تاریکی کے عین وسط میں تاریکی تھی۔
دو جمع چار چھ، اور منفی ایک سات۔
ہم بیٹھے شطرنج کھیل رہے تھے۔
وہ کونے میں بیٹھا دھوئیں کی رسی تھامے خلاؤں میں نابود تھا۔ وہ اپنی ہتھیلیوں پر تھوڑیاں جمائے سوچ رہے تھے اور ہم جمع چار کے ہاتھوں سے ان کی سوچ پھسل پھسل جاتی تھی۔ پیادے، گھوڑے، رخ، قلعے، وزیر، بادشاہوں کی ڈھال بنے، وارسہتے، احکام کے منتظر تھے۔
ہوں، اگر گھوڑا ڈھائی گھر چل کر بادشاہ کو شہہ دے تو رخ کے ہاتھوں مرتا ہے۔ تو پھر شہہ کہاں ہوئی؟
گھوڑا مرگیا پیادہ آگے کرو۔
چلو سرکار۔
بادشاہ کا حکم؟
ہم تو مطیع ہیں۔ دونوں نے سوچا۔
بادشاہ تو گونگا ہے۔
ہم ہنس دیے۔
جب چاند چھپا اور سورج نکلا تو روشنیوں کی جگہ شہر نے لے لی اور تاریکی کی جگہ صحرا نے۔
منفی ایک ابھی تک دھوئیں کی رسی تھامے نابود تھا۔ ہم نے سگریٹ سلگالیے۔ گھوڑا رخ کے ہاتھوں مارا گیا۔ رخ کو فیل کھا گیا اور فیل کو۔۔۔
سیدھی چال چل چل کے پیادے کٹ کٹ کے ڈبے میں گررہے تھے۔ گھمسان کا رن پڑا۔ ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اتنی خونریزی!
تم تو چانکیہ ہو۔
جمع ایک کو جب کچھ نہ سوجھا تو اس نے کہا۔
وہ کون تھا؟
اس نے کیا کیا تھا؟
جو اس کھیل میں ہو رہا ہے۔
مہرے کٹ کٹ کے ڈبے میں گر رہے تھے۔ بساط پر انتشار تھا۔ ہم شور مچارہے تھے۔
شہر کے عین وسط میں صحرا تھا۔
بادشاہ سلامت، بادشاہ بچے، ہم نے تالیاں بجائیں۔
بادشاہ آمنے سامنے تھے۔
بہت بڑا صحرا؟
ہاں۔۔۔ اتنا بڑا۔۔۔ چھپکلیاں، گوہیں، گدھ، ڈھانچے۔۔۔!
سچ مچ کا ویرانہ۔۔۔ شہر کے عین درمیان؟
اور وہاں۔۔۔ ایک عورت کا ڈھانچہ بھی تھا۔ اس کے پیروں میں بیڑیاں تھیں۔
تم نے کیسے جانا کہ وہ عورت تھی۔
منفی ایک کی آنکھوں میں خون اترآیا۔
میں نے اس کی چھاتیوں سے دودھ پیا تھا۔
ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
اوگڈ۔ تو سچ مچ کا صحرا۔۔۔ تم وہاں کیسے پہنچ پہنچے تھے؟
لہو کے دریا میں تیر کے۔
منفی ایک نوجوان کے چہرے پر جھریاں چھاگئیں۔ وہ سر کو ہاتھوں کے شکنجے میں کس کر بساط کے کنارے بیٹھ گیا۔ وہ دونوں کہ جن میں چار جمع ہوں تو چھ بنتے تھے، اپنی جگہوں پر تھم گئے۔ انہوں نے اسے شک کی نگاہوں سے دیکھا، وہ اپنا منہ نیچے کیے بڑبڑاتا رہا۔
سائیس سائیں کرتے گھر۔۔۔ لنج منج درخت، فیکٹریوں اور فصلوں کے ڈھانچے۔
تم کس صحرا کی بات کر رہے ہو؟ ۔۔۔ اس کی؟
ہم جمع چار میں سے ایک نے اپنے خوف پر قابو پانے کی کوشش کی۔
زمین کا دل ایک ہی ہے۔
منفی ایک کے سینے کا بلغم منہ میں آگیا اور ہمارے پیروں میں شہر کانقشہ کھنچ گیا۔ ہم بساط چھوڑ کر شہر پر جھک گئے۔
کتنا خوب صورت صحرا ہے۔
جمع دونے مانگے کا سگریٹ سلگایا۔
ہمارے ہاں بھی ایک صحرا ہے۔ سرسبز و شاداب جنگل کے وسط میں۔ اس کے گرد دیوار ہے۔
نہیں گرد نہیں۔ آدھا دیوار کے اندر اور آدھا باہر۔
وہ مارا۔
جمع دو کی بات پر کسی نے غور نہ کیا۔ ہم تیزی سے پلٹ کر پھر بساط پر آگئے۔ وہاں بادشاہ تھا نہ وزیر، خلا تھا۔ یہ کیا ہوا، یہ کیا ہوا؟
میں اس دیوار میں ڈائینامیٹ لگا آیا تھا۔
شکر ہے ہم بچ گئے؟
ہم بچ گئے۔ ہم بچ گئے۔
یہ کھیل کی ازلی تکنیک ہے۔ منفی ایک نے سر اٹھایا۔
ہوا چوک میں آکر پھانسی پر چڑھ گئی۔
وہ دونوں کھلاڑی کہاں گئے؟
ہم میں سے جانے کس نے پوچھا۔
تم سنتے نہیں میں کیا بک رہا ہوں۔
وہ کونے سے چیخا۔
ہم چونکے، منفی ایک کی طرف دیکھا کیے۔ ہم سمجھے وہ نابود تھا۔
بادشاہ بچے، بادشاہ بچے۔ بادشاہ کے سر پر تاج نہیں پر بادشاہ ہے۔ ہم نے پھر بساط پر سرجھکادیے۔
تم نے سنا نہیں میں کیا بک رہا ہوں۔
تم کیا بک رہے ہو؟
میں تاریخ کی کاربن کاپی چاٹ رہا ہوں۔
ہمیں بے اختیار ہنسی آگئی۔
تو چاٹے جاؤ۔۔۔ چلو جی تم چال چلو۔۔۔ اور
اور چانکیہ، یہ آج کی ڈکٹیشن ہے۔
شہر کے دروازوں سے ہوا داخل ہوتی تھی، گلیوں، بازاروں میں پھرتی تھی اور چوک میں آکر پھانسی پر چڑھ جاتی تھی۔
نہ چاہنے کے باوجود ہمارے کانوں نے الفاظ وصول کیے۔ اور دماغ تک پہنچادیے۔ ہم نے ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا اور دھوئیں کی ڈوری کا سراڈھونڈنے لگے۔
کیا کہا تم نے، پھانسی پر چڑھ جاتی تھی؟
ہوا؟
ہاں۔
ہم بے اختیار ہنسے۔ بے وقوف۔
ہمیں شطرنج کھیلنے دو۔ میاں اتنا سوچو نہیں، ورنہ میدان خالی کردو۔
کس کے لیے۔
ہمارے حلق میں ہنسی کہیں اٹک نہ سکی۔
شہر کے عین وسط میں صحرا۔
صحرا تھا؟
ہاں۔
وہ دھوئیں کی ڈوری تھامے اٹھا، آہستہ آہستہ چلتا ہمارے پاس آگیا۔ ہم سمجھتے تھے کہ وہ نہیں تھا۔ اس نے کش لے کر انگلی سے تمباکو کا ذرا زبان سے ہٹایا۔ اس کی زبان پر تاریخ کے کاربن کی سیاہی تھی۔ ہم سہم گئے۔
ہوں۔
اس نے بساط کو غور سے دیکھا۔ بادشاہ آمنے سامنے تھے۔ ڈبہ لاشوں سے پر تھا۔
چانکیہ!
عین وسط میں صحرا تھا؟
جھاڑیاں، ریت ہی ریت۔ ذروں سے کٹی زبانیں چمکتی تھیں۔
رات میں۔۔۔؟
ہم میں سے ایک نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
رات میں تارے نہیں نکلتے تھے۔
وہ ہمیں خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہو رہاتھا۔
اور گدھ؟
ہاں گدھ بھی تھے۔
کہاں گئے کہاں گئے؟
صحراؤں میں صحرا۔
منفی ایک پھیپھڑوں کی پوری قوت سے ہنسا۔۔۔
یہ آج کی Dictation ہے۔
ہنستے ہنستے اس نے ڈبہ الٹا کر رکھ دیا۔ لاشیں دھڑادھڑ زمین پر پھیلے شہر میں گریں۔
اس نے ڈبہ پیٹھ پیچھے چھپا لیا، چیخا۔
تم نے اس ڈھانچے کی چھاتیاں چوسی ہیں؟ تم نے، تم نے، تم نے۔۔۔؟
ہماری آنکھوں میں سانپ کی آنکھیں تھیں۔ نہیں نہیں نہیں نہیں۔
صحرا کی اذیت۔
منفی ایک مسکرایا۔ ہماری نظروں کو اپنی آنکھوں کے شکنجے میں کس کر اس نے پیٹھ پیچھے چھپایا ڈبہ نکالا۔
تم سب۔۔۔ اپنی اپنی انگلی۔۔۔ اس۔۔۔ ڈبے۔۔۔ پر۔۔۔ رکھو۔۔۔
ہم نے رکھ دیں۔
اس نے ہماری انگلیوں سمیت ڈبہ سر پر رکھ لیا۔ ہم نے انگلیاں ہٹالیں۔
اس نے گھٹنوں تک جھک کر ہمارا شکریہ ادا کیا۔ بساط ٹکڑے ٹکڑے کر دی اور بادشاہوں، وزیروں، قلعوں، ہاتھیوں، گھوڑوں اور پیادوں کو روند ڈالا۔ اس نے ہماری طرف ایک ایک کرکے دیکھا اور سینہ پھلاکر اطمینان کاسانس لیا۔ اطمینان کا سانس ہوا میں تحلیل ہوتے ہی ہمارے ہاتھ اپنی گردنوں کی طرف اٹھ گئے۔
ہمارے گلے میں دھوئیں کی رسی تھی۔ ہمارا سانس رکنے لگا۔
ہوا ہوا ہوا۔
منفی ایک کے قہقہے ہمارے نرخروں میں چبھ رہے تھے۔ ہواسانس ہوا سانس۔
جب ہماری سمجھ میں نہ آیا کہ ہم اپنے گلے میں پڑی دھوئیں کی پھانسی کو کیسے کاٹیں تو ہم نے چوک میں سسکتی سسکتی ہوا کو تھاما، تیز کیا اور منفی ایک پر پل پڑے۔
چانکیہ۔
ہم نے چاروں اور دیکھا۔
آج کا خوب صورت صحرا۔
ہم نے دھوئیں کی ڈوریاں اپنے اپنے گلوں سے اتار کر تھام لیں اور صحرا میں نکل گئے۔
ہم چھاتیوں والی کی تلاش میں ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.