Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شیشے کا گھر

دیپک کنول

شیشے کا گھر

دیپک کنول

MORE BYدیپک کنول

    رحمت اللہ کشمیر کے ایک دور افتادہ علاقے پلوامہ کا رہنے والا تھا۔ گردش ِ روزگار اسے سری نگر لے آیا تھا۔ وہ محکمہ ٹرانسپورٹ کے ہیڈ آفس میں کلرک کی نوکری کرتا تھا۔ چونکہ وہ ٹرانسپورٹ محکمے کا ملازم تھا اسلئے وہ سرکاری بسوں کی مفت سواری کرتا تھا۔ وہ صبح پلوامہ سے آتا تھا اور چاربجنے سے پہلے اس کے ساتھی اسے کام سے فارغ کر دیتے تھے تا کہ وہ شام کی بس پکڑ سکے۔ انہیں اس بات کا بخوبی احساس تھاکہ اگر وہ جلدی نہ نکلا تو اُس کی بس چھوٹ جائےگی اور پھر اسے رات یہیں بتانی پڑےگی۔ بسا اوقات ایسا ہوا کہ جب وہ بس اڈے پر پہنچا تو بس نکل چکی تھی۔ اسے یا تو کسی مسجد میں رات بتانی پڑتی یا اسے کسی ساتھی کے گھر میں ٹھہر جانا پڑا۔

    وادی میں شورش کی ابتدا کیا ہوئی کہ رحمت اللہ کا ٹائم ٹیبل ہی چوپٹ ہو گیا۔ اب دیر سے بسیں چلنی بند ہو گئیں۔ حالات ایسے ہو گئے کہ رحمت اللہ ہر دن گھر سے سر پر کفن باندھ کے نکلتا تھا۔ کبھی کرفیو، کبھی ہڑتال، کبھی کریک ڈاون تو کبھی مسلح تصادم۔ رحمت اللہ کی جان آفت میں پڑ گئی تھی۔ وہ مالی لحاظ سے کافی کمزور تھا۔ زمین جائیداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ بس ایک بوسیدہ سا مکان تھا اور اُس سے لگا ساگ زار۔ یہی اس کی کل جائیداد تھی۔ ایسے میں اگر نوکری چھوٹ جاتی تو اس کے بچے بھوکوں مر جاتے۔ یار دوستوں اور سنگی ساتھیوں نے یہی مشورہ دیا کہ وہ پلوامہ سے جتنی جلدی ہو سکے نقل مکانی کرے اور یہاں سری نگر میں کہیں کرایہ کا مکان لے کر رہے۔ اس نے ساتھیوں کے مشورے سے اتفاق کیا اور ان کی ہی مدد سے کرن نگر کے اس علاقے میں منتقل ہوا۔ یہاں آکر سر سے گویا خوف کی تلوار ہٹ گئی۔ وہ صبح گھرسے نکلتا تھا اور پیدل دفتر پہنچ جایا کرتا تھا۔ کبھی مہینے میں ایک آدھ بار اپنے گھر کی ٹوہ لینے گاوں جاتا تھا اور وہاں ایک رات بتا کر دوسرے دن واپس چلا آتا تھا۔

    حالات دن بہ دن ابتر ہوتے جا رہے تھے۔ اب پیش گو بھی حالات کی متلون مزاجی کے آگے ہار مان چکے تھے کیونکہ پل پل میں حالات بدل جاتے تھے۔ ایسے میں کسی پیشگو کے لئے پیشن گوئی کرنا آسان نہ رہا تھا۔ رحمت اللہ یہاں آکے خوش نہیں تھا۔ اسے رات کو سوتے ہی اپنا گھر، اپنے کھیت کھلیان، اپنی چراگاہیں اور اپنا اڑوس پڑوس یاد آجا تاتھا اور وہ بن آب ماہی کی طرح تڑپنے لگتا تھا۔ بچے بھی اپنے ساتھیوں کو یاد کرتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہاں کے ماحول میں اپنے آپ کو ڈھال نہیں پایا تھا۔ وہ سویرے گھر سے نکلتا۔ شام کو جب لوٹتا تھا تو کسی سے ملنے جلنے کی بجائے اپنے آپ کو گھر کی چار دیواری میں قید کرکے رکھ دیتا تھا۔ اسے یہاں آئے ہوئے تین مہینے سے زیادہ ہو چکے تھے مگر ان تین مہینوں میں وہ صرف دو تین لوگوں کو ہی جان پایا تھا۔ ان جان پہچان والوں میں میں ایک پنڈت تھا جس کا مکان رحمت اللہ کے مکان کے ٹھیک سامنے تھا۔ یہ پہچان بھی گھر کے باہر ہوئی تھی۔ کبھی دونوں اطراف میں سے کسی ایک نے ایک دوسرے کے گھر میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی۔ دراصل لوگ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔ ایسا پہلے نہیں تھا۔ گھروں کے دروازے ایک دوسرے کے لئے صدا کھلے رہتے تھے۔ حالات نے اعتماد کی فضا کو اس حد تک مکدر کر دیا تھا کہ لوگ گھروں کے دروازے ایک پل بھی کھلے نہیں چھوڑتے تھے۔ طر فہ یہ کہ لوگ تو اب اپنے سایے سے بھی خوف کھانے لگتے تھے۔

    رحمت اللہ کا مالک مکان بڑا ہی نیک اور پارسا آدمی تھا۔ وہ مہینے میں ایک بار کرایہ لینے آ جاتا تھا۔ باقی کے انتیس دن وہ بھولے سے بھی یہاں کا رخ نہیں کرتا تھا۔ اتنی آزادی کے باوجود رحمت اللہ اس مکان میں خوش نہیں تھا۔ ہر پل اسے یہی احساس ہوتا تھا کہ وہ کسی اور کے گھر میں رہ رہا ہے۔ وہ جو اپنے گھر کے ہونے کا ایک لطیف سا احساس ہوتا ہے اس کے اندر کاوہ احساس ہی مر چکا تھا۔ وہ بہت دنوں سے اس تلاش میں تھا کہ اسے اسی علاقے میں کوئی جگہ مل جائے جہاں پر وہ اپنا آشیانہ تعمیر کر سکے۔ اس نے کئی دلالوں سے بات کی۔ کئی سارے مکان دیکھے۔ بیل منڈھے چڑھی نہیں۔ کہیں قیمت زیادہ تھی تو کہیں جگہ کم تھی۔ تین مہینے سے یہی سلسلہ چل رہا تھا۔

    اس کے سامنے والے مکان میں جو پنڈت رہتا تھا اس کا نام پشکر ناتھ تھا جو کہ محکمہ مال میں ملازم تھا۔ وہ اسے کبھی آتے جاتے مل جاتا تھا۔ اس کے گھر میں اور کتنے لوگ رہتے ہیں، نہ اس نے کبھی جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی پشکر ناتھ نے اسے بتانے کی ضرورت سمجھی۔ وہ سڑک پر جب کبھی ملتے تو ہائے ہیلو کرکے نکل جاتے تھے۔

    جب حالات انتہائی ابتر ہو گئے تو کشمیری ہندوں نے ایک ایک کرکے نقل مکانی شروع کی۔ پشکر ناتھ بھی اپنے آپ کو غیرمحفوظ محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ اسلئے رکا تھا تاکہ کوئی مل جائے جس کے ساتھ مکان کا سودا ہو جائے۔ اورکوئی و قت ہوتا تو اسے اس مکان کے عوض اچھے خاصے پیسے مل جاتے مگر حالات ایسے تھے کہ وہ اس بات کی بھنک بھی کسی کو لگنے نہیں دینا چاہتا تھا کہ وہ یہاں سے جا رہے ہیں۔ بیشتر ہندوں نے اپنے پیچھے سب کچھ چھوڑ دیا تھا اوروہ آگے ہاتھ اور پیچھے پات لے کے بھاگے تھے۔ پشکر ناتھ یہ بات بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ جو یہاں سے بھاگ کر جموں میں پناہ لے کے بیٹھے ہیں وہ بڑی کسمپری کی حالت میں جی رہے ہیں۔ اس لئے وہ اونے پونے داموں میں ہی گھر فروخت کر کے نکل جانا چاہتا تھا تاکہ اسے جموں میں دھکے کھانے نہ پڑیں۔ اُسے اس بات کی آگہی تھی کہ رحمت اللہ بہت دنوں سے ایک مکان کی تلاش میں ہے۔ وہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ رحمت اللہ ہی وہ واحد انسان ہے جس پر وہ بھروسہ کر سکتا ہے کیونکہ وہ یہاں کا نہیں تھا۔ وہ گاوں سے یہاں آیا تھا اور اس کا میل جول بہت کم لوگوں سے تھا اس لئے وہ ایک رات گھر میں کسی کو کچھ بتائے بنا دبے قدموں کے ساتھ نکلا اور کوچہ پار کرکے رحمت اللہ کے گھر کے باہر کھڑا ہو گیا۔ رحمت اللہ سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ اس کا ماتھا ٹھنکا۔ من میں طرح طرح کے وسوسے سر اُٹھانے لگے۔ یہ وہ دور تھا جب رات کو دروازے پر دستک موت کی دستک سے تعبیر کی جاتی تھی۔ رحمت اللہ نے ایک پل کچھ سوچا اور دوسرے پل وہ ہمت کرکے اٹھا اور اس نے دروازہ کھولا۔ سامنے پشکر ناتھ کھڑا تھا۔ اُسنے اطمینان کا سانس لے کر اُسے اندر آنے کے لئے کہا۔ وہ اندر آکے ایک پلاسٹک کی کرسی پر آکے بیٹھ گیا۔ رحمت اللہ نے پوچھا۔

    ”پہلی بار میرے اس غریب خانے پر آئے ہو اس لئے بتاو کیا پیوگے؟“

    ”میں اس وقت یہاں کھانے پینے نہیں بلکہ تم سے ایک کام کی بات کرنے آیا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تم بہت دنوں سے کسی مکان کی تلاش میں ہو۔“

    ”ہاں یہ سچ ہے کہ میں بہت دنوں سے ایک مکان ڈھونڈ رہاہوں۔ اب کرایے کی مکان میں رہنے کو دل نہیں کرتا“

    ”میں اپنا مکان بیچ کے جا رہا ہوں۔ تم خریدو گے کیا؟“

    ”بھائی تمہارا مکان خریدنے کی حثیت نہیں ہے مجھے۔ تم بیس تیس لاکھ مانگو گے۔ میرے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے؟“

    ”تم بتاو تم کتنا دے سکتے ہو؟“

    ”سچ بتاوں کہ میں اب تک مکان کیوں نہیں خرید سکا۔ میرا کل بجٹ جو ہے وہ تین لاکھ روپے ہیں۔ میں اگر کہوں کہ مجھے تین لاکھ میں اپنا مکان بیچوگے تو تم مجھے گالیاں دے کے چلے جاوگے؟“

    پشکر ناتھ چند لمحے خاموش رہا۔ جس مکان کی مالیت تیس پنتیس لاکھ تھی وہ اس مکان کو کسی بھی قیمت پر بیچنا چاہتا تھا کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ کوئی بھی اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرےگا۔ اس نے سوچا کچھ نہ ملنے سے بہتر ہے کہ جو مل رہا ہے وہی لے کے چلا جائے۔ کیا پتا کہ پھر کبھی یہاں آنا نصیب ہوگا کہ نہیں۔ اس نے بھاری من سے کہا، ”میں مجبور نہ ہوتا تو تین لاکھ میں اپنے مکان کی بالا دری بھی نہ بیچتا۔ کیا کروں اس وقت ہماری جان پر بن آئی ہے۔ آج ہیں پتا نہیں کل ہونگے بھی کہ نہیں اس لئے مجھے تین لاکھ میں یہ سودا منظور ہے“

    رحمت اللہ پر جیسے شاد مرگی کا دورہ پڑ گیا۔ وہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ جو بات وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا، وہ بات حقیقت بنتی جا رہی تھی۔ اتنا بڑا گھر اسے اتنے سستے داموں میں ملنے جا رہا تھا۔ اُسنے اپنی خوشی چھپاتے ہوئے پشکر ناتھ سے کہا، ”ابھی کتنا چاہے؟“

    ”اگر تم مجھے ابھی ایک لاکھ دے سکتے ہو تو میں آج ہی یہ گھر خالی کر دوں گا۔ باقی کے پیسے لے کے تم جموں چلے آنا۔ ہم وہیں پر کاغذات بنوا لیں گے۔ تم کاغذات لے جانا اور مجھے باقی کے دو لاکھ دے جانا“

    رحمت اللہ نے اسے بیٹھنے کے لئے کہا۔ وہ اندر والے کمرے میں چلا گیا اور وہاں سے ایک لاکھ روپے لے کے آ گیا۔ بیوی نے کچھ پوچھنا چاہا۔ اس نے اس کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ وہ ایک بوسیدہ ٹرنک میں سے نوٹ نکال کر باہر چلا گیا اور پھر پشکر ناتھ کے ہاتھوں میں نوٹوں کی گڑیا تھماتے ہوئے وہ بولا۔

    ”تم اس گھر میں جب تک چاہو رہ سکتے ہو۔ بخدا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا“

    ”اگر یہاں رہنا ہی ہوتا تو میں اتنے سستے میں تم سے گھر کا سودا کیوں کرتا۔ یہاں اب ہمارے لئے زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ میری برادری کے بیشتر لوگ یہاں سے نقل مکانی کرکے چلے گئے ہیں۔ میں اس اُمید کے ساتھ یہاں بیٹھا تھا کہ آج نہیں تو کل حالات سدھر جائیں گے مگر حالات تو بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اب یہاں پھر سے وہ پہلی جیسی شانتی بنی رہے گی اسلئے ہم نے آج آدھی رات کو یہاں سے چلے جانے کافیصلہ کیا ہے۔“ کہتے کہتے اس کی آواز بھر آئی۔ رحمت اللہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا

    ”ہم کون سے سلامت ہیں یہاں میرے بھائی۔ ہم بھی پلوامہ چھوڑ کے یہاں چلے آئے۔ جہاں انسان اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرے اس جگہ کو چھوڑنا ہی میرے حساب سے دانشمندی ہے۔ تم تو جموں جاکے محفوظ ہو ہم تو نہ وہاں اور نہ ہی یہاں محفوظ ہیں۔“

    ”میں اس وقت عجلت میں ہوں۔ میں جانے سے پہلے تمہیں گھر کی چابی دے کے جاوں گا۔ جتنی جلدی ہوسکے مجھ سے گھر کے کاغذات لے کے جانا۔ اس زندگی کا کیا بھروسہ۔“

    ”اس وقت تم اپنے بارے میں سوچو۔ میں کبھی بھی آکے کاغذات لے جاوں گا۔ مجھے تم پر پورا پورا بھروسہ ہے“

    کہہ کر وہ پشکر ناتھ کے گلے ملا۔ پشکر ناتھ قدرے جذباتی ہو گیا۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں اور وہ اپنی آنکھیں پونچھتا ہوا چلا گیا۔

    رحمت اللہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اس کی مراد اتنی جلدی پوری ہو جائےگی یہ اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ اس نے پشکر ناتھ کا گھر اندر سے تو نہیں دیکھا تھا البتہ باہر سے وہ ہر روز اس مکان کو دیکھتا تھا۔ بہت ہی بڑا اور خوبصورت مکان تھا۔ صحن بہت بڑا تھا۔ چھت بھی ٹین کی تھی۔ اس نے اندازہ لگایا کہ اس مکان میں کل ملا کر آٹھ دس کمرے ہونگے۔ رات کے دو بجے پشکر ناتھ نے روتے روتے اسے گھر کی چابیاں تھما دیں اور پھر وہ سسکتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ اس نے پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھا۔ رحمت اللہ خوشی سے اس قدر شرابور تھا کہ پشکر ناتھ کی آہیں اور آنسو نہ اسے سنائی دئے اور نہ دکھائی دئے۔ وہ رات بھر مارے خوشی کے سو نہیں پایا۔

    اگلی صبح جب وہ نیند سے بیدار ہوا تو سب سے پہلے وہ گھر سے نکل کر مکان کا جائزہ لینے نکلا۔ گھر کے دروازے پرآہنی تالا لگا تھا۔ اس نے جیب میں پڑی چابیوں کو چھو کر دیکھا کہ کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہا ہے۔ جب اسے اطمینان ہو گیا تووہ سینہ تان کے مکان کے سامنے کھڑا ہو گیا اور بہت دیر تک اس مکان کو باہر سے ہی نہارنے لگا۔

    مکان میں داخل ہونے سے پہلے وہ کسی مولوی سے قران شریف کی تلاوت کرانا چاہتا تھا۔ یہ مکان اب اس کا متقل گھر بننے جا رہا تھا اس لئے اس میں مذہبی رسومات کے ساتھ جانا ہی وہ سود مند سمجھتا تھا۔ ایک دوروز ایک مولوی کو ڈھونڈنے میں نکل گئے۔ تیسرے روز ایک مولوی ملا۔ اس نے ہزار روپے مانگے۔ ساتھ ہی یہ تاکید کی کہ وہ تلاوت سے پہلے گھر کی پوری صفائی کر وا کے رکھے۔ رحمت اللہ نے مولوی کی ہر تجویز کو لبیک کہا اور اسے پانچ سو ایڈ وانس دے کر وہ فرحان و شاداں گھر کی جانب چل پڑا۔

    رات بہت ہو چکی تھی اس لئے وہ جلدی سے کھانا کھا کے سو گیا۔ سونے سے پہلے اسنے بیوی سے تاکید کرکے رکھی کہ وہ صبح نہ صرف خود جلدی اٹھے بلکہ بچوں کو بھی نیند سے اٹھالے کیونکہ اتنے بڑے مکان کی صفائی اس کے اکیلے کی بس کی بات نہیں بلکہ سب مل جل کر ہی یہ کام کر پائیں گے۔ یہ کہہ کر وہ رضائی لے کے لیٹ گیا۔ صبح چار بجے کے قریب رحمت اللہ کی بیوی نے سب کو جگایا۔ چائے اس نے پہلے سے ہی چولھے پر چڑھا کے رکھی تھی۔ بچے ابھی تک ننداساکے عالم میں تھے۔ وہ چاہ کر بھی اپنی آنکھیں کھول نہیں پا رہے تھے۔ رحمت اللہ نے انہیں ہلایا ڈھلایا۔ تب جاکے ننداسا کے عالم سے باہر آ گئے اور جاکر منہ دھونے چلے گئے۔

    صبح پانچ بجے کے قریب یہ گھر سے جھاڑو اور پونچھا لے کے نکلے۔ رحمت اللہ سب سے آگے تھا۔ پیچھے پیچھے اس کے تین بچے اور بیوی تھی۔ اس نے جیب میں سے چابی نکال کر تالا کھولا۔ پھر وہ سب دروازہ کھول کے مکان کے اندر داخل ہو گئے۔ اندرکی سجاوٹ دیکھ کے وہ بلیوں اُچھل پڑے۔ گھرمیں سب کچھ جوں کا توں پڑا تھا۔ قیمتی صوفے۔ عمدہ غالیچے۔ کھڑکیوں پر خوبصورت پردے۔ رحمت اللہ خوشی سے دوہرا ہوئے جا رہا تھا۔ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ تین لاکھ روپے میں اسے اتنا عالیشان گھر ملا تھا۔ وہ بے صبری سے ایک ایک چیز ٹٹول کے دیکھنے لگا۔ پھر وہ کمرے گننے لگا۔ نیچے کے کمرے گنتے گنتے جب وہ پہلی منزل چڑھا تو دائیں جانب جو بیڈروم پڑتا تھا اس میں قدم رکھتے ہی اُسکی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے ہی رہ گئی۔ بیڈ پر ایک ضعیف آدمی لیٹا کراہ رہا تھا۔ جونہی اس بوڑھے نے رحمت اللہ کو دیکھا وہ ہڑبڑا کے چلانے لگا، ”کون ہو تم۔ بنا بتائے تم میرے گھر میں داخل کیسے ہو گئے؟“

    رحمت اللہ بدحواس ہو کے ادھر ادھر دوڑنے لگا اور پھر اس کے سامنے ہاتھ جوڑکر اسے چپ کرانے کی کوشش کرنے لگا۔

    ”کاکا میں کوئی چور نہیں، سامنے والے گھر میں رہنے والا آپ کا پڑوسی ہوں۔ میرا نام رحمت اللہ ہے۔ آپ باہر جاکے کسی سے پوچھ لو۔ خدا کی قسم میں سچ بول رہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ تین دن پہلے پشکر ناتھ مجھ سے اس مکان کا سودا کرکے گیا۔ شاید وہ آپ کا بیٹا ہے۔ پیشگی کے طور اس نے مجھ سے ایک لاکھ روپے بھی لئے۔“

    رحمت اللہ کی بات سن کر وہ بڑھا غصے سے اوپر نیچے ہونے لگا۔ اس نے بپھرے ہوئے انداز میں رحمت اللہ سے کہا”وہ اس گھر کا سودا کرنے والا کون ہوتا ہے۔ اس گھر کا مالک میں ہوں۔ میرے جیتے جی وہ اس گھر کو کیسے بیچ سکتا ہے۔ جاو چلے جاو یہاں سے۔ دوبارہ میرے گھر میں بھولے سے بھی قدم رکھنے کی کوشش مت کرنا میں ریٹائرڈ پولیس افسر ہوں۔ نام ہے میرا دوارکا ناتھ۔ ایک ٹیلی فون کروں گا نا تو ابھی تم کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ اب دفا ہو جاو یہاں سے۔ دوبارہ مت آنا“

    رحمت اللہ کا جی بیٹھا جانے لگا۔ جو خوشی چند لمحے پہلے اس کے دل میں ہلورے ماررہی تھی وہ خوشی ایک دم غائب ہو گئی اور وہ ایسے کھڑا رہا جیسے اسے لقوہ مار گیا ہو۔ اس کے چہرے پر مردنی چھا گئی۔ اُسے کوئی جواب سوجھ نہیں رہا تھا۔ اُسے لگ رہا تھا جیسے سر منڈھاتے ہی اولے پڑگئے ہوں۔ پشکر ناتھ تو ایک لاکھ روپے لے کے نکل گیا تھا۔ اس کے پاس نہ کوئی دستاویز نہ کوئی گواہ تھا۔ وہ لوگوں کوکیسے یقین دلاتا کہ اس نے اس گھر کا تین لاکھ میں سودا کیا ہے۔ کوئی اس کی بات کا اعتبار ہی نہیں کرتا۔ لاکھ تو خاک ہو گیا تھا ساتھ میں اُسے لینے کے دینے پڑ جاتے کہ وہ زبردستی کسی کے مکان پہ قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا دل ڈولنے لگا۔ برسوں سے پائی پائی جوڑ کر اس نے جو رقم جمع کی تھی وہ یوں چلی گئی تھی جیسے کوئی اس کی جیب کاٹ کے لے گیا ہو۔ وہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے نیچے آ گیا اور اپنے بچوں اور بیوی کو لے کر تیزی سے مکان سے نکل گیا۔ اس کی بیوی اس کے اس اچانک برتاو سے سناٹے میں رہ گئی۔ جب وہ اپنے گھر پہنچے تو اس نے دیکھا کہ اس کے شوہر کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ اس نے بڑی ہمت کرکے اس سے پوچھا۔

    ”کیا ہوا۔ تم تو کہہ رہے تھے کہ تم نے اس مکان کا سودا کیا پھر تم صفائی بیچ میں ہی چھوڑ کے ہمیں وہاں سے کیوں لے آئے؟“

    وہ روہانسا ہوکے بولا، ”ہمارے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہوا ہے۔ پشکر ناتھ کا باپ زندہ ہے اور وہ اس مکان میں موجود ہے۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کے بیٹے نے اس سے پوچھے بنا اس مکان کا سودا ہمارے ساتھ کیا ہے۔ اگر ہم کچھ دیر اور رکتے اور وہ بڑھا چلاتا کہ یہ لوگ مجھے مارنے آئے ہیں تو کوئی ہماری نہیں سنتا۔ لوگ ہمیں پیٹ پیٹ کے مار ڈالتے۔“

    ”مرے پر سودرے۔ ہماری خون پسینے کی کمائی وہ پنڈت لے گیا اور ہمیں چھوڑ گیا سر پیٹنے کے لئے۔ میں نے کتنی بار تمہیں سمجھایا کہ لالچ مت کیا کرو۔ دیکھا لالچ کرنے کا نتیجہ۔ بڑے پھدک رہے تھی کہ ہماری تقدیر کھل گئی۔ تیس چالیس لاکھ کا مکان تین لاکھ میں مل گیا۔ تقدیر کھلی نہیں بلکہ بگڑ گئی۔ وہ کہتے ہیں نا نصیبوں کے ملیا پکائی کھیر ہو گیا دلیا۔ اب کس کے آگے فریاد کروگے۔ کسے اپنا دکھڑا سناو گے؟“

    رحمت اللہ سر جھکائے بیوی کی جلی کٹی سن رہا تھا۔ غلطی اسی کی تھی۔ اس نے عجلت میں بغیر کسی سے کوئی صلاح مشورہ کئے یہ سودا کیا تھا۔ کسی کو گواہ بھی نہیں بنایا۔ چپ چاپ پشکر ناتھ کے ہاتھ میں ایک لاکھ روپے تھما دیا۔ یہ بھی پتا نہیں کیا کہ یہ مکان کس کے نام پر ہے۔ باپ کے ہوتے ہوئے پشکر ناتھ مکان بیچنے کا مجاز تھا ہی نہیں۔ اب یہ بڑھا کب مرےگا۔ کب پشکر ناتھ کے نام پر یہ گھر منتقل ہوگا۔

    دودن اس نے بڑے قلق و اضطراب میں گزارے۔ بس اندر ہی اندر روتا اور آہیں بھرتا رہا۔ کسی کے ساتھ اپنا دکھ نہیں بانٹا۔ سوچا کہ جس کو بھی اپنی کہانی سناوں گا وہی مذاق اڑائےگا۔ کوئی درد کا مداوا ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کرےگا بلکہ زخم کو ہی کریدےگا اس لئے اس نے کسی کو نہ بتانا ہی مناسب سمجھا۔ وہ ایک ڈراونے خواب کی طرح اس بات کو بھولنے کے بڑے جتن کرنے لگا مگر لاکھ روپے کو بھولنا اتنا آسان نہ تھا۔ جب بھی روپے کی یاد آ جاتی تھی تو جی لہو لہو ہو جاتا تھا۔

    اس واقعے کے بعد اس کے گھر میں ماتم کا ساماحول تھا۔ اس کی بیوی سارہ تو بس رات دن آنسو بہاتی اور پشکر ناتھ کو کوسنے دیتی رہتی تھی۔ اس کا ماننا تھا کہ پشکر ناتھ نے انہیں ٹھگا تھا۔ وہ اس بڑھے کی موت کی دعائیں مانگنے لگی تھی کہ یہ بڑھا جلدی سے اس دنیا سے اٹھ جائے اور ان کی کشتی کنارے لگ جائے۔ ایک دن رحمت اللہ جب دیر سے گھر لوٹا تو پشکر ناتھ کے مکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے اسے دوارکا ناتھ کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔ وہ ٹھٹھک کے رک گیا۔ ایسا لگا جیسے زمین نے پیر پکڑ لئے ہوں۔ وہ اس بڑھے کو دیکھے یا نہ دیکھے وہ چند لمحے اسی کشمکش میں مبتلا رہا۔ جس طرح وہ اس سے اس دن پیش آیا تھا اسے یاد کرکے وہ سہم گیا۔ تھوڑی دیر بعد اُسنے ہمت کرکے مکان کے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ جب کمرے میں پہنچا تو دیکھا کہ دوارکا ناتھ درد کی شدت سے تڑپ رہا تھا۔ وہ اُس بزرگ کے سرہانے بیٹھ کر اُس سے بڑے اپنایت بھرے لہجے میں پوچھنے لگا۔

    ”میں آپ کے گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ میں نے آپ کے کراہنے کی آواز سنی۔ رہا نہیں گیا اندر چلا آیا۔ مجھے غلط مت سمجھنا۔ کیا بہت درد ہو رہا ہے؟“

    ”ہاں۔ میرے پیٹ میں السر ہے۔ دو دو بیٹوں کے ہوتے ہوئے میں اس بیماری کا ٹھیک ڈھنگ سے علاج نہ کرا سکا کیونکہ میں سہارے کے بنا کھڑا نہیں ہو سکتا ہوں۔ میں پچھلے ایک سال سے اس بسترپر پڑ اہوں اور بال بچوں کے ہوتے ہوئے بھی اناتھ کی طرح جی رہاہوں۔ ایک توپہلے ہی گھر کے چھوڑ کے چلا گیا تھا۔ دوسرا اپنے عیال کو لے کے جموں چلا گیا۔ مجھے یہاں چھوڑ دیا مرنے کے لئے۔ پچھلے آٹھ دن سے اکیلا ہوں۔“ کہہ کر وہ سبکنے لگا۔ رحمت اللہ نے اسے تسلی دیکر کہا۔

    ”یہ مت سوچو کہ آپ کا کوئی نہیں۔ جن کا کوئی نہیں ہوتا، ان کا خدا ہوتا ہے۔ آپ بیمار ہو۔ چلئے میں آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے کے جاتا ہوں“

    ”جب میرے بچے مجھے یہاں مرنے کے لئے اکیلے چھوڑ گئے تم کیوں میرے غمخوار بننا چاہتے ہو۔ کہیں تم مجھ سے ہمدردی جتا کر میرا یہ مکان ہتھیانا تو نہیں چاہتے؟“

    اس کے جی میں آیا کہ کہہ دے۔ ہاں میں اسی لئے یہ سب کچھ کر رہا ہوں تاکہ میں یہ مکان اپنے نام کر سکوں کیونکہ تمہارے بیٹے نے اس مکان کا سودا مجھ سے کیا ہے۔ اس سودے کے بیچ تم آڑے آ رہے ہو اور جب تک تم ٹلوگے نہیں یہ مکان میرا ہو نہیں پائےگا اور میں یونہی درد کے انگاروں پر سلگتا رہوں گا۔ پر وہ یہ سب کہہ کر اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنا نہیں چاہتا تھا۔ اس معاملے میں وہ ماہر کھلاڑی تھا۔ اس نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔

    ”یہ مت سوچنا کہ یہ سب کچھ میں اپنے غرض کے لئے کر رہا ہوں۔ میں یہ سب کچھ انسانیت کے ناتے کر رہا ہوں۔ ایک انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ میں نے اپنے والد کو بچپن میں کھو دیا تھا۔ آج اگر تمہاری جگہ وہ ہوتے تو کیا میں انہیں ڈاکٹر کے پاس لے کے نہیں جاتا۔ اب میں تمہاری کوئی بات نہیں سنوں گا۔ اٹھو میرا ہاتھ تھام لو۔ میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کے جاتا ہوں۔“

    رحمت اللہ کی باتیں سن کر دوارکا ناتھ بچے کی طرح بلک بلک کے رونے لگا۔ اس کے بچوں نے اسے بوجھ سمجھا تھا اس لئے وہ اس سے دور بھاگتے تھے۔ یہ تو اس کا کچھ بھی نہیں لگتا تھا پھر بھی اس سے پیار جتا رہا تھا۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے کے جا رہا تھا۔ وہ اس کا سہارا لے کے کھڑا ہو گیا۔ رحمت اللہ اسے ایک آٹو میں بٹھا کر پاس ہی کے ایس ایچ ایم اسپتال میں بھرتی کراکے آگ یا۔ اس کی حالت دیکھ کر یہی لگ رہا تھا کہ وہ زیادہ دن جی نہیں پائے گا اس لئے وہ اسے اسپتال میں پھینک کے آ گیا تھا۔

    سارہ بھی رو رو کر خدا سے یہی دعا مانگ رہی تھی کہ اس بڑھے کو جلدی اٹھا لے۔ رحمت اللہ اپنے دماغ میں نئے نئے منصوبے بھنتا جا رہا تھا۔ اس نے ایک عرضی نویس سے دوارکا ناتھ کی ایک وصیت تیار کروالی جس میں یہ لکھا تھا کہ اس نے یہ مکان رحمت اللہ کو بیچ دیا تھا۔ اب وہ موقع کی تاک میں تھا کہ کسی نہ کسی طرح وہ دوارکا ناتھ کا دستخط اس وصیت پر لے سکے۔ وہ روز اسے اسپتال دیکھنے اس لئے چلا جاتا تھا کہ کسی نہ کسی بہانے دوارکا ناتھ کے دستخط اس کاغذ پر لے سکے۔ ایک دن جب وہ غنودگی کے عالم میں تھا اس نے دوارکا ناتھ کے ہاتھ میں قلم تھما د یا اور اسے اس کاغذ پر دستخط کرنے کے لئے کہا۔ دوارکا ناتھ نے غنودگی کے عالم میں ہی اس کاغذ کو پڑھا اور پھر وہ کاغذ دستخط کئے بنا اسے لوٹا دیا۔ اس معاملے میں تو وہ اس سے بڑا گھاگ تھا۔ اس نے اس کے سبھی منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔

    سارہ روز اپنے شوہر سے پوچھتی، ”ابھی اور کتنے دن یہ بڑھا جینے والا ہے؟“

    رحمت اللہ سارہ کو خو ش کرنے کے لئے کہتا، ”ہفتے عشرے میں اسے بلاوا آنا چاہے۔ ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ اسے کینسر ہو چکا ہے۔ وہ ایک آدھ مہینے سے زیادہ جی نہیں پائےگا۔ ہمیں ایک آدھ مہینہ انتظار کرنا ہوگا“

    وہ پندرہ روز تک اس اسپتال میں زیر علاج رہا۔ رحمت اللہ اپنا کام دام چھوڑ کے اس کی تیمار داری میں لگا رہا۔ وہ اس بڑھے کو کسی بھی طرح اپنا گرویدہ بنا لینا چاہتا تھا تاکہ وہ خوشی خوشی یہ گھر اسے سونپ کے جائے۔ پندرہ روز کے اندر رحمت اللہ نے اسے پوری طرح شیشے میں اتار دیا تھا۔ وہ بات بات پہ اسی کے قصیدے پڑھتا رہتا تھا۔ اپنی اولاد کو تو وہ بھول چکا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر فقط رحمت اللہ کا نام تھا۔ پندرہ روز بعد جب وہ پوری طرح روبہ صحت ہو گیا تو اسے اسپتال سے چھٹی ملی۔ رحمت اللہ اسے گھر لے آیا۔

    سارہ نے جب اسے آٹو سے اترتے دیکھا تو اس کی چال دیکھ کے وہ ٹھٹھک کے رہ گئی۔ وہ تو اس کی موت کی خبر سننے کے لئے بے چین تھی یہ تو چست و درست ہوکے لوٹا تھا۔ پہلی بار اس نے اپنے شوہر کو من ہی من میں خوب کو سنے دئے۔ جب وہ اسے اپنے گھر میں چھوڑ کے آیا تو سارہ اس پر برس پڑی۔

    ”تو تو کہہ رہا تھا کہ اسے کنسر ہو چکا ہے اور یہ ہفتہ پندرہ دن سے زیادہ جینے والا نہیں مگر اس کی چال دیکھ کے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ اتنی جلدی ٹلنے والا نہیں؟“

    ”ارے میں کوئی نعوذ باللہ خدا ہوں کہ کہہ دیا کہ یہ دس دن میں مرےگا تو دس دن میں ہی مرنا چاہے۔ زندگی لینا اور دینا اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک اس کا آب و دانہ ہوگا تب تک یہ جی لےگا۔ اسمیں نہ تیری دعائیں اور نہ ہی میری تدبیریں کوئی کام کر پائیں گی۔“

    سارہ روہانسی ہو کر کچن میں چلی گئی اور وہیں پر بیٹھ کر چپکے چپکے آنسو بہاتی رہی۔

    دوسرے دن جب رحمت اللہ دوارکا ناتھ کو چائے دینے چلا گیا تو وہ بڑا اداس تھا۔ اس نے رحمت اللہ کو اپنے سامنے بٹھایا اور پھر اس سے کہا۔

    ”تم مجھ سے میری وصیت پر دستخط لینا چاہتے تھے نا؟“

    رحمت اللہ کا دل دھک سے ہو گیا۔ چہرے کا رنگ ایسے اڑ گیا جیسے اسے چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا ہو۔ وہ بغلیں جھانکنے لگا۔ دوارکا ناتھ اسے سہلاتے ہوئے بولا، ”تم نہ کہتے تب بھی میں یہ مکان تم کو ہی دینے والا تھا۔ تم نے میری جتنی سیوا کی ہے اسکے عوض یہ مکان کچھ بھی نہیں ہے۔ چل نکال وہ کاغذ میں اُس پر دستخط کرتا ہوں“

    دوارکا ناتھ کے اس برتاو سے رحمت اللہ کا کلیجہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ اس نے جیب سے وہ کاغذ نکالا اس کے پرزے پرزے کئے اور پھر وہ دوارکا ناتھ کے قدموں میں گر کر پھپھک پھپھک کے رونے لگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے