Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تعویذ

MORE BYویکوم محمد بشیر

    منتراچراتوکا وجود اس دن ہوا جس دن ایک آم عبدالعزیز کے گنجے سر پر گرا۔ گھر کے قریب لگے ہوئے آم کے درخت سے پکے آم تو گرتے ہی رہتے تھے۔ ان گرے ہوئے آموں کو اگر فورا نہ اٹھایا جاتا تو خان انہیں فوراً لپک لیتا اور جھوٹا کرکے انہیں ناپاک کر دیتا تھا اور وہ کھانے کے قابل نہیں رہتے تھے۔

    ’’خان‘‘ عبدالعزیز کا کتا ہے۔ وہ خوبصورت ہے۔ سفید جسم اور اس پربڑے بڑے کتھئی دھبے۔ گرے ہوئے آموں میں سے زیادہ تراس کے حصے میں آتے تھے اور اسی لیے ہر شخص کی پریشانی یہ تھی کہ انہیں اس سے کیونکر بچایا جائے۔ خان عجیب کتا ہے، وہ کٹھل کھاتا ہے، کیلے کھاتا ہے اور چائے کا بھی شوقین ہے۔ اسے ہمیشہ کھلا رکھا جاتا ہے کیونکہ اگر اسے گھر میں بند کر دیا جائے تو اپنے شور سے سارے گھر کو سر پر اٹھا لیتا ہے۔

    ابھی حال ہی میں اسے عشق ہو گیا اور وہ ہر وقت اداس سا رہنے لگا۔ پاروتی کی خوبصورت کالی کتیا ’’مالو‘‘ پر اس د ل آ گیا۔ مالوتھی بھی محلے کی سب سے حسین کتیا۔ یہ معاملہ ہندومسلمان کے عشق کا تھا۔ محبت دوطرفہ تھی اور عبدالعزیز کی بیوی ام سلمہ اور پاروتی دونوں کو اس معاشقے پر نہ تو کوئی اعتراض تھا اور نہ ہی کوئی تردد۔ پاروتی نے توام سلمہ سے کتیا کا ایک بچہ اسے دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔

    اسی دوران اسے بدقسمتی ہی کہیے، حالات نے ایک برا پلٹا کھایا۔ نہ جانے کدھر سے تگڑے تگڑے کتے آ گئے اور انہوں نے مالوسے پیار محبت کی پینگیں بڑھانی شروع کریں۔ انہیں مالو اور خان کا ملنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ جھگڑا ہوا اور خان کے ہندو رقیبوں نے نوچ نوچ کر خان کا بھرتا بنا دیا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس نے خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مقابلہ تو کرنا ہی تھا، خان کی عزت جو داؤں پر لگی ہوئی تھی۔ ایک مسلمان کتے کی کافروں کے خلاف پر جوش جنگ۔ خان ہیبت ناک آوازوں کے ساتھ اپنے دشمنوں کی گردنوں پر حملہ کر رہا تھا۔ ہندو کتوں نے اسے زمین سے اٹھا ٹھاکر پٹکا بلکہ اسے نوچا بھی اس بری طرح کہ اس کے جسم پر بڑے بڑے گھاؤ ہو گئے اور ساتھ ہی اس کا داہنا کان بھی کٹ کرالگ ہوگیا۔ مالواس خوفناک معرکے کو بے نیازی سے دیکھتی رہی۔ پاروتی اورام سلمہ نے بھی یہی کیا۔ ایک ہندو مسلم جھگڑا ہونے کی وجہ سے ان دونوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس کی حمایت کریں۔

    شکست خوردہ زخموں سے خون بہتا ہوا، ناتواں خان بھاگ کر باورچی خانے کی طرف گیا اور وہاں جاکر فرش پر گر گیا۔ مگر ہندو کتے مل کر بھونکتے رہے اور اسے چیلنج کرتے رہے۔ شرمناک شکست، بےعزتی اور رسوائی اور ناکام محبت کے غم کے باوجود خان نے صبر کیا اور وہ اپنی اس شکست فاش کے اثرات کے تدارک کے لیے کچھ کر بھی تو نہیں سکتا تھا۔ ہوا صرف یہ کہ اسے تمام مادہ نسل سے نفرت سی ہو گئی۔

    مادہ سے اس کی کٹر نفرت کی شکار سب سے پہلے دو ہندو عورتیں ہو ئیں۔ ایک ہندو مخالف رویہ، اگرچہ یہ کوئی قابل تعریف یانا جائز جذبہ نہیں تھا۔ پڑوسیوں میں چونکہ زیادہ تر ہندو تھے اس لیے عبدالعزیز یا پھرام سلمہ کو اپنے یہاں آنے والی ہندو عورتوں کو باہر کے پھاٹک سے گھر کے دروازے تک لانے اور پھر انہیں چھوڑنے کے لیے پھاٹک سے دروازے تک اور دروازے سے پھاٹک تک دوڑتے ہی رہنا پڑتا تھا۔

    یہ صورت حال تھی جب عبدالعزیز کے سر پر وہ آم گرا۔ اسی لمحے ڈاکیہ آ گیا۔ شکر ہے کہ خان میں ہندو مردوں کے لیے نفرت کا جذبہ بیدار نہیں ہوا تھا۔ عبدالعزیز کے سر پر گرے ہوئے آم کو فوراً ڈاکیے کی نذر کیا گیا اور گویا اس تحفے کے بدلے میں آنے والے خطوں میں ایک خط اس کے لنگوٹیا یار شنکر ایر کا نکلا۔ عبدالعزیز اور شنکر ایر کالج کے زمانے کے دوست تھے۔ ان کی اس دوستی کو ان کی ایک مشترک پریشانی سے بھی تقویت ملتی تھی، یہ پریشانی تھی دونوں کا گنجاپن۔ دونوں نے ہر قسم کے علاج کیے، ہر ہر جتن کر ڈالا، گنجے پن کو دور کرنے والی ہر دوا کے اشتہار پر ایمان لائے۔ اس سلسلے کی ہر بات، ہر معلومات دونوں ایک دوسرے کو بتاتے۔ یہی نہیں دونوں نے آسمانی طاقتوں سے آس لگائی اور متعدد دیوی دیوتاؤں کے چرنوں میں چڑھاوے چڑھائے۔

    دونوں کی بیویوں نے بھی اس سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ مختلف قیمتی تیلوں سے اپنے شوہروں کے سروں کی باقاعدہ مالش اور اپنی عدم موجودگی کی صورت میں خود مالش کرنے کی ہدایت کی۔ مگرا فسوس، یہ سرگرمیاں سودمند ثابت نہ ہوئیں۔ کبھی کبھی دونوں بیویاں اپنے گنجے شوہروں کو دیکھ کرہنستیں بھی۔ اس گنجے پن کی وجہ سے دونوں دوستوں میں مماثلت بھی بہت پیدا ہو گئی تھی۔ تھوڑے بہت بال جوتھے وہ دونوں کے سروں کے پچھلے حصے پر تھے۔

    ابھی کچھ دن ہوئے جب شنکر ایر اور اس کی بیوی سرسوتی عبدالعزیز کے یہاں آئے۔ اس وقت دونوں بیویوں نے اپنے اپنے شوہروں کے سروں کے بال گنے تھے اور سرسوتی نے اعتراف کیا تھا کہ عبدالعزیز کے سر پر اس کے شوہر کے مقابلے میں نوبال زیادہ ہیں، مگر عبدالعزیز کے خیال میں سرسوتی کی اس رائے کے پیچھے ایک سبب تھا۔ حمل کے ابتدائی دنوں میں وہ کچھ آم، ہری ہری املیاں اور امرود جیسی چیزیں جواس زمانے میں عورتیں بہت پسند کرتی ہیں، مسلسل فراہم کرتا رہتا تھا۔

    اپنے دوست کا خط پڑھتے ہوئے عزیز نے کسی قدر دکھ کے ساتھ کہا، ’’افواہ! ذرا دیکھو تو، سرسوتی اپنے پہلے بیان سے کس طرح ہٹ گئی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس عورت نے محض کچے آموں کی خاطر سفید جھوٹ بولا؟ تم ہی بتاؤ میرے سر پر بال زیادہ ہیں یا شنکر کے سر پر؟‘‘

    ’’تمہارے سر پر زیادہ بال ہیں، نوبال زیادہ ہیں۔‘‘ ام سلمہ نے اپنے شوہر کو یقین دلایا۔ ’’یہ بات بھول نہ جانا کہ ہم اس فیصلے پر بڑے بحث مباحثے کے بعد پہنچے تھے۔‘‘ آزردہ عبدالعزیز کے لیے سرسوتی کے اس دوغلے پن کو برداشت کرنا بہرحال دشوار ہو رہا تھا۔ اس نے کہا، ’’لیکن وہ اب بالکل دوسرا ہی راگ الاپ رہی ہے۔۔۔ یہ دغابازی۔۔۔ بہرحال وہ آم۔۔۔‘‘

    ابھی اس نے اپنا جملہ پورا بھی نہیں کیا تھا کہ اسے ایسا لگا جیسے دروازے پر سے اسے کسی نے مخاطب کیا، ’’السلام علیکم۔‘‘

    عبدالعزیز نے جواب دیا، ’’وعلیکم السلام۔‘‘

    ایک اجنبی کے اس طرح اچانک آ جانے پرام سلمہ فوراً اندر چلی گئی۔ اجنبی ایک طویل قامت، گورا اور قبول صورت شخص تھا۔ سفید براق پاجامے اور ململ کے کرتے میں ملبوس۔ وہ ایک سفید صافہ باندھے ہوئے تھی۔ اس کی داڑھی، قلمیں اور مونچھیں اتنے سلیقے اور صفائی سے ترشی ہوئی تھیں کہ مصنوعی لگتی تھیں۔ آنکھوں میں سرمے کی گہری سی تحریر تھی۔ قمیص اور تہبندمیں ایک نوجوان لڑکا ہاتھ میں چمڑے کی ایک اٹیچی لیے اس کے ساتھ تھا۔ لڑکے نے آتے ہی بڑے ادب کے ساتھ بلکہ کسی قدر تفریحی اندازمیں اعلان کیا، ’’زین العابدین تھنگل۔‘‘ (نام کے ساتھ ’’تھنگل‘‘ کا لفظ ’’سید‘‘ کا مترادف ہے۔)

    عبدالعزیز نے اجنبی مہمان کے بیٹھنے کے لیے کرسی پیش کی۔ لڑکے نے مؤدب انداز میں بڑے احترام کے اتھ اٹیچی کو پاس پڑی ہوئی کرسی پر رکھ دیا۔

    ’’یہاں کسی کی طبیعت خراب ہے؟‘‘ تھنگل نے سوال کیا۔

    عبدالعزیز نے معتقدانہ اندازمیں جواب دیا، ’’جی، ابھی اس وقت تو یہاں کوئی بیمار نہیں ہے۔‘‘

    ’’کوئی خواہش ہے جسے تم چاہتے ہوکہ پوری ہو جائے؟‘‘

    اس دنیا میں کون ہے جس کے دل میں خواہشیں نہیں ہیں؟ مگر عبدالعزیز اورام سلمہ کے دل میں کیا آرزوئیں ہیں؟ کسی کو نہیں معلوم۔ جب تھنگل نے اپنی اٹیچی کھولی تو عبدالعزیز کی ناک میں بڑی تیز خوشبو آئی۔ اٹیچی کے اندر کالے دھاگوں کی بہت سی موٹی پتلی لڑیاں تھیں۔ ہر لڑی تقریباً ایک فٹ کے برابر لمبی تھی اور ہر لڑی کے ساتھ کاغذ کی ایک پرچی بندھی ہوئی تھی۔

    ’’یہ سب تعویذہیں۔‘‘ اس نے کہا، ’’ہم لوگوں کی مختلف بیماریوں کو اچھا کرنے کے لیے پانی پھونک کر دیتے ہیں، بیماروں کی سفارش کرتے ہیں اور ان کی شفا کے لیے مختلف مسجدوں اور مقدس مزاروں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔۔۔ ہے نا؟ اس میں شک نہیں کہ ان سب طریقوں سے لوگوں کوراحت ملتی ہے۔ مگر ایسے شخص کو ڈھونڈ نکالنا جو ایسی معتبر اور مؤثر دعا کر سکے، بہت مشکل ہے اور بسا اوقات تو ایسا شخض ملتا ہی نہیں ہے۔ یہ تعویذ بڑے اثر والے ہیں۔ میں نے ان پر بڑی مؤثر دعائیں پڑھ کر انہیں انتہائی اثردار بنا دیا ہے۔‘‘

    عبدالعزیز نے اٹیچی میں سے دھاگے کی ایک لڑی اٹھائی۔ تھنگل بولا، ’’سر کے درد کے لیے ہے۔ چار روپے پچانوے پیسے۔ تمہیں کرنا صرف یہ ہوگا کہ اسے اپنے بازو پر یا اپنی گردن میں باندھ لو۔ یہ تعویذ تم نے باندھا نہیں کہ تم زندگی بھر کے لیے درد سر سے محفوظ ہو گئے۔ اسے اگر سونے یا چاندی کا پتر چڑھواکر رکھا جائے تو یہ گلتا سڑتا نہیں ہے اور بہت دن تک کام آتاہے۔‘‘ تھنگل نے اٹیچی سے ایک ایک کرکے لڑیاں نکالنا شروع کیں اورہرلڑی کے ساتھ بتاناشروع کیا، ’’کھانسی کے لیے، پیٹ کے دردکے لیے، سینے کی جلن کے لیے، قولنج مروڑکے لیے، دانت کے درد کے لیے، ہسٹیریا کے لیے، بھوت پریت بھگانے کے لیے، پاگل پن کے لیے، آتشک، کوڑھ، جذام، سوزاک، کمرکے دردکے لیے، ڈراؤنے خوابوں کے لیے، پیٹ میں کیڑوں کے لیے، بدمزاجی اور چڑچڑے پن کے لیے۔ چار روپے پچانوے پیسے فی تعویذ۔‘‘

    عبدالعزیز نے کسی قدر سادگی سے پوچھا، ’’یہ تعویذ کیا جانوروں کے لیے بھی کارآمد ہیں؟‘‘

    ’’کیوں نہیں، یقیناً۔ گائے، بیل، کریوں، گھوڑوں، اونٹوں یہاں تک کہ مرغیوں تک کے لیے میرے پاس خاص تعویذ ہیں۔ مثلاً اگر تمہاری مرغی انڈے نہیں دیتی تو پھونکے ہوئے دھاگوں کی ایک لڑی مرغی کے ایک پاؤں میں باندھ دوا ور بس۔‘‘

    ’’کتوں کے لیے بھی کوئی تعویذ ہے؟ ادھر کچھ دنوں سے ہمارے کتے نے ہندو عورتوں کو کاٹنا شروع کر دیا ہے۔ کیا آپ مجھے کوئی ایسا تعویذ دے سکتے ہیں جو کتے کو ایسا کرنے سے روک سکے؟‘‘

    ’’یعنی ایک ایسا کتا جوصرف ہندو عورتوں کو کاٹتا ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’کتے کو صرف ہندو عورتوں سے ہی نفرت کیوں ہے؟‘‘

    ’’ہمارے کتے کوپڑوس کی ایک کتیا مالو سے محبت تھی۔ مالو ہماری پڑوسن پاروتی کی کتیا ہے۔ لیکن ایک دن تگڑے تگڑے ہندو کتوں نے پاروتی اور مالو کی آنکھوں کے سامنے ہمارے کتے کو بھنبھوڑ ڈالا۔ بیچارے کا دایاں کان بھی کٹ کر الگ ہو گیا۔ جھگڑے کو ختم کرانے کی بجائے پاروتی لڑائی کو بس کھڑی دیکھتی رہی۔‘‘

    ’’کتے کے اندر ہندو عورتوں کے خلاف جذبہ پیدا ہونے کی شاید یہی وجہ ہے۔‘‘ تھنگل نے کہا۔

    ’’مگر میری بیوی ام سلمہ بھی پاروتی ہی کی طرح کھڑی لڑائی کو دیکھتی رہی تھی۔ کتے کو مسلما ن عورتوں سے بھی نفرت کرنا چاہیے۔‘‘

    ’’اس کا نام کیا ہے؟‘‘

    ’’خان۔‘‘

    کتے کے نام کا لیا جانا تھا کہ وہ آکر ان لوگوں کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

    ’’دیکھو، اصل بات یہ ہے کہ یہ مسلمان عورتوں کوصرف اس لیے نہیں کاٹتا کہ اس کا نام خان ہے۔‘‘ تھنگل نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔

    عزیز نے اپنا سوال دہرایا، ’’کیا آپ کے پاس کوئی ایسا تعویذ ہے جواسے ہندو عورتوں کو کاٹنے سے روک سکے؟‘‘

    ’’صرف اس بات کے لیے تو میرے پاس کوئی تعویذ نہیں ہے مگر ہاں ایسا تعویذ ہے جواسے کسی کوبھی کاٹنے سے روک سکتا ہے۔ اس کے لیے یہ تعویذ مفید رہےگا۔ صرف چار روپے پچانوے پیسے۔‘‘

    تھنگل نے بہت سے تعویذوں پرلگی ہوئی پرچیوں کو پڑھا اور پھر ان میں سے ایک کو نکال کر کہا، ’’یہ رہا۔ چلو ہم اسے خان کے گلے میں باندھ دیں۔ ’‘

    عبدالعزیز گھر کے اندر جاکر ایک لوٹے میں پانی اور ایک صابن لے کر آیا۔ تھنگل اور عبدالعزیز اٹھ کر باہر صحن میں گئے۔ عبدالعزیز نے خان کو پکڑا اور تھنگل نے اس کی گردن میں وہ تعویذ باندھ دیا۔ ’’اسلامی قاعدے کے مطابق جو بھی کسی کتے کو ہاتھ لگائے اسے سات دفعہ مٹی سے اپنے ہاتھ دھونا لازمی ہے۔‘‘ تھنگل نے کہا۔

    عبدالعزیز لوٹے سے پانی ڈالتا رہا اور تھنگل نے سات بارمٹی سے اپنے ہاتھ دھونے کی رسم کو پورا کیا۔ عبدالعزیز نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد دونوں نے صابن سے اپنے اپنے ہاتھ دھوئے۔ اپنے ڈیڑھ کانوں اور گلے میں کالے دھاگوں کے ساتھ خان بڑی شان سے کھڑا ہوا تھا۔

    ’’بس اب آج کے بعد تعویذ کی برکت سے یہ کسی کو نہیں کاٹےگا۔‘‘ تھنگل نے بڑے پر اعتماد لہجے میں اعلان کیا۔

    ام سلمہ چائے کے تین گلاس لیے ہوئے دروازے پر آئی۔ چائے ختم کرنے کے بعد تھنگل نے دھاگے کی بہت سی لڑیوں کو اٹھایا اور ایک ایک کو دکھاکر بتانا شروع کیا، ’’یہ بہرے پن کے لیے، یہ کمزور نگاہ کے لیے، یہ فالج کے لیے اور یہ بخار کے لیے، یہ بیماری عشق سے صحت یاب ہونے کے لیے، اس سے بےخوابی سے نجات ملے گی، یہ پیشاب کے تمام امراض کے لیے، اس سے بانجھ پن دور ہوگا اور ان چاہے حمل سے بھی نجات ملےگی۔ اس کو استعمال کرنے سے اولاد اپنی پسند کی ہوگی، لڑکا یا لڑکی اور اس سے دشمن پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ سچ تویہ ہے کہ ہر مرض اور آدمی کی ہر پریشانی کے لیے تعویذ موجود ہے اور ان میں سے ہر ایک کی قیمت ہے صرف چار روپے پچانوے پیسے۔‘‘

    ’’وقت گذرنے کے ساتھ ان کا اثرکم ہو جاتا ہوگا؟‘‘ عبدالعزیز نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔

    ’’ارے نہیں۔ مگر وقت کے ساتھ تعویذ گھستا چلا جاتا ہے اور بو سیدہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے تو میں اسے چاندی یا سونے کے پتر میں مڑھوانے کا تمہیں مشورہ دیتا ہوں۔ میرے والدصاحب نے ایک تعویذ چاندی کے پتر میں مڑھوا رکھا تھا۔ ان کے انتقال کو بیس برس سے زیادہ ہو چکے ہیں مگر تعویذ ابھی بھی میرے پاس ہے اور اچھی حالت میں ہے۔‘‘

    ’’کیا درد سر والا تعویذ دوستوں کے لیے بھی ویسا ہی مفید ہوگا؟‘‘

    ’’ہرگز نہیں۔ دیکھو، ہر تعویذ الگ الگ قوت اور الگ الگ تاثیر کا ہوتا ہے۔ دوستوں کے لیے وہی تعویذ استعمال کرنا ہوگا جو دوستوں کے لیے ہو۔‘‘

    یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ ام سلمہ نے اپنے شوہر کو اندر سے آواز دی۔ عبدالعزیز اٹھ کر دروازے پر گیا۔ ام سلمہ نے اس کے کان میں کہا، ’’ذرا ان سے پوچھو کہ کیا ان کے پاس گنجے پن کے لیے کوئی تعویذ ہے؟‘‘

    ’’ہوگا نہیں ان کے پاس۔‘‘ عبدالعزیز نے دھیرے سے کہا۔

    ’’ارے پوچھو تو۔ معلوم کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘ ام سلمہ نے اصرار کیا۔

    عبدالعزیز نے باہر آکر تھنگل سے پوچھا، ’’آپ نے کہا تھا کہ آپ کے تعویذ انسانوں کے تمام امراض کا تدارک کر سکتے ہیں۔ کیا آپ کے پاس کوئی ایسا بھی تعویذ ہے جو کسی گنجے سر پر بال اگانے کے لیے ہو؟‘‘

    عبدالعزیز کو بڑی حیرت ہوئی جب تھنگل نے اٹیچی کے اندر بالکل نیچے ہاتھ ڈال کر دھاگوں کی بہت سے لڑیاں نکالیں۔ ان لڑیوں میں سے ہر ایک پر لگی ہوئی پرچی میں لکھا ہوا تھا، ’’گنجے پن کے لیے۔‘‘

    ’’اسے تمہیں اپنی کمر میں باندھنا ہوگا۔‘‘

    ’’تب تو مجھے اس کو مزید لمبا کرنا ہوگا۔ میر ایک دوست ہے شنکر ایر، وہ بھی میری ہی طرح گنجا ہے اور اس تعویذ کو کمر کے چاروں طرف باندھنا ہوگا تو پھر تو مجھے چار تعویذوں کی ضرورت ہوگی۔ دو اپنے لیے اور دو شنکر ایر کے لیے۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    تھنگل نے خود ہی دو دو تعویذوں کو ایک دوسرے سے باندھ دیا۔ عزیز ان تعویذوں کو لے کر اندر گیا اور ام سلمہ نے فوراً ان میں سے ایک کو اپنے شوہر کی کمر میں باندھ دیا۔ عبدالعزیز نے اپنے سر اور اپنے جسم میں ایک عجیب و غریب سرسراہٹ سی محسوس کی۔ ایک عجیب سا احساس۔ شنکر ایر کے تعویذ کو نہایت احتیاط کے ساتھ ایک لفافے میں رکھا گیا اور ساتھ ہی اس کے زبردست اثرات کے بارے میں ایک چھوٹا سا خط بھی لکھ کر رکھ دیا گیا۔ اس نے چوبیس روپے پچہتر پیسے تھنگل کے ہاتھ پر رکھے۔ یہ پانچ تعویذوں کی قیمت تھی۔ ایک تعویذ خان کا، دو شنکر ایر کے اور دو خود عبدالعزیز کے۔

    عزیز کو بڑا جوش و خروش تھا۔ ’’اس خفیہ اور غیرمعروف معجزے کی خبر تو حکومت کو دی جانی چاہیے۔ ہزاروں روپے اسپتالوں، دواؤں اورڈاکٹروں پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ ایک زبردست نقصان۔ یقینا ًایک مجرمانہ تضیع۔ ان تعویذوں کو ہر جگہ فراہم کیا جانا چاہیے۔ اس کے بعد ان اسپتالوں کو بڑے بڑے پانچ ستارہ ہوٹلوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، یا پھر انہیں کسی دوسرے بہتر مصرف کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ تعویذ تو پرچون کی تمام دکانوں پر، پان بیڑی کی ہر دکان پر، بس اڈوں پر، ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں پر ملنے چاہئیں۔ اتنی ضروری چیز کی تقسیم کے لیے تو خصوصی شعبے کھولے جانے چاہئیں۔ یہ تو برآمدکی جانے والی شے ہو سکتی ہے۔ بمبئی، انگلستان، جرمنی، جاپان، امریکہ اور روس میں اس کی اچھی منڈیاں مل سکتی ہیں، جہاں اسپتالوں اوردواؤں پرزبردست خرچ ہوتاہے اوراس سودے میں ہم کچھ نفع بھی کمالیں گے۔‘‘

    ’’مگر اس اسکیم پر عمل درآمد کرانے کے لیے مجھے کس سے بات کرنا چاہیے؟‘‘

    ’’تمہیں صرف اپنے وزیراعظم سے بات کرنا ہوگی۔‘‘

    ’’میرا خیال ہے یہ ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ مسلمان وزیر ہوں؟ یہ لوگ یقیناً ہماری مدد کریں گے۔‘‘ تھنگل نے اتفاق کیا۔

    ’’جناب کا کیا خیال ہے، یہ بیماریاں کیو ں ہوتی ہیں؟‘‘

    ’’یہ سب جنوں اور شیطانوں کی کارگزاری ہے۔ اب اسی گنجے پن کو دیکھو۔ تم اس کی وجہ کیا سمجھتے ہو؟‘‘

    ’’بالوں کا جھڑنا۔‘‘ عبدالعزیز نے کہا۔

    ’’اور بال کیو ں جھڑتے ہیں؟‘‘

    ’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘

    ’’میں تمہیں بتاتا ہوں۔ یہ بد روحیں ہیں جو تمہارے بال اکھاڑتی رہتی ہیں۔ یہ بدروحیں چاند پر رہتی ہیں۔‘‘

    ’’مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے چاند پر تو کوئی رہتا ہی نہیں ہے۔ سائنس دانوں کے چاند پر جانے کے بعد اخباروں نے لکھا تھا۔‘‘

    ’’تم ان پر یقین کرتے ہو؟ چاند تک پہنچنا ناممکن ہے۔ چاند پر سے جو کچھ لانے کا یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں، وہ سب یہیں کسی پہاڑی پر سے اٹھائی ہوئی چیزیں ہیں۔ نہیں نہیں، یہ لوگ چاند تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی کبھی پہنچیں گے۔‘‘ تھنگل نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا۔

    تھنگل اور اس کے ساتھ کا لڑکا جانے کے لیے تیار ہوئے۔ عبدالعزیز سے رخصت کی اجازت لیتے ہوئے اس نے کہا، ’’ان تعویذوں کی آسان فراہمی کے سلسلے میں میں کچھ مسلمان وزیروں کے ذریعے وزیر اعظم صاحب سے ملنے کی کوشش کروں گا۔ اچھا خدا حافظ۔ السلام علیکم۔‘‘

    ’’وعلیکم السلام۔‘‘

    اسی دن تعویذ اور ایک خط رجسٹرڈ پوسٹ سے شنکر ایر کو بھیج دیا گیا۔ ایک ہفتہ گذر گیا۔

    اسی زمانے میں ایک دن للتا، ایک خوبصورت ہندو لڑکی، کسی اہم کام سے عبدالعزیز کے گھر آئی تھی۔ خان نے اسے کاٹ لیا۔ گھاؤ بہت گہرا نہیں تھا، للتا کی را ن پر صرف چند دانتوں کے نشان پڑے تھے۔ ام سلمہ نے ان پر کڑوے کریلے کا لیپ لگا دیا۔ اس نے للتا کی پھٹی ساڑی بھی سی دی۔ ایک پیالی چائے بناکر اسے پلائی اور پچیس روپے جووہ ادھار لینے آئی تھی وہ بھی دے دیے۔

    حیرت کی بات ہے کہ تعویذ کے باوجود خان کی ہندو عورتوں کو کاٹنے کی عادت ختم نہیں ہوئی تھی۔ للتا کو اس طرح کاٹ لینے کی حرکت خان کی ہندو عورتوں سے پچھلی نفرت ہی کا مظہر تھی۔ مگر اس دفعہ خان نے جس طرح للتا کو کاٹا تھا اسے حقیقتاً کاٹنا نہیں کہا جا سکتا۔ لوگ کہتے تھے کہ کاٹنے کی اس کی یہ عادت آہستہ آہستہ ختم ہو جائےگی۔

    مگر وہ بال جو عبدالعزیز کے سر پر نکلنے والے تھے؟ ام سلمہ روزانہ اپنے شوہر کے سرکی مالش کرتے وقت بڑی امیدوں کے ساتھ غور سے دیکھتی کہ آیا کہیں کسی نئے بال کے نکلنے کے کوئی آثار ہیں۔

    ایک مہینہ گزر گیا۔ کوئی قابل ذکر تبدیلی ابھی تک نہیں ہوئی تھی۔ پھر اچانک ایک اور خوفناک واقعہ ہوا۔ خان نے اب مسلمان عورتوں سے بھی نفرت کرنی شروع کر دی تھی۔ یہ بات اب بالکل واضح ہو گئی تھی کہ خان اب پورے طور پر عورت بیزار ہو گیا ہے۔ ام سلمہ کی ماں ان لوگوں سے ملنے آئی تو خان نے اسے بھی کاٹ کھایا۔ وہ چلائی، ’’مجھے بچاؤ! اپنے کتے سے مجھے بچاؤ، نہیں تو وہ مجھے مارہی ڈالےگا۔ اس جانور کو جان سے مار دو۔‘‘

    ماں کی چیخیں سن کرام سلمہ اور عبدالعزیز دونوں بھاگے بھاگے آئے اور دیکھا کہ خان نہایت معصومیت کے ساتھ وہاں کھڑا ہے۔ تعویذ اس کے گلے میں لٹک رہا تھا۔ محبت میں ناکامی کی وجہ سے خان کے اس عجیب و غریب رویے پر اس غریب کو جان سے کیوں مار دیا جائے؟ ان دنوں عورتیں عموماً اسے اچھی نہیں لگتی ہیں۔ مگر اس نے ام سلمہ پر اپنے غصے کا اظہار ابھی نہیں کیا ہے۔ مگر ام سلمہ کی ماں۔۔۔ اس خیال سے عبدالعزیز کو جیسے گدگدی سی ہوئی۔ وہ یوں بھی اپنی ساس کو تکلیف پہنچانے کے مختلف طریقوں کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ خان نے اس کی خوشدامن کے ساتھ جو کچھ کیا تھا، اس پر اسے اگرچہ اندر ہی اندر خوشی تھی مگر اس نے خان کو مارنے اور کمرے میں بند کر دینے کا ناٹک کیا۔ پھر سات دفعہ مٹی سے اپنے ہاتھ دھوئے۔ ام سلمہ نے ماں کے زخم کودھونے اور اس پر پرانا دیسی مرہم لگانے کی رسم ادا کر دی۔

    وقت گذرتا گیا مگر جہاں تک عبدالعزیز کے گنجے پن کا سوال تھا کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ اس کی کھوپڑی بدستور چمکتی ہوئی کھوپڑی تھی۔ ’’پتا نہیں شنکر ایر کے سر پر کچھ بال نکلے یا نہیں؟‘‘ عزیز سوچ رہا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ تعویذ بےاثر ہوں۔ خان عورتوں کواب بھی کاٹ رہا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ نئے نکلنے والے بالوں کو جن نوچ لیتے ہوں؟ مگر انہیں انسان کے بالوں کی کیا ضرورت ہوگی؟ ان جنوں کو دور رکھنے کے لیے بھی تعویذ ہوں گے۔ تھنگل کے دیے ہوئے تعویذوں سے زیادہ طاقتور تعویذ بھی ہوں گے۔ تھنگل کے تعویذوں کے بےاثر بنانے سے کن لوگوں کو دلچسپی ہوگی؟ دلچسپی تو تمام ان لوگوں کو ہو سکتی ہے جن کا تعلق علاج معالجے سے اور دوائیں بنانے سے ہے۔ کیا بازار میں بہت سے دوسرے تعویذ بھی آ گئے ہیں؟ یہ اور ایسے بہت سے خیالات تھے جو عبدالعزیز کے ذہن میں گھوم رہے تھے۔ یہ سارا مسئلہ بہرحال ایک انتہائی الجھا ہوا گورکھ دھندا تھا اور اس کی سمجھ سے بالاتر۔ لیکن پھر وہ اس بارے میں مشورہ کس سے لے؟

    ام سلمہ اور عبدالعزیز نے صورت حال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعدیہ سوچنا شروع کیا کہ آیاانہیں اس تعویذکا استعمال جاری رکھنا چاہیے یا ترک کر دینا چاہیے۔ بہت غوروخوض کے بعد آخر فیصلہ کر لیا گیا۔ عبدالعزیز نے قینچی سے کاٹ کر خان کے گلے کا تعویذ الگ کر دیا۔ اسی قینچی سے ام سلمہ نے اپنے شوہر کی کمرمیں بندھے ہوئے تعویذ کو بھی کاٹ دیا۔ کٹے ہوئے تعویذ کے دھاگوں کو گھر کے پچھلے آنگن میں لے جاکر مٹی کے تیل میں ڈبویا گیا اور آگ لگا دی گئی۔ تعویذ کے جلانے سے کوئی خاص بات بھی نہیں ہوئی، نہ کوئی دھماکہ نہ کچھ اور۔ جلتے ہوئے دھاگے ذرادیرمیں راکھ ہو گئے۔ عبدالعزیز نے راکھ جمع کرکے آم کے درخت کے نیچے دفن کر دیا۔

    یہ سب کرنے کے بعد انہیں ایسا لگا جیسے ان کے سروں سے کوئی بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔ مگر ذرا اتفاق دیکھیے۔ اسی وقت شنکر ایر کا خط ملا اور ساتھ ہی دو سو روپے کا منی آرڈر۔ خط میں ایک بڑی اہم خبر دی گئی تھی۔ شنکر ایر بےحد خوش تھا۔ اس نے لکھا تھا،

    ’’تعویذ کا بہت بہت شکریہ۔ میں نے جس دن تعویذ کو اپنی کمر میں باندھا تھا اسی دن ایک روپے کا ایک لاٹری کا ٹکٹ بھی خریدا تھا۔ اس ٹکٹ پر ایک ہزار روپے کا انعام نکلا۔ یہ تعویذ بعد کو سرسوتی کی کمر میں باندھا گیا۔ نتیجہ جانتے ہو کیا نکلا؟ بغیر کسی تکلیف کے بچے کی پیدائش اور بچہ بھی لڑکا۔ یہ سب کچھ تم جانو اسی تعویذکی وجہ سے ہوا ہے۔ میں جو روپے تمہیں بھیج رہا ہوں اس میں جتنے تعویذ آ سکیں مہربانی کرکے مجھے فوراً سے پیشتر بھجوا دو۔ دو تعویذ میرے والدین چاہتے ہیں۔ مجھے بھی اور تعویذ چاہئیں۔ ہمیں بچے کے لیے بھی ایک تعویذ کی ضرورت ہے۔ اگر یہ روپے کافی نہ ہوں گے تو میں اور روپے بھیج دوں گا۔‘‘

    خط میں گنجے سر پر بال اگنے کے بارے میں کچھ نہیں لکھا تھا۔

    مأخذ:

    منتخب کہانیاں (Pg. 102)

    • مصنف: ویکوم محمد بشیر
      • ناشر: آج کی کتابیں، کراچی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے