Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طربیہ خداوندی جدید

محمد عاطف علیم

طربیہ خداوندی جدید

محمد عاطف علیم

MORE BYمحمد عاطف علیم

    (قاطع طربیہ خداوندی از دانتے)

    طربیہ خداوندی (قدیم ) کا تیرھواں کانتو اور لایعنیت کے بےانت پھیلاؤ میں پھیلا خودکشوں کا جنگل۔

    تم جو خوش بخت ٹھہرو اور اس کائنات پر محیط جہنم زار کے طبقات ارضی میں برپا ابسرڈسفاکیت سے رہائی پانے کی کوئی ترکیب کرپاؤ تو تمہیں یہیں آنا ہوگا۔

    یہ مقام لامقام جو لاموجود کی لکھو لکھا پرتوں میں سے کسی ایک بےنام پرت میں نہاں ہے اور سیاہ دھند کے مرغولوں کی پناہ میں ہے، تمہاے لیے ناگزیر ابدی جائے پناہ ٹھہرا دیا گیا ہے۔ کچھ اور نہیں تو تمہاری تنوع پسند طبیعت کو یہاں پہنچ کر قرار ضرور مل جائےگا۔ روز کے روز نئے عذاب اور روز کے روز نئے چٹخارے۔ واللہ! طبیعت بشاش ہو جائےگی۔

    تم جو یہاں آنا چاہو تو کوئی ایسا مشکل بھی نہیں، ارض فنا نصیب سے رہائی کا پروانہ ہاتھ آتے ہی تم بھائی تھا ناٹوز کے خودکار بندوبست کے تحت وقت کو لاوقت سے جدا کرتے دریائے ظلمات کے کنارے از خود پہنچا دئیے جاؤگے۔ تبھی کہیں سے ایک مہیب شکل کی کشتی نمودار ہوگی۔ اس کشتی کو کھینے والا، ایک ڈراؤنی شکل کی انسان نما مخلوق جسے دیکھ کر ہنسی ضبط کرنی مشکل ہو، تمہیں کشتی میں بٹھلائےگا اور شب دیجور سے سیاہ تر پانیوں کے پار پہنچا دےگا۔

    اک ذرا ٹھہریو، تمہیں خبردار کیے جاویں کہ کیرون نامی یہ سرپھرا یادگار ہے ملاحوں کی کسی معدوم نسل کی جو مذکور ہے کہ غیض کے پانیوں میں پیرا کرتی تھی اور دیوثیت میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھی۔ اس مضحک مخلوق نے نامعلومزمانوں کے کسی خدا سے زوری یا یاری میں دریائے ظلمات کے دونوں کناروں بیچ کشتی رانی کےحقوق حاصل کر رکھے تھے اور مذکور ہے کہ بشاشت اور مذاق سلیم سے عاری اس قبیل کا ہر فرد دوسرے کی جورو اور ماس خود پر مباح رکھتا اور گروہی روایت کے عین مطابق کسی دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار کر پتوار چلانے کے حقوق جیتا کیا کرتا تھا۔

    اپنے یہ کیرون صاحب (خدا ان کا حامی و مددگار ہو) اپنے پیش رو ملاحوں کی تین نسلوں کے گھونٹ بھر چکے تب کہیں جاکر انہیں معدوم ہوتی نسل کا آخری فرد ہونے کا ٹائٹل اور پتوار چلانے کے حقوق نصیب ہوئے۔ سو میاں! کشتی میں بیٹھنا تو ذرا دھیان سے۔ اپنی نگاہ نوک پا کے ساتھ باندھے رکھنا اور ہنسی ٹھٹھو ل تو خیرلپیٹ لپوٹ بغل میں دابنا ہی، بیکار کی سوشلائزیشن سے بھی گریز کرنا ورنہ تم انہیں جانتے ہی نہیں۔

    خیر، دریائے ظلمات سے آگے جانے کیلئے تمہیں کسی ورجل کو ٹورسٹ گائیڈ ٹھہرانے کی ضرورت نہیں۔ تم کیرون بھیا کے غیض کو ہوا دینے سے باز رہے تو ازخود ہلکے ہلکے یہاں، اس دیار ممات میں پہنچ ہی جاؤگے۔ سیا ہ خون سے بھرے درختوں اور زرد چرمراتے پتوں کے اس بن میں۔ زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے۔ زرد پتوں کا بن جو تیرا دیس ہے۔

    ذرا رکو، میں اپنی رو میں بہک کر کہیں اور نکل گیا ہوں۔ مقصود اس مقامِ فرحت بخش کو مارکیٹ کرنا نہیں بلکہ یہ اطلاع بہم پہنچانا ہے کہ میں مامور کیا گیا ہوں کہ اس جہنم زار کے بارے میں حضرت دانتے الیگری اور ان کے سرپرست کلیسا کے عقائد کے تحت رنجور اور مقہور انسانوں کے دلوں میں کلیسائی دہشت بٹھانے کیلئے گھڑی گئی بیکار کی یاوہ گوئی کا بطلان کروں اور اس کی اصل شکل و صورت کو ریکارڈ پر لے آؤں تاکہ جو بندہ بشر مقام فنا سے آئے وہ اس مقام آخر کو بنا شکوہ شکایت خوش دلی سے اپنا سکے۔

    یہ تب کی بات ہے جب میں تمہاری دنیا میں زندگی کیا کرتا تھا (اور خیر سے کیا زندگی تھی وہ بھی!) میں وہاں کے نوع بہ نوع عذابوں، تذلیلوں، تنہائیوں اور رسوائیوں کے ایک طویل اور غیر مربوط سلسلے کو بہلانے کیلئے کتابوں کے ورق الٹا تے پلٹاتے کسی اور دنیا میں نکل جایا کرتا تھا۔ کوئی ایسی دنیا جہاں اور طرح کے لوگ ہوں اور طرح کے عذاب ہوں۔ اور کچھ نہ سہی کم از کم عذاب دھندگان کے مکھوٹے تو بڑھیا کوالٹی کے ہوں نہ کہ ایسے بوسیدہ اور نچے نچائے کہ ان کے پیچھے سے جھانکتے کریہہ چہرے صاف پہچانے جائیں۔

    انہی دنوں مجھے ڈیوائنا کا میڈیا والے موسیو دانتے الی گیری سے تعارف کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس تعارف کا بہانہ تھا ان کی وہ تصنیف جو آج بھی جہنم کے بیان میں حرف آخر تصور کی جاتی ہے۔

    ڈیوائنا کا میڈیا میں خیر اور کیا تھا مگر جہنم کا بیان۔ بھئی واہ! کیا نقشہ بندی تھی، کیا جبر جور تخیل تھا جیسے کتاب کے پہلے لفظ سے آخری لفظ تک خوف میں بھیگے اسرار کا قالین سا کھلتا چلا جائے۔ مانو جہنم کا سفر نامہ نہ ہو ایک طرح کی ہڈ بیتی اورخواہش مرگ کو انگیخت کرتا مرتیو راگ ہو۔ مرتیو راگ بھی ایسا کہ اس میں برفیلی آگ میں سلگتی ہڈیوں کی پرلذت کراہوں اور انتظار کی صلیب پر گڑی بے دید گناہگار آنکھوں میں پھرتی تیزابی سلائیوں کی اذیت سے جنم پذیر ہوتی پرہوس سسکیوں سے مزین راگنیوں اور بندشوں نے سماں باندھ رکھا تھا۔

    میں مسحور سا ہو ڈیوائنا کا میڈیا کے ایک کے بعد ایک کانتو سے گذرتا، نویکلے عذابوں کی بشارتوں کا تعاقب کرتا اس ظلمت پارے کے قلب میں اترتا چلا گیا۔ کٹ ٹو شارٹ کروں تو یہ کہ ارض فنا نصیب میں اپنے چاروں اور پھیلی جمائیاں لیتی بوڑھی سفاکیت سے اوربے ہنر دماغوں کے تخلیق کردہ عذابوں کی بےگیاہ یکسانیت سے اور بار بار دہرائے جانے والے تذلیلوں، تنہائیوں اور رسوائیوں کے طویل وغیر مربوط سلسلے سے رہائی پانے کی جو میں نے ترکیب کی تو اس کی ترغیب میں نے اسی ڈیوائنا کا میڈیا سے پائی۔

    میں مارجن آف ایرر رکھتے ہوئے کہوں گا کہ جہنم زار کے اس پرو موشنل میٹریل یعنی ڈیوائنا کا میڈیا کا ترمیم شدہ ایڈیشن مرتب کرنے کی اسائنمنٹ جو آج سے کہیں پہلے دانتے کی بجائے میرے سپرد ہوئی ہوتی تو میں اپنی جانب سے ایک عقیدت مند کی ناگزیر یاوہ گوئی کو شامل کرتے ہوئے جہنم زار تک کے راستے کو کچھ ان الفاظ میں تصویر کرتا:

    ’’میں نے جب وقت کی گرد جھاڑ مقام موعود کا قصد کیا تو دیکھا کہ دریائے ظلمات یہ میرے سامنےتھا۔ میں نویکلے پن کا تمنائی مارے خوشی کے کلکارتا ہوا کالے بھجنگ پانیوں کے کنارے آبیٹھا کہ ابھی کشتی آئےگی اور دریا پار مجھے بھی کوئی ڈھنگ کا ٹھکانہ نصیب ہو جائےگا۔ چلو یہاں تک تو ٹھیک رہا مگر یہ دیکھ کر دل کچھ بیٹھ سا گیا کہ وہاں دور دور تک کوئی نیا نہ کھیون ہار بس ایک سیاہ رات سی ہے جو اپنے بھیتر میں نت نئے عذابوں کاطومار لیے شانت سی بہے جا رہی ہے۔

    خودکشوں کے جنگل کے پار دریائے ظلمات کے کنارے کا یہ حصہ ان لوگوں کیلئے مخصوص تھا جو میری ہی طرح سے اپنی حیات ارضی کا سلسلہ خود منقطع کرکے وہاں پہنچے تھے۔ بھائی تھانا ٹوز نے جب مجھے وہاں اتارا تو میں نے دیکھا کہ وہاں ایک خلقت تھی کہ ٹوٹی پڑ رہی تھی۔ حیات ارضی میں پالی جانے والی عمر بھر کی عادتوں کا بگاڑ بھلا لمحے بھر میں کیسے دور ہوتا سو وہاں بھی ایک عجب سی آپا دھاپی تھی۔ شاید نوواردان نے یہاں بھی پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر پاتال میں اپنے لیے رفعتیں پانے کا امکان فرض کر لیا تھا۔ یہ آپا دھاپی مقام موعود میں بیڈ گورنینس کا پہلا اشارہ تھا۔

    نجانے کے وقت تلک ہم لوگ وہاں ڈیرے ڈالے پڑے رہے کہ کوئی سواری میسر ہو تو پار اتریں۔ فرصت میسر تھی سو خوب سوشلائزیشن ہوئی۔ سب کے سب وہ تھے جو زندگی کے امکانات سے تہی ہو چکے تھے۔ سو کسی نے زہر پھانکا، کسی نے گولیاں نگلیں اور کسی نے پھندہ لیا۔ الغرض جتنے بندے اتنے ہی خود ہلاکتی کے طریقے۔ ہم میں ایک حساب کتاب سیکھا ہوا بندہ بھی تھا،جمع تفریق میں سخت کھرا۔ اپنی حیات ارضی کے دنوں میں کہیں ایمانداری کا ارتکاب کر بیٹھا اور نوکری سے گیا۔ اس کے بعد روزگار کی راہ دیکھتے دیکھتے پھانسی لے بیٹھا تھا۔ اس نے بہت پیچیدہ حساب کتاب کرکے بتلایا کہ کیرون پہلوان کی سوختنی سواری نمودار ہونے تلک کچھ اوپر نیچے ہزار کے لگ بھگ یگ تو بیت ہی چکے تھے۔

    خیر، انتظار ختم ہوا،سیاہ دھندلکوں کی دبازت میں سے کشتی نمودار ہوئی اور ہم اس میں دھڑادھڑا سوا رہو جانب کوچہ دلدار یعنی بطرف تحت الثریٰ چلے۔ کشتی میں سوار ہو سب اپنی اپنی جگہ سنبھال چکے تو ہم نے دیکھا کہ اس اللہ ماری پرانی دھرانی کشتی کا کھیون ہار مسٹر کیرون عجیب کینڈے کا تھا، دیو قامت اور کریہہ و مضحک صورت، اتنی کہ ایک نظر دیکھنے سے کپکپی چھوٹ جائے۔ اس نے پتوار ہاتھوں میں تولتے ہوئے ایک بھر پور نگاہ ہماری جانب کی۔ ان شعلے برساتی نگاہوں میں صاف ایک انتباہ تھا کہ خبردار اپنی اوقات میں رہیو۔ اک ذرا میری مضحک صورت دیکھ چہرے پر ہنسی کا سایہ تک تو لائیو پھر دیکھیو کہ بھرکس نکالنا کسے کہے ہیں۔

    اس نے ہماری جانب پشت کی اور پتوار ہولے سے سیاہ پانیوں میں اتار دئیے۔ تب بھی وہ دیوث پلٹ پلٹ ہم پر نگاہ کیے جاتا کہ ہے کوئی شامت کا مارا۔ ہم مجبور روحیں بھلا کریں بھی تو کیا۔ سو ہم مقہوروں نے راستہ بھر کیرون پہلوان کی کڑے تیوروں کی زنجیر زنی جھیلی۔ خیر یہ بھی غنیمت تھا لیکن ہوا کیاکہ ایکا ایکی دریا کے کسی شوریدہ دھارے سے ایک ہیبت ناک چہرے والی مچھلی نے جنم لیا اور گویا ہمارے پیچھے ہی پڑ گئی۔ یا وحشت، ابھی اور کیا کیا دیکھنے کو باقی ہے۔ یہ دیو ہیکل مچھلی کہ صاف شری تھی اور اپنے پیٹ میں روحوں کا قبرستان بسائے تھی کیرون پہلوان کی گیدڑ بھبکیوں کو خاطر میں لانے کے موڈ میں ہرگز نہ تھی۔ وہ بار بار بڑھے تھی کہ ہماری کشتی کو الٹاکر دو چار روحوں کی معدومیت سے لذت کام و دہن کا اہتمام کرے لیکن خیر گذری کہ کیرون واقعی میں بلوان تھا۔ ایک بار جو وہ منحوس مچھلی منہ کھولے ہماری جانب بڑھی تو اس کی آنکھ میں اس دلاور نے ایسا کھینچ کر چپو مارا کہ چہیوں چہیوں کرلاتی بھاگ نکلی۔’‘

    تو اگر طربیہ خداوندی بطرز جدید لکھنے کا کام میرے سپرد کیا گیا ہوتا تو یہاں تک پہنچ کر میں حضرت دانتے الی گیری کو فرش تک جھکتے ہوئے سلام گذارتا اور ایک رسمی سی شردھانجلی پیش کرتے ہوئے بات جاری رکھتا۔ میں لکھتا:

    ’’تب میں نے دیکھا کہ میں دریائے ظلمت کے پار تھا۔ وہ ایک عجیب رومان پرور جگہ تھی۔ سمجھو وہاں کوئی آسمان سا تھا جس سے لٹکا ہوا ایک نیم مردہ سورج جانکنی کے عالم میں ہونک رہا تھا۔ اس کی دم بدم مرتی روشنی سیاہی میں ملگجاہٹ گھولتی ہوئی موت کا کوئی ان بوجھا بھید افشا کیے دے رہی تھی اور وہیں موت کے اس بےپناہ دلفریب رومانس میں کالے بھجنگ مہیب پہاڑوں کے قدموں میں مست خرام سیاہ دھندکے مرغولوں میں ملفوف ایک مہیب تر جنگل جس کا کوئی اور نہ چھور اور پھر جنگل سے ٹرانسمٹ ہوتیں ڈوبتی ابھرتی سسکیاں اور کراہیں، جنسی لذت سے بوجھل، ہل من مزید پکارتی ہوئیں اور ہمارے پرشوق دلوں کو دھڑکاتی ہوئیں۔ یہ تھا الم نصیب خودکشوں کا جنگل، ڈائیونا کا میڈیا کے تیرہویں کانتو کا موضوع۔

    اگر تم پڑھنے والے کو تھوڑی اور منظر نگاری کا دماغ ہو تو بتلاتا چلوں کہ ہمارے اور جنگل کے بیچ ایک پارے کی جھیل حائل تھی جس کی جھلملاتی بوجھل موجوں میں جل پریاں اور جل دیو فری سیکس کی ان تھک گرما گرمی میں کاما سوترا کے ایک سو ایک آسنوں کو ایک کے بعد ایک ڈیمانسٹریٹ کررہے تھے۔ اس پر شہوت بھیانکتا کی سیٹنگ میں اس جھیل اور اس کے لوازمات کا ہونا کچھ ایسا تھا جیسے پبلک کو ورغلانے کیلئے کسی عبادت گاہ میں رنگ برنگ مچھلیوں کا ایکیوریم رکھ دیا جائے۔ اس عجب کی تک کو ہم نوواردان کیا جان پاتے مگر یہ کہ بے ہودگی کو چھوتی بدمذاقی ایک یونیورسل ٹرتھ ہے اور اس پرمحض زمین والوں کا اجارہ نہیں ہے۔

    کیرون پہلوان کو آگے کا کچھ زیادہ پتا نہیں تھا۔ بصورت لجاجت بہت سی رشوت وصولنے کے بعد وہ اپنی گھورتی آنکھوں کے ساتھ ہمیں اتنا ہی بتا سکا کہ ہمیں پارے کی جھیل میں دند مچاتی تہذیب سے عاری اس مخلوق کی واہیاتی کا نوٹس لیے بغیرجھیل کی نیم ٹھوس مردگی پر پاؤں پاؤں چلتے سیدھے اس جنگل کی اور جانا ہوگا۔ سو اس کے کہے پر ہم نے اپنی لطافت کا بھاری بوجھ کندھوں پر ڈالااور ابد الآبد تک اپنا بھگتان بھگتنے کو جنگل کی اور چل دئیے۔ ‘’

    میں اس ان لکھی عذاب بیتی کا مفروضہ مصنف اگر جو دانتے بھیا کے بے لگام تخیل کو بروئے کار پاتا تو کتیا امید کے تعاقب میں لگی دم توڑتی روحوں کو راہ پر لگانے اور ان میں جہنم زار کے ہاٹ سپاٹ کی سیاحت کا لپکا جگانے کیلئے کچھ یوں اپنی گوہر فشانی جاری رکھتا:

    ’’تب راستے میں ایک کلاک ٹاور آیا۔ یہ گویا ایک سرحد تھی کہ یہاں تک سیلسٹی ایل ٹائم کی راجدھانی ہے اور اس کے آگے قلمرو ہے فیوچر لیس نیس کی جو عبارت ہے اتم اداسی اور گھنی چپ سے۔ یوں جیسے سمندر ساحل پر ٹوٹ پڑنے سے پہلے دم سادھ لے اور پیش آمدہ تباہی کا سوچ کر اداسی کے گہرے بھنور میں ڈوب جائے۔

    میں اپنے جیسے بہت سے خودکشوں کی ہمراہی میں خامشی کی ٹھوس کثافت میں چپو کی طرح بازو چلاتا آگے بڑھا۔ میرے سامنے کالا بھجنگ کوہ ندا تھا اور جنگل تھا اور مایوسی کی دولت لٹاتے کسی مصور کا تخلیق کردہ سیاہ منظر تھا جس کی کوکھ سے پھوٹتی ا ٹوٹ اداسی مجھے اپنی اور کھینچے جائے تھی۔ مجھے بس اپنا آپ اس کے حوالے کرنا تھا۔ سوجونہی میں نے خود سپردگی کا تاثر دینے کو اپنے بازو پھیلائے اچانک مقدس خاموشی ایک چھناکے سے ریزہ ریزہ بکھر گئی۔

    یہ ایک دھمکی تھی، ایک دھیمی اور مسلسل غراہٹ کی صورت میں لرزاتی ہوئی جو بلند قدیمی پیڑوں کے سلسلہ ہائے دراز سے ذرا پہلے جلی ہوئی جھاڑیوں کی اوٹ سے میری جانب بڑھی۔ میں نے نگاہ کی تو وہاں جگنو سی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ میرے قدموں کو جہاں تہاں سیاہ دلدلی زمین نے اپنی گرفت میں لے لیا اور پھر آنکھ کی اگلی جھپک تلک نفرت میں سکڑی تھوتھنیوں سے جھانکتے لمبے نوکیلے دانتوں اور فرش تک لہراتی سرخ زبانوں والی اساطیری مخلوق مجھے گھیر چکی تھی۔ وہاں، زمین پر تو میرے جسم میں چیونٹیاں دوڑانے کو گلی کے کتے بھی بہت ہوا کرتے تھے یہ تو پھر اساطیری درندے تھے،میرے ایتھریکل وجود کو پھاڑ کھانے کیلئے بےتاب۔ میں بدحواس سا ہو بھاگا کہ اچانک پاؤں رپٹا اور میں اندھی گہرائیوں میں اترتا چلا گیا۔’‘

    یہاں ایک اختلافی نوٹ جو کسی جلد باز نے میری غیر تحریر شدہ الم غلم کے نیچے تیز قلمی سے گھسیٹ دیا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ نوٹ لکھنے والا میرا ہی ادر سیلف تھا یا کوئی اور دانتے کا ڈسا ہوا دل جلا جو دانتے پر پل پڑنے کو مجھ سے زیادہ بےتاب تھا۔ ایمانداری کا تقاضا ہے کہ میں اسے بھی شیئر کرتا چلوں، لکھا ہے:

    ’’جب میں حماقت کا مارافی الواقعی بھائی دانتے کے جھانسے میں اس غیرارضی و غیرسماوی جہنم زارمیں فروکش ہونے کی حماقتِ صریح کا ارتکاب کر بیٹھا تومجھ پر کھلا کہ غلیظ رالوں سے لتھڑی لمبی عباؤں والے کارڈینلوں اور پاپاؤں کی سدابہار دھار مک انٹر پرائز زسے وابستہ اس چالاک سیلز ایجنٹ نے مجھے کہاں لا مارا ہے۔

    ہم دھتکاری ہوئی، متصور گناہوں کی دلدل میں ڈوبی ہوئی گندی روحوں سے ہائی برو اشراف کی نفرت بجا لیکن ڈیوائنا کامیڈیا کے اس تیرہویں کانتو میں کوئی آپا دھاپی سی آپا دھاپی ہے، کوئی بدتہذیبی سی بدتہذیبی ہے۔ اب وہاں پر ایک تسلسل سے جاری یہ چیختی چنگھاڑتی رننگ کمنٹری ہی ملاحظہ فرمالو کہ اخے ’’بوسیدہ معبدوں کے متولی، دراز ریش پیشواؤں کے سفارش یافتہ اور زمین پر دھمک دھمک چلنے کے دائمی حقوق یافتہ معززین ایک جانب تشریف فرما ہو جائیں اور اوئے کسی بھک منگے کی اولاد! تم کہاں چل دئیے؟ چپکا کھڑا رہ، الو کا پٹھا۔۔۔ اور ہاں، تم میں سے جو کشکول بردار ہیں جوراندہ ہیں اور ٹھوکروں کا رزق ہیں اور خاص طور پر وہ فراری جو عذابوں کا کوٹہ پوراہونے سے پہلے ہی بھاگ نکلے ہیں دوسری جانب چلے جائیں۔ تم لوگوں سے حساب کتاب الگ سے ہوگا اور خبردار لائن نہ ٹوٹنے پائے وغیرہ وغیرہ۔’‘

    یہ بھی کوئی بات ہے،؟ یہاں کسی کو آداب میزبانی کے معنی بھی نہیں معلوم؟

    نہایت غلط لوگ ہو تم بھائی دانتے! تم نے جہنم کو بھی اپنے کارپوریٹ تقاضوں کے طابع کرچھوڑا ہے؟

    جبھی تو بھائی دانتے نے ڈیوائنا کا میڈیا کے بیان میں یہاں، ڈیوائنا کامیڈیا کے تیرہویں کانتو میں صاف ڈنڈی ماری ہے اور جہنم زار کی امیج بلڈنگ کی دھن میں فن اشتہار نویسی کے زریں اصولوں کی پاسداری میں یہاں کے میزبانوں کی بنیادی انسانی آداب سے دانستہ لاپرواہی کا ذکر صاف گول کر گئے۔ جب کبھی میں نے جہنم زار کا باقاعدہ احوال رقم کرنا شروع کیا تو میں یہاں روا رکھے جانے والی کلاس ڈس ٹنکشن پر یقیناً سخت الفاظ میں احتجاج کروں گا کہ میں بہر حال کسی دانتے وانتے کی طرح غلیظ رالوں سے لتھڑی لمبی عباؤں والے کارڈینلوں اور پاپاؤں کا کفش بردار نہیں بلکہ اس باغیرت گروہ کا فرد ہوں جو از خود، اپنی مرضی اور اپنے آزاد ارادے کے ساتھ زندگی کی بوسیدگی کو اتار کر خداؤں کے منہ پر دے مارنے کی جرات رکھتا ہے۔

    اور اب اگلی بات کہ ڈیوائنا کامیڈیا میں بھائی دانتے نے معصوم خودکشوں کو رجانے اور اس نابکار مقام تک کھینچ لانے کیلئے جو افتراع پردازی کی اس کا عذاب تو خیر اس کی گور گردن پر لیکن مجھے، کہانی ماتا کے ایک ادنیٰ پجاری کو، کون گناہوں کی سزا دی گئی؟ میرے حصے میں گناہ تو خیر کیا آتے البتہ ناکردہ گناہوں کی حسرت ضرورہے جس کا کوئی شمار نہیں۔ مجھے سزا ملی تو کس بات کی کہ فی الاصل گناہوں کا ارتکاب تو الٹامیرے خلاف کیا گیا۔

    معاملہ یوں ہے کہ روز ازل سے آسمان سے ملامت کے پتھر مجھ غریب کوزہ گر پر برستے رہے۔ جانے کب کوہ اولمپس میں شری دیوتاؤں کی کسی فلیگ سٹاف میٹنگ کے دوران میرا کیس ڈسکس ہوا اور پھر شنوائی کا موقع دئیے بغیر مجھے سنگساری کا سزاوار ٹھہرا دیا گیا اور پھر اللہ دے اور بندہ لے، تاک تاک کر مجھے نشانہ بنایا گیا۔ اگر آسمان سے نزول کرتی ملامت کے پتھر جو کبھی موتی ہوتے اور میں انہیں چن چن ایک لڑی میں پروتا تو میں اسے دسیوں بار آسمان کے نسیان کدے میں کہیں گری پڑی شکستہ پیالی کہ جسے کرہ ارض کہیں کے گرد لپیٹ سکتا تھا اور پھر بھی پھانسی کے رسے برابر لڑی بچ رہتی۔’‘

    کسی نامعلوم خودکش کی جانب سے تحریر کیا گیا اختلافی نوٹ تمام ہوا اور اب میری بات کہ اگر میں حیات ارضی کے دوران وقت کاٹنے کو طربیہ خداوندی کا جدید ایڈیشن بمع ترمیم و اضافہ مرتب کرتا تو میں جہنم کی منظر نگاری کا سلسلہ کچھ یوں جاری رکھتا:

    ’’میں وہاں لے جاکر بھٹکائے جانے کے دوران گہرائیوں میں ڈوب رہا تھا کہ اپنے ہاں کی داستانوں کے مصداق اچانک ایک مہربان ہاتھ نے مجھے تھام لیا۔ تعارف کا شرف حاصل ہوا تو معلوم پڑاکہ بزرگ موصوف کا نام نامی پابلوس ورجیلیس مارو المتخلص بہ ورجل ہے، کبھی شاعری کا شغل فرمایا کرتے تھے مگر اب یگوں سے رائٹرز بلاک کا شکار ہیں۔ گویا ہماری تمہاری طرح اپنی سابقہ شہرت سے کام چلایا کرتے ہیں۔ کام وام تو کوئی خاص ہے نہیں بس عندالطلب یا کہہ لو کہ پارٹ ٹائم کے طور پر جہنم کے ٹورسٹ گائیڈ ہوا کرتے ہیں۔ بزرگوارم کا نام بہت سنا تھا ،درشن آج ہوئے۔ ماضی کا طلسمی ہالہ اتار کر ایک طرف رکھا جائے تو حضرت ورجل بس گوارہ قسم کی شخصیت تھے۔ ہمارے دور میں ہوتے تو اپنی شاعری سمیت کب کے اٹھا کر حلقہ ارباب ذوق کی سولی پر چڑھائے جا چکے ہوتے۔ قصہ کوتاہ، اس بے زار صورت بزرگ نے میرا ہاتھ تھاما اور ہم چل پڑے سوئے جہنم۔‘‘

    میری طلسماتی یاوہ گوئی تمام ہوئی کہ تحقیق یہ وہ ربش تھا جو میں ارضی زندگی میں خود کو نو بنوع عذابوں بیچ خود کو بہلائے رکھنے اور اپنے دس بائی بارہ فٹ کے گھٹن بھرے بےدرکمرے میں امید کی کھڑکی تراشنے کو اپنے بھس بھرے دائیں دماغ میں لیے پھرتا تھا۔ اگر طربیہ خداوندی کے باب میں میری رنگ آمیزی گھڑے پر پھسلتی بوند کی مانند تم پر سے گذر گئی ہو تو سمجھو بال بال بچے۔ میری طرح دانتے کی رنگین و سنگین بیانی کا شکار نہیں ہوئے۔ موسیو موصوف نے غیرارضی جہنم زار کی فضول نقشہ بندی کرکے مجھے ورغلانے کے جس جرم کا ارتکاب کیا اس کی رسید دینے کو میں کب سے انہیں تلاش کرتا پھر رہا ہوں۔ اگر جو کہیں مل جائیں تو ان کی باتصویر رطب و یا بس یعنی ڈیوائنا کا میڈیا کا مجلد ایڈیشن اٹھا کر ان کی طوطے جیسی ناک پر دے ماروں کہ یہ کون تک ہے کہ غائت درجہ سنجیدہ معاملات پر بات کی جائے تو یوں لگے گویا گلی کے لونڈے گپ مار رہے ہوں۔ مختصر یہ کہ صاحب ایسا میں نے کچھ لکھا نہ تم نے پڑھا۔ اب آگے چلتے ہیں۔

    میں وہاں، زندگی کرنے کے دنوں میں موت کے رومانس میں تھا سو ڈیوائنا کا میڈیا کا پہلا ورق پلٹتے ہی کسی نوخیز دوشیزہ کی طرح موسیو دانتے کی گمکری سے سحر زدہ ہو گیا۔ غلطی میری تھی کہ میری عذاب خواہی مجھے نئے ذائقوں کیلئے بےتاب کیے دے رہی تھی وگرنہ میں ایسا سادہ بھی نہ تھا کہ جان نہ پاتا کہ کسی اسقف اعظم کا کفش بردار کیا نہائےگا کیا نچوڑےگا۔ اس کا لفنگا تخیل موت کے پر ہول تقدس کے اس پار کیا جھانک پائےگا کہ نگاہ اس کم نگاہ کی گندی مکھی کی طرح کسی مولانا اسقف اعظم کے چھابے پر ہی منڈلاتی رہے تھی۔ حالانکہ اس کے چھابے میں کیا ہونا تھا سوائے تھیالوجی کی مٹی سے بنے رانگلے سیبوں کے یعنی وہ وعدہ فردا جو یہ کاہن لوگ اپنی دکانداری چمکانے کو بیچتے پھرتے ہیں۔ اب اگر دانتے کا یہی نصیب تھا کہ وہ فیوچر لیس فیوچر کے اس دھندے میں کاہنوں کا چھوٹا بن کر بعد کی نسلوں کو پڑا پر چائے تو اس کی مرضی۔

    یوں بھی سوچو کہ ایک تھیالوجسٹ بیچارہ باتوں کے کنکوے اڑانے کے سوا کیا جانے ہے؟ وہ مقدس سایوں کی پناہ میں بیٹھا کیا جانے کہ ریگزاروں میں سرابوں کے پیچھے ننگے پاؤں بھاگنے والوں کے حلق میں کے کانٹے اگے ہیں؟ اور پھر یہ کہ جسے خوش وقتی کی بدنصیبی لاحق ہو وہ بد نصیب کیا جانے کہ زندگانی جب چوتیاپے پر اتر آئے تو کیا کیا غضب ڈھائے ہے۔ وہ کچھ جانے تو تھیالوجی کو ہی پیشہ کرے؟ معصوم روحوں کو چکمے دینے کو ہی روزی روٹی کا وسیلہ ٹھہرائے؟ اسے تو بس اچمنی لگی رہے ہے کہ کسی مقدس الوژن کے معلق معبد میں بڑھ چڑھ کر سیمنٹ گارا لگائے یا اپنے تئیں مائیکل اینجلو بنا معبدوں کی چھتوں اور دیواروں پر رنگ گارہ ضائع کرے اور بدلے میں محبوبیت کا سزا وار ٹھہرے۔ وہی دو کوڑی کی محبوبیت جس کا اوج یہ ہے کہ بندہ دانتے بن جائے اور متصور گناہگاروں کو ڈراوے دے دے مارتا رہے۔

    بات لمبی کھنچ رہی ہے لیکن مفاد عامہ کیلئے بتلاتا چلوں کہ حضرت مولانا دانتے الیگری کی قبیل کیا ہے۔ دیمک کھائی کتابوں میں جو نہیں لکھا یا لکھے کو مٹا دیا گیا وہ یہاں عام گپ کا موضوع ہے کہ موصوف کے اجداد کالی ماتا کے پجاری ہوا کرتے تھے اور ٹھگی کا پیشہ فرماتے تھے۔ موسیو موصوف جب ویسٹرن کلیسا کے تحت چلنے والے ایک دینی مدرسے میں زیر تعلیم تھے تو ان کے خیالات میں تغیر رونما ہوا سو حضرت نے آبائی کام سے ہاتھ اٹھالیے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد کسی زیادہ معزز پیشے کی تلاش میں کئی جگہ ہاتھ پاؤں مارے۔ کچھ عرصہ کوتوال شہرکے ساتھ ٹاؤٹ بنے پھرا کیے۔ پھر ضلع کچہری میں دو دو روپلی کیلئے جھوٹی گواہی دینے کوپیشہ اختیار کیا اور خوب مال بنایا۔ ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق ذی وقار موسیو کہ ایک مقرر سحر بیان تھے بھیس بدل کر فلورنس کی سڑکوں پر مجمع لگا کر سانڈے کا تیل بیچتے اور گناہگاروں کے دلوں میں ہول جگاکر ان کے کھیسے خالی کرایا کرتے تھے۔ لیکن خیر، یہ کوئی ماننے والی بات نہیں ہے کہ یقیناًان کی اس نوع کی سرگرمیاں ایک پائے کا سانڈک تھیالوجسٹ بننے کی تربیت کا لازمی جزو رہی ہوں گی ورنہ کہاں عالی تبار موسیو اور کہاں سانڈے کا تیل۔ ویسے اس خوش گمانی سے ورا دیکھو تو ان کا سینڈو بن جانا کوئی ایسی اچنبھے کی بات بھی نہیں کہ علم الکلام تو کچھ ایسے ہی تماشے دکھلایا کرے ہے یعنی سانڈے کا تیل وغیرہ۔

    تم نے دانتے کی سن لی، اس کے گرو تھامس ایکواناس کی بھی سن لی اب اگر دماغ ہو تو اک ذرا میری بھی سن لو۔

    تم جانو کیا ہوا تھا۔ بہت برا، بہت ہی برا۔ میں کہ میرے لیے( اور میرے جیسے سوچنے سمجھے والے دماغوں کیلئے) زندگی دھکتے کوئلوں سے مزین ایک مسلسل راہ گزر سے کچھ کم نہ تھی اور میں کہ دنیاوی بندوبست سے باہر کہیں کنارے کنارے جینے کا عادی تھا جیتے جیتے اوبھ چلا تھا یعنی انف از انف جس کے بعد مرحلہ تھا انکار کا، اب اور نہیں، ہر گز نہیں والا۔

    تم پوچھو گے کہ میری حیات ارضی کے دوران ایسا کیا ہوا تھا جو میں نارمل زندگی جینے کے لائق نہ رہا تھا۔ کیا بتاؤں الا یہ کہ میں بھیڑوں کے گلے سے الگ کھڑا اپنے انسان ہونے پر مصر تھا کہ میرے پاس ایک دماغ تھا جو سوچ سکتا تھا، اس دماغ کے ساتھ جڑا ہوا ایک اعصابی نظام تھا جس کا ہر ایک ریشہ تیز حساسیت کا حامل تھاسو میں سوچ سکتا تھا، محسوس کرسکتا تھا اور اختلاف کر سکتا تھا۔ میں آزاد حالت میں پیدا کیا تھا اور اپنے ڈھب سے جینا چاہتا تھا۔ بھیڑوں کے گلے کو بس یہی گوارہ نہ تھا سو مجھے تنہا کرکے مارا گیا اور مجھ پر توہین اور تذلیل کو روا ٹھہرا دیا گیا۔

    بنی نوع انسان کا ایک ادنیٰ کمزور سا فرد کتنی سی تنہائی اور کتنی سی توہین برداشت کر سکتا ہے؟ سو ایک روز ڈیوائنا کا میڈیا پڑھتے ہوئے میں نے سوچا کہ اور کب تک؟ تب فیصلہ کن لمحہ آنے سے اک ذرا پہلے میں نے دھول سے ماتھا اٹھایا۔ گلی کے لونڈے لونڈیوں کے برسائے ہوئے پتھروں سے سرخم سرخ جسم کو پونچھا اور پورے قد سے تن کر کھڑا ہوگیا، اب اور نہیں۔ تب میں نے لال انگارہ آنکھوں سے چہار سمت نگاہ کی اور قہرمانی کے ایک سُچے لمحے کے گیان میں زندگی کی بساط لپیٹ دی۔

    میرے پاس ابھی تھوڑی مہلت باقی تھی کہ روح بدن سے کٹتے کٹتے ہی کٹتی ہے (روح اور بدن کے سچے رشتے کا گیان مجھے تبھی ہوا تھا)۔ سو میں نے اپنی تازہ قبر پر اوس کے چند اداس قطرے نچھاور کیے اور ایک گلاب کی پتی پر اپنا آخری لمس ثبت کیا اور اپنے گرد ایک تیز گھماؤ لیتے ہوئے جہنم سے ملاپ کیلئے تیار ہوا۔

    اب میرے سامنے تھا ڈیوائنا کامیڈیا کا تیرھواں کانتو اور اس کے پھیلاؤ میں پھیلا خودکشوں کا جنگل۔

    دریائے ظلمات کے پار خودکشوں کے جنگل میں پہنچ کر میں نے ازل سے ابد کے درمیان والے نینو سیکنڈ پر محیط اس جنگل کی یخ بستگی کو اور اس کی قدیم سیٹنگ کو محسوس کیا اور سوچا کہ تسلیم کہ وہاں تاحکم ثانی درختا دیا جانا کسی آوارہ مزاج روح کیلئے برداشت سے باہر ہو سکتا ہے لیکن طریوں طریوں کے اساطیری درندوں کی معیت اس بور کن عذاب کی کسی حد تک تلافی بھی کر سکتی تھی اور پھر چوڑے اور مضبوط پروں والی نیم زن ہارپیوں کے ساتھ ابد الابد تک رومانس کا نشہ۔ ان ٹھونگے مارتی، نوچتی کھسوٹتی خوبرو حسیناؤں کی کسی گم گشتہ مانوسیت کو جگاتی دائمرفاقت۔۔۔ آہ! جنسی تلذذ میں بھیگے اس عذاب پر سو بہشت قربان۔

    سو اب میں یہاں ہوں اور نئے خودکشوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں اور وہاں میں کچھ زیادہ فرق نہیں رہا ہے۔ سو اگر تم موت کے رومانس میں ہو تو ڈیوائنا کا میڈیا جیسی لایعنیت سے گذرو اور اک ذرا کھڑکی کھول کر تازہ ہوا کو پھیپھڑوں میں اتارو اور جانو کہ لاریب جہنم زار کہیں اور نہیں تمہارے اپنے بھیتر میں دھواں دے رہا ہے۔ یہیں تھوڑا گہرائی میں تمہیں تنی گردنوں والے کارڈینلوں اور پاپاؤں کے کفش بردار دانتے الیگری کی پرلوک کہانی کی یاوہ گوئی کے مطابق خودکشوں کا جنگل بھی ملےگا۔

    جان لو کہ جو دانتے الیگری نے لکھا اور جو میں نے لکھنا چاہا پر نہیں لکھا، سب جھوٹ ہے اور مان لو کہ خودکشوں کا جنگل کہیں اور نہیں تمہاری ارض فنا نصیب پر محیط ہے اور تم سب کے سب اس جنگل میں قرنوں کیلئے بھٹکا دئیے گئے ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے