہے۔ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ پھر سوچئے، اتنی بھیانک گرمی ہے، کیا ہوگا۔۔۔ہلو۔۔۔.ہلو! دھت تری کی۔ کٹ گیا فون۔ عجیب حال ہے اس ڈپارٹمنٹ کا بھی۔‘‘ وہ بڑبڑاتا ہوا پی۔ سی۔ او۔ والے کا بل ادا کرکے باہر نکل آیا۔

    شکایت درج کروانے کے بعدراجن جب گھر لوٹا تو کوئی ساڑھے نو کا وقت رہا ہوگا۔ اس نے جلدی جلدی کھانا کھایا اور دفتر کے لیے نکل پڑا۔ دفتر پہنچ کر اس نے اپنے کئی ساتھیوں سے اس مرے ہوے کتے اور نگرپالیکا کے ناکردہ کار اور بےپروا عملے کا ذکر کیا مگر ان میں سے بیشتر نے اس کی بات پر دھیان تک نہیں دیا۔ وہ قریب قریب سارا دن نگرپالیکا والوں کو سدھارنے کے طریقوں پر غور کرتا رہا مگر کسی خاص نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا۔ شام کو جب وہ گھر لوٹ رہا تھا تو اسے یقین تھا کہ نگر پالیکا والوں نے وہ کتا اٹھوا دیا ہوگا مگر گھر پہنچ کر اسے اس وقت بہت مایوسی ہوئی جب اس نے مردہ کتے کو جوں کا توں اپنی جگہ پر پایا۔ اس کے چہرے پر اب مایوسی کی جگہ جھنجھلاہٹ اور فکرمندی کے ملے جلے آثار صاف نمایاں تھے۔ اس نے اپنا اسکوٹر گھر میں رکھا۔ نہ کپڑے تبدیل کیے نہ چائے پی۔ واپس آکر دروازے پر کھڑا ہو گیا اور متفکرانہ نظروں سے کتے کو گھورنے لگا۔ کتے کے چاروں پیر تن کر اوپر کی طرف اٹھ گئے تھے اور اس کے کھلے ہوے منہ پر لاتعداد مکھیاں بھنبھا رہی تھیں۔ ’’الو کے پٹھے، نگر پالیکا والے تو آنے سے رہے، لگتا ہے اب مجھے خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔‘‘ وہ سوچ ہی رہا تھا کہ آخر کیا کیا جاے کہ ’’اے صاحب‘‘ کی آواز پر چونک گیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک دبلا پتلا کالا سا، اٹھارہ ا نیس برس کا مریل سا لڑکا اس سے مخاطب ہے۔ کپڑے کے نام پر اس کی کمر کے گرد پھٹا ہوا سا ایک انگوچھا لپٹا ہے۔ گندگی کی وجہ سے اس کی رنگت ایسی ہو گئی تھی کہ ا سے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ اس کے پپڑیاے ہونٹوں پر جگہ جگہ دراریں تھیں جس میں زخم بھی تھا اور کہیں کہیں مواد کا پیلا پن صاف جھلک رہا تھا۔

    ’’ای کتوا پھکوائیےگا؟‘‘ اس نے راجن سے سوال کیا۔

    ’’ہاں۔ کیوں؟‘‘ راجن نے اسے گھورتے ہوے سوال کیا۔

    ’’ت طے کر لیجیے۔ کتنا دیجیےگا۔ ابھینے پھینک دیب۔‘‘

    ’’طے کر لوں۔۔۔؟ اچھا بتاؤ کیا لوگے؟‘‘ راجن نے پوچھا۔ اس دوران پڑوس کے دو تین لوگ اور بھی اکٹھا ہو گئے تھے۔

    ’’ڈیڑھ سو۔‘‘ اس نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے کہا۔

    ’’ڈیرھ سو۔۔۔؟ کیا تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ چل بھاگ یہاں سے۔ میں کوئی اور انتظام کر لوں گا۔‘‘ راجن نے اسے جھڑک تو دیا مگر اسے ڈر تھاکہ کہیں یہ سچ مچ نہ چلا جاے۔ مگر اس نے چلے جانے کے بجاے تھوڑا گڑگڑاکر کہا۔

    ’’دیکھیے ہجور۔ ای بہوتے گندا کام ہے۔ کوئی کرت ناہیں۔ پھر رات بھی ہوے رہی ہا۔ ہیاں سے تین میل دور اتر والے بڑکا کوڑا کھانا تک اے کے گھسیٹ کر لے جاے کا ہوئی۔ سروا بیس کیلو سے کم کا تو ہوئی بھی ناہی۔ ادّم ٹھیک بولا ہے سرکار۔ ‘‘ راجن کچھ کہتا، اس سے قبل، اس کا ایک پڑوسی بول پڑا۔

    ’’ڈیڑھ سو تو بہت ہوتا ہے بے۔ اگر پھینکنا ہے تو ٹھیک ٹھیک بول۔ پچاس روپے لینا ہے تو پھینک دے ورنہ چل بھاگ یہاں سے۔‘‘

    ’’ناہیں سرکار، پچاس روپیہ ناہیں۔ بڑی مِنہت کا کام ہے۔ اگر سو روپیہ دیدجیے تَ پھینک دیں ناہیں تَ آپ لون کا مرجی۔‘‘ اتنا کہتا ہوا وہ دوقدم بڑھا ہی تھا کہ راجن نے اسے رکنے کا اشارہ کیا اور پڑوسیوں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔

    ’’میرے خیال سے یہ ٹھیک کہہ رہا ہے راجن بابو۔ ہم لوگ ایسا کرتے ہیں کہ آپس میں چندہ کرکے اسے سو روپے دے دیتے ہیں۔ یہاں ارد گرد کل پانچ گھر ایسے ہیں جنھیں زیادہ پریشانی ہے۔ ہم سب بیس بیس روپے دے دیتے ہیں۔ کیسی رہےگی؟‘‘ ایک بزرگ نے مشورہ دیا تو راجن نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ان لوگوں میں سے چار تو پیسے دینے کو بخوشی راضی ہو گئے مگر ان کے ایک پڑوسی گھوشؔ بابو نے صاف انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کام نگر پالیکا کی ذمہ داری ہے۔ وہ ایک پیسہ بھی نہیں دیں گے۔ بہرحال، راجن اور اس کے دوسرے پڑوسیوں نے یہ کہتے ہوئے کہ ’’اس کنجوس سے یہی امید تھی‘‘ اس رقم میں پانچ پانچ روپیہ کا اضافہ کرکے اسے سو روپے ادا کر دیے۔ اس لڑکے نے یہ روپیہ موڑ کر اپنے انگوچھے کی انٹی میں کس کر دبا لیا اور آناً فاناً میں رسی کا ایک پھندا بنا کر کتے کے پچھلے پیر میں پھنسا یا اور اسے گھسیٹتا ہوا لے چلا۔ جب راجن واپس گھر میں داخل ہوا تو اس کے ذہن سے ایک بڑا بوجھ اتر چکا تھا۔

    ’ارے، اس نے تو کتے کو پھینکنے کے لیے یہاں سے تین میل دور کسی اتر والے کسی بڑے کوڑے خانے کا ذکر کیا تھا۔ پھر وہ پورب کی طرف کیوں گیا؟ ہوگا، مجھ سے کیا مطلب۔ چاہے کوڑے خانے میں پھینکے یا اپنے گھر لے جاے، ہماری مصیبت تو ٹل گئی نا۔۔۔.‘۔

    دوسرے روز اتوار ہونے کی وجہ سے راجن ذرا دیر سے سوکر اٹھا۔ نہ چاہتے ہوے بھی کل کے تمام واقعات بتدریج اس کے دماغ میں گھومتے رہے۔ عام چھٹیوں کی مانند ہی اتوار کا دن بھی ادھر ادھر میں ہی گزر گیا۔ آج شام کو اسے اپنے ایک دوست کی بیٹی کی سالگرہ میں جانا تھا۔ راجن نے تیار ہو کر اسکوٹر نکالا اور اپنے دوست کے گھر کی طرف چل دیا۔ صاف ستھری اور چکنی سڑکیں طے کرتا ہوا جب وہ ایک گلی کی طرف مڑا تو وہاں دس پندرہ آدمیوں کو اکٹھا دیکھ کر اس نے اسکوٹر کی رفتار کم کر دی۔ جب وہ بھیڑ کے قریب پہنچا تو وہاں کا منظر دیکھ کر اس نے اسکوٹر کا انجن بند کر دیا۔ ان لوگوں کے درمیان وہی کل والا ڈوم کھڑا مول بھاؤ کر رہا تھا اور تھوڑی دور پر وہی کتا پڑا ہوا تھا جسے پھنکوانے کے لیے کل راجن کو اتنے پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ راجن چند لمحہ اس لڑکے کو غور سے دیکھتا رہا پھر کندھے جھٹک کر اسکوٹر اسٹارٹ کیا اور دوست کے گھر جانے کے لیے گلی میں مڑ گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے