aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسکاؤٹ گرل

پرویز شہریار

اسکاؤٹ گرل

پرویز شہریار

MORE BYپرویز شہریار

    میرے ایک سوال کے جواب میں اُس نے بتایا۔

    ’’صاحب،کبھی کبھی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میرے جسم کے حساس حصوں پر گرم گرم انگارے رکھے جارہے ہیں۔ میرے کومل انگوں کو کوئی اپنے چرمی بوٹوں سے کچل رہا ہے۔۔۔میری آنکھوں سے درد کے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں لیکن کلائنٹ کے سامنے ہمیں رونے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ ہم اپنے ہونٹوں پر نا قابلِ برداشت درد کی کراہٹ کے باوجود مسکان سجانے اور سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس جارحانہ عمل سے مردوں کی انا کو تسکین ملتی ہے اور وہ ٹپ کے طور پر ہمیں انعام بھی دیتے ہیں۔‘‘

    ’’تو کیا انعام کے پیسے بھی وہ تم سے لے لیتے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ اُس نے صرف اتنا ہی کہا اور اپنی لمبی لمبی مصنوعی پلکیں جھپکا لیں اور نیچے اپنی اُدھڑتی ہوئی نیل پالش کی طرف دیکھنے لگی۔

    اُس کی گز گز بھر کی گوری گوری ٹانگیں کئی ہفتوں سے ویکسنگ نہ کیے جانے کی وجہ سے ننھے ننھے سنہرے بالوں سے پٹی پڑی تھیں۔ اُس نے سر اٹھایا اور مجھے اپنی بھدّی ٹانگوں پر نظریں جمائے دیکھ کر اُس نے فوراً اپنی دونوں ٹانگیں ترچھی کرکے اپنی طرف سمیٹ لیں۔ اُس کے فربہ بدن سے اُس وقت خوشبوؤں کا ایک ایسا بھپکا اُٹھ رہا تھا جو میری نتھنوں کو اپنی طرف پوری شدت سے مائل کیے ہوئے تھا۔ یہ مہک اس کے جسم کی تھکاوٹ کی وجہ سے تھی یا شاید پسینے یا آنسوؤں کی وجہ سے تھی۔ یا پھر ہارمونل رساؤ کی وجہ سے جو ایک جوان عورت ہی کے جسم سے آسکتی ہے۔ اس میں ڈی او ڈورینٹ اور پرفیوم کی مصنوعی خوشبوئیں بھی شامل ہوگئیں تھی۔ اس کی گہری نیلی بینائیوں کے گرد آنکھوں کے غلافی حصے اُس وقت سُوجھ کے موٹے پھولے ہوئے سے لگ رہے تھے۔

    جُولیہ سے یہ میری دوسری ملاقات تھی۔

    میری پہلی ملاقات اُس سے بڑے ڈرامائی انداز سے ہوئی تھی۔ وہ اسکاؤٹ گرل تھی۔ وہ پیرس کے سب سے مہنگے اور پاش ایریا میں کام کرتی تھی۔ ہو سکتا ہے، اس کا اصلی نام کچھ اور ہو لیکن اُس نے مجھے یہی بتایا تھا ۔میں وثوق سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اُس نے جھوٹ کہا تھا یا سچ کہا تھا۔ لیکن اتنا تو تھا کہ اُس نے خود پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان ہم سے سچ سچ بتادی تھی۔ اُس کی حالت ایک ایسے قیدی کی تھی۔ جسے معلوم تھا کہ اُس سے ہمدردی کرنے والا شخص قید خانے میں ہے اور اب اس سے دوبارہ ملاقات نہیں ہو پائے گی۔

    لیکن جب میں نے ہزاروں روپے خرچ کرکے اُس سے دوبارہ ملاقات کا انتظام کرلیا تو مارے خوشی کے اُس کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔ اُس وقت میں نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ گناہوں کی آلائشوں سے پاک، شہر کی آلودگیوں سے دور کسی ساحلی علاقے کی ریت پر سیپیوں سے کھیلتی ہوئی ایک معصوم بچی وہاں موجود تھی ۔مادہ پرست دُنیا کے مکر وفریب سے پرے ، وہ اپنی آنکھوں میں کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔

    وہاں ایک ایسی لڑکی موجود تھی، جس کا باپ دور سمندر کی ہولناک لہروں سے الجھتا ہوا مچھلیاں پکڑنے گیا ہوا تھا تاکہ اس کے بیوی اور چھوٹے چھوٹے بچے بھوکے نہ رہیں۔

    اُس نے اپنے بارے میں بتایا تھا۔

    اُس کے سات بھائی بہن تھے۔ وہ سب سے بڑی تھی۔ اتنی بڑی کہ اُسے مرد کی محبت کا مطلب سمجھ میں آنے لگا تھا۔ وہ اپنی بالی عمر سے زندگی کی اُس سرحد میں داخل ہوچکی تھی،جہاں لڑکیاں اپنے جسم کے نہاں خانے میں کسی راجکمار کی دستک کا انتظار کرنے لگتی ہیں۔

    تبھی سارکوزی نے آکر اُس کے پھول سے ہونٹوں کو کھیل کھیل میں چٹکیوں سے مسل دیا تھا ۔اُسے بہت ہی اپنائیت کا احساس ہوا تھا۔ وہ اسے اپنا دل دے بیٹھی تھی۔ یہ سب کچھ اتنا آناً فاناً میں ہوا کہ وہ اپنا سب کچھ نچھاور کربیٹھی تھی۔ ایسا کرتے وقت اُس نے ایک پل کو بھی ٹھہر کر اس کے انجام کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ شاید وہ اتنا جاذب نظر تھا۔ اس کی شخصیت اتنی رعب دار تھی کہ اُس کے سفید ہیٹ اور سفید یونیفارم کے آگے وہ بے بس ہوگئی تھی۔ اُس نے بتایا تھا کہ وہ نیوی مرچنٹ ہے۔

    لیکن مسٹر پرویز فریب اتنا دلکش ہوتا ہے۔ اتنا سحر انگیز ہوتا ہے کہ انسان مچھلیوں کی طرح چارے کے اندر پوشیدہ کانٹے کو دیکھ نہیں پاتا۔ وہ اُس وقت تک مجھ سے کسی ضدی بچے کی طرح کھیلتا رہا جب تک کہ اُس کا جی نہیں بھر گیا۔ جب ایک سال کا عرصہ بیت گیا۔ تو وہ ایک دن مجھے میرے ساحلی گاؤں سے نکال کر شہر لے آیا۔ میں اُس وقت پورے پیٹ سے تھی اور کسی بھی وقت بچہ پیدا ہوسکتا تھا۔ میں پیرس کی اجنبی اور انجان گلی کوچوں میں اس کے پیچھے لاچار بھاگتی رہی۔ ایک چیری ٹیبل نرسنگ ہوم میں بچے کی ڈلیوری ہوئی۔ میں نے ایک بیٹے کو جنم دیا تھا۔ میرا بیٹا لوئس جب ایک سال کا ہوگیا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے لگا تبھی سارکوزی نے مجھے اس جہنم کی آگ میں ڈھکیل دیا۔

    تب سے آج تک میں مامتا کی ماری اپنی اولاد کی خاطر مافیاؤں کے ہاتھوں ہر ظلم وستم سہہ رہی ہوں۔ میں حقیقت میں اُن کی غلام بن چکی ہوں اور وہ ہمارے آقا ہیں۔ آج اس واقعے کو پانچ سال بیت چکے ہیں۔ چوبیس گھنٹے ان کی نگاہ مجھ پر رہتی ہے۔ وہ لوگ مجھے اپنے بچے سے ملنے کی اتنی دیر کی مہلت دیتے ہیں۔ جتنی دیر کے لیے تم ہزاروں روپے خرچ کرکے مجھے سے ملنے کی خاطرمیرے پاس آتے ہو۔

    لیکن تمہارے عاشق نے بھلا ایسا کیوں کیا؟

    یہ سچ ہے کہ وہ مجھ سے دوبارہ نہیں ملا۔ اگر مل جاتا تو میں اُس کا خون کر دیتی۔

    وہ مافیا جو اس فلیش ٹریڈ کے ریکٹ کو چلاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا تھا کہ نیوی مرچنٹ تمہارا عاشق نہیں ، وہ در اصل ایک پمپ ہے۔ اُس نے ہم سے پانچ ہزار فرینک لے کر تمہیں بیچ دیا تھا۔ تم ہمارے لیے انڈے دینے والی صرف ایک مرغی بھر ہو۔ کھاؤ پیو اور انڈے دیتی رہو۔ اس سے زیادہ کی سوچنا بھی مت ورنہ تمہارے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جائے گا ۔تمہارا چہرے جل کر اتنا خوفناک ہوجائے گا کہ اسے دیکھ کر تمہارا بیٹا بھی ڈر کے مارے بھاگ کھڑا ہوگا۔ تم اتنی بد صورت ہو جاؤگی کہ خود اپنی شکل آئینے میں دیکھنے کی ہمت نہیں جُٹا پاؤگی۔ تمہارے لیے بس یہی اچھا ہے کہ انڈے دیتی رہو اور ہمارے دھندے کے بیچ میں اپنی ٹانگیں مت اڑاؤ۔ ہمارے راستے میں جو بھی آئے گا،اس کااتنی آسانی سے صفایا ہوجائے گا کہ تم کبھی سوچ بھی نہیں سکتی۔ ہم انٹر نیشنل لیول پر کام کرتے ہیں۔ دُنیا کے کسی بھی مُلک کی پولیس ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ ہمارے اس کام میں بڑے بڑے ڈپلومیٹ اور پالیٹے شین بھی شامل ہیں۔

    ’’جولیہ‘‘ میں نے اُسے پورے اعتماد میں لے کر کہا: ’’تم ان کی باتوں سے ذرا بھی مت گھبرانا۔ وہ سب تمہیں ڈرانا چاہتے ہیں۔ تم بے خوف رہنا۔میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم بہت جلد ان کے چنگل سے آزاد ہوجاؤگی۔ تمہیں تمہارا اپنا بیٹا بھی مل جائے گا۔ بس تم صرف اتنا کرو کہ میرے موبائل میں کچھ ویڈیو رکارڈنگ ہیں۔ اسے کسی اندھیرے گوشے میں لے جاکر دیکھو اور بتاؤ کہ ریکٹ کا سرغنہ فلپس ان میں سے کون ہے؟ کیا وہ ان ویڈیو میں موجود ہے؟

    جولیہ کو حالات نے سب کچھ سیکھا دیا تھا۔ اُس نے سی سی ٹی کیمرے کے دائر �ۂ کار سے بچا کر موبائل آن کیا اور دور سے ہی اثبات میں سر ہلادیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فلپس کو ٹیپ کرنا اب بہت آسان ہوگیا تھا۔ میں نے ایمنسٹی انٹر نیشنل کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ برانچ کے ایک جری آفیسر کو اُس جگہ کے بارے میں کچھ سراغ دے دیا تھا ،جہاں بہت ہی ٹاپ ماڈل کی آڑ میں جسم فروشی کا دھندہ کافی وسیع پیمانے پر اور بڑے زور وشور سے چل رہا تھا۔

    پیرس کے ا یفل ٹاور سے نیچے اُترنے کے بعد میں نے سیٹھ گردھاری پٹیل کو ایک ہوٹل میں ڈراپ کرکے تھکا ہوا لوٹ رہا تھا۔ شب کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ تبھی اچانک ایک ماڈل میرے سامنے زمین پر گرے اپنے پرس کو اُٹھانے کے لیے جھکی تھی اور جوں ہی میں نے اس کی پرس اُٹھانے میں مدد کرنے کی کوشش کی۔ اُس نے بہت ہی شہوت انگیز اشارے کرتے ہوئے اپنی انگلی کے گرد اپنے سرخ ہونٹوں کا حلقہ بناکر خشکی دور کرنے کے لیے زبان پھیر ی تھی۔

    ایسا کرتے وقت اس کی نظریں مجھ پر سے ایک ساعت کے لیے بھی نہیں ہٹی تھیں۔ میرے بدن میں سہرن سے دوڑ گئی۔

    میں رُکا اور اُسے دیکھتا رہ گیا۔

    اُس نے بڑے معنی خیز انداز سے مجھے آنکھ مارتے ہوئے دریافت کیا۔ ’’اسکاؤٹ ؟‘‘

    میں نے بھی کچھ سمجھے بغیر کہہ دیا۔

    ’’ہاں! اسکاؤٹ‘‘

    اُس نے تحکمانہ انداز میں کہا۔’’میرے ساتھ ساتھ چلتے رہو۔‘‘

    ایک اندھیری گلی میں مڑتے ہی وہاں لمبی کار ہمارا انتظار کر رہی تھی۔

    اُس نے ایک عالی شان کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔

    ’’بیس ہزار‘‘

    میں نے گردھاری پٹیل کو فون پر ساری بات مختصراً بتادی۔ اُس نے کہا ’’پندرہ ہزار‘‘میں نے بھی کہہ دیا۔

    ’’پندرہ ہزار‘‘

    ’’چلے گا۔ لیکن یہ بتاؤ کہ تم فون پر کس سے باتیں کر رہے ہو؟‘‘

    ’’سیٹھ گردھاری پٹیل ۔ میرا کلائنٹ‘‘

    ’’تم میرے کلائنٹ ہو اور وہ تمہارا کلائنٹ، کیسے؟‘‘

    ’’میں ایک انٹر پریٹر ہوں۔ سیٹھ فرانسیسی زبان نہیں جانتا ہے ۔لیکن اس کے پاس مال ہے، بہت سارا مال جس طرح تمہارے پاس مال ہے۔ تم دونوں مالا مال ہو۔ قدرت نے تمہیں حسن کی دولت دی ہے اور سیٹھ کو روپوں کی دولت دی ہے۔ تم دونوں اپنا کام کرو۔ میں کرتا ہوں آرام..... ‘‘

    جولیا نے باہر آکر خوش رنگ لباس زیب تن کرنے کے بعد اپنے گہری تراش کے گریبان کو درست کرتے ہوئے کہا۔’’ میں تو کسی مجبوری کے تحت یہ کام کرتی ہوں لیکن یہ سب تم کس لیے کرتے ہو؟‘‘

    ’’میں پاپی پیٹ کے لیے کرتا ہوں۔‘‘ میں نے اپنے پیٹ کی طرف ہاتھوں کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اُس کے چہرے سے لگا کہ وہ کچھ سمجھی نہیں یا اگر سمجھ گئی ہے تو کچھ بتانا چاہتی ہے، لیکن بتا نہیں پا رہی ہے۔

    میں نے سوالیہ نگاہوں سے اُسے دیکھا اور ہاتھوں کے اشارے سے پوچھا۔’’ کیا معاملہ ہے؟‘‘

    اتنا دریافت کرتے ہی اُس کی آنکھیں ڈبڈباگئیں۔ وہ ضبط نہ کر سکی اور زارو وقطار آنسو جاری ہوگئے۔ یہ منظر دیکھ کر میرا دل پسیج گیا۔ میں اس کے قریب کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔

    اُس کے منھ سے پہلا جملہ نکلا۔

    ’’میرا ایک معصوم بچہ ہے۔ جسے ظالموں نے مجھ سے دور کسی جگہ قید کر رکھا ہے۔ اُس کے عوض یہ لوگ مجھ سے یہ گناہوں کا دھندہ کرواتے ہیں۔ میں یہ سب اپنی خوشی سے نہیں کرتی ہوں۔ میری روح کو ہر روز کوئی نہ کوئی نیا زخم دے جاتا ہے۔ آج تم نہیں ملتے تو کوئی دوسرا مرد مجھے اپنے پیروں تلے روند جاتا ۔تم مجھے شریف آدمی معلوم ہوتے ہو، اس لیے میں تم سے اپنی بات بتا رہی ہوں کہ شاید تم میری کچھ مدد کرسکو۔میں اندر سے بالکل ٹوٹ چکی ہوں۔‘‘

    آغاز میں مجھے یہ سب من گھڑت کہانی معلوم ہوئی۔

    لیکن تبھی ہماری موجودگی میں تین دبنگ قسم کے غنڈے آئے اور اُ سے کسی گذشتہ کلائنٹ کی شکایت کی وجہ سے ڈانٹنا شروع کردیا۔ اس کے جواب دینے پر بڑی درشتی سے ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’ہم سے زبان لڑاتی ہے‘‘۔ ایک موٹی سی دل خراش گالی دی اور طمانچوں سے اُس کا منھ لال کر دیا۔ وہ سر سے پاؤں تک ڈر سے کانپ رہی تھی۔

    سیٹھ نا جانے کب باتھ روم میں گھس گیا تھا۔ وہ شور کم ہوتے ہی نکل کر مجھے گھسٹتا ہوا وہاں سے باہر لے آیا۔ اُس ملاقات میں میں بھی مجبور تھا۔ باہر جاتے جاتے میں اُسے صرف مڑ مڑ کر بے بسی سے دیکھتا رہ گیا تھا۔

    وقت گذرتا رہا۔ مجھے لگا تھا کہ اس سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوپائے گی۔ میں سیاحوں کو لے کر جب بھی فرانس جاتا، پیرس کے اُس ماڈرن بازارِ حُسن میں ضرور جاتا، مبادہ جولیہ سے ملاقات ہوجائے۔

    وہ اسکاؤٹ گرل تھی۔

    میں اپنے دل ہی دل میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سوئے اتفاق سے کسی نے مجھ سے آکر کہا،’’ اسکاؤٹ گرل؟‘‘

    میں نے کہا۔ ’’ہاں!‘‘

    وہ مجھے لے کر ایک دیوار کی آڑ میں لے گیا ،جہاں اندھیرے میں کچھ لڑکیاں کلائنٹ کا انتظار کر رہی تھیں۔ چند لڑکیوں کے ساتھ وہاں جولیہ بھی کھڑی تھی ۔اُ س نے مجھے شاید نہیں پہچانا تھا۔ یا شاید پہچان ظاہر کرنا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے اُس کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’بیس ہزار‘‘

    میں نے کہا۔ ’’چلے گا۔‘‘

    عالی شان عمارت کے ویسے ہی کسی کمرے میں ہم دونوں کو قسمت نے ایک بار پھر آمنے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔آج کوئی سیٹھ میرے ساتھ نہیں تھا۔

    جولیہ میرے سامنے مادرزاد برہنہ کھڑی تھی۔

    میں اس کی طرف اپنی پیٹھ کرکے کھڑا ہوگیا۔ میں نے کہا۔ ’’جولیہ! میں تمہیں اس کام سے آزاد کرانے آیا ہوں۔ جاؤ اور جاکر اپنا تن کپڑے سے ڈھانپ لو۔‘‘وہ مڑی تو مجھے آئینے میں دیکھ کر جے پور کے شاہی میوزیم میں رکھاآدم قد گلدان کا اُبھار یاد آگیا۔

    اُس نے کچھ اس انداز سے اپنی بڑی بڑی اداس آنکھوں سے میری طرف دیکھا جیسے میری باتوں کا اسے یقین نہ ہو۔

    ’’کاش! میں تمہاری باتوں پر یقین کرپاتی!‘‘

    ’’تم سے پہلے بھی کئی دیوانے یہ بات کہہ چکے ہیں۔ ٹامس نے میری خاطر اپنی جان جوکھم میں ڈال لی تھی۔ وہ فلپس کے گرگوں سے بھڑ گیا تھا لیکن آخر کار اسے اپنے اس دیوانے پن کی ضِد چھوڑنی پڑی۔ اُسے فلپس کے غنڈوں نے بری طرح زود وکوب کر کے شہر سے دور کسی ویرانے میں پھینک آئے تھے۔‘‘

    ’’جولیہ! میں کچھ نہیں جانتا۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ تم مظلوم ہو اور مظلوم کی مدد کرنا میرا فرض ہے۔‘‘

    ’’تم جانتے ہو، اس کا انجام؟‘‘

    جولیہ نے اپنا لباس زیب تن کرنے کے بعد اس کی آخری زپ کھینچ کر بند کرتے ہوئے میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ اُس کے لہجے میں قطعیت تھی اور اپنی نظروں کے ترازو پر رکھ کر دل کے کانٹے سے وہ میرے ارادے میں کتنا وزن ہے، اُسے ٹٹول رہی تھی۔‘‘

    ’’ہاں!میں خوب جانتا ہوں ۔ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ ‘‘میں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

    ’’اگر اتنے دیوانے ہو تو آؤ میرے ساتھ۔۔۔اس تاریک گوشے میں چلو۔۔۔‘‘

    میرے قدموں میں سبک سی لغزش ہوئی تھی لیکن پھر مجھے خود پر نا جانے کہاں سے ایک غیر معمولی اعتمادآگیا۔ میں حیران تھا کہ وہ مجھے تاریک گوشے میں کیوں لے جارہی ہے۔ اس نے اپنے پیڈیڈ براکے نچلے سرے سے اپنی لانبی لانبی انگلیوں کے خوبصورتی سے تراشے ہوئے ناخنوں کی مدد سے ایک پرچی نکالی اور اپنے سرخ گلوس ہونٹوں کو میرے کانوں کے نزدیک لاکر سرگوشی کی تو ایک سنسنی سی میرے پورے جسم میں دوڑ گئی۔ ریڈ یو ٹیکسی کے بل کی پشت پر اس فلیش ٹریڈ کے سرغنہ کا نام و پتہ آئی لائنر سے لکھا ہوا تھا۔

    تبھی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور ایک زوردار آواز کے ساتھ دروازہ پوری طرح کُھل گیا تو جولیہ نے اپنی حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے پیوستہ ہونٹوں کو مجھ سے الگ کرتے ہوئے بڑے ہرجائی پن سے میرے ہونٹوں پر لگی لپ اسٹک صاف کرلینے کا اشارہ کیا۔

    ’’بس بس! اب ٹائم ختم ہوگیا۔‘‘ سامنے فلپس کے گرگے کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک نے بڑے تحکمانہ لہجے میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

    اس قلیل ملاقات نے میرے سینے میں ایک ہلچل سی پیدا کر دی تھی۔

    مجھے اس بار پیرس میں ایک ہفتہ قیام کرناتھا۔ جولیہ نے جب سے مجھے سرغنہ کے نام کی پرچی دی تھی، تب سے میں ایک پل بھی چین سے نہیں بیٹھا تھا اور میرا دماغ مسلسل اس کی رہائی کے منصوبے بنا رہا تھا۔ خیالوں ہی خیالوں میں اسے کئی بار رہا بھی کرا چکا تھا۔ لیکن شیخ چلّی کی طرح خیالی پلاؤ پکانے اور عملی کار روائی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ سوچ سوچ کر میرا ذہن ماؤف ہوتا جارہاتھا۔

    چار دن بیت چکے تھے۔

    بات ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھی تھی۔ میں نے قصداًجولیہ سے ملنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ لیکن اس دوران ہر شام دیر رات تک اس کے علاقے میں کسی نہ کسی بہانے سے میں نے نگاہ رکھی ہوئی تھی۔ میرے لیے ایک حیرانی کی بات یہ تھی کہ اس دوران جولیہ کا کوئی اتہ پتہ نہ تھا۔ کئی بار میرے ذہن میں خیال آیا۔ مبادا راز فاش نہ ہوگیا ہو ؟ سرغنہ کو خبر ہوتے ہی اس نے اسے نظر بند کر دیا ہوگا۔اسی قسم کے بیہودہ اور فضول خیالات نے مجھے پریشان کر رکھا تھا۔

    ایک شام میں بازار حسن کے اس سنسان علاقے سے بھاری قدموں کے ساتھ لوٹ رہا تھا کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ اس فون پر ہونے والے گفتگو کے دوران میرے باس (Boss)کومیری باتوں سے میری ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا نے میں ذرا بھی دیر نہ لگی۔ جب سیٹھ گردھاری پٹیل نے وجہ دریافت کی تو میں خود کو روک نہیں سکا اور اُس سرغنے کا نام وپتہ نوٹ کرادیا ۔

    ’’سیٹھ جی ! ‘‘ میں نے بڑی خوداعتمادی کے ساتھ کہا۔’’ویسے تو میرے آہنی ارادے سے مجھے کوئی بھی ہٹا نہیں سکتا۔‘‘

    پھر تھوڑے توقف کے بعد میں نے کہا۔’’لیکن اگر خدا نخواستہ کوئی بات ہوجائے تو یہ نام اور پتہ یاد رکھیے گا۔ یہی وہ سرغنہ ہے جو فلیش ٹریڈ کا انٹرنیشنل ریکٹ چلا رہا ہے۔ یہ ایک زاؤنسٹ ہے اور بظاہر بنی اسرائیل کے قوم کا مذہبی پیشواہے لیکن ہر وقت عورت ہی اس کا اوڑھنا اور عورت ہی اس کا بچھونا رہتی ہے۔ وہ کروٹ کروٹ حسیناؤں کے گداز بدن کے لمس کا شیدائی ہے۔ ہمہ وقت ہیروئن کی تسکری میں اس نے بے حساب دولت کمالی ہے اور دنیا کے ہر ملک میں اس کے گرگے دن رات چوبیس گھنٹے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ‘‘

    دفعتاً میرے فون میں گھڑ گھڑاہٹ ہونے لگی اور کچھ فضول سی آوازوں کے بعد فون بند ہوگیا۔

    ایک گھنٹہ بھی نہیں گذرا تھا کہ میرے پاس فون آگیا۔

    ’’آپ جو کوئی بھی ہوں اور جہاں بھی ہیں۔ اپنی جگہ سے ہلنا نہیں، آپ سے جلد ہی کوئی ملاقات کرے گا۔ ‘‘آواز میں کڑک تھی اور ایسی رعب دار آواز کہ میں سوچنے پر مجبور ہوگیا۔

    ’’یا الٰہی ماجرہ کیا؟‘‘

    کہیں جولیہ کے سر غنہ کو نہ معلوم چل گیا ہو۔میں اسی تشویش میں مبتلا ہو کر موبائل فون کو فلپ کے اندر ڈال کر اپنی جیب میں رکھ کر ہوٹل کے سنسان کمرے میں بیٹھا ہی تھا کہ تیزی سے دستک ہوئی۔

    ’’کون؟‘‘

    میں نے ہوٹل کا اسٹووارڈ سمجھ کر اندر ہی سے کہہ دیا۔ ’’دروازہ کھلا ہے اندر آجاؤ؟‘‘

    دروازہ کھلا۔ ایک پُر اسرار شخص اندر داخل ہوا۔ اُس نے مصافحہ کے لیے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔

    ’’میں انٹر پول پولیس کا رسکیوآفیسر ہوں۔‘‘

    آپ کو یہ جان کریقیناًخوشی ہوگی کہ آپ نے انجانے میں ایک انتہائی سنگین مسئلہ حل کر نے میں ہماری مدد کی ہے۔ انڈیا میں آپ نے فون کرکے جس کی تفصیلات دی ہے۔ وہ ایک انٹر نیشنل ہیومن ٹریفکنگ کی ریکٹ کا سرغنہ ہے۔ ہماری ٹیم اس نام کے ہر فون کو کمپیوٹر کے ذریعے ٹیپ کر رہی ہے۔ اگر آپ کا بتایا ہوا پتہ صحیح نکلا تو کئی بڑے جرائم پر انکوش لگانے میں ہم کامیاب ہوجائیں گے۔ آپ اسی وقت اپنا سامان وغیرہ جو کچھ بھی ہے، سب یہیں چھوڑ کر فوراً ہمارے ساتھ چلیں کیوں کہ اب آپ کی جان کو یہاں خطرہ ہے۔‘‘

    اُس رات ،انٹر پول پولیس کے ہیڈ کوارٹر میں مجھے رسکیو ٹیم کے مزید دو افسران سے ملایا گیا۔ ان میں سے ایک سیاہ فام شخص تو نائجیریائی تھا لیکن دوسرا شخص انڈین سردار یعنی سکھ تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے قدرے راحت محسوس ہوئی۔ اس کے بائیں گال پر داڑھیوں سے ڈھنکا ہوا ایک مسّہ تھا۔

    ملاقات کے بعد مجھے ایک کمرے میں کھانے اور سونے کے لیے بھیج دیا گیا۔

    میں رات بھر یہ سوچتا رہا کہ ہو نہ ہو وہ مسّہ والا سردار میری یونیورسٹی کا ترلوچن سنگھ ہی ہے۔ ترلوچن ہمارے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے جھیلم ہوسٹل میں میرے دو چار کمرے کے بعد والے کمرے میں سیکنڈ فلور پر رہتا تھا۔ ہم سب میس میں ایک ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے اور اس دوران گپ شپ بھی مارا کرتے تھے۔ وہ انڈین پولیس سروس کی تیاری کر رہا تھا جس کا امتحان یونین پبلک سروس کمیشن (UPSC) کنڈکٹ کیا کرتی تھی۔ پھر ایک روز اچانک پتہ چلا کہ ترلوچن کا سلیکشن را ء یعنی ریسرچ اینڈ انا لیسس ونگ میں ہوگیا ہے۔ یہ ایک خفیہ شعبہ تھا ۔ لہٰذا اُس نے کسی کو نہیں بتایا اور چپکے سے ایک دن انڈر گراؤنڈ ہوگیا تھا۔ اس کے بائیں گال پر بڑا سا مسّہ تھا جس کی نسبت سے ہم سبھی دوست یار پیار سے اسے ’’مسخرہ‘‘ کہا کرتے تھے۔

    آدھی رات گذر جانے کے بعداُسی مسّے والے سردار نے مجھے میس ہال سے باہر مردانہ واش روم میں لے جاکر سر گوشی میں بتایا:

    ’’ تو اپنا پرویز خان ہے نا جھیلم ہوسٹل والا ؟‘‘

    میں یہ سُن کر ایک دم سے دنگ رہ گیا۔ میرے منھ سے حیرت سے نکلا۔

    ’’ترلوچن؟ مسخرہ؟‘‘ وہ ہنس پڑا اور ہاں میں سر ہلاتا ہوا منھ سے کچھ نہ بولا۔

    ’’ تو اورانٹر پول پولیس میں؟ یہ سب کب اور کیسے ہوا؟‘‘اُس نے آنکھوں سے اشارہ کیا کہ سی سی ٹی کیمرے میں ہماری باتیں بھی ریکارڈ ہو رہی ہیں۔

    میں خاموش ہوگیا۔

    مجھے اندر سے ایک انجانی سی خوشی محسوس ہورہی تھی۔ قدرت کا میں شکر ادا کر رہا تھا۔ ایک مثبت توانائی میرے پورے رگ وپے میں دوڑ گئی تھی۔

    دوسرے دن، رات کے چار بجے اچانک دروازے پر دست ہوئی اور میں ہڑ بڑا کر بستر سے اُٹھ گیا۔ تر لوچن نے بتایا کہ دبش دی جا چکی ہے اور سارے گینگ کو سرغنہ سمیت حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے تھمس اپ کا خفیف کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’جولیہ نیچے HSBCکے اے ٹی ایم پرتمہار انتظار کر رہی ہے اور ہاں اسے دیکھ کر چکرانا نہیں وہ سر سے پاؤں تک سیاہ برقعے میں ملبوس ہے۔‘‘

    اس کی اردو دانی کا آج بھی میں قائل تھا۔ اُس کی یہی اردو فارسی کی تعلیم نے اسے راء جیسے خفیہ محکمے میں آسانیاں فراہم کرادی تھیں۔

    لیکن یہ سب کچھ اتنا آناً فاناً میں ہوا کہ میرے حواس باختہ ہوکر رہ گئے تھے۔میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ سب مسائل اتنی آسانی سے حل ہوجائیں گے۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ جب کوئی بات بننا ہو تو راستے خود بخود ہمواراور ماحول خودبخود سازگار ہو تے چلے جاتے ہیں۔میرے مولا نے میرے دل کی فریادسن لی تھی۔

    اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق جب میں HSBCکے اے ٹی ایم بوتھ پر پہنچا تو ترلوچن سنگھ کی پلاننگ دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ چند ہی سیکنڈ کے بعد ایک چمچماتی ہوئی ٹیکسی سے ایک لمبی تڑنگی سی نقاب پوش خاتون نکلی جو اپنے حلیے اور لگیج وغیرہ سے بیرونی سیاح معلوم ہوتی تھی۔ اے ٹی ایم میں اپنے کلاچر(Clucher)لے کر داخل ہونے والی خاتون کوئی اور نہیں بلکہ یہ جولیہ تھی۔

    تبھی جولیہ نے بتایا ۔’’ فرانسیسی حکومت کے حجاب پر پابندی لگانے کے خلاف مسلم خواتین کا کل ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ تھا۔ نقاب پوش خواتین وزیر اعظم کے نئے قانون نافذ کرنے کے خلاف نعرے بلند کر رہی تھیں، ان کا قافلہ ہماری اسٹریٹ سے ہوتا ہوا شاہی ایوان کو جا رہا تھا۔ تبھی انٹر پول کے افسران نے مقامی پولیس کے ساتھ ایک دم سے ہمارے اڈّے پر دھاوا بول دیا۔اس کے ساتھ ہی ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔ تبھی ایک انڈین افسر مجھے نقاب پہنا کر وہاں سے باہر نکال لایا اور یہ اسی انڈین افسر نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اس اے ۔ٹی۔ایم پرر ات کے چار بجے کسی سیلانی کے بھیس میں ٹیکسی سے آکرتمہارا انتظار کروں۔‘‘

    میرے دریافت کرنے پر اُس نے بتایا تھا۔

    ’’آپ کی رہائی جس شخص کی وجہ سے ممکن ہو پائی ہے، وہ کوئی اور نہیں میرا یونیورسٹی کا ساتھی ہے‘‘۔۔۔یہ کہتے کہتے میں نے دیکھا اس پولیس افسر کی آنکھیں پل بھر کو نم ہوگئی تھیں اور آواز میں ہلکی سی کپکپاہٹ در آئی تھی۔ اُس نے خود کو سنبھالااور اپنے جذبات کو قابو میں کرتے ہوئے کہا۔

    ’’آپ مجھے نہیں جانتی۔ لیکن میں سب جانتا ہوں۔ وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔

    اور...ہاں! وہ میرا یار ہے پرویزخان، وہ ایک سچا مسلمان ہے۔ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔وہ اپنی جان کی بازی لگا سکتا ہے،تمہاری حفاظت کی خاطر----- وہ اپنا دم تو توڑ سکتا ہے لیکن اپنا وعدہ نہیں توڑ سکتا۔۔۔۔‘‘یہ کہتے ہوئے جولیہ نے اپنے رُخ سے نقاب اُٹھایا تو اُس کی آنکھوں کی عجیب دل کو چیر دینے والی کیفیت سے متاثر ہوکر میں نے اس کے سر کو اپنے کندھوں کا سہارا دے دیا۔

    لیکن یہ کیا------ میں حیران تھا کہ جولیہ جیسی پختہ ارادے والی لڑکی بھی کبھی گریہ کر سکتی ہے!

    جلتی ہوئی مومی شمع کی ماننداُس کی سرخ ڈورے پڑی آنکھوں سے گرم گرم آنسو نکل کر میرے ہاتھوں پر ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ اُس دم مجھے ایسامحسوس ہوا گویا جولیہ کے قلب کا صیقل ہوگیا ہو اور آنکھوں کے رستے برسوں کی جمی ہوئی حالات کے جبر کی آلودگیاں دُھل دُھل کر باہرنکل آئی ہوں۔

    یکایک، جذبات سے مغلوب ہو کر وہ میرے قدموں پر جھک سی گئی اور کہنے لگی:

    ’’آپ نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔میری یہ زندگی آپ کا قرض ہے جسے میں کبھی اتار نہ سکوں گی۔‘‘

    میں نے فوراً اسے دونوں بازؤں سے تھام کر اوپر اٹھا لیا۔

    ’’ارے، ارے، آپ یہ کیا کر رہی ہیں؟ آپ کا مقام یہ نہیں ہے۔ بلکہ مجھے تو ابھی ایک اور قرض اتارنا ہے۔ ‘‘ میں نے اس کی حیران آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔

    ’’جب تک تمہیں تمہارہ بیٹا واپس نہیں مل جاتا..... میں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔یہ میرا وعدہ ہے!‘‘

    وہ مجھے اپنی شبنمی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔ اس کی شکرگذار آنکھوں میں نمی تھی۔ اُس وقت مجھے اُن آنکھوں میں مریم کی سی ازلی تقدیس دکھائی دے رہی تھی۔

    جب میں نے جولیہ کویہ یقین دلایا کہ ترلوچن اپنا دوست ہے۔ اُس کے بیٹے کی بازیافت میں وہ ہماری ضرور مدد کرے گا اورجب تک اس کا پانچ سالہ بیٹا نہیں مل جاتا تب تک کے لیے میں نے انڈیا جانے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔‘‘ .....یہ سنتے ہی اس کے اداس ہونٹوں پر مسکراہٹ کی ایک سبک سی کرن دوڑ گئی ۔

    اس کے بعد ہمارے درمیان خاموشی نے کچھ لمحے کے لیے اپنے پنکھ پھیلادیئے۔ وہ اپنے مستقبل کے خواب سنجونے میں کچھ دیر کے لیے کہیں گم ہوگئی تھی ----- تھوڑے توقف کے بعد میں نے اپنا ارادہ ظاہر کیاتو وہ ایک دم خوشی سے اچھل پڑی۔

    ’’جولیہ! میں تمہارہ وہ ساحلی گاؤں دیکھنا چاہتا ہوں، جہاں تمہاری زندگی میں شباب کی کلیوں نے پہلے پہل مہکنا سیکھا تھا، جہاں تمہارے دل نے اول اول گنگنانا سیکھا تھا..... اور جہاں تمہارے پھول ہونٹوں نے سب سے پہلے مسکرانا سیکھا تھا۔تم دیکھاؤگی نہ مجھے وہ سب... میں تمہارہ وہ الھڑپن پھر سے دیکھنا چاہتا ہوں؟ ‘‘

    میں نے جب اپنی نرم نظروں سے اسے دیکھا تو محسوس ہوا جیسے دور بہت دور کہیں بادلوں کی چھاؤں میں کوئی بیج انکورنے کے لیے بھربھری مٹی کو ہٹا کرنمودار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔

    ’’آؤ! ہم چلیں اُس گاؤں کی طرف---- !‘‘

    یہ سنتے ہی معاً جولیہ کے اندر کوئی ہرنی سی کلانچیں بھرنے لگی ۔ اُس نے حوا کی ازلی معصومیت کے ساتھ بڑھ کے میرا ہاتھ تھام لیااور قدم سے قدم ملا کر چلنے لگی۔

    ’’لیکن، یہ کیا؟‘‘

    میں نے اس کے سیاہ نقاب والے لباس کی طرف دیکھ کے اس کے بارے میں دریافت کیا تو اس کا جواب سن کر بالکل دنگ رہ گیا۔

    اس نے کالے رنگ کے سلکی نقاب کے دامن کو بڑے شوق سے اپنے دونوں ہاتھوں سے دیکھا تے ہوئے کہا۔

    ’’یہ محض ایک لباس نہیں۔ بلکہ میری عزتِ نفس کا ایک حصہ ہے۔ کل اِسے پہننے کے بعد پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ اب تک میرا بدن ہی نہیں بلکہ روح بھی ننگی تھی۔اسے پہننے کے بعد مجھے پہلی بار محسوس ہواہے ،گویا میں کسی سلطنت کی ملکہ ہوں۔‘‘

    اس نے تھوڑے توقف کے بعد مصمم ارادے کے ساتھ کہا۔

    ’’اب میں اسے کبھی اپنے تن سے جدا نہیں کروں گی۔میں ہمیشہ حجاب استعمال کروں گی۔اسے زیبِ تن کرنے کے بعد ہی مجھے ایک خاص قسم کے تحفظ احساس ہوا ہے۔تم مرد ایسی باتوں کو کبھی محسوس نہیں کر سکوگے۔‘‘

    میں نے اسے بتایا کہ پروفیٹ محمدؐ نے طلوعِ اسلام کے وقت ایمان لانے والی عورتوں سے یوں ہی نہیں کہا ہوگا کہ ----------

    ’’جب تم اپنے گھروں سے باہر نکلو تو اپنے جسم پر کوئی ردا ڈال لیا کرو تاکہ تم میں اور بازارکی دوسری عورتوں میں لوگ فرق کر سکیں۔‘‘

    میری بات سن کے جولیہ استعجاب سے مسکرائی اور پھر رخ پر حجاب ڈال کر میرے ہمراہ چل پڑی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے