Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سزا

MORE BYبلونت سنگھ

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک سادہ سی محبت کی کہانی ہے۔ جیت کور ایک غریب دوشیزہ ہے، جو اپنے بوڑھے دادا اور چھوٹے بھائی چنن کے ساتھ بہت مشکل سے زندگی بسر کر رہی ہے۔ نمبردار کے مقروض ہونے کی وجہ سے اس کا گھر قرقی ہونے کی نوبت آگئی۔ اس موقع پر تارا سنگھ خاموشی سے جیتو کے باپو کے ایک سو پچاس روپے دے آتا ہے، جو اس نے بھینس خریدنے کے لئے جمع کر رکھے تھے۔ تارا سنگھ جیتو سے شادی کا خواہشمند تھا لیکن جیتو اسے پسند نہیں کرتی تھی، اسے جب چنن کی زبانی معلوم ہوا کہ تارو نے خاموشی سے مدد کی ہے تو اس کے دل میں محبت کا سمندر لہریں مارنے لگتا ہے۔ ایک پرانے واقعہ کی بنیاد پر تارا سنگھ جیت کور سے کہتا ہے کہ آج پھر میری نیت خراب ہو رہی ہے، آج سزا نہیں دوگی، تو جیت کور اپنے جوڑے سے جنبیلی کا ہار نکال کر تارا سنگھ کے گلے میں ڈال دیتی ہے۔

    یہ کہانی پنجاب کے ایک گاؤں سے وابستہ ہے۔ چھوٹا سا گاؤں تھا۔ دو ایک حویلیوں کو چھوڑ کر باقی تمام مکانات گارے کے بنے ہوئے تھے۔ وہی جوہڑ، وہی ببول، شرینہہ اور بیریوں کے درخت، وہی گھنے پیپل کے تلے روں روں کرتے ہوئے رہٹ، وہی صبح کے وقت کنوؤں پر کنواریوں کے جمگھٹ، دوپہر کے وقت بڑے بوڑھوں کی شطرنج اور چوپڑ، شام کو نوجوانوں کی کبڈی اور پرسکوت راتوں میں وارث علی شاہ کی ہیر، ہیر اور قاضی کے سوال و جواب، وہی مضبوط، نٹ کھٹ اور چنچل چھوکریاں اور وہی سیدھے سادے بلند قامت اور وجیہہ نوجوان۔۔۔

    شام ہو چکی تھی۔ گھر میں پکانے کے لیے کوئی چیز نہ تھی۔ اس لیے جیت کور پیسہ آنچل میں باندھ کر دال لینے کے لیےگھر سے باہر نکلی لیکن چار قدم چل کر رک گئی، سامنے پیپل کے نیچے مگدر کے قریب پھمن سنگھ چارپائی پر بیٹھا مونچھوں کو بل دے رہا تھا۔ جیت کور جانتی تھی کہ جب وہ اس کے پاس سے گزرے گی تو وہ اسے بغیر چھیڑے ہرگز نہ رہے گا۔ لہٰذا اس نے سوچا کہ بجائے دال کے کسی کھیت سے ساگ لے آتی ہوں۔ اس طرح وہ پیسہ چھوٹا بھائی چنن خرچ کر لے گا۔ آج دوپہر بھر وہ کھانڈ کی رنگ دار گولیوں کے لیے روتا رہا تھا۔ یہ سوچ کر وہ کھیتوں کی طرف چل دی۔

    سورج غروب ہو رہا تھا۔ ببول اور گنوں کے سائے طویل ہوتے جا رہے تھے۔ جیت کور چھوٹی چھوٹی کانٹے دار جھاڑیوں سے شلوار بچاتی ہوئی چلی جا رہی تھی۔ جامن کے قریب بیروں کی جھاڑیاں تھیں، اس نے تھوڑے سے بیر چنن کے لیے توڑ لیے، پھر آگے بڑھی۔ اس کے چہرے سے افسردگی اور غصہ کے آثار ہویدا تھے۔ اس وقت وہ پھمن سنگھ کی بابت سوچ رہی تھی۔ آخر پھمن سنگھ اسے کیوں دِق کرتا ہے۔ اگر اور نہیں تو سمتری اس سے کم حسین تو نہ تھی۔ وہ اسے کیوں نہیں چھیڑتا؟ لیکن سمتری کے تین جوان بھائی تھے۔ اگر کوئی اس کی طرف انگلی بھی اٹھائے تو وہ اس کا خون پی جائیں۔ یہ خیال آتے ہی اسے اپنا بھائی یاد آ گیا۔ تین سال پہلے جب کہ اس کی عمر پندرہ برس کی تھی، اس کا بھائی گھر سے کھانا کھا کر کنویں پر گیا۔ جہاں اس نے تربوز کھا لیا اور شام تک ہیضہ سے مر گیا۔

    اس کا بھائی گاؤں بھر میں سب سے زیادہ دراز قد تھا۔ اس کا سینہ ایسا تھا جیسے کسی بڑی چکی کا پاٹ۔ ایک بالشت اونچی اور موٹی گردن۔ چوڑے چکلے مضبوط ہاتھ۔ کلائی پکڑنے اور کبڈی کھیلنے میں دور دور تک کوئی اس کی برابری کا دعویدار نہ تھا۔ ایک دفعہ کبڈی میں اس نے تھپڑ مار کر اپنے حریف نوجوان کی ہنسلی کی ہڈی توڑ دی تھی۔ یہ باتیں یاد کر کےجیت کور کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، بھلا آج اس کا بھائی زندہ ہوتا تو کیا پھمن سنگھ کی ہمت پڑ سکتی تھی کہ اس سے چھیڑخانی کرے۔ کل ہی کی تو بات ہے کہ اس بدمعاش نے اس کا آنچل کھینچ کر اس کا سر ننگا کر دیا تھا۔ یہ سب اسی لیے تو تھا کہ وہ نمبردار کا لڑکا تھا اور دوسرے یہ ان کے قرض دار تھے۔

    ماں کی موت کے بعد ان پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ماں کے بعد باپ مرا۔ باپ کے بعد اس کا بھائی مرا اور اب بوڑھا دادا رہ گیا تھا جسے وہ باپو کہا کرتی تھی۔ یا چنن تھا۔ چھ سال کا بچہ۔ ماں باپ کی آخری نشانی۔ کئی دفعہ فصلیں خراب ہوئیں۔ نمبردار کا ڈیڑھ سو روپے کا قرضہ سر پر ہو گیا۔ زمین علیحدہ رہن تھی۔ باپو بوڑھا تھا۔ ان تمام مصیبتوں پر طرہ یہ کہ بے شرم پھمن سنگھ اسے دم نہ لینے دیتا تھا۔

    اب جیت کور کا پھر سے خون کھولنے لگا۔ اس کے دل میں تمام مردوں کے لیے نفرت پیدا ہو رہی تھی۔ دل ہی دل میں کہنے لگی، اب تارا سنگھ کو ہی دیکھو، اس کا آگا نہ پیچھا۔ بس لے دے کے اس کی ماں ہے تھوڑے دن کی مہمان۔ اسے بھلا کاہے کا فکر؟ زمین ہے۔ ایک کچا مکان۔ تین بیل۔ ایک بھینس اور ایک گائے بھی ہے۔ اسے اپنی اکیلی جان کے لیے یہ کافی سے زیادہ ہے۔ مارے بےفکری کے رانڈ کا سانڈ ہو رہا ہے۔ جب دیکھو مونچھ پہ ہاتھ۔ اتنا لمبا چوڑا جوان ہو کر بچاری کمزور لڑکیوں پر آوازے کستے شرم نہیں آتی۔ میں تو کہوں گی کہ سبھی مرد پرلے درجے کے مغرور، غنڈے اور پاجی ہوتے ہیں۔ جب کبھی پانی کا گھڑا کنویں سے اٹھاکر لاتی ہوں تو کیسی بھدی آواز سے گاتا ہے،

    نکا گھڑا چک لچھیے! تیرے لک نوں جرب نہ آوے 

    نکا گھڑا چک لچھیے!

    باپو کا خیال ہے کہ میں اس سے شادی کر لوں، مگر میں ایسے لفنگے کے ساتھ شادی کروں کیوں؟ مانا کہ پھمن سنگھ کی طرح اس نے دست درازی کبھی نہیں کی۔ مگر اس قسم کے گانے نوجوان لڑکیوں کو سنا سناکر گانا بھی تو بھلے آدمیوں کا کام نہیں۔ اس وقت جیت کور کو رہ رہ کر خیال آتا تھا کہ کاش واہگورو اکال پرکھ اسے طاقت دیتا، وہ ان دل پھینک عاشقوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی۔ چلتے چلتے وہ رک گئی۔ سامنے گنے کے کھیتوں کے پاس ہی ہرا بھرا ساگ کا کھیت تھا لیکن وہ کھیت تھا تارا سنگھ کا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ مویشی باندھنے کا مکان خالی معلوم پڑتا تھا۔ رہٹ چل رہا تھا اور پاس ہی بیل بندھا ہوا تھا۔

    اس نے جب اچھی طرح سے دیکھ لیا کہ نزدیک کوئی نہیں ہے تو چپکے سے کھیت میں سمٹ سمٹا کر بیٹھ گئی اور جلدی جلدی ساگ توڑنے لگی۔ معاً ایک آواز سن کر اس نے سہم کر سر اوپر اٹھایا۔ دیکھا کہ دور گنے کے کھیتوں سے تار و ہاتھ میں پھاوڑا لیے بلند آواز سے گالیاں دیتا چلا آتا ہے۔ اس کے جسم میں سنسنی سی پیدا ہوئی اور وہ ساگ وہیں پھینک کر جلدی جلدی دوسری طرف کو چل دی۔ اتنے میں تار و وہاں پہنچا۔ اس نے توڑا ہوا ساگ ہاتھ میں اٹھا کر دیکھا اور پھر اس کی طرف لپکا۔ ادھر اس کے چھوٹے چھوٹے پھٹے ہوئے سلیپر ہری گھاس پر بار بار پھسلتے تھے۔ یہ دیکھ کر کہ تارو اس کو پکڑا ہی چاہتا ہے، وہ بھاگ کھڑی ہوئی۔ تارو بھی دوڑا۔ مختصر سی دوڑ کے بعد تارو نے اسے جا دبوچا اور اس کی کلائی کو مضبوطی سے پکڑ کر بولا، ’’کیوں ری جیتو! ہم سے یہ چالاکیاں؟ ہر روز تو ہی ساگ چرا کر لے جاتی تھی نا؟ آج میں بھی اسی تاک میں بیٹھا تھا۔‘‘

    جیتو روتے ہوئے اور اس کی آہنی گرفت سے بازو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی، ’’میں تو تیرے کھیت میں پہلے کبھی نہیں آئی۔۔۔ چھوڑو مجھے۔‘‘

    کبھی نہیں آئی تھی۔۔۔‘‘ تارو دانت پیستے ہوئے بولا، ’’چل آج میں تجھے چکھاتا ہوں مزا۔‘‘ تب تارو اسے گھسیٹتا ہوا کچے مکان کی طرف لے گیا اور دروازہ کھول کر اسے زور سے اندر دھکیل دیا۔ وہ بھینس کے اوپر گرنے سے بال بال بچی۔ اس کی ایک چوڑی بھی ٹوٹ گئی۔ چوڑی کو ٹوٹتے دیکھ کر دامنِ صبر اس کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ چیخ کر بولی، ’’تونے میری چوڑی توڑدی۔ میں نے اتنے شوق سے میلے سے لی تھی۔۔۔‘‘ اس کی آواز بھرا گئی اور وہ شکستہ چوڑی کے ٹکڑوں کو دیکھ دیکھ کر آنسو بہانے لگی۔ اب تارو نرم پڑگیا۔ دل میں افسوس بھی پیدا ہوا۔ یکایک اس نے دیکھا کہ چوڑی کا ٹکڑا چبھ جانے سے جیتو کی کلائی سے خون بہہ رہا ہے۔ وہ ایک دم آگے بڑھا، ’’اوہو! جیتو تمہاری کلائی سے خون بہہ رہا ہے۔ لاؤ۔۔۔‘‘

    ’’ہٹ۔‘‘ جیتو نے دو قدم پیچھے ہٹ کر کہا، ’’بدمعاش۔۔۔ کلمونہا۔۔۔ مسٹنڈا۔۔۔‘‘ تارو گالیاں کھا کر خاموش ہو گیا۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ بات کا بتنگڑ بن جائے گا۔ وہ تو دو گھڑی کے لیے جیتو کو پریشان کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ اسے دق کرنے میں اسے مزہ آتا تھا۔ لیکن اس کا یہ منشا ہرگز نہ تھا کہ جیتو کا کوئی نقصان ہو یا وہ اسے کوئی جسمانی ایذا پہنچائے۔ جیتو دیوار کے پاس کھڑی چپکے چپکے رو رہی تھی اور تارو اپنی گردن کھجا رہا تھا۔ اس کے دل میں رحم کے جذبات پیدا ہو چکے تھے۔ مگر وہ ہمدردی کا اظہار نہ کر سکتا تھا۔ دو گھڑی بعد وہ باہر نکل آیا اور دروازہ بند کر کے کھیتوں کی طرف چلا گیا۔

    تھوڑی دیر بعد تارو سرسوں کا عمدہ ساگ لیے صحن میں داخل ہوا۔ جیتو نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کی بھیگی بھیگی لانبی پلکوں کو دیکھ کر تارو کے دل میں ہوک سی اٹھی۔ اس کو اپنی حرکت پر بہت افسوس ہو رہا تھا۔ وہ جھکتا ہوا آگے بڑھا اور ساگ کا گٹھا آگے بڑھاتے ہوئے بولا، ’’جیتو، اب تم گھر جاؤ۔ لو یہ ساگ۔‘‘ جیتو پہلے ہی بھری پڑی تھی۔ اس نے جھپٹ کر ساگ لیا اور الٹا اس کے منہ پر دے مارا۔ تمام ساگ بگھر کر زمین پر گر پڑا اور دوچار پتے تارو کی چھوٹی چھوٹی داڑھی میں پھنس کر رہ گئے۔ تارو منہ سے کچھ نہ بولا اور جھک کر ساگ کو چننا شروع کر دیا۔ جیتو جلدی سے باہر نکل آئی۔ تارو بھی ساگ لیے پیچھے پیچھے لپکا۔ جیتو پانی کی نالی پھاندنے لگی، اس کا ایک پاؤں زمین میں دھنس گیا کیونکہ زمین نمی کی وجہ سے نرم ہو رہی تھی۔ اس نے پاؤں باہر کھینچ لیا لیکن سلیپر پھنسا رہ گیا۔ تارو نے بڑھ کر جلدی سے سلیپر باہر کھینچ لیا اور کہنے لگا، ’’تم ٹھہرو میں ابھی دھوئے دیتا ہوں۔۔۔‘‘

    نالی کے کنارے کپڑے دھونے کی سل پڑی تھی۔ جیتو اس پر منہ پھلا کر بیٹھ گئی اور تارو پانی کی دھارا میں پہلے ساگ دھونے لگا۔ وہ اب کوئی صلح کی گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ دھیمی آواز اور اپنی دانست میں بہت نرم لہجہ میں کہنا شروع کیا، ’’جیتو! یہ بھینس تو اب دو کوڑی کی نہیں رہی۔ تین سیر صرف تین سیر دودھ دیتی ہے۔ بھلا ایسی بھینس رکھنے سے فائدہ۔۔۔؟ ایک بھوری بھینس میری نظر میں ہے۔ کم سے کم سولہ سیر دودھ دینے والی۔ دام زیادہ ہیں۔ مگر کچھ ہرج نہیں۔ مجھے بھینس رکھنے کا بہت شوق ہے۔ میں نے ایک سو پچپن روپے جمع کیے ہیں۔ بڑی مشکل سے، بہت ہی مشکل سے۔ اس بھینس کو ضرور خریدوں گا۔ ایسی مریل بھینس رکھنے سے کیا فائدہ؟ ایسی بھینس۔۔۔‘‘

    تارو کو اپنی باتیں بالکل مہمل سی معلوم ہو رہی تھیں۔ اسے اتنا بھی حوصلہ نہ پڑتا تھا کہ نظر اٹھا کر جیتو کی طرف دیکھ لے۔ اس نے ساگ دھو کر ایک طرف رکھ دیا اور اب ٹوٹا ہوا سلیپر دھونے لگا۔ ایک بات اور سوجھی۔ بولا، ’’اور ہاں تم دریامو کو تو جانتی ہی ہو۔ بہت ہی کھوٹا آدمی ہے۔ ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ چنن کے کان اینٹھ رہا ہے۔ میں نے سبب پوچھا تو کچھ ڈر گیا۔ کہنے لگا کہ اس نے کھیت سے ایک خربوزہ چرایا تھا۔ میں نے چنن کو اس کے ہاتھ سے چھڑایا۔ بچارا چڑیا کی طرح سہما ہوا تھا اور پھر میں نے دو دھپ دریامو کی گردن پر دیے اور کہا کہ ’’تو اتنی سی بات پر لونڈے کو مارے ڈالتا ہے۔ خبردار! جو اسے کبھی ہاتھ بھی لگایا تو۔۔۔ جانتا نہیں چنن کس کا بھائی ہے؟‘‘

    یہ کہہ کر تارو خاموش ہو گیا اور اس نے چپکے سے کنکھیوں سے جیتو کی طرف دیکھا۔ مگر وہ ابھی تک منہ پھلائے خاموشی سے اپنے کبوتروں کے سے سفید سفید پاؤں کو ٹھیکری سے رگڑ رگڑ کر دھو رہی تھی۔ تارو اٹھا اور سلیپر اس کے پاؤں کے پاس رکھ دیے اور ساگ اس کی جھولی میں ڈال دیا۔ وہ بےنیازی سے اٹھی اور اٹھلاتی ہوئی چل دی۔ وہ نزدیکی رستہ سے جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتی تھی کیونکہ اب اندھیرا ہو چلا تھا۔ رستہ خراب تھا۔ کھیتوں میں پانی بھرا تھا اور مینڈھ بہت کم چوڑی تھی۔ جیتو نے سلیپر ہاتھ میں لے کر بجائے مینڈھ کے پانی سے ہو کر جانے کی ٹھانی۔ تارو جلدی سے آگے بڑھا اور اس کا بازو تھام کر بولا، ’’تم سلیپر پہن کر مینڈ ھ سے چلی چلو۔ کیونکہ پانی کے اندر کانٹے دار جھاڑیاں ہیں۔۔۔ میں تمہیں سہارا دیے رہوں گا۔۔۔‘‘

    جیتو نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑا لیا اور کہنے لگی، ’’تم لوگوں کو شرم نہیں آتی۔ تم لوگ ہر کام بری نیت سے کرتے ہو۔ مگر میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ اب تم لوگوں کی اس قسم کی حرکات چپکے سے برداشت نہ کروں گی۔‘‘ یہ ’خراب نیت‘ کے الفاظ سن کر تارو نے اپنی صفائی کرنا چاہی۔ مگر جیتو چمک کر بولی، ’’اور آج میں تمہیں خبردار کیے دیتی ہوں کہ آئندہ مجھے ہاتھ لگانے کی جرأت ہرگز نہ کرنا ورنہ ہاتھ توڑ دوں گی۔‘‘

    تارو نے پہلے اس کے نرم و نازک ننھے منے ہاتھوں کو دیکھا پھر اپنے بھاری بھرکم، میلے کچیلے اور کھردرے ہاتھوں پر نظر ڈالی اور تب اس کے لبوں پر تبسم پیدا ہوا۔ جیتو کو اس کی یہ حرکت دیکھ کر زہر سا چڑھ گیا اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، تڑاق سے سلیپر اس کے منہ پر دے مارا۔

    ’’جیتو!‘‘ تارو معاً شیر کی طرح غصہ میں گرجا۔ لیکن پھر نامعلوم کیا سوچ کر خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر کے لیے دونوں طرف سکوت سا رہا۔ پھر جیتو بے پروائی سے شلوار اٹھا کر پانی میں چل دی۔ سلیپر کی ایک کیل تھوڑی باہر نکلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے تارو کی پیشانی پر خراش آ گئی اور خون بہنے لگا۔ مگر وہ خون سے بے پروا جیتو کے آگے آگے چل رہا تھا۔ راستے میں جو کانٹے دار جھاڑی ہوتی اسے اپنے پھاوڑے کے ایک وار سے اکھاڑ کر جیتو کا راستہ صاف کر دیتا۔ جب یہ پانی کا راستہ ختم ہو گیا تو تارو نے بڑھ کر کانٹے دار جھاڑی میں سے راستہ بنا دیا اور خود ٹھہر گیا۔ جیتو نے ایک لمحہ کے لیے اس کے خون سے تر کرتے کی طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔

    تاریکی میں اس نے گھر کا دروازہ کھولا۔ ایک طرف چراغ جل رہا تھا۔ باپو گنڈاسے سے جوار کاٹنے میں مصروف تھا۔ چنن قینچی سے کاغذ کے پھول بنانے میں مصروف تھا۔ جیتو اندر داخل ہوئی تو باپو نے ایک دفعہ سر اٹھایا اور پھر جھک گیا۔ چنن نے ایک مرتبہ کہا، ’’بہن آ گئی۔‘‘ اور پھر اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ اس نے کونے میں سے کپاس کی سوکھی چھڑیاں اٹھائیں اور انہیں توڑ کر چولہے میں رکھا اور اوپر اپلے رکھ کر آگ جلائی، تب مٹی کی ہنڈیا میں ساگ پکنے کے لیے رکھ دیا۔ باپو آہستہ سے بولا، ’’آج نمبردار اور سپاہی پھر آئے تھے۔‘‘

    وہ سب کچھ سمجھ گئی۔ اس کے ہاتھ رک گئے۔ وہ عالم خیال میں تاریکی کی طرف دیکھنے لگی۔ ان کی بربادی اور تباہی ناچتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ جگ ہنسائی اس کے علاوہ تھی۔ اس نے سرد آہ بھر کر سر جھکا لیا اور کچھ بے چینی سے اٹھی اور آٹا لے کر تنور پر روٹی پکانے چلی گئی۔ روٹی کھاتے وقت باپو نے بتایا کہ سپاہی کہتا تھا کہ اگر پرسوں تک روپے کا انتظام نہ ہو سکا گو گھر کی قرقی کر دی جائے گی۔ انسان پر مصیبت آتی ہے تو ایک نہیں بلکہ سیکڑوں مصائب پے در پے حملہ آور ہو کر انسان کو بے بس و لاچار بنا دیتے ہیں۔

    آج گویا آخری دن تھا۔ باپو صبح سے باہر گیا ہوا دوپہر کو گھر واپس آیا۔ اس کے اداس جھریوں اور چہرے سے صاف عیاں تھا کہ روپے کا بندوبست نہ ہو سکا۔ جیتو کی ماں کا ایک سونے کا زیور بیچا تھا۔ کل بائیس روپے جمع ہوئے تھے۔ باقی ایک سو تیس کہاں سے آئیں گے۔ گھر کے مویشی بیچنے سے کچھ روپیہ مل سکتا تھا مگر انہیں سے تو روزی تھی۔ اگر وہ بک گئے تو گویا دال روٹی سے بھی گئے۔ جیتو دوپہر کا کام ختم کر کے گھر سے باہر تھوڑی دیر تک کھلی ہوا میں کھڑی رہی۔ نمبردار ابھی تک نہ آیا تھا لیکن اسے آنا ضرور تھا اور کل؟ کل تمام دنیا ان کا تماشا دیکھے گی۔

    سامنے سے کالی گھٹا جھوم کر اٹھی اور آسمان پر چھا گئی۔ جیتو گوردوارے کی طرف چل دی۔ یہ چھوٹا سا گوردوارہ گاؤں سے کم و بیش تین فرلانگ کے فاصلے پر تھا۔ عمارت پرانی تھی۔ دو تین کوٹھریاں مسافروں کے واسطے بنی ہوئی تھیں اور ساتھ ہی ایک چھوٹا سا باغ تھا۔ گوردوارے کا کام ایک پرہیزگار اور پاکباز بزرگ کے سپرد تھا۔ جیتو کے باپو کی ان سے گاڑھی چھنتی تھی۔ یہ بزرگ جیتو کو سکھ گوروؤں کی پاک زندگی کے واقعات، ان کی قربانی اور ایثار کی کہانی سنایا کرتے تھے، جس سے جیتو کے دل کو گونہ تسلی ہوتی تھی۔ جب وہ وہاں پہنچی تو معلوم ہوا کہ وہ بزرگ دوسرے گاؤں میں کسی کام کی وجہ سے گئے ہیں۔ اس نے کنوئیں پر اشنان کیا۔ کتاب پاک کے آگے سر جھکایا اور بابا نانک کی درگاہ سے رو رو کر اس مصیبت کے ٹل جانے کی دعائیں کرتی رہی۔ پھر اس نے چنبیلی کے پھول چنے اور چنن کے لیے ہار گوندھنے لگی۔ کیونکہ آج صبح اس نے اس سے ہار کا پکا وعدہ کیا تھا۔ اتنے میں بارش شروع ہو گئی۔ خوب موسلادھار ہوئی۔ آخر جب بارش بند ہو گئی اور وہ بزرگ نہ آئے تو جیتو نے ہار اپنے بالوں کے جوڑے سے لپیٹا اور گاؤں کی طرف چل دی۔

    بادل ابھی تک چھائے ہوئے تھے۔ روشنی آہستہ آہستہ کم ہو رہی تھی۔ وہ ہنوز گھر سے کافی دور تھی کہ اس نے دیکھا کہ ایک سپاہی اور گاؤں کا نمبردار ان کے گھر سے باہر آ رہے ہیں۔ وہ جہاں تھی وہیں کھڑی رہ گئی۔ اس کے پاؤں شل ہوگئے۔ آخر کیا ہوا ہوگا؟ کل۔۔۔ ہاں کل ڈھول پٹ جائے گا۔۔۔ وہ آگے کچھ نہ سوچ سکی۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے گھر کی طرف جانے کے بجائے اور ہی کسی طرف چل دی۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت اس کے بوڑھے دادا کی کیا حالت ہو رہی ہوگی۔ مگر اس کا حوصلہ نہ پڑتا تھا کہ گھر جائے۔ وہ عجب پریشانی میں چلتی گئی کہ نہ معلوم کتنی دور تک۔۔۔ آخر اس کی ٹانگوں نے جواب دے دیا اور وہ وہیں کھیت کے کنارے بیٹھ گئی۔

    ہم دکھ سے اتنا نہیں گھبراتے جتنا کہ دکھ کے تصور سے۔ وہ جانتی تھی کہ اس تکلیف کا سامنا اسے کرنا ہی پڑےگا۔ مگر وہ چاہتی تھی کہ تاریکی چھا جائے اور وہ اندھیرے میں سب کی نظروں سے بچ کر چپکے سے اپنے گھر میں چلی جائے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اپنے گھر کی تصویر آ گئی۔ جہاں اس نے بچپن سے اب تک اپنی زندگی کے دن گزارے تھے اور اب وہ گھر غیروں کا ہونے والا تھا۔ تاریکیاں چھانے لگیں۔ آسمان پر اکا دکا تارا جھلملانے لگا۔ مویشی واپس گاؤں کو جا رہے تھے۔ جوہڑ کے کنارےپیلے پیلے مینڈک ٹرا رہے تھے۔ جھاڑیوں میں ٹڈے اپنی تیز آواز سے بول رہے تھے اور گدھ بیروں پر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔

    جیتو نے سر اٹھایا۔ سامنے دھندلکے میں تارو کا کچا مکان اور رہٹ نظر آ رہا تھا۔ آج تارو کا کنواں دیکھ کر جیتو پر ایک کیفیت سی طاری ہو گئی۔ پچھلا واقعہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا جب کہ وہ ساگ لینے گئی تھی۔ تارو کی بدمزاجی، اس کی چوڑی کا ٹوٹنا، تارو کا پچھتانا اور اسے ساگ لاکر دینا، اس کا سلیپر دھونا پھر ہاتھ لگا دینا، تب سلیپر کھاکر بھی ضبط کرنا، اس کے راستے سے کانٹے صاف کرنا اور اس کی پیشانی سے لہو کا بہنا سب اس کی نظروں کے سامنے پھر گیا۔ وہ سوچنے لگی کہ تارو میں ہزار عیب سہی مگر دل کا برا نہیں اور آج جب کہ اس کا دل اُمڈا آتا تھا وہ چاہتی تھی کہ کوئی اس کی داستانِ غم سنے۔ اگر سننے والا ہمدردی کے کلمات بھی کہہ دے تو اس کے دل کو تسلی ہو جائے مگر ایسا ہمدرد تھا کون۔۔۔؟

    تارو کے کنوئیں پر اس وقت کیسا امن و سکون تھا۔ اس وقت رہٹ کی روں روں اور مویشیوں کی گھنٹیوں کی ٹن ٹن نے کیا عجب سماں باندھ رکھا تھا۔ شرینہہ کے بلند درخت ہوا میں جھوم رہے تھے۔ ہرے بھرے کھیت میں سفید گھوڑی گھاس چر رہی تھی، گنوں کے کھیت کے پاس کتے کھیل رہے تھے۔ کبھی دم ہوا میں اٹھاکر عجب انداز سے چلتے، کبھی غرا کر ایک دوسرے پر لپکتے اور پھر اکٹھے ہوکر نئے کھیل کھیلنے کی تجویزیں سوچنے لگتے۔

    جیتو کو خواہ مخواہ یقین ہونے لگا کہ تارو اس کا دکھڑا ضرور ہمدردی سے سنے گا۔ یہ سوچ کر اس طرح سے وقت بھی کٹ جائےگا اور اس کے دل کا بار بھی ہلکا ہو جائےگا، وہ کنوئیں کی طرف چل دی۔ مدار کے پیڑوں اور کانٹے دار جھاڑیوں میں سے ہوتی ہوئی وہ کنوئیں پر پہنچ گئی۔ ہری ہری گھاس کی سوندھی سوندھی خوشبو آ رہی تھی۔ جیتو نے ادھر ادھر تارو کو دیکھا مگر وہ نظر نہ آیا۔ وہ دروازے کی طرف بڑھی اور کچھ ٹھٹکی۔ ٹھٹک کر بڑھی اور آہستہ سے دستک دی۔

    ’’کون ہے؟‘‘ اندر سے تارو نے کرخت اور تحکمانہ انداز میں پوچھا۔ جیتو خاموش رہی۔

    ’’ارے بھئی کون ہے؟ چلےآؤ دروازہ کھلا ہوا ہے۔‘‘ جیتو نے آہستہ سےدروازہ کھول دیا۔ تارو اسے دیکھتے ہی اچھل پڑا، ’’آؤ جیتو! تم کیسے رستہ بھول پڑیں؟‘‘ اس سے کچھ جواب نہ بن پڑا۔ اس نے تارو کی طرف جو کہ پٹری پر بیٹھا گنا چوس رہا تھا، دبی نظروں سے دیکھا اور آہستہ سے بولی، ’’یونہی ادھر آئی تھی۔ سوچا کہ ماں سے ملتی جاؤں۔‘‘

    ’’ماں؟ ماں تو کنوئیں پر بہت کم آتی ہے۔ آتی بھی ہے تو دن کو۔ اس وقت گھر پر ہی رہتی ہے۔‘‘ وہ جانتی تھی کہ تارو کی ماں کنوئیں پر نہیں رہتی، گاؤں میں رہتی ہے۔ بظاہر وہ واپس جانے کے لیے لوٹی تو تارو نے ڈرتے ڈرتے پیڑھی اپنے تلے سے نکال کر اس کی طرف دھکیل دیا اور جھجکتے ہوئے بولا، ’’جیتو! اب آئی ہو تو بیٹھو۔۔۔ اگر تمہیں جلدی نہ ہو تو بیٹھو۔ ساگ لے جاؤ۔ چنن کے لیے گنے لیتی جانا۔ گنے بہت میٹھے ہیں۔‘‘

    جیتو پیڑھی لے کر تاریک کونے میں بیٹھ گئی۔ تارو شاید دل میں سمجھا ہوگا کہ ساگ اور گنوں کا داؤ چل گیا۔ تارو نے ٹاٹ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا، ’’آج تو بارش اچھی ہو گئی۔ ہوا مزے کی چل رہی ہے۔۔۔ کیا تم شربت پیوگی؟ بہت عمدہ گڑ رکھا ہے۔‘‘

    ’’نہیں، پیاس نہیں اس وقت۔‘‘

    ’’اچھا کچھ ہرج نہیں۔ تم گڑ گھر لے جانا اور کل کو شربت بنا کر دیکھنا۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘

    ’’میں نے چنن سے کہا تھا کہ گنے لے جائے، مگر وہ آج تو آیا نہیں۔ اسے یہاں بھیج دیا کرو۔ رستہ جانتا ہی ہے۔ رس (گنوں کا) پی جایا کرےگا اور یہ ہمارے پچھواڑے پیڑ لگے ہوئے ہیں، لال لال بہت میٹھے۔ میں تو ادھر ادھر کے چھوکروں کو توڑنے نہیں دیتا۔ میں کہتا ہوں کہ چنن آئے تو کھائے۔ آخر بچہ ہے نا، اسے بیر بہت بھاتے ہیں۔ جب ہم تو چھوٹے تھے، یاد ہے نا، ہم بھی تو بیر کے کھانے جایا کرتے تھے۔‘‘

    ’’کیوں تارو! تمہارے گنے تو خوب ہوئے ہیں اب کے۔‘‘ جیتو نے بات کا رخ بدل کر کہا۔

    ’’ہاں سب ’واہگورو اکال پرکھ‘ کی کرپا ہے۔‘‘

    وہ خاموش رہی۔

    ’’کہو تو باہر سے گنا لا دوں۔‘‘

    ’’نہیں تارو میرا جی نہیں چاہتا۔‘‘

    اب پھر کچھ دیر کے لیے خاموشی رہی۔ تارو اس کی خاموشی کا سبب جاننا چاہتا تھا۔ پھر بہت احتیاط سے کہنے لگا، ’’جیتو۔۔۔! مجھے دراصل ڈر لگتا ہے کچھ کہتے ہوئے کہیں تم خفا نہ ہو جاؤ۔۔۔ آخر بتاؤنا تم آج اس قدر خاموش کیوں ہو؟ کیا کوئی خاص بات ہے۔۔۔؟‘‘ یہ ہمدردی کا کلمہ سن کر جیتو کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مگر تاریکی کی وجہ سے تارو انہیں دیکھ نہ سکا۔ لیکن وہ اپنی بھرائی ہوئی آواز کو چھپا نہ سکی، ’’نہیں تارو۔۔۔ تمہیں کیا بتاؤں۔۔۔‘‘

    تارو کے چہرے پر سختی کے آثار پیدا ہو گئے۔ آنکھیں غصہ میں چمکنے لگیں۔ وہ کرخت آواز میں کڑک کر بولا، ’’پھمن سنگھ نے کوئی حرکت تو نہیں کی؟ بتادو جیتو! وہ دیکھ سامنے کرپان لٹکی ہوئی ہے۔ میں نے آج ہی تیز کی ہے۔ میں پھمن کی بابت تھوڑا بہت جانتا ہوں۔ مگر اب اس کی موت دور نہیں۔ یہ کرپان اسی کا خون پینے کے لیے رکھی ہے۔۔۔‘‘

    ’’نہیں تارو۔‘‘ جیتو ہاتھ اٹھا کر بولی، ’’یہ بات نہیں۔ یہ بات بالکل نہیں۔۔۔ میں بتاتی ہوں۔ تم سے کچھ چھپا نہیں۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ۔۔۔‘‘ دروازہ آہستہ سے کھلا۔ تارو چیتے کی طرح چوکنا ہو گیا اور اس کا ہاتھ فوراً پاس پڑی ہوئی کلہاڑی پر جا پڑا۔ جیتو نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔

    ’’کیا میری بہن یہاں ہے؟‘‘ چنن نے آہستہ سے دروازے میں سے سر نکال کر تارو سے پوچھا۔ تارو نے اطمینان کا سانس لیا اور کلہاڑی پیچھے کی طرف سرکا دی۔

    ’’چاند! آ جاؤ۔ میں یہاں ہوں۔‘‘ چنن دوڑ کر آیا اور اپنی بہن کی گود میں چڑھ بیٹھا۔

    ’’ڈھونڈ لیا نا تمہیں؟ میں تمہیں بہت دیر سے ڈھونڈ رہا ہوں۔ پھر میں نے سوچا کہ بہن ضرور ہمارے لیے بیر لینے کے لیے تارو کے کنوئیں پر گئی ہوگی۔‘‘ جیتو اس کی پیشانی سے بال ہٹاتے ہوئے بولی، ’’کیوں رے! تجھے ڈر نہیں لگا اندھیرے میں۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    تارو بولا، ’’واہ! بھلا شیروں کے بچوں کو بھی کبھی ڈر لگا ہے۔‘‘ چنن نے تارو کی طرف مخاطب ہوکر کہا، ’’اچھا تم نے کہا تھا کہ گنے دیں گے۔ لاؤ اب۔۔۔ میں تو بہت سے لوں گا۔‘‘

    ’’آؤ جتنے چاہو لے لو۔‘‘

    ’’اچھا، لاؤ، دو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ گودی سے اترنے لگا۔ مگر پھر رک گیا، ’’ذرا ٹھہرو، ایک بات ہے تمہیں نہیں بتائیں گے۔‘‘ پھر بہن کے کان میں کہنے لگا، ’’بہن ہمیں ایک پیسہ دو۔ تم نے کہا تھا۔‘‘

    ’’گھر پر لینا۔‘‘ چنن شانوں کو ہلا کر ضد سے کہنے لگا، ’’نہیں ابھی دو۔‘‘

    ’’تم بہت اچھے ہو چنن۔‘‘ جیتو نے چمکارتے ہوئے کہا، ’’اس وقت نہیں۔‘‘

    ’’تو تارو سے لے دو۔‘‘

    ’’اس کے پاس بھی نہیں ہے۔‘‘

    ’’ہے کیوں نہیں۔۔۔ آج جب تم باہر چلی گئی تھیں۔ تارو ہمارے گھر آیا اور باپو کو اس نے چھن چھن کرکے بہت سے روپے گن دیے۔۔۔‘‘

    ’’چنن!‘‘ جیتو حیرت سے بولی۔ لیکن چنن اپنی ہی دھن میں تھا، ’’مگر میں تو کہتا ہوں کہ باپو نے بہت برا کیا۔ اس نے شام کو سب روپیہ نمبردار کو دے دیا۔۔۔‘‘ جیتو کی حیرانی کی حد نہ رہی، ’’مگر، یہ تم سے کس نے کہا؟‘‘

    ’’کس نے کہا؟‘‘ چنن چیخ کر بولا، ’’میں نے خود دیکھا۔ اچھا بتاؤ اب میں تارو سے پیسے لے لوں؟‘‘

    ’’تم نے خود دیکھا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموشی سے ہوا میں تاکنے لگی۔ ایک بڑے طوفان اور آندھی کے بعد گویا یکایک بادل پھٹ گئے، ہوا خاموش ہوگئی اور ہر طرف بالکل امن و سکون ہو گیا۔ اس کے دماغ کی پریشانیاں دور ہو گئیں۔ اس کے دل پر سے ایک بوجھ سا ہٹ گیا۔ اس محویت کے عالم میں اسے معلوم ہی نہیں ہوا کہ کب چنن نے تارو سے پیسہ لیا اور کب وہ کنویں پر سے گنے لینے کے لیے باہر دوڑ گیا اور کب تارو اپنی جگہ سے اٹھ کر بھینس کے پاس جا کھڑا ہوا۔ اس راحت آمیز محویت میں جیتو کو تارو کا خیال آیا، وہی دنیا میں اس کا سچا ہمدرد تھا۔ کس قدر نیک۔ اتنی دیر باتیں کرنے کے باوجود اس نے ان روپوں کا اشارتاً بھی ذکر نہیں کیا۔ وہ روپے اس نے کس قدر مصیبتوں سے جمع کیے تھے۔ مگر اس نے اپنی ذاتی خواہش پر اس کی ضرورت کو ترجیح دی۔

    تارو کا خیال آتے ہی اس کی صورت اس کی آنکھوں کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ جب اس نے اس سے کہا تھا کہ وہ ہر کام خراب نیت سے کرتا ہے۔ یہ کیسے بے معنی اور خود غرضانہ الفاظ تھے۔ وہ اس کی زخمی پیشانی، وہ بہتا ہوا خون، وہ اس کا ضبط و تحمل۔ جیتو چونکی اور اس کی آنکھیں تارو کو ڈھونڈنے لگیں جو کہ اس کی طرف پشت کیے بھینس کے پاس کھڑا تھا۔ جیتو اس کے پاس جا کر آہستہ سے بولی، ’’تارو!‘‘

    وہ خاموش رہا۔

    ’’میری طرف دیکھو تارو۔‘‘

    تارو نے دیکھا کہ جیتو کی بڑی بڑی سرمگیں آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے ہیں۔ وہ اپنی بھاری آواز میں بولا، ’’روتی کیوں ہو جیتو۔ میں تو ہر وقت اسی کوشش میں رہتا ہوں کہ تمہارے کام آسکوں، مجھے اس دن کی اپنی حرکت پر بہت افسوس ہے۔‘‘ جیتو نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھ دیا جس جگہ کہ اس کے کمبخت ہاتھوں نے سلیپر مارا تھا۔ پھر دھیرے سے کہنے لگی، ’’تارو اب میں جاتی ہوں۔ میں پھر آؤں گی، اب تم آرام کرو، ہاں۔ میں پھر آؤں گی۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ واپس پیڑھی کے پاس آئی اور سلیپر پہن کر لوٹی تو دیکھا کہ تارو راستہ روکے دروازے کے آگے کھڑا ہے۔ وہ مسکرا کر اپنے کرخت لہجہ میں بولا، ’’جیتو! آج پھر میری نیت خراب ہو رہی ہے۔ آج پھر سزا دے دو۔‘‘ جیتو نے جھینپ کر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ تارو پر ڈالی، پھر جسم چراتی ہوئی اس کی طرف بڑھی، اپنے جوڑے سے چنبیلی کا ہار کھولا اور کچھ مسکرا کر، کچھ لجا کر وہ ہار اس کے گلے میں ڈال دیا۔ تارو نے راستے سے ہٹ کر دروازہ کھول دیا۔

    آگے چنن گنے لیے بھاگا آ رہا تھا۔ جیتو نے گنے تھام لیے اور اسے گود میں اٹھا لیا۔ گوبر اور کیچڑ سے پاؤں بچاتی ہوئی چل دی۔ چنن اس کے گلے کے گرد باہیں حمائل کر کے کہنے لگا، ’’بہن، تارو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ تمہیں کیسا لگتا ہے۔‘‘ جیتو دل ہی دل میں شرما گئی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر کہ کوئی سن تو نہیں رہا، جواب دیا، ’’ہاں چنن! تارو مجھے بھی۔۔۔ تارو بہت اچھا آدمی ہے۔‘‘

    جیتو کو اب بھی تارو کے گانے کی بھاری اور بے سری آواز سنائی دے رہی تھی،

    نکا گھڑا چک لچھیے! تیرے لک نوں جرب نہ آوے

    نکا کھڑا چک لچھیے!


    حاشیہ
    (۱) اے دوشیزہ تو چھوٹا گھڑا اٹھایا کر۔ مجھے خوف ہے کہ تیری نازک کمر میں بل نہ آ جائے۔

    مأخذ:

    بلونت سنگھ کے بہترین افسانے (Pg. 125)

      • ناشر: ساہتیہ اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 1995

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے