Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سہرا

MORE BYخدیجہ مستور

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسی بیوہ عورت کی کہانی، جو شب و روز محنت کرکے اپنے بچوں کو کامیاب بناتی ہے۔ بیٹیوں کی شادی کے بعد وہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ تنہا رہ جاتی ہے۔ جب اس کا بڑا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ چلا جاتا ہے اور شادی کرکے وہیں اپنا گھر بسا لیتا ہے۔ ماں یہ سوچ کر پریشان ہوتی ہے کہ اگر چھوٹا بیٹا بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت چلا گیا تو وہ تو بالکل تنہا رہ جائیگی ۔ لیکن چھوٹا بیٹا ایسا نہیں کرتا، وہ اپنی ماں کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی ماں کے ساتھ سایے کی طرح رہتا ہے، حتیٰ کہ اپنی ماں کے ساتھ ہی سوتا بھی ہے۔ اپنی محبت کی تقسیم کے ڈر سے وہ اپنی شادی سے بھی انکار کر دیتا ہے لیکن ماں نے اس کی شادی کرادی اور وہ سہاگ رات کو بھی اپنی ماں کے کمرے میں ہی سوتا ہے۔

    کل ساجد میاں کا نکاح تھا مگر خوشی کے بجائے ان کے چہرے پر وحشت برس رہی تھی، وہ اپنی دونوں بہنوں سے بار بار کہہ رہے تھے، ’’ارے بڑی بجیا آپ اچھی طرح سن لیں، میرا بستر ہمیشہ کی طرح اماں بی کے کمرے میں بچھا رہےگا، اسے کوئی نہیں ہٹائےگا اور آپ بھی سن لیں چھوٹی بجیا، اب آپ میرا بستر اٹھوانےکی بات نہیں کریں گی، کیا سمجھیں آپ؟‘‘

    ’’تو کیا تم اب بھی دودھ کی بوتل نہیں بھولے؟‘‘ چھوٹی بجیا کی کترنی جیسی زبان چلتی اور وہ زور زور سے قہقہے لگانے لگتی اور ساجد میاں دانت پیس کر رہ جاتے، گھر میں ایسی دھماچوکڑی مچی تھی کہ کوئی کسی کی بات نہ سمجھ رہا تھا نہ سن رہا تھا، رشتے ناطے کی بھاوجوں اور خاندان کی ڈھیروں لڑکیوں کا جمگھٹ ڈھول پیٹ پیٹ کر گائے چلے جا رہا تھا، ’’پڑھ کے الحمد جو چہرے پہ سجایا سہرا۔۔۔‘‘ اپنا سہرا سن سن کر بھی ساجد میاں کی آنکھوں کی وحشت کم نہ ہوئی، ایسا لگتا کہ سہرا گلاب کے پھولوں کے بجائے کانٹوں سے گوندھا گیا ہے اور وہ کانٹے ان کی آنکھوں میں چبھ رہے ہیں، موٹی موٹی بادامی پتلیوں والی بےچین آنکھیں گھوم پھر کر اپنی اماں بی کو دیکھے جا رہی تھیں، وہ تھکی ہوئی، نڈھال، لٹا لٹا سا چہرہ، پیرں پر لحاف ڈالے اپنے بستر پر بیٹھی تھیں مگر جب لڑکیاں لہک کر گاتیں، ’’دوڑ کر سہرے کی اماں نے بلائیں لے لیں۔۔۔، ارے اماں نے بلائیں لے لیں۔۔۔‘‘ تو ان کے بچے کھچے ہلتے ہوئے دانت سہرے کی لڑی کی طرح ہونٹوں پر بکھر جاتے۔

    ’’میں کتنی بار کہوں کہ اب آپ تھک گئی ہیں، ذرا دیر کو سو جائیے، میں بھی لیٹا جاتا ہوں۔‘‘ ساجد میاں اپنے بستر پر بیٹھ کر جوتوں کی ڈوریاں کھولنے لگے۔

    ’’لو بھلا، میں کیسے سو جاؤں، ابھی تو بہت سے کام پڑے ہیں چھوہاروں کے تھال پوشوں پر گوٹا ٹانکنا ہے، سہرے اور پھولوں کے زیور کا آرڈر دلوانا ہے، سہرا گھٹنوں سے نیچا نہ ہو، لڑکیاں تو بس گانے بجانے میں جٹی ہوئی ہیں۔‘‘ اب بھلا اماں بی سے کون کہتا کہ جس طرح تمام کام ان کی دونوں بیٹیوں نے اپنی مرضی سے کرلیے تھے، اسی طرح رات کو گانے بجانے، تھال پوشوں پر سنہری گوٹے کے بجائے روپہلی گوٹا ٹانک دیا تھا، سہرے کا آرڈر بھی دیا جا چکا تھا، ایسا سہرا جو قدموں کو چھوئے، اماں بی کی اس بات کو کون مانتا تھا کہ پھول پیروں تلے آئیں تو پھولوں کی بے حرمتی ہوتی ہے۔

    ’’سب کام ہو جائیں گے اماں بی، آپ پہلے ہی حکم دے چکی ہیں، دن کے دو بج رہے ہیں، اب آپ ذرا دیر آرام کیجیے، اے بڑی بجیا۔‘‘ انہوں نے زور سے آواز دی، ’’اے بڑی بجیا، کوئی نہیں سنتا، اے چھوٹی بجیا، خدا کے واسطے تھوڑی دیر کے لیے ڈھول اٹھا دیجیے، اماں بی کو سو جانے دیجیے۔‘‘

    ’’کوئی نہیں سوئےگا، ڈھول نہیں اٹھےگی۔‘‘ چھوٹی بجیا نے چیخ کر جواب دیا، اب ساری آوازوں میں ان کی آواز سب سے اونچی تھی، ’’دوڑ کر اماں نے سہرے کی بلائیں لے لیں، ارے بہنوں نے بلائیں لے لیں، پڑھ کے الحمد جو چہرے پہ سجایا سہرا۔۔۔‘‘

    ’’مت روکو بیٹے۔۔۔، گانے دو، یہ میری آخری خوشی ہے۔ نیند کا کیا ہے جب فرصت ملے گی سو جاؤں گی۔‘‘ اماں بی نے بڑی محبت سے ساجد کو دیکھا اور پھر بستر پر لیٹ کر پاؤں پھیلا دیے، ساجد میاں جھپٹ کر اٹھے اور کمرے کے سب دروازے بند کر دیے، اب آوازیں جیسے کہیں دور سے آ رہی تھیں۔

    ’’بس اب آپ سو جائیں۔‘‘ ساجد نے اماں بی کی طرف سے کروٹ لے لی، انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اماں بی اگر دوپہر کو نہ سوئیں تو ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے، یہی وجہ تھی کہ وہ ڈسپنسری سے ایک ڈیڑھ بجے ضرور گھر آ جاتے، انہیں یہ بھی پتا تھا کہ جب تک وہ خود بھی اپنے بستر پر نہیں لیٹیں گے، اماں بی کو نیند نہیں آئےگی۔ جنریشن گیپ کے اس شدت پسند زمانے میں بہت سے لوگ ساجد میاں کو حیرت سے دیکھتے، شاید انہیں مہذب ملکوں کے وہ بوڑھے یاد آ جاتے ہوں گے جو چھترے سفید بالوں والے سروں پر پرانی وضع کے ہیٹ رکھے راہوں میں پڑی ہوئی بنچوں پر پہروں بیٹھے رہتے ہیں، ترستی ہوئی نگاہوں سے دنیا کی ہما ہمی کو دیکھتے ہیں، پھر جانے ان کے جی میں کیا خیال آتا ہے کہ ہیٹ آنکھوں پر کھینچ کر اونگھنے لگتے ہیں، کوئی نہیں پوچھتا کہ تم اتنی دیر سے یہاں کیوں بیٹھے ہو اور اب تم اپنے ہیٹوں کی دنیا میں چھپ کر کون سے خواب دیکھ رہے ہو۔

    ’’ساجد۔۔۔‘‘ اماں نے ہولے سے پکارا۔

    ’’جی اماں بی۔‘‘ ساجد میاں نے اماں بی کی طرف کروٹ بدل لی۔

    ’’میں سوچ رہی ہوں کہ اب تمہار پلنگ یہاں سے اٹھوا کر اسٹور میں رکھوا دوں؟ اب اس کی یہاں کیا ضرورت رہ گئی ہے۔‘‘ اماں بی اپنی بھرائی ہوئی آواز پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھیں۔

    ’’چھوٹی بجیا نے بھی یہی کچھ کہا تھا، بڑی بجیا نے بھی یہی فرمایا تھا اور میں نے ان دونوں سے کہا تھا کہ یہ پلنگ یہیں بچھا رہے گا، آپ بھی سن لیں اس پلنگ کو یہاں سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔‘‘ ان کی آواز میں بےحد دکھ تھا۔

    ’’ارے پگلے یہ بستر تو تیری ذات سے سجا ہوا تھا، تیری وجہ سے میں اکیلی نہیں تھی، رات سوتے سوتے کسی وقت آنکھ کھل جاتی تو۔۔۔‘‘ ان کی آواز بھرا گئی۔

    ’’یہ بستر اسی طرح سجا رہے گا اماں، میں کہاں جا رہا ہوں بھلا؟ آپ ایسی باتیں مت سوچیے۔‘‘ ساجد میاں نے اماں بی طرف سے کروٹ بدل لی۔ گردن تک لحاف اوڑھا اور پھر تکیے کے نیچے رکھے ہوئے ململ کے سفید جھاگ جیسے دوپٹے کو چہرے پر ڈال لیا، یہ ان کے سونے کا اعلان تھا۔ ساجد جب چھوٹے سے تھے تو برسات کے موسم میں مکھیوں کے گچھے ان کے منھ پر آ آکر بیٹھتے تو اماں بی پریشان ہو کر اپنے سر سے ململ کا دوپٹہ اتار کر ان کا چہرہ ڈھانک دیا کرتیں، مگر اتنا زمانہ گزرنے کے بعد بھی ان کی یہ عادت نہ چھوٹی، اماں کا دوپٹہ آنکھوں پر ڈالے بغیر انہیں نیند نہ آتی۔

    منھ چھپا کر وہ تو اپنے حساب سوتے بن گئے، مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ اماں بی مارے حیرت کے آنکھیں پھاڑے انہیں کس طرح دیکھ رہی ہیں، ان کی آنکھوں کے سامنےکمرے کی ہر چیز گھوم رہی تھی، دل پر عجیب سا ہول طاری تھا، انہوں نے اٹھ کر ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا تو دروازے تک پہنچنے کا راستہ ہل رہا تھا، جیسے بھول بھلیاں میں پھنس گئی ہوں، اتنی بڑی بات سننے کے لے بھی تو ہمت چاہیے، وہ ہڑبڑاکر ساجد میاں کے پلنگ سے ٹکرائیں۔

    ’’کیا ہے اماں بی؟‘‘ وہ جیسے کود کر کھڑے ہو گئے اور ڈولتی ہوئی اماں بی کو اپنے بازوؤں میں تھام کر بستر پر بٹھا دیا۔ ’’یہ آپ کدھر جا رہی تھیں، میں جو کہہ رہا ہوں کہ سو جائیے۔‘‘

    ’’نیند نہیں آ رہی تھی، میں نے سوچا لڑکیوں کے پاس جا بیٹھوں مگر بیٹے تم تو میرا سایہ بن گئے ہو۔‘‘

    ’’بس اب آپ نہیں اٹھیں گی۔‘‘ ساجد میاں نے اماں کو لٹاکر لحاف اوڑھا دیا اور انہوں نے بھی ساجد کو دکھانے کے لیے جھوٹ موٹ آنکھیں بند کر لیں مگر نیند خاک آتی، وہ ایک ساں سوچے جا رہی تھیں، لو بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے اس کا بستر پہلے کی طرح کیسے سجا رہ سکتا ہے، اتنی بڑی بات اس نے کہی کیسے؟ اگر کسی کو یہ بات معلوم ہو جائے تو پھر۔۔۔، سب گھنے گھنے طعنے دیں گے، اماں سے اتنی ہی محبت ہے تو پھر شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ طعنوں کے خیال ہی سے اماں بی کے رونگٹے کھڑے ہو گئے، اتنی سردی میں پسینے چھوٹ گئے، اماں بی تکیے میں منھ چھپا کر چپکے چپکے رونے لگیں، ’’میرے بچے، میرے لعل، ماں صدقے، ماں تیری محبت پر سے واری۔‘‘ ان کے ہونٹ آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔

    چار چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر اماں بی کے شوہر عین جوانی میں اللہ کو پیارے ہو گئے تھے، اماں بی نے محلے کی لڑکیوں کو قرآن شریف پڑھا پڑھا کر بچوں کو پالا، دونوں لڑکوں کو پڑھایا۔۔۔، دونوں لڑکیوں کا جہیز جوڑا، جیسے تیسے لڑکیوں کی شریف گھرانوں میں شادیاں کیں، اماں بی جیسی نیک اور سمجھ دار بی بی کی سارے خاندان میں دھوم مچی تھی، ماں اگر مصیبتوں سے ذرا بھی گھبرا جائے تو یتیم بچے بہک جاتے ہیں مگر اماں بی نے تو بچوں کو کبھی یتیمی کا احساس ہونے ہی نہ دیا، دونوں لڑکوں کی تعلیم پر اتنی توجہ دی کہ وہ کتاب کا کیڑا بن گئے، ماجد میاں بڑے تھے، چھٹی کلاس سے وظیفہ لینا شروع کیا تو ساجد میاں بھی مقابلے پر اتر آئے، ماجد میاں نے ایف ایس سی نان میڈیکل کا امتحان دیا تو پھر وظیفے کے مستحق قرار پائے، ساجد نے میٹرک میں فرسٹ ڈویژن پائی۔ خاندان والے مبارک سلامت کا شور بھی مچاتے اور جی ہی جی میں کڑھتے بھی، وہ اپنے مسٹنڈے بیٹوں کو گلے گلے تک نعمتیں ٹھنساتے مگر کوئی بھی امتحان میں سیکنڈ ڈویژن سے آگے نہ جاتا، یہاں یہ حال کہ دال روٹی اور کبھی کبھار گائے کا گوشت کھانے والے ہوا پر اڑے جا رہے تھے۔

    ماجد انجینئرنگ کالج میں تیسرے سال کا امتحان دے رہے تھے کہ ساجد نے ایف ایس سی میڈیکل میں ٹاپ کیا اور آرام سے میڈیکل کالج میں داخل ہو گئے، اس دن اماں بی نے خدا کے حضور میں سارا دن عبادت میں گزارا۔ وقت جب امیدوں اور آرزوؤں سے بھرپور ہو تو گزرتے دیر نہیں لگتی، ماجد نے انجینئرنگ کالج سے آخری سال کا امتحان دیا اور اول آکر سب کو حیران کر دیا، انہیں انگلینڈ جانے کے لیے سرکاری وظیفہ بھی مل گیا، سارا خاندان اماں بی کی اس خوش نصیبی پر ٹوٹ پڑا، جو کبھی دو پیسوں کی مدد کے روادار نہ تھے، مٹھائیوں کے ڈبے اٹھائے چلے آ رہے تھے، مگر اماں بی کی عجیب حالت تھی، وہ بلک بلک کر رو رہی تھیں، ’’میں نہیں جانے دوں گی، بیٹیاں پرائی ہو گئیں، یہی دونوں لڑکے میری زندگی کا سہارا ہیں، میرے بڑھاپے کی لکڑی ہیں، میں کسے تھام کر چلوں گی۔‘‘

    سب حیران تھے کہ گھر آئی دولت کو کوئی اس طرح بھی ٹھکراتا ہے، سب کو ان کی دانائی پر شبہ ہونے لگا، سب انہیں خود غرض سمجھنے لگے، بیٹیوں نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ آپ ماجد بھائی کے روشن مستقبل کو لات مار رہی ہیں، ماجد اماں بی کو لپٹائے بڑی مظلومیت سے بیٹھے تھے، وہ اماں بی کے انکار پر خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے، اماں نے روتے روتے ایک بار غور سے ان کی آنکھوں میں جھانکا اور آنسو پونچھ لیے، ’’جائے گا، میرا بیٹا ضرور جائےگا۔‘‘ انہوں نے سب کے سامنے بھرائی ہوئی آواز میں اعلان کیا، ’’میں تو یوں ہی رو رہی تھی، بس یوں ہی۔‘‘

    ماجد میاں جب جانے لگے تو سب نےمحسوس کیا کہ ساجد اپنے بھائی کو رخصت کرنے ہوائی اڈے پر بھی نہیں گئے، وہ گھر میں بیٹھے اماں بی کو لپٹائے ان کے آنسو پونچھتے رہے، اس کے بعد تو وہ جیسے اماں بی کا سایہ بن گئے، اپنا بستر اماں کے بستر کے قریب بچھا لیا، کالج اور پھر گھر، رات گئے تک پڑھتے رہتے، اماں بی کے خراٹے انہیں ذرا بھی پریشان نہ کرتے، کبھی کبھی سوتے میں وہ روتیں، ماجد کو آوازیں دیتیں تب وہ کتابیں چھوڑ کر اٹھتے، اماں بی کے سینے پر سر رکھ کر انہیں جگاتے، ان کے آنسو پونچھتے اور اپنے آنسوؤں کو چھپاتے ہوئے انہیں نیند کی ایک اور گولی کھلا دیتے۔ کبھی کبھی اماں بی پوچھتیں، جب تم یہاں کی پڑھائی ختم کر لوگے تو کیا پتا تم کو بھی سرکار وظیفہ دے دے، تم پڑھائی میں ہمیشہ اچھے رہے ہو، تم نے ہمیشہ وظیفہ لیا ہے۔ ساجد میاں ہنس پڑتے۔’’اماں بی میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا، میں ایسے وظیفے پر تھوکتا بھی نہیں۔‘‘ پھر بھی شک کی سل اماں بی کے سینے کو کچلتی رہتی۔

    بہنوں نے ساجد کو جب اس طرح اماں کی پٹی سے لگا دیکھا تو سلگ اٹھیں، ’’کوئی حد بھی ہوتی ہے، مہینوں ساجد بھائی کی صورت نہیں دکھائی دیتی، اماں بی آپ نے انہیں لونڈیا بنا کر گھر بٹھا لیا ہے، اللہ حافظ ہے جو امتحانوں میں بھی پاس ہوں۔۔۔‘‘ اماں بی ساری باتیں خاموشی سے سہ جاتیں اور ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ دیتیں، بیٹیوں کو یہ بھی نہ دکھائی دیتا کہ ان کی اماں کتنی لٹ گئی ہیں، ماجد کی جدائی نے انہیں ایک دم سے بوڑھا کر دیا ہے، جب ماجد کے خط آتے تو پہروں انہیں آنکھوں سے لگائے بیٹھی رہتیں۔ دو سال بعد ماجد وطن واپس آئے تو تحفوں سے لدے پھندے تھے، دونوں بہنیں بھائی سے مرعوب ہو کر جیسے بچھی جا رہی تھیں، اترا اتراکر خاندان والوں کو تحائف دکھا رہی تھیں اور اماں بی کو ماجد اتنا پیارا لگ رہا تھا کہ جی چاہتا، اٹھا کر پلکوں پر بٹھا لیں۔

    اتنی اعلیٰ تعلیم کے بعد ماجد کو ملازمت تو مل گئی مگر ماجد میاں بجھ سے گئے، آٹھ نو سو روپے ان کے بھاویں تلے نہ آتے پھر بھی کسی سے کچھ نہیں کہا، سارا دن جانے کن چکروں میں پھرا کرتے اور شام کو گھر آتے تو اماں بی کی گود میں سر رکھ کر اپنے شاندار مستقبل کی باتیں کرتے رہتے، اماں بی ان باتوں کو سن کر نہال ہوتی رہتیں، وہ بڑے چاؤ سے ساجد کو بھی ان باتوں میں شامل کرنا چاہتیں مگر وہ سر جھکائے پڑھنے میں مصروف رہتے۔ ماجد کبھی کبھی ساجد پر اعتراض کرتے، ’’یار یہ تم لونڈیوں کی طرح سر جھکائے بس پڑھتے ہی رہتے ہو، کسی وقت باہر بھی نکلا کرو، دنیا کو دیکھو اور سمجھو۔‘‘

    ’’باہر گھومے تو پڑھے خاک، پتا ہے کتنی مشکل پڑھائی ہے، ڈاکٹر بننا کوئی آسان کام تو نہیں، تم کو کیا معلوم، تمہاری جدائی نے مجھے کتنا کمزور کر دیا ہے، جب میرا بیٹا ڈاکٹر بن جائےگا تو پھر میرا علاج کرےگا۔‘‘ اماں بی چاؤ سے کہتیں۔

    ایک سال ملازمت کرنے کے بعد ماجد نے بڑے آرام سے اماں کو بتایا کہ وہ واپس انگلینڈ جا رہے ہیں، یہاں ان کے علم کا جو معاوضہ ملتا ہے وہ اس سے کسی طرح بھی مطمئن نہیں ہو سکتے، چند لمحوں تک اماں بی پر سکتے کی سی کیفیت طاری رہی مگر جب ماجد نے ان کی گود میں سر رکھ کر ان کی اجازت چاہی تو وہ بڑی مشکل سے ہاتھ اٹھا کر ان کے سر پر رکھ سکیں، انہیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے جسم و جاں کا ایک ایک چپہ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا ہے۔ ماجد نے بڑے لاڈ سے اماں بی کے گلے میں جھول جھول کر انہیں سمجھایا، ’’اماں بی صرف چند برسوں کی بات ہے، وہاں سے میں آپ کو اتنا کچھ کما کر بھیجوں گا کہ آپ ماضی کے سارے دکھ بھول جائیں گی، یہ تین کمروں کا پرانا مکان کوٹھی میں بدل جائےگا، بس آپ ایک اچھی سی بہو ڈھونڈ رکھیےگا اور۔۔۔‘‘ وہ اور جانے کیا کچھ کہتے رہے مگر اماں بی نے کچھ بھی نہ سنا، ان کے کانوں میں جیسے کہیں بہت دور سے سائیں سائیں کی آوازیں آ رہی تھیں۔

    پھر چند دن بعد ماجد چلے گئے، دونوں بہنوں اور بہنوئیوں نے ڈھیر ساری فرمائشوں اور خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ انہیں رخصت کیا، اس وقت کسی نے بھی پلٹ کر یہ نہ دیکھا کہ اماں بی آنگن کی پرانی کائی لگی دیوار سے ٹیک لگائے کیوں چپ چاپ کھڑی تھیں، کسی کو یہ نظر نہ آیا کہ وہ اس دکھیا کی طرح سرسے پاؤں تک جل رہی ہیں جو نہ تو کوئلہ ہوئی نہ راکھ۔ جب ساجد، بھائی کو رخصت کر کے لوٹے تو انہوں نے اماں بی کو لپٹا لیا، ’’اماں بی، میں جو ہوں آپ کے پاس۔‘‘ محبت کے ٹھنڈے چھینٹوں نے ان میں اتنی جان ڈال دی کہ وہ آکر اپنے بستر پر لیٹ گئیں اور ساجد کا سر اپنے سینے سے لگاکر ماجد کو دعائیں دینے لگیں، ’’خدا کرے میرا بیٹا وہاں خوش رہے، اس کا مستقبل چاند اور تاروں کی طرح روشن رہے اور تم میرے بیٹے مجھ سے کبھی جدا نہ ہونا۔‘‘

    پندرہ بیس دن بعد ماجد کا خط آیا تو اماں کھلکھلا کر ہنس پڑیں، ’’ارے کتنا بے وقوف ہے، مجھے یاد کر کے روتا ہے، کوئی ہمیشہ تو وہاں نہیں رہےگا، ایک دوسال بعد آ جائےگا۔‘‘ سارا دن خط کو چومتی اور بار بار پڑھتی رہیں۔ ایک سال کے اندر اندر ماجد نے اماں بی کو اتنا کچھ بھیجا کہ انہوں نے پانچ کمروں کی چھوٹی سی کوٹھی بنوالی، پھر کمروں کی تقسیم بھی کر دی، سب سے بڑا کمرہ ماجد کا، اس سے چھوٹا ساجد کا، اس سے چھوٹا ان کا اپنا، کوٹھی بنانے کے بعد وہ چپکے سے ماجد کی دلہن کی بری کا سامان خریدنے لگیں، اب ان کی خواہش تھی کہ ماجد جلد واپس آ جائے، وہ ہر ایک سے کہتی رہتیں، ’’مامتا کوٹھیوں میں رہے یا محلوں میں، بچے جدا ہوں تو سب کھنڈر معلوم ہوتا ہے۔‘‘ سارا خاندان ان کی یہ باتیں سن کر بڑبڑاتا، ’’توبہ کیسی ناشکری ماں ہے، ماجد یہاں رہتا تو کون سے سونے کے انڈے دیتا، کیا رکھا ہے یہاں۔‘‘

    کبھی کبھی ساجد جواب دے بیٹھتے، ’’کیا نہیں ہے یہاں، درختوں کو پالو پوسو اور جب وہ پھل دیں تو دوسرے ملکوں میں کھانے کو بھیج دو، واہ کیا بات ہے۔‘‘ بہنوں نے یہ باتیں سنیں تو پنجے جھاڑ کر ساجد کے پیچھے پڑ گئیں، اب دیکھیں گے تم ڈاکٹر بن کر کیا کروگے، آج کل ایم بی بی ایس کو کون پوچھتا ہے، ’’کسی سڑی سی گلی میں ڈسپنسری کھولوگے اور سارا دن بیٹھے مکھیاں مارا کروگے، پیسے والے تو بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے والے ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں۔‘‘

    ’’اچھی بات ہے، اس گلی کی مکھیاں تو مر جائیں گی۔‘‘ ساجد ہنستے تو بات ٹل جاتی۔

    ایک سال تک ماجد کا خط نہ آیا، اماں بی کی آنکھوں میں انتظار کی آندھیاں آتیں مگر کوئی خط اڑکر نہ آتا، وہ ساجد سے کچھ نہ کہتیں، وہ اسے پریشان نہ کرنا چاہتی تھیں، آخری امتحان میں ایک دو مہینے رہ گئے تھے۔آخر آندھی تھمی، ماجد کا خط آ گیا، اس نے لکھا تھا کہ اس نے وہاں شادی کرلی ہے، وہیں کی شہریت اختیار کر لی ہے، شادی کے وقت اسے اماں بی بہت یاد آئیں، وہ بہت دیر تک روتا رہا، پھر ایلس نے اس کا سر اپنے سینے سے لگاکر تسلی دی تو قرار آ گیا، آخر میں لکھا تھا کہ آپ کی بہو آپ سے ملنے کو بےچین ہے۔ اماں بی خط پڑھنے کے بعد دیر تک اکیلی بیٹھی کانپ کانپ کر روتی رہیں، انہیں ایلس کی ذات سے نفرت ہوگئی۔ شام کو دونوں بیٹیاں اماں بی کے پاس آئیں، دونوں رنجیدہ تھیں، دونوں ایلس کو برا بھلا کہہ رہی تھیں، اماں بی نے پہلی بار بیٹیوں پر طنز کیا۔

    ’’اس کا مستقبل بن گیا، اب تم لوگ خوش ہو، تمہاری خواہشیں پوری ہو گئیں۔‘‘ بڑی بیٹی تو اس وقت چپ ہوگئی مگر چھوٹی بیٹی کس طرح چپ رہتی، ’’کوئی ہم نے سکھا کر بھیجا تھا کہ وہاں پھیکے شلجم سے شادی کر لینا، وہیں کے ہو رہنا، آخر تو دنیا علم سیکھنے جاتی ہے، لوگ اسی طرح ترقی کرتے ہیں، آپ کو خو ب الزام رکھنا آتا ہے۔‘‘ اس دن پہلی بار ساجد نے اپنی چھوٹی بجیا کو ڈانٹا، ’’کسی وقت تو آپ اپنی زبان کو قابو میں بھی رکھا کریں۔‘‘

    ’’کیوں قابو میں رکھوں؟ ماجد یہاں ہوتے تو شادی نہ کرتے، کون سا اماں کے پہلو سے لگے بیٹھے رہتے، اب تم نہ کرنا شادی ہاں۔‘‘ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی، اماں بی کے دل پر چوٹ سی لگی، ’’جب ساجد شادی کرےگا تو۔۔۔، تو۔۔۔؟‘‘ رات کو جب اماں بی کی بیٹیاں اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں تو اماں بی چپکے سے بکس روم میں گئیں، کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بڑے بکس کا تالہ کھولا اور ماجد کی دلہن کے لیے جو بری بنائی تھی اسے کھوئی کھوئی نظروں سے دیکھتی رہیں، پھر بکس کو بند کر کے جب وہ تالہ لگانے لگیں تو جیسے سارے جسم کی طاقت ان کے ہاتھوں میں آ گئی، ’’اب یہ تالہ کبھی نہیں کھلےگا۔۔۔، اب یہ تالہ کبھی نہیں کھلےگا۔‘‘ وہ زیر لب بڑبڑائیں اور پھر بڑے سکون سے آکر اپنے بستر پر بیٹھ گئیں۔

    جس دن ساجد نے ایم بی بی ایس کے آخری سال کا امتحان دیا تو اس دن اماں بی سارا دن خدا سے گڑگڑاکر دعائیں کرتی رہیں کہ ان کا بیٹا اچھا نمبروں سے پاس نہ ہو، اسے اب کوئی وظیفہ نہ ملے۔ مگر چند ماہ بعد نتیجہ نکلا تو ان کی دعاؤں کے برعکس تھا، سارا خاندان مبارک بادوں سے جھولیاں بھرے سارے گھر میں دندناتا پھر رہا تھا۔

    ’’میں تو کہتی ہوں اماں بی! ساجد کو سرجری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے ماجد کے پاس بھیج دیجیے، اب تو وہاں اپنا گھر بھی ہے، ایلس ایسی بری بھی نہیں، اگر بری ہوتی تو ماجد بہنوں کو کس طرح پوچھ سکتا تھا، ابھی اس نے بچوں کو روپے اور کپڑے بجھوائے تھے۔‘‘ بڑی بیٹی نے نظریں جھکائے جھکائے اماں بی کو مشورہ دیا، اس وقت کلرک شوہروں کی بیویوں کی ازلی مظلومیت ان کے چہرے پر برس رہی تھی، اگر ساجد بھی چلا جاتا تو دونوں بہنوں کے حق میں بہت اچھا ہوتا اور پھر انہیں یہ بھی پتا تھا کہ ماجد کے مقابلے میں ساجد بہنوں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔

    ’’اماں بی اگر مائیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکرنہ کریں گی تو پھر کون کرےگا؟‘‘ چھوٹی بیٹی نے ماں کو گم سم دیکھ کر بڑی بہن کا ساتھ دیا۔۔۔، اماں بی سامنے بیٹھے ہوئے ساجد کی آنکھوں میں عجیب طرح سے جھانک رہتی تھیں۔

    ’’چھوٹی بجیا، میں کہیں نہیں جاؤں گا، میں یہیں کسی گلی میں ڈسپنسری کھولوں گا، میں یہاں رہ کر آپ بہنوں کی زیادہ خدمت کروں گا۔‘‘ ساجد نے اس طرح کہا کہ اس لہجے کا طنز نمایاں تھا۔ دونوں بہنیں اس طرح بپھر گئیں جیسے ان کی چوری پکڑی گئی ہو۔

    ’’مت جاؤ، ہمیں کیا، جب تمہاری دسپنسری پر مکھیاں بھنکیں گی، تو پھر پوچھوں گی۔‘‘ بڑی بجیا کھسیانی ہو رہی تھیں۔

    ’’تم آگے بڑھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، تیئس چوبیس سال کے پورے آدمی ہو اور ننھے بچوں کی طرح اماں کی بٹی سے بٹی جوڑ کر سوتے ہو مگر بات اس طرح کرتے ہو جیسے اپنی بہنوں کے اَن داتا ہو، ارے بھیا تم ترقی کروگے تو ہم خوش ہوں گےاور بس۔‘‘ چھوٹی بجیا کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ ساجد کے کچھ کہنے سننے سے پہلی ہی دونوں بہنیں ناراض ہوکر چلی گئیں، اماں بی خاموش بیٹھی سب کا منہ تکتی رہ گئیں، ویسے بھی اب ان میں اتنی طاقت کہاں رہ گئی تھیں کہ جلدی سےاٹھ کر روٹھی ہوئی بیٹیوں کو منا لیتیں، ماجد کی جدائی، ڈائن بن کر انہیں چاٹ گئی تھی، اس پر یہ فکر کہ اگر ساجد کی ڈسپنسری نہ چلی تو۔۔۔؟

    ساجد میاں کی ڈسپنسری اور ان کے ہاتھ کی شفا ایسی مشہور ہوئی کہ جو عزیز دار چھوٹے ڈاکٹروں کے پاس بھی نہ جاتے وہ بھی مفت علاج کرانے دوڑ پڑے اور اماں بی کے سینے پر دھری ہوئی شک کی سل بھی آخر کو سرک گئی، پھر بھی رات کو سوتے سوتے ایک بار ہاتھ بڑھا کر ساجد کے سر کو چھوتیں اور پھر اس احساس کے ساتھ سو جاتیں کہ وہ ان کے پاس ہے۔ خواب آور دوائیں کھانے کے باوجود کبھی کبھی انہیں رات دیر سے نیند آتی، وہ سوچتیں کہ اب ساجد کی شادی کر دیں، مگر اس خیال ہی سے وہ الجھ کر رہ جاتیں کہ تنہائی اور بڑھاپا ان سے کیا سلوک کرےگا، ساجد بھی ماجد کی طرح بدل نہیں جائےگا، خاندان والے طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے، بیٹیاں ان کے منہ پر کہہ گئیں تھیں کہ اماں بی ساجد کی شادی نہیں کریں گی، اسے کولہے سے لگائے لگائے بوڑھا کر دیں گی، انہوں نے بڑی صفائی سے کہا تھا کہ جب ساجد اپنے ہم عمروں کو چار چار بچوں کا باپ دیکھتا ہوگا تو کیا سوچتا ہوگا، یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی وہ جیسے بہری بن جاتیں۔

    بہت مدتوں کے بعد ماجد اور ایلس کا خط آیا تھا، ایلس کا خط پاکر انہیں بڑی حیرت ہوئی تھی، اس نے بڑی صفائی سےاردو میں پہلی بار اپنی ساس کو خط لکھا تھا، ساجد کےخط میں خاص بات یہی ایک تھی کہ وہ اپنی اماں بی کو بہت یاد کرتا ہے، وہ بہت مصروف تھا، اس لیے خط نہ لکھ سکا۔۔۔ اور ایلس نے لکھا تھا، اماں بی۔۔۔، کل جب ماجد کو کاموں سے فرصت ملی تو وہ آپ کو یاد کر کے بہت رویا، وہ ضد کر رہا تھا کہ وہ فوراً اپنی اماں بی سے ملنے جائےگا، وہ اس وقت یہ بھی بھول گیا تھا کہ وہ بہت جلد پھر باپ بننے والا ہے، پھر میں نے اسے سمجھایا کہ وہ لوگ جن کا حال ان کی دسترس سے باہر ہے اور مستقبل میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور وہ لوگ جن کا مستقبل انتظار کر رہا ہے، آخر انہیں ایک دوسرے کی جدائی برداشت کرنی پڑتی ہے اور۔۔۔

    اماں بی نے خط کو لفافے میں بند کر کے الماری میں رکھ دیا، سارا خط پڑھنے کی ہمت جواب دے گئی تھی، وہ دیر تک تکیے میں منہ چھپا کر روتی رہیں اور چہرے کی جھریوں کی تہوں میں لکھی ہوئی مستقبل کو جنم دینے والی ماضی کی داستان آنسوؤں سے دھلتی رہی۔ رات جب ساجد میاں اماں بی کے ململ کے سفید جھاگ جیسے دوپٹے کو آنکھوں پر لپیٹے سونےکی کوشش کر رہے تھے تو اماں بی نے ان کو آہستہ سے پکارا، ’’ساجد بیٹے؟‘‘

    ’’ارے آپ ابھی تک سوئی نہیں اماں بی؟‘‘

    ’’بیٹے۔۔۔، میں سوچ رہی تھی کہ اب تمہاری شادی کر دوں۔‘‘

    ’’شادی؟‘‘ ساجد میاں حیرت کدہ بن گئے، وہ بیٹھ کر اماں بی کا منہ تکنے لگے، وہ تو شادی کا خیال ہی دل سے نکال چکے تھے، شادی کے خوب صورت تصورت میں انہوں نے کتنی راتیں گزاری تھیں، کتنے خوابوں میں ایک سے ایک خوب صورت دلہن نتھ اور ٹیکا چمکاتی، ان کے سینے کو روندتی ہوئی غائب ہو گئی تھی۔

    ’’تم حیران کیوں ہو رہے ہو بیٹے؟‘‘ اماں بی تکیے کی ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں۔

    ’’اماں، میں شادی نہیں کروں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کی محبت میں کوئی اور حصے دار بنے، انہوں نے بہت صاف آواز میں جواب دیا۔

    ’’بیٹے، وہ لوگ جن کا حال ان کی دسترس سے باہر ہوتا ہے اور مستقبل میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو ان کے مقابلے میں وہ لوگ جن کا مستقبل ان کا انتظار کر رہا ہو، انہیں آخر ایک دن ایک دوسرے سے جدائی برداشت کرنی پڑتی ہے، میرا کیا آج ہوں، کل نہیں ہوں۔‘‘

    ’’اماں بی۔۔۔، یہ آج آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں۔‘‘ ساجد میاں کی حیرت انتہا کو پہنچ گئی۔

    ’’سو جا پگلے، مجھے اب نیند آ رہی ہے۔‘‘ لیٹ کر اماں بی نے لحاف سر تک کھینچ لیا اور پلٹ کر یہ بھی نہ دیکھا کہ لیمپ کا سوئچ آف کرنے کے بعد ساجد کب تک ایک ہی طرح سے بیٹھے رہے۔

    چھوٹی بجیا بند دروازوں کو پیٹ رہی تھیں، ساجد نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا، لڑکیاں زور زور سے گا رہی تھیں۔

    بنو تیرے ابا کی اونچی حویلی۔

    بنی میں ڈھونڈتا چلا آیا۔

    ’’بھئی حد ہے، شام ہونے والی ہے اور ماں بیٹے مزے سے سو رہے ہیں، ابھی تو دلہن کا کمرہ سجانا ہے، اماں بی ماجد کا کمرہ سجا دوں، سب سے بڑا اور شاندار ہے۔‘‘ چھوٹی بجیا کمرہ سجانے کے خیال سے ہی سرخ پڑی ہوئی تھیں۔

    ’’نہیں بیٹی، ساجد والا کمرہ سجاؤ، جب کبھی وہ تم لوگوں سے ملنے آئےگا تو اپنے کمرے میں ٹھہرےگا۔‘‘

    ’’ان کا کیا پتا اماں بی، اگر بھابی کے ساتھ آئے تو آٹھ دس دن کو آئیں گے، اکیلے آئے تو آپ کے کمرے میں رہیں گے۔‘‘ چھوٹی بجیا رنجیدہ ہو گئیں، اللہ قسم وہ کمرہ سب سے زیادہ شاندار ہے، ایسا سجےگا ایسا۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے مگر اس کا کمرہ مت سجانا، وہ ماجد کا کمرہ ہے، کسی کی چیز نہیں چھینتے بیٹی، گناہ ہوتا ہے۔‘‘ اماں بی کی آواز بھرا گئی۔

    ’’کیا فضول باتیں ہیں چھوٹی بجیا، جو کچھ اماں بی کہیں وہی کیجیے، اماں بی آپ خیال نہ کیا کیجیے چھوٹی بجیا تو ہمیشہ کی ضدی ہیں۔‘‘

    ’’آج تم کچھ بھی کہہ لو میں سب سن لوں گی۔‘‘ وہ ہنستی ہوئی چلی گئیں۔

    ’’میں اب ڈسپنسری جا رہا ہوں اماں بی، آپ آرام سے بیٹھیےگا، کام کرنے نہ اٹھ جائیےگا۔‘‘ جوتوں کی ڈوریاں باندھ کر وہ جلدی سے چلے گئے۔ اماں بی نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ذرا دیر پہلے کہی ہوئی بات انہوں نے پھر نہیں دہرائی، پھر بھی وہ ساجد کے وحشت زدہ چہرے اور کڑے تیوروں سے ڈری ہوئی تھیں۔ ڈھول پر بیٹھی ہوئی لڑکیاں چائے پینے کے بعد اب چلتے پھرتے گانے گا رہی تھیں،

    ’’لٹھے دی چادر اتے سلیٹی رنگ ماہیا

    آجا سامنے، بہہ جا سامنے، کولوں تے رس کے نہ لنگھ ماہیا‘‘

    جب اماں بی دلہن کو رخصت کرا کے لائیں تو وہ خوشی سے پھولی نہ سما رہی تھیں، مگر آرسی مصحف اور منہ دکھائی کی رسم کے بعد جب دلہن کو اس کے کمرے میں لے گئے تو ان کے دل پر ایک دم سناٹے نے جیسے یلغار کر دی، اب ساجد بھی چلا جائےگا، آج انہوں نے اسے کھو دیا، کوئی جذبہ ان کا دل نوچے لے رہا تھا، ادھر سارے دن کی تھکن انہیں آنکھیں نہ کھولنے دے رہی تھی۔ ساجد کی نظریں مسلسل اماں بی کا پیچھا کر رہی تھیں، وہ اپنے بستر پر پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے اور جب رشتے کی بھاوجیں انہیں لینے آئیں تو وہ بےحد پریشان ہو گئے، ’’میں ابھی نہیں جاؤں گا، اماں بی بہت تھک گئی ہیں۔‘‘ انہوں نے اماں بی کو سہارا دے کر آرام سے لٹا دیا، پھر الماری سے نیند کی دوا نکال کر دو گولیاں کھلائیں، پھر ان کے پائنتی بیٹھ کر سوجے ہوئے پیروں کو آہستہ آہستہ ملنے لگے۔

    ’’بڑی بجیا آج یہاں اماں بی کے پاس میرے بستر پر آپ لیٹ جاتے۔‘‘ انہوں نے بڑی امید سے بڑی بجیا کو دیکھا۔

    ’’میں یہاں آرام سے چپر کھٹ پر لیٹ جاؤں تو میری سہیلیاں برا نہیں مانیں گی، وہ سب بےچاریاں قالینوں پر لڑھکتی رہیں۔‘‘ بڑی بجیا نے سمجھانے کے انداز سے کہا۔

    ’’تو پھر آپ چھوٹی بجیا۔‘‘ وہ گھگھیا رہے تھے۔

    ’’اللہ، ساجد تم نے تو میری اماں بی کو دودھ پیتا بچہ بنا دیا ہے، اماں بی تو آج اپنے فرض سے سبکدوش ہوکر آرام سے سوئیں گی۔‘‘ ساری بھاوجوں نے قہقہے لگاتے ہوئے ساجد کو پکڑ کر کھینچنا شروع کر دیا اور وہ تھے کہ اماں بی کو بے بسی سے دیکھے جا رہے تھے۔

    ’’ارے جاتے کیوں نہیں بیٹے، میں تو سو رہی ہوں، میری تو تھکن سے آنکھ بھی نہیں کھل رہی۔‘‘

    ’’ابھی نہیں جاؤں گا، میں چلا جاؤں گا۔‘‘ انہوں نے بھاوجوں سے خود کو چھڑا کر پھر اماں کے پاؤں پکڑے اور آہستہ آہستہ دبانے لگے۔ بھاوجیں کچھ ناراض سی ہوکر چپ چاپ کھڑی ہو گئیں، اماں بی سچ مچ ذرا دیرمیں خراٹے لینے لگیں۔ رات کو ڈھائی بجے کے قریب وہ کچھ سوتی کچھ جاگتی سی تھیں کہ انہوں نے عادت کے مطابق ہاتھ بڑھا کر ساجد کے اوپر رکھ دیا، پھر ایک دم ہڑبڑاکر اٹھ گئیں، پاؤں دباتے دباتے یہ پگلا یہاں سو گیا، انہوں نے جلدی سے ٹٹول کر لیمپ کا سوئچ آن کیا۔

    ’’کیا کہیں گے سب، یہاں سو گیا ہے۔‘‘ انہوں نے سارے کا سارا لحاف کھینچ لیا، گاؤ تکیے پر اسی طرح لحاف پڑا تھا کہ اماں بی کوایک دم ہنسی آ گئی، ’’اس نے سوچا ہوگا کہ اماں بی رات کو ایک بار اس پر ہاتھ رکھتی ہیں، وہ ہاتھ رکھیں گی اور پھر سو جائیں گی، رات جانے کس وقت آکر یہ کارروائی کر گیا ہے۔‘‘ سوچتے سوچتے وہ برابر مسکرا رہی تھیں، انہوں نے سرہانے سے گلاس اٹھا کر پانی پیا، پھر گاؤ تکیے کو چوم کر اسی طرح رکھ کر لحاف ڈال دیا، لیمپ بجھایا اور پھر لیٹ گئیں، ماجد تو اپنے مستقبل کی خوشی میں ماضی کے سرہانے تکیہ رکھنا بھی بھول گیا تھا، ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، جنہیں جلدی سے دوپٹے کے آنچل سے پونچھ لیا اور کروٹ لے کر بڑے پیار سے گاؤ تکیہ پر ہاتھ رکھ کر چند منٹ اسے ٹٹولتی رہیں اور پھر آرام سے سو گئیں۔

    مأخذ:

    ٹھنڈا میٹھا پانی (Pg. 96)

    • مصنف: خدیجہ مستور
      • ناشر: خالد احمد
      • سن اشاعت: 1981

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے