Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سوکھے پھولوں کی خوشبو

تسنیم منٹو

سوکھے پھولوں کی خوشبو

تسنیم منٹو

MORE BYتسنیم منٹو

    خوبصورت ناک نقشے اور مضبوط آواز والا شاعر سٹیج پہ کھڑا تھا۔ اس کے شعر پڑھنے کے انداز، شعر کی خوبصورتی اور اس کی دل کش شخصیت نے سننے والوں کو اسیرکر رکھا تھا۔

    سمجھ نہیں آرہی کہ احمد فراز کے بارے میں میں کس قدر جانتی ہوں اورمجھے کیا لکھنا ہے؟ ۔۔۔ لیکن میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں کچھ تو لکھوں۔ زمانہ بعید کی بات کرتی ہوں۔ اینٹوں والی چھت پر کرسیاں رکھی ہیں، شاعر کے لئے سٹیج ہے، سٹیج کے پیچھے ایک کمرہ سا ہے۔ فراز سٹیج پر کھڑے ہیں۔ کچھ سنانے کے بعد گفتگو کر رہے ہیں کہ سٹیج کے پیچھے والے کمرے میں سے ایک خاتون (اس وقت تو یقیناً جواں سال رہی ہوں گی لیکن میں اس جواں سال لڑکی کو خاتون کیوں کہنا چاہ رہی ہوں؟ )سٹیج پرآتی ہیں۔ فراز کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی ہیں۔ فراز حیرت سے سامعین کی جانب دیکھتے ہیں۔ حیرت میں مسرت بھی ہے۔ خاتون اپنے ہاتھ میں فراز کا ہاتھ لیے پچھلی جانب کہیں چلی جاتی ہیں۔ احمد فراز کو دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔

    بہت وقت گزر گیا۔ ایک روز ہمارے گھر آئے۔ ان کو عابد سے کچھ قانونی کام تھا۔ اپنے ساتھ وہ اپنا اثاثہ بھی لائے جو چار جلدوں میں محفوظ ہے۔ میں ان کے آنے سے بہت خوش تھی۔ ایسے لوگوں سے ملنا، بات کرنا میرے اندر خوشی کا اہتمام کرتا ہے۔ جائنٹ ایکشن کمیٹی کی ایک بھرپور میٹنگ میر ے گھرمیں تھی۔ کشور ناہید آئیں توفرازہمراہ تھے۔ بڑا اچھا لگا۔ فراز نے کشور کے ساتھ کوئی مذاق کیا تو کشور نے ایسے برا منایا کہ جیسے برا نہ منایا ہو۔ پانی مانگا۔ پانی پیا نہیں۔ گلاس کو تپائی پر رکھ لیا اور سگریٹ اور پانی کے ساتھ کھیلتے رہے۔ کھانا کھایاتو مچھلی کا سالن انہیں بے حد پسند آیا۔ یہی ذکر تھوڑا آگے بڑھاتی ہوں۔ بھائی صاحب NIRC کے چیئرمین تھے تو ان کا قیام راولپنڈی میں تھا۔ میں بھائی صاحب سے ملنے گئی تو فراز اور ان کی اہلیہ بھی پہلے سے موجود تھے۔ فراز نے اپنی بیگم سے میرا تعارف کروایا۔ میرے گھر کے کھانے کی تعریف کی اور اپنی بیگم سے کہا کہ آپ بھی ان کو اپنے گھر بلائیں۔

    ایک روز بھائی صاحب کے ہاں ۵۴شادمان گئی توفراز بھی موجود تھے۔ عابد کا پوچھا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ وہ تو فرشتہ ہے۔ مجھے یہ تعریف کچھ اچھی نہ لگی کہ اگرانسان کی اچھائیوں کی تعریف فرشتوں سے مماثلت ہے تو پھر انسان کی وہ ریزہ ریزہ محنت کیا ہوئی جس سے وہ اپنے وجود کو وقت کے سامنے تن کر کھڑا ہوتا ہے۔ فرازکا شادمان لاہور آنا مسلسل ہوا۔ یادہے کہ ایک روز گئی تو بھابھی جی نے سنگترے کھلائے جو فراز انڈیا سے لائے تھے۔

    فراز کے ساتھ نجی محفلوں میں اکثر کشور ناہید بھی ہوتیں اورایک اور خاتون بھی جن کا نام میں بھول رہی ہوں۔ گفتگو کا ایک اپنا معیار ہوتا۔ ان محفلوں میں اعجاز بٹالوی صاحب کی خوبصورت آواز سب آوازوں پرمحیط ہوتی تھی۔

    بھائی صاحب چلے گئے۔ فراز کے بارے میں سننا موقوف ہوا۔ میں اور میری دوست سیما پیروز قاسمی صاحب کے دفتر جایا کرتے تھے۔ سیما اور منصورہ احمد دونوں مینا کی طرح بولتی ہیں اور بولتی چلی جاتی ہیں اور میری کم سخنی پر پردہ پڑا رہتا ہے۔

    ایک روز میں اکیلی ہی قاسمی صاحب کے دفتر چلی گئی۔ وہاں دو اور حضرات کے علاوہ فراز صاحب بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھے قطعاً نہیں پہچانا۔ لوگوں کے ہجوم میں رہنے والا انسان سر راہ ملنے والے کو کیا پہچانتا۔ خیر قاسمی صاحب نے میرے حوالوں سے میرا تعارف کروایا (عورتوں کو اپنے حوالے درکار رہتے ہیں) تو بہت گرم جوشی سے ملے اور مجھے مخاطب کرکے باتیں بھی کرتے رہے۔ اٹھنے لگی تومزید بیٹھنے پہ اصرار کیا۔ فراز کو ملال تھا کہ مجھے پہچان نہیں سکے۔ خیر۔۔۔ اور اب مئی ۲۰۰۵ء میں، میں اورعابد کیلیفورنیا گئے۔ میری بیٹی صالحہ سان فرانسسکو کے مضافات San Ramon میں رہتی ہیں۔ وہاں بہت سے پاکستانی احباب سے ملاقات ہوئی جوکہ عرصہ دراز سے وہاں مقیم ہیں۔ ایک صاحب ریاض حسین جن کا تعلق سیالکوٹ سے تھا، ان کے ہاں ڈنر تھا۔ بہت لوگ مدعو تھے۔ چھ سات دیگر خواتین کے ساتھ ایک کامنی سی خاتون تھیں جن کا نام سلیکھا تھا۔ عابد ذرا دیر سے پہنچے تو سلیکھا نے بے ساختہ کہا کہ میں سمجھی احمد فراز آ گئے ہیں۔ میں نے ان سے کہا!اچھا تو آپ کی ملاقات فراز صاحب سے ہو چکی ہے۔ سلیکھا نے بہت فخر سے بتایا، ’’میں ان سے مل چکی ہوں۔ انہوں نے مجھے اپنی شاعری کی کتاب دی اور اس پہ کچھ لکھا بھی۔ جوانہوں نے لکھا میں پڑھ نہیں سکتی تھی کیونکہ اردو مجھے آتی نہیں۔ میں نے ذہن گھمایا تو مجھے یاد آیا کہ فلاں بازارمیں، فلاں دکان پر ایک شخص ہے جسے اردو آتی ہے۔ میں بھاگم بھاگ اس دکان پر پہنچی۔ کتاب پہ لکھا ہوا پڑھا گیا۔ میرا خیال تھا کہ میرے بارے میں کچھ لکھا ہوگا لیکن پتہ چلا کہ یہ شعر فراز صاحب کا ہی ہے اوراس میں محبت کی خوشبو کے پھیلاؤ کا ذکر ہے۔ کتاب پہ میرا نام زلیخا لکھا۔ فراز صاحب نے یہ بھی کہا کہ اب تمہارا نام سلیکھا نہیں زلیخا ہے۔‘‘

    سلیکھا نے زلیخا کا مطلب پوچھا۔ مجھے جو معلوم تھا وہ میں نے بتا دیا۔۔۔ سلیکھا سب گفتگو بڑے شوق اور جذبے سے کر رہی تھی۔ کھانا کھاتے ہوئے ہماری یعنی میری اور سلیکھا کی تصویر بھی بنائی گئی۔ سلیکھا نے کہا کہ تسنیم آپ یہ تصویر فراز صاحب تک پہنچا دینا۔ میں نے کہا کہ اس میں تو میں بھی ہوں۔ انہوں نے کہا کوئی بات نہیں بس آپ پہنچا دینا۔ وہ ضرور مجھے پہچان جائیں گے۔ بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا۔ ان کی باتیں سننا ان کے روشن چہرے جن کا رابطہ ان کے باطن کی روشنیوں سے منسلک ہوتا ہے، اس سے متاثر ہونا اور پھر یہ سوچنا کہ اس بڑے آدمی کی آنکھوں میں ایسی روشنی ہے کہ سامنے والے کو چکا چوند کرتی ہے۔ معروضی حقائق کی مختلف صورتوں نے کبھی شاد کیا اور کبھی اداس۔ دل ودماغ میں خیالات کا بھنور کبھی انہیں اندر چھپاتا ہے اور کبھی بہاؤ پر لے آتا ہے۔ یہ سب لوگ دنیا میں ہوتے ہیں لیکن پھر بھی دنیا سے الگ۔ میں تو ایسے ہی سوچتی ہوں۔ یہ الگ بات کہ روٹی رزق کا مسئلہ ہر ایک کے ساتھ ہے۔

    فراز کی یاد کی کتاب میں سوکھے پھول ہی نہیں بلکہ اس میں سارے ہی رنگ ہیں۔ لال گلابوں کا رنگ، کھلے موسموں کی فضا کا رنگ، اداسی اور ملال کا رنگ، کسی مہوش کے بدن کی خوشبو کا رنگ، اپنے وطن میں تباہ ہوتی زندگیوں کے لہو کا رنگ اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ راکھ اور خاک کا رنگ۔

    میں فراز کی شاعری پر بات کرنے کی اہل نہیں ہوں۔ بس اس قدرکہوں گی کہ فراز کی شاعری ایک سمندر ہے جس کی ہر لہرکے ساتھ موتیوں کی بوچھاڑ ہے۔

    پہلے میں ناصر کاظمی اور منیرنیازی کو پڑھ کر آزردہ ہوتی تھی اب میری آزردگی میں احمد فراز بھی شامل ہو گئے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے