Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سیکنڈ ہینڈ

ویکوم محمد بشیر

سیکنڈ ہینڈ

ویکوم محمد بشیر

MORE BYویکوم محمد بشیر

    غصہ میں بھری ہوئی، بال بکھرائے شاردا، آج تانڈو ناچ کے موڈ میں تھی۔

    ’’تم تو جانتی ہونا شاردے۔۔۔ آج مجھے کتنا ضروری کام ہے! کل اخبار نکلنے کا دن ہے نا۔۔۔! تو بھئی اگر کھانا تیار ہو تب مجھے جلدی سے دے دو۔۔۔‘‘ نامہ نگار گوپی ناتھ نے بڑی نرمی سے کہا۔‘‘

    ’’کھانا۔۔۔؟‘‘ شاردا نے تیز آواز میں کہا۔

    ’’میں بہت بیزار ہو چکی ہوں کھانا بنانے سے۔ میرادل آج بالکل نہیں چاہتا کہ کچھ پکاؤں۔ جی چاہے تو خود ہی کچھ بناکر کھا لو۔‘‘

    شاردا کو گوپی ناتھ سے کبھی بھی محبت نہیں تھی۔ اس نے شادی سے پہلے بھی کہہ دیا تھا کہ میرے دل میں محبت ہی نہیں ہے۔ اس لیے میں کسی سے محبت نہیں کر سکتی۔

    گوپی ناتھ نے شاردا سے آج تک کچھ نہیں کہا۔ کبھی کسی پیار بھرے رومانی نام کے ساتھ اسے چوماتک نہیں۔

    گوپی ناتھ نے کہا۔

    ’’میں یہ فضول باتیں بہت دن سے سن رہا ہوں۔ میں نے تمہاری مرضی کے خلاف تو کچھ نہیں کیا نا۔۔۔؟‘‘

    ’’تم نے مجھ سے شادی کیوں کی۔۔۔؟‘‘ اس نے بڑے غرور سے چھاتی تان کرپوچھا۔۔۔

    گوپی ناتھ ایک دم چونک پڑا۔

    ’’تم نے شادی کیوں کی تھی۔۔۔؟‘‘ گوپی ناتھ نے پوچھا۔

    ’’یہ سب پوچھنے سے اب کیافائدہ۔۔۔؟‘‘ شاردا کی نظر کھڑکی سے گلی میں بھٹک گئی۔

    تیز ہوا سے مینہ کی بوندیں کمرے میں آنے لگیں۔

    ’’دیکھتے نہیں پانی اندر آ رہا ہے۔ تمہارے بھیگنے سے تو کچھ نہیں ہوگا، لیکن کمرہ بند ہوا جا رہا ہے۔‘‘ شاردا نے کہا۔

    گوپی ناتھ نے کھڑکی بند کی۔ وہ شاردا کے پاس آ گیا۔

    شاردا کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں میں بجلی کا عکس جھلملا رہا تھا۔ ’’مر جاتی تو اچھا ہوتا۔‘‘ اس نے سینہ کوٹتے ہوئے کہا۔

    گوپی ناتھ نے شاردا کے ہاتھ پکڑ لیے۔

    ’’مجھے مت چھوؤ۔۔۔ میں تو ایک گندی چیزہوں نا؟‘‘ اس نے چلاکر کہا۔

    گوپی ناتھ نے اس کا منھ بند کرنے کی کوشش کی۔

    ’’میں مرجاؤں گی۔۔۔‘‘ شاردا نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور دیوار سے اپنا سر ٹکرانے لگی۔ غصے کے مارے خود ہی اپنی ساڑی پھاڑ ڈالی۔

    ’’مجھے ایسی نفرت انگیز زندگی کیوں ملی۔۔۔؟‘‘ بے دلی سے اپنے ہاتھوں کے کنگن توڑکر اس نے پھینک دیے اور دوسرے کمرے میں جاکر پلنگ پر گر پڑی۔۔۔ زور زور سے سسکیاں لینے لگی۔

    گوپی ناتھ فکرمند ہوکر کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔ وہ باربار سوچ رہا تھا کہ اس نے شاردا سے کچھ بھی تونہیں کہا، پھر بھی وہ ناراض ہی رہتی ہے۔ عورت ذات بھی عجیب و غریب ہستی ہوتی ہے۔

    گوپی ناتھ کے دل میں زندگی سے نفرت کرنے کا خیال شروع ہی ہوا تھا کہ شاردا سے اس کی ملاقات ہو گئی۔ اس زمانے میں اس کی حالت ایسی تھی جیسے تپتے ریگستان میں بھٹکنے والے کسی راہی کی ہوتی ہے۔

    وہ عورت کو ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا تالاب سمجھتا تھا۔ کوئی عورت نظر آجاتی تو جیسے اس کی روح کو سکون مل جاتا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ کسی کی محبت بھری چھاتی سے لپٹ کر میٹھی میٹھی باتیں کرے۔۔۔ مگر کس سے؟

    ان ہی دنوں میں ایک عجیب وغریب ڈھنگ سے شاردا اس کی زندگی میں داخل ہو گئی۔۔۔ وہ بھی بھری برسات کی رات بھی۔۔۔ اخبار کے آفس سے گوپی ناتھ گھر آیا تو دیکھا کہ کوئی دروازے پر کھڑا ہے۔ جب وہ قریب آیا تو دیکھا کہ وہ ایک عورت ہے۔ اس وقت تک گوپی ناتھ شاردا کو نہیں جانتا تھا۔

    پہلے تو شاردا نے گوپی ناتھ کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔

    برسات کی ٹھنڈی ہوا میں کانپتی ہوئی اس عورت سے گوپی ناتھ نے کہاکہ وہ اندر آ جائے۔

    مگرا س نے گوپی ناتھ کی بات ان سنی کر دی اور خاموش کھڑی رہی۔

    ’’تمہارا باہر کھڑا رہنا اچھا نہیں ہے۔ اندر آکر بیٹھونا۔‘‘

    گوپی ناتھ نے کہا۔

    وہ دروازے کی طرف آئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک اٹیچی تھی۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور گالوں پر اب بھی آنسوؤں کی نمی تھی۔

    وہ چوڑے کنارے کی سفید ساری اور کالا بلاؤز پہنے تھی۔ اندر آکر وہ گوپی ناتھ کی طرف یوں دیکھنے لگی جیسے کوئی گائے شیر کی طرف دیکھتی ہے۔

    گوپی ناتھ نے اسے اطمینان دلاتے ہوئے کہا۔

    ’’ڈرو مت اندر آکر بیٹھو۔‘‘

    جب وہ اندر آ گئی تو گوپی ناتھ نے دروازہ بند کر لیا۔

    ’’تمہیں کہاں جانا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’۔۔۔‘‘

    ’’دوسرے کمرے میں جاکر گیلے کپڑے بدل لو۔ میں یہاں اکیلا رہتا تھا۔ مجھ سے بالکل مت ڈرنا۔۔۔ میں تمہارا بھائی ہوں۔۔۔ باپ ہوں۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ آگے بات کہتے کہتے وہ رک گیا۔

    اس نے کہا میرے پاس بدلنے کے لیے کپڑے نہیں ہیں۔

    دنیا کی جھنکار جیسی مدھر آواز سن کر گوپی ناتھ پگھل گیا۔

    اس نے اپنے بکس میں سے دھلے کپڑے نکال کر دیے۔

    وہ دوسرے کمرے میں جاکر کپڑے بدل آئی۔

    ’’تم نے کھانا وانا بھی کھایا ہے یانہیں۔۔۔؟‘‘ گوپی ناتھ نے پوچھا۔

    ’’مجھے کچھ نہیں چاہئے۔‘‘ آہستہ سے کہا۔

    ’’لیکن تم میری مہمان ہو۔۔۔ اس لیے ایک کپ چائے تو پینا ہی پڑےگی۔‘‘

    یہ کہتے ہوئے گوپی ناتھ مسکرانے لگا۔

    وہ چپ چاپ بیٹھی رہی۔

    گوپی ناتھ نے اپنا تعارف خود ہی کروا دیا۔۔۔ ’’میر ا نام گوپی ناتھ ہے۔ ایک معمولی سے اخبار کا ایڈیٹر ہوں اور تمہارا نام کیا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’شاردا‘‘ وہ مترنم آوازم یں بولی۔

    گوپی ناتھ چائے بنانے کے لیے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔

    دونوں کھڑکیوں پر ساڑی، بلاؤز، بریسریر اور اسکرٹ سوکھ رہے تھے۔

    گوپی ناتھ کے ہاں پہلی بارعورت کی خوشبوپھیل رہی تھی۔ اس کے دل سے، خوشبو کی لہرسی اٹھی۔۔۔ وہ اپنے آپ کو روک نہ سکا۔ چھپ کر اس نے ساڑی کو چوم لیا اور پھر بریسریر کو بھی۔۔۔

    پھر اسٹو جلاکر چائے بنائی اور دو گلاسوں میں لے کر شاردا کے پاس پہنچا تو وہ میز پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔

    شاردا کے چہرے پر تھکن کے آثار تھے۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ چائے پینے لگے۔

    ’’ہاں۔۔۔ میں کرسی پر سو جاؤں گی۔‘‘ شاردا نے کہا۔

    ’’نہیں نہیں۔۔۔ دوسرے کمرے میں جاکر دروازہ بند کرکے سو جاؤ۔ اس کرسی پر میں سو جاؤں گا۔۔۔‘‘

    شاردا نے کوئی عذر نہیں کیا اور اندر سے دروازہ بند کرکے کمرے میں لیٹ گئی۔

    گوپی ناتھ کو نیند نہیں آئی۔ وہ بہت سی باتیں سوچتا رہا کہ یہ کون ہے۔ کہاں سے بھٹک کر آئی ہے۔ کیوں رو رہی ہے؟

    اس نے کئی سگریٹ سلگائے اور کافی رات گئے سویا۔

    صبح باہر کے کمرے میں ٹہلنے کی آواز سن کر شاردا نے دروازہ کھولا۔

    گوپی ناتھ نے صبح بخیر کہا۔

    اس نے بھی جواب میں کہا۔۔۔ ’’صبح بخیر۔‘‘

    ’’نیند تو اچھی طرح آئی نا۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔‘‘

    ’’نہاؤں گی؟‘‘

    گوپی ناتھ نے صابن، تیل، منجن اور تولیہ وغیرہ دے کر باتھ روم بتا دیا۔ اس کے بعد وہ تھرماس میں کافی اور ناشتہ خرید کر لے آیا۔

    شاردا نہاکر نکلی۔ گوپی ناتھ بھی نہایا۔ پھر دونوں نے کافی پی۔ اب گوپی ناتھ نے ذرا غور سے شاردا کا چہرہ دیکھا۔ اس کے منہ پر نقاہت سی تھی۔

    گوپی ناتھ آفس جانے کے لیے تیار ہوا۔

    اس نے سفید کوٹ، قمیض اور بھورے رنگ کے جوتے پہننے۔ اس کے بعد اس نے شاردا سے پوچھا۔۔۔ ’’تم کہاں جا رہی ہو۔۔۔؟‘‘

    شاردا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

    ’’روتی کیوں ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’یو ں ہی‘‘ اس نے نظریں نیچی کرکے جواب دیا۔

    ’’کل رات کہاں سے آئی تھیں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاسپٹل سے۔‘‘

    ’’نرس ہو۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘

    ’’ڈاکٹر۔۔۔؟‘‘

    ’’پڑھ رہی ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’کوئی کام کرتی ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’گھر کہاں ہے۔۔۔؟‘‘

    شاردا نے گاؤں کا نام بتا دیا۔ ’’ستر میل کی دوری پر ہے۔‘‘

    ’’وہاں کیا کرتی تھیں۔۔۔؟‘‘

    ’’پڑھتی تھی۔‘‘

    ’’کس کلاس میں۔۔۔؟‘‘

    ’’بی۔ اے۔ میں۔‘‘

    ’ماں باپ ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’جی ہاں۔۔۔‘‘

    ’’تمہارے والد کیا کام کرتے ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہائی اسکول کے ہیڈماسٹر ہیں۔۔۔‘‘

    ’’گھر سے جھگڑا کرکے چلی آئی ہو کیا۔۔۔؟‘‘

    شاردا چپ رہی۔

    ’گھر واپس جانا چاہتی ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘

    ’’پھر کہاں جاؤگی۔۔۔؟‘‘

    ’’مجھے کچھ نہیں معلوم۔۔۔ جانے کی کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔۔۔‘‘

    گوپی ناتھ حیران تھا۔ یہ تو شاید بالکل پاگل ہے۔ مگر ایسا نہیں لگتا۔ وہ بڑی دیر تک سوچتا رہا۔ اس نے آگے کے بارے میں سوچا۔ جیسے ایک بہت بڑے ہجوم کے سامنے تقریر کرنے سے پہلے آدمی گھبراتا ہے۔ وہی حال گوپی ناتھ کا اس وقت تھا۔

    ’’میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔۔۔!‘‘ گوپی ناتھ نے کہا۔

    ’’ہماری ملاقات گزشتہ رات پہلی بار ہوئی ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے بالکل ناواقف ہیں۔ تمہارے ماں باپ ہیں۔ گھر بار ہے۔ مگر تم کہتی ہوکہ تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ مجھے نہیں معلوم اور نہ میں تمہارے بارے معلوم کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ میں تو صرف یہی چاہتا ہوں کہ آئندہ زندگی ہم ساتھ گزاریں گے۔‘‘

    کچھ دیر دونوں خاموش رہے۔ پھر شاردا بولی۔

    ’’میں کیسے رہوں گی۔۔۔؟‘‘

    یہ سن کر گوپی ناتھ خوش ہو گیا۔۔۔ ’’میری بیوی بن کر۔ میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں۔ آج ہی تم سے شادی کرنے کو تیار ہوں۔‘‘

    ’’شادی۔۔۔؟‘‘ وہ چونک پڑی۔

    ’’ہاں۔۔۔ میں تم سے پیار کرتا ہوں۔‘‘

    پلک جھپکائے بغیر شاردا گوپی ناتھ کی آنکھوں میں دیکھے گئی۔

    ’’آپ کتنے اچھے آدمی ہیں۔۔۔‘‘ وہ اداس لہجہ میں بولی۔

    ’’میں آپ کی زندگی سے ناطہ جوڑوں! میں کتنی نیچ ہوں۔۔۔ شاید آپ نہیں جانتے۔‘‘

    ’’تو میں بھی کوئی مہاتما نہیں ہوں۔‘‘

    ’’میں آپ کو دھوکہ دینا نہیں چاہتی۔‘‘

    ’’کیسا دھوکا۔۔۔؟‘‘

    ’’آپ مجھے نہیں جانتے۔‘‘

    ’’عورت اور مرد ہمیشہ آپس میں اجنبی ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے اندرسب کیسے جھانک سکتے ہیں۔ میں روح کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ صرف اتنا جانتا ہوں کہ آنکھیں روح کا دروازہ ہیں۔۔۔ اور میں اس میں سے ایک خوبصورت پیکر کا دیدار کرتا ہوں۔ اس سے میں اتنا پیار کرتا ہوں۔ جتنا اپنے آپ سے بھی نہیں کرتا۔۔۔‘‘ گوپی ناتھ جذبات میں بہے جا رہا تھا۔۔۔

    ’’میں ایک بہت بری عورت ہوں۔۔۔‘‘ شاردا سسکنے لگی۔

    گوپی ناتھ قہقہہ مار کے ہنس پڑا۔

    ’’تم کیسے بری ہو گئیں۔۔۔؟ کیا تمہارے جسم پر میل لگ گیا ہے؟‘‘

    ’’تھوڑی دیر کے تعارف ہی سے آپ کہتے ہیں کہ۔۔۔ میں تجھ سے پیار کرتا ہوں۔ آپ مجھ سے شادی تک کرنے کو تیار ہیں۔

    لیکن میرا دنیامیں کوئی نہیں ہے۔ کیا آپ یہ عدہ بھی کرتے ہیں کہ مجھے سب کچھ دیں گے۔؟‘‘

    ’’چھی! کیسی باتیں کرتی ہو۔۔۔ میں ہر طرح سے تیار ہوں۔۔۔‘‘

    ’’پھر بھی۔۔۔‘‘

    ’’یہ پھر بھی کیا چیزہے۔۔۔؟‘‘

    ’’میری بیتی زندگی۔؟‘‘

    ’’اوہ۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔‘’ گوپی ناتھ نے کہا۔۔۔ ’’میرے ماضی میں بھی بہت سے اتار چڑھاؤ ہیں۔ مگر ہم دونوں پچھلی باتوں کو چھوڑ دیں گے اور موجودہ پیار سے آنے والی زندگی کو خوشگوار بنا دیں گے۔‘‘

    ’’آپ کچھ نہیں جانتے۔‘‘ وہ دانتوں سے ہونٹ کاٹتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر روپڑی اور پھر روتے ہوئے بولی۔

    ’’میں نے ہسپتال میں ایک بچے کو جنم دیا ہے۔‘‘

    پھر دونوں چپ ہو گئے۔۔۔ بہت دیر کے بعد گوپی ناتھ نے پوچھا۔

    ’’بچہ کہاں ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’مر گیا۔۔۔‘‘

    ’’اور شوہر۔۔۔؟‘‘

    ’’میری شادی نہیں ہوئی۔‘‘

    ’’بچے کا باپ۔۔۔؟‘‘

    ’’میرا کلاس فیلو۔۔۔‘‘

    ’’وہ کہاں ہے۔۔۔‘‘

    ’’آنرز میں پڑھ رہے ہیں۔‘‘

    ’’پھر۔۔۔؟‘‘

    ’’اسے اپنے مستقبل کے بارے میں طے کرنا ہے۔ اس نے مجھے بتا دیا تھا۔‘‘

    ’’مستقبل۔۔۔! کیسا مستقبل۔۔۔؟‘‘

    ’’وہ شاعر ہیں۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ گذشتہ ہفتے سے ان کا امتحان شروع ہوا ہے۔ پاس ہونے پر کالج ہی میں کام ملےگا۔‘‘

    ’’اس شاعر کا نام کیا ہے۔۔۔؟‘‘

    شاردا نے نام بتا دیا۔

    ’’بڑے اصول پرست ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔‘‘ شاردا نے کہا، ’’میں ان کی نظمیں پڑھا کرتی تھی۔ ان ہی دنوں وہ ہاسٹل کے سامنے کرایے کے مکان میں رہنے لگا۔ سب سے پہلے ایک کتاب کے لیے میں نے ایک چٹھی بھیجی تھی۔ اس طرح ہم دونوں کا تعارف ہوا۔ ہماری آپس میں خط و کتابت ہونے لگی۔ میری سہیلیوں نے مجھے آگاہ کیا کہ وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔ مگر اس کی نظمیں اتنی رومانی تھیں کہ میں نے اس پر اعتبار کر لیا۔ ہم دونوں نے بہت سے وعدے کیے۔۔۔ آموں کے گھنے باغوں سے گزر کر وہ رات کو ہاسٹل کی دیوار پھلانگ کر میرے کمرے میں آیا کرتا تھا۔۔۔ میں نے بہت چھپانا چاہا مگر میری سہیلیاں سب سے کہتی پھریں۔ گھرآئی تو وہاں بھی یہ بات پھیل گئی۔ اس لیے میں نے گھر چھوڑ دیا۔

    ہاسٹل ہی میرا ایک محفوظ سہارا تھا۔ میں نے انہیں کئی خط لکھے۔۔۔ آخرکار ان کی ایک سطر والی بے نام کی ایک چھٹی ملی۔۔۔ لکھا تھا۔۔۔ ’’مجھے اپنے مستقبل کو دیکھنا ہے۔۔۔‘‘

    ’’میرے پاس پیسے نہیں تھے۔۔۔ پرسوں رات ہاسپٹل ہی میں، میں نے مرنا چاہا۔ کھڑکی سے باہر کودنے لگی تو پولیس کی سیٹی سنائی دی۔۔۔ میں ڈر گئی۔۔۔ پھر میں نے زہر پینے کا ارادہ کیا مگر پی نہ سکی۔ ہاسپٹل سے باہر آ گئی۔ بارش کی پروا کیے بغیر چلتی رہی۔۔۔ دوپہر سے شام ہو گئی۔۔۔ مگر جب اور چلنے کی ہمت نہ رہی تو۔۔۔ یہاں آپ کے پاس۔۔۔‘‘

    ’’بس اتنی سی بات۔۔۔؟‘‘ گوپی ناتھ نے کہا۔۔۔ ’’یہ کوئی بات نہیں ہے۔ زندگی رونے کے لیے نہیں ہے۔۔۔ تم سے ایک غلطی ہو گئی ہے۔ اکثر ناسمجھ کنواری لڑکیوں کو ایسا دھوکا دیا جاتا ہے۔ عورت اور مرددونوں ہی قصوروار ہیں اس بات کے لیے۔۔۔ مگرا ب پرانی باتوں پر سوچنے سے کیا فائدہ۔۔۔ میں جاکر تمہارے لیے کپڑے لے آؤں۔۔۔؟‘‘

    ’’کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’میری بیوی بن کر رہوگی تو کپڑوں کی ضرورت نہیں پڑےگی کیا۔۔۔؟ میرے کپڑے کب تک پہنے رہوگی۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں یہ شادی ٹھیک نہیں رہےگی۔ آپ کے ماں باپ کیا کہیں گے؟ آپ کے دوستوں کو یہ رشتہ پسند نہیں آئےگا۔‘‘

    ’’لیکن شادی تو مجھے کرنا ہے۔۔۔ والدین میں صرف میری ماں ہے اور میری ماں نے بھی میری مرضی کے خلاف اپنی دوسری شادی کر لی ہے۔ بھائی کوئی نہیں۔۔۔ ایک بہن ہے اس کی شادی ہو چکی ہے۔۔۔ اب میں اکیلا ہوں۔‘‘ گوپی ناتھ نے بتایا۔

    ’’ہاں میرے پاس روپیہ پیسہ کچھ نہیں ہے۔۔۔ میں نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم پائی ہے۔

    میری ساری دولت یہ اخبار ہے، جس کا ایڈیٹر بھی ہوں، منیجر بھی اور چپراسی بھی ہوں۔ سب کچھ میں خود ہی ہوں۔ اس لئے بیچ میں رکاوٹ ڈالنے والا اور کوئی نہیں ہے۔‘‘

    ’’لیکن میرے دل میں اب محبت باقی نہیں رہی۔۔۔ میں کسی سے پیار نہیں کر سکتی۔۔۔‘‘ شاردا نے کہا۔

    ’’شاردا تم مجھ پر اعتبار تو کر سکتی ہونا؟‘‘ گوپی ناتھ کی اس بات پر شاردا نے روتے ہوئے خاموشی سے اقرار کر لیا۔

    رجسٹرار کے آفس جاکر وہ دونوں میاں بیوی بن گئے۔ انہوں نے اپنا ایک ساتھ فوٹو کھنچوایا اور اسے اپنے اخبار میں چھپوا دیا۔

    اس اخبار کی ایک کاپی شاردا کے باپ کو بھیجی اور ایک کاپی اس شاعر کو بھیجی۔

    شاردا کے ماں باپ ان دونوں کو مبارکباد دینے آئے۔

    ایک ادبی جلسے میں گوپی ناتھ تقریر کرنے گیا تو وہاں اس نے کرسی صدارت پر اس شاعر کو بیٹھے دیکھا۔ تقریر ختم ہونے کے بعد پھولوں کے ہاروں کا ڈھیر لیتے ہوئے شاعر نے بڑی اداس مسکراہٹ کے ساتھ گوپی سے پوچھا۔

    ’’ایڈیٹر صاحب کی شادی تو غالباً ابھی حال ہی میں ہوئی ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔۔۔‘‘ گوپی ناتھ نے کہا۔

    ’’اس عورت کو آپ پہلے سے جانتے تھے۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’اس کے کئی محبت نامے ایک آدمی کے پاس ہیں۔‘‘

    ’’ہاں یہ بات مجھے شاردا نے بتائی ہے۔‘‘

    ’’شادی سے پہلے بچہ ہونے کی بات بھی بتا دی ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ اس نے سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘

    ’’اور اس نے یہ بھی کہا ہوگا کہ وہ ایک ’’سیکنڈ ہینڈ‘‘ مال ہے۔۔۔ کیوں۔۔۔؟‘‘ وہ شاعر ہنسنے لگا۔ گوپی ناتھ بھی مسکرایا۔

    ’’ہاں۔۔۔ شاردا نے یہ بات بھی کہی تھی اور اس دھوکا دینے والے شاعر کا نام بھی بتایا ہے۔۔۔‘‘

    شاعر کا چہرا سیاہ پڑ گیا۔۔۔ اور گوپی ناتھ نے ہنستے ہوئے اجازت چاہی۔

    اس شاعر نے ملاقات کا حال گوپی ناتھ سے شاردا کو نہیں سنایا کیونکہ وہ ہر طرح شاردا کو خوش رکھنا چاہتا تھا۔۔۔ شاردا کو کوئی تکلیف نہیں تھی۔۔۔ وہ خوش تھی۔

    گھر کے کام کاج میں، کھانا بنانے میں اور اخبار میں لپیٹ کر گوپی ناتھ کاٹفن تیار کرنے میں وہ بڑی سگھڑ تھی۔۔۔ مگر ان سب کاموں کو کرتے وقت بھی یہ خیال ہر وقت اس کے دل میں رہتا تھا کہ اس کے دل میں محبت نہیں ہے۔ وہ کسی کو پیار نہیں کرتی۔

    بارش اور ہوا کے شور میں گوپی ناتھ کو شاردا کی کہی ہوئی یہ باتیں یاد آئیں۔۔۔ اب وہ مجھ سے پوچھتی ہے کہ مجھ سے بیاہ کیوں کیا۔۔۔

    گوپی ناتھ چھتری لے کر شاردا سے بات کرنے کے لیے کمرے میں آیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ گوپی ناتھ کا جی چاہا اسے اٹھاکر پیار کرے۔ مگر شاردا اسے پیار نہیں کرتی۔۔۔ یہ بات یاد آئی تو وہ رک گیا۔

    ’’پریس ہو آؤں۔۔۔؟‘‘ اس نے کہا۔

    ’’تم واپس آؤگے تو میں یہاں نہیں ہوں گی۔‘‘ شاردا نے روتے ہوئے کہا۔

    ’’کہاں جاؤگی۔۔۔؟‘‘

    ’’کہیں بھی۔۔۔‘‘

    ’’یہاں کیا دکھ ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’دکھ۔۔۔‘‘ شاردا کادل کانپ گیا۔۔۔ ’’کچھ نہیں۔‘‘

    وہ چھاتی پیٹنے لگی۔۔۔ گوپی ناتھ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

    ’’مجھے مت چھوؤ۔۔۔ میں ناپاک ہوں۔ بہت خرا ب ہوں۔‘‘

    ’’ناپاک ہو۔۔۔ تم کیا کہہ رہی ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔۔۔ مجھے مر جانے دو۔۔۔‘‘

    ’’تمہیں کیا دکھ ہے شاردا۔۔۔ تم کیوں مرنا چاہتی ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’افوہ۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔‘‘ وہ گہرے دکھ بھرے لہجے میں بولی۔

    ’’مجھ سے یہ نفرت انگیز زندگی نہیں سہی جاتی۔‘‘

    ’’تمہاری زندگی کوکس نے نفرت انگیز کر دیا ہے۔؟‘‘ گوپی ناتھ نے پوچھا۔

    ’’آپ نے۔۔۔‘‘

    ’’میں نے۔۔۔؟‘‘ اور گوپی ناتھ پھر کچھ نہ کہہ سکا۔

    ’’ہاں آپ نے۔۔۔‘‘ اس نے روتے ہوئے کہا۔

    ’’کیا آپ مجھے پسند کرتے ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’میں۔۔۔؟‘‘ گوپی ناتھ نے حیرانی سے کہا۔۔۔ ’’تم تو مجھ سے نفرت کرتی ہو۔‘‘

    ’’میں۔۔۔؟‘‘ ناقابل برداشت غم سے شاردا گوپی ناتھ کی چھاتی میں منہ چھپاکر سسکیاں لینے لگی۔۔۔’’میں۔۔۔میں آپ کو۔۔۔اپنی جان۔۔۔ سے۔۔۔ زیادہ۔۔۔‘‘

    مأخذ:

    ملیالم افسانے (Pg. 34)

      • ناشر: نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1972

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے