Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طالب بہشت

دیپک بدکی

طالب بہشت

دیپک بدکی

MORE BYدیپک بدکی

    وہ دن ہی کچھ منحوس سا تھا۔ معمول کی طرح سکول میں صبح کی مجلس کا انعقاد ہوا۔ بچے خوش و خرم، چہچہاتے ہوئے اور ہنسی مذاق کرتے ہوئے گراونڈ میں جمع ہوئے۔ ان کے سامنے اساتذہ تھے جو ان کو قطاروں میں کھڑے رہنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ کچھ طلبہ ایسے بھی تھے جنھوں نے پہلی بار سکول میں داخلہ لیا تھا اور اجنبی ماحول سے دست و گریبان تھے۔ جغرافیہ اور کیمسٹری کی استانیوں نے کچھ ہی دن قبل نوکری جوائن کر لی تھی۔ بہت کوشش کر کے انھوں نے اپنے مجازی خداؤں کو باور کرایا تھا کہ معلمی ایک نیک و صالح پیشہ ہے اور ملک کو اچھے اور مخلص اساتذہ کی سخت ضرورت ہے۔ پھر گھر میں زیادہ آمدنی آنے کی وجہ سے ان کے بچے اچھے سکولوں میں تعلیم بھی تو حاصل کر سکتے ہیں۔

    کچھ لمحوں بعد پرنسپل صاحبہ وارد ہوئی۔ اس کا چہرہ رعب داب کا اشتہار بنا ہوا تھا۔ یکایک ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اس کے بعد علامہ اقبالؔ کی دعا فضا میں گونجنے لگی:

    لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

    زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

    دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے

    ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

    میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو

    نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو

    دعا کے اختتام پر پرنسپل صاحبہ نے معمول کی طرح طلبہ کو چند نصیحتیں دے ڈالیں اور سکول میں ڈسپلن قائم رکھنے پر زور دیا۔ ویسے بھی سکول میں سخت نظم و ضبط کی فضا بنی ہوئی تھی۔ لیکن سیکورٹی کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں کیونکہ ایک تو آرمی پبلک سکول تھا اور وہ بھی فوجی چھاونی کے بیچوں بیچ۔ دعائیہ مجلس کے فوراً بعد سبھی طلبہ اپنے اپنے کلاس روم میں چلے گئے۔ طلبہ کے پیچھے پیچھے ان کے استاد بھی چلے گئے۔ ایک اور تھکا دینے والا دن ان کے سر پر تھا۔

    قریب ساڑھے دس بجے پورے سکول میں سراسیمگی پھیل گئی۔ فرنٹیر کور کی وردی پہنے کئی خودکار بندوق بردار قبرستان سے ملحق عقبی دیوار پھاند کر اندر آ گئے۔ بعد میں پتا چلا کہ ان کی تعداد سات تھی اور وہ تحریک طالبان پارٹی کے رکن تھے۔ ان میں تین عربی، ایک چیچین اور دو افغانی تھے۔ سنا ہے کہ انھوں نے اس کار روائی سے پہلے کئی بار اس جگہ کا گشتی معائنہ کیا تھا تاکہ واردات انجام دینے میں کوئی چوک نہ ہو۔ تبھی تو وہ دوڑتے ہوئے سیدھے مرکزی آڈیٹوریم تک پہنچ گئے جہاں بہت سارے طلبہ تربیت پانے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ راستے میں وہ اندھا دھند فائرنگ کرتے چلے گئے۔ آڈیٹوریم کے دروازے پر ایک معلمہ نے ان کو بہت دیر تک روکے رکھنے کی کوشش کی تاکہ طلبہ کو بھاگنے کا زیادہ سے زیادہ وقت مل جائے۔ گولیوں کی آواز سنتے ہی بچوں میں دہشت پھیل گئی۔ انھیں جہاں کہیں بھی دروازہ یا کھڑکی دکھائی دی، وہیں سے بھاگنے لگے۔ اس کے باوجود کئی بچوں کے معصوم، بےریا اور بےخطا جسم گولیوں سے چھلنی ہو گئے اور بہت سارے زخموں سے تڑپتے رہے۔ معلمہ کے سینے میں بھی کئی گولیاں اتر گئیں پھر بھی اس نے حتی الامکان کوشش کی کہ دہشت گرد آگے نہ بڑھ سکیں۔ وہ تب تک بچوں کو بچانے کی کوشش کر تی رہی جب تک خون میں لت پت اس کا جسم بے حس و حرکت زمین پر نہ گر پڑا۔

    میمونہ کئی سالوں سے سکول میں کام کرتی تھی۔ البتہ اس کی پھولوں کی سیج ابھی تک سوکھی نہ تھی۔ ڈیوٹی کو فریضہ سمجھ کر وہ شادی کے چوتھے ہی دن سکول میں حاضر ہوئی تھی۔ آج اس نے سیکڑوں ماؤں کی کوکھ بھری پری رکھنے کے لیے اپنی کوکھ قربان کر دی۔

    کبھی کبھی لگتا ہے کہ بنی نوع انسان جنت کی طلب میں اپنی خوبصورت زمین کو جہنم بنا نے پر تلا ہوا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تعمیر و تخریب دونوں انسان کی سرشت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ جبلی خصلتیں اور غیرفطری عقیدے انسان کوایسے کام کرنے پر اکساتے ہیں جنھیں معقول انسان دائرۂ تہذیب سے خارج سمجھتا ہے اورسچ بھی یہی ہے کہ اگر انسان صرف اپنی بہیمی جبلتوں کے تابع رہے تو وہ تخریبی کار روائی سے باز نہیں رہ سکتا۔ ایک جانب دنیا کی آبادی کا بیشتر حصہ ناخواندہ ہے۔ وہ برے بھلے کی تمیز نہیں کر پاتا۔ دوسری جانب چند طاقت ور لوگ زندگی کی آسائشوں وسہولتوں کی مسلسل فراہمی کے لیے غریب نہتے عوام کو دامے درمے و قلمے اپنی گرفت میں لیتے ہیں اور ان کے توسل سے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ اپنا منصب پانے کے لیے وہ اکثر مذہب، نسل، قومیت اور طبقاتی کشمکش کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ کہاں چاہیں گے کہ غریبوں کی اولادیں پڑھیں، لکھیں اور تعلیم یافتہ بن جائیں۔ انھیں معلوم ہے کہ تعلیم کا پھیلاؤ ان کے اقتدار کا خاتمہ ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ان کے استبداد کے لیے براہ راست چنوتیاں ہیں۔ پاکستان ہو یا ہندستان، افغانستان ہو یا عراق، سوڈان ہو یا نائجیریا، ہر جگہ تعلیمی ادارے ان خود ساختہ عاملِ اخلاق کے نشانے پر رہتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں کو آئے روز نذر آتش کیا جاتا ہے۔ نرینہ جبریت لڑکیوں کے لیے سکول کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ لڑکیوں کو گھر میں قید کرنے کے فرمان جاری ہوتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگ ظاہراً دور قدیم کو تہذیب کا سنہری دور مانتے ہیں جب انسان تیر و تفنگ لے کر میدان جنگ میں اترتا تھا، اکثر مائیں زچگی میں راہ عدم اختیار کرتی تھیں اور بچے جنم لیتے ہی خدا کو پیارے ہو جاتے تھے۔ مگر دیکھا جائے تو یہ لوگ خود موڈرن تکنالوجی کی ایجادات و اختراعات سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ جدید ہسپتال، دوائیاں، موبائل فون، ہوائی جہاز اور ٹیلی ویژن سب ان کو دستیاب رہتے ہیں۔ جدید ترین گاڑیوں میں براجمان، بدن پر بلٹ پروف جیکٹ، کندھوں پر ترقی یافتہ ملکوں میں بنائے گئے راکٹ لانچر اور ہاتھوں میں مشین گن، کلاشنکوف اور گولی بارود لے کر یہ لوگ دنیا بھر میں دہشت کا راج قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ کاش کوئی ان سے صرف اتنا پوچھے کہ جن ہتھیاروں سے تم لیس ہو ان میں سے کتنے تم نے ایجاد کیے ہیں اور کتنے تمھارے ملک میں بنتے ہیں؟ پھر بھی نہ جانے کیوں یہ لوگ ملک کی ترقی کو روکنے میں ہی خوش ہیں۔

    میمونہ فوج کے افسر کی بیٹی تھی۔ اس نے بچپن ہی سے ہمت و حوصلے کو اپنا شعار بنایا تھا۔ وہ ایک کوکھ کیا ہزاروں کوکھیں اپنے مادر وطن کے نونہالوں کے لیے قربان کرنے کو تیار تھی۔ کچھ جیالے ایسے بھی ہوتے ہیں جو نقیبانِ تاریکی سے مرغوب نہیں ہوتے۔ لہو کے بہتے دریاؤں، خون سے رنگی وردیوں، لال چھینٹوں سے گلکاری کی ہوئی عبادت گاہوں سے مرعوب نہ ہوکر وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان کی امنگوں کا سورج کبھی نہ کبھی ضرور طلوع ہوگا۔ اسی نئی صبح کی آرزو میں کروڑوں بچے ہر صبح اندھیروں کو مٹانے کے لیے اجالے کی دعائیں کرتے ہیں۔

    پرنسپل صاحبہ گولیوں کی آوازیں اور شور و غل سن کر فوراً پولیس، ہسپتال اور کچھ نزدیکی والدین کو اطلاع دینے کی کوشش کرتی رہی۔ کچھ ہی وقفے میں سکول کو پاکستانی سپیشل سیکورٹی گارڈز نے گھیر لیا۔ انھوں نے دہشت گردوں کی ناکہ بندی کر کے ان کے بھاگنے کے تمام راستے بند کر لیے۔ تاہم مزید قتل و غارت روکنے کے لیے صبر و تحمل سے کام لیتے رہے۔ دہشت گرد کمرہ بہ کمرہ جاکر بچوں کو ڈھونڈ رہے تھے اور پھر کچھ ہی لمحوں میں پرنسپل کے کمرے تک جا پہنچے جہاں کئی بچوں نے پناہ لی تھی۔ وہ کونوں چھدروں میں دبک کر چھپ گئے تھے یہاں تک کہ اپنی سانسیں بھی روک رکھی تھیں۔ دو دہشت گردوں نے دروازے سے اندر آتے ہی پرنسپل کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا لیا اور وہ خون سے لت پت اپنی کرسی پر ہی ڈھیر ہو گئی۔ معصوم بچے اپنی آنکھوں سے یہ مکروہ نظارہ دیکھ رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے خون کے آنسو بہہ رہے تھے۔ دریں اثنا سیکورٹی فورسز کے جوان بھی اندر آئے اور انھوں نے دونوں دہشت گردوں کو مار گرایا مگر پرنسپل کو بچا نہ سکے۔

    ادھر ایک افغانی دہشت گرد نویں کے کلاس روم میں گھس گیا جہاں فوزیہ بچوں کو مرغی کی طرح اپنی حفاظت میں لیے بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے پر خوف و ڈر کے آثار بالکل نہ تھے۔ وہ بچوں کو با ہمت اور خاموش رہنے کی ہدایت دے رہی تھی۔ بہت برس پہلے وہ خود بھی افغانستان سے رفیوجی بن کر آئی تھی۔ پشاور میں اس نے پوسٹ گریجویشن اور بی ٹی کی ڈگریاں امتیاز کے ساتھ حاصل کی تھیں اور پھر اس سکول میں استانی بن گئی تھی۔ پھر بھی وہ اپنے ماضی کو بھلا نہیں پائی۔ اسے یاد تھا کہ کیسے اس کے والد کو سربازار گولیوں سے بھون دیا گیا تھا اور اس کی ماں اور وہ گھاس سے لدی ہوئے ٹرک میں سرحد پار کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ اس کے باپ کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ لڑکیوں کا سکول چلاتا تھا اور ان کو علم کے زیور سے آراستہ کر رہا تھا۔ کئی بار دھمکیاں ملنے کے باوجود اس نے سکول کو بند نہیں کیا۔ فوزیہ اسی مجاہد کی بیٹی تھی۔ اسی دن اس نے قصد کیا تھا کہ وہ معلمی کو ہی اپنا پیشہ بنائےگی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس کے محبوب جابر خان نے بھی اسلحہ اٹھائے تھے۔ فوزیہ نے کئی بار اس کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ راستہ اجالے کے بدلے اندھیرے کی طرف جاتا ہے مگر جابر پر تو تطہیر معاشرہ کا بھوت سوار ہو چکا تھا وہ کہاں مانتا۔ اس کے سامنے عورت کی کیا وقعت تھی کہ وہ اس کی بات مان لیتا۔ عسکری صحرا میں وہ بہت دور چلا گیا اور فوزیہ صرف اس کو پکارتی رہ گئی۔ پہلے والد کے جانے کا غم اور پھر محبوب کے بچھڑنے کا غم! کتنے صدمے برداشت کر کے فوزیہ نے اپنی مٹی، اپنی دھرتی کو الوداع کہا تھا اور گھاس کی ٹرک میں چھپ کر ماں کے ساتھ یہاں پہنچ گئی تھی۔

    ‘’فوزیہ۔۔۔! تم۔۔۔؟’‘ ہاتھ میں کلاشنکوف لیے اور چہرے پر کالا ڈھاٹا باندھے دہشت گرد نے سوال کیا۔

    فوزیہ حیران ہو گئی کہ یہ آواز کس کی تھی؟ اس نقاب پوش کو میرا نام کیسے معلوم ہے؟ آواز تو کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی ہے۔ وہ پھر بھی خاموشی سے اس مداخلت کار کی حرکتوں کو دیکھتی رہی۔

    ‘’فوزیہ، مجھے نہیں پہچانا۔ میں ہوں جابر۔۔۔ تمہارا جابر!‘‘ نقاب پوش نے اپنا ماسک چہرے سے ہٹا لیا۔

    ’’جابر۔۔۔ !وہ تو اسی روز مر گیا جب اس نے میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود اپنے ہاتھوں میں کلاشنکوف اٹھا لیا۔ میرا جابر تو کب کا مر چکا ہے۔ تم تو بس ایک دہشت گرد ہو اور کچھ بھی نہیں۔ تمھارے ہاتھوں میں نہ جانے کتنے معصوم بچوں کا خون لگا ہوا ہے۔’‘ فوزیہ نے دو ٹوک جواب دیا۔

    ‘’نہیں فوزیہ، تم غلط سمجھ رہی ہو۔ میں خدا کی بھیجی ہوئی تعلیمات پر گامزن ہوں۔’‘

    ‘’جھوٹ بولتے ہو تم۔ ہم دونوں بچپن میں ایک ہی مدرسے میں قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ مجھے بتاؤ کس دن مولوی صاحب نے قتل و غارت اور معصوموں کو تہ تیغ کرنے کا سبق دیا تھا؟ یہ تو تمھاری بھول ہے۔ تم غلط لوگوں کے ساتھ ہولیے۔ اپنے ذہن کے بدلے اپنے آقاؤں کے ذہن سے سوچنے لگے۔ جو کچھ تم کر رہے ہو، یہ خدا کا فرمان نہیں ہے۔ خدا کا فرمان ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے تمھیں چین بھی جانا پڑے تو چلے جاؤ۔ علم ہی نور ہے اور علم ہی بصیرت عطا کرتی ہے۔ تم اندھیروں میں بھٹک رہے ہو۔’‘

    ‘’مگر تم سمجھتی کیوں نہیں۔ ان فوجیوں نے بھی تو ہمارے بال بچوں کو مار ڈالا۔’‘

    ‘’کیوں مار ڈالا؟ ملک میں اتنی آبادی ہے ان پر بمباری کیوں نہیں کرتے؟ یہ کبھی سوچا ہے۔ در اصل اپنے بال بچوں کو تم نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان کی موت کے ذمےدار تم لوگ ہو جنھوں نے ان کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ فوج تو ملک کی حفاظت کر رہی ہے اور اس کو پراگندہ ہونے سے بچا رہی ہے۔’‘

    فوزیہ کی شخصیت سے مرغوب ہو کر وہ کچھ دیر کے لیے گولیاں چلانا بھول گیا۔ بڑی مدت کے بعد اسے اپنی محبوبہ کا سامنا ہوا اور وہ بھی ایسی جگہ جہاں کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کچھ ساعتوں کے لیے اس کا کلاشنکوف خاموش ہو گیا۔

    ادھرسیکورٹی فورسزنے اس کے سبھی ساتھیوں کو ایک ایک کر کے مار ڈالا اور یرغمالی بچوں کو چھڑوا دیا۔ تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب بچے اور اساتذہ مارے گئے جبکہ تین سو سے زیادہ بچے زخمی ہو گئے۔ یہ اعداد و شمار حکومت کی طرف سے جاری ہوئے تھے مگر جیساکہ عام طور پر ہوتا ہے، مرے ہوئے اور یرغمال شدہ افراد کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔

    ‘’جابر، میں بھی افغان ہوں، مجھے بھی یہ کھلونے چلانے آتے ہیں اور شاید تم سے زیادہ طاقت ور اور بہادر بھی ہوں۔’‘ اتنا کہہ کر جونہی جابر کا دھیان بٹ گیا فوزیہ نے جھپٹ کر اس کے ہاتھ سے بندوق چھین لی، اس کو پٹک کر زمین پر گرا دیا اور بندوق کی نلی جابر کے سینے پر رکھ دی۔

    جابر سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی اس کو یہ منظر بھی دیکھنا پڑےگا۔ ‘’فوزیہ، یہ تم کیا کر رہی ہو۔ اپنے جابر کو ماروگی کیا؟‘‘

    ’’اپنا جابر۔۔۔؟ کہاں ہے وہ۔۔۔؟ میرے سامنے تو کوئی اور ہے جس کے ساتھیوں نے میرے والد کو مار ڈالا۔۔۔ جس کے آقاؤں نے مجھے اور میری والدہ کو گھر سے بے گھر کر دیا۔۔۔ جس نے میری دھرتی کو قبرستان بنا دیا۔۔۔ جس نے میرے وطن میں علم کی شمع بجھا دی۔ یہ وہ جابر خان نہیں ہے جو کبھی میرا محبوب ہوا کرتا تھا۔ وہ تو کب کا مر چکا ہے۔ یہ تو انسانیت کا دشمن ہے۔’‘

    دریں اثنا فوزیہ نے بچوں کو باہر جانے کا اشارہ کر دیا اور وہ سبھی بچے، ڈرے سہمے ہوئے، کلاس روم چھوڑ کر بھاگ گئے۔

    ’’فوزیہ تم گولی نہیں چلانا۔ میرے جسم پر خود کش بم لگا ہوا ہے۔ دھماکہ ہو جائے گا اور تم مر جاؤگی۔ میں تمھیں مرتا نہیں دیکھ سکتا۔’‘

    ‘’خود کش بم۔۔۔ !ہا ہا ہا۔۔۔ !جنت جانے کی پوری تیاری کر کے آئے ہو۔ پھر تو تمھیں وہاں تک پہچانا کار ثواب ہے۔’‘

    ‘’فوزیہ، کچھ اپنا بھی سوچ لو۔ تم خود بھی مر جاؤگی۔’‘

    ’’موت سے بزدل ڈرتے ہیں جابر خان۔ میں اس باپ کی بیٹی ہوں جس نے ہنستے ہنستے جان دے دی مگر سکول بند نہیں کیا۔ مجھے ان کھلونوں سے ڈر نہیں لگتا۔ موت تو یوں بھی تمھارے سر پر ناچ رہی ہے۔’‘ اور فوزیہ نے کلاشنکوف کی لبلبی دبا دی۔

    اس کے ساتھ ہی زور دار دھماکہ ہوا۔ جابر کا وجود آگ کی شعلوں کی نذر ہو گیا۔ وہ تب تک تڑپتا رہا جب تک اس کا جسم جل کر راکھ ہو گیا۔

    فوزیہ بھی لقمۂ اجل ہو گئی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس نے ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کیا تھا اور تیس کے قریب بچوں کی جانیں بچائی تھیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے