Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شرط

MORE BYعبدالصمد

    کہانی کی کہانی

    کہانی ہمارے معاشرے میں ابھرتے متوسط طبقے اور اس کے نوجوانوں کی خواہشات کو بیان کرتی ہے۔ اس نے بی۔ اے پاس کر لیا تھا لیکن وہ بے روز گار تھا۔ وہ ایک شاندار سوٹ پہن کر بازار میں نکل جاتا ہے اور کتابوں، کپڑوں اور دوسری دکانوں پر جاتا ہے لیکن خریدتا کچھ بھی نہیں۔ بھوک لگنے پر وہ ایک سیٹھ کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں شامل ہو جاتا ہے۔ لیکن وہاں کے لوگوں کی نظروں کو بھانپ کر بغیر کچھ کھائے پیے ہی واپس نکل آتا ہے۔ وہاں سے آکر وہ سوچتا ہے کہ زندگی اتنی دشوار بھی نہیں ہے۔۔۔ بشرطیکہ!

    دکان سے باہر آتے ہی اس کا لچکیلا دروازہ ایک خاص ادا کے ساتھ خود بہ خود بند ہو گیا، اس نے مسکراکر بند دروازے کے شیشوں پر اپنا ہاتھ پھیرا اور سامنے بہتی ہوئی دنیا پر ایک نظر ڈالی۔ دنیا، زندگی سے بھرپور، خوبصورت اور رواں دواں تھی اور اس میں اس قدر حرارت تھی کہ اس کی ساری کمزوری اور بد صورتی اگر تھی بھی تو اب چھپ گئی تھی۔ دکان کی اونچی سیڑھیوں سے فوراً اترنے کو اس کا جی نہیں چاہا اور وہ یونہی سامنے منظر سے لطف اندوز ہوتا رہا۔

    شام بازار میں اتر آئی تھی اور ا س کی نیون لائٹ کی افشاں بکھر گئی تھی جس کی ہلکی رنگین روشنی میں اس کا سلیقے سے پریس کیا ہوا سوٹ اور سنہری دھاریوں والی ٹائی اور تازہ پالش کئے ہوئے جوتے چمک اٹھے تھے، اس کے دل کے اندر عجب گدگدی سی ہورہی تھی اور جسم پر سہلانے والی مہک، نظر نہ آنے والی چیونٹیاں سی دوڑ رہی تھیں وہ ہولے ہولے قدم اٹھاتا ہوا سیڑھیوں سے اترکر سڑک پر آ گیا اور ایک طرف کو چل پڑا۔ سڑک پر کاروں، رکشہ، اسکوٹر اور سائکلوں کا ایک ریلا بہا جا رہا تھا، پیدل چلنے والوں کا بھی ایک اژدہام تھا، سڑک پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، اس کا جسم بار بار کسی راہگیر سے مَس کر جاتا۔ پسینے کی بو اور سانسوں کی گرمی ایک لمحے کے لئے اس کے اندر اتر جاتی اور وہ خاص مکدر ہوکے سینٹ میں بسا ہوا رومال نکال کر ناک پر رکھ لیتا، اس طرح رومال کی خوشبو بھی آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جا رہی تھی اس نے پینٹ کی بیک پاکٹ سے بغیر خوشبو کا ایک بڑا رومال نکالا اور آہستہ آہستہ کوٹ پر پھیرا تو اس پر گرد کی ایک ہلکی سی سیاہ پرت آ گئی۔۔۔ اوہ، اس کا مطلب ہے، بازار کی گرد سے سوٹ کا ستیا ناس ہی ہو جائےگا، جوتے پر بھی اتنی گرد آ گئی تھی کہ اس کی چمک معدوم ہوتی جا رہی تھی، وہ ایک طرف کو کھڑا ہو گیا اور گزرتی ہوئی ہر کار کے اندر بڑی پر امید نظروں سے دیکھنے لگا کہ شاید کوئی پہچان والا مل جائے تو لفٹ دے دے لیکن کاریں بڑی تیزی سے گزر رہی تھیں اور ان کے اندر بیٹھے ہوئے افراد اپنی ہی ذات میں گم تھے۔ جب اسی طرح کھڑے کھڑے کافی دیر ہو گئی تو اسے خیال آیا کہ کسی کار والے سے اس کی ایسی دوستی تو نہیں کہ وہ کار روک کر اسے لفٹ دے دے، دو ایک لوگوں سے جان پہچان ضرور تھی لیکن ویسی بھی نہیں کہ۔۔۔

    اس نے ایک صاف ستھرے رکشے والے کو آواز دی، وہ رکا تو اس پر بڑی ہی نفاست سے بیٹھ گیا اور اسے چلنے کا اشارہ کیا۔ رکشہ فوراً ہی بہتی ہوئی بھیڑ کا ایک حصہ بن گیا، تازہ ہوا نتھنوں میں آئی تو شام کی پر اسراریت بھی بڑھ گئی، بازار کی روشنیاں آنکھوں کو بڑی بھلی معلوم ہورہی تھیں، فضا میں شام، روشنی، زندگی اور خوشی کی رچی بسی خوشبو تیر رہی تھی۔ کتابوں اور رسالوں کی سب سے بڑی دکان آ گئی تو اس نے رکشہ کو رکنے کو کہا اور اتر پڑا۔

    ’’مجھے چھوڑ دیجئے، اس وقت کمانے کا وقت ہے،‘‘ رکشہ والا گمچھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے بڑی لجاجت سے بولا، اسے شاید اتنے سوٹیڈ بوٹیڈ صاحب سے اتنے کم تر سفر کی توقع نہیں تھی۔

    ’’رکو ابھی۔۔۔ تمہیں پیسے کمانے ہیں نا، میں تمہیں چھوڑ کہاں رہا ہوں۔‘‘

    وہ بڑی نخوت سے بولا اور دکان میں داخل ہو گیا، دکان کے باہر اخباروں کے اسٹینڈ تھے جہاں پر کھڑے ہوکر وہ تقریباً سبھی اخباروں کی شاہ سرخیوں پر نظر گاڑے رہتا تھا، اندر جانے کی تو ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔ ایک اَدھ بار وہ اندر گیا بھی تو کسی نے اس کے آگے گھاس نہیں ڈالی۔ بلکہ اسے ہونقوں کی طرح اِدھر ادھر تاکتے ہوئے دیکھ کر سختی سے باہر جانے کو بھی کہا گیا، لیکن آج۔۔۔ آج کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔ اگرچہ دکان میں خاصی بھیڑ تھی اور تقریباً سبھی کاؤنٹر پر کسی طرح اس کے لئے جگہ بنادی اور یہ پوچھے بنا کہ اسے کیا چاہئے، ڈھیروں کتابیں، رسالے، اخبارات وغیرہ وغیرہ لاکر ڈال دئے، ان میں کچھ کتابیں تو ایسی تھیں جن کو دیکھنے اور چھونے کی خواہش عرصہ سے اس کے دل میں پل رہی تھی۔

    بی اے کی بعد کی بیکاری نے اس کی تمام خواہشوں کو کچل ڈالا تھا اور اب تو یہ حال تھا کہ کبھی کبھار خواہش کی کوئی چنگاری سر بھی اٹھاتی تو وہ اسے فوراً راکھ کے ڈھیر میں دبا دیتا۔ اپنی پسند کی اتنی کتابیں اور رسالے سامنے دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے جی بھر کر اپنی محبوب کتابوں پر اپنی انگلیاں پھیریں اور انھیں بار بار کھول کر ان کے اوراق کی خوشبو دیر تک اپنے نتھنوں کے اندر محسوس کی، اس وقت پڑھنے کا کوئی موقع تو تھا نہیں صرف دیکھنے اور سونگھنے کا موقع تھا، سو ا س نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا، رسالوں کی رنگین تصویروں سے خوب آنکھیں سینکیں، اس کی نہ صرف سرخیاں دیکھیں بلکہ ایڈیٹوریل کے اہم حصوں پر بھی نگاہیں ڈال لیں۔ سلزمین جیسے خدمت میں بچھا جا رہا تھا، وہ بار بار پوچھ رہا تھا کہ کچھ اور دکھاؤں، اس کی آنکھوں میں بڑی توقعات لہریں مار رہی تھیں، لیکن اس کی جیب میں اتنی مہنگی کتابوں اور رسالوں کے لئے پیسے کہاں تھے، وہ بار بار رسالو ں اور اخبارو ں کو الٹ پلٹ کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ وہ دکان میں تو آ گیا بڑی آسانی کے ساتھ، لیکن یہاں سے باہر جانا اتنا آسان نہیں، یہ جو چاروں طرف عزت اور احترام کے ساتھ آنکھوں میں امید کی جوت جلائے لوگ کھڑے ہیں، انہوں نے کبھی اسے اسی دکان سے دھکے مار کر نکال دیا تھا، اب بھی ایسا کرنے سے انھیں کس نے روکا ہے۔۔۔ وہ ایسا کر سکتے ہیں، بالکل کر سکتے ہیں۔۔۔

    اسے ایک آدھ چیز تو لے ہی لینا چاہئے یوں بھی اس نے ان کا اور اپنا وقت ضائع کیا ہے اور پھر اخلاقی تقاضہ بھی تو کوئی چیز ہے۔ اس نے کھڑے کھڑے اپنی جیب کی مشمولات کا اندازہ لگایا، پتہ چلا کہ ابھی تو پوری شام بلکہ پوری شام بلکہ پوری رات باقی ہے اور اتنے عرصے میں اسے بہت کچھ کر گزرنا ہے، اس کے پاس پیسوں کے ساتھ ساتھ وقت کی بھی کمی ہے، اس نے ایک ہفتہ وار اٹھا لیا اور سیلزمین کی طرف بڑھایا۔

    ’’آج بس یہی۔۔۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں سر، کوئی بات نہیں، آپ کی دکان ہے، پھر تشریف لائیے۔‘‘

    سیلز مین غیرمعمولی اخلاق سے پیش آیا اس نے اپنے الفاظ ادا کرتے وقت اپنے سر کو تھوڑا سا خم کیا اور مسکرایا بھی، پھر اس نے دو روپے کے اخبار کو ایک ربن میں پیک کیا اور اس طرح اسے پیش کیا جیسے وہ کوئی انمول تحفہ پیش کر رہا ہو اور یہ کہ اس تحفے کو قبول کر کے وہ گویا ان پر کوئی احسان کرےگا۔

    اس نے ایک شانِ بےنیازی کے ساتھ دس کا ایک نوٹ کاؤنٹر کی طرف بڑھایا، فوراً ہی آٹھ روپے کے صاف ستھرے نوٹ اسے واپس کر دیے گئے اور وہ دکان سے ایک خاص انداز میں چلتا ہوا باہر نکلا۔ رکشتہ والا سیٹ پر نیم دراز سویا ہوا تھا، اس نے اخبار کی نوک سے ٹھوکر لگاکر اسے اٹھایا، رکشہ والا ہڑبڑا کے اٹھ گیا، اس کے نیم عریاں جسم کے پسینے سے سیٹ چمک اٹھی تھی۔ اسے یہ دیکھ کر بڑی گھن آئی اور اس نے بڑی ناگواری سے ناک بھوں چڑھاکر اسے سیٹ صاف کرنے کو کہا، رکشہ والا شرمندہ سا اپنے گمچھے سے سیٹ کو صاف کرنے لگا، پھر وہ بڑی ہی نفاست سے اس پر بیٹھ گیا، رکشہ آگے بڑھا تو اچانک اسے کپڑے کی وہ مشہور دکان نظر آ گئی جس کے دائیں بائیں بڑے بڑے شیشوں میں ایک مرد اور دوسرے میں عورت کے شاندار کپڑوں میں ملبوس مجسمے کھڑے تھے۔

    دکان فیشن ایبل کپڑوں کے لئے مشہور تھی۔ وہ کئی بار وہاں پر رک کر ان مجسموں پر للچائی ہوئی نظریں ڈال چکا تھا، وہ نظریں اس کے اندر ابھی تک کسی کونے میں پوشیدہ تھیں، ان نظروں کی پاداش میں دکان کے مسلح چوکیدار نے اسے گھور کر دیکھا بھی تھا اور تب اسے وہاں سے ہٹ جانے میں ہی عافیت نظر آئی تھی۔۔۔ رکشہ رکواکر وہ آہستہ آہستہ دکان کی سیڑھیاں طے کرنے لگا۔ جب وہ دروازے کے پاس پہنچا تو مسلح چوکیدار نے فوراً اپنے اسٹول سے اٹھ کر اسے سلامی دی، اس نے سر کے اشارے سے جواب دیتے ہوئے عورت اور مرد کے ملبوس مجسموں پر باری باری سے اچٹتی ہوئی نگاہیں ڈالیں اور چوکیدار نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو وہ بڑی شان سے اندر داخل ہوا۔

    ایئر کنڈیشن کی ٹھنڈی اور خوشگوار فضا کے ساتھ ساتھ اندر بھینی بھینی خوشبو، حسن و جوانی کے کئی حسین امتزاج، ریشمی ساڑیوں کی خوشگوار سرسراہٹ، کپڑے کے بڑے بڑے تھانوں کی قیمتی خوشبو اور دکان کے کارکنو ں کی شائستہ مسکراہٹ اور اخلاقی طور طریقوں سے جگمگا رہی تھی، اسے اندر داخل ہوتے دیکھ کر آئیے صاحب، ادھر تشریف لائیے، بھئی صاحب کے لئے جگہ بناؤ وغیرہ وغیرہ جملوں کے پھول پھینکے گئے، کئی گاہکوں نے اسے دیکھ کر اپنے جسم چرانے کی کوشش کی، وہ بڑے اطمینان سے ٹہلتا ہوا یک کاؤنٹر پر جاکر کھڑا ہو گیا، ایک سیلزمین نے آگے بڑھ کر اسے صوفہ پر بیٹھ جانے کی گزارش کی پھر بڑے اخلاق سے مسکراکر بولا۔

    ’’کیا دکھاؤں صاحب، سوٹ کے کپڑے، شرٹ، یا پھر۔۔۔‘‘

    ابھی وہ کچھ جواب بھی دینے نہ پایا تھا یا سوچ نہیں پایا تھا کہ دوسرے کونے سے آواز آئی۔

    ’’پوچھنے کی کیا بات ہے۔۔۔ سوٹنگ، شرٹنگ، ساڑیاں وغیرہ سب سامنے رکھو، صاحب خود ہی پسند کر لیں گے۔‘‘

    سیلز مین نے سب قسم کے کپڑو ں کے تھان کے تھان اس کے سامنے لاکر ڈال دیے، پھر سب کپڑوں کو کھول کھول کر اسے دکھانے لگا اور ہر ایک کی الگ الگ خصوصیات بیان کرنے لگا، اس کے انداز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی کمپیوٹر میں پروگرامنگ کر کے ڈال دیا گیا ہو۔ وہ ایک ایک کپڑے کو ہاتھوں سے مسل مسل کر ایک ماہر گاہک کی طرح دیکھتا رہا، کبھی اٹھاکر آنکھوں کے نزدیک کر لیتا، کبھی لائٹ کے سامنے کر لیتا۔ بہت احتیاط اور بڑی بے نیازی کے باوجود اس سے ایک حرکت ایسی سرزد ہو گئی جس کے لئے اندر ہی اندر وہ بہت شرمندہ ہوا۔ کیونکہ اس نے ایک کارکن کو مسکراتے ہوئے اور دوسرے کو کنکھی سے ایسا کرنے کومنع کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا، لیکن وہ کیا کر سکتا تھا، اس سے یہ حرکت بالکل اضطراری طو رپر سرزد ہوئی تھی، اس نے بے ساختہ ایک نہایت خوبصورت اور قیمتی سوٹ کے کپڑے کو سونگھ لیا تھا۔

    وہ دیکھ دیکھ کے ایک ایک کپڑے کو الگ ڈالتا رہا، سیلز مین بار بار پوچھ رہا تھا۔۔۔

    ’’کچھ اور دکھاؤں صاحب۔۔۔؟ یہاں آپ کو اپنی پسند کے کپڑے ضرور مل جائیں گے، ہم لوگ تو بس سیوا کرنا جانتے ہیں، جو کپڑے اس شہر میں کہیں نہیں ملیں گے وہ آپ کو یہاں مل جائیں گے صاحب۔۔۔ آپ حکم تو کیجئے۔۔۔‘‘

    کاؤنٹر پر بیٹھا ہوا ایک موٹا آدمی غور سے اسے دیکھ رہا تھا، اسے کبھی سوٹ کے کپڑے اور کبھی ساڑیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ تہہ نہیں اس کے اندر لکھی ہوئی کون سی تحریر پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا، اس نے بھی کئی بار دکان کے کارکنوں کے تجسس کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی اور کہیں کہیں پر شرمندہ کرنے کے احساس نے اس کے اندر سر اٹھایا تھا لیکن اس نے سختی سے دبا دیا تھا، اصل میں وہ بھی مجبور تھا۔ اس طرح کر کے اس کے اندر کی جو چیز مطمئن ہورہی تھی وہ شرمندگی سے کہیں زیادہ بڑی اور مضبوط چیز تھی اور اس کے اندر بہت دنوں سے پل رہی تھی۔

    اس نے تقریباً سبھی کپڑوں کو اٹھا ٹھاکر دوسری طرف یوں رکھ دیا جیسے اسنے سب کو ناپسند کر دیا ہو۔ اس کی اس حرکت سے کارکنوں کی پیشانیوں پر ذرا بل نہیں آیا اور وہ بہت خوش دلی کے ساتھ انہیں تہہ کر کے رکھنے گئے ساتھ ہی اس کی زبانیں مشینی انداز میں بولتی رہیں۔

    ’’کچھ اور دکھا دوں جناب۔۔۔ آپ کی پسندکی کوئی خاص چیز نکالوں؟‘‘

    ’’آ۔۔۔ رومال ہوں گے آپ کے پاس؟‘‘

    اس نے قدر لاپروائی سے دریافت کیا۔

    ’’رومال۔۔۔؟ جی ہاں، جی ہا ں بہت اچھے رومال ہوں گے، جناب، ایسے رومال تو اس شہر میں آپ کو ملیں گے ہی نہیں۔۔۔ اے نکالو، رومالوں کا وہ، ڈبہ۔۔۔‘‘

    رومالوں کے نام پر بھی وہ اس طرح خوش ہوئے جیسے سوٹ کے نام پر اور رومالو ں کے ڈبے کو بھی اسی خوش دلی سے نکالا جیسے۔۔۔۔۔۔

    انہوں نے اس کے سامنے ہر قسم، ہر دام، ہر رنگ اور ہر سائز کے رومالوں کے ڈھیر لگا دیئے۔

    ’’رومالوں کی بھی ورائٹی۔۔۔‘‘

    وہ زیر لب بڑبڑایا۔ لیکن رومال نکالنے والوں نے پتہ نہیں کیسے سن لیا اور مسکراکر بولے۔

    ’’جی جناب رومالوں کی تو ایسی ورائٹی ہیں ہمارے پاس کہ دوسروں کے پاس سوٹ اور تھان نہیں ملیں گے۔ آخر آپ جیسے بڑے لوگ ہمارے یہاں آتے ہیں، آپ لوگوں کے لئے ہمیں رکھنا ہی پڑتا ہے۔ آپ لوگوں کی سیوا کرنا ہمارا دھرم ہے نا۔۔۔‘‘

    اس نے آواز دے کر رومالوں کے اور بھی کئی ڈبے منگوائے، اس نے دل میں سوچا، ’’لو بیٹا، ان مہنگے خوبصورت رومالوں کو بھی خوب ٹھیک سے چھولو، پھر کبھی موقع ملے نہ ملے۔۔۔‘‘

    اس نے کپڑے، گہنے، جوتے وغیرہ وغیرہ تو بہت دیکھے تھے، ایک سے بڑھ کر خوب صورت، مہنگے اور نایاب، لیکن رومال اس نے اتنے خوب صورت اور قیمتی نہیں دیکھے تھے، سو اس نے جی بھر کے نہ صرف اس کا دیدار کیا بلکہ انہیں چھو کے اور محسوس کر کے بھی دیکھا، آخر اس نے دو کم قیمت کے، نسبتاً معمولی رومال الگ کرلئے اور سیلز مین سے بولا، ’’انھیں پیک کر دیجئے۔‘‘

    ’’بس یہ دو رمال۔۔۔‘‘

    سیلز مین نے کچھ کہنا چاہا لیکن کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے موٹے آدمی نے اسے گھور کر یوں دیکھا کہ اس نے اپنی گاڑی فوراً دوسری پٹری پر ڈال دی۔

    ’’کوئی بات نہیں سر، آج رومال ہی سہی، آپ کی دکان ہے،آپ کی پسند کی چیزیں ہمیشہ یہاں مل جائیں گی۔۔۔ آپ پھر یہاں تشریف لائیے۔‘‘

    اس نے کاؤنٹر پر رومال کی قیمت ادا کی جو اس کی سمجھ سے کچھ زیادہ ہی تھی اور رومال کا پیکٹ لئے باہر آ گیا۔

    اب تک تو سارا معاملہ ٹھیک ٹھیک چل رہا تھا، ابھی دو تین گھنٹے ہی اس نے اتنے آرام سے گزار لئے تھے کہ اس کی پیٹھ پر لدا پینتیس برس کا بوجھ بھی ہلکا لگ رہا تھا، گویا اس بوجھ کے بدلے اس نے یہ تین گھنٹے حاصل کئے تھے اور ابھی تو اس کے بوجھ کی قیمت بڑھ ہی رہی تھی، گویا نیلامی کی پہلی بولی ہی امید سے زیادہ تھی، اس کا مطلب ہے حساب برا نہیں جا رہا تھا، وہ بہت مطمئن سا رکشہ والے کے پاس پہنچا تو وہ رکشہ کھڑا کر کے غائب ہو چکا تھا، اس نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑائیں، چاروں طرف روشنیوں کا دریا سا بہہ رہا تھا اور اس میں چلتے پھرتے آدمی بے حساب جگنوؤں کی طرح چمک رہے تھے۔۔۔

    ’’کہاں چلا گیا کم بخت۔۔۔‘‘

    وہ بڑبڑایا۔۔۔ کس قدر لاپرواہ اور غیر ذمہ دار ہے یہ غریب آدمی، ابھی اس کی محنت کے پیسے باقی ہیں اور اگر میں اسے چھوڑ کر چلا جاؤں تو وہ آدمیوں اور روشنیوں کے اس سمندر میں مجھے تلاش کر لےگا؟

    ’’کبھی نہیں۔۔۔ ناممکن۔۔۔‘‘

    یہ لوگ زندگی گزارنے کا سلیقہ ہی نہیں جانتے، بس دوش دینا جانتے ہیں یا تو حالات کا،یا پھر اپنی قسمت کا، اتنی محنت کی ہے اس نے اور اپنا اتنا وقت لگا دیا ہے اس میں، لیکن دیکھئے ذرا لاپرواہی۔۔۔

    وہ تو غنیمت تھا کہ یہاں کی زندگی کی خوبصورتی ہر چہار طرف ناچ رہی تھی ورنہ وہ یہاں پر اس ٹٹ پونجئے رکشہ والے کے انتظار میں کبھی نہیں ٹھہرتا۔ کافی دیرکے بعد رکشہ والا شانِ بےنیازی کے ساتھ ٹہلتا ہوا آپہنچا۔ اس نے بڑی خشمگیں نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

    ’’جرا چائے پینے چلا گیا تھا حجور،‘‘ رکشہ والا بڑی لجاجت سے بولا، وہ خون کے گھونٹ پی کے رہ گیا۔

    سالے کو کھانے کو روزی نہیں اور گیا تھا چائے پینے۔

    وہ رکشے پر بیٹھ گیا۔

    ’’کہاں چلوں صاحب۔۔۔؟‘‘

    رکشہ والا بڑی خوش دلی سے بولا، میٹر بڑھنے کی حقیقت شاید اب اس پر واضح ہوئی تھی جس کے نتیجے میں اس کے اندر اورباہر روشنیا سی جل اٹھی تھیں۔

    ’’بس سیدھے چلتے رہو۔۔۔‘‘

    اس کے لہجے میں خاص رعونت تھی۔ یہ شہر بھی ایسا تھا کہ اس کے جسم کی چیرتی ہوئی ایک لمبی سڑک نکل گئی تھی۔ جو کچھ بھی شہر تھا، بس سڑک کے اس طرف یا اس طرف۔ ہر دس فرلانگ پر ایک چوراہا سا بن جاتا ہے جس کے دونوں طرف پتلی پتلی سڑکیں اور پھر ان سڑکوں سے نکلتی ہوئی ان گنت پتلی پتلی گلیاں اور ان گلیوں میں رہنے والے دبلے پتلے مدقوق، شہر کے باسی۔۔۔ بس اتنا سا شہر تھا مانو ایک بڑی مٹھی میں سما جائے اس پر شہر والوں کو بڑا ناز تھا۔ یوں شہر اور وہ شہر، مہا نگر، وشال نگری وغیرہ وغیرہ۔۔۔ دل کو بہلانے کے لئے لوگ کیسے کیسے نام رکھ چھوڑے ہیں، جو چیرئے تو ایک قطرہ لہو کا نہ نکلے۔

    رکشہ نور کے سیلاب میں بہا جا رہا تھا، رات بھیگتی جارہی تھی اور آہستہ آہستہ سلمہ ستارے سے مزین لباس پہن رہی تھی، اس کی کوئی واضح منزل نہیں تھی، منزل تو اس کی شروع سے کوئی نہیں تھی، لیکن راستے میں اسے پڑاؤ ملتے گئے تھے اور وہ بڑھتا گیا تھا، رکشہ آگےبڑھتا جارہا تھا لیکن اسے کوئی پڑاؤ دکھائی نہیں دے رہا تھا، یوں بڑی بڑی شاندار دکانوں، تفریح گاہوں، سنیما گھروں اور ہوٹلوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔

    ہوٹل پر اسے یاد آیا کہ اب اسے بھوک بھی لگ رہی تھی اور اسے کہیں بیٹھ کر کچھ کھا لینا چاہئے۔

    لیکن کہاں۔۔۔؟

    اس کا لباس اور وضع قطع ایسی تھی کہ اب وہ صرف فائو اسٹار یا تھری اسٹار ہوٹل میں ہی کھپ سکتا تھا، لیکن اس کی اندرونی جیب اس سے چپکے چپکے کہہ رہی تھی کہ وہ کسی ٹٹ پونجیا ہوٹل میں ہی جا سکتا ہے۔ مثلاً جمارو میاں کے ہوٹل، اس سے زیادہ آگے کی بات اسے سوچنی بھی نہیں چاہئے، وہ کشمکش میں پڑ گیا۔

    اس کا ظاہر اسے کسی بڑے ہوٹل کی اور کھینچ رہا تھا اور باطن جمارو میاں کے ہوٹل کی طرف۔ ان دونوں کی جنگ کا فیصلہ ہوتے ہوتے تو رات بھی بیت سکتی تھی اور اس کے پاس اتنا وقت کہاں۔ اس نے سوچا اتنے اچھے کپڑوں اور سجاوٹ کے ساتھ معمولی ہوٹل کا معمولی کھانا ہضم ہی نہیں ہوگا اس کے لئے بہترین کھانا بھی ہونا چاہئے، اس لئے اسے معمولی ہوٹل کا خیال دل سے نکال ہی دینا چاہئے، جب وہ یہ سوچ چکا تو اس کے باطن کی گرفت خود بخود اس پر کمزور پڑ گئی اور وہ کشاں کشاں کھینچا ہوا فائیو اسٹار ہوٹل کی طرف چلا گیا۔

    لیکن فائیو اسٹار ہوٹل میں جانے کے لئے اس کی جیبوں میں دام کہاں تھے اور فائیو اسٹار ہوٹل کتابوں اورکپڑوں کی دکان تو تھی نہیں کہ وہ کسی طرح اپنی عزت بچالے جائے، پھر۔۔۔؟

    اسے اچھا کھانا کھانا ہی تھا کیونکہ وہ اپنے ظاہر اور باطن کو دو مخالف سمتوں میں نہیں جانے دینا چاہتا تھا اور اسے صرف اسی لائن پر سوچنا تھا۔

    اچانک اسے یاد آیا، سیٹھ وکرم سنگھ کی بیٹی کی شادی تھی، بڑے آدمیوں کی تقریب کی خبر سارے شہر کو ہو ہی جاتی ہے، اگرچہ اس کے لئے کارڈ بھی تقسیم ہوئے ہوں گے اور فائیو اسٹار ہوٹل میں شادی کی شرکت کے لئے کارڈدکھانا ضروری بھی ہوگا۔ اس کے پاس کارڈ کیا کارڈ کا بچہ بھی نہیں تھا۔ سیٹھ وکرم سنگھ کی بیٹی کی شادی اور اس کے پاس شرکت کا کارڈ۔

    اسے اس مضحکہ خیز سچویشن کے بارے میں سوچ کر ہی ہنسی آ گئی، پھر فوراً ہی اسے دو بڑی دکانوں کے تجربے یاد آ گئے اور اس نے مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ اس شادی میں ضرور شرکت کرےگا، اگر وہ کسی طرح اندر پہنچ گیا تو پھر وہاں اسے پہچاننے والا کون؟

    اس نے رکشہ والے کو ہوٹل کی طرف جانے کی ہدایت کی، رکشہ والے کی چال میں اس وقت غیر معمولی تیزی تھی، شاید اسے بھی کوئی موہوم سی منزل کا خیال آ گیا تھا۔ ہوٹل کے گیٹ پر رکشہ رک گیا، اس قسم کی چھوٹی سواریوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی، وہ اترپڑا، پھر اس نے بیس کا ایک نوٹ رکشے والے کی طرف بڑھا دیا۔ رکشے والے نے ممنون ہاتھوں سے روپیہ لے لیا اور پھر اپنی دھوتی کی گانٹھ میں ریزگاری تلاش کرنے لگا۔

    ’’رکھ لو رکھ لو بقیہ پیسے دینے کی ضرورت نہیں،‘‘ اس نے بڑی لاپرواہی سے کہا اور بڑھ گیا، رکشہ والا اسے۔۔۔نہیں اس کی پیٹھ کو بار بار سلام کر رہا تھا۔

    لابی تک جانے میں تو کوئی دقت پیش نہیں آئی، فنکشن اندر بو کے ہال میں ہو رہا تھا اور اس کے دروازے پر مہمانوں سے کارڈ وصول کئے جا رہے تھے، وہ بڑی بےنیازی سے پینٹ کی جیبوں میں دونوں ہاتھ ڈالے آگے بڑھا۔ دروازے پر خیر مقدم کے لئے کئی افراد کھڑے تھے، کارڈ وصول کرنے والے نے خاموشی کے ساتھ اپنا سوالیہ ہاتھ بڑھایا، اس نے گھورکر اسے دیکھا۔ اتنے میں خیر مقدمی پارٹی کے ایک شخص نے کارڈ وصول کرنے والے کو ایک آنکھ ماری اور آگے بڑھ کر بولا۔

    ’’خوش آمدید جناب اندر تشریف لے چلئے، پارٹی اب شروع ہی ہونے والی ہے۔۔۔‘‘

    وہ اس کا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی ہال میں داخل ہو چکا تھا۔ پیچھے وہی آدمی کارڈ وصول کرنے والے سے کہہ رہا تھا۔۔۔

    ’’آدمی پہچان کے بات کیا کرو، کارڈ اس لئے وصول کئے جاتے ہیں تاکہ کوئی معمولی اور فاضل آدمی اندر نہ گھس آئے، یہ کوئی قانونی عمل تو ہے نہیں۔۔۔‘‘

    اس نے اطمینان کی ایک سانس لی اور اندر کی خوشیوں میں کھوگیا، کافی بڑا ہال تھا، لیکن مہمان اتنے تھے پھر بھی چھوٹا دکھائی دے رہا تھا، بہت سے لوگ بیٹھے تھے، اس سے زیادہ کھڑے تھے، ان کے بیٹھنے کی جگہیں بھی محفوظ تھیں۔ چاروں طرف دیواروں سے روشنیا چھن چھن کر آ رہی تھیں اور ان روشنیوں کے ساتھ تیز موسیقی کی لہریں نکل نکل کر فضا میں تیر رہی تھیں۔ باوردی بَیرے رنگین گلاسوں سے بھرے خوبصورت ٹرے لے کر گھوم رہے تھے، جس کے ہاتھ خالی دیکھتے، اس کے سامنے رک کر تھوڑا جھک جاتے۔ اس کے سامنے بھی آئے اور اس نے ایک بھرا گلاس اٹھاکر گویا ان پر احسان کیا۔ ہونٹوں سے لگاکر ایک گھونٹ بھرا، اف، یہ کیا چیز ہے بھئی اس قدر بدمزہ اور تلخ اور شیشے کے اندر روپ دیکھو تو۔۔۔اس نے چور نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا لوگ اسی روپ کو چسکیاں لے لے کر بڑی دلچسپی سے پی رہے تھے۔ کسی کے چہرے پر بدمزگی اور کڑواہٹ نہیں تھی۔

    اس کا مطلب یہ شربت تلخ اور بدمزہ نہیں ہے اور ایسے یہ سب لگ رہا ہے تو اس کے دماغ کا فتور ہے اور پھر جب وہ تازہ تازہ ہائی سوسائٹی کا ممبر بن ہی گیا ہے تو پھر اسے ان کے طور طریقے سیکھنے ہوں گے۔

    اس نے بڑے حوصلے کے ساتھ گلاس کو ہونٹوں سے لگایا، ایک گھونٹ، دو گھونٹ، پھر کوئی تلخ سا گولہ حلق میں پھنسنے لگا جس نے اوپر سے نیچے جانے کا راستہ ہی بند کر دیا۔ اس نے گلاس پاس رکھی تپائی پر رکھ دیا، ابھی اس میں بےشمار گھونٹ مچل رہے تھے، اس نے تلخ گولے سے ذہن ہٹانے کے لئے ادھر ادھر دیکھا۔ سبھی لوگ دو دو چار چار کے ٹولے میں بٹے ہشاش بشاش سے، سرگوشیوں میں مصروف تھے، گلاس سب کے ہاتھوں میں تھے، کوئی ان میں سے پی نہیں رہا تھا، دو ایک گھونٹ لے کر یا تو گلاس ہاتھوں میں تھے یا پھر تپائیوں کی خوبصورتی بڑھا رہے تھے۔

    ’’تو یوں بھی پئے جاتے ہیں اس قسم کے شربت۔۔۔‘‘

    اس نے اطمینان کی ایک سانس لی اور یہ پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ اس تپائی کی طرف دیکھےگا بھی نہیں جس پر اس کا گلاس رکھا ہے۔ وہ دوسری رنگینیوں کی طرف متوجہ ہو گیا، اوپر منقش چھت پر بہت خوبصورت فانوس لگے تھے اور کاغذ کے رنگین پھول اس سلیقے سے لگائے گئے تھے کہ ان پر اصل ہونے کا دھوکہ ہوتا تھا۔ دیوارو ں کے اندر روشنیوں کا ایسا انتظام کیا گیا تھا کہ رنگ برنگ شیشوں کے اندر بکھر کر وہ دیکھنے والوں کی روحوں کے اندر اتر جاتی تھیں، لوگوں کی مدھم مدھم سرگوشیاں فضا میں ایک ارتعاش پیدا کر رہی تھیں، اس نے پاس کھڑے ہوئے لوگوں کی باتیں سننے کی کوشش کی، لیکن بے سود، ان کے منھ سے جو آوازیں نکل رہی تھیں وہ رینگ کر صرف اس کے کانوں تک ہی جا رہی تھیں، شاید ہر شخص صرف اپنے کانوں کے استعمال ہی کے لئے الفاظ نکال رہا تھا، ایسی صورت میں اس نے اپنے آپ کو بڑا کٹا کٹا سا محسوس کیا، ڈار سے بچھڑا سا، ایک بار تو اس کا جی چاہا کہ یہاں سے چلا ہی جائے، کیا رکھا ہے یہاں کے ماحول میں، ہر آدمی اپنے آپ میں مگن، زبان سے الفاظ بھی نکالیں تو اپنے ہی کانوں کے لئے، بھلا ایک اچھا خاصا آدمی کتنا سمیٹ کر رکھ سکتا ہے اپنے آپ کو، لیکن اس کے سوٹ بوٹ اور ٹائی اور ان کے اثرات سے پیدا ہوئے SOPHIS TICATION اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔۔۔ نہیں میرے سرکار نہیں حضور، ایسا غضب نہ کیجئے۔۔۔ وہ سنبھل کر آنے والے لمحات کے لئے جیسے تیار ہو گیا۔

    اونھ، نہیں۔۔۔ نہیں مخاطب ہوتے ہیں سالے تو مت ہوں، ان کی پروا کون کرتا، بس جلدی سے کھانا کھلا دیں فائیو اسٹار ہوٹل کا، پھر میں کہاں، یہ کہاں۔۔۔

    اتنے میں چھوٹے سے مائک پر سیٹھ وکرم سنگھ کی آواز ابھری، وہ دوسرے ہال میں جاکر بوفے تناول فرمانے کے لئے درخواست کر رہے تھے۔ چلو اچھا ہے، جس مقصد کے لئے یہاں آئے تھے، وہ سامنے آ ہی گیا۔ ہال کے چاروں طرف ٹیبل لگے تھے اور ان پر انواع و اقسام کے کھانے سجے تھے، جس کے سامنے جو ٹیبل پڑا، وہ وہیں پر پلیٹ لے کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے تمام ٹیبل پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی، کھانے کے رنگ اور خوشبو سے اس کے منہ میں پانی بھر آیا، آج تو جی بھر کے اتنے اچھے کھانے ملیں گے۔ آج وہ کھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھےگا، اس نے دوسروں کی دیکھا دیکھی سامنے کی پلیٹ اٹھا لی اور جلدی جلدی اس میں مختلف کھانے بھرنے لگا، لیکن پلیٹ تو آدھے ہی میں بھر گئی، ابھی تو بہت سے کھانے بکھرے پڑے ہیں۔ اس نے بڑی مایوسی سے سر اٹھایا تو اکثر لوگوں کو اپنی طرف بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہوئے پایا، اچانک اس کی نگاہ ان کی پلیٹوں پر پڑی، ہر ایک پلیٹ میں دو دو تین نوالے سے زیادہ نہیں پڑے تھے یوں ساری کی ساری پلیٹیں، لگ بھگ خالی ہی پڑی تھیں۔

    اس کی کنپٹیاں گرم ہونے لگیں اور اس نے جلدی سے بھیڑ میں گھس کر اپنی پلیٹ ایک ٹیبل کے نیچے رکھ دی اور دوسری پلیٹ لے کر اس میں تھوڑی سے سلاد اور ایک آدھ کٹلس لے کر ایک طرف کھڑا ہو گیا، اب اس کی طرف تجسس بھرے تیر نہیں آ رہے تھے اور سب اپنی اپنی دنیاؤں میں مست، پتہ نہیں کون سی ضروری سرگوشیوں میں مصروف تھے، دوسروں کی طرح اس نے بھی پلیٹ کی اتنی کم چیزیں بہت دیر میں ختم کیں، دوسری بار کچھ لینے کی اس کی ہمت ہی نہیں پڑی، البتہ سویٹ ڈش جس طرح دوسروں نے لی ویسے اس نے بھی لے لی، سبھی کھانے ٹیبل پر دھرے کے دھرے تھے اور لوگ پتہ نہیں کھانے کی کن چکنائیوں کو ہی صاف کر رہے تھے۔۔۔ جتنا کھانا اس نے کھایا، اتنا تو وہ ایک نوالہ میں کھا سکتا تھا، نہ اس کا پیٹ بھرا نہ جی، پھر بھی اس کے اندر ایک تشفی سی تھی۔ اطمینان کی ایک سرد لہر اندر اندر سے آسودہ کر رہی تھی۔ اس نے ابھی ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں شہر میں نہیں، صوبہ میں نہیں، ملک کے ایک مشہور سیٹھ وکرم سنگھ کی بیٹی کی شادی کی دعوت کھائی تھی۔

    کھانے کا کیا ہے، کھانا تو وہ کہیں بھی کھا سکتا ہے، جمارو میاں کے ہوٹل کے بھونی دال اور چپاتیاں بھی کھائی ہیں، وہ تو اسے ذرا تکلف ہوا، ورنہ ان کا ہوٹل تو ایک ایسا دربار عام تھا جس کا فیض چوبیس گھنٹے جاری رہتا۔ ابھی وہ لوگ۔۔۔ کافی سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ اچانک اعلان ہوا کہ اندر چھوٹے ہال میں شادی کی رسمیں پوری ہو چکی ہیں، جس میں چند قریبی رشتہ داروں نے حصہ لیا اور اب سبھی مہمانوں سے دولہا دولہن کو آشیرواد دینے کی درخواست ہے۔ آشیرواد۔۔۔ معاً اس کا ماتھا ٹھنکا۔

    یہ آشیرواد پلٹو سنگھ کی بیٹی کا نہیں تھا جس میں وہ پانچ روپے نذرانے کے دے آیا تھا اور ہفتوں ان پانچ روپیوں کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ یہاں قالین اور میزوں پر خوبصورت رنگین کاغذوں میں لپٹے ہوئے لاتعداد قیمتی ڈبے تو ایسے تھے کہ جنہیں برسوں کیا زندگی بھر آدمی نہ بھولے۔ لیکن اس وقت مسئلہ یہ نہیں تھا۔

    بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ۔۔۔

    اچانک اسے خیال آیا کہ یہ اس وقت یہاں سے چلے جانے کا بہترین موقع ہے، کسی کو کچھ محسوس بھی نہ ہوگا اور وہ بڑے اطمینان سے۔۔۔

    ٹہلتا ہوا دروازے تک آیا۔ باوردی چوکیدار نے سرجھکا کر بڑے ادب سے دروازہ کھولا، سیٹھ وکرم سنگھ کے کارکن ابھی بھی مستعد تھے۔ ان کی آنکھوں میں اپنے لئے سوال دیکھ کر وہ مسکرایا اور ہلکے سے بولا۔

    ’’پیکٹ گاڑی ہی میں رہ گیا، ڈرائیور کو بھی خیال نہیں آیا۔۔۔‘‘

    ’’ہم لادیں جناب۔۔۔؟ گاڑی کا نمبر۔۔۔‘‘

    ان میں سے ایک نے کہنا چاہا۔

    ’’ڈرائیور آپ کو نہیں دے گا نا۔۔۔ آرمی کا ریٹائرڈ ڈرائیور ہے، ہے آدمی بڑے کام کا، ایک بار ا س نے۔۔۔‘‘

    اچانک اسے خیال آیا کہ وہ کچھ فاضل ہی بول رہا ہے، جتنا اسے بولنا چاہئے اور اب پینٹ کی جیبوں میں دونوں ہاتھ ڈالے وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ہوٹل سے باہر نکل آیا، رات کی تاریکی اور دودھیا روشنیوں سے نہایا ہوا عالیشان ہوٹل خوابوں کے محل جیسا لگ رہا تھا اور اس محل میں وہ دو تین گھنٹے بتاکر آیا تھا، اس کی زندگی کی یہ ایک بہت بڑی اور تاریخی کامیابی تھی۔

    رات بھیگ چکی تھی، رکشے چلنا بند ہوگئے تھے اور سڑک پر کاروں کی تعداد بڑھ چکی تھی، وہ تھوڑی دور آگے جاکر ایک بس اسٹاپ پر کھڑا ہو گیا۔ رات کی آخری بس اسے جمارو میاں کے ہوٹل کے پاس اتار گئی اس کے پچھواڑے والی تاریک گلی میں وہ رہتا تھا، جمارو میاں کا ہوٹل اونگھ رہا تھا، پھر بھی اسے پیٹ بھر بھونی دال اور گرم گرم چپاتیاں مل ہی گئیں، البتہ نیند کے حملے کے سبب صرف اپنی آواز اور بےتکلفی کے انداز سے ہی پہچانا جا سکا، جو نئی پہچان اس نے اپنی بنائی تھی، وہ اس کے پاس ہی مقید رہی۔

    دوسرے دن صبح وہ اپنے دوست کی لانڈری سے اپنی مخصوص خاکی پینٹ اور کھدر کی سرمئی شرٹ پہن کر اس کی سیڑھیوں سے اتر رہا تھا تو مسلسل بس ایک ہی بات سوچے جا رہا تھا۔

    زندگی گزارنا اتنا مشکل نہیں ہے۔۔۔ زندگی گزاری جا سکتی ہے۔۔۔ بشرطیکہ۔۔۔ بشرطیکہ۔۔۔

    مأخذ:

    سیاہ کاغذ کی دھجّیاں (Pg. 63)

    • مصنف: عبدالصمد
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1996

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے