Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سونے کی انگوٹھی

ویکوم محمد بشیر

سونے کی انگوٹھی

ویکوم محمد بشیر

MORE BYویکوم محمد بشیر

    ایک دن بیوی نے اپنے ٹین کے بکس سے سونے کی ایک پرانی انگوٹھی نکالی اور اسے اپنی انگلی میں ڈال کراس کی قدروقیمت کا اندازہ کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا،

    ’’اچھی لگ رہی ہے نا؟‘‘

    میں نے پوچھا، ’’باوا آدم کے زمانے کایہ کھلونا تمہارے پاس کہاں سے آیا؟‘‘

    ’’یہ خالص سونے کی ہے‘‘، بیوی نے جواب دیا۔ ’’اسے ایک بادشاہ نے میری ماں کی ماں کی ماں کی ماں کو دیا تھا۔‘‘

    مجھے طیش آ گیا۔

    ’’عورت! تمہیں اسے پہننے کی ہمت کیسے ہوئی؟‘‘ میں نے بات جاری رکھی۔ ’’جہاں تک حق کی بات ہے تویہ انگوٹھی مجھے پہننا چاہیے۔ تم جانتی ہو، اگر میں اپنی پچھلی نسلوں کا تذکرہ دہراؤں توتم مجھے شہنشاہ اکبر کی گود میں بیٹھا ہوا پاؤگی۔ سونے کی انگوٹھی کا وارث میں ہوں۔ یہ تاریخ کے حقائق ہیں۔ اچھا اب یہ مجھے دے دو تاکہ میں پہنوں اور لوگوں پر رعب ڈالوں۔‘‘

    ’’کیا آرزو ہے!‘‘ بیوی نے کہا، ’’اگر تم اتنے ہی بےچین ہو تو ایک آدھ بار پہننے کے لیے تمہیں دے سکتی ہوں۔‘‘

    ’’مجھے تمہاری خیرات نہیں چاہیے۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ اگر ایسا ہے تو میں بالکل نہیں دوں گی۔‘‘ بیوی پر عزم لگتی تھی۔

    ’’میں سونے کی اس انگوٹھی کو ہاتھ لگانے کی اجازت کسی کو نہیں دوں گی۔‘‘

    ’’واقعی؟‘‘

    ’’ہاں واقعی۔‘‘

    ’’اے عورت، میں تمہیں دکھادوں گا!‘‘ میں نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا۔

    یا اللہ! بیوی حاملہ ہے۔ یہ ایک سنہری موقع تھا سونے کی اس انگوٹھی کے آپ کی چاندی کی انگلی پر چمکنے کا۔ حمل کایہ زمانہ بخیریت گزر رہا تھا۔ میں نے بیوی سے پوچھا، ’’بیوی، تیری کوکھ میں جو یہ بچہ پل رہا ہے، لڑکا ہے یا لڑکی؟‘‘

    وہ ہنسی اور بولی، ’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

    میں نے کہا، ’’لڑکا!‘‘

    بیوی نے کہا، ’’یہ تو لڑکی ہے!‘‘

    ’’تم شرط لگاؤگی؟‘‘

    ’’پچاس روپے‘‘ بیوی نے کہا۔

    ’’چلو لگ گئی۔‘‘ میں نے سوچ لیا۔ ’’اگر لڑکا ہوا تو تم اپنی انگلی کی یہ انگوٹھی مجھے دوگی۔‘‘ بیوی نے ایک نظر انگوٹھی پر ڈالی اور کہا، ’’اس کی قیمت تو کم سے کم دو سو روپے ہوگی۔ یہ پرانے سونے کی ہے نا اور پھر ایک راجہ کی!‘‘

    ’’بالکل صحیح! یہ راجہ کی ہے‘‘، میں نے کہا۔ ’’پھر بھی، یہ پرانی بھی تو بہت ہے۔ آج راجہ کے جوتوں چپلوں کی کیا قیمت ہوگی؟ تمہارے پرانے بلاؤز کے کیا دام لگیں گے؟‘‘

    اس نے انگوٹھی کی طرف کسی قدر بےدلی سے دیکھا۔

    میں نے کہا، ’’اگر وزن کے حساب سے یہ انگوٹھی بیچوگی تو تمہیں دس روپے بھی نہیں ملیں گے۔ یہ میرا فرض ہے کہ میں تمہارے ساتھ کچھ رعایت کروں۔ مرد کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے اور اس لیے میں اسے پچاس روپے میں لینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

    بیوی نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا، ’’چلو ٹھیک ہے۔۔۔ اور اگر لڑکی ہوئی تو تم کو پچاس روپے دینے ہوں گے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’اگر لڑکا ہوا تومجھے کیا ملےگا؟ ایک زنگ لگی ہوئی پرانی انگوٹھی! چلو ہاتھ ملاؤ۔ شرط پکی ہو گئی۔‘‘

    بیوی اور میں نے شرط کو پکا کرنے کے لیے ہاتھ ملائے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری تشویش میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اگر لڑکی ہوئی تو پچاس روپے کی رقم ہار جاؤں گا۔ اس سے بچ نکلنے کا کیا کوئی راستہ ہو سکتا تھا؟ میں اسی مسئلے پر غور کر رہا تھا کہ مجھے ان پانچ آدمیوں کا خیال آیا۔ تین نائر تھے اور دوتھیا۔ یہ لوگ مجھے ’’استاد‘‘ پکارا کرتے تھے۔ (ادھر کچھ دنوں سے ہم لوگ ایک دوسرے سے بولتے بھی نہیں تھے۔ آج کل ہندوؤں پر سے میرا بھرو سہ اٹھ گیا ہے اور میں نے ان سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ مجھے اب استاد نہ کہا کریں) واقعہ یہ ہواکہ تینوں نائروں اور دونوں تھیاؤں میں سے ہر ایک نے دس روپے کی شرط لگائی۔ ان سب کا کہنا تھا کہ میری بیوی کے یہاں بچی ہوگی۔ میں نے شرط لگائی تھی کہ اس کے یہاں لڑکا ہوگا۔ شرط کی تصدیق کرنے کے لیے ہم نے ہاتھ ملائے۔ پھر ایک ہندو نے کہا، ’’اس سب کے خلاف کوئی قانون ہونا چاہیے۔ یہ احمق حکومت ان چیزوں کے بارے میں کبھی کچھ سوچتی بھی ہے؟ ایک مسلمان دس سے لے کر تین سوتک بیویاں رکھ سکتا ہے اور ان کے مقابلے پر بیچارہ ہندو—صرف ایک!‘‘

    میں نے کہا، ’’میرے قبضے میں تو صرف ایک ہے۔‘‘

    ان میں سے دوسرے نے کہا، جو موٹا تھا، کہا، ’’تم چند اور شادیاں کر سکتے ہو۔ نظام بھی تو تمہارے عزیز رشتےدار ہیں، ہیں نا؟ ان کے پاس تو تین سو ہیں۔‘‘

    ’’یہ صحیح ہے۔۔۔ شیریں امکانات۔ اس سمت میں میں سنجیدگی سے سوچوں گا۔‘‘

    ’’آپ کے سنجیدہ خیالات ہمیں بھی تو معلوم ہوں‘‘، موٹے نے کہا۔ ’’ایک ہم ہیں کہ اپنی اہم نسیں کٹائے اور کنڈوم لیے پھرتے ہیں۔ ہمارے لیے خوش امیدی کوئی چیز نہیں ہے اور ادھر یہ مسلمان۔۔۔ حمل کے نتائج پر شرطیں لگاتے ہوئے گھروں میں جاتے ہیں اور گھروں سے نکلتے ہیں!‘‘

    میں نے پوچھا، ’’کم سنی میں شادی کرنے کے لیے تم سے کس نے کہا؟ کیا میری عمر کے برابر ہونے تک تم انتظار نہیں کر سکتے تھے؟ اس کے علاوہ تم صحیح اور مناسب موقعوں پر شرطیں یا داؤ کیوں نہیں لگاتے؟‘‘

    ’’کیوں؟ ویسے یہ بات ٹھیک ہے‘‘، ہندوؤں نے آپس میں بات کی۔ ’’ہم نے اس کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ ایک سنہری موقع ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔‘‘

    اس کے بعد میرے پاس جیسے میرا کوئی لمحہ اپنا نہیں رہا۔ میں ہر وقت خوش آئند خیالات میں ڈوبا رہتا ہندو آتے اور پوچھتے، ''بچہ ہوا؟ لڑکی ہے، ہے نا؟‘‘

    میں کہتا، ’’اس معاملے میں ہندوؤں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میری بیوی ایک خوش بخت لڑکے کو جنم دینے والی ہے! اور تم ہندو لوگ پچاس روپے دے کر اور غریب ہو جاؤگے۔‘‘

    شب وروز اسی کیفیت میں گزرتے رہے۔ ایک حسین صبح کومیں ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھا۔ قریب کے کمرے سے بیوی کے کراہنے کی آواز آ رہی تھی۔

    ’’گڈ!‘‘ میں نے کہا، ’’مسکرا، عورت! مسکرا، تو عنقریب ایک عظیم چیز دیکھنے والی ہے۔ مسکرا۔ رومت۔‘‘

    بیوی خوش تھی کہ اس کی آوازیں مجھ تک پہنچ رہی ہیں۔ اس نے اور زیادہ زور سے رونا شروع کر دیا۔ میں نے کہا، ’’بس خاموش ہو جاؤ! ایسی کون سی مصیبت آئی ہوئی ہے؟ لاکھوں کروڑوں، بلاخوف تردید لاکھوں کروڑوں عورتوں نے بچے پیدا کیے ہیں۔ یہ دردزہ ہے، یہ تشنجی کیفیت اور درد کے یہ حملے بچے کی پیدائش کے ہیں۔ ہم مردوں کو اس کا خوب اندازہ ہے۔ بس اب چپ ہو جاؤ اور اپنی ساری توجہ اس کی طرف رکھو جو ہونے والا ہے۔‘‘

    تھوڑی دیر حرکت کی کوئی علامت نظر نہیں آئی۔ پھر درد کی لہریں ایک سیلاب کی طرح آئیں، درد و کرب سے بےچین چیخیں نکلیں۔ اس دوران متعدد پیروں، بزرگوں، ولیوں اور رشیوں سے مددکی التجائیں کی گئیں۔ ’’ارے علامہ بشیر، عالم بشیر کو پکارو۔ پھر ساری تکلیف رفع ہو جائےگی۔ جلدی کرو۔‘‘

    اس وقت تک آوازیں ختم ہو چکی تھیں۔ دبی دبی کراہیں اور دھیمی دھیمی آہیں تھیں۔ اسی وقت دایہ داخل ہوئی۔ ایک قبول صورت عورت۔ اس کی شادی نہیں ہوئی تھی اور اس نے کبھی کسی بچے کو جنم نہیں دیا تھا۔ میں یہ جانتا تھا، اس کے باوجود میں اس سے پوچھنے ہی والا تھا کہ کیا وہ مجھ سے پانچ روپے کی شرط لگائے گی۔ میرے ارادے کو جیسے بھانپتے ہوئے اس نے میری طرف غصے سے دیکھا اور پوچھا، ’’کیاتم خاموش نہیں رہ سکتے؟ ایسی باتیں نہ کرو جن سے اسے ہنسی آئے۔ تم جاہل مرد، دردزہ کے بارے میں کیا جانو۔‘‘

    اتنی سخت تنبیہ کرنے کے بعدعورت جلدی سے اندر واپس چلی گئی۔ میں نے سوچا کہ اس کے رخصت ہو جانے کا جشن میں ایک سگریٹ جلاکر مناؤں۔ میں نے سگریٹ جلائی اور ایک لمبا کش لیا۔ میرے دماغ میں بہرحال ایک تردد منڈلا رہا تھا۔۔۔ یہ لڑکا ہوگا یالڑکی؟ حماقت! اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ یہ کافی ہے کہ پیدائش بخیر و خوبی ہو جائے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں اپنے ذہن سے سودوزیاں کا ہر خیال نکال چکا تھا۔ اتنے میں بچے کے رونے کی تسکین دہ آواز آئی۔ گویا میرے خیال کا یہ جواب تھا۔

    میں دروازے کی طرف لپکا۔ دروازہ بند تھا اور اندر سے چٹخنی لگی ہوئی تھی۔ میں چیخا، ’’مجھے اندر آنے دو۔‘‘

    ایک دوسری چیخ سے بچے نے جواب دیا۔ دایہ نے تمام مردوں کی مذمت میں ایک تقریر کر دی۔

    پھر تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا۔۔۔ ایک خوبصورت بچہ۔۔۔ دایہ بچے کی ٹانگیں پکڑے، لٹکائے ہوئے میرے پاس لائی۔ میں نے بچے کے سر کو اوپر کیا اور گود میں لے لیا۔ میں نے اسے پیار کی اور بیوی کے پاس گیا۔ وہ وہاں پسینے میں شرابور، تھکی تھکی نڈھال سی لیٹی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں نیم وا تھیں۔ میں نے بہت آہستہ سے بچے کو اس کے پاس لٹا دیا اور اسی آہستگی کے ساتھ میں نے اس کی انگلی سے انگوٹھی نکال لی۔ بیوی کو بس یو ں ہی پیار کر لیا۔

    ’’عورت! میں خوش ہوں۔ مبارکباد!‘‘ یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ میں نے دیوار پر سے تھوڑا سا چونا چھڑایا، اس سے انگوٹھی کو صاف کیا۔ پھر میں نے اسے اپنی انگلی میں پہن لیا۔

    میں نے اپنے آپ سے کہا، ’’آداب وسلام، کورنش، اے بادشاہ!‘‘ میں نے برش کیا، شیو بنایا، غسل کیا، صاف ستھرے کپڑے پہنے۔ تھوڑی سی کافی پی، ایک سگریٹ جلائی اور ہندوؤں کی تلاش میں چل پڑا۔ میں نے ان کو ڈھونڈ نکالا اور اپنی ساری باتیں بتا دیں۔

    ’’بچے کا جنم ہو گیا؟‘‘

    میں نے ہندوؤں کو خشمگیں نگاہوں سے گھورا۔ صرف یہی نہیں، میں نے ایک فلک شگاف فاتحانہ قہقہہ لگایا۔ ہندو ذرا بجھے بجھے نظر آنے لگے۔ میں نے کہا، ’’کیا تاریخ کی ابتدا سے ہی ہندو اور مسلمان شرطیں نہیں لگاتے رہے ہیں؟ وہ شرطیں کون جیتا؟۔۔۔ مسلمان –لاؤ روپے نکالو۔‘‘

    وہ بےزبان ہو گئے۔ پھر انہوں نے مجھے پچاس روپے دیے۔ میں نے انہیں انگوٹھی دکھائی۔

    ’’دیکھو، ایک شاہی انگوٹھی۔ خالص سونا! یہ انگوٹھی مہاراج وکرمادتیہ کی ہے۔۔۔ نہیں، مہاراجہ اشوک کی۔ نہیں، میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ یہ ہارون الرشید کی انگوٹھی ہے۔‘‘

    ’’تمہیں یہ ملی کہاں سے؟‘‘ ہندوؤں نے پوچھا۔

    ’’یہ خاندانی ورثہ ہے۔‘‘

    ’’بےشک! جیسے ہم اس خاندان کو جانتے نہیں ہیں۔ ارے ڈاکو کیا مکولم یا چور اچکے چیپاورن نے کسی ہندو کے یہاں سے چرائی ہوگی۔‘‘

    میں نے ان ہندوؤں کے لیے چائے اور کھانے کی کچھ چیزیں منگوائیں جن سے میں نے یہ روپے لیے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کو میں نے ایک ایک گولڈ فلیک سگریٹ بھی دی۔ اب ہندو لاٹری کا ٹکٹ خریدنا چاہتے تھے۔ میں مان گیا، کیونکہ ایک روپے میں ایک کار ملنابہت اچھی بات تھی۔ ان میں سے ہر ایک نے دو دو تین تین ٹکٹ خریدے۔ انہوں نے مجھ سے بھی بچے کے نام سے ایک ٹکٹ لینے پر اصرار کیا۔ ان سب کے سامنے ہی میں نے کیلے، ٹماٹر، میٹھے لیموں، سیب، انناس، سنترے، کھجور، حلوہ اور ساتھ ہی سنہری کناری والی ایک چھوٹی سی دھوتی خریدی۔ پکے آم ابھی بازار میں آئے نہیں تھے اس لیے میں نے کچھ کچے آم لیے۔ پھر میں نے ایک قلی کیا جو میرے سامان کو لے کر چلے۔

    میں نے انہیں چیلنج کرتے ہوئے الوداع کہی۔ ’’کیا آئندہ پھر کسی موقعے پر شرط لگانے والا کوئی ہندو ہے؟‘‘ جب میں گھر پہنچا اس وقت تک بیوی اور بچہ دونوں نہا چکے تھے۔ دونوں ایک بڑے کمرے میں آ گئے تھے۔

    میں نے بیوی کے پلنگ کے قریب ایک بڑی سی میز کھینچی اور سارے پھل وغیرہ اس پر پھیلا دیے۔ بیوی ایک لفظ نہیں بولی۔ میں نے سنہری کناری والا کپڑا بچے کے لپیٹ دیا۔ بیوی نے آہستہ سے دھوتی کو اٹھایا اور مجھے غصے سے گھورتے ہوئے اسے مل دل کر دور پھینک دیا۔ چہرے پر خفگی کے آثار کے ساتھ وہ وہاں لیٹی تھی، ایسا لگتا تھاکہ گویا مجھ سے کوئی بہت بڑی غلطی سر زد ہوئی ہے۔ یہ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

    ’’خاتون، اب تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’کیا تم اب یہ چاہتی ہوکہ میں جنت سے گولر کا پھول لاؤں؟ اگر تم چاہتی ہو تو میں دو ایک پھول وہ بھی لا سکتا ہوں۔‘‘

    ’’میں اپنی سونے کی انگوٹھی چاہتی ہوں۔ وہ مجھے واپس چاہیے! اور پچاس روپے!‘‘

    میں سمجھ نہیں سکا اور میں نے یہ کہہ بھی دیا۔ بیوی نے میری طرف دیکھا، پھر دھیمی آواز میں پوچھا، ’’بچہ ہمارا بچہ۔۔۔ لڑکا ہے یا لڑکی؟‘‘

    ’’بلاشبہ لڑکی ہے۔‘‘

    ’’ہاہا!‘‘ بیوی نے کہا۔

    ’’اوہو!‘‘ میں نے کہا۔ ’’پھر ہوا کیا؟ میں نے سنہری کناری والی ایک چھوٹی سی دھوتی خریدی اور منی سی بیٹا کو پہنا دی۔ ہمیں اسے ننگا نہیں رکھنا چاہیے! تم تو جانتی ہو، تہذیب کا یہی تقاضا ہے۔‘‘

    ’’ہاں ہاں، تہذیب۔۔۔ بےشک، بے شک! تمام مہذب لوگ اسی طرح پیدا ہوئے تھے۔‘‘

    ’’یہ صحیح ہے۔‘‘

    ’’یقیناً یہ صحیح ہے۔‘‘ بیوی نے کہا۔ ’’مجھے میری سونے کی انگوٹھی اور پچاس روپے مل جانے چاہئیں۔‘‘

    ’’خاتون۔ شرط کون جیتا؟ بچے کی پیدائش سے پہلے تمہاری رٹ کیا تھی؟ یادہے؟ پہلا پیارا بچہ لڑکا ہونا چاہیے اور اپنے باپ کی طرح کا ہونا چاہیے۔ جب تم نے یہ سر الاپا اس وقت میرا جواب کیا تھا، پہلا بچہ لڑکی ہونی چاہیے، بالکل اپنی ماں جیسی اور اس دو گانے کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے نزدیک اسے لڑکا اور میرے خیال میں اسے لڑکی ہونا چاہیے۔‘‘

    ’’بیوقوفی کا دو گانا!‘‘ بیوی نے کہا۔

    میں نے کہا، ’’ایک اور دلیل۔ درد زہ بڑی تکلیف دہ چیز ہوتی ہے۔ سچ مچ کا زلزلہ، درد کا ایک طوفان۔ چکاچوندھ کر دینے والی بجلی کی گرج اور ساتھ میں موسلادھار بارش۔۔۔ پھر کیا ہوتا ہے؟ اس ساری کیفیت میں عورت بہت سی باتوں کو بھول جاتی ہے۔ جیسے تم بھول گئی ہو۔ گواہ بھی نہیں ہیں۔ ہم نے لکھ کر بھی نہیں رکھا۔ یہ سب سچ ہے۔ تم نے ساری بات کو غلط ڈھنگ سے سمجھا ہے۔ اسی وجہ سے تم ایسی باتیں کر رہی ہو۔ کسی اچھی عورت کے لیے کیا یہ سب مناسب ہے؟‘‘

    یہ صحیح طریق کار تھا۔ اپنی بیوی سے یہ سوال کرنا ہمیشہ اچھا رہتا ہے کہ کسی اچھی عورت کے لیے کیا چیز صحیح اور مناسب ہے۔ بیوی کے ذہن میں کچھ شبہات ضرور پیدا ہو گئے تھے۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا جیسے وہ جھگڑے کو ختم کرنا چاہتی ہو۔

    ’’میں ادھر کئی دن سے کھٹا آم کھانا چاہتی تھی۔ مگر میں نے تم سے کہا نہیں کہ آج کل اس کا موسم نہیں تھا۔ میرے بغیر کہے ہوئے تم لے آئے۔ بہت بہت شکریہ۔‘‘ بیوی نے آم کو سونگھا۔ ’’انہیں دھو لینا چاہیے‘‘، اس نے کہا۔

    بیوی نے کمرے میں لگی ہوئی ڈوری کے ایک کنارے کو پکڑنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ میں نے کہا، ’’کھٹا آم مت کھاؤ۔ اگر کچھ کھانا ہی چاہتی ہو تو اس وقت کوئی میٹھی چیز کھا لو۔‘‘

    پلنگ پر پڑی ہوئی ڈوری ایک لمبی ڈوری تھی۔ اس کے دوسرے سرے پر ایک ساٹھ سالہ بوڑھی عورت تھی۔ وہ باورچی خانے سے پرے بنے ہوئے اسٹور روم کے ایک کونے میں سوچ میں ڈوبی ہوئی بیٹھی تھی۔ وہ خاصی بہری تھی، مگر بہرے پن کے باوجود میری بیوی اس سے گھٹنوں بین الاقوامی مسائل پر گفتگو کر سکتی تھی۔ آئسٹائن کے نظریات تک زیربحث آتے تھے۔ جہاں تک میرا معاملہ ہے تو اس عورت سے ایک لفظ بھی کہنا میرے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ میں نے کہا، ’’اس سے کہو کہ ان پھلوں کو کسی محفوظ جگہ رکھ دے اور یہ بھی کہہ دو کہ کچے آموں کی تھوڑی سی چٹنی بنا لے۔‘‘

    میں نے بچے کو پیار کیا اور بیوی کو بھی۔ میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ بہت سے مختلف مسائل کے بارے میں مجھے پریشانی تھی۔ میں گھر کے سامنے لگے ہوئے آم کے درخت کی ایک شاخ پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور سامنے دور خلا میں گھورتا رہا۔

    کیا وہ پانچوں ہندو ادھر آ رہے ہیں؟

    مجھے شاخ پر بیٹھے ہوئے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ لال چیونٹوں نے حملہ شروع کر دیا۔ یہ چیونٹے مسلمانوں کے دشمن ہیں اور ان کا کاٹنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میں درخت سے نیچے اترا۔ میں نے جسم سے چمٹے ہوئے چیونٹوں کو چھڑایا اور جاکر احاطے کے ایک کونے میں کھڑ اہو گیا۔ وہاں جھاڑیوں کاایک جنگل سا اگا ہوا تھا۔ مگر جھاڑیاں اتنی اونچی نہیں تھیں کہ ان کے اندر چھپا جا سکے۔ اب کیا ہو؟

    میں روپوش ہو گیا۔ اب میں نکلتا تو بس پتلی پتلی گلیوں سے گزرتا۔ اگر کبھی مجھے ہندوؤں کے گھروں کے سامنے سے گزرنا پڑتا تو میں چھتری کو جھکاکر اپنا منہ چھپا لیتا۔ میں زیادہ تر گھر میں ہی رہنے لگا۔ اپنے گھر کے مہمانوں کے کمرے میں میں نے تالا ڈال دیا۔ بیوی اور بچے کو دیکھنے عورتیں آئیں گی، ہندوؤں کے کانوں تک یہ بات پہنچےگی۔ میں نے برساتی میں قیام کرنے کے بارے میں سوچا، لیکن بیوی پوچھے گی کہ یہ کیوں۔ اس کا بھی امکان ہے کہ ہندوؤں کویہ ساری باتیں معلوم ہو چکی ہیں۔ ان کے جاننے کی کوئی وجہ تو نہیں ہے، میں نے اپنے کواس خیال سے تسکین دی۔ ایک دن میں بچے کو نہلا دھلاکر بیوی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ سہ پہر کے تین بجے ہوں گے۔ باورچی خانے میں سفید پتھیری اور سفید چاولوں کی روٹیاں بن رہی تھیں۔ گوشت کے سالن کی بڑی عمدہ خوشبو میری ناک میں آ رہی تھی۔ اچانک باہر کے گیٹ کے کھلنے کی آواز آئی۔ پھر جو آواز آئی وہ کسی شوروغل کی آواز نہیں تھی۔ اب آنے والی آواز ایسی تھی جیسے پانچ آدمی پانچ مختلف سمتوں سے چلاکر کہہ رہے ہوں، ’’استاد ہیں؟‘‘

    یہ وہی ہندو تھے۔ انہوں نے گھر کو گھیر لیا تھا۔ اب میں کیا کروں؟

    میں نے بیوی سے سرگوشی کی، ’’ان سے کہہ دو کہ گھر میں نہیں ہوں۔۔۔ کہہ دوکہ مجھے اچانک پریزیڈنٹ ناصر نے بلوا لیا اور میں مصر گیا ہوا ہوں۔ نہیں، بس یہ کہہ دوکہ تیر یپوتی تھارا گیا ہوں۔۔۔ نہیں نہیں یہ بھی نہیں۔۔۔ تم بس یہ کہہ دومیں مدراس گیا ہوں۔‘‘

    باہر سے ایک آواز آئی، ’’ہم لوگ اندر آ رہے ہیں۔ ہم ماں اور بچے کو دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

    ’’بیوی ان سے کہہ دوکہ وہ اندر نہیں آ سکتے۔ انہیں اندر آنے سے منع کر دو۔‘‘ مگر اس سے پہلے کہ میں یہ کہوں، پانچوں موٹے ہندو کمرے میں داخل ہو گئے جہاں ایک باعزت خاتون اپنے نوزائیدہ بچے کو لیے ہوئے لیٹی تھی۔۔۔ اکبر، حیدر علی، شاہ جہاں۔۔۔ یااللہ! میں غضبناک ہو رہا تھا۔

    میں نے خونخوار نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے مجھے یکسر نظرانداز کر دیا۔ ان لوگوں میں سے ایک کے ہاتھ میں خالص شہد کی ایک بوتل تھی۔ انہوں نے بوتل میری بیوی کو دے دی۔ بیوی نے بوتل مجھے تھما دی۔ میں نے بوتل کھولی اور چکھنے کے لیے شہد کے دو گھونٹ اتار لیے۔ شہد بہت اچھا تھا۔ میں نے تھوڑا سا شہد بیوی کے منھ میں ڈالا اور ذرا سا بچے کو چٹا دیا۔ پھر بوتل کی ڈاٹ بند کرکے اسے میز پر رکھ دیا۔

    ایک ہندو نے بچے کو گود میں اٹھا لیا۔ باقی سب اس کے گرد جمع ہو گئے۔ انہوں نے مجھ کو غور سے دیکھا اور اعلان کیا، ’’ٹھیک ہے۔ بیٹی ہے!‘‘

    میں خاموش رہا۔ بیوی کو بھی، ظاہر ہے، شوہر کی پیروی کرنا تھی۔ اگر اس نے نوزائیدہ کو سنہری کناری والے کپڑے میں لپیٹ دیا ہوتا تو!

    ایک ہندو نے پوچھا، ’’تم نے نوزائیدہ بچے کا نام کیا رکھا؟‘‘

    ’’شاہینہ۔ میرا خیال ہے، اس کے معنی ہوتے ہیں شہزادی‘‘، بیوی نے کہا۔

    ’’شاہینہ!‘‘ ہندوؤں نے کہا۔ ’’یہ کسی بادشاہ کی بیٹی کا نام ہے نا؟ ہم بچی کو اپنی دعائیں اور پنی نیک خواہشات دیتے ہیں۔ خدا دونوں کو لمبی عمر، اچھی تندرستی اور خوشحالی عطا کرے!‘‘ ذرادیر خاموشی رہی۔۔۔ سناٹا۔ ’’اور باپ کو بھی!‘‘

    انہوں نے میز پر سے پانچ کیلے اٹھائے، انہیں چھیلا اور کھانے لگے۔ میں نے کہا، ’’ہندو ایک مسلمان باپ کا گوشت قتلے قتلے کرکے کھا رہے ہیں۔‘‘

    ہندو کچھ نہیں بولے۔ انہوں نے کیلے کے چھلکے بڑے سلیقے کے ساتھ اکٹھا کیے اور انہیں میز پر رکھ دیا۔ اب ان کی توجہ سیبوں کی طرف ہوئی۔ انہوں نے کونے میں رکھی ہوئی چٹائی اٹھائی، اسے زمین پر بچھایا اور دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے۔ پھر ایک نظر مجھ پر ڈالی۔ ان میں سے ایک ہندو نے زور کا ایک قہقہہ لگایا، پھر دوسروں سے بولا، ’’کیا یہ میری نانی کٹی کو دھوکا دے سکتا ہے؟ ابھی کل جب اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو اسے ایک آدمی جھکتا اور چھتری سے اپنا منھ چھپاتا ہوا دکھائی دیا تھا اور وہ بھیس بدلے ہوئے ایک ماڈرن مسلمان باپ تھا۔‘‘

    ایک لمحے توقف کے بعد سارے ہندوؤں نے بیک آواز کہا، ’’ہوں، تو نومولود ایک بچی ہے۔‘‘

    بیوی کے چہرے پر کسی شبہے کے تاثرات یوں ابھرے جیسے کوئی راز اس پر منکشف ہوا ہو۔ اس نے پوچھا، ’’کیا تم لوگوں نے کوئی شرط لگائی تھی؟‘‘

    سب سے موٹا ہندو، نانی کٹی کا شوہر بولا، ’’ہاں ایک چھوٹی سی شرط تھی۔ اگر نومولود لڑکی ہوئی تو مسلمان باپ ہم پانچوں ہندوؤں کو دس دس روپے دےگا اور اس کے برعکس اگر لڑکا ہوا تو غریب ہندو بچے کے باپ کو پچاس روپے دیں گے!

    ’’اور۔۔۔؟‘‘ بیوی نے حیرت سے پوچھا۔ اس کی نگاہیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔

    دوسرے موٹے ہندونے کہا، ’’اس مسلمان باپ نے ہمیں بچے کی پیدائش کی اطلاع دی اور ہم غریب ہندوؤں سے پچاس روپے لے لیے۔ بس اتنی سی بات ہے۔‘‘

    بیوی مجھے گھور رہی تھی۔ اس نے پوچھا، ’’کیا انہوں نے تم سے کہا کہ لڑکا ہوا ہے؟‘‘

    ’’ارے نہیں! بالکل نہیں!‘‘ ہندوؤں نے کہا۔ ’’یہ توان کے چہرے پر لکھا ہوا تھا۔‘‘

    ’’تمہارا مطلب کیا ہے؟‘‘ بیوی نے پوچھا۔ اب اس کے دماغ میں شبہات نے سر اٹھایا۔

    نانی کٹی کے موٹے شوہر نے کہا، ’’مسلمان باپ ہم لو گوں کے پا س آیا اور زور سے ہنسا۔ ہنسنے کے بعد بولا، گائے نے بچہ دے دیا اوریہ بھی کہا کہ ہندو شرط ہار گئے۔ ہندوؤں نے خوشی خوشی پچاس روپے مسلمان باپ کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔‘‘

    صحیح ہے کہ ہندو دغابازوں نے مجھے پچاس روپے دیے۔ مگر ہنس کر اور خوشی خوشی دیے، یہ صحیح نہیں ہے۔ آخر یہ جھوٹ کیوں؟‘‘

    ماحول پر خاموشی طاری ہو گئی۔ اس خاموشی میں صرف سیب کھانے کی آواز آ رہی تھی جن کا یہ ہندو صفایا کر رہے تھے۔ سیب جو بدقسمت مسلمان باپ کے تھے!

    بیوی نے میری انگلی میں چمکتی ہوئی انگوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا،

    ’’یہ انگوٹھی دیکھ رہے ہو؟‘‘

    ’’شاہی انگوٹھی!‘‘ ہندوؤں نے کہا۔ ’’یہ کس کی انگلی کی زینت تھی؟ اشوک کی؟ اکبر کی؟ ہارون الرشید کی؟‘‘

    ’’یہ میری انگلی میں تھی‘‘، بیوی نے کہا۔ ’’میری ماں کی ماں کی ماں کی ماں کے باپ نے بادشاہ کو اس کے دشمنوں سے بچایا تھا۔ اس کے صلے میں انعام میں جہاں اور بہت سی چیزیں ملی تھیں ان میں یہ انگوٹھی بھی تھی۔ جوں ہی اس آدمی نے (میری طر ف اشارہ کرتے ہوئے) اس کے بارے میں سنا، کہنے لگا کہ اس پر میرا حق ہے۔ میں ہی اصل وارث ہوں۔‘‘

    ’’یہی تو سلطان ہے، ہے نا؟ پھر کیا ہوا؟‘‘

    بیوی نے کہا، ’’ہم نے آپس میں ایک چھوٹی سی شرط لگائی: اگر میں نے لڑکے کو جنم دیا تو میں یہ انگوٹھی اسے دے دوں گی اور اگر لڑکی ہوئی تو یہ مجھے پچاس روپے دےگا۔ بچی کی پیدائش کے فورا بعد جب اس نے میری انگلی سے انگوٹھی نکالی تو میں ہنس پڑی۔‘‘

    ’’جھوٹی!‘‘ میں چلایا۔ ’’تم ہنسی بالکل نہیں تھیں۔ تمہیں تو پتا بھی نہیں چلا تھا۔ تم تو تھکی ہوئی اور پسینے سے شرابور پلنگ پر پڑی ہوئی تھیں۔‘‘

    ’’کیا میں اپنے ذہن میں، اپنے خیال میں نہیں ہنس سکتی؟‘‘ بیوی نے پوچھا۔

    میں نے ہندوؤں کو بتایا، ’’یہ ایک مفت کا مشورہ ہے۔ ایسی عورتوں سے بحث میں کبھی نہ الجھو۔‘‘

    ’’اچھا تو یہ بات ہے؟ بہت اچھے!‘‘ آگے نکلے ہوئے دانتوں والے ہندو نے کہا۔ ’’ہم لوگ ذرا پاؤں پھیلا لیں۔‘‘

    پانچوں ہندو لیٹ گئے۔۔۔ کچھ چٹائی پر اور کچھ سیمنٹ کے فرش پر۔۔۔ میں نے پوچھا، ’’اب تم لوگوں کا کیا ارادہ ہے؟‘‘

    ہندوؤں نے کہا، ’’ستیہ گرہ۔ مرن برت۔ ہمارے پاس نعروں کا بھی ایک ذخیرہ ہے۔ ہندوؤں کا جو حق ہے وہ انہیں ملنا چاہیے۔۔۔ بیوی کا حق بیوی کو۔۔۔ انقلاب، زندہ باد!‘‘

    اسی وقت شاہینہ کلبلائی۔ میں نے کہا، ’’بیٹی، ڈرو نہیں۔‘‘

    ہندو اچانک اٹھ کر بیٹھ گئے۔ ان کے نتھنے پھڑکے اورانہوں نے باورچی خانے کی طرف دیکھا۔

    ’’اچھا تو گوشت پک رہا ہے؟ بہت بڑھیا! ہم اپنے برت کے ملتوی کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم یہاں ساری عمر بیٹھے رہیں گے۔ اٹھا سکو تو اٹھا دو۔ ستیہ گرہ!‘‘ ایک موٹے ہندو نے کہا۔

    ’’اگر ہم ساڑھے چھ بجے تک اپنے اپنے گھر نہ پہنچے تو ہماری بیویاں اور چودہ بچے سب کے سب ہمیں لینے یہیں آ جائیں گے۔ پھر وہ بھی یہیں ٹھہریں گے!‘‘

    بیوی مجھے غصے سے گھورتی رہی۔ ’’تم نے سن لیا؟ ہندوؤں میں ہر ایک کے اوسطاً نو بچے ہیں اور یہ بےوقوف مسلمان۔۔۔‘‘

    ’’دس سے تین سو شادیاں کرنے کے باوجود۔‘‘

    بےچارے بےوقوف مسلمان نے کہا، ’’او دنیا کے باسیو! یہ گول دنیا لاکھوں برس پہلے وجود میں آئی تھی اور اب بھی ویسی ہی ہے۔ مگر انسان بڑھتے رہتے ہیں۔ نوع انسان میں ہر روز ہزاروں لوگ بڑھ جاتے ہیں۔ یہاں کھانے کے لیے کھانا نہیں ہے، سر چھپانے کی جگہ نہیں ہے۔ کھیت اور جنگل کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر طرف قلت ہے۔ مسلمان نے یہ سب دیکھا اور اپنے دل میں سوچا کہ اب آج سے صرف دو بچے کافی ہوں گے۔ پھر ہندوؤں نے۔۔۔‘‘

    ’’یہ بات پہلے ہندوؤں نے کہی تھی۔‘‘

    ایک دوسرا ہندو بولا، ’’میرا خیال ہے ایک کرسچین تھا جس نے سب سے پہلے یہ بات کہی تھی۔‘‘

    میں نے کہا، ’’سچ توسچ ہوتا ہے، کہے کوئی بھی۔ مسلمان نے واقعی اس پر عمل کیا۔ لیکن ہندوؤں نے۔۔۔ تم نے سنا بیوی؟ ہر ایک کے نو سے زیادہ ہیں۔۔۔‘‘

    بیوی آہستہ آہستہ کھڑی ہوئی، پھر گھورکر ہندوؤں کی طرف دیکھا۔ میں نے کہا، ’’بیوی، تمہارا جسم ابھی کمزور ہے۔ ابھی تمہیں ہندوؤں کو مارنا یا نوچنا کھسوٹنا نہیں چاہیے۔ ہاں تم دھیمی آواز میں انہیں کوس سکتی ہو۔ میں تمہارا لاؤڈاسپیکر بن کرت مہاری گالیوں کو زور سے بک دوں گا۔ نو نو بچے۔۔۔ تف ہے!‘‘

    ہندوؤں میں سے ایک نے میری بیوی سے کہا، ’’یہ ایسی باتیں ہم لوگوں کے اندر پھوٹ ڈالنے کے لیے کر رہا ہے۔ یہ بوڑھا باپ ابھی اور کئی شادیاں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ ایک مسلمان ہے، ہے نا؟ اور پھر۔۔۔ ایک پورا حرم۔۔۔‘‘

    ’’یہ شادیاں کرکے اپنی بیویو ں کویہاں لائیں تو سہی!‘‘ بیوی نے کہا۔ ’’میں دروازے پر موسل لے کھڑی ہوں گی اور ان میں سے ہر ایک کو، ایک ایک کرکے موت کے گھاٹ اتار دوں گی۔‘‘

    ’’کیا یہی عورتوں کا اخلاق ہے؟‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔ ’’سری کرشنا کے زمانے میں بڑے بڑے موسلوں سے ڈرانے دھمکانے کا رواج نہیں تھا۔‘‘

    میں یہ بات کہہ رہا تھا اور بیوی اپنی انگلیوں پرگن رہی تھی۔۔۔ تاراکٹی، دکشو، وشولکشمی، للتا، نانی کٹی، ان سب میں صرف نانی کٹی کے تین بچے تھے۔

    یہ سن کر نانی کٹی کا موٹا شہر بولا، ’’اس کے لیے میں کیسے ذمہ دارہوں؟ دوسری بار نانی کٹی نے جڑواں بچوں کو جنم دے دیا۔‘‘

    ’’ہندو سیکڑوں بہانے بنا سکتے ہیں اور جب چاہیں جڑواں بچے پیدا کر سکتے ہیں۔‘‘

    ’’پھر ہم تیس یا چھتیس کی گنتی پر کیسے پہنچے؟‘‘ بیوی نے پوچھا۔

    میں نے کہا، ’’یہ ہندوؤں کے بلیک مارکٹ کے بچے ہیں۔‘‘

    ’’بلیک مارکیٹ کے بچے؟‘‘ بیوی نے حیرت سے ہندوؤں کی طرف دیکھا۔

    میں ہندوؤں کویہ بتانے کا موقع نہیں دینا چاہتا تھا کہ میرا مطلب ان کی بہنوں کے بچوں سے ہے۔ اس لیے میں نے بیوی سے کہا، ’’بیوی، ذرا اس رسی کو دو ایک جھٹکے دے کر ہلاؤ اور اس بڑھیا سے کہو کہ ان ہندوؤں کو آدھی آدھی پتھیری اور تھوڑا سا سالن اور گوشت کی ایک ایک بوٹی دے دے۔ جھگڑا طے ہوا۔ ہم نے، میرا مطلب ہے کہ میں نے ہر نائر ہندو کو پانچ پانچ روپے اور ہرتھیا کو ساڑھے چار چار روپے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

    بیوی نے کہا، ’’ہر ایک کو پیٹ بھر پتھیری اور سالن ملےگا اور بعد کو چائے بھی۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے‘‘، میں نے کہا۔

    اب ہر مسئلہ خوشگوار طور پر طے ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ مگر کیا یہ ہندو سب کچھ خوش اسلوبی سے طے ہونے دیں گے؟ نائر ہندوؤں میں سے دو ہنسے۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’بہت اچھا! نیچی ذات والوں کو آٹھ آنے کم ملیں گے۔ بالکل انصاف کی بات ہے۔‘‘

    نانی کٹی کا موٹا شوہر، جو تھیا ذات کا تھا، خفا ہو گیا۔

    ’’چھوٹی ذات کا کون ہے؟ اس بوڑھے مسلمان باپ کو چاہیے کہ وہ ہم تھیاؤں کو چالیس روپے دے۔‘‘

    کیا نائر ہندو اس کی اجازت دیں گے؟ ان میں سے ایک نے کہا، ’’بھلے زمانوں میں اس سے بہت کم پیسوں پر قتل ہوئے ہیں۔ اس مسلمان باپ کو ہم نائروں کو ساتٹھ روپے دینے ہیں! اور سود کے طور پر پیٹ بھر پتھیری اور سالن۔‘‘

    کیا بیوی کچھ کم پر راضی ہو جائےگی؟ بیوی نے کہا، ’’میری ننھی شاہینہ کے باپ کو انگوٹھی مجھے دینا ہوگی اور ساتھ ہی پچاس روپے۔‘‘

    اور اس طرح بیوی اور ہندو جیت گئے۔ ہندوؤں کی نگران آنکھوں کے سامنے میں نے بیوی کو سونے کی انگوٹھی اور پچاس روپے دیے۔ جہاں تک ہندوؤں کا معاملہ ہے انہیں پتھیری گوشت کا سالن، چائے اور سگریٹ ملی اور ان سب چیزوں کے علاوہ ایک سو روپے بھی۔ ہندوؤں نے جانے سے پہلے مل کر اور بڑی شدت سے مجھ پر الزامات کی بوچھار کی۔ ان کے جانے کے بعد بیوی نے مجھ سے پوچھا، ’’کیا تم انگوٹھی پہننا چاہتے ہو۔ بالکل مفت؟‘‘

    ’’نہیں بیوی! تم۔۔۔ تم۔۔۔‘‘

    ننھی بچی کی آواز آئی، ’’غوں غوں!‘‘

    میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے بیٹی۔‘‘

    بیوی نے پوچھا۔ ’’ننھی کیا کہہ رہی ہے؟‘‘

    ’’خدا حاضروناظر ہے‘‘، میں نے کہا۔

    اگر اللہ کی مہربانیاں شامل حال ہوں تو کیا کوئی نقصان میں رہ سکتا ہے؟ ایک دن میں شہر سے واپس آیا تو میں نے بیوی سے پوچھا، ’’یہ کچھ رقم ہے، نقد۔ تم اپنی اس معمولی سی انگوٹھی کے لیے کتنے روپے چاہتی ہو؟‘‘

    ’’ایک سوایک‘‘، بیوی نے کہا۔

    ’’ٹھیک ہے‘‘، میں نے کہا۔ ’’پھراب، خدا پر بھروسہ کرو اور مسکراتے ہوئے اپنی انگوٹھی اتار دو۔ یہ رہے روپے!‘‘

    میں نے اپنی جیب سے روپے نکالے اور ایک سو ایک روپے گن کر بیوی کو دے دیے۔ بیوی نے انگوٹھی اتار کر مجھے دے دی۔ میں نے اسے اپنی انگلی میں پہن لیا۔

    ’’سونے کی انگوٹھی۔ کتنی خوبصورت ہے!‘‘

    میں نے روپوں کی ایک گڈی نکالی۔۔۔ بہت روپے تھے۔۔۔ اور سارے روپوں کو بچی کے اوپر نچھاور کر دیا۔ بیوی حیرت زدہ ہوکر بڑبڑائی، ’’یہ انہیں بھگو دےگی۔‘‘ اس نے روپوں کو جمع کرکے گنا۔

    ’’تین سو پینسٹھ۔ یہ تمہیں ملے کہاں سے؟‘‘

    ’’کہاں سے؟ اللہ نے دیے۔ میں نے بیٹی کے نام سے لاٹری کا ٹکٹ خریدا تھا۔ اس میں مجھے ٹرانزسٹر ملا۔ ہندوؤں کو کچھ نہیں ملا۔ ہم نے ٹرانزسٹر چار سو پچہتر روپے میں بیچ دیا۔ ہم سب نے چائے پی، اس کے ساتھ کھایا بھی۔ بیوی، بتاؤ اب کون جیتا؟‘‘

    ’’میں!‘‘ بیوی نے کہا۔

    ’’تم؟‘‘ میں نے کہا اور ایک تاگے میں انگوٹھی کو باندھ کر ادھر ادھر گھمانے لگا۔ ’’اے بادشاہ! تیرا نام ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو گیا۔ ہم تیری روح کے سکون کی دعا کرتے ہیں، تیرے آشیرواد اور تیری عنایت سے مجھ جیسا حقیر فقیر آدمی اسے اپنی بیٹی کے گلے میں ڈالنے جا رہا ہے۔‘‘

    میں نے انگوٹھی بیٹی کے گلے میں لٹکا دی۔ بیٹی کے سینے پر انگوٹھی کی چمک دیکھنے والی تھی۔ بیٹی کے منھ سے آواز نکلی، ’’غوں غوں۔‘‘

    میں نے کہا، ’’بیٹی غوں غوں۔۔۔ جوں جوں وقت گذرتا جائےگا، میں اور میرا نام ماضی کی ہزاروں برس کی دھند میں گم ہو جائےگا، اس وقت ایک نوجوان عورت کہےگی، میری ماں کی ماں کی ماں کی ماں نے سونے کی یہ انگوٹھی میرے گلے میں ڈالی تھی۔‘‘

    مأخذ:

    منتخب کہانیاں (Pg. 31)

    • مصنف: ویکوم محمد بشیر
      • ناشر: آج کی کتابیں، کراچی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے