aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شیردہان

الطاف فاطمہ

شیردہان

الطاف فاطمہ

MORE BYالطاف فاطمہ

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسی کتابوں کی دکان کی کہانی ہے، جو اپنے زمانہ میں بہت مشہور تھی۔ علاقے کے ہر عمر کے لوگ اس دکان میں آیا کرتے تھے اور اپنی پسند کی کتابیں لے جاکر پڑھا کرتے تھے۔دھیرے دھیرے وقت بیتا اور لوگوں کی زندگیوں میں تفریح کے دوسرے ذرائع شامل ہو تے گئے۔ لوگوں نے اس دکان کی طرف جانا چھوڑ دیا۔ دکان کا مالک خاموش بیٹھا رہتا ہے، اس کا خیال ہے کہ یہ وقت شیر کا منہ ہے جو ساری چیزوں کو نگلتا جا رہا ہے۔

    گرجاگھر والے بڑے سکول کی بائیں طرف سڑک مڑکر گلی میں داخل ہو جاتی تھی یا پھر گلی موڑ کھاکر سڑک پر چلی آتی تھی۔ چھوٹی سی مختصرسی گلی تھی جس پر ریڈیو ٹرانسٹر کی مرمت کی دکانیں تھیں۔ دو چار وہ بھی بہت معمولی، گردآلود۔ ایک دکان جو ریفریجریٹروں کے چھوٹے سے شوروم کی طرح استعمال ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ غم و غصہ کے کسی اظہارکے موقعے پر پبلک نے مٹی کا تیل (ہو سکتا ہے پٹرول ہو) چھڑک کر ماچس کی تیلی اس پر پھینک دی۔ تیلی پھینکنے والے کو شاید یہ پتا بھی نہ ہوگا کہ شوروم کے مالک نے اپناساراجی پی فنڈ اورانشورنس پالیسی فروخت کرکے یہ شوروم بنایاتھا۔ ابھی دوہی فریج نکلنے پائے تھے۔ خیربعض لوگوں کاخیال تھاکہ دشمنی اورحسدکانتیجہ تھی یہ حرکت۔ بہرحال وہ دل پکڑ کر رہ گیا۔ قالینوں کے ایک شوروم میں سیلزمین کے طور پر ملازمت کرنے لگا۔ کہتے ہیں ایک دن گاہک کو قالین دکھاتے دکھاتے وہیں لیٹ گیا، پھرنہ اٹھا۔ جملہ معترضہ کچھ زیادہ ہی لمبا ہو گیا۔ ورنہ کہنے کی صرف یہی بات تھی کہ اسی دکان کے عقب میں پتلا سا گیلری نما سر ہیرا تھا۔ اسی میں برسوں سے ایک دبلا پتلا سا شخص سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی دکان لگائے بیٹھا تھا۔

    سرہیرے یاگیلری نماکمرے کے چاروں طرف اونچے اونچے لکڑی کے ریکوں پر کتابیں لگاکر جماعتوں کی نشان دہی کر دی تھی۔ گتے کے چھوٹے چھوٹے چوکور ٹکڑوں پر۔۔۔ میٹرک، ایس سی (سینئر کیمبرج) غرض کے جی ون سے میٹرک اور ایس سی بلکہ ایچ ایس سی کی کتابیں بھی دستیاب تھیں۔

    لوگوں کو تعجب بھی ہوتا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ مارکیٹ اور بڑی بڑی دکانوں میں تو کتاب ملے نہ۔۔۔ مگر اس پرانی سیکنڈ ہینڈ دکان پر کبھی یہ جواب سننے میں نہ آیا کہ کتاب نہیں ہے۔ بات یہ کہ بچوں اور دکان داروں کے درمیان معاہدہ رہتا تھا کہ نتیجہ سنتے ہی پورا کورس بندھا ہوا مجھے دے جاؤ، پھر دیکھو تم جو کتاب مانگوگے، ملےگی۔ یقینی طور پر پاس ہونے کا اندازہ لگا لینے والے بچے (نتیجے والے دن) پیسج ڈے کو پورا کورس بندھا ہوا ساتھ لاتے۔ وہ اس کے بدلے میں اگلی جماعتوں کے کورس لے لیتے، کچھ رقم کے اضافے کے ساتھ۔ سکول کے بچوں نے کبھی اس کا نام جاننے کی بھی کوشش نہ کی۔ وہ ’’کتابوں والے سر‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ تقریباً ساڑھے تین فٹ کا قد، دبلا پتلا، سیدھا پاجامہ، پرانی وضع کی دھاری دار قمیص۔ چھوٹی سی فرنچ کٹ ڈاڑھی۔۔۔ ذرا اندر کو دھنسی چمکدار ہنستی ہوئی آنکھیں، آنکھوں پر عینک، منہ میں پان، دل میں بےپناہ قناعت کا دریا موجزن۔۔۔ کتابوں کے ہجوم اور انبار میں دبا بیٹھا رہنے والا یہ شخص۔۔۔ بچوں کے لیے خاصے کی چیز تھا۔ سکول سے نکلے، گاڑی یا بس کے آنے میں دیر ہوئی اور دکان میں جا گھسے۔

    صرف کورس ہی نہیں بکتا تھا یہاں، اس کی دکان میں کومکس اور کہانیاں، ہانس کرسچن کی کہانیوں کی رنگین تصویری کتابوں سے لےکر چارلس ڈکنز، ہارڈی، شیکسپیئر اور برنارڈشا کے علاوہ شارلٹ برونٹے، ڈیفنی دی ماریئر اور ڈینس رابنس تک دستیاب اور میٹرک اور ایس سی کی لڑکیاں شہد کی مکھیوں کی طرح ٹوٹ کر گرتی تھیں۔

    دکان کا تمام تر چارج کتابیں تلاش کرنے سے لے کر گلے میں پیسے ڈالنے تک کاعمل بچوں ہی کے ہاتھ میں رہتا۔ بہ یک وقت چار چار پانچ مل کر الماریوں کے اوپر تختوں پر بیٹھے ہوئے کتابیں ڈھونڈرہے ہوتے ہیں۔ ساتھ پڑھ بھی رہے ہیں۔ یہ بھی ہر قسم کی شرارتوں اور غوغا کے درمیان بڑی طمانیت سے اکڑوں بیٹھے ہیں۔ خودہی کتابیں چھانٹ رہے ہیں یا پرانی کتابوں کی جِلدیں باندھ رہے ہیں۔ البتہ کھانا کھاتے وقت بچوں سے لڑنے لگتے، ’’ارے نوالہ حلق سے نہیں اترنے دیتے۔ پانی کا گھونٹ بھی نہیں پینے دوگے؟ نالائقو۔‘‘

    پھر بچوں ہی کے مشورے سے کتابیں کرائے پر بھی دینے لگے۔ بس ایک چونی تھماکر اچھی سے اچھی کتاب پڑھنے کو مل جاتی۔ ویسے ان کی طبیعت میں کاروباری ہتھکنڈے بالکل نہ تھے۔ چاہتے تو خود ہی آئس کریم رکھ لیتے، مگر انہوں نے ایک بہت نادار شخص کو اجازت دے رکھی تھی کہ دکان کے آگے والے تھڑے پر بیٹھ کر آئس کریم بیچ لیا کرے۔ اسی طرح مصالحے والے، چنوں اور چپس والے کو بھی کبھی نہ ٹوکا کہ کیا آنے جانے کا راستہ روک کر بیٹھ جاتے ہو۔ ایسے لفافے تومیں خود رکھ لوں گا۔

    ایسی ہلاچلی، غلغل اور بچوں کی معصوم مصاحبت میں کچھ احساس ہی نہ ہوا کہ کتنا وقت گزر گیا ہے۔ چونکے تو اس وقت جب یہ محسوس ہوا کہ وہی لڑکے جو پہلے بندروں کی طرح کتابوں کی الماریوں پر چڑھے یا نیچے اکڑوں بیٹھے دکان کو اتھل پتھل کرتے تھے، اب اپنے بچوں کی انگلیاں پکڑے کتابوں کی تلاش میں آنے لگے ہیں۔ پھر وہ ننھے منے بچوں کو بتاتے، ’’یہ تمہاری امی تو بالکل ہی بندریا تھی، غصہ آ جاتا تو لڑنے والے لڑکوں کامنہ نوچ لیتی۔ اف اللہ آئس کریم کتنی کھاتی تھی۔۔۔ اچھا۔۔۔ اچھا! یہ تمہارے ابو ہیں۔ پہلے تو بالکل خرگوش ہوا کرتے تھے۔ بس سرپر کان نہیں کھڑے تھے۔‘‘

    ماؤں، باپوں کو کتنا اچھا لگتا تھا، کوئی کس پیار سے ان کے بچپن کی واردات بیان کرتا تھا۔ ایسے میں بھی بہت وقت گزر گیا۔ دکانوں کے کتنے بورڈ بدل گئے۔ کتنی نئی دکانیں کھل گئیں۔ حدیہ کہ مشروبات کے نام تک نئے نئے آنے لگے۔

    کون سی کولا۔۔۔ کون سی کولا۔۔۔ یہ کولا، وہ کولا۔۔۔

    کتابوں والے سرکابچوں سے بڑا مذاق چلتا۔

    ’’آج کون سی کولا پی کر آئے ہو؟ پتا ہے ایک نئی بوتل چلنے والی ہے۔ ڈریکولا؟۔۔۔ سر سے پیر تک ڈراکر کپکپی چڑھا دینے والی۔‘‘

    ’’ارے بھائی تم اتنی کو لائیں پیتے ہو، کبھی لغت میں بھی یہ دیکھا کہ اس کے معنی کیا ہیں! پینے سے اس لفظ کا کیا تعلق بنتا ہے؟‘‘

    ’’آپ بتا دیں سر۔۔۔‘‘

    ’’ارے بھائی ڈکشنری میں تلاش کرو۔ ڈکشنریاں دیکھنا سیکھو۔۔۔ پھر پیو۔۔۔ ڈکشنری دیکھو، لغت دیکھو، بڑے کام کی چیز ہے۔‘‘

    بچے آکسفورڈ ڈکشنریوں کے پاکٹ ایڈیشنوں پر ٹوٹ پڑتے۔ پھر اس سلسلے میں ڈکشنریاں بک بھی جاتیں۔ دو ڈھائی حدتین روپے میں ڈکشنری ان کی جیب میں پہنچ جاتی۔

    وقت دھیرے دھیرے سرک رہا تھا اور کتابوں والے سر کے پاس اتنی مہلت نہ تھی کہ اس کی رفتار کا احساس کر سکیں۔ بس کبھی کبھار منہ اٹھاکر دیکھتے تو ایسا لگتا جیسے اس جگہ کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ قیمت بہت زیادہ ہو گئی۔ ہر طرف زندگی کی نت نئی غیر ضروری ضروریات کی دکانوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آزو بازو و پلازے اور پینوراماٹائپ عمارتوں کے بننے کی آوازیں آنے لگی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی دکانیں لیے بیٹھے لوگوں پر ایک سہم سا چڑھا رہنے لگا۔ مگر کتابوں والے سر کو کیا پرواہ تھی۔ اس اندھیرے، کتابوں اور پرانے کاغذ کی مخصوص بو والے سر ہیرے کو کون پوچھےگا۔ وڈیو فلموں، کیسٹوں اور ویڈیو گیمز کی دکانیں ابھرتی ہیں، ابھریں۔ میری سستی لیکن بےبہا کتابوں کی کشش بچوں کو ادھر ہی لائےگی۔ وہ مطمئن رہے۔ ویسے بھی طبیعت میں بےصبری، بےچینی نہ تھی۔ ایک جمود سا تھا جو وجود پر طاری رہتا۔

    پرانی کتابوں سے پٹی، سیکنڈ، تھرڈ بلکہ فورتھ ہینڈ کتابوں کی وہ گیلری بلکہ سرہیرے نما دکان، ہزاروں روپے ماہانہ پرجس دن اٹھی تو وہ ذرابھی نہ چونکے۔ افسردہ بھی نہ ہوئے۔ دل کی حالت توخداہی بہتر بتا سکتا ہے۔ مگر یہ کہ چہرے پر شکن بھی نہ آئی۔ دکان کے مالک اور نئے کرایہ دار سے زبانی کلامی Stay لیا اور کوئی نہیں جانتا کہ کس سرگردانی اور تگ و دو سے دوچار ہوئے ہوں گے۔

    آس پاس کی ساری ہی دکانیں دھڑادھڑ چلتی تھیں، خاصی رونق رہتی تھی۔ خاص کر درزی خانے میں گاہک پر گاہک ٹوٹتا۔ اس علاقے میں یہی چار چھے دکانیں تھیں نہ بڑی نہ چھوٹی۔ البتہ بائیں ہاتھ کی تیسری دکان، کہتے ہیں شیر دہان تھی۔ آگے سے کھلی (شیر کے منہ کی طرح) پیچھے سے پتلی۔ کوئی دس سال سے اس کی زنجیر میں موٹا سا زنگ خوردہ قفل پڑا رہتا تھا۔ بس وہی ایک دن آکر توڑ ڈالا۔ ایک چھوٹی سے بالٹی میں قلعی کا چونا تھا۔ پیلا رنگ ملا ہوا ایک نئی سی کوچی، خود ہی دکان میں سفید کر ڈالی۔ مدتوں بعد دکان کو رنگ روغن ملا تو جیسے ہنس پڑی، جیسے شیر نے اپنا دہان کھول دیا ہو۔ پیچھے سے ایک ریڑھی پر لدے کتابوں کے بنڈل آتے گئے۔ دن بھر ٹھونک پیٹ کرتے الماریاں فٹ کرتے گزر گیا۔ پسینے میں تربتر ایسے کہ کرتا اتار کر نچوڑ لو۔ پھر بھی دل ویساہی ٹھنڈا تھا، عجب دل تھا، عجب دما غ تھا، ہراساں ہوتا ہی نہ تھا۔ لوگ تھے کہ تین تین چار چار مددگاروں کے ہوتے ہاتھ پاؤں پھولنے لگتے۔ وہ اللہ کا بندہ، اکیلا ہی چپ چاپ اپنی کتابیں جماتا رہا۔ بعضے بعضے بنڈلوں پر تو برسوں برسوں کی گرد جمی تھی۔ پرانے وقتوں کے انگریزی رسالے، کروشیا کے کام، کڑھائی، بنائی، کراس سٹیچ کے کاموں کے، مگراب بیبیاں خود کرتی ہی نہیں کچھ۔ خود پڑھتی ہیں یا پڑھاتی ہیں۔ بال سیٹ کرواتی ہیں اور ہر چیز، حدیہ کہ ٹکوزیاں تک ریڈی میڈ بنی بنائی خرید لاتی ہیں۔ بس ان ہی بنڈلوں پر سالوں کے حساب سے گرد کی تہیں جمی تھیں۔ کوئی پوچھتا نہ تھا ان کو۔ کاغذ پیلے پڑتے پڑتے خاکستری ہونے لگے تھے۔ ایسی تمام کتابیں اور رسالے ترپالوں میں باندھ کر کباڑیوں کے لیے الگ رکھتے گئے۔

    تب ہی خواجہ قسیم نے آکر معمولی صاحب سلامت کے بعد، اس دکان کی شیردہانی کے قصے سنانے شروع کر دئیے۔

    ’’یہ دکان چلتی ہی نہیں۔۔۔ کبھی نہیں چلی۔‘‘

    پریوں کے دیس سے آئے ہوئے بونے جیسا انسان (سکول کے بچوں کے کتابوں والے سرکے بارے میں یہی ریمارکس ہوتے تھے) مسکرایا۔ بچوں کی صحبت میں رہتے رہتے، کتابوں والے سرکی حسِ مزاح بہت بڑھ گئی تھی۔

    ’’ارے صاحب، یہ تو شیردہان ہے۔ کہتے ہیں جو عمارت، جو دکان حد یہ ہے کہ بسے بسائے مکانوں میں بھی جو کمرا یادالان شیر دہان ہو، وہ اپنے اندر کسی کو آباد نہیں ہونے دےگا، فلاح نہیں پانے دےگا۔ خود کھنڈربن جائےگا مگر بستی کو برداشت نہیں کرےگا۔‘‘

    خواجہ قسیم کو جواب دینے کی بجائے دل میں سوچ رہے تھے۔ تو کیا میری وہ پتلی لمبی گیلری نما دکان بھی ایک دم ہی شیر دہان ہو گئی ہے۔

    اگرچہ یہ دکان بھی سکول سے بہت فاصلے پر نہ تھی لیکن درمیانی سڑک پر گاڑیوں، بسوں اور ویگنوں نے ایک دم ہی تیز چلنا شروع کر دیا تھا۔ یا پھر یہ بات تھی کہ پہلے بچوں کے ہجوم اور غلغل میں ایسی باتوں پر نظر ہی نہ پڑتی تھی اور سکول کی اس قریبی گلی سے ان کی موجودہ گلی تک آنے میں دوزیبرا کراسنگز پڑتی تھیں جن کے سرے پروہ خود ہی آدھا آدھا گھنٹہ راہ کھلنے کے انتظار میں ہی کھڑے رہتے۔

    مسخری مسخری ہنستی ہوئی شکلوں، بندروں جیسی عادتوں والے، ساری دکان کی کتابیں بکھیر دینے والوں سے فراق کاسبب بن گئی تھیں، یہ تیز رفتار گاڑیاں اور مصروف راہیں۔ کچھ عرصہ تو دکان جمانے اور ٹھیک ٹھاک کرنے میں ہی گزر گیا۔ لیکن فرصت سے بیٹھنے کے بعد وہ چہرے، وہ شوخیاں بہت یاد آئیں، ملول سے رہنے لگے۔

    پھر ایک اور بات کا احساس ہونے لگا کہ اب بچوں کو سیکنڈ اور تھرڈ ہینڈ نصابی کتابوں سے دلچسپی نہیں رہی۔ نہ پرانا کورس دیتے ہیں، نہ لیتے ہیں، حالاں کہ سکول زیادہ دور نہ تھا۔ اب ان کوچونی دے کر کتابیں چاٹنے کا چسکا بھی نہ رہا تھا۔ حالاں کہ آتی دفعہ د کان کی تبدیلی اور نئی دکان کا پتہ چھپوا کر پرچے ان سکولوں میں تقسیم کر آئے تھے جہاں جہاں ان کی کتابیں جاتی تھیں۔

    پھر یہ محسوس ہونے لگا کہ اب کوئی چارلز ڈکنز، ہانس کرسچین اور کیٹس کو نہیں پوچھتا۔ شیکسپیئر اور برنارڈشا کی جِلدیں اپنی جگہ پر ٹھیک ٹھاک رہنے لگیں۔ کیا تو حلق سے نوالہ اتارنا مشکل تھا۔۔۔ کیا اتنی فرصت رہنے لگی کہ دکان کے بیچ وبیچ آرام سے چٹائی پھیلاکر اطمینان سے سوتے رہتے۔

    خواجہ قسیم کوجب بھی موقع مل جاتا، آ بیٹھتے۔ ادھر ادھر کی بات اور پھر وہی بات۔۔۔

    ’’یہ شیر دہان ہے۔‘‘

    ’’یہ چلےگی نہیں۔۔۔ وہ بھورے مرزا کا حال یاد ہے۔۔۔‘‘وہ کسی پاس بیٹھے سے گواہی حاصل کرنے لگتے۔ ’’بس مکھیاں ہی مارا کرتے۔ اونگھتے رہتے تھے، دکان میں بیٹھے۔ گھر والی نکل گئی تھی تنگ دستی سے گھبراکر۔ دس سال کا ایک لڑکا بھی۔ بس ایک دن تانگہ بلایا۔ لڑکے کی انگلی پکڑی۔ بکسا تانگے میں دھرا اور ایسی گئی کہ شکل نظر نہ آئی بھورے مرزا کو۔‘‘

    وہ اس قصے سے گھبرانے لگے۔

    ’’یار کوئی اور بات کرو۔۔۔ تمہاری باتیں سن کر برے برے خواب آتے ہیں۔ جیسے بڑے بڑے سیلاب آ رہے ہوں اور میری ساری کتابیں ان کی لہروں کے ساتھ بہی جا رہی ہوں۔‘‘

    تھوڑا وقت اور گزرا تو کورس کی پرانی کتابوں کے علاوہ انہوں نے وقت کی ضرورت سمجھ کر اردو کے رسالے، اردو کی کتابیں رکھ لیں۔ اونچی قسم کے افسانے، اعلیٰ درجے کی ناولیں، کلاسیکی شعراء کے مجموعے، نئی تنقیدیں، نئی شاعری۔ سب ہی کتابیں پرانی کتابوں کی صورت میں جمع کر لی تھیں۔

    بعض وقت وہ حیران ہو کر کہا کرتے تھے، ’’یہ ایسی کتابیں لوگ بیچ کس دل سے دیتے ہیں۔‘‘ وہ بھی الماری میں اپنی اپنی جگہ مقیم رہیں۔ اگر کوئی کبھی ہاتھ میں لے کر قیمت پوچھ لیتا تو لرز کر واپس رکھ دیتا، ’’پرانی کتاب اور اتنی گراں۔۔۔‘‘

    وہ بھی اب ذرا تیزی سے جواب دینے لگے تھے۔

    ’’دنیا بھر کی گراں چیزیں تو فخریہ خریدیں گے۔ مگر کتاب کہ جس میں لطافت خیال اور دانش کے موتی ہوں گے، دس پانچ کی بھی مہنگی لگتی ہے۔‘‘

    پھر وہ سمجھانے لگتے۔ ’’بھائی میں سستی کتاب اس لیے بیچتا تھا کہ پرانی کتابوں والے کوڑیوں کے مول بیچتے تھے میرے ہاتھ اوراب میں اتنی مہنگی خریدوں تو۔۔۔‘‘

    وہ رک جاتے۔ خیر چلو اب نیا تجربہ بھی کرتے ہیں۔ خیال میں آتا۔

    دکان میں جاسوسی ناولیں، رومانی رسالے اور ڈائجسٹ نظر آنے لگے۔ ان کے دو چار پچھلے ملنے والے جو زیادہ تر چونی دے کر پڑھتے، پھر راہ و رسم بڑھ جانے پر دکان میں بیٹھ کر فری مطالعہ کرنے لگے۔ دکان میں بیٹھ کرپڑھنے والوں کاان کے یہاں کوئی معاوضہ نہ تھا۔ وہ اعتراض کرتے۔

    ’’یہ کیا یار، کیا لاکر جمع کر لیا۔ ریڈر کا مذاق بگاڑ دوگے۔‘‘

    ’’یہ تمہارا قاری رہ کہاں گیا ہے۔ وہ تواب ناظر ہے۔ ناظر بس دیکھتا ہے۔‘‘

    کتابوں والے سرکی عادت نہ تھی کہ وہ کسی چیز کے تعارف سے گھبرائیں یا اسے ہدف ملامت بنائیں۔ یہی سبب تھاکہ انہوں نے کبھی وی سی آر یا وڈیو کو الزام نہ دیا۔ اگرچہ پہلو والی گلی میں ویڈیو گیمز کی دکان کھل چکی تھی اور بچوں کو اس درجہ متوجہ کرچکی تھی کہ چھٹی کے اوقات میں ادھر ہی امنڈتے تھے۔ وہ تو یہ کہا کرتے تھے، ’’ارے بھائی یہ تو مشینیں ہیں۔ یہ بھلا آدمی کا کیا بگاڑ سکتی تھیں۔ بھلا کیوں کر چڑ بیٹھیں وہ تو آدمی نے خود ہی اپنے آپ پر چڑھا لیا ہے ان کو بلکہ خود چڑھ بیٹھا ہے۔ ارے یہ مشینیں تو بڑی کام کی ہوتی ہیں۔ انسانی عظمتوں اور قوت تسخیر کا نشان۔۔۔ ان کو بھی غلط غلط طریقے پر استعمال کرکے ذلیل کر رکھا ہے۔‘‘

    جب سے کتابوں کی دکان پر بیٹھے پڑھا ہی کرتے تھے۔ ذرا وقت ملتا اور مطالعہ شروع ہو جاتا، اس لیے بےتکان بول لیتے تھے مگر عام حالت میں کم سخن ہی نظر آتے۔

    ان کو بڑی ناراضگی تھی۔ ’’یہ بہت ہی نیا آدمی اپنی مشینری سے کام نہیں لے رہا ہے۔ ان مشینوں کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔‘‘

    وہ ریڈرشپ کی کمی کا رونا بھی نہیں روتے تھے۔ کہا کرتے تھے، ’’یہ وقت کی آواز ہے۔۔۔ بس اب کتاب کا عہد ختم ہوا۔‘‘

    کسی نے ایک مرتبہ مشورہ دیاکہ علاوہ کتابوں کے کچھ کیسٹ وغیرہ رکھ لو۔ کچھ اور جنرل سٹور والا سامان لگا دیکھو۔

    غصہ تو آتا ہی نہ تھا۔ چیں بجیں بھی نہ ہوئے۔ پان چباتے چباتے بس اتنا کہا، ’’نہیں بھائی۔۔۔ ملوث نہیں کروں گا اس کام کو کسی دوسری چیز سے۔ کتاب تو بس کتاب ہے۔ اس کا ایک تقدس ہے۔‘‘

    بس ایسی ہی باتیں کرتے کرتے ڈاڑھی کڑبڑی ہوئی اور پھر بالکل ہی جھک سفید ہوئی۔

    بس ایک دفعہ ہی دکان پر بیٹھنا موقوف کر دیا۔ یہ بات نہیں، مر ے مرائے نہیں تھے۔ بس جیسے دل ہی مر گیا تھا۔

    بہت مہینے گزر گئے تو ایک نوجوان نے آکر دکان کا تالا کھولا۔ ترپالوں سے ڈھکے کتابوں کے بنڈل ریڑھیوں پر لدواکر کباڑیوں کے پتے دے کر بھیج دئیے۔ سب شیکسپیئر، برنارڈشا، موپاساں، دوستووسکی، چارلس ڈکنز۔۔۔ میر، غالب کے نسخے، سر سید کی آثار الصنادید، گھر بیٹھے دل کیسا داغ داغ ہوا ہوگا اس افتاد پر۔

    اس نوجوان نے دکان کو نئے سرے سے آراستہ کیا۔ مشہور مشروبات کے بورڈ آویزاں کیے، ایک ایک پر کیسٹ سجائے۔ ایک کاؤنٹر پر کافی کی بوتل، پیالیاں اور پرکیولیٹر دھرا۔ کہتے ہیں دکان تھوڑی تھوڑی رینگنے سی لگی، پھر خود کبھی ادھر نہ آئے۔

    ایک مرتبہ خواجہ قسیم کو مل گئے تھے، راستے میں۔ کہنے لگے، ’’میاں، تم کہتے تھے یہ دکان شیر دہان ہے۔ میں کہتا ہوں یہ وقت شیر دہان ہے۔ لینے نہیں دے رہا ہے کسی کو۔ کسی کی آبادکاری پسندنہیں آ رہی ہے اس کو۔۔۔

    تخریب کاریاں۔۔۔ سازشیں۔۔۔ ریشہ دوانیاں۔۔۔ جنگوں کی دھمکیاں۔۔۔ خون ریزیاں، یہ سب کیا ہیں۔ آبادکاری کے نقشے مٹانے اور بستیوں کو کھنڈر بنانے کے آثار۔

    خواجہ قسیم میری مان لو۔۔۔ دکانیں نہیں، یہ وقت شیر دہان ہے۔

    کتاب جیسی معصوم شے کو بھی کھا گیا، مٹا دیا۔۔۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے