Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سیاہ تل

دیوندر اسر

سیاہ تل

دیوندر اسر

MORE BYدیوندر اسر

    دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔

    میں نے دروازہ کھولا۔

    باہر وہ کھڑا تھا، اسے میں نہیں جانتا تھا۔

    ’’پہچانا مجھے۔۔۔‘‘ اس نے سوال کیا۔

    ’’نہیں شاید!‘‘ مجھے یاد نہیں آرہا تھا کہ وہ کون ہے، اسے کہاں دیکھا تھا۔ شاید اسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

    ’’شملے میں ہماری ملاقات ہوئی تھی۔‘‘ اس نے کہا، ’’اس روز بارش بڑے زوروں کی تھی اور ہم ایک سرائے میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔‘‘

    ’’ہاں ہاں۔‘‘ میں نے کہا۔ لیکن مجھے کچھ یاد نہیں آرہا تھا۔

    ’’اندر آئیے۔‘‘ میں نے کہا۔

    وہ اندر آگیااور آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے جیب سے پائپ نکالا اور دھیرے دھیرے اس میں تمباکو ڈالا۔ اس نے اپنی جیب میں ماچس تلاش کی لیکن اس کے پاس ماچس نہیں تھی۔ میں نے اسے سگریٹ لائٹر پیش کیا۔

    ’’شکریہ!‘‘ اس نے کہا، ’’جب ہم شملے میں ملے تو تمہارے ساتھ ایک لڑکی تھی۔‘‘

    ’’لڑکی؟‘‘ میں نے جیسے چونکتے ہوئے کہا، ’’مجھے نہ جانے کیوں یہ خیال آیا کہ شاید یہ آدمی مجھے بلیک میل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی شکل وصورت اور نقل و حرکت سے مجھے یہی شک گزرا۔

    ’’اب تمہاری یادداشت کافی کمزور ہوگئی ہے۔‘‘ وہ بولا۔ اس کے لہجے میں طنز تھا۔

    ’’یاد کرو۔ ذہن پر ذرا زور ڈالو۔ ایک سانولے رنگ کی چھریرے بدن والی لڑکی۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ وہ اچانک خاموش ہوگیا۔

    اب میں کس کس لڑکی کو یاد کروں۔ سانولے رنگ، چھریرے بدن والی لڑکی۔

    ’’کوئی بات نہیں اور نشانی بتاتاہوں۔۔۔ اس کی گردن پر بائیں جانب ایک سیاہ تل بھی تھا۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔

    اب مجھے پورا یقین ہوگیا کہ وہ مجھے بلیک میل کرنا چاہتا ہے۔ وہ اس لڑکی کا ذکر اس انداز سے کر رہا تھاجیسے وہ اسے بہت ہی قریب سے جانتا ہے اور مجھے دھیرے دھیرے اپنے جال میں پھانس رہا ہے۔

    میں نے صاف انکار کردیا۔

    اس نے جیب سے کاغذ کاایک ٹکڑا نکالا۔

    ’’اسے پہچانتے ہو!‘‘ اب اس کی نگاہیں میرے چہرے پر گڑگئی تھیں۔

    اخبار کے اس پرزے پر ایک لڑکی کی تصویر تھی۔ یہ کپڑوں کی کسی فرم کا اشتہار تھا۔

    ’’ہاں! میں نے اسے مختلف قسم کے اشتہاروں میں کئی بار دیکھا ہے۔ شاید یہ ماڈل گرل۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔

    لیکن میں نے اسے پہچان لیا تھا، یہ سونیا تھی۔

    ’’تم اس لڑکی کو کیسے جانتے ہو؟‘‘ میں نے اس سے سوال کیا۔ میرا لہجہ جارحانہ تھا۔

    ’’یہ نیچے بہت مہین حروف میں نام پڑھ رہے ہو۔۔۔ میں اس ایڈورٹائزنگ فرم کا منیجر ہوں۔‘‘

    ’’اوہ!‘‘ میں نے سرہلایا۔

    ’’اس لڑکی کے خدوخال، نقوش اور چہرے میں ایک خاص قسم کا توازن ہے۔ میرے پسندیدہ ماڈلوں میں یہ سب سے زیادہ چارمنگ ہے۔‘‘ اس نے پائپ کا ایک لمبا کش لیتے ہوئے کہا۔ وہ آرام کرسی کی بیک پر جھک گیا۔

    ’’میں نے سیکڑوں اشتہار ڈیزائن کیے ہیں اور بیشتر اشتہاروں میں اس لڑکی نے ماڈل کیا ہے۔۔۔ ایک روز۔۔۔ اچانک میری نظر اس کی گردن کے سیاہ تل پر پڑگئی۔ اس سے پیشتر بھی میں نے یہ تل دیکھا تھا۔ لیکن اس روز اسٹوڈیو کی روشنی کچھ اس زاویے سے اس تل پر پڑی کہ یہ تل اس کی شخصیت کا مرکزی نقطہ بن کر چمک اٹھا۔‘‘

    ’’لیکن ان سب باتوں کا مجھ سے کیا تعلق ہے؟‘‘ میں نے کہا۔

    ’’دراصل ان سب باتوں کا مجھ سے بھی کوئی تعلق نہیں۔‘‘ وہ بولا، ’’اس لیے کہ میں ایک پروفیشنل ہوں۔‘‘ وہ تھوڑی دیر کے لیے رکا۔ پھر بولا، ’’اور میرا خیال تھا کہ میں محض ایک پروفیشنل ہوں۔ لیکن میں اس لمحے کو بھی نہیں بھولوں گا جب مجھے اچانک یہ محسوس ہوا کہ میں آدمی بھی ہوں۔ میری زندگی میں کئی ماڈل آئے۔ لیکن کسی نے مجھے یہ احساس نہیں دیا کہ میں آدمی بھی ہوں۔ نرا پروفیشنل ہی نہیں۔ تم جانتے ہونا ایڈورٹائزر کا کام چیز بیچنا نہیں ہوتا۔ چیز کے تصور کی اشاعت کرنا ہے۔‘‘

    ’’تم کہہ رہے تھے کہ اس کی گردن پر سیال تل تھا۔‘‘ میں نے اسے ٹوکا۔ میں اس آدمی سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میرے ذہن میں سونیا کی تصویر ایک FLASH کے ساتھ ابھری۔ سونیا کی گردن پر سیاہ تل کتنا خوبصورت معلوم ہوتا تھا۔ شاید اس کی کشش کا تمام تر راز اسی تل میں تھا۔ میرے پیار کی شدت کا اظہار ہی اس کے تل کا لمس تھا۔ لیکن سونیا بڑی ضدی لڑکی تھی۔ میں نے اس سے کئی بار کہا کہ تم یہ ماڈلنگ چھوڑدو۔ مجھے تمہارے جسم کی یہ عجیب و غریب زاویوں میں اور کبھی کبھی نیم برہنگی کی حالت میں نمائش پسند نہیں لیکن ہر بار اس کا یہی جواب ہوتا کہ خوبصورتی کو گناہ کے تصور سے ملوث نہ کرو۔

    ’’چلو اٹھو۔۔۔ میرے ساتھ چلو۔‘‘ اس آدمی نے اچانک کہا۔

    ’’کہاں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’جہاں میں لے جاؤں۔‘‘

    ’’پھر بھی۔‘‘

    ’’میں نے کہہ دیا نا! چلو میرے ساتھ۔۔۔‘‘ اس کی آواز میں درشتی تھی۔

    میں جس حالت میں تھا اس کے ساتھ چل دیا۔ مارکیٹ سے ہوتے ہوئے ہم بڑی سڑک پر آگئے۔ رات کے قریب گیارہ بجے تھے۔ سڑکوں پر ٹریفک خال خال ہی نظر آتی تھی۔ بڑی سڑک سے ہٹ کر ہم ایک تنگ سڑک پر آگئے۔

    ’’تم مجھے کہاں لیے جارہے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ راستے بھر وہ خاموش چلتا رہاجیسے پستول کی نال کی زد پر وہ مجھے کسی خفیہ مقام پر لیے جارہا ہو۔ اب قبرستان کی چہاردیواری شروع ہوچکی تھی۔ گیٹ پر آکر وہ تھوڑی دیر کے لیے رکا اور پھر اس کے اندر داخل ہوگیا۔

    ’’قبرستان میں کہاں لیے جارہے ہو۔۔۔ اتنی رات گئے۔۔۔؟‘‘ میں نے کہا۔ اس نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ چند قدم چل کر وہ ایک قبر کے پاس رک گیا۔ وہ قبر پر دوزانو بیٹھ گیا اور اپنے سینے پر صلیب کانشان بنایا۔ میں بھی دوزانو بیٹھ گیا اور اس کی پیروی کرنے لگا۔

    چند منٹ وہ خاموش رہا۔ چرچ کی گھڑی نے شاید بارہ بجائے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ جیب سے ٹارچ نکالی اور قبر پر ایستادہ پتھر پر روشنی ڈالی۔

    ’’سونیا۔۔۔‘‘ میں چلایا۔

    قبر پر لکھا تھا، ’’سونیا۔۔۔ ۱۹۵۰۔۔۔ ۱۹۷۰۔‘‘

    ’’کیا سونیا مرگئی؟‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ حالانکہ یہ سوال بڑا بے محل تھا۔

    ’’ہاں۔۔۔ میں نے سونیا کو ماردیا ہے۔‘‘ وہ بڑی نرمی سے بولا۔

    یہ آدمی اس آدمی سے مختلف تھا جو مجھے یہاں تک لایا تھا۔

    ’’تم۔۔۔ تم نے سونیا کا قتل کیا ہے؟ ظالم۔ گناہ گار۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’اور تم نے بھی۔۔۔ ہم دونوں سونیا کے قاتل ہیں۔‘‘

    وہ تھوڑی دیر خاموش رہا۔۔۔

    ’’چلو۔ واپس چلیں۔‘‘ اور اس نے میرا بازو تھام لیا اور کہنے لگا،

    ’’ایک دن میں سونیا کی تصویریں لے رہا تھا۔ نیل پالش کے ایکPRESTIGE بڑے اشتہار کے لیے۔۔۔ اس کی لمبی لمبی انگلیاں مخملیں کپڑوں پر حرکت کر رہی تھیں۔ گٹار کے تاروں پر لرز رہی تھیں اور میں تصویریں لیے جارہاتھا۔ اچانک اس نے اپنی انگلیاں اپنی گردن پر رکھ لیں۔ بالکل وہیں جہاں اس کی گردن پر سیاہ تل تھا۔ اور اس نے ایک لمبی سانس لی۔ اتنا مسحور کن چہرہ، اتنی پرکشش ادا میں نے زندگی بھر نہیں دیکھی تھی پلیزویٹ، جسٹ اے منٹ۔ ون شاٹ اینڈ ویٹ ازڈن۔‘‘

    ’’نو باس! تم اس تل کی تصویر نہیں لے سکتے۔ یہ اشتہار کے لیے نہیں۔‘‘ اس نے کہا۔ میں نے بڑا اصرار کیا۔ لیکن اس نے انکار کردیا۔

    ‘‘ اس سے میری کئی یادیں وابستہ ہیں۔ یہ میرا عزیز ترین سرمایہ ہے۔‘‘ اس نے کہا تھا۔ غصے میں آکر میں نے اس کا کنٹریکٹ کینسل کردیا۔ اس نے کنٹریکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔ میں نے کہا، ’’میں تمہارا کیرئر برباد کردوں گا۔‘‘ اس نے کہا، ’’بے شک۔‘‘

    اور میں نے واقعی اس کا کیرئر برباد کردیا۔ عدالت نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔ اسے ہرجانہ دینا تھا یا دوسری صورت میں اسے میری مرضی کے مطابق تصویر کھنچوانی پڑتی۔۔۔ ہرجانے کے پیسے اس کے پاس تھے نہیں۔۔۔ لہذا۔۔۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’پھر اس کی تصویر، جیسا کہ میں نے چاہا لے لی۔ وہ اشتہار شاہکار ثابت ہوا۔۔۔ سونیا کو پہلے سے زیادہ کنٹریکٹ ملتے گئے۔ لیکن۔۔۔‘‘

    ’’لیکن۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’اس کے بعد سونیا کی کوئی تصویر نہیں چھپی۔ اچانک اس نے تمام کنٹریکٹ کینسل کردیے تھے۔‘‘

    ’’لیکن؟‘‘ میرے سوال کاجواب ابھی نہیں ملا۔

    ’’لیکن کیا؟ اس تصویر کے بعد اس نے انہیں انگلیوں سے اپنی جان لے لی۔ جو انگلیاں۔۔۔‘‘ اور اس نے ایک تصویر میرے ہاتھ میں دیدی۔

    یہ سونیا کی تصویر تھی۔۔۔ گردن کے سیاہ تل پر لمبی لمبی چمکتے ناخنوں والی انگلیوں کے نرم لمس تھے۔۔۔

    لیکن کیا سونیا واقعی محض ایک پروفیشنل ماڈل تھی۔ میرے دل نے جیسے مجھ سے سوال کیا۔

    ’’میں سونیا کو جانتا ہوں۔ بہت قریب سے۔‘‘ میں نے اعتراف کیا، ’’میں نے سونیا کو قتل کیا ہے۔‘‘

    وہ کچھ نہیں بولا۔۔۔ ہم قبرستان سے باہر نکل چکے تھے۔ سڑکیں اسی طرح ناآسودہ باہوں کی طرح دور تک پھیلتی چلی جارہی تھیں۔ اور ہم دونوں موٹی دھار کی طرح اس پر بہتے چلے جارہے تھے۔۔۔ جہاں لہو ریت میں جذب ہوجاتا ہے۔

    مأخذ:

    کینوس کا صحرا (Pg. 33)

    • مصنف: دیوندر اسر
      • ناشر: پبلشرز اینڈ ایڈورٹائزرز کرشن نگر، دہلی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے