Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

صحرا گزیدہ

شہناز پروین

صحرا گزیدہ

شہناز پروین

MORE BYشہناز پروین

    لمحوں کو اپنی گرفت میں لے کر ناقابلِ فراموش بنادینا اُس کامحبوب مشغلہ تھا۔ اُسے اچھی طرح معلوم تھا کون سی تصویریں مرکزِ نگاہ بن جاتی ہیں۔ فطرت کے دلفریب مناظر، ہرے بھرے کھیت، خوش رنگ پھول، آزاد پرندوں اور ہنستے کھیلتے تندرست بچوں کی تصویروں کے خریدار متوسط طبقے کے لوگ ہوا کرتے۔ درد و غم سے مامور لمحوں کوبعینہٖ اپنے کمرے میں محفوظ کر لینے کے بعد ایک انجانی سی خوشی محسوس ہوتی۔ غربت، بھوک اور پیاس کی کیفیات کو تصویروں میں ہنر مندی سے پیش کرنا دادوتحسین کا سبب بنتا۔عام لوگوں کے لیے یہ اذیت رساں اور کرب ناک لمحے درد کا احساس تھے، اہلِ ثروت کے لیے یہ تصویریں ڈرائنگ روم کی زینت بن کر ان کا شمار اہلِ درد میں کراتیں اور یہی بیمار اور کمزور لمحے اربابِ سیاست اور اقتدار کے طلب گاروں کے لیے وقت کی سب سے اہم ضرورت اور سیاست چمکانے کا ذریعہ بن جاتے۔ جن کی تصویریں ہوتیں وہ وقت کی زنجیروں میں یوں جکڑے ہوتے کہ انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے درد کو کوڑیوں کے مول لے کر کون کہاں اور کیسے استعمال کررہاہے۔

    ماہرین کے فیصلوں کے بعد جب وہ کسی وزیر یا بزنس مین کے ہاتھوں انعام وصول کرتا تو اسے اپنی طاقت پر ناز ہوتا۔ اپنے اس نہایت مہنگے شوق کی تکمیل کے لیے قیمتی اور نادر کیمروں کی خریداری اس کی استطاعت میں تھی۔ مشکلات اور کٹھنائیوں سے گزرنا اس کے لیے ایک خوشگوار ایڈونچر بن گیا تھا۔

    اس بار اس کی اُتاری ہوئی تصویر واقعی ایک شاہکار تھی۔ بہت دنوں کے بعد اسے محسوس ہوا تھا جیسے اس کی تصویر کو زبان مل گئی ہو۔

    غربت و افلاس کی انتہائی لکیر، انسان کی بے بسی اور تذلیل کی داستان، زندگی اور موت کی سنگین حقیقت، کشمکش، انتظار اور موت کے سائے کا آہستہ آہستہ زندگی کی طرف بڑھتا احساس، ایک زندگی لمحہ لمحہ دوسری زندگی کو موت کی آغوش میں اُترتے دیکھ کر طمانیت کا تاثر پیش کررہی تھی ،اس کی آنکھوں میں انتظار کانشہ اور کیف تھا اور دوسری ،لرزا ں و ترساں موت سے جنگ آزما تھی۔

    ننھا سا ایک ننگ دھڑنگ بچہ ریت سے رزق نکالنے کی کوشش میں بار بار اپنی انگلیوں کو زخمی کرلیتا۔ گرم ریت جب اس کے کومل ہاتھوں کو جھلسا کر لہولہان کردیتی وہ اپنے ہی لہو کومنہ میں ڈال کر انگلیاں چوستا۔ انگلیوں کی دکھن کم ہوتی تو دوبارہ جدوجہد میں مصروف ہوجاتا۔اس تگ ودو میں اس کی پسلیاں بار بارجسم سے باہر نکلتی ہوئی محسوس ہوتیں۔ پپڑی جمے ہوئے کالے ہونٹوں پر جب وہ اپنی خشک اور کھردری زبان پھیرتا تو صحرا کی چیختی چلاتی ہوائیں بھی بین کرنے لگ جاتیں۔ اس سے ذرا فاصلے پر ایک گدھ اس کے بقیہ سانس گن رہا تھا۔ آنے والے خوش کن لمحے کے انتظار میں اس کی چونچ اور آنکھوں میں ایک لذت آگیں چمک تھی۔ اس نے تین مختلف زاویوں سے ان لمحوں کو اس طرح گرفت میں لیا تھا کہ ایک ایک نقش فریاد کی مختلف کیفیات کو نمایاں کر رہاتھا۔

    عالمی مقابلۂ تصویر میں اس کی کاوش کو پہلے نمبر کا حقدار قرار دیا گیا تھا۔ سی این این کی نشریات سے اس بار اس کے کمالِ فن کو اجاگر کیا جارہا تھا۔ اخبارات کیپورے پورے صفحے مختلف عنوانات کے تحت صحرا کی چیخ و پکار کی طرح رجوع کررہے تھے۔

    ایک طرف دور دور تک پھیلے ہوئے بےآب و گیاہ صحرا میں بھوک اور پیاس سے جان بلب بچے کی طرف موت کے بڑھتے ہوئے سائے، دوسری طرف موت کے قدموں کی آہٹ سے بے خبر معصوم بچے کاقطرہ قطرہ زندگی کی طلب میں باربار انگلیوں کو لہولہان کرلینا اور ساتھ ہی ذرا فاصلہ پر گدھ کی آنکھوں میں زندگی کانشہ اور چونچ پر انتظار کی چمک اتنی نمایاں تھی کہ تمام صحراؤں کی داستانیں انھیں تصویروں میں رقم ہو گئی تھیں۔ ایک دوست نے اس ’’تھری ڈائی مینشنل‘‘ تصویر کو انلارج کرکے اس کے کمرے کی ایک دیوار پر لگادیا تھا۔

    اپنے چاہنے والوں کے حصار سے نکل کر وہ اپنے کمرے میں آیا، جیسے ہی اس نے روشنی کے لیے سوئچ آن کیا دیوار پر آویزاں تصویر کا پورا عکس آئینے میں جم گیا۔ آئینے میں اس تصویر کے ساتھ اپنا عکس دیکھ کر اسے محسوس ہوا وہ آئینے کے اندر ہے۔ باہر کھڑا ہوا وجود غائب ہو چکا تھا۔ عکس حقیقت بن گیا تھا اور حقیقت پر سائے کاگمان ہو رہا تھا۔ آن واحد میں اس پر کئی کیفیتیں گزر گئیں۔ اپنی ذات سے اس کی یہ پہلی ملاقات تھی۔

    اپنی ہر کامیابی پر وہ والدین اور دوستوں کے ساتھ جشن منایا کرتا لیکن اس بار وہ ہواؤں میں پروازنہیں کر رہا تھا۔ اس کے پاؤں زمین کی ان دیکھی طاقت نے جکڑ لیے تھے۔اس کے دل میں پہلی بار درد کی ایک لہر اٹھی، ایک نئی خواہش نے جنم لیا، آڈیو ویڈیو کی مدد سے ان کیفیات کو مزید پر اثر بنانے کی خواہش۔ اس نے سوچاصحرا کی تیز ہواؤں کے شور میں جب DVD کھلے گی توایک عالم کانپ اٹھے گا اورا ہل دردتمام عالمی قوتوں کو صحرا میں زندگی کے پھول کھلانے پر مجبو ر کر دیں گے۔

    DVD کی تیاری اس کی زندگی کا مقصد بن گئی۔ والدین اور بہن بھائی اس کی عادت سے واقف تھے کہ وہ اپنے کام میں منہمک ہوتا تو کھانے پینے کا ہوش بھی نہیں رہتا تھا لیکن اس بار اس کی بے کلی کچھ اور ہی تھی۔ ان کے شہزادے نے درد کے جس دشت میں قدم رکھا تھا وہاں سے واپس آکربھی نہیں آیا تھا۔ کیمرے کے بعد اس کا دوسرا بڑاشوق بڑے ہوٹلوں میں کھانا کھانا تھا۔ اسے وحشت سے نکالنے کے لیے کبھی کبھی وہ زبردستی اس کے دوستوں کے ساتھ اس کی پسندیدہ جگہوں پر لے جاتے۔ اس کے سامنے اس کے پسندیدہ کھانے اور مشروبات رکھے جاتے مگر انھیں دیکھ کر اس پر وہی کیفیت طاری ہوتی جو کسی سگ گزیدہ پر پانی کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ مشروبات میں اسے ایک سوکھے ہوئے جسم اور پیاس سے ابلتی ہوئی آنکھوں کا عکس نظر آتا، چکن بروسٹ یا چرغے کو دیکھ کر ابکائیاں آتیں۔

    راہ چلتے ہر سرخ سگنل پر چھوٹی بڑی گاڑیوں کاشیشہ صاف کرتے، اخبار یا پھول بیچنے والے بے گھر بچوں کی آنکھوں میں جلتی بجھتی امیدیں صحرا کے اس بچے کی یاد تازہ کر دیتیں۔ گاڑیوں میں ایستادہ بچوں کی مجبوریاں خریدنے والوں پر اسے گدھ کا گمان ہوتا۔ یہ غیر معمولی کیفیت دیوانگی کی حدوں میں داخل ہوچکی تھی مگر اس کے جاننے والوں اور چاہنے والوں کو یقین تھا کام مکمل ہو جانے کی بعد وہ پہلے کی طرح زندگی کی طرف لوٹ آئےگا۔

    ڈاکومینٹری مکمل ہوئی اور رات کے پہلے پہر اس نے خود ہی DVD کھولی، تیز ہواؤں کے شور میں پھنکارتا ہوا ریگستان سامنے آیا۔ حقیقی صحرا کو دیکھ کر اس پر وحشت اور خوف کا یہ عالم طاری نہیں ہوا تھا۔ اس نے ریموٹ سے بڑھتے ہوئے صحرا کو آگے آنے سے روک دیا اور دوسرے منظر کو سامنے لایا۔ پوری فلم تو اس نے دیکھی بھی نہیں لیکن لمحہ لمحہ اُترتی ہوئی رات اس کے لیے عذاب بن گئی۔ آنکھیں بندکرلینے پر سوئیاں سی چبھتیں اور وہ کرب سے اُٹھ بیٹھتا۔ بالآخر اس کی کربناک چیخ نے سب کو ہلاکر رکھ دیا۔ ڈاکٹروں نے تیز سکون بخش دوائیں تجویز کیں۔

    ’’یہ آخری علاج ہے، چوبیس گھنٹوں میں اگر نیند نہ آئی تو مریض ساری عمر اسی کیفیت میں مبتلا رہےگا دوسری صورت میں۔۔۔!‘‘ سب نے ڈاکٹر کی بات سمجھ لی تھی۔

    اس نے آنکھیں بند کیں، گھر والوں نے سکھ کا سانس لیا۔ کچی نیند میں سوتے جاگتے وہ کئی دنیاؤں سے دکھ کے کانٹے چنتا رہا یہاں تک کہ اس کی انگلیاں لہولہان ہو گئیں۔ درد کی شدت کم کرنے کے لیے اس نے بھی اپنی انگلیاں منہ میں لینا چاہیں لیکن ایک دردناک چیخ کے ساتھ اس کی آنکھ کھل گئی۔

    اس بار لمحوں نے مکمل طور پر اسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس کی پھٹی پھٹی آنکھوں میں ان کہی داستانیں رقم تھیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے